Mighty Balochistan

Mighty Balochistan The page is about how Might Balochistan is and how think are done here.

This traditional mud house in Khudabadan, Panjgur, Balochistan, reflects the timeless essence of Baloch living. With its...
29/06/2025

This traditional mud house in Khudabadan, Panjgur, Balochistan, reflects the timeless essence of Baloch living. With its graceful arches and cool earthen walls, it was built to endure the harsh desert climate while offering comfort and communal space. Surrounded by date palms and history, this home carries the memory of family gatherings, tribal values, and the simplicity that defines Baloch life.

26/06/2025

Halal wine 🍷

08/06/2025

Eid Mubarak ❤️

صبح بخیر، طاقتور رسکون مال نوشکی کے دامن سے — جہاں بلوچستان اپنی خاموشی اور ستاروں کی روشنی میں اپنے راز سرگوشی کرتا ہے۔...
21/05/2025

صبح بخیر، طاقتور رسکون مال نوشکی کے دامن سے —
جہاں بلوچستان اپنی خاموشی اور ستاروں کی روشنی میں اپنے راز سرگوشی کرتا ہے۔

گزشتہ رات ہم نے لاکھوں ستاروں کی چادر تلے نیند کی۔ نہ کوئی دیواریں تھیں، نہ چھت۔ صرف ہم تھے، زمین تھی، اور اوپر وہ بے کنار آسمان، جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی فائیو اسٹار ہوٹل نہیں کر سکتا — کیونکہ یہ جگہ قدرت نے خود تراشی ہے۔ نہ کنکریٹ، نہ چھتیں… بس کھلا آسمان اور صحرا کی ہوا کا میٹھا نغمہ۔

یہ کھلا میدان ہماری رات کی آرام گاہ تھا۔ قدرت ہماری میزبان تھی، اور خاموشی ہماری لوری۔ جیسے ہی ٹھنڈی صحرائی ہوا انگور کے باغات اور ننھے درختوں سے سرسراتی گزری، ہم نے سکون سے لیٹ کر دیکھا کہ کیسے شام آہستہ آہستہ رات کے گہرے مخملی رنگ میں ڈھل گئی — وہ رات جس میں ستارے ایسے چمک رہے تھے جیسے کوئی پرانی داستان سنا رہے ہوں۔ نہ گاڑیوں کا شور، نہ چمکتے ہوئے اسکرینز۔ بس وسعت — کُھلا، خالص، اور خوبصورت بلوچستان۔

جب صبح کی پہلی روشنی نے افق پر جھانکا، تو میں شِـنز خانہ کی طرف گیا — ایک سادہ مگر شاندار ڈھانچہ جو صحرا کی گرمی کو مات دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ایک روایتی گرمیوں کا آسرا، جو نسلوں کی محبت اور دانشمندی سے تیار کیا گیا۔ لکڑیوں اور سرکنڈوں سے بنی دیواریں، قدرتی ٹھنڈک اور آرام کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔

یہ صرف ایک رات کا قیام نہیں تھا — یہ ایک یاد تھی جو روح پر نقش ہو گئی۔ ایک یاد دہانی کہ بعض اوقات ہمیں صرف ایک مٹی کا ٹکڑا، ستاروں بھرا آسمان، اور بلوچستان کی گرم و خاموش فضا ہی درکار ہوتی ہے۔

20/05/2025
“واپس اپنے دیس، جہاں کانٹے بھی حسین لگتے ہیں”ایران کا یہ آخری دن تھا۔ زاہدان سے تافتان کی طرف روانگی کا سفر — نہ جانے کی...
20/05/2025

“واپس اپنے دیس، جہاں کانٹے بھی حسین لگتے ہیں”

ایران کا یہ آخری دن تھا۔ زاہدان سے تافتان کی طرف روانگی کا سفر — نہ جانے کیوں، دل تھوڑا بھاری تھا۔ شاید اس لیے کہ ایک اور سرزمین کی مہمان نوازی پیچھے چھوڑ کر جا رہے تھے، یا شاید اس لیے کہ واپسی ہمیشہ جذباتی لمحہ ہوتی ہے۔

