31/08/2024
آج کل دنیا بھر میں اور خاص کر عرب دنیا میں ایک فلم کے بڑے چرچے ہیں ۔ اس فلم کا نام Goat Life ہے جس کو عربی میں
" حیاہ الماعز" کہا جاتا ہے۔ اگر چہ یہ فلم نیٹ فلیکس پر موجود ہے لیکن یہاں سعودی عرب میں نہیں دیکھایا جا رہا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سچے واقعے کو بنیاد بنا کر انڈیا نے یہ فلم بنائی اس واقعے کا ایک دوسرا مثبت پہلو بھی تھا جو نہیں فلمایا گیا۔ میں نے فلم دیکھی نہیں ہے لیکن اس کے کچھ کلپس اور اس کے بارے میں تبصرے اور اس کی کہانی سنی ہے۔ آج میں آپ کو یہ مکمل اصلی واقعہ سناتا ہوں۔
یہ واقعہ تین سال پہلے ایک سعودی شخص نے ایک چینل پر بیٹھ کر سنایا تھا۔ فلم تو اب بنی ہے اس پر۔ ہوا یوں کہ 1991 میں سعودی عرب کے شھر خفر الباطن میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ خفرالباطن سعودی عرب کے مشرقی صوبے کا شہرہے جس کا نزدیکی انٹرنیشنل ائیرپورٹ دمام ہے۔
ہوا یوں کہ ایک ہندوستانی شخص جس کا نام نجیب تھا وہ کسی کمپنی کے ویزے پر آیا۔ اس وقت یہ شخص ہندوتھا نجیب نام بعد میں پڑ گیا تھا۔ اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں موبائل ہوتے نہیں تھے زبان سمجھ نہیں آتی تھی پہلی بار آنے والوں کو ۔ کبھی کبھار یار دوست , کفیل یا کمپنی ائیرپورٹ نہیں پہنچ پاتی تھی, یا بھول جاتی تھی وغیرہ وغیرہ۔
نجیب کی کمپنی نجیب کو لینے ائیرپورٹ نہیں آئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کمپنی کونسے شہر میں ہے, اس دوران ایک سعودی شہری نے اس سے بات چیت کی کوشش کی , ظاہری بات ہے سمجھ کسی کو بھی نہیں آئی ایک دوسرے کی بات۔
سعودی شہری نے شاید اپنا ورکر سمجھ کے اس کو اپنے ساتھ جانے کا اشارہ کیا یا جان بوجھ کر اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کی, اللہ کو علم ہو گا, نجیب اس کے ساتھ چل پڑا۔
وہ شخص نجیب کو لے اپنے جانوروں کے طبیلے لے گیا۔ عموما سعودی عرب میں بھیڑ بکریاں, اونٹ رکھنے والے لوگ دور صحرا میں آبادی سے کافی ہٹ کے خیمے لگا کر اور جانوروں کے لئے لکڑی کے لمبے طبیلے سے بنا لیتے ہیں۔ وہاں سے سڑک یا آبادی بہت دور ہوتی ہے۔ نجیب کو وہاں لے جا کر جانوروں کو چرانے پر لگا دیا۔ زبان کی بندش کی وجہ سے کچھ نہیں ہو پا رہا تھا۔
مختصرا یہ کہ نجیب وہاں پانچ سال اپنے گھر سے دور صحرا میں بغیر تنخواہ کے جانور چراتا رہا۔ معمولی سا کھانا ملتا تھا اور بس یہ سب کچھ۔
پانچ سال بعد نجیب نے موقع پایا اپنے کفیل کو کسی لوہے کے راڈ سے سرپر مارا وہاں سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا کفیل اس راڈ کے وار سے انتقال کر گیا تھا۔
ادھر نجیب سڑک تک پہنچ گیا وہاں کسی بھلے آدمی نے اسے اٹھایا شہر یا کسی قصبے لے گیا۔ وہاں پولیس کو کسی نے خبر دی اسے گرفتار کرکے لے گئے۔ عدالت میں کیس چلا۔ نجیب کو دیت کے طور پر مقتول کے بیٹے کو ایک لاکھ ستر ہزار رہال دینے کا حکم ہوا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اسے پانچ سال قید کی سزا گزارنی تھی اور سزائے موت ہونی تھی۔
