
05/03/2025
استعفراللہ
بہت افسوسناک خبر ہے😭😭😭
افطار کی میز اور بکھرتی زندگیاں
بنوں میں، سورج ڈھلنے کے قریب تھا۔ روزے داروں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ گھروں میں افطار کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ بچے بے صبری سے کبھی دسترخوان کے گرد بیٹھتے، کبھی کھڑکیوں سے باہر جھانکتے، جیسے وقت کو تیز چلنے پر مجبور کرنا چاہتے ہوں۔
"امی! آج پکوڑے زیادہ بنائیں گے نا؟" آٹھ سالہ احسان نے ماں سے ضد کی۔
"ہاں بیٹا، تمہارے ابو بھی تمہارے پسندیدہ سموسے لے کر آ رہے ہیں۔" ماں نے مسکرا کر جواب دیا اور چولہے پر چمچ چلانے لگی۔
کچھ ہی فاصلے پر ایک اور گھر میں چھوٹی عائشہ اپنی بہن کے ساتھ افطار کے لئے پلیٹیں لگا رہی تھی۔ "با جی، میرے لیے کھجور رکھنا، میں روزہ کھجور سے ہی کھولوں گی، جیسے ابو کہتے ہیں۔"
ان سب گھروں میں ایک جیسے مناظر تھے۔ کہیں کوئی بچہ شربت کا جگ بھر رہا تھا، کہیں ماں چمچ چلا رہی تھی، کہیں والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرنے میں مصروف تھے۔
اور پھر...
زمین ہل گئی۔
پہلا دھماکہ ہوا تو ایسا لگا جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ چیخوں کی گونج فضا میں پھیل گئی۔ دیواریں گرنے لگیں، چھتیں زمین بوس ہو گئیں، شیشے چٹخ کر جسموں میں پیوست ہو گئے۔ ابھی کوئی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ دوسرا دھماکہ ہوا۔
"امی!!"
"ابو!!"
"میری بہن کہاں ہے؟"
دسترخوان الٹ چکے تھے۔ شربت کے جگ زمین پر بکھر چکے تھے۔ پکوڑوں کی خوشبو خون اور دھوئیں کی بدبو میں دب چکی تھی۔ وہ ہاتھ جو افطار کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے، اب زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ جو ہنسی خوشی ایک ساتھ بیٹھے تھے، اب کوئی لاپتہ تھا، کوئی ملبے تلے دبا تھا، کوئی خاموش تھا... ہمیشہ کے لیے۔
احسان کا باپ، جو اس کے لیے سموسے لے کر آ رہا تھا، شاید اب کبھی دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔ عائشہ، جو کھجور سے روزہ کھولنے کے خواب دیکھ رہی تھی، اب بے جان زمین پر پڑی تھی، اس کی آنکھیں ابھی بھی دروازے پر جمی تھیں جیسے ابو کے انتظار میں ہوں۔
یہ کیسا وقت تھا؟ یہ کیسی قیامت تھی؟ یہ کس جرم کی سزا تھی؟
جو بچے خوشی خوشی اپنی پسندیدہ چیزیں مانگ رہے تھے، آج وہی چیزیں ان کے تابوتوں کے ساتھ رکھی جا رہی تھیں۔ جو ماں اپنے بچوں کے لیے پکوان بنا رہی تھی، وہ اب خود کفن میں لپٹی جا رہی تھی۔
یہ دھماکہ صرف دیواروں پر نہیں ہوا تھا، یہ دھماکہ ایک قوم کی روح پر ہوا تھا۔ یہ وہ زخم تھا جو شاید کبھی نہ بھرے۔