Irfan jan

Irfan jan Digital creator

محنت اور لگن سے اللہ تعالیٰ انسان کو کامیابی عطا کرتا ہے۔ جو شخص جس شعبۂ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اس میں محنت ک...
08/07/2025

محنت اور لگن سے اللہ تعالیٰ انسان کو کامیابی عطا کرتا ہے۔ جو شخص جس شعبۂ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اس میں محنت کرتا ہے، وہ اسی شعبے میں نام پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی و کامرانی سے نوازتا ہے، اور وہ خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزارنے لگتا ہے۔ ایسے کامیاب لوگ، چاہے وہ زندگی کے کسی بھی میدان میں ہوں، ہمیں ان سے حسد اور جلن محسوس نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان ہی کی طرح محنت کو اپنا شعار بنا کر اپنے دائرۂ کار میں ترقی کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ جو لوگ ترقی حاصل کر چکے ہوتے ہیں، انہیں اس پر غرور نہیں کرنا چاہیے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر اور کمتر نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ جس خدا نے انہیں مواقع دے کر مال دار اور بڑے عہدے پر فائز کیا ہے، وہی خدا انہیں دوبارہ غریب اور لاچار بھی کر سکتا ہے۔ غرور صرف اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے؛ ہمیں عاجزی اختیار کرنی چاہیے اور کسی کو کمتر جان کر اس کے احترام و عزت میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب نمائندوں / عہدے داروں نے حلف اٹھا لیا۔اس حوالے سے جوڈیشل کمپلکس کے بار روم میں ایک پر...
04/07/2025

چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب نمائندوں / عہدے داروں نے حلف اٹھا لیا۔اس حوالے سے جوڈیشل کمپلکس کے بار روم میں ایک پر وقار تقریب منقعد ہوا۔پروگرام کے مہمان خصوصی خبیر پختون خواہ کے گورنر جناب فیصل کریم کنڈی تھے۔ ان کی آمد پر ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ان پر گلاب کے پھولوں کے پتیاں نچھاور کئے گئے ۔حاضرین نے کھڑے ہو کر انہیں خوش آمدید کہا۔انھوں نے نو منتخب کابینہ سے حلف لیا۔ نو منتخب GS جواد احمد نے سٹیج سیکرٹری کے ذمہ داری نبھائی ۔گرمی کی وجہ سے پروگرام کا دورانیہ کم اور مختصر رکھا گیا تھا،التبہ گرمی کی شدت کو کم کرنے اور کولنگ کے لیے ائیرکنڈیشنرز اور ائیر کولر فینز لگاۓ گئے تھے۔ چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے ممبران اور دیگر مہمانوں سے بار روم کچا کچ بھرا ہوا تھا۔پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ، تنگی اور شبقدر تحصیلوں کے صدور بھی پروگرام میں مدعو تھے۔ چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے صدر مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ نے مہمان خصوصی کی خدمت میں چارسدہ بار کو درپیش مشکلات اور وکلاء کے ضروریات کے حوالے سے سپاس نامہ پیش کیا اور مختصر خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے PPP کے بانی اور ان کی دختر کے قربانیوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔انھوں نے پاکستان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک نعمت قرار دیا جہاں ہم آزادی سے اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ اس وطن کے حصول کیلئے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دئیے۔اس کی حفاظت کیلئے وکلاء برادری ہر اول دستہ کے طور پر ہمیشہ دستیاب ہونگے۔گورنر صاحب نے چارسدہ بار کے مسائل کے حل کیلئے مالی وسائل مہیا کرنے کا وعدہ کیا ۔پروگرام کے اختتام پر وکلاء اور دیگر مہمانوں کے لیے زبردست ظہرانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

01/07/2025

وفاقی حکومت نے عوام پر پٹرول بم گرا دیا۔

چھٹیاں مناتے ہوۓ۔
28/06/2025

چھٹیاں مناتے ہوۓ۔

واقعی مہمانوں کو پختون نہ بچا سکے۔پختون جو بڑے روایت پسند اور مہمان نواز مشہور ہیں وہ اپنے ہاں آۓ ہوۓ مہمانوں جن میں خوا...
28/06/2025

