Diamer News Network

Diamer News Network A Digital Platform working specifically on Patriotic Stuff to Promote Positively good things happenin

چلاس (راجہ اشفاق طاہر سے)ڈپٹی کمشنر دیامر کیپٹن (ریٹائرڈ) عطاء الرحمن کاکڑ کی دعوت پر سیکٹر کمانڈر ایس سی او گلگت بلتستا...
10/07/2025

چلاس (راجہ اشفاق طاہر سے)
ڈپٹی کمشنر دیامر کیپٹن (ریٹائرڈ) عطاء الرحمن کاکڑ کی دعوت پر سیکٹر کمانڈر ایس سی او گلگت بلتستان کرنل کاشف بابوسر ٹاپ پہنچے۔ بابوسر اور دونگ کے علاقوں میں گزشتہ کئی دنوں سے ایس سی او کی موبائل سروس معطل تھی۔
اس موقع پر کرنل کاشف نے بابوسر میں واقع اے پی اے ہاؤس میں علاقے کے عمائدین سے ملاقات کی، ان کے ساتھ بیٹھ کر مسائل سنے اور ایس سی او کی جانب سے یقین دہانی کرائی کہ ایک ہفتے کے اندر اندر بابوسر ایریا میں موبائل سروس مکمل طور پر بحال کر دی جائے گی۔
کرنل کاشف نے عوام سے درخواست کی کہ وہ ایس سی او کے اثاثوں کو اپنی ذاتی املاک سمجھ کر ان کی حفاظت کریں تاکہ یہ سہولت طویل عرصے تک برقرار رہے۔ ڈپٹی کمشنر دیامر نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ عوام اور اداروں کے درمیان ایک مؤثر پل کا کردار ادا کرے گی تاکہ عوام کو بنیادی سہولیات بروقت فراہم کی جا سکیں۔
علاقے کے عوامی حلقوں نے ایس سی او کی جانب سے دی جانے والی یقین دہانی اور ڈپٹی کمشنر دیامر کی اس عوامی مسئلے کے حل میں خصوصی دلچسپی کو سراہتے ہوئے کرنل کاشف اور ڈپٹی کمشنر دونوں کو خراجِ تحسین پیش کیا

Roznama Seyachin
10/07/2025

Roznama Seyachin

Roznama Motik
10/07/2025

Roznama Motik

Roznama Salam spacial coverage of GB
10/07/2025

Roznama Salam spacial coverage of GB

Roznama kharpocho Times
10/07/2025

Roznama kharpocho Times

مذہبی تعصب اور معاشرتی بوسیدگی تحریر: ظاہر الدین گلگت بلتستان وہ جنت نظیر وادی ہے جہاں ایک وقت میں اخوت کی خوشبو، ثقافتی...
10/07/2025

مذہبی تعصب اور معاشرتی بوسیدگی


تحریر: ظاہر الدین

گلگت بلتستان وہ جنت نظیر وادی ہے جہاں ایک وقت میں اخوت کی خوشبو، ثقافتی تنوع اور انسانی احترام کی روشنی چھائی رہتی تھی۔ جہاں لوگ قبیلوں، علاقوں اور مسالک سے بالاتر ہو کر رشتے نبھاتے تھے۔ مگر آج اس سرزمین پر خوف کی ایک ایسی منظر دکھائی دیتی ہے جس نے دلوں کو الگ کر دیا ہے، زبانوں کو زہر آلود کر دیا ہے اور سماج کو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

فرقہ واریت کے فروغ میں ریاستی بےحسی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب کسی معاشرے میں مساوی ترقی، تعلیم، روزگار اور نمائندگی نہ ہو تو افراد اپنی شناختوں کو پناہ گاہ سمجھنے لگتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بعض فرقے یا برادریاں خود کو سیاسی طور پر محروم محسوس کرتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے عقیدے یا گروہ کی بنیاد پر سیاسی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں، یوں نفرت کا بیج سیاست میں بویا جاتا ہے اور پھر سماج میں تناور درخت بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

