Irfan jan

Irfan jan Digital creator

ہمارے ہاں ایسے اساتذہ کی کمی ہے جو محبت اور شفقت سے سبق پڑھاتے اور ہنر سکھاتے ہوں۔ زیادہ تر ہماری زندگی میں وہی آئے جنہو...
21/09/2025

ہمارے ہاں ایسے اساتذہ کی کمی ہے جو محبت اور شفقت سے سبق پڑھاتے اور ہنر سکھاتے ہوں۔ زیادہ تر ہماری زندگی میں وہی آئے جنہوں نے ہمیں ڈنڈے سے مارا، ہم پر چیخے چلائے، ہمیں شناخت اور پہچان نہ دی، ہماری رہنمائی نہ کی، شاباش نہ دی، حوصلہ افزائی نہ کی اور ہمارے اندر کی صلاحیت اور قابلیت کو پہچان کر انہیں اجاگر کرنے میں کوئی مدد نہ کی۔ ان کی دلچسپی بس اپنی تنخواہوں تک محدود تھی۔

بلا جھجک کہتا ہوں کہ مجھے تعلیمی زندگی میں کسی استاد نے متاثر نہیں کیا۔ میں اساتذہ کی برائی نہیں کر رہا بلکہ اپنے احساسات کا اظہار کر رہا ہوں، اور ہر ایک کو اپنے تجربات شیئر کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے کامیاب لوگ اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے استادوں کو دیں، لیکن میرا تجربہ اس سے مختلف ہے۔

جب لوگ اساتذہ کے ادب اور عزت پر زور دیتے تو مجھے اس بات کی اہمیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میں بس اپنی پسند کے چھوٹے موٹے کتابوں، رسالوں، ڈائجسٹوں اور اخباری کالموں میں غرق رہتا۔ کبھی ناول پڑھتا، کبھی افسانے، لیکن زیادہ تر اردو کالم۔ اب کئی سالوں سے صرف کالموں کا سلسلہ جاری ہے؛ پڑھتا بھی ہوں اور لکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔

اب مجھے اچھی طرح استاد کی اہمیت اور قدر کا اندازہ ہوا ہے۔ جن کالم نگاروں کو میں پڑھتا ہوں ان میں عطا الحق قاسمی، اظہار الحق، ایاز امیر، رٴؤف کلاسرا، جاوید چودھری، یاسر پیرزادہ، حامد میر، سید جاوید، مریم گیلانی اور مظہر برلاس شامل ہیں۔ ان سے میں نے سیاست، معاشرت اور زندگی کے چند بنیادی اسباق سیکھے ہیں۔

ہمیں صرف سیکھ کر اس پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ اسے اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہیے۔ سب سے بڑا استاد وہ ہے جو اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرے، اصولوں پر کاربند رہے، شاگرد کو شفقت دے اور اپنا علم و فن ایمانداری سے منتقل کرے۔ ایسے اساتذہ اپنے شاگردوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

مار کے بجائے پیار کے ذریعے ہم ایک خوبصورت ماحول تخلیق کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں اساتذہ کو یہ گلہ نہیں ہوگا کہ طلبہ ان کی عزت نہیں کرتے اور معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ استاد واقعی معمار اور محسن ہے، اگر وہ ایمانداری سے اپنا فرض ادا کرے۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

غنی خان روڈ واقعہ: ملزمان کی ضمانت میں 27 ستمبر تک توسیعچارسدہ ; 22 اگست کو غنی خان روڈ پر پیش آنے والے واقعے کے مقدمے م...
20/09/2025

غنی خان روڈ واقعہ: ملزمان کی ضمانت میں 27 ستمبر تک توسیع

چارسدہ ; 22 اگست کو غنی خان روڈ پر پیش آنے والے واقعے کے مقدمے میں عدالت نے ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری میں 27 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو ہدایت کی ہے کہ وہ سات دن کے اندر تفتیش مکمل کرے۔