واقعی مہمانوں کو پختون نہ بچا سکے۔پختون جو بڑے روایت پسند اور مہمان نواز مشہور ہیں وہ اپنے ہاں آۓ ہوۓ مہمانوں جن میں خواتین ،بچے اور مرد شامل تھے۔جو بار بار مدد کے لیے پکار رہے تھے کہ انہیں بے رحم پانی کے چنگل سےنکالا جائے ،انہیں رسکیو کیا جاۓ۔سیلابی پانی کے کنارے کافی لوگ موجود تھے۔وہ اس مصیبت زدہ خاندان کے ویڈیوز اپنے موبائل فون کے کیمروں سے بنا رہے تھے اور اسے اپنے سوشل میڈیا کے اکاونٹس پر ڈال رہے تھے لیکن ان کے بچاؤ کے لیے کوئی تدبیر نہ کر سکے۔شاید وہ بھی حکومتی اداروں کے انتظار میں تھے لیکن انھوں نے نہ آنا تھا اور نہ آئیں اور انہیں کوئی پشیمانی اور شرمندگی بھی نہیں کیونکہ انھوں نے تو کسی کو قتل نہیں کیا۔یہ تو قدرت نے کیا اور سیلاب تو وہ لے کر نہیں آۓ تھے۔یہ تو ان لوگوں کے نصیب میں لکھا تھا ۔وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہونگے کہ ان سیاحوں کو پانی کے درمیان چھوٹے سے پتھروں پر مبنی جزیرے پر بیھٹنے کی وہاں ناشتہ کرنے اور پھر سلپیاں لینے کی کیا ضرورت تھی۔ہم حکومت کو اس لیے ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ اس نے ریلے کی اطلاع نہیں دی تھی۔سیاحوں کو بچانے کے لیے وقت پر پورے انتظامات کے ساتھ نہیں پہنچے۔انہیں بے رحم پانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا اور پانی نے وہی کیا جو اس کا کام تھا۔اب کہی سیاحوں کو سوات سیاحت کے لیے آنے کی دعوت نہیں دینے چاہئیے اس وقت تک جب ہمارے پاس مصیبت کے وقت ان کے بچانے کے سامان اور مستعد افرادی قوت دستیاب نہ ہو۔صرف سوات کے لوگ ہی نہیں ،پورا صوبہ شرمندہ ہے کہ ہم مہمانوں کو نہ بچا سکے۔صرف ہمارے وزیر اعلی کو کوئی فکر نہیں کیونکہ اسے سیاست اور عمران خان کو رہا کرنے کی جدوجہد سے فرصت نہیں۔عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

یہ بات تو آپ کی سو فیصد درست ہے کہ ہمیں خود بھی اپنا خیال رکھنا چاہئے ۔احتیاط کرنا چاہئے ۔حکومتی ہدایات پر عمل بھی کرنا ...
28/06/2025