ہمارے تعلیمی ادارے نہ تو قومی وحدت کا شعور دے رہے ہیں، نہ بین المذاہب احترام کی تربیت طلبہ فرقہ وارانہ تاریخ پڑھتے ہیں مگر ملی اتحاد کے خواب نہیں دیکھ پاتے نصاب میں دوسروں کے عقائد کے احترام، مکالمے اور اختلافِ رائے کی اخلاقیات کو شامل کرنا اب وقت کی ضرورت ہے، ورنہ مدارس اور کالجز علم کے مراکز کی بجائے تعصب کے قلعے بن جائیں گے۔

مسجد، امام بارگاہ، اور جماعت خانہ سب اگر چاہیں تو یہ معاشرہ جنت کا منظر پیش کر سکتا ہے۔ مگر جب منبر پر نفرت کا زہر گھولا جائے، جب خطبے میں اتحاد کی بجائے مذہبی تعصب اور تفریق کا پرچار ہو، اور جب رہنما اپنی انا کو دین پر ترجیح دیں تو عوام کیسے راہِ حق پر چلیں؟ ہمیں ان تمام مذہبی قائدین کا احتساب کرنا ہوگا جو وحدت کی بجائے فرقہ پرستی کا پرچار کرتے ہیں۔

آج کا نوجوان کتاب سے زیادہ سوشل میڈیا سے علم لیتا ہے۔ بدقسمتی سے فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز پر جعلی اسکالرز اور شدت پسند گروہ فرقہ وارانہ مواد پھیلا رہے ہیں۔ نوجوان جذباتی ہو کر ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ہمیں ڈیجیٹل لٹریسی کو فروغ دینا ہوگا تاکہ نوجوان سچ اور پروپیگنڈے میں فرق سمجھ سکیں۔

فرقہ واریت کا زہر صرف سڑکوں پر لاشیں نہیں گراتا، یہ ذہنوں کو مفلوج کرتا ہے، اعتماد کو مار دیتا ہے، اور نسلوں میں خوف، شکوک اور عدم برداشت کی بیماری چھوڑ جاتا ہے۔ آج کے بچے اور نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ ان کے علاقے کے لوگ صرف عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دشمن ہیں، تو ان کا شعور نفرت سے بدبودار ہو جاتا ہے۔ وہ مسکرانا بھول جاتے ہیں، معاف کرنا سیکھ نہیں پاتے، اور ایک ایسا سماج جنم لیتا ہے جس میں قربت کی بجائے تنہائی ہوتی ہے۔

گلگت بلتستان میں کئی دہائیوں سے وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوتے رہے ہیں۔ گلگت، چلاس، کوہستان، پاراچنار جیسے علاقوں کی گلیوں نے خون کے دھبے دیکھے ہیں۔ ان فسادات نے نہ صرف جانیں لیں بلکہ دلوں میں خلیجیں پیدا کیں، اعتماد توڑا، اور بھائی بھائی سے دور ہو گیا۔ ان واقعات کی اجتماعی یادداشت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم کتنی قیمتی چیز کھو چکے ہیں وہ ہے سماجی ہم اہنگی اور بھائی چارہ

ہمیں اس آگ سے نکلنے کے لیے صرف قانون سازی کی نہیں، بلکہ سماجی بیداری، مذہبی شعور، سیاسی اخلاص، اور تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے یہ درس دینا ہوگا کہ اختلاف، دشمنی نہیں ہوتا۔ اسکولوں میں ایسی تعلیم دینی ہوگی جو محبت، معافی اور مکالمے پر مبنی ہو۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، جماعت خانوں سے اتحاد و سماجی ہم اہنگی کے پیغام سننے ہوں گے، نہ کہ کفر کے فتوے اور فرقہ وارانہ نفرت، میڈیا کو محبت کا سفیر بننا ہوگا، نفرت کا ہتھیار نہیں۔ نوجوانوں کو تربیتی ورکشاپس، اور بین المسالک مکالمے کا حصہ بنانا ہوگا۔