تفصیلات کے مطابق آج ایڈیشنل سیشن جج چارسدہ جناب اکبر علی کی عدالت میں سابق ایس ایچ او تھانہ سٹی بہرہ مند شاہ کی مدعیت میں درج مقدمہ زیرِ سماعت آیا۔ یہ مقدمہ دفعہ 324 کے تحت درج ہے۔ ملزمان اپنے وکلاء کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ ملزمان کی پیروی ایڈووکیٹس فراز خان، مجیب خان اور جواد خان نے کی۔

سماعت کے دوران چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء اور پبلک کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ اگلی سماعت پر زخمی پولیس اہلکاروں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

دوسری جانب عاصم شاہ قتل کیس میں نامزد سابق ایس ایچ او بہرہ مند شاہ آج بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے ضمانت کے لیے رجوع کیا۔ یاد رہے کہ 22 اگست کے واقعے میں ایک نوجوان عاصم شاہ جاں بحق جبکہ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

واقعے کے بعد دو الگ الگ ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں۔ عاصم شاہ کے ورثاء نے ایف آئی آر میں سابق ایس ایچ او بہرہ مند شاہ کو قتل کا ذمہ دار قرار دیا تھا، جبکہ پولیس کی جانب سے عاصم شاہ کے اہلخانہ اور ایوب نامی شخص پر عاصم کے قتل اور دو اہلکاروں کو زخمی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ فی الوقت عاصم کے اہلخانہ ضمانت پر ہیں، تاہم سابق ایس ایچ او بہرہ مند شاہ نے ابھی تک عدالت سے رجوع نہیں کیا۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

عالم زیب خان ایڈووکیٹ چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے مایہ ناز، نامور اور تجربہ کار فوجداری وکیل ہیں۔آپ نے ایل۔ایل۔بی، ایل۔ایل...
18/09/2025

عالم زیب خان ایڈووکیٹ چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے مایہ ناز، نامور اور تجربہ کار فوجداری وکیل ہیں۔
آپ نے ایل۔ایل۔بی، ایل۔ایل۔ایم (گولڈ میڈلسٹ) اور ایم۔اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ آپ نے 2010 میں چارسدہ سے عملی وکالت کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وکالت کے میدان میں ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے، اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آپ نے اپنی محنت، لگن اور قابلیت سے بہت کم عرصے میں وکالت کے میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔

میں نے انہیں محنتی، قابل، فرض شناس، ایماندار، سمجھ دار اور خوش مزاج انسان پایا۔
انسان ایک دن میں کامیاب نہیں بنتا، بلکہ اس کی بنیاد بہت پہلے رکھی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے، جب ہم پہلی بار گلیات کی سیر پر گئے تھے، کئی دوستوں کی خواہش تھی کہ پی سی بھوربن جایا جائے، لیکن کوئی بھی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ عالم زیب خان آگے بڑھے اور اس وقت کے صدر، جناب وارث خان صاحب مرحوم، سے بات کی اور انہیں اپنے مؤقف پر قائل کیا۔

اسی طرح مری کے ایک ٹور کے دوران جب انتظامیہ سے کچھ اختلافات پیدا ہوئے تو وہاں بھی عالم زیب خان فرنٹ لائن پر آ کر قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے مؤقف پر ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک پُراعتماد شخصیت کے مالک ہیں اور ان میں حقیقی لیڈرشپ کی خصوصیات موجود ہیں۔

کسی بھی شخص میں موجود خوبیاں سب سے پہلے پہچانی جانی چاہئیں، پھر اُنہیں نکھارنا چاہیے تاکہ ان کا فائدہ نہ صرف اس شخص کو بلکہ معاشرے کو بھی ہو۔ عالم زیب خان میں موجود صلاحیتوں نے نہ صرف ان کی وکالت میں بلکہ بار سیاست میں بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

آپ ایک بار چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے پریس سیکریٹری اور تین بار جنرل سیکریٹری کے عہدے پر منتخب ہو چکے ہیں۔ آپ اتنے فعال اور متحرک ہیں کہ ان کے خلاف الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ آپ جونیئر اور سینئر وکلاء میں یکساں مقبول ہیں۔

