Kashif Nadeem

Kashif Nadeem Content Writer

25/09/2025

انوکھے سسرالی
دوسری قسط

ایک سال گزر گیا۔ شروع دنوں میں وہ باقاعدگی سے بیوی کو خط لکھتے رہے، مگر پھر آہستہ آہستہ ان کے معمول میں تبدیلی آ گئی۔ اب تو دو دو ماہ گزر جاتے، ان کا خط نہ آتا، اور اگر آتا بھی تو بے حد مختصر ہوتا۔ رانی ان کے رویے پر خاصی بددل ہو گئی تھی، مگر اس نے شوہر کی وفا پر کبھی شک نہ کیا بلکہ مصروفیات سمجھ کر خاموش رہی۔ایک دن اس کے انجانے خدشات نے حقیقت کا روپ دھار لیا..

ریاض نے بیوی کو خط میں لکھا رانی! ابا جان کی وفات کے بعد سے جب سے یہاں آیا ہوں، دل بہت بے چین ہے۔ کئی بار سوچا کہ اپنے دل کی بات تم پر آشکار کر دوں، مگر ہمیشہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں کہ میری بات سن کر تم جیسی وفا شعار بیوی کے دل پر کیا گزرے گی۔ اس سے پہلے کہ میں تمہاری نظروں میں گر جاؤں، مر جانا بہتر سمجھتا ہوں۔لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اگر مر گیا تو اس دنیا میں کون ہوگا جو میری روح کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ کرائے گا؟ یہ بھی سوچتا ہوں کہ ربِّ عزّت نے ہمیں تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ کون سی ایسی چیز ہے جو ہمارے پاس نہیں؟ ان سب نعمتوں کے ساتھ اگر ایک اولاد بھی عطا کر دیتا تو اس کے خزانے میں کیا کمی آ جاتی؟مانتا ہوں کہ ایسا سوچنا کفرانِ نعمت ہے، مگر کیا کروں؟ عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ بچوں کے نہ ہونے سے زندگی بالکل بے کیف لگتی ہے۔ معاف کرنا، میں نے دل کی ساری بات کھول کر بیان کر دی ہے۔ اب تمہاری رائے لینا چاہتا ہوں کہ تم اس بارے میں کیا کہتی ہو؟میں تمہاری موجودگی میں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر ایک خلش ہے جو تیر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو چکی ہے۔ بے شک ہمارے بعد جائیداد کے وارثوں کی کمی نہ ہو گی، مگر ہماری بخشش کے لیے فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

یہ خط پڑھ کر رانی بہت روئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا:روبی، بتا! میں اس خط کا کیا جواب دوں؟میں نے اسے چند باتیں سمجھائیں، تب اس نے اپنے شوہر کو خط لکھا اور مجھے دکھایا:میرے سرتاج! صد سلامت رہو۔میرا ایمان ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے اعمال ہوتے ہیں، جو بندے کے کام آتے ہیں۔ پھر یہ سوچیں آج آپ کو کیوں بے قرار کر رہی ہیں؟ کیا ہمارے آبا و اجداد اپنے ساتھ کچھ لے کر گئے؟ اگر کچھ لے کر گئے، تو وہ صرف اور صرف ان کے اعمال تھے۔ یہی اعمال ان کے کام آئے۔تو پھر ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری جائیداد کا کوئی وارث ہو تاکہ ہمارا نام باقی رہے؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر انسان اس دنیا میں رہ کر کچھ ایسے کام کر جائے جن میں خلقِ خدا کی خدمت شامل ہو، تو وہ مرنے کے بعد بھی صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔ یاد رہنے کے لیے صرف اولاد ہی ضروری نہیں۔

جب یہ خط ریاض کو موصول ہوا، جانے اس پر کیا اثر ہوا کہ ادھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ دو ماہ گزر گئے، رانی کی پریشانی قابلِ دید تھی۔ اپنے پیارے شوہر کے خط کے انتظار میں وہ بیمار پڑ گئی۔رانی کی ساس نے بیٹے کو فون کر کے بہو کی بیماری کی اطلاع دی تو ریاض کا جواب آیا:میں تمہیں اپنے دل کی حالت لکھتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوں، کیونکہ میرا ضمیر مطمئن ہے اور مجھے ذاتِ باری تعالیٰ پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ جسے چاہے دے، اور جس سے چاہے لے لے۔لیکن یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ دنیا میں اولاد انسان کے لیے قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے۔ اگر نیک اولاد ہو تو دین و دنیا سنور جاتی ہے، اور اگر وہ برائی کے راستے پر چل پڑے تو والدین مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ لوگ پھر والدین کو بھی اولاد کے نام پر اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔مگر اولاد کی آرزو ہر حال میں باقی رہتی ہے۔میں تمہاری طرف سے پریشان ہوں، کیونکہ شاید تم نے میرے خط کا اثر بہت زیادہ لے لیا ہے، یا شاید تم نے بھی اولاد کی کمی کو دل میں بساکر روگ پال لیا ہے۔ہمارے ہاں اولاد نہیں ہوئی تو اس میں تمہارا کیا قصور؟ نہ میں تمہیں الزام دیتا ہوں، نہ تمہیں سزا دینا چاہتا ہوں۔مرد اگر دوسری شادی صرف اولاد کے لیے کرتے ہیں تو وہ قابلِ معافی ہوتے ہیں، تاہم میں ہرگز تمہیں دکھی نہیں دیکھ سکتا۔اگر میرا بس چلے تو میں دنیا کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں پر نچھاور کر دوں، مگر مجھے بچوں سے بھی پیار ہے۔

ریاض کے اس خط سے اس کے دل کی محرومی اور بچوں کی شدید خواہش کا اظہار ہوتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اب زیادہ دن اس خواہش کو دبا نہیں پائے گا، اور دوسری شادی کی اجازت کے لیے بیوی پر دباؤ ڈالے گا۔

پھر سنا کہ وہ پاکستان آ رہا ہے۔ میں حالات جاننے کے لیے رانی کے گھر گئی۔ وہ گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مصروف تھی۔ اس کی اپنے شوہر سے والہانہ محبت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اگر ریاض نے آ کر اس کے سارے خواب توڑ دیے تو کیا ہوگا؟اور وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ ریاض کی آمد کے دو تین دن بعد ہی رانی کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی۔ اس کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا اور اس سے اجازت مانگ رہا تھا۔ وہ اولاد کی نعمت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا کیونکہ رانی بانجھ تھی۔اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا، مگر عورت ہی ہمیشہ اس کی سزا پاتی ہے، حالانکہ یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے ہوتا ہے۔

