Kashif Nadeem

Kashif Nadeem Content Writer

قسمت خود موقع دے رہی تھی، اور راکھ میں دبی چنگاریاں پھر سے سلگنے لگیں۔ رافعہ کھانا لا کر نیاز بھائی کے سامنے رکھتی اور د...
24/10/2025

قسمت خود موقع دے رہی تھی، اور راکھ میں دبی چنگاریاں پھر سے سلگنے لگیں۔ رافعہ کھانا لا کر نیاز بھائی کے سامنے رکھتی اور دونوں باتیں کرنے لگتے۔ ان چنگاریوں کی تپش کا کسی کو احساس نہ تھا۔پھر اچانک وہ ہوا جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ ایک روز رافعہ میکے گئی ہوئی تھی اور اظفر گھر میں اکیلا تھا کہ کسی نے گھر میں گھس کر اس پر چاقو سے حملہ کر دیا۔
👇👇
باپ کی شفقت کے ساتھ ساتھ ممتا کی وہ میٹھی میٹھی دھوپ بھی ہمیں میسر تھی، جو سردیوں کی نرم دھوپ جیسی ہوتی ہے۔سچ ہے، وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ امی کی وفات کے بعد ہماری زندگی کا رنگ بھی بدل گیا۔امی کے بعد بچپن کے سات سال ہم نے خالہ کے ساتھ گزارے۔ اس عرصے میں ہمارے ناسمجھ ذہن نے زندگی کے کئی تلخ حقائق کو محسوس کیا، اور وقت سے پہلے دنیا کی سمجھ آنے لگی۔ ان دنوں ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ ابو دبئی میں ملازمت کرتے تھے۔ وہ وہاں سے باقاعدگی سے خالہ کو ہمارے اخراجات بھجواتے تھے۔ میرے والد ایک فرض شناس باپ تھے۔

انہوں نے ہمیں کسی شے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، تاکہ ہماری عزت نفس برقرار رہے۔وقت گزرتا رہا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب خالہ نے چاہا کہ ہم اپنے والد کے گھر میں رہیں۔ ان دنوں ابو دبئی سے آئے ہوئے تھے۔ خالہ نے خاندان کے بزرگوں سے مشورہ کر کے ان کی دوسری شادی کروا دی۔ ان کی دوسری بیوی شروع میں ہم سے الجھتی رہی، لیکن خالہ کے سمجھانے پر اس نے وہ تمام حربے بند کر دیے جو اکثر سوتیلی مائیں شوہر کے بچوں پر آزماتی ہیں۔ بلکہ جلد ہی وہ ہم بہن بھائی کے ساتھ گھل مل گئی۔ابو ملازمت کی خاطر دوبارہ دبئی چلے گئے کیونکہ انہوں نے کمانا تھا اور ہمیں کھانا تھا۔ گھر میں سوتیلی ماں اور ہم بہن بھائی رہ گئے۔ مجھے ابو کی بہت یاد آتی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں۔وقت گزرتا گیا۔ ہماری زندگی میں کئی نئے موڑ آئے اور نئے لوگوں سے واسطہ پڑا، جن سے ہم نے نئے سبق سیکھے۔ وہ کچھ سیکھا جو عام حالات میں نہیں سیکھا جا سکتا — خاص طور پر مخلص اور غیر مخلص لوگوں کی پہچان۔

ان ہی لوگوں میں ایک میری سہیلی رافعہ تھی۔ میں اس سے دل کی ہر بات کہتی تھی۔ کزن ہونے کے ناطے میرا اس کے گھر آنا جانا بھی تھا۔ میں کبھی اکیلی نہیں جاتی تھی، ہمیشہ بھائی نیاز کے ساتھ جایا کرتی۔ میرے بھائی کو بھی اس میں دلچسپی تھی۔رافعہ کی نسبت بچپن سے ہی اس کے چچا زاد اظفر سے طے تھی، مگر وہ کہتی تھی کہ اظفر سے نہیں، بلکہ میرے بھائی نیاز سے شادی کرے گی۔بظاہر وہ اظفر کو ناپسند کرتی تھی، ہمارے سامنے اس کی برائیاں کرتی، مگر درپردہ میرے بھائی کو سناتی تھی۔ میں اس کی چالوں کو خوب سمجھتی تھی۔ہمارے خاندان میں ابو کی ان لوگوں سے زیادہ بنتی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ میں نے کبھی کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میرے بھائی کے دل میں رافعہ کے لیے جذبات ہیں۔ اگر یہ بات ظاہر ہو جاتی تو قیامت برپا ہو جاتی۔ چاروں طرف سے رشتہ دار سانپوں کی طرح پھن اٹھا لیتے۔میں رافعہ کو تسلی دیتی کہ میں ابو کو منا لوں گی اور تمہیں اپنی بھابھی بنا لوں گی۔ وہ وقت تو آنے دو۔وہ ہنس کر “اچھا” کہہ دیا کرتی۔وہ نیاز بھائی سے دو سال بڑی تھی، لیکن کم عمر لگتی تھی۔ ممکن ہے کہ وہ ہماری باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیتی ہو، لیکن ہم سنجیدہ تھے۔ اس کی عادتیں، باتیں، صورت، ہر شے دل کو بھاتی تھی۔جب نیاز بھائی کالج جانے لگے تو سنا کہ رافعہ کے گھر اس کی شادی کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ابو ہم سے دور تھے، سوتیلی ماں سے کیا کہتے؟بھائی نیاز بہت پریشان رہنے لگے۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔ سارا دن صحن میں ٹہلتے رہتے، رات کو نیند نہ آتی۔رافعہ نے ایف اے کے پرچے دینے تھے، اور نیاز ایف ایس سی کر رہے تھے۔

وہ کالج کے بہترین طلبا میں شمار ہوتے تھے، تقریری مقابلوں میں اول آتے تھے۔ انہی دنوں ان کی کلاس میں ایک نیا لڑکا داخل ہوا جس کا نام اظفر تھا۔بھائی کی اس سے دوستی ہو گئی۔ اظفر خوش مزاج، کھلنڈرا لڑکا تھا، جو لڑکیوں کو بیوقوف بنا کر ان سے کام نکالتا۔ حالانکہ امیر باپ کا بیٹا تھا، مگر شوخی مزاجی غالب تھی۔اسی وجہ سے بھائی کو وہ اچھا لگا، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہی اظفر رافعہ کا منگیتر ہے۔میرے امتحان شروع ہو گئے، تو میں نے رافعہ کے گھر جانا بند کر دیا۔ ان دنوں رافعہ اور بھائی نیاز کے درمیان قربت بڑھتی جا رہی تھی۔ ان کی خاموش محبت کا کسی کو علم نہ تھا — حتیٰ کہ رافعہ کی ماں کو بھی نہیں۔ادھر اظفر کئی بار بھائی نیاز کو اپنے گھر مدعو کر چکا تھا، لیکن بھائی نہیں جا سکے۔ اظفر کا گھر بہت بڑا اور شاندار تھا۔ اس کے والد امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔پھر اچانک اظفر سنجیدہ رہنے لگا۔ پتہ چلا کہ اس کی والدہ کو بلڈ کینسر ہو گیا ہے۔ تب وہ شوخیاں چھوڑ کر ہر وقت ماں کے ساتھ لگا رہتا۔اس کی والدہ کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھیں۔ چنانچہ منگنی کا دن طے ہوا۔جب بھائی نیاز تحفہ لے کر اس کے گھر گئے تو پتا چلا کہ اظفر کی منگنی رافعہ سے ہو رہی ہے۔یہ جان کر بھائی کے دل پر جیسے بجلی گر گئی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/10/jaidad-ka-lalach.html