آپ چارسدہ بار ایسوسی ایشن کا تابندہ ستارہ اور توانا آواز ہیں، جو بار اور عدالت دونوں میں اپنے مؤثر اندازِ بیان اور مضبوط دلائل سے اپنے مؤقف کو بھرپور انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بار ایسوسی ایشن کے لیے آپ کی خدمات قابلِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہیں۔

آپ ایک ہمدرد، معاون، دیندار، منکسر المزاج اور خوش طبع انسان ہیں۔
عرض یہ ہے کہ آپ وکالت اور بار سیاست دونوں میں ایک نمایاں اور مؤثر کردار کے حامل ہیں۔

بعض لوگ اپنی محنت، قابلیت، خوش اخلاقی، خوش مزاجی اور پُرکشش شخصیت کے باعث مرکزِ نگاہ بن جاتے ہیں۔ عالم زیب خان ایڈووکیٹ ان ہی میں سے ایک ہیں۔
عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

کچھ لوگ صرف منفی سوچتے اور منفی بولتے ہیں۔ انہیں کبھی مثبت اور بہتر سوچنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ انہیں کہیں بھی کوئی اچھائی...
16/09/2025

کچھ لوگ صرف منفی سوچتے اور منفی بولتے ہیں۔ انہیں کبھی مثبت اور بہتر سوچنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ انہیں کہیں بھی کوئی اچھائی نظر نہیں آتی۔ انہیں اپنے سوا سب برے لگتے ہیں۔ غیبت، بدزبانی، بدکلامی اور بدگمانی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ انہیں اپنے اردگرد صرف برائی اور بدصورتی نظر آتی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خوبصورتی دیکھنے سے محروم کر رکھا ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ اندھے ہوتے ہیں۔ اپنی تربیت اور برے ماحول کی وجہ سے انہیں سب لوگ برے، لالچی اور منافق نظر آتے ہیں، اور یہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ دوسروں کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اپنے اندر موجود پہاڑ جیسے بڑے اور نمایاں عیوب کو نہیں دیکھ پاتے۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے: "آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل"۔

ایسے ہی ایک دوست نے مجھ پر اعتراض کیا کہ:
"یار، تم صرف لوگوں کی تعریف کرتے ہو، برائیاں بھی بیان کیا کرو۔"
میرا انہیں جواب یہ ہوتا ہے کہ:
"میں جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں، وہی لکھتا ہوں۔ میں پبلک فگرز پر نہیں بلکہ اپنے اردگرد کے عام کرداروں پر لکھتا ہوں، اور ایسے افراد کے نام لے کر ان کی خامیاں بیان کرنا نہایت نامناسب ہے۔ اس سے وہ ناراض بھی ہوں گے، اور برائی لکھنے سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔"

چھوٹی سی اچھائی اور نیکی کی تعریف سے انسان خوش ہوتا ہے اور حوصلہ افزائی ملتی ہے۔ معاشرہ ویسے ہی برائیوں اور مایوسیوں سے بھرا پڑا ہے، تو میں کیوں اس میں مزید اضافہ کروں؟
البتہ، کبھی کبھار برے اور منفی لوگوں کے کردار پر کلہاڑی ضرور چلاتا ہوں تاکہ دوسرے لوگ ان سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اعمال و سوچ پر نظرِ ثانی کریں۔

میں نے مثبت لوگوں سے سیکھ کر اپنی اصلاح کی، اور برے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کی۔ عزت، خدمت میں ہے۔
میں نے منفی سوچ کے حامل لوگوں کو کبھی آگے بڑھتے نہیں دیکھا۔

— عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

گل رحمان: چارسدہ بار کا مخلص ساتھیہمارے چارسدہ بار ایسوسی ایشن کا اگر کوئی خاموش خادم ہے، تو وہ گل رحمان ہے۔ گزشتہ چالیس...
13/09/2025

