02/11/2025
چکوال ریلوے کی اسی سالہ کہانی۔۔۔!!!
ابرار اختر جنجوعہ
( دوسرا حصہ )
یہ ریلوے لائن بھون تک ہی کیوں بنائی گئی اس کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مندرہ سے چکوال تک سارا علاوہ ہموار تھا اس علاقے میں دریا ندی نالے یا پہاڑی سلسلہ نہیں تھا۔ صرف جاتلی کے قریب قدرے نشیبی جگہ تھی جبکہ بھون سے آگے پہاڑی سلسلے کے علاوہ کھائیاں اور نشیبی علاقے شروع ہو جاتے تھے۔ سو سال پہلے کے حالات اور دستیاب سہولتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں سے ٹریک کی تعمیر نا صرف کٹھن بلکہ خاصا مہنگا منصوبہ ہوتا۔ لارڈ ہارڈنگ سلطنت برطانیہ کے 13ویں وائسرے تھے جنہیں شہنشاہ جارج پنجم نے اپنا نمائندہ بنا کر ہندوستان بھیجا تھا۔ وہ 1910ء سے 1916ء تک ہندوستان میں تعینات رہے۔ لارڈ ہارڈنگ کے دور میں سڑکوں کی حالت سدھاری گئی۔ ریلوے نیٹ ورک کو ترقی دی گئی۔1912ء میں ہندوستان میں 55 ہزار میل لمبی پکی سڑکیں اور ایک ہزار تیس میل طویل کچی سڑکیں موجود تھیں۔ اسی دور میں مندرہ سے بھون تک ریلوے لائن بھی بچھائی گئی۔اگر پہلی عالمی جنگ جو جولائی 1914ء میں شروع ہوئی رخنہ انداز نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ یہ ریلوے لائن بھون سے مزید آگے بڑھائی جاتی۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ ادھر جنوری 1916ء میں مندرہ تا بھون ٹریک مکمل ہوا اُدھر فروری 1916ء میں لارڈ ہارڈنگ بھی ہندوستان سے اپنی ملازمت مکمل کر کے واپس برطانیہ چلے گئے اور لارڈ چیمس فورڈان ان کے جانشین مقرر ہوئے۔
اس ریلوے ٹریک کے یہاں اختتام پذیر ہونے کی وجہ سے بھی اس ٹریک پر صرف چکوال اور ملحقہ علاقوں کے لوگ سفر کرتے تھے۔ اگر اسے مزید آگے بڑھا کر خوشاب سے لنک کر دیا جاتا تو ممکن تھا کہ اسے بند کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ ٹریک موجودہ ڈبل ٹریک جو راولپنڈی کو لاہور سے لنک کرتا ہے کے متبادل آپشن کے طور پر موجود رہتا جبکہ اس ریلوے لائن کی بدولت خوشاب سے میانوالی تک کا سفر بھی سہل ہو جاتا۔
بھون چونکہ آخری سرا تھا تو یہاں سے ٹرین کو واپس چکوال کی جانب ٹرن ٹیبل کے ذریعے موڑا جاتا تھا۔بہت مدت پہلے بھون کے ٹرن ٹیبل کے بارے میں سنا تھا کہ وہاں ایک دائری شکل میں چکر ہے جس کے اوپر سے انجن کے رخ کو تبدیل کیا جاتا تھا۔ ہم نے کچھ دیر اس تلاش کیا پھر اسٹیشن کے قریب لکڑیاں کاٹتے سولہ سترہ سال کے ایک بچے سے پوچھا تو اس نے لوکو شیڈ کی سیدھ میں کچھ جھاڑیوں اور درختوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہی کے درمیان وہاں آپ کو ایک گول گڑھا ملے گا۔ آس پاس کی زمین پر ہل چلا کر فصل کاشت کی گئی تھی۔ ٹرن ٹیبل کے کنارے کیکر اور جنگلی جھاڑیاں اگنے کی وجہ سے وہ تقریبا چھپ گیا تھا اگر ہم اپنے طور پر تلاش بھی کرتے تو مل نہ پاتا۔ریل کی پٹری اور دیگر باقیات سے محرومی کا نشانہ یہ چکر بھی بنا ،اب اس میں لگی اینٹیں ہی اس چکر کی آخری نشانی کے طور پر باقی تھیں۔
چکوال کے کالم نگار شوکت نواز تارڑ نے ماضی کی یادشتوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ بھون گئے تو اس چکر پر متعین ملازم سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی ٹرن ٹیبل کو دھکا لگا کر ریلوے انجن کو موڑنا چاہتے ہیں جس نے اُنہیں بخوشی اجازت دے دی ، چکوال سے بھون ریلوے لائن پر ایک فلم روٹی کپڑا اور انسان کی عکس بندی بھی ہوئی جس کا ذکر شوکت نواز تارڑ نے اپنی کتاب دنیا ایک پہیلی میں بھی کیا ہے۔