
21/07/2025
طوفانی بارشیں اور کٹاس راج۔۔!!!!
تحریر : ابرار اختر جنجوعہ
چکوال میں حالیہ بارشیں تباہی کی ایک داستان اپنے پیچھے چھوڑ گئیں۔ایک طرف لوگوں کے گھر زیر آب آنے کے ساتھ ساتھ زمین بوس ہو گئے، تو دوسری جانب سڑکیں تباہ ہوگئیں، پل ٹوٹ گئے ، زمینی رابطے منقطع ہو گئے،مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا کئی دیہات میں بجلی کی تنصیبات کو بھی بے انتہا نقصان پہنچا سیلابی ریلے اپنے ساتھ سب کچھ بہا کے لے گئے۔لیکن حیرت انگیز طور پر چکوال میں ایک ایسی قدیم مقام بھی تھا جسے اتنی طوفانی بارشیں اور برساتی طغیانی بھی نقصان پہنچانے سے قاصر رہی۔یہ اپنی جگہ ایسے قائم و دائم رہا۔ 1500 سال قدیم یہ تاریخی مقام ہندوؤں کا مقدس کٹاس راج ہے۔ پورے چکوال میں ہونے والی مسلسل بارشوں کے دوران کٹاس کی وائرل ہونے والی کچھ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کٹاس راج کا مرکزی تالاب نہ صرف پانی سے بھر گیا تھا بلکہ سیلابی پانی متواتر اور پوری رفتار کے ساتھ آکر تالاب میں گر رہا تھا۔ اتنی شدید بارشوں کے ساتھ ساتھ سلابی ریلے جہاں کئی مضبوط پلوں اور مکانات کو اپنے ساتھ بہا کے لے گئے مگر حیرت انگیز طور پر کٹاس راج کے مندروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔کٹاس راج کے تمام مندر اسی طرح اچھی حالت میں ہیں جس طرح ان طوفانی بارشوں سے پہلے تھے۔ 7ویں صدی میں جب موجودہ سائنسی ترقی کا تصور ہی نہیں تھا ، کٹاس راج میں پانی کی نکاسی کا شاندار انتظام تھا پہاڑوں سے آنے والے برساتی پانی کے بہاؤ کے لیے ایک بڑا نالہ بنایا گیا تھا جو رام چندرا مندر کے نیچے سے سیدھا کٹاس راج کے تالاب میں آ کر گرتا ہے۔ باقی مندروں کی تعمیر بھی اس طرح کی گئی ہے کہ پانی رکے بغیر سیدھا تالاب میں آتا ہے اور تالاب سے ایک نالے کے ذریعے اضافی پانی خارج ہو کر کٹاس راج سے باہر چلا جاتا ہے۔ تاریخی گندھالہ باغ کے ساتھ بہتا نالہ اس کی آخری منزل ٹھہرتی ہے۔
ان بارشوں کے دوران صرف تین جگہ سے دیواریں ٹوٹی ہیں یہ دیواریں چند برس پہلے کٹاس راج کمپلیکس کی حفاظتی چار دیواری کے طور پر تعمیر کی گئیں تھیں جن کا مقصد اس کمپلیکس کی حفاظت اور مال مویشیوں کو اندر داخل ہونے سے روکنا تھا۔مندر کی مغربی جانب سکول سے ملحقہ دیوار ، بارہ دری اور البیرونی سے منسوب سنسکرت یونیورسٹی کی درمیانی دیوار بھی ان بارشوں اور سیلانی ریلے کا دباؤ برداشت نہیں کر سکیں۔ کٹاس راج کمپلیکس کے مرکزی داخلی دروازے پر لگے ہوئے جنگلے بھی اس طوفانی بارش اور سیلابی ریلے کا سامنا نہ ٹھہر سکے اور ٹوٹ گئے۔
کٹاس راج میں ابھی بھی کچھ ایسے مقامات ہیں جن پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کٹاس راج میں لگے ہوئے کافی سائن بورڈ مٹ چکے ہیں۔ کٹاس کا فلٹر پلانٹ بھی بند پڑا ہے۔ اتنی شدید بارشیں ہونے کے باوجود بھی کٹاس راج کا تالاب پانی سے اس طرح نہیں بھرا جیسے کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔اتنی بارشوں کے باوجود تین دن میں تالاب کی سطح کافی نیچے جا چکی ہے۔غالباً اب تالاب کا بیشتر پانی زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو کٹاس راج مندروں کو نقصان تو نہیں پہنچا، البتہ کچھ بنیادی نوعیت کے کام توجہ کے منتظر ہیں۔ ان میں ایک تو تاریخی ہری سنگھ نلوہ کی حویلی ہے جس کے چھت سے پانی ٹپکتا دکھائی دیتا ہے۔چھت کی مرمت اور سیلنگ کا کام ہونا ضروری ہے۔ کٹاس راج کے تالاب کے ساتھ بنی ہوئی بارہ دری کی حالت بھی کچھ خستہ ہے اسے وہاں پر آنے والے سیاحوں کے لیے فی الحال بند کیا گیا ہے اس کی چھت اور دیواروں میں دراڑیں دیکھی جا سکتی ہیں متروک وقف بورڈ کے ایک ملازم کے مطابق کٹاس راج کے تقریباً 18 سے 19 ایسے مقامات ہیں جن کی نشاندہی کی جا چکی ہے جہاں مرمت اور بحالی کے منصوبے پر کام جاری ہے اور اگلے چند دنوں میں ان پر کام متوقع ہے۔ ان میں یہ بارہ دری اور ہری سنگھ نلوہ کی حویلی سرفہرست ہیں۔