اس نے غمناک دل سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دے دی تاکہ اپنے شوہر کو خوش اور مطمئن دیکھ سکے۔ ساس نے ایک لڑکی غریب خاندان سے پسند کی، جو ان کی دور کی رشتہ دار بھی تھی۔ غریب لڑکی کو اس لیے چُنا گیا کہ وہ رانی کی تابعدار رہے گی۔شوہر بہت مشکور تھا۔ اس نے بھی کہا کہ وہ عمر بھر رانی کا احسان نہیں بھولے گا، اور ہمیشہ اس کا وفادار رہے گا۔اب رانی اندر سے گھلنے اور مرنے لگی۔ اس کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہو رہی تھی، جیسے کوئی اندر ہی اندر اسے کھا رہا ہو۔ بالآخر وہ شدید بیمار ہو گئی۔جن دنوں اس کی ساس نئی بہو لانے کی تیاریوں میں مصروف تھی، رانی دن بہ دن ختم ہوتی جا رہی تھی۔

ایک دن ریاض زیورات کا ڈبہ ہاتھ میں لیے خوشی خوشی گھر آیا۔ آتے ہی رانی کے پاس گیا اور بولا:دیکھو، جیسا سیٹ اُس کے لیے ہے، تمہارا اس سے بھی بہتر ہے۔ لو، دیکھو تو سہی۔رانی نے شوہر کے اصرار پر مخملی ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو ریاض کو وہ ہاتھ لکڑی کا سا محسوس ہوا۔ یکدم اسے جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس نے غور سے رانی کے چہرے کی طرف دیکھا وہاں کچھ بھی باقی نہ تھا۔ وہ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ آنکھوں کے چراغ بھی بجھ چکے تھے۔ریاض کے دل پر جیسے کوئی تیز دھار چیز چل گئی۔ اولاد کی خواہش پوری کرنے کی جستجو میں، دوسری شادی کے انتظامات میں ایسا الجھ گیا تھا کہ اسے مدتوں سے رانی کی حالت پر توجہ دینا یاد ہی نہ رہا۔میرے خدا! میں نے اس کی کیا حالت کر دی۔ایک لمحے کو وہ رکا، اور پھر خود سے شرم سار ہو گیا۔

اس نے زیورات کے ڈبے ایک جانب رکھ دیے اور ماں سے کہہ دیا:میں دوسری شادی نہیں کر رہا۔ اگر اولاد نہیں ہوتی تو یہ خدا کی مرضی ہے۔ میں اپنی رانی کو دکھ کی آگ میں جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔

انہی دنوں ریاض کی بھابھی نے چوتھے بچے کو جنم دیا تھا۔ ریاض نے بھابھی کے پاؤں پکڑ لیے اور اس سے بچہ مانگ لیا۔ پھر وہ بچہ لے کر رانی کی جھولی میں ڈال دیا۔آج اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ رانی تندرست، توانا اور خوش باش زندگی گزار رہی ہے۔ اس نے آج تک اس بچے کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کی حقیقی ماں نہیں ہے۔خدا ہر عورت کو رانی جیسا شوہر اور ساس نندیں عطا کرے۔
(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئے تو پیج کو فالو کر لیں اور کمنٹ میں اپنی رائے ضرور دیں شکریہ


25/09/2025

انوکھے سسرالی
پہلی قسط

رانی میری بچپن کی سہیلی تھی۔ ہم دونوں زندگی کے ہر دور میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی تھیں۔ وہ شروع سے ہی ملنسار، خوش اخلاق اور قوتِ برداشت سے مالا مال لڑکی تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے خوب لاڈ پیار میں پلی بڑھی تھی۔ خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئی، لہٰذا تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ والدین کے علاوہ رشتہ دار بھی اس پر جان چھڑکتے تھے اور اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات حرفِ آخر کا درجہ رکھتی تھی۔

اتنے ناز سے تربیت پانے والی لڑکیاں اکثر خود پسند اور خود سر ہو جاتی ہیں، جبکہ رانی نے کبھی اپنے دل میں ایسی فرسودہ عادات کو جگہ نہ دی۔ اتنے بڑے زمیندار گھرانے کی ہو کر بھی محلے کی غریب لڑکیوں سے دوستی رکھتی تھی۔ کبھی اس نے اپنی امارت اور ہماری غربت کا موازنہ کر کے ہماری دل شکنی نہیں کی۔ رانی کی امی کو ہم خالہ جی کہتے تھے۔ انہوں نے بھی کبھی بیٹی کو غریب لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے سے منع نہیں کیا۔ میں نے بارہا محسوس کیا کہ رانی فیاض دل اس لیے ہے کہ اس کے والدین نہایت رحم دل اور سخی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام سہیلیوں کے بیچ ایسے دمکتی جیسے نیلگوں آسمان پر جھلملاتے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند۔

ہم سب کی نظروں میں اس کی زندگی قابلِ رشک تھی۔ نہایت لاڈ پیار میں گزرا بچپن، اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکپن، اچھی خواہشات کی تکمیل سے بھرپور جوانی، اور پھر ایک کامیاب ازدواجی زندگی یہ سب قدرت کی ایسی عنایات تھیں جو رانی کی خوش اخلاقی کا انعام تھیں۔

ریاض، اس کے تایا کا بیٹا تھا جس سے رانی کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ وہ دبئی میں انجینئر کے عہدے پر فائز تھا۔ دونوں اپنی زندگی کے سفر پر نہایت مسرور و مطمئن تھے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ دبئی جا چکی تھی۔ میری بھی شادی ہو گئی اور میں اپنے شوہر کے ہمراہ جدہ چلی گئی۔ شادی کے بعد بھی میرا رانی سے رابطہ قائم رہا۔ وہ مجھے خط اور ٹیلی فون کے ذریعے خیریت سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔

ریاض اس کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ زندگی میں کسی شے کی کمی نہ تھی، تاہم پانچ سال گزرنے کے بعد بھی اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی۔ سچ ہے، زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔ غم اور خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ اس دنیا سے کوئی انسان تمام خواہشات کی تکمیل کے ساتھ نہیں جاتا، بلکہ کوئی نہ کوئی حسرت ناتمام ضرور دل میں دبا کر اس دارِ فانی سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ اس دوران ریاض نے رانی کا بہت علاج کرایا۔ بڑی سے بڑی لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا، مگر مراد پوری نہ ہو سکی۔ رانی مجھے اپنے شوہر کے بارے میں لکھتی تھی کہ روبی، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ ریاض مجھے اتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے کبھی اولاد نہ ہونے کا طعنہ نہیں دیا۔ سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ ان کے خلوص اور پیار میں کبھی کمی نہیں آئی۔ وہ اس بات سے بھی پریشان نہیں ہوتے کہ ان کی جائیداد کا کوئی وارث نہیں ہوگا۔