معراج دین کی زندگی کی ایک ہی آرزو تھی، جس کے پورا ہونے کا خواب وہ روز دیکھا کرتا تھا کہ اُس کا بیٹا، وقاص دین، ایک دن ما...
24/10/2025

معراج دین کی زندگی کی ایک ہی آرزو تھی، جس کے پورا ہونے کا خواب وہ روز دیکھا کرتا تھا کہ اُس کا بیٹا، وقاص دین، ایک دن ماسٹر بنے اور بچوں کو پڑھائے۔ خود وقاص کو بھی ماسٹر بننے کا شوق تھا، شاید اس لیے کہ وہ بچپن سے اپنے باپ کے منہ سے یہی جملہ سنتا آیا تھا:وقاص، دل لگا کر پڑھ، تُو نے بڑے ہو کر ماسٹر بننا ہے۔ یوں وہ جاگتی آنکھوں سے یہ سپنا دیکھا کرتا کہ بہت سے بچے ٹاٹ پر بیٹھے ہیں، اور وہ ایک کرسی پر بیٹھا انہیں پڑھا رہا ہے۔ وقاص کے گاؤں میں اسکول صرف پرائمری تک تھا۔ سیکنڈری اسکول دوسرے گاؤں میں واقع تھا، اور وہاں جانا خاصا مشکل کام تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر، کھیت اور پگڈنڈیوں سے گزر کر، جب گاؤں کی حدود ختم ہوتیں، تب نالہ پار کر کے دوسرے گاؤں کی حدود شروع ہوتیں۔ مگر وقاص ان تمام مشقتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا تھا۔

معراج دین کے پاس تھوڑی سی زمین تھی، جس پر وہ کاشت کاری کرتا تھا۔ اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ دونوں بیٹیوں کو بھی پڑھنے کا بے حد شوق تھا، مگر نزدیکی گاؤں میں کالج نہ ہونے کی وجہ سے وہ میٹرک کے بعد گھر بیٹھ گئی تھیں۔ وقاص کی پڑھائی اور رہائش کے اخراجات کے لیے کافی رقم درکار تھی۔ معراج دین کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست خود سے کر سکے۔ وہ سخت پریشان رہنے لگا۔ تب اس کی بیوی، ثریا بی بی، نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی بکریاں فروخت کر دے۔ یوں وقاص کا کالج میں داخلہ ہو گیا، اور ہاسٹل میں رہنے کا بندوبست بھی ہو گیا۔ اسی دوران معراج دین کی بڑی بیٹی کی بات بھی پکی ہو گئی۔ چار ماہ بعد اس کی شادی طے تھی۔ ثریا بی بی نے شوہر سے کہا اب جب کہ وقاص کی پڑھائی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، تو بیٹی کی شادی کے لیے بھی کچھ بندوبست کریں۔ مجبوری کے عالم میں معراج دین اپنے گاؤں کے جاگیردار، ملک سرفراز، کے پاس گیا اور ساری صورتحال بیان کر کے مالی مدد کی درخواست کی۔ ملک سرفراز نے مشفق لہجے میں کہارقم تو میں دے دوں گا، مگر اس کے لیے تمہیں اپنی زمین کے کاغذات بطور ضمانت میرے پاس رکھنے ہوں گے۔ اس کے بغیر میں قرض نہیں دے سکتا۔

یہ سن کر معراج دین گھبرا گیا، لیکن بیٹی کی شادی کے لیے وہ مجبور تھا۔ اس نے زمین کے کاغذات ملک سرفراز کے حوالے کر دیے اور بدلے میں مطلوبہ رقم حاصل کر لی۔ گھر پہنچ کر اس نے ساری بات ثریا بی بی کو بتا دی۔ ثریا بی بی بے حد پریشان ہو گئی اور بولی تم نے بہت بڑی غلطی کی کہ زمین کے کاغذات ملک کے حوالے کر دیے۔ اگر مجھے اس شرط کا علم ہوتا، تو میں ہرگز اجازت نہ دیتی ۔ معراج دین نے تھکے ہوئے لہجے میں کہاایسے ہی قرض دیا جاتا ہے، ضمانت تو دینی پڑتی ہے۔ اگر میں قرضہ واپس نہ کر سکا، تو زمین ضبط ہو جائے گی ۔ مگر ہماری زمین تو قرض کی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خدا ان کا بیڑا غرق کرے، یہ جاگیردار خود کو جانے کیا سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ہم جیسوں کی مجبوریاں کیا ہیں، مگر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے اپنے بھی ہماری طرح غریب ہیں، کوئی اور ہمیں قرض نہیں دے سکتا تھا۔ مجھے تو ہر حال میں بیٹی کی شادی کرنی تھی ۔

اگلے مہینے معراج دین کی بیٹی کی رخصتی ہو گئی اور اس نے سکون کا سانس لیا۔ وہ اپنی چھوٹی سی زمین پر کام کرتا تھا، لیکن آمدنی بمشکل گھر کا خرچ پورا کرتی۔ اب تو اس پر قرض کا بوجھ بھی آ گیا تھا۔ وہ صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا۔ پہلے کبھی کچھ فرصت مل جاتی تھی، لیکن اب قرض کے بعد فرصت کا تصور ہی ختم ہو گیا تھا۔ وقاص کی تعلیم پر بھی مسلسل پیسہ خرچ ہو رہا تھا۔ ایک دن ملک سرفراز نے اسے بلا لیا۔ وہ اس کے ڈیرے پر پہنچا، جہاں ملک سرفراز ایک تخت پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اور باقی لوگ قالین پر نیچے بیٹھے تھے۔ معراج دین نے سلام کیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا ۔(کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/mout-ke-sodagr.html


گاؤں میں محبتوں کے کھیل اکثر کھیتوں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر کھیلے جاتے ہیں۔ رضیہ نے بھی گھر کی گھٹن کا حل سرفراز کے ...
24/10/2025

گاؤں میں محبتوں کے کھیل اکثر کھیتوں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر کھیلے جاتے ہیں۔ رضیہ نے بھی گھر کی گھٹن کا حل سرفراز کے چند شیریں بولوں میں ڈھونڈا۔ مگر وہ صرف نام کا سرفراز تھا، حقیقت میں ایک لالچی اور دغاباز نوجوان نکلا۔ اس نے رضیہ کو پھسلا کر گاؤں سے بھگا لیا اور کراچی لے آیا۔ یہ نادان لڑکی عشق کی آگ میں اپنی سبھی کشتیاں جلا کر، گھر سے نقدی، زیورات سمیٹ کر سرفراز کے ساتھ چل پڑی۔ کراچی آ کر سرفراز نے اس سے زیور اور پیسے لے لیے۔ اس نے کہا کہ یہ سب سفر میں کام آئیں گے۔ رضیہ، جو گاؤں کی بھولی بھالی مٹیار تھی، اس کے جھانسے میں آ گئی اور سب کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔

ایک ہفتہ ہوٹل میں رہنے کے بعد، سرفراز نے اسے بتایا کہ ارجنٹ پاسپورٹ بنوالیے گئے ہیں۔ اب صرف ٹکٹ لینا ہے اور ویزا بھی ایک دوست کے ذریعے خریدنا ہے، اس لیے کچھ دن اور یہاں رکنا ہوگا۔ بہرحال، دس دن بعد وہ اسے ایئرپورٹ لے آیا اور ایک جگہ بٹھا کر کہا کہ ابھی تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں۔ صبح سے شام ہو گئی، لیکن سرفراز واپس نہ آیا۔ رضیہ گھبرا گئی۔ جب رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تو وہ ہر آنے جانے والے سے پوچھنے لگی کہ دبئی کی فلائٹ کب جائے گی۔ لوگ حیرانی سے اسے دیکھتے تھے۔ ایئرپورٹ کے عملے نے بھی نوٹس لیا کہ یہ عورت مسافروں کو پریشان کر رہی ہے، لہٰذا اسے روکا گیا۔ پوچھ گچھ کی گئی، لیکن وہ کیا بتاتی؟ کراچی میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ کبھی کسی بند دکان کے تھڑے پر، کبھی فٹ پاتھ کے کسی کونے میں سوجاتی۔ جلد ہی اس نے ایئرپورٹ کے قریب ایک فٹ پاتھ کے کونے کو اپنا مسکن بنا لیا۔

اس وقت ایئرپورٹ اتنا وسیع نہ تھا۔ اس کے آس پاس کچھ ٹھیلے والے بھی ہوتے تھے جو سامان فروخت کرتے تھے۔ ان میں سے ایک نان کباب والا رحم دل انسان تھا، جو رضیہ کو روز نان کباب یا کھانا دے دیا کرتا تھا۔آس پاس کے ٹھیلے والوں کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ بیچاری کسی کا انتظار کر رہی ہے، جو ابھی تک نہیں آیا۔ وہ یہ جگہ چھوڑنا نہیں چاہتی، کہیں وہ واپس آ جائے اور اسے یہاں نہ پائے۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ ایئرپورٹ سکیورٹی والے اسے اندر آنے نہیں دیتے تھے۔ رضیہ کو یقین تھا کہ سرفراز کو ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا، اسی لیے وہ نہ آ سکا۔ اسے خبر نہ تھی کہ اس کے بطن میں ایک نیا وجود پرورش پا رہا ہے۔ اب وہ واپس گاؤں بھی نہیں جا سکتی تھی۔

ایک روز مجھے ایئرپورٹ جانا پڑا۔ میری بھابی بیرونِ ملک جا رہی تھیں، میں انہیں سی آف کرنے گئی۔ واپسی پر میری نظر فٹ پاتھ پر لیٹی رضیہ پر پڑی۔ وہ درخت کے سائے تلے چادر بچھا کر لیٹی تھی۔ اس کا وجود، اس کے جسم سے کہیں زیادہ بوجھل نظر آ رہا تھا۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا کہ یہ بے آسرا عورت یہاں اس حال میں کیسے پڑی ہے؟ شاید اسے چھوڑ جانے والا جیل میں ہو۔ بھابی کی فلائٹ جانے والی تھی، میں انہیں خدا حافظ کہہ کر واپس لوٹی تو رضیہ وہاں نہیں تھی۔دکھ بھی ہوتا، لیکن میں کیا کر سکتی تھی؟ اپنے گھر آ گئی، مگر دماغ میں ایک الجھن سی کیفیت ضرور رہ گئی تھی۔چند ماہ بعد اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں کاشانہ اطفال جانا ہوا، جہاں میری سہیلی ملازمت کرتی تھی۔ مجھے اس سے ملنا تھا۔

سردیوں کی ایک صبح تھی۔ میں نوزائیدہ بچوں کو دیکھنے اوپر کی منزل پر گئی۔ یہ معصوم بچے دنیا کے آلام سے بے خبر اپنے پنگھوڑوں میں لیٹے تھے۔ اچانک میری نظر ایک بہت پیاری بچی پر پڑی۔ وہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی، منہ میں شہادت کی انگلی دبائے، اپنی ہری ہری کنچوں جیسی آنکھوں سے ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہی تھی۔میں بے اختیار اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ پہلے اس نے مجھے غور سے دیکھا، پھر مسکرا دی۔ میں نے سہیلی سے اجازت لی کہ اس کا فوٹو لینا چاہتی ہوں۔ اس نے دوستی کے ناتے فوٹوگرافر سے کہا کہ تصویر لے لو۔میں نے اس بچی کی ایک تصویر اپنے البم میں رکھ لی۔ پھر اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کیونکہ یہ بچی سبز آنکھوں والی اور انگریز سی لگتی تھی۔ کاشانہ اطفال کی سپروائزر نے بتایا کہ یہ بچی اسپتال سے پولیس کی معرفت یہاں بھیجی گئی تھی، کیونکہ یہ ایک پاگل عورت کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ عورت تو بچی کو جنم دیتے ہی چل بسی تھی۔ یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میرا دل اس بچی کی صورت پر اٹک کر رہ گیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/izzat-ki-barbadi.html


مرد کے دل میں ایک بار شک بیٹھ جائے، تو وہ نکلتا نہیں اور عورت کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔اس دن کے بعد سے انہوں نے مجھ سے ...
23/10/2025

مرد کے دل میں ایک بار شک بیٹھ جائے، تو وہ نکلتا نہیں اور عورت کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔اس دن کے بعد سے انہوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ نہ مجھے بلاتے، نہ ہی کوئی کام بتاتے۔ اپنی ماں اور بہنوں کو ہی پکارتے، انہی کو اپنے کام بتاتے۔میری تنہائی بڑھتی جا رہی تھی اور جمال کی بے رخی بھی۔ اب میں اکثر ان کے ساتھ گزارے ہوئے حسین لمحے یاد کرکے روتی تھی۔ اک دن میرا صبر جواب دے گیا۔
👇👇
زاہدہ بیگم نہایت شریف النفس خاتون تھیں۔ وہ کچھ عرصہ قبل ہمارے محلے میں آئی تھیں۔ چند ہی دنوں بعد ان کی شرافت کی سب ہی گواہی دینے لگے، کیونکہ بری عورت کی طرح اچھی عورت بھی جلد پہچانی جاتی ہے۔ شروع میں کوئی بھی انہیں مکان دینے پر تیار نہ تھا کہ تنہا عورت اپنی دو سالہ بچی کے ہمراہ کس طرح رہے گی اور جانے کیا گل کھلائے گی؟ مگر چچا اشرف نے ہمت کی اور اس بے آسرا عورت کو رہنے کے لیے اپنے گھر کا ایک حصہ کرائے پر دے دیا۔ وہ مکان ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا۔بظاہر وہ خوش نظر آتی تھی، مگر ماضی کے نشیب و فراز نے اس کے ماتھے پر بیتے ہوئے دکھوں کو شکنوں کی صورت میں سجا دیا تھا، جو زندگی بھر اس کے ساتھ رہنے والے تھے۔ آتے ہی اس نے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ جلد ہی اسے دو چار گھروں میں کام مل گیا۔ صبح سویرے وہ ان گھروں میں کام کرنے چلی جاتی۔رفتہ رفتہ سب کو معلوم ہو گیا کہ بظاہر خوش و خرم نظر آنے والی زاہدہ کتنی غمگین اور دھتکاری ہوئی عورت ہے۔ ان دنوں امی بیماری کے باعث گھر کا کام کاج کرنے سے معذور تھیں۔