گل رحمان: چارسدہ بار کا مخلص ساتھی

ہمارے چارسدہ بار ایسوسی ایشن کا اگر کوئی خاموش خادم ہے، تو وہ گل رحمان ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں سے وہ بار کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور بار کے ہر ممبر کے لیے محبت، خدمت اور خلوص کا استعارہ بن چکا ہے۔

گل رحمان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ بار کو صرف دفتر نہیں سمجھتا بلکہ اسے اپنا گھر مانتا ہے۔ اسی لیے وہ اس گھر کے ہر فرد کو اپنا جانتا ہے۔ کسی وکیل کی خوشی ہو یا غم، وہ وہاں موجود ہوتا ہے۔ کبھی فاتحہ خوانی میں خاموشی سے دعا کرتے ہوئے اور کبھی شادی بیاہ میں دل کھول کر خدمت کرتے ہوئے.وہ قلیل تنخواہ میں صبح سے عصر تک بار ایسوسی ایشن کے کاموں میں جتا رہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نوکر نہیں یہاں کا فرد سمجھتا ہوں اور گھر کے تعمیر و ترقی میں اپنے حصے کا کام دل و جان سے زندگی کی آخری سانس تک کرتا رہونگا۔

وہ چھوٹوں سے محبت کرتا ہے اور بڑوں کی عزت میں کمی نہیں آنے دیتا۔ اس کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے اور وہ بار کے ہر رکن کو نام سے جانتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ ہر کسی کے ساتھ گپ شپ لگاتا ہے، اس طرح جیسے برسوں پرانی رفاقت ہو۔

جب بار کسی مشکل یا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو گل رحمان سب سے آگے نظر آتا ہے۔ مشکلات میں ساتھ دینا اور خوشیوں میں خوش ہونا، یہ اس کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ یہی خلوص اور یہی محنت ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے بار کا پولیس سے تنازعہ پیدا ہوا تھا تو ہم نے لوکل پولیس کی سکیورٹی لینے سے انکار کیا تو گل رحمان نے آگے بڑھ کر اپنے کندھے پر بندوق رکھ کر کچہری کے گیٹ پر کھڑے ہو کر سکیورٹی کی زمہ داری سنبھالی۔ وکلاء جب ٹور پر جاتے ہیں تو گل رحمان کو ضرور ساتھ لیکر جاتے ہیں ۔یہ وہاں بھی ان کے خوب خدمت کرتے ہیں اور جب میوزک کا دور چلتا ہے تو روایتی رقص سے میدان گرم کرنے میں بھی سب سے آگے ہوتا ہے ۔یہ ایک خدمت گزار ،تابعدار اور خوش مزاج انسان ہے۔ان کے اچھے اخلاق اور بہترین مزاج کی وجہ سے چھوٹے بڑے ان کی قدر کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں ۔

گل رحمان کی زندگی کا مقصد شاید یہی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک نوکر نہیں بلکہ ایک ساتھی، ایک محبّت کرنے والا بھائی اور بار ایسوسی ایشن کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔میں نے چارسدہ کے وکیلوں،کئی منشیوں اور دیگر پر لکھا لیکن گل رحمان جیسے مخلص انسان کی خدمات کے بارے میں کئی دنوں سے لکھنا چاہتا تھا لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں سے شروع کرو اور کہاں پر ختم کروں۔ان کی خود بھی خوائش تھی کہ ان کے بارے میں چند سطور لکھ کر ریکارڈ کا حصہ بناوں۔مجھے خوشی ہے کہ میں نے یہ فریضہ ادا کیا ۔گل رحمان لالا سے درخواست ہے کہ گل دستہ محبت قبول کریں۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

میں ہمیشہ اندر کی آواز کو سننے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ جو آواز اندر سے نکلتی ہے وہ سچ ہوتی ہے۔ اس میں غلطی کا احتمال نہی...
12/09/2025