تاہم، رانی خود اس مسئلے پر پریشان رہنے لگی تھی اور اکثر مجھے اپنے خدشات سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔ ساتھ ہی کہتی تھی کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو وہ ہم دونوں پر ضرور کرم کرے گا۔ جب اس نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے تو ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اصل میں ریاض اسے سمجھاتا اور تسلیاں دیتا رہتا تھا، پھر بھی جانے کیوں وہ مطمئن نہ ہوتی اور کہتی کہ کاش ہمارے پیار سے سینچے ہوئے شجرِ محبت کو پھل پھول لگ جائیں۔ ریاض کی والدہ اور بہنوں کو بھی اس چمن میں پھول کھلنے کی تمنا تھی، مگر وہ روایتی ساس اور نندیں نہ تھیں جو رانی کو اس ناکردہ گناہ کی سزا دیتیں یا ریاض کو اس سے بد دل کرتیں۔ وہ سب دعائیں کرتے تھے کہ یا رب کریم، ہماری رانی کی گود ہری کر دے۔

ایک دن اچانک رانی نے مجھے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ وہ اور ریاض پاکستان آئے ہوئے ہیں کیونکہ تایا جی کی صحت کافی خراب ہے۔ اس نے کہا کہ اگر تم ملنے آ سکو تو بہت اچھا ہوگا۔ ان دنوں میں بھی اپنے شہر آئی ہوئی تھی۔ اگلے دن ہی اس سے ملنے چلی گئی۔ جب میں نے رانی کو دیکھا جسے میں دنیا کی کامیاب اور خوش قسمت عورت سمجھتی تھی تو وہ سراپا حسرت بنی نظر آئی۔ مجھ سے ملتے ہی اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ لیے اس نے میرا استقبال کیا۔ میں نے کہا، رانی، تم نے ہمیشہ ہمیں خوش رہنے کا درس دیا، خود تم نے یہ کیسا روگ پال لیا ہے؟

کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھی، تسلی دیتی رہی۔ شام کو اس کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر والدین کے گھر واپس آ گئی۔ اسی رات رانی کے والد، جو کافی بیمار تھے، وفات پا گئے۔ میں دوبارہ ان کے گھر گئی۔ رانی کا رو رو کر برا حال تھا، کیونکہ وہ صرف اس کے والد ہی نہیں بلکہ تایا بھی تھے۔ ریاض بھائی بہت مغموم تھے۔ وہ رانی کی طرف سے تو مضبوط نظر آئے، لیکن اُس دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جس نے ان جیسے مضبوط انسان کے دل میں چھید کر دیا۔

والد کی وفات کے چھ سات دن بعد، جمعرات کے دن، ریاض کی والدہ نے شام کے وقت بیٹے کو بلا کر کہا کہ بیٹا، شام ہونے کو ہے۔ جلدی جلدی کھانے پر فاتحہ پڑھوا کر روٹی کسی غریب یتیم کو دے آؤ۔ یاد رکھنا، چالیس دن تک بلا ناغہ شام سے پہلے کسی یتیم بچے تک روٹی ضرور پہنچانا کیونکہ اولاد ہی والدین کی روحوں کو ثواب پہنچاتی ہے۔ساتھ ہی ماں کی سسکیاں نکل گئیں۔ بیٹا، دعا کرو، کوئی بے اولاد نہ مرے، کیونکہ پھر انسان کا نام لیوا کوئی نہیں رہتا۔ اس کا نشان مٹ جاتا ہے۔ماں نے یہ بات جذبات کی رو میں کہہ دی، مگر یہ بات ریاض کے دل پر گہرا اثر کر گئی۔ وہ خاموش خاموش رہنے لگے۔

والد کی وفات کے دو ماہ بعد انہیں واپس دبئی جانا تھا۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ رانی، میرا خیال ہے کہ امی جان کی دلجوئی کے لیے تمہیں کچھ عرصہ یہیں رہنا چاہیے۔یوں شوہر کی خوشنودی کی خاطر وہ ٹھہر گئی اور ریاض بھائی اکیلے دبئی چلے گئے۔

جاری ہے۔
اگر کہانی پسند آئے تو کمنٹ میں ضرور بتایئں۔ شکریہ

وہ تیسری بیٹی کی پیدائش کا سن کر اسے دیکھے بغیر ہی ہسپتال سے گھر چلا گیا۔ نرمین کو جب ہوش آیا ۔ تو وہ بہت دکھی ہوئی۔ اسن...
25/09/2025

وہ تیسری بیٹی کی پیدائش کا سن کر اسے دیکھے بغیر ہی ہسپتال سے گھر چلا گیا۔ نرمین کو جب ہوش آیا ۔ تو وہ بہت دکھی ہوئی۔ اسنے بیٹی کو اٹھایا اور روتے ہوئے چومنے لگی۔ وہ دو دن بعد اپنی تینوں بچیوں سمیت گھر پہنچی۔ ہسپتال والوں کو تمام خرچہ اسکے باپ نے ادا کیا تھا۔

اسے دیکھ کر اسکی ساس چلانے لگی: آگئی منحوس تین تین بچیوں کا بوجھ لے کر۔ مجھے دیکھ تین تین بیٹے جنے میں نے ۔ اور تو نے کیا یہ تین تین بوجھ لاد دیے ہمارے کندھوں پے۔ نرمین نے خاموشی سے سامان اٹھایا اور جا کر کمرے میں رکھا اور بچی کو کھلانے لگی۔ رات کو قیصر گھر آیا وہ بہت غصے میں تھا اس نے نرمین سے کہ دیا اگر اب بھی بیٹی پیدا ہوئی تو اسکو لے کر کہیں اور چلی جانا طلاق تم تک پہنچ جائے گئی۔ نرمین اپنی جگہ سن ہو کر رہ گئی۔

