29/05/2025
میں وہ آئینہ ہوں، جس میں اب چہرہ نہیں ہوں
ظرفِ خویش میں باقی کوئی سایہ نہیں ہوں
اک تسلسل تھا، جو اپنی ہی نفی میں گم ہوا
میں وہ لمحہ ہوں، جو خود میں بھی پورا نہیں ہوں
میری پہچان مرے زخموں سے آگے کب گئی؟
میں بدن ہوں، میں صدا ہوں — مگر زندہ نہیں ہوں
میں نے خود اپنے وجودی خدوخال مٹا دیے
اب جو آئینے میں ہوں، وہ میں تو نہیں ہوں
تجھ میں ڈھونڈا، خود میں پایا، اور پھر کھو دیا
اب کسی خاک میں، کسی جا میں، باقی نہیں ہوں
کب تلک خواب سجاؤں کہ بکھر جائیں پھر؟
میں وہ شاعر ہوں، جو الفاظ کا حوالہ نہیں ہوں
سعود خان.