بحرحال نجیب پیسے کہاں سے لاتا اس لئے پانچ سال کے لئے جیل چلا گیا۔ یہ کیس اور نجیب کا واقعہ آہستہ آہستہ مقامی لوگوں میں پھیلنے لگا۔ کافی وقت لگا نجیب کی رہائی کی اجتماعی کوشش میں ۔ مقامی سعودیوں نے پہلے جب یہ سارا واقعہ سںنا اور عدالت کا فیصلہ پڑھا تو وہ نجیب کی جیل سے رہائی کے لئے سرگرم ہو گئے اس وقت نجیب کی دیت والی رقم کافی بڑی تھی کوئی اکیلا شخص نہیں دے سکتا تھا بڑی مخنت اور کوشش کے بعد رقم جمع ہو گئی۔ اس وقت سوشل میڈیا تھا نہیں۔ لوگوں کے پاس جا جا کے مانگنا پڑتا تھا۔ بڑی رقم تھی جو دس بیس , سو ریال سے پوری کرنا مشکل تھا۔ بالاخر چند سال کی کوشش سے بالاخر رقم پوری ہو گئ۔
نجیب کے کفیل کے بیٹے کے پاس لوگ گئے اور اسے جیل لے جا کر دیت کی رقم مجرم کے سامنے پیش کرنے کی کاروائی شروع کی , سعودی عرب میں قاتل کو دیت کے لئے مقتولین کے سامنے لاکر معاملہ ختم کیا جاتا ہے۔ نجیب کے کفیل کے بیٹے کے دل میں بھی اتنے لمبے عرصے کے بعد نرمی آ گئی تھی اور نجیب کے ساتھ اپنے باپ کی زیادتی کا احساس ہوا تھا۔
اس نے کہا اگرچہ تو نے میرے والد کو قتل کیا ہے لیکن اپ کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے اس لئےمیں یہ رقم والد کے ہاتھوں اپ کے ساتھ ہوئی زیادتی کے لئے بطور جرمانہ واپس کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اپ میرے والد کو معاف کر لیں گے۔
جب نجیب جیل سے باہر آیا تو انہیں سعودی لوگوں نے کچھ اور پیسے دئیے جنہوں نے اس کی رہائی کی کوشش کی تھی جس پر نجیب نے پوچھا , کیا آپ لوگ مسلمان ہو؟
انہوں نے کہا الحمداللہ! کیوں پوچھ رہے ہو ایسے؟
نجیب نے پوچھا" کیا میرا کفیل بھی مسلمان تھا"
وہ لوگ سمجھ گئے کہ وہ کیوں یہ پوچھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہم مسلمانوں میں بھی برے اور اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں نجیب نے ان لوگوں کی مدد کرنے اور کفیل کے بیٹے کے روئے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور انڈیا واپس چلا گیا۔
تو یہ تھی مکمل کہانی جسے ایک سعودی نے تین سال پہلے سنائی تھی ۔ یوٹیوب پہ مل جائے گی عربی زبان میں۔ انڈیا نے ادھا ادھورا قصہ فلمایا ہے۔
بات یہ ہے کہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور شاید ہو رہے ہوں لیکن پورے سعودی معاشرے کو ایسا سمجھنا نہایت غلط ہو گا۔
چند سال پہلے شاید اپ لوگوں نے ایک ویڈیو دیکھی ہو گی کہ ایک سعودی شہری جیل میں قید ایک پاکستانی ڈرائیور کی تین لاکھ کی دیت کی رقم دے کر اسے آزاد کروا رہا ہے۔ اس ڈرائیور نے ایکسڈینٹ میں 3 لوگوں کو مارا تھا۔
فلم ابھی دیکھنی ہے کیونکہ اس فلم کی ایکٹینگ , میوزک اور cinametography کی بہت تعریف ہو رہی ہے۔
کاپی