یہ بات تو آپ کی سو فیصد درست ہے کہ ہمیں خود بھی اپنا خیال رکھنا چاہئے ۔احتیاط کرنا چاہئے ۔حکومتی ہدایات پر عمل بھی کرنا چاہئیے۔خبر کے مطابق یہ لوگ(وہ 10پنجابی جو کل دریاۓ سوات کے ظالم سیلابی پانی میں بہہ گئے ) وہ ناشتہ کر رہے تھے۔بظاہر اس وقت وہاں کسی سیلاب اور پانی کے تیز اور بڑے ریلے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔اردگرد جگہ خشک تھی۔ٹورسٹس ایجوائمنٹ کے لیے آتے ہیں ۔ہزاروں ٹورسٹس روزانہ کے بنیاد پر آتے ہیں ۔ہر کسی کے ساتھ اس طرح کے حادثات پیش نہیں آتے۔رسکیو اداروں کی ذمہ داری ہے کہ الرٹ رہے۔گاڑیاں تیار رکھے۔سامان ریڈی ہو۔اس کے علاوہ ان کی اور کوئی ڈیوٹی نہیں ہے۔اس کے انہیں بڑی بڑی تنخوائیں ملتی ہے ۔ایک دو یا تین جگہوں پر انہیں تیز اور فوری طور پر پہنچنا ہوتا ہے۔ان کے پاس تمام ضروری آلات و سامان کا ہونا ضروری ہے جس سے وہ پانی اور سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچا سکے۔انسانی جان سے قیمتی چیز کوئی بھی نہیں ہے۔عینی شاہدین کے مطابق یہ لوگ مدد کے لیے پکارتے رہے۔کافی ٹائم بعد 1122 کے کچھ لوگ پہنچ گئے لیکن وہ بے سر و سامان تھے۔ اس سے اس اہم سرکاری ادارے کی غفلت اور لاپروائی ثابت ہوتی ہے۔پانی کے درمیان میں پھنسے خواتین،بچوں اور مردوں کی مدد کے پوزیشن میں نہیں تھے۔یہ لوگ کچھ کرنے کا کہہ کر جب ایک گھنٹے بعد آئیں تو متاثرین پانی میں بہہ گئے تھے۔ہمارے حکومت یا مقتدر اداروں کا فرض تھا کہ اطلاع ملنے پر فوری طور پر ان کی مدد کا بندوبست کرتے۔یہ منٹوں کی بات نہیں تھی ۔ڈھائی گھنٹے تک یہ مدد کے لیے پکارتے رہے۔ہمارے کے پی کے کے وزیر اعلی کا بیان شرمناک ہے جب اس نے کہا کہ میری موجودگی ہر جگہ ضروری نہیں ہے۔درست ہے کہ اس کی ہر جگہ موجودگی بلکل ضروری نہیں ہے لیکن اس کے نیچے اداروں کو ایسی حالت کے لیے چوکس اور تیار رہنا چاہئے تھے۔جو کچھ ہوا ،وہ واپس نہیں ہو سکتا۔نا قابل تلافی نقصان ہوگیا۔اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ہم لاکھ کہے یہ ہونا چاہئے تھا وہ ہونا چاہئے تھا۔یہ باتیں اب اپنی اہمیت کھو چکی ہے ۔سادہ الفاظ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ہماری حکومت اور جان بچانے والے ادارے بری طرح فیل ہوگئے۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

بیٹی نے ایک سال یا اس سے کچھ کم عرصہ سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھا۔بیٹے کو شروع ہی سے پرائیویٹ سکول میں داخل کیا تھا۔بچو...
23/06/2025

بیٹی نے ایک سال یا اس سے کچھ کم عرصہ سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھا۔بیٹے کو شروع ہی سے پرائیویٹ سکول میں داخل کیا تھا۔بچوں کی ماں معترض تھی کہ بیٹی نالائق اور اس کی تعلیم خراب ہو جاۓ گی۔سرکاری سکولوں کا جو برا حال ہے اس لحاظ سے وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔میں نے بیگم صاحبہ کے مشورے پر بیٹی کو بھی اسی سکول میں داخل کیا جہاں بیٹا پچھلے چار سال سے پڑھ رہا تھا۔بیٹی قابل ،محنتی اور تعلیمی میدان میں روز بروز ترقی کر رہی ہے ۔اس کی ماں کا موقف ہے کہ بچی کی سکول بدلنے سے بہتری آئی ہے جبکہ میرا موقف ہے کہ بچی میں پہلے ہی لیاقت اور صلاحیت تھی۔اس میں سکو ل سے زیادہ اس کی اپنی خدا داد صلاحیت ہے لیکن سکول قابل بچوں کے نمایاں کامیابیوں کا کریڈٹ خود لیتی ہیں ۔قابل بچوں کو سکالرشپ فراہم کرکے بورڈز کے امتحانات میں نمایاں پوزیشز حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ داخلے حاصل کرکے زیادہ پیسے حاصل کرتے ہیں ۔ہمارے صوبے میں ایک دو ایسے کالجز ہیں جو ہمیشہ نمایاں اور ممتاز رہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ صوبے کے کریم کو داخلے دیکر اکٹھے کرتے ہیں ۔میرا بیٹا ،بیٹی کی نسبت زیادہ قابل نہیں ہے حالانکہ اسے تو ابتدا میں اچھے سکول میں داخل کیا گیا تھا۔اصل کمال سکول یا استاد کا نہیں ہوتا۔اصل کمال طالب علم کا ہوتا ہے اگر وہ ذہنی طور پر قابل اور محنتی ہو تو وہ کسی بھی ادارے سے پڑھ کر آگے بڑھ سکتا ہے اور نمایاں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ہمارا بچا یا بچی جب اعلی کامیابی حاصل کرتا ہے تو ہم سکول یا استاد کی تعریف کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے بچے کی خوبیوں سے صرف نظر کرتے ہیں ۔یہ میرے تھیسز ہے۔میرا تجربہ ہے اور اس سے متعلق شواہد بھی اپنے مضمون میں آپ کی خدمت میں پیش کی ہے ۔اگر آپ کا تجربہ یا موقف اس سے مختلف ہو تو شواہد اور دلائل سے اسے پیش کرنے کا آپ کو پورا پورا حق حاصل ہے۔دل میں بات رکھنے کے بجاۓ اسے یہاں کمنٹس میں پیش کرکے تعلیمی بہتری میں اپنا کردار ادا کرے ۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