لیکن جیسے ہی بارڈر پار کیا، ہوا کی خشکی، مٹی کی خوشبو، اور دور دور تک پھیلا ویران حسن دل کو جیسے سکون دے گیا۔ ہاں، یہ بلوچستان ہے — خوبصورت اور خشک، مگر اپنا۔ جیسا کہ ہمارے بزرگ کہتے ہیں: “وا ءِ وطن حسکین دار” — “وطن کا کانٹا بھی حسین لگتا ہے۔”

یہ محض ایک واپسی نہیں تھی، بلکہ جذبات کا ایک سفر تھا۔ ہر قدم کے ساتھ یادیں ساتھ چل رہی تھیں — ایران کی گلیاں، لوگوں کا پیار، زبان کی مٹھاس، اور وہ مہمان نوازی جو صرف ہمسایوں میں ہوتی ہے۔

دوپہر کو دالبندین میں رکاوٹ ہوئی، جہاں ایک بار پھر بلوچستان کا مخصوص ذائقہ زبان سے ٹکرایا۔ تیز مصالحوں والا سادہ سا کھانا، وہ بھی زمین پر بیٹھ کر — نہ کوئی فینسی ریسٹورنٹ، نہ کوئی مینو کارڈ، بس خالص دل سے بنی پلیٹ۔

اور پھر… سلیمانی چائے — ہاں، وہی جسے ہم بلوچستان کا پیناڈول کہتے ہیں۔ ہر درد کی دوا، ہر تھکن کا علاج، ہر لمحے کا ساتھی۔ پہلا گھونٹ لیا تو لگا جیسے روح کو بھی توانائی مل گئی ہو۔

یہ سفر صرف سرحد پار کرنے کا نہیں تھا، بلکہ دل سے دل تک، زمین سے جڑنے کا، اور یادوں کو سینے سے لگا کر پھر سے اپنوں میں واپس آنے کا تھا۔

بلوچستان، تُو واقعی خاص ہے۔
اور ہاں… وا ءِ وطن حسکین دار۔

19/05/2025
سحر سے شام تک زعفران کی سڑک — مشہد سے زاہدان تک ایک داستانپہلی کرن — سنہری شہر کی بیداریوہ گھڑی ابھی باقی ہے جب مشہد کی ...
19/05/2025

سحر سے شام تک زعفران کی سڑک — مشہد سے زاہدان تک ایک داستان

پہلی کرن — سنہری شہر کی بیداری

وہ گھڑی ابھی باقی ہے جب مشہد کی اسٹریٹ لائٹس آسمان کے رخسار پر حیا سے سرخ ہیں۔ روضۂ امام رضاؑ سبز و زر میں لپٹا ہوا، نیم خوابیدہ زائرین کے لیے مینارِ نور بنا کھڑا ہے۔ میں نے گاڑی کا سلف گھمایا؛ انجن نے کھنکار کر گلا صاف کیا۔ برابر بیٹھا میرا بلوچی رفیق دستار کس کر مسکرایا:
“دیکھیں آج صحرا ہمیں کیا کہانیاں سناتا ہے!”



بابِ اوّل — سرگوشی کرتے بنفشی کھیت (مشہد → سبزوار، 230 کلومیٹر)

ہائی وے‑44 شہر سے یوں پھسلتی ہے جیسے کوئی ربن کھل جائے۔ دھندلکے میں سب سے پہلے سفر کی خوشبو ملتی ہے: زعفران کے بنفشی پھولوں کی شیریں، ہلکی مرچ بھری مہک، جو مخمل کی چادر بن کر زمین پر بچھی ہے۔ ریڈیو IRIB جلد ہی اُستاد شجریان کے پرانے کیسٹس کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے؛ فارسی تانیں ٹائروں کی سرسراہٹ میں بُن جاتی ہیں۔ سبزوار سے ذرا پہلے سڑک کنارے تنور پر رکتے ہیں۔ چند ریال دے کر نانِ سنگک لیتے ہیں، جو دریا کے پتھروں پر تپ کر اب بھی چٹخ رہا ہے، اور الائچی والی دھواں دھواں چائے۔ بازار کے بوڑھے نانبائی نے تل سے آدھا چاند روٹی پر ثبت کیا — یہ اس کے ہاتھ کی مہر ہے، گویا اگلی راہ کی خاموش ویزا۔