میں ہمیشہ اندر کی آواز کو سننے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ جو آواز اندر سے نکلتی ہے وہ سچ ہوتی ہے۔ اس میں غلطی کا احتمال نہیں ہوتا، اس میں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہوتی، بناوٹ اور میک اپ نہیں ہوتا، اس میں اداکاری نہیں ہوتی۔ میں دل سے لکھتا ہوں اور قارئین کے لیے پیش کرتا ہوں۔ جو بات دل و دماغ میں نہ ہو، وہ نہیں لکھتا کیونکہ وہ سچ پر نہیں بلکہ بناوٹ اور جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔
کسی نے درست کہا ہے کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔ سادگی کے ساتھ اپنا مدعا رکھتا ہوں۔ کوئی پسند کریں تو ان کا بھی بھلا اور جو پسند نہ کریں ان کا بھی بھلا، کیونکہ جس طرح مجھے لکھنے کا حق حاصل ہے، اسی طرح پڑھنے والوں کو پسند اور ناپسند کا حق و اختیار حاصل ہے۔

میرا بیٹا، جس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا، کہہ رہا تھا کہ وہ بھی کچھ نہ کچھ ٹک ٹاک پر پیش کرنا چاہتا ہے۔
میرا اسے جواب تھا: پہلے چیز پیش مت کرو، پہلے سیکھو اور سمجھو کہ تم کیا پیش کر سکتے ہو۔ اپنی صلاحیت کو پہچانو اور تلاش کرو۔ اگر تمہارے اندر کسی چیز کی صلاحیت نہ ہو، تو صرف موبائل فون کی سہولت کے بدولت پیشکش مؤثر، قابلِ توجہ اور پُرکشش نہیں ہوگی۔

صلاحیت کو پہچاننے، تلاش کرنے اور اسے نکھارنے میں سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا تو یہی تجربہ ہے۔
میں نے سیکھا کہ جب تک میرا دل و دماغ کسی معاملے پر پوری طرح مطمئن نہ ہو، میں وہ چیز صرف شہرت کے حصول اور زیادہ لائکس کے لیے پیش نہیں کرتا، کیونکہ اس میں پھر وہ جان اور کشش نہیں ہوتی جو اچھی پیشکش کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ اسی لیے وہی پہلی والی بات: کہ جب تک دل و دماغ سے بات نہ نکلے، نہیں لکھتا۔
ہم سب کو دل و دماغ سے کام کرنا چاہیے۔

مضمون ختم کر چکا تھا کہ فضل خالق ایڈووکیٹ تشریف لائے اور پوچھنے لگے: "اتنی لکھائی کے تو بہت پیسے ملتے ہوں گے؟"
میں نے کہا: "پیسے تو نہیں ملتے، البتہ آپ جیسے دوستوں اور پڑھنے والوں کی محبت ضرور ملتی ہے۔ اگر ساتھ پیسے بھی ملنے لگیں تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی۔ لیکن اگر نہ بھی ملیں تو ایک دوسرا محاورہ ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا، اور جب ہمارے کام میں شوق اور محبت شامل ہو جائے تو کامیابی یقینی ہے۔"

والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو کسی خاص پروفیشن کے لیے مجبور نہ کریں، بلکہ ان کی صلاحیت اور شوق کو تلاش کریں اور انہیں اسی راستے پر ڈال دیں۔ محنت اور بہتر فیصلے ہم کریں گے اور برکت اللہ ڈالے گا۔
رزق دینے والا بھی وہی ذات ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔

میرے استادِ محترم جناب جاوید چوہدری فرمایا کرتے ہیں کہ جب مجھ سے کوئی پوچھے کہ ہم کیا کریں؟
تو میں ان سے کہتا ہوں: آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اور سب سے بہتر اور اچھی طرح آپ کیا کر سکتے ہیں؟ یعنی ان کے سوال میں ہی ان کا جواب ہوتا ہے۔

ہمارے جونیئر وکیل بھی شروع کے دنوں میں کام سیکھنے پر فوکس کرنے کے بجائے پیسے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ پہلے اپنے کام میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔
جب آپ لوگوں کی ضرورت بن جائیں گے، تو پھر وہ دل کھول کر آپ کو فیس دیں گے اور آپ پر اندھا اعتماد کریں گے۔

