My Chakwal

My Chakwal Welcome To My CHAKWAL Page … it’s all about Chakwal

My Chakwal , Ambassdor Of Chakwal
All About ChakwaL....Pictures, Videos, Information and News of our Beautiful Chakwal....ذرا ہٹ کے
█▓▒░ W E L C O M E TO MY CHAKWAL ░▒▓█ ���
دوستوں ہم نے اس پیج کے ذریعے چکوال کی تصاویر، ویڈیوز اور چکوال کے متعلق معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔امید ہے آپ کو ہماری کاوش پسند آئے گی۔

آج رات بارہ بجے سے کچہری چوک راولپنڈی ری ڈیزائن (انڈر پاس اور فلائی اوور کی تعمیر ) کے باعث ٹریفک کے لیے بند کر دیا جائے...
02/11/2025

آج رات بارہ بجے سے کچہری چوک راولپنڈی ری ڈیزائن (انڈر پاس اور فلائی اوور کی تعمیر ) کے باعث ٹریفک کے لیے بند کر دیا جائے گا ، چکوال سے سفر کرنے والے درج ذیل متبادل راستے یا موٹر وے استعمال کریں۔

چکوال ریلوے کی اسی سالہ کہانی۔۔۔!!!ابرار اختر جنجوعہ ( دوسرا حصہ )یہ ریلوے لائن بھون تک ہی کیوں بنائی گئی اس کا جواب تلا...
02/11/2025