اپنی صلاحیت اور خوبی کو پہچانیے۔ اسے اپنے اندر تلاش کیجیے۔اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز یا انسان بیکار پیدا نہیں کیا۔ ہر ایک ک...
16/06/2025

اپنی صلاحیت اور خوبی کو پہچانیے۔ اسے اپنے اندر تلاش کیجیے۔
اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز یا انسان بیکار پیدا نہیں کیا۔ ہر ایک کی اپنی جگہ اور اہمیت ہے۔ اپنے آپ کو کم تر یا غیر اہم نہ سمجھیں۔ آپ وہ پرزہ ہیں جس کے بغیر مشین اسٹارٹ نہیں ہوتی۔
آپ اپنے آپ، اپنے خاندان، اور معاشرے کی ضرورت ہیں۔
اپنے شوق، مشغلے، اور ترجیحات کو پہچانیے۔
سوچیے:
آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
آپ کا مقصد کیا ہے؟
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟
آپ زندگی کے کس میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ہم سب کو اپنے آپ سے ضرور پوچھنے چاہییں۔
جب آپ اپنے مقاصد اور ترجیحات کو جان لیں، تو ان کے حصول کے لیے محنت اور جدوجہد کا مرحلہ آتا ہے، جو ظاہر ہے کہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
مسلسل محنت بچوں کا کھیل نہیں، کیونکہ جب آپ غیر معمولی کامیابی اور منفرد مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو محنت بھی غیر معمولی کرنا پڑتی ہے۔

ہمت نہیں ہارنی، دل بڑا کرنا ہے، اور اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں موجود رکاوٹوں سے بچ کر آگے بڑھنا ہے۔
ہر انسان بہت کچھ — یا کچھ نہ کچھ بڑا — ضرور کر سکتا ہے، اگر وہ کرنا چاہے۔
اور اگر وہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے آپ کو تباہ کر دیا، اور اپنے ٹیلنٹ کو ضائع کر دیا۔

انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے:
"Something is better than nothing."
ہم کچھ نہ کچھ اہم اور منفرد کر سکتے ہیں — اس کے لیے صرف تھوڑا سوچنے اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔

ہم اکثر کہتے ہیں کہ "فلاں نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا"، تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
یقیناً ہم بھی کر سکتے ہیں، مگر صرف خالی خولی نعروں سے کچھ نہیں ہوتا — جیسا کہ یوٹیوبر جنرل مبین نے اپنے ایک ویڈیو میں کہا کہ:
"اگر امریکہ یہ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟"

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ محنت ضروری ہے۔
آپ واقعی بہت کچھ کر سکتے ہیں، مگر اس سے پہلے آپ کو:

اپنی صلاحیت پہچاننی ہے

اپنے مواقع اور چیلنجز دیکھنے ہیں

اور عزم و ہمت کے ساتھ محنت کرنی ہے۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

Address

Charsadda

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Irfan jan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share