بھلا اس میں اسکا یا اسکی بچیوں کا کیا قصور تھا؟ قیصر کی پھپھو کے اسکے گھر روزانہ چکر پے چکر لگ رہے تھے۔ وہ روزانہ اسکے ذہن میں یہ بات ڈال دیتی تھی کہ مصباح تمہارے انتظار میں بیٹھی ہےکب سے اور تم نے اپنی پسند سے شادی کر لی دیکھو اسنے تمہیں تین بیٹیوں کے سوا اور دیا ہی کیا ہے۔ دو سال مزید گزر گئے۔ آج قیصر نرمین کے ساتھ ہسپتال نہیں گیا تھا۔ اسکے ہاں دو جڑواں بیٹیاں ہوئییں۔ قیصر تک یہ خبر پہنچتے ہی اسنے فون پر ہی نرمین کو طلاق سنا دی۔ وہ اپنی پانچ بیٹیوں سمیت باپ کے گھر آبیٹھی۔ بھائی بھابیاں کوئی برداشت نہیں کر رہا تھا اسے۔ ماں روزانہ سناتی تجھے پالیں گے اب بچوں سمیت باقی بیٹیاں بھی ہیں میری۔ ان کی شادیاں تو اب ہو گئی بس جسکی ماں کی طلاق ہو گئی ہو اسکی بیٹیوں سے شادی کون کر گا۔

نرمین طعنے سن سن کر ذہنی مریض بن چکی تھی۔ وہ کس قدر رو چکی تھی قیصر کی بے وفائی پر ہر وقت اسکی آنکھیں سرخ اور سوجی رہتی قیصر نے اگلے روز ہی دوسری شادی رچا لی۔ مصباح کے ساتھ۔ نرمین میں اب رونے کی سکت نہ تھی۔ زرتاش ابھی 8 سال کی عائشہ 6 سال اور مومنہ 2 سال کی تھی۔ باقی دو بچیوں کے ابھی نام ہی نہیں رکھے گئے تھے۔ دونوبھابیاں بڑی دونوں بچیوں سے ہر وقت نوکروں کی طرح کام کرواتی ۔ خود کے بچے بڑے بڑے سکولوں میں پڑھتے تھے۔ نرمین بھی اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی تھی۔

ایک دن وہ تہجد میں بے حد روئی۔ جب وہ اٹھی تو اچانک اسکے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ وہ اپنا زیور بیچ دے اور اس سے کوئی چھوٹا سا کام شروع کر لے۔ اس نے اس بات کا تزکرہ کسی سے نہ کیا۔ فائدہ ہی نہ تھا جب ماں ہی طعنے دیتی اسکی بیٹیوں کو مارتی تھی۔ اسنے بنا کسی کو بتائے بغیر کمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ شام کو سارا کام ختم کرکے گھر سے نکلی اور تھوڑا آگے جا کر ایک سرکاری سکول کے پاس ہی ایک چھوٹا سا گھر کرائے کے لیے لے لیا۔ اپنے زیور بیچے۔ زیور کافی مہنگے تھے تو اسکے اچھے دام مل گئے۔ اسنے اگلی صبح کسی کے اٹھنے سے پہلے بچیوں کو اٹھایا اپنا مختصر سامان باندھا۔ اور اس گھر میں چلی گئی۔ شام کو وہ دوبارہ آئی اور لوڈر رکشا میں اپنا جہیز رکھوایا جو قیصر نے ساتھ ہی واپس بجھوا دیا تھا۔ سب لوگ اسے ہکا بکا دیکھ رہے تھے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/bad-naseeb-biwi-1.html


میں تمہاری موجودگی میں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر ایک خلش ہے جو تیر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو کر رہ گئی ہے...
25/09/2025

میں تمہاری موجودگی میں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر ایک خلش ہے جو تیر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو کر رہ گئی ہے۔ بے شک ہمارے بعد ہماری جائیداد کے وارثوں کی کمی نہ ہوگی، مگر ہمارے لیے فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ یہ خط پڑھ کر وہ بہت روئی۔ کیونکہ میں بانجھ تھی اور شوہر دوسری شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک دن اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
👇👇
رانی میرے بچپن کی سہیلی تھی۔ ہم دونوں زندگی کے ہر دور میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی تھیں۔ وہ شروع سے ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور قوت برداشت سے مالا مال لڑکی تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے خوب لاڈ پیار میں پہلی بڑھی تھی۔ خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئی ، لہذا تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ والدین کے علاوہ رشتے دار بھی اس پر جان چھڑکتے تھے اور اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی۔

اتنے ناز سے تربیت پانے والی لڑکیاں اکثر خود پسند اور خود سر ہو جاتی ہیں جب کہ رانی نے کبھی اپنے من میں ایسی فرسودہ عادات کو جگہ نہ دی۔ اتنے بڑے زمیندار گھرانے کی ہو کر بھی محلے کی عریب لڑکیوں کے ساتھ دوستی رکھتی تھی، کبھی اس نے اپنی امارت اور ہماری غربت کا موازنہ کر کے ہماری دل شکنی نہیں کی۔ رانی کی امی کو ہم خالہ جی کہتے تھے۔ انہوں نے بھی کبھی بیٹی کو غریب لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے سے منع نہیں کیا تھا۔ میں نے بار بار محسوس کیا کہ رانی اس لئے فیاض دل ہے کہ اس کے والدین نہایت رحم دل اور سخی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام سہیلیوں کے بیچ ایسے دمکتی، جیسے نیلگوں آسمان پر جھلمل کرتے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند ہو۔ ہماری نظروں میں اس کی زندگی مقابل رشک تھی۔ نہایت لاڈ پیار میں گزرا بچپن ، اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکپن اور اچھی خواہشات کی تکمیل کے لئے جوانی، پھر ایک کامیاب ازدواجی زندگی۔ یہ سب قدرت کی ایسی عنایات تھیں، جو رانی کی خوش خلقی کا انعام تھیں۔

ریاض اس کے تایا کا بیٹا تھا، جس کے ساتھ رانی کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہو گئی۔ وہ دینی میں انجینئر کے عہدے پر فائز بھت۔ دونوں اپنی زندگی کے سفر پر نہایت مسرور و مطمئن تھے۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ دینی جا چکی تھی۔ میری بھی شادی ہو گئی اور اپنے شوہر کے ہمراہ جدہ چلی گئی۔ شادی کے بعد بھی میرا اس سے رابطہ رہا۔ وہ مجھے خط اور ٹیلی فون کے ذریعے خیریت سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔ ریاض اس کے ساتھ اچھا تھا۔ زندگی میں کسی شے کی کمی نہیں تھی، تاہم پانچ سال گزرنے کے بعد اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی۔ سچ ہے زندگی پھولوں کی سیج نہیں ۔ غم اور خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قانون قدرت ہے کہ اس دنیا سے کوئی انسان تمام خواہشات کی تکمیل کر کے نہیں جاتا بلکہ کوئی نہ کوئی حسرت نا تمام ضرور ہوتی ہے جس کو دل میں دبا کر اس دار فانی سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔

اس دوران ریاض نے رانی کا بہت علاج کرایا۔ بڑی سے بڑی لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا، مگر من کی مراد پوری نہ ہو سکی۔ رانی مجھے اپنے شوہر کے بارے لکھتی تھی کہ روبی ! میں بہت خوش قسمت ہوں کہ ریاض مجھے اتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میرا دل کبھی نہیں دکھایا۔ سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ ان کے خلوص اور پیار میں کبھی کمی نہیں آئی۔ وہ اس بات سے بھی پریشان نہیں ہوتے کہ ان کے جائیداد کا کوئی وارث نہیں ہو گا۔ تاہم وہ خود اس مسئلے پر پریشان رہنے لگی تھی اور اکثر مجھے اپنے خدشات سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔

ساتھ ساتھ کہتی تھی کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو وہ ہم دونوں پر ضرور کرم کرے گا۔ جب اس نے ہمیں ہر نعمت سے سرفراز کیا ہے ، تو ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اصل میں ریاض اسے سمجھاتا اور تسلیاں دیتا رہتا تھا، پھر بھی جانے وہ کیوں مطمئن نہ ہوتی اور کہتی تھی۔ کاش ہمارے پیارے سینچے ہوئے شجر محبت کو پھل پھول یہ لوگ کوئی روایتی ساس نندیں نہیں تھیں کہ رانی کے ناکردہ گناہ کی سزائیں تجویز کرتیں اور ریاض کو بیوی سے محض اس وجہ سے بد دل کرنے کی کوشش کرتیں۔ وہ سب دعائیں کرتے تھے کہ یا رب کریم ! ہماری رانی کی گود ہری کر دے ایک دن اچانک رانی نے مجھے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ میں اور ریاض پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ تایا جی کی صحت کافی خراب ہے۔ تم آکر مل جائو۔ ان دنوں میں بھی اپنے شہر آئی ہوئی تھی۔ اگلے دن ہی اس سے ملنے گئی اور جب رانی کو دیکھا، جس کو دنیا کی کامیاب اور خوش قسمت عورت سمجھتی تھی ، وہ سراپا حسرت نظر آئی۔ مجھ سے ملتے ہی اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

مولوی عبدالرحیم کی سالی کچھ دن کے لیے ان کے گھر رہنے آئی وہ حیران تھی کہ مولوی صاحب تو مفلسی کی زندگی گراز رہے تھے لیکن ...
24/09/2025

مولوی عبدالرحیم کی سالی کچھ دن کے لیے ان کے گھر رہنے آئی وہ حیران تھی کہ مولوی صاحب تو مفلسی کی زندگی گراز رہے تھے لیکن اچانک ان کے پاس دولت کی فراوانی کیسی ہو گئی۔ ایک رات وہ پانی پینے کے لیے اٹھی تو ایک سایہ مولوی کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ تجسس کے مارے وہ خاموشی سے چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس آ گئی۔ اس کا دل دھڑکنا ہی بھول گیا کیونکہ کمرے میں مولوی کی چارپائی کے پاس اک عجیب شکل والی شے کھڑی تھی۔
👇👇
مولوی عبدالرحیم گاؤں کی مسجد کا امام تھا۔ ان کی سادگی، پرہیزگاری اور دین سے لگاؤ کے سب قائل تھے۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے، سر پر سفید عمامہ رکھتے اور ہاتھ میں تسبیح لیے رہتے۔ گاؤں کے لوگوں کے لیے وہ نہ صرف ایک مذہبی رہنما تھے بلکہ ایک منصف مزاج بزرگ بھی تھے، جن سے ہر کوئی مشورہ لینے آتا۔ مگر ان کی ایک اور چیز بھی مشہور تھی۔

ان کی خوبصورت سفید گھوڑی، جو نہایت سدھائی ہوئی تھی۔ یہ گھوڑی ان کے ساتھ برسوں سے تھی، اور انہوں نے ہمیشہ اس کا خاص خیال رکھا تھا۔ مولوی صاحب اسے صبح فجر کے وقت کھلا چھوڑ دیتے تاکہ وہ تازہ گھاس چر لے، اور پھر واپس آ کر اسے باندھ دیتے۔ گھوڑی بھی بڑی فرمانبردار تھی، روزانہ چر کر خود ہی وقت پر واپس آ جاتی تھی۔

مولوی صاحب کا گھرانہ بھی ان کی طرح نہایت باوقار تھا۔ ان کی بیوی، کلثوم بی بی، ایک سلیقہ شعار، نیک دل اور پردہ دار خاتون تھیں۔ وہ اپنے کام میں اتنی ماہر تھیں کہ پورا گھر ہمیشہ صاف ستھرا اور منظم رہتا۔ وہ خود بھی عبادت گزار تھیں اور اکثر عورتوں کو دین کی باتیں سکھاتی تھیں۔ ان کا کھانا پکانے کا انداز بھی ایسا تھا کہ پورے گاؤں میں ان کے ہاتھ کے پکوانوں کی مثال دی جاتی تھی۔ مولوی صاحب اور زینب بی بی کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے، مگر ان کے درمیان محبت اور عزت کا رشتہ ویسے ہی قائم تھا جیسے پہلے دن تھا۔ کلثوم بی بی جانتی تھیں کہ مولوی صاحب کی گھوڑی ان کے لیے کتنی عزیز ہے، اس لیے وہ بھی اس کا خاص خیال رکھتی تھیں۔

ایک دن عصر کی نماز کے بعد، مولوی صاحب نے معمول کے مطابق گھوڑی کو کھلا چھوڑا اور مسجد چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو گھوڑی کہیں نظر نہ آئی۔ پہلے تو انہوں نے سوچا کہ شاید وہ قریبی کھیتوں میں ہوگی، مگر جب ہر طرف دیکھ لیا اور مغرب کی اذان ہو گئی، تو ان کا دل بے چین ہونے لگا۔ وہ حیران و پریشان رہ گئے کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ وہ مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر اردگرد نظر دوڑانے لگے۔ گاؤں کے کچھ لوگ بھی ان کے قریب آ گئے اور پوچھنے لگے: "مولوی صاحب، کیا ہوا؟ کچھ پریشانی ہے؟" "میری گھوڑی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ ہمیشہ وقت پر واپس آتی ہے، مگر آج غائب ہے۔" مولوی صاحب نے فکرمند لہجے میں کہا۔ یہ سن کر گاؤں کے چند بزرگ اور نوجوان بھی ان کے ساتھ تلاش میں نکلے۔ انہوں نے کھیتوں میں جا کر ہر جگہ دیکھا، مگر گھوڑی کا کوئی پتہ نہ چلا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، مولوی صاحب کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ تبھی ایک بوڑھے آدمی نے سوچتے ہوئے کہا: "مولوی صاحب، کہیں وہ پیپل کے پرانے درخت کی طرف تو نہیں نکل گئی؟"