فرقہ وارانہ تعصب نے گلگت بلتستان میں رشتوں، خاندانوں اور شادی بیاہ کے معاملات کو بھی سخت متاثر کیا ہے۔ شیعہ، سنی اور اسماعیلی برادریوں کے درمیان اب رشتے قائم کرنا ایک معیوب یا خطرناک عمل سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی گھر میں بین المسلک رشتہ طے پا بھی جائے تو وہ معاشرتی دباؤ، خاندانی مخالفت یا سوشل بائیکاٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہت سے نوجوان جو تعلیم یافتہ، باشعور اور محبت کی بنیاد پر رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ فرقہ وارانہ دیواروں سے ٹکرا کر شدید ذہنی اذیت، خاندانی دباؤ اور بعض اوقات خودکشی جیسے انتہائی قدم کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ یوں محبت، اتحاد اور باہمی عزت کے جذبات، جو ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں، فرقہ واریت کی زنجیروں میں جکڑ کر دم توڑنے لگتے ہیں۔

ہم سب ایک زمین کے باسی ہیں۔ ہماری تاریخ مشترک، ہماری زبانیں ملتی جلتی، ہمارے مسائل یکساں اور ہمارا دشمن بھی ایک تو پھر نفرت، اختلاف ، تعصب، اور مفاد پرستی اخر کیوں! فرقوں سے پہلے ہم انسان ہیں اور انسانیت سب سے مقدم ہے اور بات یہاں تک محدود نہیں پھر اسلامی جمہوریت پاکستان کے شہری بھی ہیں گلگت بلتستان کے باسی بھی سوچنا پڑے گا کہ اخر جھگڑا کس بات کی ہے اگر ہم یہ نہیں سمجھیں گے، تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف ماضی کے فرقہ وارانہ مجرم کے طور پر یاد رکھیں گی، نہ کے اتحاد اور مذہبی ہم اہنگی کے سفیر کے طور پر۔

آئیے! نفرت کی دیوار گرا دیں، اور محبت، امن، مکالمے اور اتحاد کی بنیاد پر ایک ایسا گلگت بلتستان تعمیر کریں جو دنیا کے لیے اخوت، بھائی چارے اتحاد اور سماجی مذہبی ہم اہنگی کا ماڈل بن جائے۔

پاکستان کا تعلیمی بحران۔ فرسودہ نصاب اور گمشدہ مستقبلتحریر : ظاہر الدین پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت ایک ایسے چوراہے پر...
10/07/2025

پاکستان کا تعلیمی بحران۔ فرسودہ نصاب اور گمشدہ مستقبل

تحریر : ظاہر الدین

پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے۔ جہاں سے آگے کوئی راہ واضح ہے نہ پیچھے پلٹنے کا اختیار بچا ہے۔ ہمارا تعلیمی معیار اور نصاب عالمی تقاضوں سے اتنے فاصلے پر ہے کہ گویا ہم دانستہ طور پر نئی نسل کو ایک ایسے اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں۔ جہاں تخلیق ہے اور نہ تحقیق، نئی ٹیکنالوجی اور نہ ہی تنقیدی شعور۔

پاکستان کا نصاب آج بھی تاریخ کے گرد گھومتا ہے اور وہ بھی ایک مخصوص بیانیے اور نظریئے کے تحت سنواری گئی تاریخ۔ جس میں سچ کم اور سنسنی زیادہ ہے۔ بچوں کو وہ تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ جس میں ہیرو ازخود گھڑ لئے گئے ہیں اور حقیقت پسندی کا گزر تک نہیں۔ مذہبی اور قومی جذبات کو اتنا ابھارا جاتا ہے کہ عقل و شعور، سائنسی سوچ اور تنقیدی فکر دب کر رہ جاتے ہیں۔

نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں فرق ایک الگ طبقاتی نظام کو جنم دے چکا ہے۔ نجی سکولز میں نسبتاً بہتر سہولیات، جدید نصاب اور تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں جبکہ سرکاری سکولز بنیادی انفراسٹرکچر سے بھی محروم ہیں۔ بعض دیہی علاقوں میں تو ایسے سکول بھی موجود ہیں۔ جن کی عمارتیں خستہ حال ہیں یا اساتذہ مہینے مہینے غیر حاضر رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں تعلیم ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ ایک نعمت نہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ زبان کا ہے۔ قومی زبان اردو ہے جبکہ بین الاقوامی روابط کے لئے انگریزی لازمی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے اردو میں معیاری تعلیم دے پا رہے ہیں اور نہ ہی انگریزی میں۔ اس الجھن کا شکار بچہ یا تو احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے یا محض رٹہ سسٹم کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔

عہدِ حاضر کا تقاضا ہے کہ تعلیم تحقیق پر مبنی ہو۔ سائنسی بنیادوں پر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرے لیکن پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی صرف کتابوں کے چند ابواب تک محدود ہے۔ لیب موجود ہیں نہ جدید مشینیں اور تربیت یافتہ اساتذہ۔ نصاب میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، بایو ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلی، یا عالمی معیشت جیسے موضوعات کو یا تو چھیڑا ہی نہیں گیا یا اتنا سرسری طور پر بیان کیا گیا کہ طالب علم کی دلچسپی پیدا ہی نہیں ہوتی۔

پاکستان کے بیشتر تعلیمی ادارے آج بھی انیسویں صدی کے طرز پر چل رہے ہیں۔ بوسیدہ عمارتیں، کم تنخواہ پر کام کرتے اساتذہ، غیر تربیت یافتہ عملہ، اور جدید تدریسی آلات کی کمی۔ یہ سب تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجوہات ہیں۔ لائبریریاں ویران اور لیبارٹریاں ناکارہ پڑی ہیں۔ اساتذہ کے لیے ریسرچ کلچر کا کوئی ماحول نہیں، اور طلباء کے لیے عملی سیکھنے کا کوئی موقع نہیں۔

پاکستان میں تعلیم ہمیشہ دوسرے یا تیسرے درجے کی ترجیحات میں رہی ہے۔ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم خطے کے تمام ممالک میں سب سے کم ہے۔ پالیسی سازی کا عمل غیر مستقل اور غیر سائنسی ہے۔ حکومتی نااہلی کی بدترین مثال یہ ہے کہ آج بھی کئی سرکاری اسکولز میں پینے کا پانی، بیت الخلاء، اور بیٹھنے کی مناسب جگہ تک موجود نہیں۔

بچوں کو ہیرو بنانے کے لئے کہانیوں کی ضرورت ہے لیکن اگر وہ صرف ماضی کی داستاںوں میں الجھ کر حال سے نابلد رہیں تو ترقی کا خواب محض فریب بن جاتا ہے۔ آج کے نوجوان کو دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل لٹریسی، کریٹیکل تھنکنگ اور عالمی امور پر مکمل گرفت ہونی چاہیے۔ اگر ہم اپنے نوجوان کو صرف غازیوں کی کہانیوں اور معرکوں کی تصویر دکھا کر تیار کریں گے تو وہ عالمی مارکیٹ میں محض تماشائی بن کر رہ جائے گا۔

نصاب میں یکسانیت کا بھی شدید فقدان ہے۔ مختلف صوبے مختلف نصاب چلا رہے ہیں اور ان کے اندر بھی فرق موجود ہے۔ کوئی انگلش میڈیم ہے، کوئی اردو میڈیم، اور کوئی مذہبی مدارس کا الگ نصاب پڑھا رہا ہے۔ ایسے نظام میں قوم کی فکری یکجہتی ممکن نہیں، اور نہ ہی ایک مشترکہ قومی وژن تشکیل پا سکتا ہے۔

نصاب میں جدیدیت قومی نصاب کو فوری طور پر جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی معیار کے مطابق سائنس، ٹیکنالوجی، اور اخلاقی تربیت کو شامل کیا جائے۔ اساتذہ کی تربیت ہر سطح پر اساتذہ کو جدید تعلیم، ریسرچ میتھڈز، اور ڈیجیٹل تعلیم سے ہم آہنگ کیا جائے۔

09/07/2025

تکیہ ، شاہین کورٹ ، جلیل گاؤں ، شاہراہِ قراقرم ، شوکوٹ و دیگر محلوں کے لئے بھی واسا نے پینے کے پانی کی لائنیں بحال کر دیا

09/07/2025
Roznama kharpocho Times
09/07/2025

Roznama kharpocho Times

Roznama seyach
09/07/2025

Roznama seyach

Address

Chilas
Chilas
14100

Telephone

+923554141001

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Diamer News Network posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Diamer News Network:

Share