
10/07/2025
*وادیِ جھنگڑ میں ایک خوبصورت مقام کنگنڑ کا سفر*
تحریر محمد شعیب منہاس آف ٹنیالہ✍️
رات گزر چکی تھی، مگر اس کی گونج ابھی تک فضاؤں میں تھی۔آج رات کا قیام ننھیال گاؤں کوٹ ملک بہادر، یونین کونسل بشارت میں کیا وہ گاؤں جو میرے بچپن کی مسکراہٹوں سے جُڑا ہے۔ آج رات آسمان نے جیسے برسنے کی قسم کھا لی ہو۔ موسلا دھار بارش، جھکڑوں کی آواز، اور چھت و صحن میں پڑتی پانی کی دھمک یہ وہ آوازیں تھیں جو نیند کو چوری کر کے خوابوں سے آگے لے جاتی ہیں۔
صبح جب آنکھ کھلی تو ہر چیز بھیگی ہوئی، نکھری ہوئی اور ساکت سی لگی۔ ناشتہ کیا اور پھر دل میں وہی پرانی ضد جاگ گئی نکل چلوں، تنہا۔ نہ کوئی شور، نہ رکاوٹ۔ بس میں اور قدرت۔
موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کنگنڑ کی طرف روانہ ہوا۔ یہ راستہ رکھ درینگن کی حدود میں آتا ہے، جھنگڑ کے جنگلات کے بیچوں بیچ واقع وہ وادی جسے مقامی لوگ صرف "کنگنڑ" کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں تک پہنچنا صرف سفر نہیں، ایک روحانی تجربہ ہے۔
پہلا پڑاؤ "دیلو آلی بَن" تالاب کو یہاں کی مقامی زبان میں "بن" کہا جاتا ہے۔ بارش کے باعث تالاب لبالب بھرا ہوا تھا، پانی جیسے کناروں کو چومتا ہوا باہر جھانک رہا تھا۔ اس بن کے کنارے ایک چھوٹی سی مسجد ہے، نہایت پرانی اور سادہ۔ یہاں کی تاریخ بھی سادہ مگر گہری ہے۔ ماضی قریب میں قریبی تین دیہات کوٹ ملک بہادر، بھروال اور وگھوال کی تمام عورتیں بچوں کو ساتھ لے کر یہاں کپڑے دھونے آیا کرتی تھیں۔اب بھی کچھ خواتین آتی ہیں دوپہر کے وقت یہ بن چرواہوں کا اڈہ بن جاتا ہے، جہاں وہ اپنے جانوروں سمیت جمع ہو کر گپ شپ کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک تالاب نہیں، ایک عہد کی نشانی ہے۔ اب بھی یہاں کے جانور جنگل سے آتے اور جاتے پانی پیتے ہیں۔
یہاں کچھ دیر رکا، ہوا میں نمی تھی اور فضا میں سکون۔ پھر آگے سفر شروع کیا۔ تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک بورڈ چہل ابدال کی سمت اشارہ کرتا نظر آیا۔ میں نے بھی اسی کچے راستے پر جانا تھا سو چل پڑا۔
بارش کی وجہ سے ہر طرف تازگی تھی جنگل میں موجود چھوٹے چھوٹے گڑھے پانی سے بھر چکے تھے، اور مینڈکوں کی آوازیں جیسے اس راستے پر آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ گھنے درختوں میں پھلاہی، کاہوں، کوہیر اور نہ جانے کون کون سی جڑی بوٹیاں راستہ سجا رہی تھیں۔ کوئلے کی کانوں کے کچھ نامکمل آثار بھی نظر آئے زمین کا وہ سینہ جو ماضی میں انسانوں نے چیرنے کی کوشش کی، اب خاموش تھا۔
راستے میں قدرتی پتھر کی بیٹک نے روک لیا جیسے فطرت نے مسافر کو بٹھانے کے لیے خود جگہ بنائی ہو۔ یہاں بیٹھ کر جب نظر اٹھائی تو بادلوں میں گھری ہوئی چوٹیاں سامنے نظر آئیں۔ رکھ دریگن کے دامن سے دلجبہ پہاڑ کا نظارہ، دھند میں لپٹا ہوا ایک ایسا نظارہ جو شاید آنکھیں پی جاتی ہیں مگر دل چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔
پھر وہ لمحہ آیا میں کنگنڑ پہنچ گیا۔
یہ ایک قدرتی میدان ہے، سرسبز، وسیع اور جنگلات سے گھرا ہوا۔ یہاں کی خاموشی میں ایک میٹھا سا راگ چھپا ہے۔ گھاس کے نرم بستر پر بیٹھ کر آسمان کو دیکھو، یا درختوں کے سائے میں آنکھیں بند کرو ایک پُرسکون احساس زندہ ہو جاتا ہے۔ یہاں اہل خانہ سمیت پکنک منایا جا سکتا ہے۔ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر چرند پرند کی سنجیدہ گفتگو سنی اور پھر واپسی کا وقت ہو چلا تھا۔ دل کنگنڑ میں رہ گیا، پر میں واپس چل پڑا۔
راستے میں ایک مانوس سا چہرہ دکھا۔ آصف سارا علاقہ اس چہرہ کو جانتا ہے لیکن میرا کوئی برائے راست تعلق نہیں نا کوئی ایسا واقع ہو جس سے وہ مجھے جانتا ہو آصف وہ چرواہا جو ذہنی طور پر کچھ مختلف(ذہنی توازن نارمل نہیں)ہے، مگر سادہ دل انسان ہے۔ میں نے پوچھا مجھے جانتے ہو تو وہ مجھے پہچان گیا۔ کہنے لگا، "تم وہی ہو نا، سیمنٹ فیکٹری والے؟" میں حیران رہ گیا۔ آصف کوٹ ملک بہادر کا رہائشی ہے۔ روز صبح مختلف گھروں سے بکریاں لے کر نکلتا ہے، دن بھر ان جنگلات میں چراتا ہے، اور مہینے بعد لوگ اسے اجرت دے دیتے ہیں۔
آصف سے بات کرتے ہوئے ایک عجیب احساس ہوا انسان کبھی مکمل کمزور نہیں ہوتا، اُس میں کہیں نہ کہیں ایک روشنی، ایک پہچان، ایک محبت ہوتی ہے۔ وہ ان جنگلات کا محافظ ہے، ان بکریوں کا ساتھی، اور شاید فطرت کا خاموش عاشق۔
اس سفر میں جنگلات کے جو جو حصے سر کیے ان کے نام یہ ہیں۔چیڑی سڑک، نلا، پھلاں آلا، دیلو آلی بن، جھنگڑ، ادریماں آلی، درینگن، کنگنڑ
یہ سفر، صرف ایک وادی کا نہیں تھا۔ یہ فطرت سے مکالمہ تھا۔ جھنگڑ کی خاموش پگڈنڈیوں، دیلو آلی بن کی یادوں، گنگھن کے سبز قالین، اور آصف کی پہچان نے مجھ سے وہ باتیں کیں جو شہر کی دیواریں کبھی نہیں کہتیں۔