بابِ دوم — پہاڑ اپنی بازن پوش چٹانیں کھولتے ہیں (سبزوار → بیرجند، 420 کلومیٹر)

اسفالٹ چڑھ کر آتشی کنکری چوٹیاں بناتا ہے؛ ہائی وے‑95 کسی بھولی بسری سمندر کی ریڑھ کی ہڈی لگتی ہے۔ آتش فشانی چٹانوں پر کہیں کہیں ساسانی مینار ٹوٹے پھوٹے نظر آتے ہیں—وہ دستوں کو گننے والے بھوت جو اب کبھی نہیں گزرتے۔ گرمی شیشے کی لہروں کی مانند تھرتھراتی ہے۔ ہماری کرولا اس تپتے کڑاہے میں ایک چاندی مچھلی سی ہے۔ رفیق ایک بلوچی شعر پڑھتا ہے:

“کوہ اپنا گریباں چاک کرتا ہے کہ آوارہ سانس لے سکے؛
رستہ کڑا سہی — مگر افق شہد انڈیل دیتا ہے۔”

دوپہر ہوتے ہی بیرجند کا مٹیالا قلعہ سر پر منڈلاتا ہے۔ اس کے بازاروں میں سرخ زرشک انار کے دانوں کی طرح چمکتے ہیں۔ ہم ایک مُٹھی چباتے ہیں — کھٹی بجلی ہر ذائقے کو جگا دیتی ہے — پیٹرول بھرتے، پانی کی بوتلیں بھرتے، اور پہیوں کی نٹ کس کر تلوار کا میان سیدھا کرتے ہیں۔



بابِ سوم — نمک زار جہاں خاموشی پیتل کی گھنٹی کی طرح بجتی ہے (بیرجند → نہبندان → میلَک سرحد، 250 کلومیٹر)

بیرجند کے جنوب میں زمین ایک سفیدائی ہوتی چپ میں پھیلتی ہے۔ نمک کے تختے چمکتے ہیں؛ سورج کی کرنیں پلٹ کر مارتی ہیں حتیٰ کہ آسمان و زمین ایک اندھی سونے کی سکّہ بن جاتے ہیں۔ نہبندان آخری واضح نکتہ ہے: ایک گیراج، ایک کباب اسٹال، ایک سپاہی جو ہمارے سفری نوٹ پر مہر لگا کر تنبیہہ کرتا ہے: “آہستہ چلنا — اسمگلر دوڑتے ہیں، مسافر پہنچتے ہیں۔” ساٹھ کلومیٹر بعد ایک اُجلا تختہ لکھتا ہے میلَک سرحد آگے۔ دل ڈیش بورڈ پر یوں دھڑکتا ہے جیسے کوئی در پر دستک دے اور اندر بلائے جانے کا انتظار ہو۔



بابِ چہارم — ربڑ کی مہر کی دھپ، رخصت کی نرمی

سرحد کی پست کنکریٹ عمارت میں ہر پاسپورٹ پرچشن کی پڑکھر: ٹھپ‑ٹھپ‑ٹھپ۔ ایرانی افسر ہمارے کاغذ لوٹاتے ہوئے اردو وہ مہیا کرتا ہے جو اسے ان ہی لمحوں کے لیے سکھائی گئی: “سفر بخیر — پھر آئیے گا۔” اس کی مسکراہٹ بُوم رینگ سی ہے: اجازتِ رخصت بھی اور دعوتِ بازگشت بھی۔



بابِ پنجم — ریت رنگی شام، اور ہیڈ لائٹس کی ہجرتی جگنو (میلَک → زاہدان، 110 کلومیٹر)