میں بھی کالج جاتی تھی اور بھابھی اکیلی تمام کام نہیں نمٹا سکتی تھیں، تبھی امی نے زاہدہ کو کام پر رکھ لیا۔ایک روز کالج کی چھٹی کی وجہ سے میں بور ہو رہی تھی کہ زاہدہ آ گئی۔ میں نے اس سے کہا: میرا کمرہ تو صاف ہے، آج تم صفائی نہ کرو، بس پاس بیٹھ کر باتیں کرو۔ تب میں نے پوچھا:تم یہاں آنے سے پہلے کہاں رہتی تھیں؟ اور تمہاری کیا مجبوری ہے کہ یہاں تنہا کرائے کے گھر میں رہتی ہو؟ تم کسی کھاتے پیتے گھرانے کی لگتی ہو، کیا تمہاری کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہے؟اس نے تھوڑی دیر توقف کیا، پھر یوں گویا ہوئی:میری شادی جمال احمد نامی شخص سے ہوئی تھی۔ وہ کچھ ضدی اور خود سر تھے، کسی کی نہیں سنتے تھے۔ شکل و صورت کے اچھے اور وجیہہ نوجوان تھے۔

ایک رشتے دار کے بیٹے کی شادی میں انہوں نے مجھے دیکھا اور پسند کر لیا، پھر اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیج دیا۔ چونکہ ان سے دور کی رشتہ داری تھی اور وہ خوشحال لوگ تھے، اس لیے میرے والدین نے ہاں کر دی۔ یوں میری شادی جمال کے ساتھ دھوم دھام سے ہو گئی۔شروع میں وہ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ میرے آنے کے بعد ان کو کاروبار میں بہت منافع ہوا، مگر بدقسمتی سے ہماری شادی کے ایک ماہ بعد ان کے چھوٹے بھائی کسی دوست کی شادی میں شرکت کے لیے پشاور گئے۔ وہاں تقریب میں خوشی کے اظہار میں ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی کہ ایک گولی ان کو لگ گئی اور وہ موقع پر ہی فوت ہو گئے۔ وہ ہنستے مسکراتے گئے تھے، اور میت گاڑی میں گھر پہنچائے گئے، تو گھر میں کہرام برپا ہو گیا۔پڑوسنیں بھی میری ساس کے غم میں شریک ہونے آئیں اور کچھ جاہل عورتوں نے ان کے کان بھرے کہ ان کی بہو سبز قدم ہے۔

شادی کو ایک ماہ نہیں گزرا تھا کہ دیور کا جنازہ تیار ہو گیا۔ ساس کو ان عورتوں نے ایسی باتیں کہیں کہ ان کا دل مجھ سے برا ہو گیا اور دیور کی حادثاتی موت میرے لیے طعنہ بن گئی۔ساس اور نندیں دبے دبے لفظوں میں جب مجھے یہ طعنہ دیتیں، تو میں رو پڑتی، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ میرے سسر کے دل پر جواں سال بیٹے کی ناگہانی موت کا صدمہ ایسا بیٹھا کہ وہ دو ہفتے بعد ہی ہارٹ فیل ہونے سے چل بسے۔ یکے بعد دیگرے دو جان لیوا حادثوں نے میری ساس کو نڈھال کر دیا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ اردگرد رہنے والی ان پڑھ خواتین اور ان کی رشتہ دار عورتیں، جو توہم پرست تھیں، منہ سے ایسی منفی باتیں نکالتیں اور بجائے دلجوئی کرنے اور ڈھارس بندھانے کے، یہی کہتیں کہ بہو کو بیاہ لانا راس نہیں آیا۔ یہ لڑکی منحوس ہے کہ پے در پے دو صدمات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/10/izzat-ki-mout.html


مطلوبہ کوٹھی کے گیٹ پر پہنچتے ہی گارڈ نے فوراً گیٹ کھول کر اسے اندر کا راستہ دکھایا۔ وہ وسیع و عریض لان کے اس حصے میں پہ...
23/10/2025

مطلوبہ کوٹھی کے گیٹ پر پہنچتے ہی گارڈ نے فوراً گیٹ کھول کر اسے اندر کا راستہ دکھایا۔ وہ وسیع و عریض لان کے اس حصے میں پہنچا۔ سیٹھ نے پاس بیٹھی ہوئی حسین اور نوجوان لڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ ہے ہماری بڑی بیٹی، اور یہی تمہاری شاگرد ہے۔" جیسے ہی سرفراز اور اس لڑکی کی آنکھیں چار ہوئیں، وہ بری طرح گھبرایا۔ ایسا طلسماتی حسن اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہڑبڑا کر وہ دوسری جانب دیکھنے لگا۔
👇👇
عمر دراز خان نے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک طویل سانس لی اور باورچی خانے سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبوؤں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ بے اختیار بولا، "سرفراز کی ماں، آج تو کوئی تہوار یا بہار بھی نہیں ہے، پھر یہ گھر اتنی اچھی اچھی خوشبوؤں سے کیوں مہک رہا ہے؟" تھوڑے سے توقف کے بعد عمر دراز کی بیوی انوری باورچی خانے سے برآمد ہوئی۔ اس نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا، "ارے، تمہاری اس سانس کی بیماری نے تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ صبح تو میں نے بتایا تھا کہ خیر سے سرفراز کو ایک امیرزادی کو پڑھانے کا کام مل گیا ہے۔ اس کی خوشی میں کچھ کھٹا میٹھا بنا کر نیاز دے رہی ہوں۔"

عمر دراز نے کھوئے ہوئے لہجے میں ایک لمبی آہ بھری اور پھر تلخ لہجے میں بولا، "ساری زندگی محنت مزدوری کرکے بیٹے کو پڑھایا لکھایا کہ ہم بھی کبھی اچھے دن دیکھیں گے، لیکن ہمارے تو نصیب ہی کھوٹے ہیں۔ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے ایک ٹیوشن ملی تو تم شکرانے کی نیاز کرنے لگیں۔ ارے بھاگوان، کبھی تو عقل سے کام لیا کرو!" انوری نے ایک دلدوز آہ بھری اور نہایت نرم آواز میں بولی، "سرفراز کے بابا، کبھی تم بھی رب کا شکر ادا کر لیا کرو۔ جس نے کم دیا ہے، وہ ایک دن زیادہ بھی دے گا۔ اس کے خزانے میں کوئی کمی تو نہیں۔ میرا بچہ سلامت رہے، ہزاروں روزگار مل جائیں گے۔" عمر دراز نے بیوی کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے باہر چلا گیا۔ اس کی خوش مزاجی رخصت ہو چکی تھی۔