چکوال ریلوے کی اسی سالہ کہانی۔۔۔!!!
ابرار اختر جنجوعہ
( دوسرا حصہ )
یہ ریلوے لائن بھون تک ہی کیوں بنائی گئی اس کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مندرہ سے چکوال تک سارا علاوہ ہموار تھا اس علاقے میں دریا ندی نالے یا پہاڑی سلسلہ نہیں تھا۔ صرف جاتلی کے قریب قدرے نشیبی جگہ تھی جبکہ بھون سے آگے پہاڑی سلسلے کے علاوہ کھائیاں اور نشیبی علاقے شروع ہو جاتے تھے۔ سو سال پہلے کے حالات اور دستیاب سہولتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں سے ٹریک کی تعمیر نا صرف کٹھن بلکہ خاصا مہنگا منصوبہ ہوتا۔ لارڈ ہارڈنگ سلطنت برطانیہ کے 13ویں وائسرے تھے جنہیں شہنشاہ جارج پنجم نے اپنا نمائندہ بنا کر ہندوستان بھیجا تھا۔ وہ 1910ء سے 1916ء تک ہندوستان میں تعینات رہے۔ لارڈ ہارڈنگ کے دور میں سڑکوں کی حالت سدھاری گئی۔ ریلوے نیٹ ورک کو ترقی دی گئی۔1912ء میں ہندوستان میں 55 ہزار میل لمبی پکی سڑکیں اور ایک ہزار تیس میل طویل کچی سڑکیں موجود تھیں۔ اسی دور میں مندرہ سے بھون تک ریلوے لائن بھی بچھائی گئی۔اگر پہلی عالمی جنگ جو جولائی 1914ء میں شروع ہوئی رخنہ انداز نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ یہ ریلوے لائن بھون سے مزید آگے بڑھائی جاتی۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ ادھر جنوری 1916ء میں مندرہ تا بھون ٹریک مکمل ہوا اُدھر فروری 1916ء میں لارڈ ہارڈنگ بھی ہندوستان سے اپنی ملازمت مکمل کر کے واپس برطانیہ چلے گئے اور لارڈ چیمس فورڈان ان کے جانشین مقرر ہوئے۔
اس ریلوے ٹریک کے یہاں اختتام پذیر ہونے کی وجہ سے بھی اس ٹریک پر صرف چکوال اور ملحقہ علاقوں کے لوگ سفر کرتے تھے۔ اگر اسے مزید آگے بڑھا کر خوشاب سے لنک کر دیا جاتا تو ممکن تھا کہ اسے بند کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ ٹریک موجودہ ڈبل ٹریک جو راولپنڈی کو لاہور سے لنک کرتا ہے کے متبادل آپشن کے طور پر موجود رہتا جبکہ اس ریلوے لائن کی بدولت خوشاب سے میانوالی تک کا سفر بھی سہل ہو جاتا۔
بھون چونکہ آخری سرا تھا تو یہاں سے ٹرین کو واپس چکوال کی جانب ٹرن ٹیبل کے ذریعے موڑا جاتا تھا۔بہت مدت پہلے بھون کے ٹرن ٹیبل کے بارے میں سنا تھا کہ وہاں ایک دائری شکل میں چکر ہے جس کے اوپر سے انجن کے رخ کو تبدیل کیا جاتا تھا۔ ہم نے کچھ دیر اس تلاش کیا پھر اسٹیشن کے قریب لکڑیاں کاٹتے سولہ سترہ سال کے ایک بچے سے پوچھا تو اس نے لوکو شیڈ کی سیدھ میں کچھ جھاڑیوں اور درختوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہی کے درمیان وہاں آپ کو ایک گول گڑھا ملے گا۔ آس پاس کی زمین پر ہل چلا کر فصل کاشت کی گئی تھی۔ ٹرن ٹیبل کے کنارے کیکر اور جنگلی جھاڑیاں اگنے کی وجہ سے وہ تقریبا چھپ گیا تھا اگر ہم اپنے طور پر تلاش بھی کرتے تو مل نہ پاتا۔ریل کی پٹری اور دیگر باقیات سے محرومی کا نشانہ یہ چکر بھی بنا ،اب اس میں لگی اینٹیں ہی اس چکر کی آخری نشانی کے طور پر باقی تھیں۔
چکوال کے کالم نگار شوکت نواز تارڑ نے ماضی کی یادشتوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ بھون گئے تو اس چکر پر متعین ملازم سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی ٹرن ٹیبل کو دھکا لگا کر ریلوے انجن کو موڑنا چاہتے ہیں جس نے اُنہیں بخوشی اجازت دے دی ، چکوال سے بھون ریلوے لائن پر ایک فلم روٹی کپڑا اور انسان کی عکس بندی بھی ہوئی جس کا ذکر شوکت نواز تارڑ نے اپنی کتاب دنیا ایک پہیلی میں بھی کیا ہے۔1977ء میں بننے والی اس فلم میں میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک ٹرین لاہور سے کراچی جا رہی ہے حالانکہ یہ ٹرین موجودہ ون فائیو چوک سے بھون ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہی ہوتی ہے اور فلم سٹار محمد علی گھوڑے پر اس ٹرین کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس چند منٹ کے کلپ میں دور تک پھیلے کھیتوں کے پس منظر میں کوہستان نمک کا سلسلہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ یہ اس ٹرین اور ریلوے ٹریک کا اکلوتا ویڈیو کلپ ہے۔