ہائی وے‑84 رپٹتی ہے ریتیلے تموجوں کے بیچ؛ سورج ٹیلوں کے پیچھے تانبے کا سکہ بن کر ڈوبتا ہے۔ پولیس کی پک اپ چھوٹی قافلے کی رہنمائی کرتی ہے—نیلی بتیوں سے گہری شام میں سرنگیں تراشتی ہوئی۔ تیس کلومیٹر باقی ہوں تو پہلا دو لسانی بورڈ نمودار ہوتا ہے: خوش آمدید / Welcome — زاہدان. میرا دوست ایک لوری گنگناتا ہے جو سرحدوں سے پرانی ہے۔ شہر کی بتیاں روشن ہوتی ہیں؛ بہت زیادہ تیز نہیں، مگر گرم — جیسے ہر بلب کو یاد ہو کہ وہ کبھی خیمہ آتش تھا۔



اختتامی نوٹ — ہر اختتام ایک قبضہ ہے

زاہدان اسٹیشن کے قریب ایک چائے خانے میں ربانی قہوہ کی بھاپ چھت کی چھڑیوں کو چوم رہی ہے۔ دیوار پر مُدھم نیلگوں میں رقم ہے: “راہیں نام بدلتی ہیں، قدم اپنی چاپ رکھتے ہیں۔” ہم چسکی لیتے ہیں، مسکراتے ہیں، اور ذہن میں اگلا نقشہ پھڑپھڑاتا ہے — شاید چابہار کی نیلگوں کھاڑی، شاید پاکستان کے ٹھنڈے کوئٹہ کے پہاڑ۔ باہر انجن ٹھنڈا ہو کر گھڑی کی طرح ٹک ٹک کرتا ہے، مگر کہانی اندر چل رہی ہے، اگلے کلومیٹر کی بھوکی۔

کیونکہ سڑک، قصے کی طرح، سچ مچ ختم نہیں ہوتی؛ وہ بس اپنا آخری صفحہ موڑ کر رکھ دیتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ کوئی پھر سے سرگوشی کرے بسم اللہ۔

🕌 مشہد — ایک سیاح کی نظر سے(نہ زیارت، نہ روحانیت — بس تاریخ، ثقافت، ذائقے اور تجربے کا سفر)⸻☀️ شروعات — مشہد کی طرف روان...
17/05/2025

🕌 مشہد — ایک سیاح کی نظر سے

(نہ زیارت، نہ روحانیت — بس تاریخ، ثقافت، ذائقے اور تجربے کا سفر)



☀️ شروعات — مشہد کی طرف روانگی

ایران کے شمالی ساحل، بابلسر کے نیلے پانیوں سے نکلتے ہوئے ہمیں صرف ایک شہر کی طرف جانا تھا — مشہد۔ لیکن ہماری نیت صرف ایک نہیں تھی؛ ہم زائر نہیں، سیاح تھے۔ نہ دعائیں مانگنی تھیں، نہ نذر و نیاز۔ ہمیں صرف گلیاں دیکھنی تھیں، بازار گھومنے تھے، مقامی ذائقے چکھنے تھے، اور اُس شہر کو ایک “خالص مسافر” کی آنکھ سے پرکھنا تھا۔



🚗 سڑک پر سفر

گاڑی میں ایرانی پاپ چل رہی تھی، شیشہ نیچے، ہوا میں نمکین نمی اور پہاڑی گھاس کی خوشبو۔ سفر طویل تھا، مگر سحر انگیز۔ گلستان کے جنگل، بجنورد کی پہاڑی لہریں، اور ترکمن صحرا کی زرد وسعتیں — ہر موڑ پر ایران کا ایک نیا رنگ۔ مشہد قریب آتا گیا، اور ہم حیرانی میں ڈوبتے گئے۔



🌇 مشہد میں داخلہ — پہلا تاثر

شام کا وقت تھا جب مشہد کے پہلے بلند مینار نظر آئے۔ گاڑی کی رفتار خود بخود سست ہوگئی۔ سڑکیں چوڑی، فٹ پاتھ پر لوگ چہل قدمی میں مصروف، اور ہر طرف ایک غیر محسوس سا نظم۔ نہایت صاف ستھرا، حیران کن حد تک منظم — ایک مختلف ایران۔