یہ سنتے ہی سب لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، جیسے کسی نے کوئی خوفناک بات کر دی ہو۔ وہ درخت گاؤں کے کنارے پر تھا، اور اس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ وہاں جنوں کا بسیرا ہے اور مغرب کے بعد وہاں جانے والا اکثر کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ مولوی صاحب کے دل میں عجیب وسوسے اٹھنے لگے۔ کیا واقعی ان کی گھوڑی وہاں چلی گئی تھی؟ کیا اسے کسی مخلوق نے پکڑ لیا تھا؟ وہ اپنی تسبیح کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے سوچنے لگے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔

مولوی صاحب کے دل میں ایمان کی روشنی تھی، وہ ان باتوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ وہ اپنی تسبیح ہاتھ میں لیے، چند لوگوں کے ساتھ درخت کی طرف چل پڑے۔ جیسے ہی وہ درخت کے قریب پہنچے، انہوں نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب بچہ وہاں بیٹھا ہے۔ ساتھ آنے والے کو ڈر کے مارے واپس چلے گئے لیکن مولوی صاحب نے ہمت سے کام لیا۔ یہ بچہ عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ اس کا سر غیرمعمولی طور پر بڑا تھا، آنکھیں بہت بڑی اور چمکدار، اور اس کے ہاتھ اور پیر بہت پتلے تھے۔ وہ زمین پر بیٹھا ایک لکڑی سے کھیل رہا تھا۔ مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا، "بیٹا، تم نے کوئی گھوڑی دیکھی ہے؟" بچے نے آہستہ سے سر اٹھایا، مسکرایا اور خاموشی سے انگلی سے ایک طرف اشارہ کر دیا۔

مولوی صاحب نے جیسے ہی اس سمت دیکھا، ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مولوی عبدالرحیم کی نظریں اس عجیب و غریب منظر پر مرکوز ہو گئیں۔ گھوڑی، جو ہمیشہ فرمانبردار اور سکون میں رہتی تھی، اب ایک دائرے میں گھوم رہی تھی جیسے وہ کسی جال میں پھنس گئی ہو۔ اس کے ارد گرد چند جناتی مخلوق کھڑی تھی، جن کے چہرے انسانی شکل سے بیزار تھے اور جسموں میں ایک عجب سی غیر مرئی طاقت کا تاثر تھا۔ وہ سب گھوڑی کو گھیر کر اسے پریشان کر رہے تھے، کبھی اس کے آگے آ کر کٹ پتلی کی طرح رقص کرتے، کبھی اس کے پیچھے جا کر سرگوشیاں کرتے۔ گھوڑی کی آنکھوں میں خوف تھا، اور وہ کسی طرح ان جنوں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔

مولوی عبدالرحیم نے دل میں اللہ کا نام لیا اور قدموں کی تیز رفتار سے دائرے کے قریب پہنچے۔ جنات کی موجودگی نے ایک نہ ختم ہونے والے سناٹے کا احساس پیدا کیا، جیسے درخت کی ہوا بھی ان کی موجودگی سے خاموش ہو گئی ہو۔ مولوی صاحب نے اپنی تسبیح مضبوطی سے پکڑی اور اللہ کی مدد کے لیے دعا کی۔ "اے اللہ، یہ کیا آزمائش ہے؟ میری گھوڑی کو اس مصیبت سے نکال لے، اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ میں نہیں دیکھ سکتا۔" مولوی صاحب نے دل کی گہرائی سے دعا کی۔

جنات نے مولوی صاحب کی موجودگی محسوس کی اور ایک زوردار ہنسی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان میں سے ایک، جو سب سے بڑا اور زیادہ خوفناک تھا، آہستہ آہستہ مولوی کی طرف بڑھا اور بولا، "تم اس کا کچھ نہیں کر سکتے، مولوی صاحب۔ یہ ہم میں سے ہے، تمہیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔" مولوی عبدالرحیم نے دھیرے سے کہا، "اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں، تمہیں جو کرنا ہے، تم کر لو، مگر یاد رکھو، اللہ کی رضا کے سامنے تمہاری کوئی حقیقت نہیں۔"

یہ سن کر جنات کا چہرہ اور زیادہ بدل گیا، جیسے انہیں کوئی برا خواب دکھا دیا ہو۔ مولوی صاحب نے اپنی تسبیح کی مالا کو دوبارہ پکڑا اور پھر اللہ کے نام کے ساتھ ان جنات کو ہمت سے جواب دینے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ انھیں یقین تھا کہ ان کی دعاؤں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس گھوڑی کو اور اپنے گاؤں کو ان جنات کی قید سے آزاد کر سکیں گے۔ پھر اچانک، مولوی صاحب کی زبان سے ایک ایسا کلمہ نکلا جو نہ صرف ان جنات کو بلکہ پورے ماحول کو ایک دم ساکت کر گیا۔ ایک زبردست روشنی کے دھارے نے جنات کو اپنی گرفت میں لے لیا، اور وہ ایک ہی لمحے میں غائب ہو گئے۔ گھوڑی نے ایک زور دار ہنکارا مارا اور آزادی کے احساس سے سرشار ہو کر دائرے سے باہر نکل آئی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/molvi-ki-saali-1.html


یہ میری زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ جس نے مجھے برباد کر کے رکھ دیا۔ جو آپ سے شئیر کر رہی ہوں۔ آج سے پندرہ سال پہلے کا واق...
24/09/2025

یہ میری زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ جس نے مجھے برباد کر کے رکھ دیا۔ جو آپ سے شئیر کر رہی ہوں۔ آج سے پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں تعلیم مکمل کر چکی تو مجھے سلائی سیکھنے کا شوق ہوا۔ امی جان سے اجازت لے کر قریبی سلائی کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ سلائی سینٹر کی ہیڈ مسٹریس اور مالکہ بہت ہی اچھی خاتون تھیں۔ ان کا نام آصفہ تھا۔ ادھیڑ عمر کی، اخلاق و محبت کا پیکر تھیں، لیکن اسکول ٹائم میں وہ بہت سنجیدہ رہتیں، تبھی سب لڑکیاں ان سے ڈرتی تھیں۔