اس ٹرن ٹیبل کے قریب ہی پانی کی ٹینکی کافی اونچائی پر بنائی گئی تھی، ٹینکی کے عین نیچے گھنے درختوں کا جھنڈ تھا۔ کچھ غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس جگہ کنواں بھی موجود ہے جس کے تین اطراف کانٹے دار جھاڑیاں رکھ کر راستہ بند کیا گیا ہے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد کنویں کے دھانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوا تو اس دوران ان پیڑوں پر بیٹھے پرندوں نے اس غیر متوقع دخل اندازی کو خطرہ سمجھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔ میں نے احتیاط سے اس کنویں کے دہانے سے چند تصاویر لیں، پتھروں سے بنے پرانی طرز کے اس کنویں میں کافی نیچے پانی نظر آرہا تھا۔ کنویں کے ساتھ دو کمرے بھی تھے۔ یہاں سے انجن کے ذریعے کنویں سے پانی اس ٹینکی تک پہنچایا جاتا اور پھر ٹینکی سے لوکو شیڈ تک پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔
لوکو شیڈ کی مغربی جانب ایک چھوٹا کوارٹر بنا تھا جو اب مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس پر درج جو تحریر ہے وہ آدھی مٹ چکی ہے اس کے مطابق یہ عارضی انتظار/قیام گاہ برائے ریلوے حکام تھی جن میں عموماً ریل کا عملہ ہی آرام کرتا تھا۔
عارضی آرام گاہ اور پانی کی اس ٹینکی کے درمیان بھی کچھ کمرے بنے تھے جو مکمل طور پر کھنڈرات بن چکے ہیں۔ان کی چھت گر چکی ہے اور دیواریں بھی بس برائے نام رہ گئیں ہیں جن کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں کہ کس مقصد کے لیے بنے تھے۔
بھون سے چکوال جانے والی لائن سے اسی کی دہائی کے اوائل میں ایک سنگل لائن مرید بیس تک بچھائی گئی تھی جہاں سے مال بردار بوگیوں سے سامان وغیرہ سپلائی کیا جاتا تھا جو بعد ازاں اسی ٹریک کے ساتھ ختم ہو گیا۔ چکوال ریلوے اسٹیشن سے نکلتے ہی تھنیل کی جانب بھی ایک سنگل لائن بنائی گئی تھی جو آئل ڈپو تک جاتی تھی۔ جویا مائر آئل فیلڈ سے پائپ لائن کے ذریعے اس آئل ڈپو تک آئل پہنچایا جاتا اور یہاں سے اسے ریل گاڑی کے مال بردار ڈبوں کے ذریعے مورگاہ آئل ریفائنری تک منتقل کیا جاتا تھا۔
تقسیم کے موقع پر موجودہ یونیورسٹی آف چکوال کے مقام پر ہندوستان جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے لیے ایک کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ جنہیں چکوال سے جانے کے لیے سپیشل ٹرین بھی اسی ریلوے سٹیشن سے روانہ ہوئی تھی۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے خاندان کے لوگ بھی اس ٹرین میں ہندوستان گئے۔ منموہن سنگھ نے بھی اسی ٹرین پر چکوال سے پنڈی کا سفر کیا لیکن یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے۔ 1947ء میں تقسیم کے وقت وہ اپنے والد اور سوتیلی والدہ کے ساتھ پشاور میں تھے اور وہیں سے ہندوستان چلے گئے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ریل گاڑی چلتی رہی۔ ’’چکوال ایکسپریس‘‘ کے نام سے ایک گاڑی بھی اس روٹ پر چلائی گئی بعد ازاں اس کی جگہ ریل کار بھی چلی۔
(جاری ہے )

