18/06/2024
مجھے بڑی حیرانگی ہوتی ہے ملک کے بڑے (مہنگے) سکولز پر جہاں تین سال کے بچے کے داخلے کے لیے پہلے اسے ایڈمیشن ٹیسٹ کی تیاری کرائی جاتی ہے اور بچہ ٹیسٹ پاس کر لے تو پھر ماں باپ کا انٹرویو لیا جاتا ہے.
اب بچے کی ذہانت کا امتحان تو اپنی جگہ لیکن ماں کا انٹرویو تو عقل پر ماتم کرنے والی بات ہے.
مطلب بچے کو اس بات پر بھی داخلہ نہیں دیا جاسکتا کہ اس کے ماں باپ ٹھیک نہیں یا اس قابل نہیں کہ اُن کے بچے کو سکول میں داخلہ دیا جائے.
ہوسکتا ہے کہ وہ سکول اتنے اعلیٰ اور معیاری ہوں کے شاید بچے Genius بنا دیتے ہوں یا پھر Intellectually اتنا ڈیولپ کرتے ہوں کہ Stanford, Harvard ،MIT, Oxford یا پھر کولمبیا یونیورسٹی جیسے دنیا کے بہترین اداروں میں جا کر وہ بچہ کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے.
مگر آج تک میں نے ایسا دیکھا نہیں اور نہ ہی ان نام نہاد بڑے سکولوں نے کوئی ایسے ذہن پیدا کیے ہیں.
ہاں ان سکولوں نے بڑے بڑے سیاستدان ضرور پیدا کئے ہیں جو کسی بڑے سیاستدان کی اولاد ہوتے ہیں یا پھر کسی انتہائی امیر ماں باپ کی اولاد.
اگر سیاست کے علاوہ کوئی اور میدان دیکھا جائے تو پھر شاید یہ بچے آپکو بیوروکریسی میں یا کسی بڑے سرکاری عہدے پر نظر آجائیں لیکن اس کے علاوہ مجھے ان سکولز کا کوئی بڑا کارنامہ نظر نہیں آتا.
یہ سکول تو دراصل یورپ، امریکہ اور انگلینڈ کے لیے ورکرز پیدا کرتے ہیں.
یہ تو آئن سٹائن، نیوٹن، سٹیفن ہاکنگز، ٹِم سپیکٹر،مادام میری کیوری، نوم چومسکی، جیسے ناموں کی خوشقسمتی یے کہ وہ پاکستان میں ہیدا نہیں ہوئے ورنہ یہاں کے ان "بڑے سکولز" نے تو ان کو داخلہ ہی نہیں دینا تھا.
اگر بات کریں پاکستان کے سائنس میں بڑے ناموں کی جیسےڈاکٹر عبدلقدیر خاں ، انصر پرویز، ڈاکٹر عبدالسلام، عبداللہ صادق، سلیم ازماں صدیقی، انور نسیم، اصغر قدیر، عرفان صدیقی، اقبال چودھری، نرگس ماوال والا جیسے لوگوں کی تو ان میں سے اکثر ان نام نہاد بڑے سکولز میں سے نہیں ہیں اور اگر کوئی بڑے سکولز سے ہے بھی تو مشنری سکولز میں سے ہے جو ان نام نہاد بڑے سکولز کی طرح پڑھائی کے نام پر عجیب و غریب تماشا نہیں کرتے
توصیف اکرم نیازی