لڑکیوں کو کوئی کام ہوتا، تو وہ خود نہ جاتیں، بلکہ مجھ کو بھیجتیں۔ میں میڈم سے بالکل نہیں ڈرتی تھی۔ آصفہ باجی مجھ سے بہت محبت سے بولتی تھیں اور جو کام میں لے کر جاتی، وہ کر دیتی تھیں۔ آصفہ باجی اکیلی تھیں۔ گھر میں اور کوئی نہ تھا، سوائے ایک بیٹی شگفتہ کے ، جو آٹھویں میں پڑھتی تھی اور بہت لاڈلی تھی۔ یہ لڑکی ماں کے کنٹرول میں تھی۔ کبھی کوئی غلط بات نہیں کرتی تھی۔ ماں کا کہنا مانتی تھی۔ اس کی زیادہ سہیلیاں بھی نہ تھیں۔ بس ہر وقت اپنا دھیان پڑھائی میں لگائے رکھتی تھی۔

شگفتہ خوبصورت تھی، تاہم اس کو اپنے خوبصورت ہونے کا احساس نہیں تھا۔ نہ وہ سنور کر رہتی، کپڑے بھی سادہ اور معمولی پہنتی تھی۔ اس کے باوجود چودھویں کے چاند کی مانند چمکتی تھی۔ وہ اسکول چارد اوڑھ کر جاتی تھی۔ کالی چادر میں اس کا گورا چہرہ پر نور نظر آتا تھا۔ اس کے چہرے پر اتنی معصومیت برستی تھی کہ کوئی شخص اس معصوم مکھڑے پر میلی نظر ڈالنے سے پہلے لرز جاتا تھا۔ جن لوگوں کے خیالات نیک ہوتے ہیں، ان کے چہرے بھی روشن اور پر نور نظر آتے ہیں، کیونکہ اچھے خیالات کا عکس چہرے پر ضرور پڑتا ہے۔ ایسا ہی شگفتہ کا حال تھا۔ وہ اچھی سوچ والی لڑکی تھی۔ کبھی کسی کا برا نہیں چاہتی تھی ، نہ کسی کی برائی ہم نے اس کے منہ سے سنی تھی۔

ان کا گھر ہماری گلی سے تیسری گلی میں تھا۔ اسی گلی میں ہماری خالہ کا مکان بھی تھا۔ ہم اکثر خالہ کے گھر جاتے تھے۔ ان سے ہی ہمیں خالہ آصفہ کی زندگی کی کہانی پتا چلی تھی۔ آصفہ باجی نے صرف میٹرک پاس کیا تھا، اس کے بعد سلائی کا ڈپلومہ کورس کیا اور گھر بیٹھ گئیں۔ ان کے والدین چاہتے تھے کہ بیٹی کو ملازمت مل جائے تا کہ وہ کچھ اپنا جہیز بنا سکے کیونکہ یہ پیسے والے لوگ نہیں تھے۔ آصفہ کی والدہ کا خیال تھا کہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھانجے سے کر دیں۔ ان کا بھانجا بھی اتنا امیر نہیں تھا۔ برابر کے لوگ تھے، لیکن آصفہ باجی کے والد کا خیال تھا کہ بیٹی کو امیر گھر میں بیاہنا چاہئے، تاکہ ان کی بچی عیش کرے اور ماں باپ کے گھر کی غربت کو بھول جائے۔

عبد اللہ ان کا جگری دوست تھا۔ آصفہ کے باپ کے اپنے دوست سے بیٹی کے رشتے کی بات کی، تو عبد اللہ نے اپنے بیٹے جمیل کا رشتہ پیش کر دیا۔ ان دنوں جمیل شہر میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ وہ خوبصورت تھا اور تعلیم یافتہ بھی، ایسا رشتہ تو نصیب سے ملتا ہے۔ آصفہ کے والدین خوش ہو گئے اور عبد اللہ کو ہاں کر دی۔ اس نے بھی اپنے بیٹے سے پوچھے بغیر رشتہ طے کر دیا۔ جب جمیل چھٹیوں میں گھر آیا۔ باپ نے اس کو بتا دیا کہ میں نے تمہاری شادی اپنے دوست اظہر کی بیٹی آصفہ سے طے کر دی ہے۔ جمیل یہ سن کر پریشان ہو گیا کیونکہ اس نے اپنے لئے شہر کی ایک لڑکی ماہم کو پسند کر لیا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

عبد اللہ نے کہا۔ بیٹے، میں کسی شہری لڑکی کو بہو نہیں بناؤں گا۔ تمہیں میری لاج رکھنی ہو گی۔ اظہر میرا بچپن کا دوست ہے اور میں اسے زبان دے چکا ہوں۔ آصفہ خوبصورت ہے ، سلیقے والی ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اب وہی میری بہو بنے گی ۔ تم شہری لڑکی کا خیال دل سے نکال دو۔ باپ کے بہت اصرار پر جمیل خاموش ہو گیا۔ اگر چہ دل سے اس رشتے پر راضی نہ تھا۔ بہر حال شہر آکر اس نے اپنی پسند سے شادی کر لی اور گھر والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ ادھر عبد اللہ نے شادی کی تاریخ مقرر کر دی اور جمیل کو خط لکھ کر بلا لیا۔ وہ گھر پہنچا تو شادی کی تیاریاں زور شور سے ہو رہی تھیں۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/masoom-kali.html

پانی کا قطرہ اگر مسلسل پتھر پر گرتا ر ہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ ماں کی مسلسل ایسی باتوں نے بالآخر میرا دل برا...
24/09/2025

پانی کا قطرہ اگر مسلسل پتھر پر گرتا ر ہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ ماں کی مسلسل ایسی باتوں نے بالآخر میرا دل برا کر دیا۔ تبھی میں نے میاں سے بات کرنے کی ٹھان لی اور وہ تھکے ہارے گھر آئے تو میں نے موڈ خراب کر لیا۔ وہ مجھ سے حسب معمول ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور میری تیوری پر بل پڑے تھے۔ کسی بات کا جواب نہ دیا تو تنویر کا ماتھا ٹھنک گیا۔
👇👇
میں اکلوتی ضرور تھی، مگر منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ والد صاحب پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ پرائمری اسکول ٹیچر کی آمدنی کیا ہوتی ہے۔ ان کی تنخواہ میں دال روٹی بمشکل پوری ہوتی تھی، تو مجھے وہ کیسے عیش دیتے۔ والدہ ایک کمزور سی عورت تھیں اور سارا دن سلائی کڑھائی کا کام کرتیں، تب گزر بسر ہو رہی تھی۔ چھوٹے سے گاؤں میں رہنے کی وجہ سے امی ابو کے ذہن زیادہ ترقی نہ کر سکے۔ انہوں نے کبھی دنیا دیکھی اور نہ اپنے علاقے سے باہر نکلے، تو انہیں کیا پتا کہ دنیا کتنی آگے جا رہی ہے۔ میرے ساتھ اچھے گھرانوں کی لڑکیاں پڑھتی تھیں۔