01/11/2025

رتہ چوہان میں شاندار کبڈی میچ، ضلع چکوال بمقابلہ ضلع اٹک، شائقین کے لیے دعوتِ عام

"سدا بہار کبڈی گروپ طارق ہسولہ چکوال" کی زیر نگرانی رتہ چوہان تحصیل و ضلع چکوال میں ایک شاندار کبڈی میچ کا انعقاد 2 نومبر 2025ء بروز اتوار شام 3 بجے کیا جا رہا ہے، جس میں ضلع چکوال اور ضلع اٹک کی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی۔

غلام عباس جنجوعہ

یونیورسٹی آف چکوال کے طلبہ کے لیے اچھی خبر ، تین بسیں یونیورسٹی آف چکوال میں پہنچ چکی ہیں ، جلد ہی یہ بسیں مختلف روٹس پر...
01/11/2025

یونیورسٹی آف چکوال کے طلبہ کے لیے اچھی خبر ، تین بسیں یونیورسٹی آف چکوال میں پہنچ چکی ہیں ، جلد ہی یہ بسیں مختلف روٹس پر چلائی جائیں گی۔
یونیورسٹی آف چکوال میں چکوال کے مختلف روٹس کے لیے تین بسیں پہنچ چکی ہیں جو جلد ہی چلائی جائیں گی۔ یونیورسٹی کے قیام کے موقع پر سابق صوبائی وزیر راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے بتایا تھا کہ یونیورسٹی کے لیے دس سے بارہ بسوں کا انتظام کیا جائے گا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ بسیں اب یونیورسٹی آف چکوال کو ملی ہیں۔ ممکنہ طور پر ان بسوں کا روٹ پنڈی روڈ ( ڈھڈیال ۔ دولتالہ موڑ اور جاتلی ) تلہ گنگ روڈ ( بلکسر ۔ بکھاری اور تلہ گنگ) اور چوآ سیدن شاہ روڈ ( جھاٹلہ جسوال، ڈھوک ٹہلیاں اور چوآ سیدن شاہ ) ہونگے۔ ان جدید اور آرام دہ بسوں کی بدولت نہ صرف طلبہ کو وقت کی بچت ہو گی بلکہ اس کا کرایہ بھی عام ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں کافی کم ہوگا۔
(ابرار اختر جنجوعہ )

محلہ منہاس آباد کی یہ گلی  ارد گرد کے چار محلوں کی اہم  گزرگاہ ہے یہ سڑک تترال روڈ کو بھی لنک کرتی ہے۔ محرم اور صفر کے ع...
31/10/2025

محلہ منہاس آباد کی یہ گلی ارد گرد کے چار محلوں کی اہم گزرگاہ ہے یہ سڑک تترال روڈ کو بھی لنک کرتی ہے۔ محرم اور صفر کے علاوہ جن دنوں میں سرکلر ( سرپاک) روڈ بند ہوتی ہے یہی گلی متبادل راستے کے چور پر استعمال ہوتی ہے اور اس گلی میں ٹریفک کا رش بڑھ جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ٹریفک ، مکانوں کی تعمیر کے لیے میٹریل لانے والے ٹریکٹر ٹرالیوں اور بارشوں کی وجہ سے سلاٹر ہاؤس کے سامنے والا حصہ کافی خراب ہو چکا تھا جس کی وجہ سے دیگر گاڑیوں کے علاوہ سکول کے لیے آنے جانے والے رکشوں کے لیے کافی مسئلہ بنتا تھا۔ اہل محلہ نے حکام نوٹس لیں یا انتظامیہ نوٹس لے جیسی لاحاصل اپیلیں کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں کنکریٹ ڈال کر اس پریشانی سے چھٹکارہ پا لیا ہے۔

چہل ابدال پہاڑ کی چوٹی پر 1997/98ء میں
30/10/2025

چہل ابدال پہاڑ کی چوٹی پر 1997/98ء میں

یہ تصویر چکوال شہر کے محلہ زمرد ٹاؤن کے رہائشی خورشید بابر کی ہے جن کی عمر چونسٹھ برس تھی۔ خورشید بابر ایئر فورس سے ریٹا...
29/10/2025

یہ تصویر چکوال شہر کے محلہ زمرد ٹاؤن کے رہائشی خورشید بابر کی ہے جن کی عمر چونسٹھ برس تھی۔ خورشید بابر ایئر فورس سے ریٹارڈ تھے۔ قدرت نے انہیں چار بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ بیٹیاں چکوال ہی شادی شدہ ہیں جبکہ بیٹا روزگار کی خاطر بیرونِ ملک مقیم ہے۔

گزشتہ پندرہ برس سے خورشید بابر اور ان کی اہلیہ کے درمیان ناراضگی چل رہی تھی اور ناراضگی ایسی تھی کہ پچھلے پندرہ سال سے آپس میں بول چال بند تھی۔ گراؤنڈ فلور پر بیوی اکیلی رہتی تھیں اور فرسٹ فلور پر خورشید بابر اکیلے رہتے تھے۔ گھر کے مین گیٹ کے ساتھ چھوٹا دروازہ لگا ہوا ہے جو پہلی منزل کی سیڑھیوں کے آگے ہے۔ خورشید بابر اسی چھوٹے دروازے سے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں آتے تھے۔