سرفراز نے جب کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا، اس وقت تک وہ خود بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ ڈگری کوئی جادو کی چھڑی ہے، جسے گھمانے سے اس کی دنیا بدل جائے گی۔ لیکن سڑکیں ناپتے ناپتے اس کے پاؤں شل ہو گئے، مگر کوئی امید بر نہ آئی۔ نوکری نہ ملی، گویا ریت میں چھپی ہوئی سوئی ہو گئی، جسے تلاش کرتے کرتے وہ نڈھال ہو گیا۔ اسی دوران اس کے دوست عظمت نے اسے خوشخبری سنائی کہ شہر کے مشہور صنعت کار مہتاب سیٹھ کی بیٹی کے لیے ایک ذہین ٹیوٹر کی ضرورت ہے۔ لڑکی نے میٹرک بڑی مشکل سے کیا اور اب انٹرمیڈیٹ میں پھر اٹک گئی ہے۔ عظمت نے کہا، "اگر تم میں دم خم ہے اور لڑکی کو پہلے ہی دھکے میں انٹر کا سرٹیفکیٹ دلا سکتے ہو، تو تمہارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔" سرفراز نے ہچکچاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا، لیکن عظمت اس کے گھر کے حالات سے واقف تھا۔ وہ فوراً اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور بولا، "کوئی زندگی بھر تو ٹیوشن نہیں پڑھانی۔ ذرا سی لڑکی پر محنت کرکے اسے کامیابی دلا دو۔ اسی بہانے سیٹھ صاحب کے دل میں جگہ بنانے کی کوشش کرو۔ شہر میں ان کی دو ٹیکسٹائل مِلوں کا کاروبار ہے۔ وہ اپنے ورکرز سے کام لیتے ہیں تو پیسہ بھی بھرپور دیتے ہیں۔ اگر مل کے کیمیائی سیکشن میں جگہ مل گئی تو تمہارے دن بدل جائیں گے۔"

عظمت کی دلیل نے سرفراز کو قائل کر لیا۔ چونکہ تمام مضامین پڑھانے تھے، اس لیے ٹیوشن کی فیس بھی اچھی خاصی تھی۔ اس نے آمادگی ظاہر کرنے میں تاخیر نہ کی۔ جب وہ سیٹھ مہتاب کے گھر پہنچا، تو ایک لڑکی نے ریشمی آواز میں کہا، "میرا نام معطر ہے۔" سرفراز کو لگا جیسے شہنائیاں بج اٹھیں۔ معطر کو دیکھ کر وہ اپنی سب کی محبوباؤں کو بھول گیا۔ اس کا پہلا پیار، جو یک طرفہ تھا، اپنے خاندان کی ایک لڑکی سے ہوا تھا۔ اس نے اپنی داستانِ عشق اپنی ماں کو سنا دی اور لجاجت آمیز لہجے میں گڑگڑایا کہ خالہ بختاور کے گھر جا کر رشتہ مانگ لیں۔ ماں نہ صرف خوش ہوئی بلکہ فوراً جانے کی تیاری کر لی۔ الماری سے برقعہ کھینچ کر پہن رہی تھی کہ حسبِ عادت عمر دراز مسکراتا، کھنکھارتا گھر میں داخل ہوا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا، "آج کدھر کی اڑان ہے؟" انوری نے خوشی سے بے قابو ہو کر ساری تفصیل شوہر کے گوش گزار کر دی۔ عمر دراز فوراً بولا، "انوری، بیٹا تو ہمارا باؤلا ہی ہے، لیکن تم بھی عمر کے ساتھ ساتھ سٹھیا گئی ہو۔ گھر میں تین افراد کے لیے نپا تلا کھانا پکتا ہے۔ جب تک تیرا لاڈلا اپنی کمائی گھر نہیں لائے گا، یہاں کوئی شادی خانہ آبادی نہیں ہو سکتی۔" بات ختم ہونے سے پہلے سرفراز گھر سے کھسک لیا۔ ماں نے بھی جل کر خاموشی اختیار کر لی۔ یوں اس کی پہلی عشقیہ داستان ختم ہو گئی۔

اس کا دوسرا عشق ایک کلاس فیلو سے ہوا۔ جس روز وہ اس سے اظہارِ عشق کرنے والا تھا، اسی روز پتا چلا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے اور اس کا منگیتر امریکہ میں مقیم ہے۔ اپنے دونوں ناکام عشق کی ٹیسیں وہ آج بھی محسوس کرتا تھا۔ جب وہ سیٹھ مہتاب کے گھر کے لیے نکل رہا تھا، تو ماں نے واقعی اس کے لیے گوشت کے کباب بنائے۔ شام کی چائے کے ساتھ چنے کی دال کا حلوہ اور کباب کھا کر اس نے ماں کے سامنے سر جھکایا۔ ماں نے اپنا دستِ شفقت اس کے سر پر پھیرا، جیسے وہ کسی محاذ پر جا رہا ہو۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/soteli-beti-ka-frar-1.html


میں معذرت چاہتا ہوں، مس عمیرہ، آپ اس نوکری کے لیے نااہل ہیں۔ کاؤنٹر کے اُس پار کھڑے انگریز نے عمیرہ کی فائل واپس لوٹاتے ...
23/10/2025

میں معذرت چاہتا ہوں، مس عمیرہ، آپ اس نوکری کے لیے نااہل ہیں۔ کاؤنٹر کے اُس پار کھڑے انگریز نے عمیرہ کی فائل واپس لوٹاتے ہوئے کہا تو اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ یہ تیسرا انٹرویو تھا جس کا اسے جواب ملا تھا۔ مگر کیوں سر؟ میں نے جو تازہ موٹیویشنل ٹریننگ کا ڈپلوما کیا ہے، اُس میں میرے سب سے اچھے مارکس آئے ہیں، اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ… اس نے قائل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ دراصل، اسے اس وقت نوکری کی شدید ضرورت تھی۔ انگریز نے جواب دیا کہ ہم نے جس شخص کو نوکری پر رکھا ہے، اُس کا تقریباً سات سال کا تجربہ ہے۔عمیرہ کو اپنی پریشانی میں یہ دھیان ہی نہ رہا کہ ساتھ والے کاؤنٹر پر، اردگرد کے ماحول کو بغور دیکھتی ایک لڑکی پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔ دیکھنے میں وہ مشرقی لگتی تھی۔

چہرے مہرے سے پاکستانی یا ہندوستانی۔ مگر لباس میں اُس نے جینز اور جرسی پہن رکھی تھی، جبکہ عمیرہ شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ فائل اٹھا کر واپس مُڑی۔ سنو، سنو… لڑکی لپک کر اس کے پیچھے آئی۔ پہلے انگریزی میں آواز دی، پھر اردو میں پوچھا کہ پاکستانی؟ عمیرہ نے اُسے اجنبی نظروں سے دیکھا۔ ہائے، لڑکی نے اپنائیت سے مسکراتے ہوئے اس کی طرف گرم جوشی سے ہاتھ بڑھایا۔ مرینہ عباسی… میں بھی پاکستانی ہوں، وہ خوش دلی سے بولی۔ عمیرہ نے رسمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا۔ دراصل، اس کا ذہن اس وقت بہت پریشان تھا، اور اِس اجنبی ملک میں وہ کسی ہم وطن سے سیاحتی انداز میں گپیں لڑانے کے موڈ میں ہرگز نہ تھی۔ تم… میرا مطلب ہے، آپ یہاں جاب کے لیے آئی تھیں؟ مرینہ نے اسے قدم بڑھاتے دیکھ کر فوراً مطلب کی بات پر آنا چاہا۔ ہاں… مگر نہیں ملی۔ وہ چلتے ہوئے مختصر بولی۔ دراصل میں بھی یہاں کسی موٹیویشنل اسپیکر کو ذاتی طور پر ہائر کرنے کے لیے آئی تھی۔

مرینہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بولی۔ تم کہہ رہی تھیں کہ وہاں تم نے کورسز کیے ہیں؟جی، کیے تو ہیں کچھ شارٹ کورسز… نوکری سے جو باقی وقت بچ جاتا تھا، اس میں۔ یہ پہلا جواب تھا جو عمیرہ نے تفصیل سے دیا تھا۔ تو نوکری چلی گئی آپ کی؟ مرینہ نے سوال کیا۔عمیرہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اچھا سنو… چلتے چلتے اب وہ دونوں مین گیٹ تک پہنچ چکی تھیں۔ مرینہ نے بات جاری رکھی۔ مجھے اپنے بھائی کے لیے کوئی ایسا شخص چاہیے جو اسے نفسیاتی طور پر زندگی کی طرف واپس لا سکے۔ وہ اس وقت بہت مایوس ہے، بلکہ دنیا سے ہی مایوس ہو چکا ہے۔ میں اُسے ایسے نہیں دیکھ سکتی اور یہ بھی نہیں چاہتی کہ اُسے یہ پتا چلے کہ میں نے اس کے لیے باقاعدہ کسی کو بھیجا ہے۔ بلکہ کوئی ایسا ہو جو یونہی اس کا دوست بن جائے اور اُسے زندگی کے مثبت پہلو دکھائے۔ اس کی آنکھوں کا آپریشن ہونے والا ہے، اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ پھر سے دنیا دیکھ سکے گا۔مرینہ سمجھ گئی تھی کہ عمیرہ زیادہ بات چیت کے موڈ میں نہیں، اس لیے اس نے جلدی جلدی سب کچھ بتانا شروع کر دیا اور ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔

عمیرہ بے یقینی سے اسے سنتی رہی۔ میں اس کے لیے اچھی رقم دینے کو تیار ہوں، بس میں اپنے بھائی کو پہلے کی طرح ہنستے بولتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ اس کی منگیتر نے آپریشن سے پہلے ہی منگنی توڑ دی، اور پچھلے سال مما کے انتقال کے بعد وہ بہت ٹوٹ چکا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ آپریشن بھی نہ کروائے اور باقی زندگی یونہی گزار دے۔ مرینہ نے بیگ سے رقم کا لفافہ نکال کر عمیرہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کہنے لگی کہ یہ تم رکھ لو، اس میں میرا کارڈ وغیرہ سب کچھ ہے۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی، اس میں میری کوئی چال نہیں۔ دل کرے تو میرے نمبر پر رابطہ کر لینا، ورنہ رقم لوٹانے کی ضرورت نہیں… بائے۔ وہ یہ کہہ کر تیزی سے اپنی کار کی طرف بڑھ گئی۔عمیرہ نے اسے روکنا چاہا، مگر بھیڑ کی وجہ سے موقع نہ ملا۔
***
اداس مت ہو، اِن شاء اللہ جلد تمہیں کوئی نہ کوئی اچھی نوکری مل جائے گی۔ اس کے ساتھ رہنے والی لڑکی ایمن بھی پاکستانی تھی، لاہور سے اس کا تعلق تھا۔ وہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرچکی تھی۔ پاکستان میں اس کی شادی ہونی تھی، اس لیے کچھ ماہ بعد اسے واپس لوٹ جانا تھا۔ فلیٹ ایمن نے ہی کرایے پر لے رکھا تھا۔ عمیرہ کی کسی دوست کے کہنے پر ایمن نے اسے ڈیڑھ سال سے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ عمیرہ کا تعلق کراچی کے متوسط طبقے سے تھا۔ ابو کے انتقال کے بعد وہ اور امی، ماموں کے گھر میں رہتے تھے۔ ممانی مشکل سے ہی ان کا وجود برداشت کرتی تھیں۔ اس نے بہت سی جگہوں پر نوکری کے لیے درخواست دی ہوئی تھی۔ قسمت سے اسے امریکہ کے شہر بروک ہیون میں دو سال کے کانٹریکٹ پر نوکری مل گئی۔ اسے تو یقین ہی نہ آیا، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ جب قسمت میں کچھ ہونا طے ہو، تو کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ اس کے باقی سارے مسئلے بھی حل ہوگئے اور رہائش کا انتظام ایک سہیلی کی مدد سے ایمن کے ساتھ ہوگیا تو وہ بروک ہیون آگئی۔ نوکری اچھی تھی، ڈیڑھ سال اس نے محنت سے کام کیا، امی کو بھی پیسے بھیجتی رہی، پھر کسی وجہ سے دفتر میں شدید اختلافات ہوگئے اور اس کی نوکری چلی گئی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/mohabbat-ki-roshni.html


جس لاوارث بچے کو میں اسپتال لے کر گئی تھی، چیونٹیوں نے اس کے پورے جسم کو کاٹ ڈالا تھا۔ شکر ہے وہ بچ گیا۔ اب اس کی حالت خ...
22/10/2025

جس لاوارث بچے کو میں اسپتال لے کر گئی تھی، چیونٹیوں نے اس کے پورے جسم کو کاٹ ڈالا تھا۔ شکر ہے وہ بچ گیا۔ اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اس کے علاج کی تمام ذمے داری میں نے لے لی ہے۔ جب وہ ٹھیک ہو جائے گا، تو فلاحی ادارے والے لے جائیں گے۔ اس کی پرورش پر جو اخراجات ہوں گے، وہ میں دوں گی۔ نگار خانم نے کسی دباؤ میں آئے بغیر کہا، تو نرگس بائی کو اپنے لہجے کی ناگواری کا احساس ہوا۔ وہ نرم لہجے میں بولی، میں تو تمہیں سمجھا رہی تھی۔ پرائے بچے کی ذمہ داری اپنے سر لینا آسان نہیں۔
👇👇
یہ بیس فلیٹوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت تھی، جہاں پڑھے لکھے اور معزز لوگ رہ رہے تھے۔ عصر کا وقت تھا، عمارت کے گراؤنڈ میں بچے کھیلنے ملنے میں مصروف تھے۔ ادھیڑ عمر شخص وہیل چیئر پر بیٹھا بچوں کو کھیلتے دیکھ کر دل بہلا رہا تھا۔ سامنے ہی عمارت کے داخلی دروازے پر تیس برس کی عورت رکشے والے سے کرایے کے پیسوں پر بحث کر رہی تھی۔ بلڈنگ کی کھڑکی سے جھانکتی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری سے نفرت بھرے لہجے میں کہا، اب اس قسم کی عورتیں ہم شریفوں کے محلے میں آکر رہیں گی، تو ماحول تو خراب ہوگا۔ واجدہ آپا، آپ جمال بھائی سے بات کر کے گناہوں کی اس گٹھڑی کو یہاں سے چلتا کریں۔ آخر وہ یونین کے صدر ہیں۔ تم کیا سمجھتی ہو، میں نے ان سے بات نہیں کی ہوگی؟ نگار خانم کو اتنی آسانی سے یہاں سے چلتا نہیں کیا جا سکتا۔ اُس نے فلیٹ خریدا ہے، کرایے پر نہیں لیا۔ اگر وہ کرایے پر آتی، تو پھر بھی مدثر صاحب سے بات کی جا سکتی تھی کہ انہوں نے ایک بازاری عورت کو اپنا فلیٹ کرایے پر کیوں دیا؟ مگر انہوں نے تو محلے والوں کا خیال کیے بغیر ہی اپنا فلیٹ اسے فروخت کر دیا۔ واجدہ بیگم نے بتایا۔

