
21/09/2025
ہمارے ہاں ایسے اساتذہ کی کمی ہے جو محبت اور شفقت سے سبق پڑھاتے اور ہنر سکھاتے ہوں۔ زیادہ تر ہماری زندگی میں وہی آئے جنہوں نے ہمیں ڈنڈے سے مارا، ہم پر چیخے چلائے، ہمیں شناخت اور پہچان نہ دی، ہماری رہنمائی نہ کی، شاباش نہ دی، حوصلہ افزائی نہ کی اور ہمارے اندر کی صلاحیت اور قابلیت کو پہچان کر انہیں اجاگر کرنے میں کوئی مدد نہ کی۔ ان کی دلچسپی بس اپنی تنخواہوں تک محدود تھی۔
بلا جھجک کہتا ہوں کہ مجھے تعلیمی زندگی میں کسی استاد نے متاثر نہیں کیا۔ میں اساتذہ کی برائی نہیں کر رہا بلکہ اپنے احساسات کا اظہار کر رہا ہوں، اور ہر ایک کو اپنے تجربات شیئر کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے کامیاب لوگ اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے استادوں کو دیں، لیکن میرا تجربہ اس سے مختلف ہے۔
جب لوگ اساتذہ کے ادب اور عزت پر زور دیتے تو مجھے اس بات کی اہمیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میں بس اپنی پسند کے چھوٹے موٹے کتابوں، رسالوں، ڈائجسٹوں اور اخباری کالموں میں غرق رہتا۔ کبھی ناول پڑھتا، کبھی افسانے، لیکن زیادہ تر اردو کالم۔ اب کئی سالوں سے صرف کالموں کا سلسلہ جاری ہے؛ پڑھتا بھی ہوں اور لکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔
اب مجھے اچھی طرح استاد کی اہمیت اور قدر کا اندازہ ہوا ہے۔ جن کالم نگاروں کو میں پڑھتا ہوں ان میں عطا الحق قاسمی، اظہار الحق، ایاز امیر، رٴؤف کلاسرا، جاوید چودھری، یاسر پیرزادہ، حامد میر، سید جاوید، مریم گیلانی اور مظہر برلاس شامل ہیں۔ ان سے میں نے سیاست، معاشرت اور زندگی کے چند بنیادی اسباق سیکھے ہیں۔
ہمیں صرف سیکھ کر اس پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ اسے اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہیے۔ سب سے بڑا استاد وہ ہے جو اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرے، اصولوں پر کاربند رہے، شاگرد کو شفقت دے اور اپنا علم و فن ایمانداری سے منتقل کرے۔ ایسے اساتذہ اپنے شاگردوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
مار کے بجائے پیار کے ذریعے ہم ایک خوبصورت ماحول تخلیق کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں اساتذہ کو یہ گلہ نہیں ہوگا کہ طلبہ ان کی عزت نہیں کرتے اور معاشرہ تباہ ہو رہا ہے۔ استاد واقعی معمار اور محسن ہے، اگر وہ ایمانداری سے اپنا فرض ادا کرے۔
عرفان اللہ جان ایڈووکیٹ