26/10/2025
*کیا علاقہ غزہ شاہ مراد یتیم ہے؟؟؟*
تحریر: *چودھری زین العابدین*
16 جولائی کی بارش سے علاقہ غزہ شاہ مراد میں بہت نقصان ہوا یونین کونسل چوآ گنج علی شاہ، یونین کونسل کوتھیاں سہگل آباد، یونین کونسل بھیں، یونین کونسل ڈوھمن اور یونین کونسل جنڈ خانزادہ میں بہت ساری سڑکیں بارش کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔ لوگوں کے مکانات گرے بڑی تعداد میں لوگوں کے گھروں کی دیواریں گر گئیں اور اس کے علاوہ بھی مختلف قسم کے نقصانات ہوئے۔ بارش کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ ہم فالفور بحالی کا کام شروع کریں گے اور جن لوگوں کے مکانات گرے ہیں، دیواریں گری ہیں یا دیگر نقصانات ہوئے ہیں ان کا ازالہ کریں گے بعض دیہاتوں میں جیسے جنڈیال فیض اللہ، تکیہ شاہ مراد چک باقر شاہ، سوہاوہ ڈوھمن اڑ مغلاں، ڈھوک ملکاں، ترمنی،سہگل آباد، ربال، بڈھیال اور دیگر دیہاتوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا جس کا ازالہ تا حال نہ کیا گیا ابھی تک تکیہ شاہ مراد کا پل نہیں بنا اسی طرح بڈھیال پل کا بار بار افتتاح ہونے کے باوجود اور مٹھائیاں تقسیم ہونے کے باوجود کام کا آغاز نہیں ہوا یہ کہا جاتا ہے کہ مشینری آ چکی ہے یا آ رہی ہے لیکن ابھی تک راستے کی حالت وہی ہے جو 16 جولائی کو تھی ربال کا راستہ جو سہگل آباد بچیوں کے سکول کے پاس سے جا رہا ہے اس کی حالت بھی اسی طرح ہے چک باقرشاہ سے پنجائن جانے کے لیے جو پل تھا اور جس سے بچے گزر کے سکول جاتے تھے اور زمیندار اپنے کھیتوں میں جاتے تھے وہ پل بھی اسی طرح ٹوٹا ہوا ہے البتہ پنجائن کے پل پر کام جاری ہے لیکن چوآگنج علی شاہ یونین کونسل کے بہت سارے راستے سڑکیں پلیں اور باقی غزہ شاہ مراد کے علاقے کی تباہی بربادی کا ابھی تک 20 فیصد ازالہ بھی نہیں کیا گیا اس تباہ کن بارش میں جن لوگوں کی جانیں گئیں صرف ان کو اس وقت مالی امداد دی گئی اور ان کی تصاویر بنائی گئیں اور اس پر سیاست کی گئی لیکن اس کے بعد ایک طویل خاموشی ہے لوگ پریشان ہیں کہ کس کے سامنے گلا کریں کیونکہ ہر جگہ پر سیاست کر کے شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نہ سوہاوہ کے راستے بنے نہ سوہاوے کا پل بنا نہ ترمنی کا پل بنا نہ ڈھوک قطب دین کا راستہ ٹھیک ہوا نہ تکیہ شاہ مراد کا نہ چکباقر شاہ اور پنجائن کے درمیان کا پل اور نہ بڈھیال کا۔ تو زمینی حقائق دعووں کے بالکل برعکس ہیں ہمارے علاقے میں چھوٹے چھوٹے کاموں پر اپنی تشہیر کرنا اور یوں ظاہر کرنا کہ جیسے یہ کام کروانے والوں نے اپنی جیب سے پیسے خرچ کیے اور انہوں نے اپنی کوئی زمین بیچ کر یہ کام کروایا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہوتا ہے اور گورنمنٹ اس پیسے کو ترقیاتی کاموں کے لیے جاری کرتی ہے جو کہ گورنمنٹ کا فرض ہے اور اسی طرح عوامی نمائندوں کا بھی فرض ہے کہ وہ کام کروائیں کیونکہ وہ ووٹ ہی اس وجہ سے لیتے ہیں کہ آپ ہمیں منتخب کریں تو ہم ترقیاتی کام کروائیں گے لیکن منتخب ہونے کے بعد عوامی نمائندے ہر کام احسان جتلا کر کرتے ہیں اور آگے مختلف دیہاتوں کے اندر ان کے پسندیدہ اور مقرر کردہ چھوٹے لوگ وہ یوں شیخی بکھارتے ہیں کہ جیسے یہ ان کے باپ دادا کا پیسہ ہے اور انہوں نے عوام پر احسانِ عظیم کیا ہے کہ کوئی گلی بنوا دی ہے کوئی پل بنوا دیا ہے یا کوئی کھمبا لگوا دیا ہے عوام کے ساتھ یہ ایک بھیانک مذاق ہے اور یہ عوام کا تمسخر ہے کہ پیسے عوام کے اور تشہیر آپ کی اور نخرے آپ کے۔ چک کھاڑک کے پاس جو خانپور ڈھوک ٹاہلیاں روڈ پر پل ہے اس پر بھی عجیب تماشہ ہے وہ پل آدھا کنکریٹ کر دیا گیا ہے اور آدھا چھوڑ دیا گیا نہ جانے کیوں؟ اسی طرح سوہاوہ کے پل کا مسئلہ ہے جہاں آئے روز مسائل جنم لیتے ہیں اور لوگوں کے نقصانات ہوتے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ عوام خود بیدار ہوں عوام میں شعور آئے، عوام اپنے حقوق کو سمجھیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں نہ یہ کہ چھوٹے چھوٹے کام کروانے کے بعد وہ چھوٹے سیاست دانوں کے اور بڑے سیاست دانوں کے مرہون منت ہوتے رہیں اور پھر ان کے تعریفیں کرتے رہیں اور ان کے سامنے ناچتے رہیں اور ڈھول بجاتے رہیں اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے رہیں یہ سب کچھ غلامانہ ذہن کی عکاسی ہے جو لوگ اس وقت ایسا کر رہے ہیں وہ اپنی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں ان کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو ہم بھی غلام ہیں ہم بھی ناچے ہیں تم بھی غلام رہنا اور تم بھی اسی طرح ناچتے رہنا۔ خدارا باشعور بنیں سمجھدار بنیں اور اٹھیں جاگیں اور اپنے کام کروائیں اور یہ ثابت کریں کہ واقعی آپ ایک باشعور اور زندہ قوم ہیں۔