20/10/2025
ضلع بٹگرام کے معروف ماہر تعلیم مفتی کفایت الله صاحب جو کہ سابقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ضلع بٹگرام محمد مصطفیٰ صاحب مرحوم کے فرزند ہے نے کل رات عرفان مغلوب ملکال کے ساتھ ایک نجی محفل میں گفتگو کرتے ہوئے گورنمنٹ ہائی سکول پشوڑہ ضلع بٹگرام میں پیش آنے والے واقع کی مناسبت سے کی۔
بچوں میں نقل کا بڑھتا ہوا رجحان
👇
آج کے تعلیمی ماحول میں نقل کا رجحان نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ رجحان صرف ایک تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ بن چکا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار صرف طلباء نہیں بلکہ بورڈز انتظامیہ، والدین، اساتذہ اور خود طلباء، چاروں ہی اس بگاڑ میں شریک ہیں۔
اگر ہم سب سے پہلے امتحانی نظام پر نگاہ ڈالیں تو بورڈ انتظامیہ اس بگاڑ کی جڑ میں نظر آتی ہے۔ امتحانات کے شفاف انعقاد کی ذمہ داری انہی کے کندھوں پر ہے مگر بدقسمتی سے اکثر امتحانی مراکز میں انتظامات ناقص ہوتے ہیں، نگران عملے کی تربیت ناکافی ہوتی ہے اور نگرانی کے مؤثر طریقے مفقود۔ اس پر مستزاد یہ کہ بورڈ کی غیر منصفانہ پالیسیوں نے بدعنوانی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ جن اساتذہ کو امتحانی ڈیوٹیاں دی جاتی ہیں انہیں ان کی محنت کا معاوضہ کئی کئی ماہ بعد ملتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی منصفانہ نظام میں ایسا نہیں ہوتا۔ بیرونی ڈیوٹی پر جانے والے ملازمین کو ہمیشہ پٹی کیش دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے روزمرہ اخراجات پورے کر سکیں۔ لیکن یہاں اساتذہ کو یہ سہولت نہیں ملتی، نتیجتاً وہ کئی دن اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں اور بالآخر مجبور ہو کر ایسے راستے اختیار کرتے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے درست نہیں۔ اس صورتِ حال کی اصل ذمہ داری بورڈ انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، جس نے ایسا نظام قائم کر رکھا ہے جو نچلی سطح پر بدعنوانی کو جنم دیتا ہے۔
والدین کا کردار بھی اس ضمن میں کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں حقیقی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ان کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ بچہ زیادہ نمبر لے، چاہے علم کم حاصل کرے۔ وہ نہ تو اسکول انتظامیہ سے رابطے میں رہتے ہیں، نہ ہی بچوں کے ہوم ورک اور نصابی مشقوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اس لاپرواہی کے نتیجے میں بچے محنت سے گریز کرنے لگتے ہیں اور آسان راستے تلاش کرتے ہیں جن میں سب سے آسان راستہ نقل ہے۔
اساتذہ کا کردار بھی اس بگاڑ سے پاک نہیں۔ اکثر اساتذہ اپنی تدریسی ذمہ داریاں پوری دیانت داری سے ادا نہیں کرتے۔ وہ وقت پر کلاسوں میں نہیں پہنچتے، جلدی رخصت ہو جاتے ہیں، اور سبق کی تیاری میں غیر سنجیدہ رہتے ہیں۔ نتیجتاً طلباء کو مضمون کی گہرائی سے سمجھ نہیں آتی۔ امتحان کے وقت جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ تیاری ناکافی ہے تو وہ نقل کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض اساتذہ امتحان کے دوران طلباء سے پیسے جمع کرتے ہیں تاکہ امتحانی عملے کے اخراجات پورے کیے جا سکیں، کیونکہ بورڈ کی طرف سے کوئی فوری مالی امداد نہیں ملتی۔ یہ عمل چاہے مجبوری کے تحت ہو، لیکن تعلیمی اخلاقیات کے منافی ہے۔
اور اگر خود بچوں کی بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نسل بھی اپنی تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ بہت سے طلباء نہ تو باقاعدگی سے اسکول آتے ہیں، نہ ہوم ورک کرتے ہیں۔ اکثر کلاس رومز میں موبائل فون کے ساتھ مصروف رہتے ہیں، سوشل میڈیا اور کھیل تماشے میں وقت ضائع کرتے ہیں، اور اپنی اصل ذمہ داری یعنی علم حاصل کرنے سے غافل رہتے ہیں۔ امتحان کے دن قریب آتے ہیں تو ان کی ساری توجہ کسی نہ کسی طریقے سے کامیابی حاصل کرنے پر مرکوز ہو جاتی ہے — چاہے وہ نقل ہی کیوں نہ ہو۔ یہ روش نہ صرف ان کے تعلیمی مستقبل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ان کے اخلاقی معیار کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام ایسے طلباء پیدا کر رہا ہے جو امتحان میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں، مگر علم، فہم، اور کردار سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ نمبروں کے محتاج تو بن جاتے ہیں مگر علم کے عاشق نہیں بنتے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ نقل کا یہ ناسور ختم ہو تو ہمیں اجتماعی اصلاح کی ضرورت ہے۔ بورڈ انتظامیہ کو امتحانی نظام شفاف بنانا ہوگا، والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم پر گہری نظر رکھنی ہوگی، اساتذہ کو اپنے پیشے کی عزت برقرار رکھتے ہوئے دیانت داری سے تدریسی فرائض انجام دینے ہوں گے، اور طلباء کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ جب تک یہ چاروں کردار اپنی اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا نہیں کریں گے، تب تک ہمارا تعلیمی نظام علم کے بجائے نقل کا عادی معاشرہ پیدا کرتا رہے گا اور یہ وہ نقصان ہے جس کی تلافی آنے والی نسلیں بھی نہیں کر سکیں گی۔