ہم نے ہوٹل چیک ان کیا — ایک درمیانے درجے کا اپارٹمنٹ ہاؤٹل امام رضا بولیوارڈ پر۔ کھڑکی سے شہر کا منظر صاف نظر آ رہا تھا، اور دور سنہری گنبد کی جھلک، جو ہمارے اس سیاحتی سفر کا پس منظر تھا — مگر مرکز نہیں۔



🛍️ بازارِ رضا — خوشبو، رنگ، اور شور

اگلی صبح ہم نکلے بازارِ رضا کی طرف۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سیاحی واقعی شروع ہوتی ہے: چھوٹے چھوٹے اسٹال، زعفران کی خوشبو، ہاتھ سے بنے قالین، فیروزی پتھروں کی جھمکیاں، اور ہنستے مسکراتے دکاندار۔ ہم نے ہلکی سی مول تول کی، زعفران کا ایک ڈبہ لیا، اور بارہ سو تومان میں ایک ہاتھ سے بنی انگوٹھی — بس یادگار کے لیے۔



🍛 کھانے کے رنگ — شیشلیک سے فالودہ تک

مشہد کے ذائقے عجیب طرح کے سادہ اور مکمل ہیں۔
• شیشلیک — شاندیز کی وادی میں کھائی، چھ پسلیوں والا باربی کیو، جو نمک اور دہی کے ذائقے میں رچا بسا تھا۔
• شولے مشہدی — ایک گاڑھا، گھلا ہوا کھچڑی جیسا پکوان، جو صرف دوپہر میں ملتا ہے۔
• زعفرانی آئس کریم — بازارِ رضا کے کنارے بابا سبز کے اسٹال سے، جس کی پہلی چمچ نے زبان پر خنکی اور خوشبو کا طوفان برپا کیا۔



🏞️ تفریح — کوہ سنگی اور شہر کی شام

ہم نے کوہ سنگی پارک کی کیبل کار لی، جہاں سے پورے مشہد کا نظارہ ایک بڑی سی تصویر کی مانند سامنے تھا۔ نیچے روشنیوں کا جال، اور دور گنبد کے اردگرد کی روشنی میں چمکتا ہوا صحن۔ ہم صرف دیکھتے رہے، بغیر کسی عقیدت کے — بس ایک تعریف، ایک خاموش واہ!



🏛️ تاریخ — طوس میں فردوسی کا دیوان

اگلے دن ہم طوس نکلے — فردوسی کا مقبرہ، ایک سنگ مرمر کی شاندار عمارت، باغات کے بیچوں بیچ۔ وہاں نہ خاموشی تھی نہ ہجوم — بس ہوا، درختوں کی سرسراہٹ، اور فارسی شاعری کی بازگشت۔ ہمیں لگا جیسے ہم ایران کے کسی خفیہ خزانے تک پہنچ چکے ہیں، جہاں لفظوں کے ہیرو آج بھی گھوڑوں پر سوار ہیں۔



☕ جدید مشہد — کیفے، کتابیں، نوجوان

مشہد صرف ماضی میں نہیں جیتا۔ دانشگاہ ایوینیو پر کیفے، آرٹ گیلریاں، اور کتابوں کی دکانیں تھیں۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے فِلٹر کافی پی، دیواروں پر شاعری پڑھی، اور دیکھا کہ یہ شہر صرف عقیدے کا مرکز نہیں — بلکہ زندگی کا مرکز بھی ہے۔



✨ اختتام — مشہد، جیسا ہم نے جانا

مشہد میں داخل ہوتے وقت ہم سوچ رہے تھے کہ ایک “مذہبی شہر” میں سیاحی کیسی ہوگی؟
مگر جب ہم نکلے، تو ہمارے پاس ایک نئی حقیقت تھی:

“یہ شہر روحانیت کا دروازہ ہے، لیکن سیاحت کا کمرہ بھی ہے۔
یہاں دُعائیں بھی ہیں، اور داستانیں بھی۔
اگر آپ زائر نہیں، تب بھی مشہد آپ کو اپنے رنگوں، ذائقوں، اور مسکراہٹوں سے خوش آمدید کہے گا۔”

Address

Panjgur
Balochistan

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mighty Balochistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share