08/09/2025
"بغض چلاس کا کیڑا کاٹ رہا ہے"
گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کے باسیوں کو لوگ عموماً لوگ لفظ "چلاسی" سے پکارتے ہیں اور آج کل اس لفظ کا سوشل میڈیا پر چرچا چل رہا ہے۔ چلاسی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد چلاسیوں کے حوالے سے اپنے علم کے مطابق تمام تر کوششیں کرتے ہوئے منفی تاثرات پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر برائیوں کا جڑ چلاس ہے۔ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع ان برائیوں سے بری ہیں اور اگر برائیاں موجود بھی ہیں تو وہاں کے باشعور عوام کی توہین سمجھتے ہوئے اچھالنے سے عموماً گریزاں رہتے ہیں۔
چلاس میں اللّہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کے ساتھ انسان بستے ہیں۔ اللّہ تعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ دنیا کے تمام انسانوں سے خطاء ممکن ہے۔ ان سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے لیکن انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللّہ تعالیٰ منتخب کیے ہوئے خاص لوگ ہیں۔ ضلع دیامر ایک قبائلی علاقہ ہے اور قبائلی سخت روایات یہاں صدیوں سے قائم ہیں۔ ہر معاشرے کی طرح یہاں بھی اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں اور برے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ برے لوگوں کی برائیاں ظاہر کرکے ان پر تبصرے ہوتے ہیں تو اچھے لوگوں کی اچھائیوں کا تذکرہ بھی کیا جانا چاہئے۔
بحثیت ضلع دیامر کا شہری میں اپنے معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں سے خوب واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ دیامر کے شہری مصیبت یا مشکل میں پھنسے لوگوں کا اپنے سے بڑھ کر خیال رکھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اہلیان دیامر سخاوت کے بے تاج بادشاہ ہیں اور یہ علاقہ مہمان نوازی کا گڑھ ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ چلاسی یہاں اجنبیوں کو اپنوں سے بڑھ اپنائیت کا احساس دلاتے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ کہ حادثات میں چلاسیوں نے رضاکارانہ طور پر لائنوں میں ریسکیو کا عمل سر انجام دیا اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کو بچانے کا ذریعہ بنے۔ دنیا نے دیکھا کہ کہ بابوسر ٹاپ میں مسافر بس حادثے کا شکار ہوتی ہے اور چلاسی لائنوں میں خون عطیہ کرنے ریجنل ہیڈکوارٹر ہسپتال چلاس میں موجود رہتے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ شتیال میں مسافر بس حادثے کا شکار ہوتی ہے اور بے بس زخمیوں کی مدد کرنے دیامر کے قبائلی لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔ میں بخوبی واقف ہوں کہ ہمارے لوگ محب وطن شہری ہیں اور یہاں وطن سے محبت کا عملی ثبوت کا مظاہرہ دیکھا گیا۔ دیامر کی برائیاں گنتی کرنے والے شاید اچھائیاں بیان کرنے کا حس کھو چکے ہیں۔
دیامر ایک قبائلی علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بھر کی طرح دیامر بھی معاشرتی برائیوں کا شکار ہے۔ یہاں بے گناہ لوگوں کا قتل کرنا اور قتل و غارت کا سلسلہ اگلی نسلوں تک منتقل کرنا دیامر کی قبائلی روایت ہے لیکن کیا یہ برائی صرف دیامر میں موجود ہے یا گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع بھی قتل و غارت کی برائیوں میں ملوث ہیں؟ دیامر میں لڑائیاں ہوتی ہیں اور بعض اوقات یہی لڑائیاں قتل کا سبب بنتی ہے جس کا سزا اگلی نسلوں کو بھی کاٹنا پڑتا ہے لیکن کیا لڑائیاں صرف ضلع دیامر میں ہوتی ہیں اور گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں لڑائیوں سے محفوظ ہیں؟
گلگت بلتستان کا ضلع دیامر میں پائے جانے والی معاشرتی برائیوں میں جہاں مقامی برے لوگ ذمہ دار ہیں وہیں حکومت بھی ذمہ دار ہے۔ منصف انصاف فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ حکومتی رٹ کو ہر کوئی چیلنج کرتا ہے کیونکہ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہے۔ دیامر میں لا اینڈ آرڈر کمزور ہے۔ مرکزی شہر میں سرے عام لوگوں کا قتل کرنے والے بھاگنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور سزا کے عمل سے بچ جاتے ہیں۔ مرکزی شہر میں لوگ اسلحہ لے کر گھوم رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ضلع دیامر میں حکومتی رٹ قائم کرنے کے لئے فیسبک کے مایہ ناز دانشور بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی بحالی پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں دیامر سے مخلص ہیں تو ان موضوعات پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟
کوئی بھی معاشرہ مقامی لوگوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاشرے کو اچھا یا برا قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو تعلیم ملے تاکہ لوگ اچھے برے کا تمیز کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ضلع دیامر میں بچوں کو تعلیم دینے کے نام پر دیامر کی مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے۔ متعدد علاقے سکول کی سہولیات سے محروم ہیں۔ بڑی تعداد میں سرکاری اسکولز اساتذہ سے محروم ہیں۔ سرکاری اسکولز کی بڑی تعداد ایک یا دو اساتذہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ فرض کریں کہ جہاں سرکاری اسکولز بھی موجود ہیں اور اساتذہ بھی موجود ہیں تو اساتذہ کی کثیر تعداد اپنے فرائض سر انجام دینے میں کوتاہی اور کام چوری کررہے ہیں۔ سرکاری اسکولز کے اساتذہ کا بچوں کو پڑھانے میں کام چوری، مختلف حیلے بہانوں سے حاضری ڈلوا کر غیر حاضر رہنا ، اسکول میں موجود ہوتے ہوئے بچوں کو نہ پڑھانا اور امتحانات میں بہتر نتائج دکھانے کے لئے بچوں کے پیپرز حل کروانا معمول کا حصہ ہے۔ دیامر سے برائے نام مخلص دانشوروں نے کبھی اس پر بات کیوں نہیں کی جس سے دیامر کا معاشرہ حقیقی معنوں میں دل سکتا ہے؟
صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کا ضلع دیامر تعلیم کی طرح صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ تعلیمی اداروں کی طرح محکمہ صحت کی متعدد ڈسپنسریاں خالی ہیں جہاں عملہ موجود نہیں۔ متعدد ڈسپنسریاں جہاں عملہ موجود ہے لیکن ڈیوٹی دینے سے گریزاں ہیں۔ ضلع دیامر کے دیگر مضافات میں پائی جانے والی ڈسپنسریاں کی زبوں حالی اپنی جگہ مگر ضلع کا سب سے بڑا ریجنل ہیڈکوارٹر ہسپتال چلاس مسائل کا شکار ہوتے آیا ہے۔ ریجنل ہیڈکوارٹر ہسپتال چلاس میں جہاں عملے کی کمی دیکھنے کو ملی وہیں عملے کی غفلت ، کام چوری اور لاپرواہی سے عوام تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ ضلع دیامر سے مخلص فیسبک کے مایہ ناز دانشوروں کا اس بارے میں خاموشی سے واضح ہوتا ہے کہ ضلع دیامر سے آپ مخلص نہیں۔
دیامر میں متعدد بار ایسے واقعات رو نما ہوئے ہیں جس کا گلگت بلتستان بھر کی طرح دیامر کے عوام نے مذمت کی ہے۔ ماضی میں ہڈور کے مقام پر مسافر بس میں بے گناہ مسافروں کا بے دردی سے قتل کیا گیا جس کی دیامر کے شہریوں نے بھر پور مذمت کی اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ حال ہی میں ہڈور کے قریب گلگت بلتستان سکاؤٹس کے جوانوں پر وحشیانہ حملہ کیا گیا جس کی ماضی کی طرح دیامر کے عوام نے بھرپور مذمت کی اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ دیامر عوام کا حقیقی چہرہ دیکھنا ہے تو دیکھو کہ ہڈور کے مقام پر ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر کریش ہوتا ہے اور مقامی لوگ رضاکارانہ طور پر ریسکیو اہلکار بن کر کام کرتے ہیں۔ فائر بریگیڈ بن کر آگ بجھاتے ہیں۔
ضلع دیامر میں آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم کچھ شرپسند عناصر موجود ہیں جو ریاست کے باغی ہیں۔ ان عناصر کے بارے میں حکومت بھی علم رکھتی ہے اور گلگت بلتستان کے عوام بھی بخوبی جانتے ہیں۔ گلگت بلتستان بھر کے عوام کی طرح دیامر عوام نے ان عناصر کی مخالفت کی اور حکومت سے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ مقامی لوگ ان عناصر کیخلاف کاروائی میں ہر قسم کی تعاون فراہم کرنے کا آفر پیش کررہے ہیں۔ اب حکومت اور سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک دشمن اور امن دشمن عناصر کیخلاف گھیرا تنگ کرے اور اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے انہیں عبرتناک سزا دے جس کی دیامر عوام مطالبہ کررہے ہیں لیکن فیسبک کے چند مایہ ناز دانشور اس ضد میں ہیں کہ دیامر عوام کیخلاف اوپن آپریشن ہو جائے۔
ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو ضلع دیامر کے حوالے سے منفی تبصرے کرنے والے ضلع دیامر کے ساتھ مخلص نہیں بلکہ انہیں بغض دیامر کا کیڑا کاٹ رہا ہے جس کا علاج فی الحال ایجاد نہیں ہوئی۔
از قلم: حسین احمد