میں اکثر جب دفتروں اور کام کی جگہوں پر سرکاری ملازمین کو بے دلی سے کام کرتے دیکھتا ہوں تو ان کی مراعات سے بھرپور نوکری سے متاثر نہیں ہوتا، کیونکہ میرا خیال ہے کہ جن کو کام کا شوق نہ ہو، وہ قابلِ تعریف نہیں ہیں اور نہ ہی وہ زندگی میں ترقی کر سکتے ہیں۔
جو لوگ شوق سے کام کرتے ہیں، وہ عزت اور ترقی پاتے ہیں، اور سب ان کے محتاج ہوتے ہیں۔ محنت کرنے والوں سے انسپائریشن لی جاتی ہے اور کاہل لوگوں سے عبرت حاصل کی جاتی ہے۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

سوچی نہ بری سوچ کبھی ان کے لیے بھیپیوستہ میرے دل میں جو تیروں کی  طرح تھے
12/09/2025

سوچی نہ بری سوچ کبھی ان کے لیے بھی
پیوستہ میرے دل میں جو تیروں کی
طرح تھے

محمد ایاز ایڈووکیٹ  ایک سنجیدہ، بااخلاق اور شائستہ انسان ہیں۔ وہ فضل مقیم ایڈوکیٹ جیسے نیک سیرت اور معتبر شخصیت کے قریبی...
11/09/2025

محمد ایاز ایڈووکیٹ ایک سنجیدہ، بااخلاق اور شائستہ انسان ہیں۔ وہ فضل مقیم ایڈوکیٹ جیسے نیک سیرت اور معتبر شخصیت کے قریبی دوست ہیں، اور عبدالرحمٰن ایڈوکیٹ جیسے کہنہ مشق وکیل کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے؛ اگر کسی کو براہ راست نہ بھی جانتے ہوں، تو اس کے دوستوں کو دیکھ کر اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کے ساتھی باشعور، دیانت دار اور باکردار ہوں تو عموماً وہ خود بھی انہی صفات کا حامل ہوتا ہے۔

ایاز ایڈوکیٹ خاموش طبع، سنجیدہ مزاج اور ہمہ وقت اپنے کام میں مشغول رہنے والے انسان ہیں۔ وہ چارسدہ بار ایسوسی ایشن کے ایک فعال، معزز اور قابل احترام رکن ہیں۔ ایک اچھے وکیل کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنے مؤکل کا مقدمہ پوری دیانت داری اور ایمانداری سے لڑے، عدالت اور مؤکل دونوں کے ساتھ سچائی پر مبنی رویہ اختیار کرے، اور اپنے پیشے کو محض روزگار اور کمائی کا ذریعہ سمجھنے کے بجاۓ اس کے اعلی اقدار پر عمل پیرا ہو۔

محمد ایاز ایڈوکیٹ کو میں نے انہی صفات کا حامل پایا۔ ان کی سب سے نمایاں خوبی ان کا اعلیٰ اخلاق، سچائی سے وابستگی، اور دوسروں کو عزت دینا ہے — اور یہی خوبیاں کسی بھی انسان کو دوسروں سے نمایاں اور بہتر بناتی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ایاز ایڈوکیٹ کو مزید کامیابی حاصل کریں۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

10/09/2025

جی میں آتا ہے کچھ کہوں ناصر
کیا خبر سن کے کیا کہے کوئی

وٹس ایپ کے ایک گروپ میں ہمارے ہائی اسکول چارسدہ خاص کے قرات کے استاد، جناب عارف صاحب کے بارے میں ان کے فرزند قاری حافظ م...
09/09/2025

وٹس ایپ کے ایک گروپ میں ہمارے ہائی اسکول چارسدہ خاص کے قرات کے استاد، جناب عارف صاحب کے بارے میں ان کے فرزند قاری حافظ منظور صاحب کا ایک مختصر مضمون پڑھا۔ مضمون پڑھ کر دل میں خیال آیا کہ میں بھی ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کروں اور آپ سے شیئر کروں کہ ہم نے زمانۂ طالب علمی میں انہیں بطور استاد کیسا پایا۔ شاید میرے اس اظہار کے بعد دیگر لوگ بھی ان کے بارے میں بات کریں، جنہوں نے عارف صاحب سے پڑھا اور سیکھا۔