پولیس کے ایک افسر نے "تھری اسٹارز میڈیا گروپ چکوال" سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے کئی دنوں سے خورشید بابر کا ایک داماد ان سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس داماد نے خورشید بابر کے ایک نواسے کو انہیں دیکھنے کے لیے بھیجا۔ نواسہ کل شام جب اپنے نانا کو دیکھنے گیا تو سیڑھیوں کے ساتھ لگا دروازہ اندر سے بند تھا۔ وہ پڑوسیوں کے گھر کی چھت سے اپنے نانا کے گھر کی پہلی منزل پر پہنچا۔ پہلی منزل کو بدبو نے لپیٹ رکھا تھا۔ بچے نے شور مچایا۔ پولیس کو بلایا گیا۔ پولیس کے ایک افسر کے مطابق خورشید بابر کے کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ جب وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو پنکھا چل رہا تھا جبکہ کمرے کی لائٹ بھی جل رہی تھی۔ خورشید بابر کی مسخ شدہ لاش چار پائی پر پڑی تھی۔ جسم پر قمیض نہیں تھی۔ پیٹ سوجا ہوا تھا۔ لاش کو دیکھ کر لگتا تھا کہ خورشید بابر چار پائی پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اسی حالت میں پیچھے گرے اور فوت ہو گئے۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں وہ مبتلا تھے۔ پولیس کے ایک افسر نے چونکا دینے والا انکشاف یہ کیا کہ خورشید بابر کی لاش لگ بھگ پندرہ دن پرانی تھی۔

کراچی میں اداکارہ حمیرا اسلم کی لاش ملی تھی جو سات آٹھ ماہ پرانی تھی۔ پھر کراچی سے مشہور اداکارہ عائشہ خان کی لاش بھی سات آٹھ دن پرانی ملی۔ فروری میں چکوال کے گاؤں گھگھ میں جبین بی بی کی لاش بھی ملی تھی جو سات آٹھ دن پرانی تھی۔

معاشرہ بے حسی، بیگانگی اور لاپرواہی کی دلدل میں کس سرعت کے ساتھ دھنستا جا رہا ہے اس کا اندازہ ہمیں مندرجہ بالا واقعات سے ہو جانا چاہیے۔ تنہائی کا زہر تو بھرے گھر میں ذرا سی مختلف سوچ رکھنے والے کو چاٹ جاتا یے، بڑھاپے میں تو یہ زہر اور بھی مہلک بن جاتا ہے۔ اوپر سے معاشرتی قدغنوں کا بوجھ پچھلی عمر میں لوگوں کو اپنے لیے کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ خورشید بابر اور ان کی اہلیہ پندرہ سال تک ایک دوسرے سے ناراض تھے لیکن علیحدگی بھی نہیں تھی۔ یہ ایک مثال وہ ہے جو سامنے آئی ہے، اس طرح کی کہانیاں اب ہمارے معاشرے میں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

نبیل انور ڈھکو

ماضی کے جھروکوں سے۔۔۔!!!!
28/10/2025

ماضی کے جھروکوں سے۔۔۔!!!!

فری ویل چئیر۔۔۔!!!!چکوال کے مستحق افراد کے لیے الـخدمت فاؤنڈیشن چکوال کی جانب سے فری ویل چئیر۔الخدمت فاؤنڈیشن چکوال معذو...
28/10/2025

فری ویل چئیر۔۔۔!!!!

چکوال کے مستحق افراد کے لیے الـخدمت فاؤنڈیشن چکوال کی جانب سے فری ویل چئیر۔
الخدمت فاؤنڈیشن چکوال معذور افراد کے لیے فری ویل دے رہی ہے۔اپنی یا کسی ضرورت مند کی رجسٹریشن کے لیے دیے گئے نمبر پر رابطہ کریں یا الـخدمت فاؤنڈیشن چکوال کے دفتر تشریف لائیں۔
آئیے، انسانیت کی خدمت میں الخدمت فاؤنڈیشن کا ساتھ دیجیے۔ 🤝
Contact info:
0307 5277533
0307 5417067
پتہ :
الخدمت فاؤنڈیشن چکوال گرلز کالج ، روڈ نزد اویسیہ مسجد، چکوال۔