1977ء میں بننے والی اس فلم میں میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک ٹرین لاہور سے کراچی جا رہی ہے حالانکہ یہ ٹرین موجودہ ون فائیو چوک سے بھون ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہی ہوتی ہے اور فلم سٹار محمد علی گھوڑے پر اس ٹرین کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس چند منٹ کے کلپ میں دور تک پھیلے کھیتوں کے پس منظر میں کوہستان نمک کا سلسلہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہ اس ٹرین اور ریلوے ٹریک کا اکلوتا ویڈیو کلپ ہے۔
اس ٹرن ٹیبل کے قریب ہی پانی کی ٹینکی کافی اونچائی پر بنائی گئی تھی، ٹینکی کے عین نیچے گھنے درختوں کا جھنڈ تھا۔ کچھ غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس جگہ کنواں بھی موجود ہے جس کے تین اطراف کانٹے دار جھاڑیاں رکھ کر راستہ بند کیا گیا ہے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد کنویں کے دھانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوا تو اس دوران ان پیڑوں پر بیٹھے پرندوں نے اس غیر متوقع دخل اندازی کو خطرہ سمجھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔ میں نے احتیاط سے اس کنویں کے دہانے سے چند تصاویر لیں، پتھروں سے بنے پرانی طرز کے اس کنویں میں کافی نیچے پانی نظر آرہا تھا۔ کنویں کے ساتھ دو کمرے بھی تھے۔ یہاں سے انجن کے ذریعے کنویں سے پانی اس ٹینکی تک پہنچایا جاتا اور پھر ٹینکی سے لوکو شیڈ تک پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔
لوکو شیڈ کی مغربی جانب ایک چھوٹا کوارٹر بنا تھا جو اب مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس پر درج جو تحریر ہے وہ آدھی مٹ چکی ہے اس کے مطابق یہ عارضی انتظار/قیام گاہ برائے ریلوے حکام تھی جن میں عموماً ریل کا عملہ ہی آرام کرتا تھا۔
عارضی آرام گاہ اور پانی کی اس ٹینکی کے درمیان بھی کچھ کمرے بنے تھے جو مکمل طور پر کھنڈرات بن چکے ہیں۔ان کی چھت گر چکی ہے اور دیواریں بھی بس برائے نام رہ گئیں ہیں جن کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں کہ کس مقصد کے لیے بنے تھے۔
بھون سے چکوال جانے والی لائن سے اسی کی دہائی کے اوائل میں ایک سنگل لائن مرید بیس تک بچھائی گئی تھی جہاں سے مال بردار بوگیوں سے سامان وغیرہ سپلائی کیا جاتا تھا جو بعد ازاں اسی ٹریک کے ساتھ ختم ہو گیا۔ چکوال ریلوے اسٹیشن سے نکلتے ہی تھنیل کی جانب بھی ایک سنگل لائن بنائی گئی تھی جو آئل ڈپو تک جاتی تھی۔ جویا مائر آئل فیلڈ سے پائپ لائن کے ذریعے اس آئل ڈپو تک آئل پہنچایا جاتا اور یہاں سے اسے ریل گاڑی کے مال بردار ڈبوں کے ذریعے مورگاہ آئل ریفائنری تک منتقل کیا جاتا تھا۔
تقسیم کے موقع پر موجودہ یونیورسٹی آف چکوال کے مقام پر ہندوستان جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے لیے ایک کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ جنہیں چکوال سے جانے کے لیے سپیشل ٹرین بھی اسی ریلوے سٹیشن سے روانہ ہوئی تھی۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے خاندان کے لوگ بھی اس ٹرین میں ہندوستان گئے۔ منموہن سنگھ نے بھی اسی ٹرین پر چکوال سے پنڈی کا سفر کیا لیکن یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے۔ 1947ء میں تقسیم کے وقت وہ اپنے والد اور سوتیلی والدہ کے ساتھ پشاور میں تھے اور وہیں سے ہندوستان چلے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ریل گاڑی چلتی رہی۔ ’’چکوال ایکسپریس‘‘ کے نام سے ایک گاڑی بھی اس روٹ پر چلائی گئی بعد ازاں اس کی جگہ ریل کار بھی چلی۔
(جاری ہے )