عارف صاحب ایک دیندار، سمجھ دار، نرم خو اور ہنس مکھ انسان تھے۔ آپ خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ اگر ایک طرف آپ سنجیدہ مزاج تھے تو دوسری طرف خوش طبع بھی تھے، اور ہر وقت خوبصورت چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سجاتے رہتے تھے۔

عارف صاحب ہمیں قرأت اور ناظرہ قرآن پڑھاتے تھے۔ کلاس میں آ کر سب سے پہلے پہلی قطار میں بیٹھے طالب علموں سے ہنسی مذاق کرتے، اور ان کے پیریڈ میں ہم ریلیکس محسوس کرتے تھے۔ ہم نے کبھی انہیں کسی طالب علم پر غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ وہ کبھی ڈنڈے کا استعمال نہیں کرتے تھے، اور اپنے تجربے کی روشنی میں ہم نوجوانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ آپ ایک خوش اخلاق انسان تھے، اور خوش اخلاق لوگوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے دین میں بھی اخلاق کی بہتری پر زور دیا گیا ہے۔

ان کے مضمون (یعنی قرأت و ناظرہ) میں زیادہ محنت اور مشقت نہیں کرنی پڑتی تھی، اس لیے نہ انہیں ہمیں پڑھانے میں زیادہ زحمت ہوتی، اور نہ ہمیں سیکھنے میں۔ اور ویسے بھی وہ طالب علم ہی کیا جو پڑھائی میں دلچسپی لے۔

عارف صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ڈرائنگ ماسٹر تحمید اللہ صاحب کے نہایت قریبی اور جگری دوست تھے۔ وہ دونوں ہر وقت ایک ساتھ نظر آتے تھے۔

ایک فرزند نے اپنے والد سے مضمون کے ذریعے محبت کا اظہار کیا ہے۔ والد کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمیشہ اپنے خاندان کے لیے فرنٹ لائن پر ہوتا ہے۔ اس کی صرف ایک خواہش ہوتی ہے: بچوں کی کامیابی۔ جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں، انہیں اس کمی اور کرب کا سب سے زیادہ احساس ہوتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں، اور جن کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں، انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

اللہ تعالیٰ عارف صاحب سمیت ہم سب کے والدین پر رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔

عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

08/09/2025

چارسدہ: غنی خان روڈ پر نوجوان کے قتل کیس میں ایس ایچ او عدالت میں پیش نہ ہوا، مقتول کے ورثاء کی ضمانت میں توسیع

چارسدہ کے علاقے غنی خان روڈ پر پیش آنے والے نوجوان عاصم کے قتل کے مقدمے میں نامزد ایس ایچ او بہرہ مند شاہ اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے مقررہ تاریخ پر عدالت میں پیش نہ ہوا۔

واقعہ 22 اگست کو میاں محسن شاہ کے حجرے کے سامنے پیش آیا تھا، جس میں ایس ایچ او بہرہ مند شاہ پر فائرنگ سے عاصم کی موت واقع ہونے کا الزام ہے۔ پولیس نے اسی واقعے میں دو اہلکاروں کے زخمی ہونے کا مقدمہ بھی درج کر رکھا ہے۔

دوسری جانب مقتول عاصم کے رشتہ داروں پر پولیس پر حملے اور سپاہیوں کو زخمی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، جس میں ان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی گئی تھی۔ عدالت نے اس ضمانت میں 13 ستمبر تک توسیع کر دی ہے۔

واقعے نے علاقے میں شدید کشیدگی پیدا کر دی ہے اور عوامی حلقوں میں انصاف کی فراہمی کے مطالبے زور پکڑ گئے ہیں۔ کیس کی آئندہ سماعت میں ایس ایچ او کی پیشی متوقع ہے۔
عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ

Address

Charsadda

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Irfan jan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share