27/10/2025

کچہری چوک میگا پراجیکٹ کیلئے سٹی ٹریفک پولیس راولپنڈی نے ٹریفک پلان جاری کر دیا

کچہری چوک میگا پراجیکٹ کے دوران سٹی ٹریفک پولیس راولپنڈی نے شہریوں کی سہولت کے لیے متبادل راستے فراہم کیے ہیں۔
ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے اور تعمیراتی کام کو محفوظ انداز میں مکمل کرنے کے لیے شہریوں سے تعاون کی درخواست ہے۔

آپ کا تعاون ہی محفوظ اور بہتر سفر کی ضمانت ہے.....

ایاز امیر کے کالم “عیاشی کے لمحات” سے اقتباس ہمارے گاؤں اور ملحقہ علاقہ کے ساتھ عجیب ہوا ہے۔ وہ وقت بھی تھا کہ بھگوال پ...
26/10/2025

ایاز امیر کے کالم “عیاشی کے لمحات” سے اقتباس

ہمارے گاؤں اور ملحقہ علاقہ کے ساتھ عجیب ہوا ہے۔ وہ وقت بھی تھا کہ بھگوال پہنچتے لگتا کہ درۂ خیبر کے اس پار جا رہے ہیں۔ اب سڑکوں کا سلسلہ ایسا بنا ہے کہ اسلام آباد بالکل ہی قریب پڑتا ہے اور لاہور بھی جانا ہو تو موٹروے کی وجہ سے سفر آسان ہو گیا ہے۔ بس موٹرکار اپنی ہو اور پٹرول کیلئے جیب میں کچھ پیسے۔ یہ تبدیلیاں ہمارے سامنے ہوئی ہیں اور انٹرنیٹ نے شہر اور دیہات کا فرق مٹا دیا ہے۔ صحافت جب شروع کی تھی تو صحافت صرف بڑے شہروں میں رہ کر ہو سکتی تھی کیونکہ ترسیل اور کمیونیکیشن کا کوئی نظام ہی نہ تھا۔ چکوال میں ایکسچینج کے ذریعے ٹرنک کال کرنا محال ہوتا اور مجھے یاد ہے کہ ایکسچینج میں بیٹھے ہوئے آپریٹروں کا نخرا کسی راجے مہاراجے سے کم نہ ہوتا۔ اب بیری کے نیچے کالم ڈکٹیٹ ہو جاتا ہے اور اسی اثنا ایک ٹَچ سے اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔ کتنے دیہاتی نوجوان ملتے ہیں جن سے پوچھو کیا کرتے ہو تو کہتے ہیں آن لائن کام کرتے ہیں۔ یعنی یہیں بیٹھ کر اپنے حصے یا قسمت کے ڈالر کما رہے ہوتے ہیں۔
والد صاحب نے 1930ء کی دہائی میں گاؤں کا موجودہ گھر اور بنگلہ بنایا تھا لیکن بعد میں چکوال منتقل ہو گئے‘ وہیں سیاست اور کاروبار کیا اور بنگلہ بے رخی کی وجہ سے کھنڈر بنتا گیا۔ یہ تو زمانہ بدلا اور ہم نے صحافت میں جو تیر چلانے تھے وہ چلا دیے اور عمر کے اس حصے کو پہنچے کہ ہم دیہات کی طرف لوٹ آئے اور اب ہر گزرتا دن اتنا بھلا لگتا ہے کہ یہیں ٹھہراؤ کرنے کا خیال پختہ ہوتا جاتا ہے۔ خیالی پلاؤ بہت بنتے ہیں کہ کچھ بھیڑ بکریاں ہوں‘ ایک دو گائے بھینس‘ ایک آدھ گھوڑا اور ایک عدد اونٹ بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اب تک یہ خیالی گھڑ سواری ہے‘ ہمت بندھتی جا رہی ہے دیکھیں آنے والے دن کیا رنگ لاتے ہیں۔

Address

Chakwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when My Chakwal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share