09/09/2025
خدمت کے قافلے
زاویہ
راشد عزیز ہاشمی
روزنامہ نیا محاذ بہاولپور
خدمت کے قافلے
حالیہ سیلاب نے پاکستان کی تاریخ میں ایک اور المناک باب کا اضافہ کیا۔ کھیت کھلیان، بستیاں اور خوشیوں سے لبریز گھر لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ کسان کے ہاتھ سے بیج چھن گیا، مزدور کے کندھوں سے بوجھ اتر گیا مگر روٹی کی فکر کا بوجھ بڑھ گیا۔ یہ آفت جہاں آنکھوں کو آنسوؤں سے تر کر گئی وہیں انسانیت کی عظیم مثالیں بھی چھوڑ گئی ہیں۔ انہی مثالوں میں ایک روشن نام الخدمت فاؤنڈیشن ہے جس نے اپنی عملی کاوشوں سے یہ ثابت کیا کہ آفات کے اندھیروں میں بھی خدمت کے چراغ جلائے جا سکتے ہیں۔بہاول پور کے میدانوں میں، جہاں پانی کے ریلے بستیوں کو نگل گئے، وہاں الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار ہر دکھ سہتے انسان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ ضلعی سرپرست الخدمت بہاولپور نصراللہ خان ناصر اور صدر اقبال بیبرس کی قیادت میں یہ قافلہ نہ تھکا، نہ رکا، کبھی کشتیوں کے ذریعے کھانے کے پیکٹ متاثرہ گھروں تک پہنچائے گئے، کبھی پانی اور ادویات بانٹتے ہوئے چہروں پر حوصلہ دیا گیا۔ یہ وہ خدمت ہے جسے محض لفظوں میں سمیٹنا مشکل ہے۔
اسی طرح بہاول نگر میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ضلعی سرپرست اور امیر جماعت اسلامی ارسلان خان خاکوانی کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ وہ امریکا میں آئی ٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے تاکہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی قوم کے لیے وقف کر سکیں۔ حالیہ سیلاب میں انہوں نے دن رات متاثرین کے درمیان رہ کر نہ صرف ریلیف فراہم کیا بلکہ لوگوں کے دلوں کو یہ یقین بھی دلایا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ کیچڑ، تھکن اور طوفانی پانی کے باوجود ان کا جذبہ متاثرین کے لیے ڈھارس بن گیا یہ حقیقت بھی تلخ ہے کہ قدرتی آفات کا سامنا کرتے وقت ہمارے ریاستی ادارے اکثر سست روی کا شکار نظر آتے ہیں، مگر یہی وہ موقع ہے جہاں فلاحی تنظیمیں عوام کے دکھوں کا مرہم بنتی ہیں۔ الخدمت نے یہ ثابت کیا کہ اگر نیت خالص ہو اور ارادہ مضبوط، تو محدود وسائل بھی ہزاروں دلوں کو سہارا دے سکتے ہیں۔سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اصل چیلنج متاثرین کی بحالی ہے۔ چھتوں کے بغیر بچے، کھیتوں کے بغیر کسان اور روزگار کے بغیر مزدور ہم سب سے سوال کر رہے ہیں۔ کیا ہمارا فرض صرف چند دن کا راشن اور امدادی پیکٹ دینا ہے یا ہمیں ان کی زندگیوں کو ازسرنو سنوارنے کے لیے قدم بڑھانا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم سب کو اپنی اجتماعی بصیرت اور عملی کردار سے دینا ہوگا۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ نصراللہ خان ناصر, اقبال بیبرس اور ارسلان خان خاکوانی جیسے لوگ کہاں سے یہ توانائی لاتے ہیں کہ مسلسل کئی دنوں تک پانی میں اتر کر، نیند اور آرام کو بھلا کر انسانیت کی خدمت کرتے رہتے ہیں؟ اس کی بنیاد صرف ایک جذبہ ہے: اللہ کی رضا اور اپنے ہم وطنوں کے دکھ بانٹنے کی تڑپ۔ یہی جذبہ اگر ہر فرد کے دل میں جگہ پا لے تو کوئی سانحہ ہمارے حوصلے توڑ نہیں سکتا۔ہمیں آج یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم صرف تماشائی نہیں رہیں گے۔ ہم اپنی حیثیت کے مطابق ان قافلوں کا حصہ بنیں گے، کبھی مالی مدد دے کر، کبھی اپنے وقت کو وقف کر کے، اور کبھی محض اپنے قلم سے ایسے کرداروں کی حوصلہ افزائی کر کے۔ کیونکہ یہ کارواں جتنا وسیع ہوگا، اتنے ہی زیادہ زخم مندمل ہوں گے۔سیلاب کے ریلے وقتی ہیں، مگر خدمت کے یہ کارواں صدیوں تک انسانیت کو سہارا دیتے رہیں گے۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے ایک بار پھر ہمیں یاد دلایا ہے کہ اندھیروں میں روشنی جلانے والے ہاتھ ہی اصل سرمایہ ہیں۔