پڑوسن ذکیہ سے ان کی خوب بنتی تھی۔ واجدہ بیگم اور ان کے شوہر جمال الدین کی پوری بلڈنگ میں عزت تھی۔ جمال الدین ایک دیندار انسان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ محلے والوں نے انہیں یونین کا صدر بنایا تھا۔ بلڈنگ کے تمام معاملات وہی دیکھتے تھے جب کہ واجدہ بیگم جو استانی جی کے نام سے مشہور تھیں، بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔ بیڑہ غرق ہو مدثر صاحب کا، ذکیہ بڑبڑائیں پھر مزید گویا ہوئیں، کل فاروق صاحب سے بات ہوئی تھی۔ میں نے ان سے نگار خانم کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ جب تک وہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی، وہ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔ انہوں نے تو بتایا تھا کہ اسے تین مہینے ہوئے ہیں جیل سے رہا ہوئے اور یہ منحوس منہ اٹھائے یہاں چلی آئی۔ اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں یہ اندر تھی۔ ظاہر ہے، اس طرح کی بد کردار عورتیں ہی اپنے شوہر کو قتل کریں گی نہ کہ ہم جیسی شریف عورتیں۔ پیسےکے پیچھے اس نے اپنے شوہر کو قتل کیا ہوگا۔ فاروق صاحب تو بتا رہے تھے کہ اس پر جرم ثابت نہیں ہوا ہے، تبھی تو یہ چھوٹ گئی ہے؟ بس رہنے دو ذکیہ، ہمارے ملک میں ایسی باتیں عام ہیں۔ مجرم دندناتے باہر گھومتے ہیں۔ چھوڑو اس ذکر کو، یہ بتاؤ آج تم نے کیا پکایا ہے؟ وہ موضوع بدلتے ہوئے کھڑکی سے ہٹ گئیں۔
٭٭٭
رات کی تاریکی، صبح کاذب کے اجالے میں غائب ہونے کو تھی۔ کھڑکی میں کھڑی نگار ڈوبتے ستاروں کو دیکھنے میں محو تھی۔ بظاہر اس کی نگاہیں آسمان پر مگر ذہن ماضی میں بھٹک رہا تھا۔ نگار جس ماحول میں پلی پڑھی تھی، وہاں عورت کا ایک خاص روپ تھا۔ وہاں عورت ناچتی، گاتی اور مردوں کا دل بہلا کر اُن کی جیبیں خالی کرواتی تھی۔ نگار کی سمجھ میں یہ باتیں رفتہ رفتہ آئی تھیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد والدین کے تصور سے واقف ہونے پر اسے سب سے پہلے انہی کا خیال آیا تھا اور اس نے نرگس بائی، جنہیں اس سمیت تمام لڑکیاں آپا جی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، ان سے اپنے والدین کے بارے میں پوچھا تھا، جس پر انہوں نے اُسے بڑی محبت اور اپنائیت سے بتایا تھا کہ کچھ لوگ اُسے کہیں سے اٹھا کر لائے تھے اور انہوں نے رقم کے عوض اسے بیچ دیا تھا، اس لیے وہ اس کے والدین کے بارے میں نہیں جانتیں۔ پھر وہ مزید گویا ہوئی تھیں کہ وہ انہیں ہی اپنی ماں سمجھے۔ ویسے بھی اسے یہاں کس چیز کی کمی تھی۔ ان کی بات بھی ٹھیک تھی۔

نگار کو یہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ کم عمری میں اس کی دوشیزگی کا سودا کر دیا گیا تھا۔ وہ بہترین رقاصہ تھی۔ اس کے حسن و شباب کا اس کی ہم عمر لڑکیوں سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ وہ اُن سب سے زیادہ حسین تھی۔ نرگس بائی اُس سے بہت خوش تھی کہ اُس نے کوٹھے کی آمدنی میں بہت اضافہ کر دیا تھا، مگر نگار کو یہ زندگی اچھی نہیں لگتی تھی۔ اُسے تو وہ زندگی پسند تھی جہاں عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ رہتی تھیں۔ نگار کو اس زندگی کا کوئی تجربہ نہیں تھا، پھر بھی وہ یہ زندگی گزارنا چاہتی تھی اور سوچتی تھی کہ اگر اسے کبھی کسی کی بیوی بننے کا موقع ملا، تو وہ یہ چانس ضائع نہیں کرے گی۔ وہ کھڑکی میں کھڑی یہی سوچ رہی تھی کہ کیا اُس کا سالار سے شادی کا فیصلہ غلط تھا؟
٭٭٭
بچے سپارہ پڑھ کر جا چکے تھے۔ طبیعت کی خرابی کے باعث واجدہ بیگم نے آج بچوں کی جلدی چھٹی کر دی تھی۔ مغرب سے پہلے زرینہ ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی اور ان کی سوالیہ نگاہوں کے جواب میں بتایا کہ پڑوسن کو بہت خیال ہے آپ کا، تب ہی آپ کے لیے گرما گرم بریانی اور زردہ دے گئی ہیں۔ یہ وہی ہیں، جو اس سے پہلے بھی کچھ نہ کچھ لے کر آتی رہی ہیں؟ جی ہاں، آپ کے کہنے پر میں نے ان کا نام پوچھا ہے۔ نگار نام بتایا ہے انہوں نے۔ یہ سنتے ہی واجدہ بیگم کا دماغ سن ہو گیا اور وہ بیڈ سے اتر کر کھڑی ہو گئیں۔ زرینہ، دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا یا سٹھیا گئی ہو؟ تم مجھے ایک دھندہ کرنے والی کے گھر کا کھانا کھلاتی رہی ہو؟ ہم شریف لوگ مر سکتے ہیں، مگر کسی ایسی عورت کے گھر کا نوالہ نہیں کھا سکتے۔ واجدہ بیگم نے ٹرے زرینہ کے ہاتھ سے لی اور گھر کے گیٹ پر کھڑی نگار کے پاس جا پہنچیں، جو چادر میں لپٹی کھڑی تھی۔ اے بی بی، اپنی ٹرے پکڑو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ تمہارا ناپاک وجود اس قابل نہیں کہ منہ اٹھائے یہاں آ جائے۔ آئندہ یہاں قدم نہ رکھنا۔واجدہ بیگم کی پھٹکار پر نگار کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک لمحے کو انہیں اپنے الفاظ پر شرمندگی ہوئی، مگر اگلے ہی لمحے ان کے دل نے کہا کہ شرمندگی نگار کو ہونی چاہیے، نہ کہ انہیں، جو اپنے پاکیزہ گھر میں اس کا غلیظ وجود برداشت کر رہی ہیں۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/tawaif-zadi-ka-haj-1.html


باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس نہ ہوا اور رات ہو گئی۔ تب وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ اچھا اب میں...
22/10/2025

باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس نہ ہوا اور رات ہو گئی۔ تب وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ اچھا اب میں ایسا کرتی ہوں کہ اپنی سہیلی روپا کو فون کر دیتی ہوں کہ اگر میرے گھر سے فون آئے تو کہہ دے کہ میں اس کے گھر رات رک گئی تھی۔اس نے پہلے سہیلی کو فون کیا، پھر اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ اسے سہیلی کے گھر سے نکلنے میں دیر ہو گئی ہے کیونکہ پارٹی دیر سے ختم ہوئی ہے، تو وہ اب روپا کے گھر پر ہی رکے گی اور صبح گھر آجائے گی۔
👇👇
یہ قصہ برصغیر کے بٹوارے سے چند برس قبل کا ہے۔ ان دنوں ہمارے دادا بمبئی سے کراچی آ کر آباد ہو چکے تھے۔ وہ ایک تاجر تھے اور تجارت کے سلسلے میں بمبئی سے یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ بعد میں یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ چندن کا تعلق بھی بمبئی کے ایک معزز گھرانے سے تھا اور یہ لوگ ہمارے ہم زبان تھے۔ گجراتی ان کی مادری زبان تھی۔ چندن کے دادا نے بھی کراچی شہر کا ہی انتخابِ غرضِ تجارت کیا تھا، لہٰذا ہمارے بزرگوں کا آپس میں گہرا دوستانہ تعلق تھا۔

جب انگریزوں کی حکومت تھی، وہ اس شہر کی تعمیر نو اور ترقی کے کئی منصوبوں پر پیہم مصروف کار رہے تھے اور کراچی کی توسیع میں انہوں نے اہم کام کیے تھے، جس کے بدولت اب یہاں پختہ سڑکیں اور دیگر سہولیات میسر تھیں۔ یہ نیا علاقہ پرانے شہر سے، جو فصیل کے اندر ہوا کرتا تھا اور جہاں قدیمی رہائش آباد تھی، بالکل الگ تھلک تھا۔ نئے علاقے کی تعمیر میں انگریزوں نے اپنے قیام کی خاطر خاص توجہ دی تھی۔ صاف پانی کی فراہمی، معیاری سڑکیں، سیوریج کی نکاسی اور بہترین ٹاؤن پلاننگ پر کام کیا جا چکا تھا اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی بہترین ہو چکی تھی۔

انگریزوں نے پوری توجہ تجارتی سرگرمیوں پر مرکوز رکھی تھی اور بندرگاہ سے شہر تک رسائی کے راستے تعمیر کرا کے قلیل مدت میں شہر میں کامیاب تجارتی منڈی قائم کر دی تھی۔ تبھی بمبئی اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے تاجر یہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے۔ میرے اور چندن کے بزرگوں نے بھی یقینا اسی سبب سے بمبئی سے یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کو سوچا ہو گا، کیونکہ یہاں انہیں مال رکھنے کے لیے گوداموں کی بہترین سہولت سستے داموں میسر آ گئی تھی۔ہمارے خاندانوں کو نقل مکانی ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا کہ بنوارہ ہو گیا اور ہم جو پہلے ہندوستانی تھے، پاکستانی ہو گئے۔ تاہم ہمارے کچھ عزیز و اقارب واپس بمبئی چلے گئے مگر میرے والد نہ گئے۔ انہوں نے گارڈن کے علاقے میں بہت عمدہ گھر بنالیا تھا۔ چندن کے والد میرے والد کے تجارتی شراکت دار اور اچھے پڑوسی بھی تھے، لہٰذا انہوں نے بھی اصرار کیا کہ والد اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر نہ جائیں۔ہم دو بہنیں تھیں، ہمارا کوئی بھائی نہ تھا۔

والد صاحب اپنے پڑوسی کے بیٹے چندن سے بہت پیار کرتے تھے اور اسے اپنا بیٹا کہہ کر بلاتے تھے۔ بعد میں جب ہم بڑے ہو گئے تو انہوں نے چندن سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میں ان دنوں میٹرک میں تھی۔ جب ہماری بات طے پائی کہ جب میں اور چندن تعلیم مکمل کر لیں گے تو ہماری شادی کر دی جائے گی۔ میں تو چندن سے منگنی کے بندھن میں بندھ جانے سے خوش تھی مگر اس کے دل کا حال نہ جانتی تھی کیونکہ ان دنوں منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کے آپس میں آزادانہ میل جول کا رواج نہیں تھا۔نہیں جانتی تھی کہ میری بدقسمتی کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب چندن ایک دن جماعت خانہ گیا تھا، وہاں اس نے ایک ایسی لڑکی کو دیکھا جس کو بے اختیار اپنانے کا دل چاہنے لگا۔ یوں جو بات پلکوں کے پل سے شروع ہوئی، ملاقاتوں کے باغ تک جا پہنچی۔ اس لڑکی کا نام مہ پارہ سمجھ لیں۔ پہلے پہل تو چندن اور مہ پارہ کسی سینما ہال میں ملا کرتے تھے، پھر یہ ملاقاتیں شاپنگ پر طویل ہونے لگیں۔

چندن اپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی جیب نوٹوں سے بھری رہتی تھی۔ وہ پارو پر پیسے بے حساب خرچ کرتا اور اپنے دل کی خوشیاں خریدتا رہا۔ جب پارو کی مہنگی فرمائشوں پر اخراجات حد سے بڑھ گئے تو والدین نے اس پر روک ٹوک شروع کر دی۔ اس پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ اس نے بھی والدین سے لڑائی مول لے لی۔پارو ایک آزاد خیال اور ماڈرن لڑکی تھی۔ وہ چندن کے ساتھ ہر جگہ جانے پر تیار ہو جاتی۔ چندن کے والد ان دنوں فلیٹ کا کاروبار بھی کر رہے تھے تاکہ انہیں بعد میں اچھے داموں فروخت کر سکیں۔ ان فلیٹوں کا انتظام چندن کے ہاتھ میں تھا۔ ان میں سے ایک فلیٹ کو چندن نے اپنی رہائش گاہ بنا لیا تھا۔ اسے فرنیچر سے آراستہ بھی کر دیا تھا۔ یہ فلیٹ پارو کو بہت پسند آیا۔ اس نے کہا کہ چندن بجائے پبلک پلیس پر ملنے کے، کیوں نہ ہم اسی فلیٹ میں ملا کریں تاکہ بلا جھجک اور سکون سے ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں۔اب جب بھی ان کو ملنا ہوتا، فون کر کے وقت طے کر لیتے۔ مہ پارہ چندن کے فلیٹ پر آ جاتی اور یہ سکون بھری ملاقات کر لیتے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/tanhai-ki-tapash.html

Address

Chishtian Mandi

Telephone

+923006986459

Website

https://vuinnovator.blogspot.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kashif Nadeem posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kashif Nadeem:

Share