ان کے گھر اور رہن سہن دیکھ کر میرا بھی جی چاہتا کہ ان کی طرح زندگی بسر کروں، خوب پڑھوں، لکھوں اور ویسی نظر آؤں۔ ایک بات سمجھ میں آتی تھی کہ اگر میں زیادہ پڑھ لکھ گئی تو ترقی کر سکوں گی اور میری شادی بھی کسی اچھے پڑھے لکھے گھرانے میں ہو جائے گی۔ تبھی دن رات محنت کرتی، کتابوں سے دل لگا کر رکھتی۔ ارادہ تھا کہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر لے کر میڈیکل میں داخلہ لے لوں گی اور ڈاکٹر بن جاؤں گی، تاکہ تقدیر بدل جائے۔ ہمارے گاؤں میں اسکول میٹرک تک تھا، اس کے بعد لڑکیوں کو کالج کی تعلیم کے لیے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینا پڑتا تھا۔ جب میں نے میٹرک پاس کیا تو والد صاحب سے آگے پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا، کیا تم اب لڑکوں کے ساتھ پڑھو گی؟ یہ مجھے ہر گز منظور نہیں، آرام سے گھر بیٹھو۔ ماں ایسے مواقع پر ہمیشہ ڈھال کا کام کرتی ہے اور بیٹیاں اپنے مسائل کے حل کے لیے ماؤں کا سہارالیتی ہیں، لیکن میری امی کچھ اور طرح کی تھیں۔ جب میں نے اس سلسلے میں ان سے مدد طلب کی تو وہ بولیں، آگے پڑھ کر کیا کرے گی؟ خواہ مخواہ کے خرچے ہوں گے، اچھا ہے کہ گھرداری سیکھ لے، تیری شادی کرنی ہے، وہاں سسرال میں کھانا بنانا اور سینا پرونا ہی کام آئے گا، کتابیں نہیں!

باشعور ہوتے ہی کچھ لڑکیاں شادی کے خواب دیکھتی ہیں اور کچھ اعلیٰ تعلیم پانے اور کچھ بن کر دکھانے کے دھیان میں رہتی ہیں۔ میں دوسری قسم کی لڑکیوں میں سے تھی۔ بدقسمتی سے ماں اور باپ کی سوچوں کے آگے کچھ نہ کر سکی اور سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ ہم جماعت لڑکیوں نے کالج میں داخلہ لے لیا اور مجھے گھر آ کر بتایا کہ کالج کی زندگی بڑی سہانی ہوتی ہے، تم داخلہ لے لو۔ ایک نے تو داخلہ فارم بھی لا کر دیا، جو امی نے اس کے ہاتھ سے لے کر پھاڑ دیا اور کہا کہ آئندہ ملنے آئو تو کالج کی باتیں نہ کرنا۔ رخسانہ جب چلی گئی، میں بہت روئی۔ امی جان کا اپنا مزاج تھا، بھلا ان کو کیسے سمجھا سکتی تھی کہ ماں، آگے پڑھنا، آگے بڑھنا، کچھ بننا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ شادی تو ہر لڑکی کی ہو جاتی ہے، گھر بھی بس جاتے ہیں، لیکن پڑھائی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ اگر یہ عمر نکل جائے تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا، لیکن ماں بس ایک بات جانتی تھی کہ شادی جلدی ہونی چاہیے کیونکہ شادی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، اگر وہ نکل جائے تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

رفتہ رفتہ میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے کالج کو خواب سمجھ کر بھلا دیا اور ماں کے ساتھ گھریلو کام کاج میں لگ گئی، جو وقت بچتا، سلائی کڑھائی کا کام کرتی۔ یہ معمول تھا کہ علاقے کے اچھے گھرانوں سے عورتیں امی کے پاس کام بنوانے آتی تھیں۔ وہ اپنے کپڑے، جوڑے اور دھاگے، موتی، ستارے دے جاتی تھیں اور ڈیزائن بھی سمجھا جاتی تھیں۔ میں نے امی سے کام سیکھا، لیکن میرے ہاتھ میں ان سے زیادہ نفاست اور صفائی تھی۔ عورتیں میرا کام دیکھ کر دنگ رہ جاتیں۔ وہ میرے سلیقے اور صورت کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکتیں۔ امی سے باتوں باتوں میں کہتیں، “آپ کی لڑکی بڑی اچھی ہے، جس گھر میں جائے گی، اجالا کر دے گی۔” ہاں بہن، دعا کرو، خدا اس کی اچھی قسمت کرے، اچھا گھر اور اچھا شوہر دے۔ ابھی تو کوئی رشتہ ملا نہیں، دن رات یہی فکر کھائے جاتی ہے۔

امی ابو میرے لیے رشتہ تلاش کر رہے تھے اور ساتھ مختلف اشیاء خریدنے میں لگے تھے۔ غریبوں کے ہاں تو اسی طرح جہیز جوڑا جاتا ہے۔ جو نہ ہی بیٹی جنم لیتی ہے، وہ اس کے لیے جہیز کی اشیاء ایک ایک کر کے ذخیرہ کرنے لگتے ہیں۔ امی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

ایک دن کا ذکر ہے۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر، ایک دوپٹے پر موتی ٹانکنے کا کام کر رہی تھی کہ فون بجنے لگا۔ امی نے اٹھ کر فون اٹینڈ کیا۔ باتوں سے اندازہ ہوا کہ میری ماں بہت خوش ہو رہی ہیں۔ آخر میں امی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور سلام کر کے فون رکھ دیا۔ میں نے نگاہ اٹھا کر ماں کے چہرے کو دیکھا۔ وہ بہت مسرور لگیں۔ سر پر ہاتھ پھیرا، اپنے لگیں اور کہا، “شکر ہے میری چاند سی بیٹی کے لیے اتنا اچھا رشتہ ملا ہے۔” اس وقت ابو آ گئے۔ خوشی سے ماں نے پہلی بات یہی بتائی، “سنو ساجدہ کے ابو! ذکیہ بیگم، جو مجھ سے کڑھائی کروانے آتی تھیں، انہوں نے ہمارے لیے بیٹی کا رشتہ پسند کر لیا ہے۔ لڑکا محکمہ تعلیم میں سولہویں گریڈ کا افسر ہے اور اس کی عمر پچیس سال ہے۔ وہ ہفتے کے دن بات پکی کرنے آ رہے ہیں۔” امی کے منہ سے یہ باتیں سن کر میرا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/05/fasadi-mekaha.html


Address

Chishtian Mandi

Telephone

+923006986459

Website

https://vuinnovator.blogspot.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kashif Nadeem posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kashif Nadeem:

Share