03/06/2025
"آزاد خیالی کا انجام یا غیرت کا جنون؟ لبرل کا فریب اور دوغلہ پن"
ایک چترالی لڑکی، جسے کسی قریبی رشتے دار نے نہیں بلکہ فیصل آباد کے ایک پنجابی نوجوان نے قتل کیا۔ تفصیل یہ ہے کہ جب گھر میں صرف پھپھو موجود تھیں، یہ صاحب اس لڑکی کے ساتھ "مہمان" بن کر بیٹھے تھے۔ اور پھپھو کے مطابق تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ مہذب معاشروں میں اسے ناپسندیدہ ہی کہا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ قتل کس بنیاد پر ہوا؟
کیا یہ کوئی غیرت کا معاملہ تھا؟
یا پھر وہی پرانا "آزاد محبت" کا زہریلا پھل تھا جو بالآخر خون میں ڈوبا ہوا ملا؟
مگر اس واقعے کے ساتھ ہی ہمارے ملک کی خود ساختہ "روشن خیال" ٹولہ حسبِ عادت بیدار ہو گیا۔ لبرلچوں کی فوج فوراً حملہ آور ہوئی:
"یہ غیرت کے نام پر قتل ہے!"
"اسلامی اقدار خواتین کو مرواتی ہیں!"
"مولوی ذمہ دار ہے!"
لیکن حقیقت ایک بار پھر ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مارتی ہے۔
یہ قتل کسی مذہبی جنون، کسی غیرت یا کسی مولوی کے فتوے کا نتیجہ نہیں، بلکہ جدید زمانے کی "آزادی" کی بدبو دار پیداوار ہے۔
یہ وہی عشق ہے جس کو حلال و حرام کی تمیز کے بغیر سوشل میڈیا پر پروان چڑھایا جاتا ہے۔
یہ وہی “محبت” ہے جسے “میرا جسم، میری مرضی” کے نعرے میں لپیٹ کر نوجوان نسل کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔
افسوس تو اس پر ہے کہ جب کوئی عشقِ ممنوعہ خون میں نہا کر سامنے آتا ہے، تو بجائے اس کے کہ اس رویے پر سوال اٹھایا جائے، ہمارے لبڑلچے سیدھا مذہب پر لعنت ملامت شروع کر دیتے ہیں۔
ان کی نظریں کبھی عاشق کے کردار پر نہیں جاتیں، کبھی مقتولہ کے طرزِ زندگی پر سوال نہیں اٹھاتے۔
بس ایک ہی ہدف ہوتا ہے
اسلام۔
علماء۔
غیرت کے روایتی تصورات۔
سچ کہیے، جب ہر بات کا الزام مذہب پر لگایا جائے، تو کیا یہ انصاف ہوتا ہے؟
یا یہ وہی بیمار ذہنیت ہے جو ہر بار مذہب دشمنی کی بیماری میں تھوک نکالتی ہے اور پھر اسی تھوک کو شرم کے بغیر چاٹنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی۔
یہ واقعہ مذہب کی ناکامی نہیں ۔ لبرل اخلاقیات کی موت ہے۔
یہ کسی مولوی کا جرم نہیں ۔ عشقِ ممنوعہ کا خونی انجام ہے۔
یہ وہ سبق ہے جو ہر ماں باپ کو اپنی بیٹیوں کو سکھانا چاہیے
آزادی جب بے لگام ہو جائے، تو اس کی قیمت صرف عزت نہیں زندگی بھی ہوتی ہے۔