24/10/2025
قسمت خود موقع دے رہی تھی، اور راکھ میں دبی چنگاریاں پھر سے سلگنے لگیں۔ رافعہ کھانا لا کر نیاز بھائی کے سامنے رکھتی اور دونوں باتیں کرنے لگتے۔ ان چنگاریوں کی تپش کا کسی کو احساس نہ تھا۔پھر اچانک وہ ہوا جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ ایک روز رافعہ میکے گئی ہوئی تھی اور اظفر گھر میں اکیلا تھا کہ کسی نے گھر میں گھس کر اس پر چاقو سے حملہ کر دیا۔
👇👇
باپ کی شفقت کے ساتھ ساتھ ممتا کی وہ میٹھی میٹھی دھوپ بھی ہمیں میسر تھی، جو سردیوں کی نرم دھوپ جیسی ہوتی ہے۔سچ ہے، وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ امی کی وفات کے بعد ہماری زندگی کا رنگ بھی بدل گیا۔امی کے بعد بچپن کے سات سال ہم نے خالہ کے ساتھ گزارے۔ اس عرصے میں ہمارے ناسمجھ ذہن نے زندگی کے کئی تلخ حقائق کو محسوس کیا، اور وقت سے پہلے دنیا کی سمجھ آنے لگی۔ ان دنوں ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ ابو دبئی میں ملازمت کرتے تھے۔ وہ وہاں سے باقاعدگی سے خالہ کو ہمارے اخراجات بھجواتے تھے۔ میرے والد ایک فرض شناس باپ تھے۔
انہوں نے ہمیں کسی شے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، تاکہ ہماری عزت نفس برقرار رہے۔وقت گزرتا رہا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب خالہ نے چاہا کہ ہم اپنے والد کے گھر میں رہیں۔ ان دنوں ابو دبئی سے آئے ہوئے تھے۔ خالہ نے خاندان کے بزرگوں سے مشورہ کر کے ان کی دوسری شادی کروا دی۔ ان کی دوسری بیوی شروع میں ہم سے الجھتی رہی، لیکن خالہ کے سمجھانے پر اس نے وہ تمام حربے بند کر دیے جو اکثر سوتیلی مائیں شوہر کے بچوں پر آزماتی ہیں۔ بلکہ جلد ہی وہ ہم بہن بھائی کے ساتھ گھل مل گئی۔ابو ملازمت کی خاطر دوبارہ دبئی چلے گئے کیونکہ انہوں نے کمانا تھا اور ہمیں کھانا تھا۔ گھر میں سوتیلی ماں اور ہم بہن بھائی رہ گئے۔ مجھے ابو کی بہت یاد آتی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں۔وقت گزرتا گیا۔ ہماری زندگی میں کئی نئے موڑ آئے اور نئے لوگوں سے واسطہ پڑا، جن سے ہم نے نئے سبق سیکھے۔ وہ کچھ سیکھا جو عام حالات میں نہیں سیکھا جا سکتا — خاص طور پر مخلص اور غیر مخلص لوگوں کی پہچان۔
ان ہی لوگوں میں ایک میری سہیلی رافعہ تھی۔ میں اس سے دل کی ہر بات کہتی تھی۔ کزن ہونے کے ناطے میرا اس کے گھر آنا جانا بھی تھا۔ میں کبھی اکیلی نہیں جاتی تھی، ہمیشہ بھائی نیاز کے ساتھ جایا کرتی۔ میرے بھائی کو بھی اس میں دلچسپی تھی۔رافعہ کی نسبت بچپن سے ہی اس کے چچا زاد اظفر سے طے تھی، مگر وہ کہتی تھی کہ اظفر سے نہیں، بلکہ میرے بھائی نیاز سے شادی کرے گی۔بظاہر وہ اظفر کو ناپسند کرتی تھی، ہمارے سامنے اس کی برائیاں کرتی، مگر درپردہ میرے بھائی کو سناتی تھی۔ میں اس کی چالوں کو خوب سمجھتی تھی۔ہمارے خاندان میں ابو کی ان لوگوں سے زیادہ بنتی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ میں نے کبھی کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میرے بھائی کے دل میں رافعہ کے لیے جذبات ہیں۔ اگر یہ بات ظاہر ہو جاتی تو قیامت برپا ہو جاتی۔ چاروں طرف سے رشتہ دار سانپوں کی طرح پھن اٹھا لیتے۔میں رافعہ کو تسلی دیتی کہ میں ابو کو منا لوں گی اور تمہیں اپنی بھابھی بنا لوں گی۔ وہ وقت تو آنے دو۔وہ ہنس کر “اچھا” کہہ دیا کرتی۔وہ نیاز بھائی سے دو سال بڑی تھی، لیکن کم عمر لگتی تھی۔ ممکن ہے کہ وہ ہماری باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیتی ہو، لیکن ہم سنجیدہ تھے۔ اس کی عادتیں، باتیں، صورت، ہر شے دل کو بھاتی تھی۔جب نیاز بھائی کالج جانے لگے تو سنا کہ رافعہ کے گھر اس کی شادی کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ابو ہم سے دور تھے، سوتیلی ماں سے کیا کہتے؟بھائی نیاز بہت پریشان رہنے لگے۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔ سارا دن صحن میں ٹہلتے رہتے، رات کو نیند نہ آتی۔رافعہ نے ایف اے کے پرچے دینے تھے، اور نیاز ایف ایس سی کر رہے تھے۔
وہ کالج کے بہترین طلبا میں شمار ہوتے تھے، تقریری مقابلوں میں اول آتے تھے۔ انہی دنوں ان کی کلاس میں ایک نیا لڑکا داخل ہوا جس کا نام اظفر تھا۔بھائی کی اس سے دوستی ہو گئی۔ اظفر خوش مزاج، کھلنڈرا لڑکا تھا، جو لڑکیوں کو بیوقوف بنا کر ان سے کام نکالتا۔ حالانکہ امیر باپ کا بیٹا تھا، مگر شوخی مزاجی غالب تھی۔اسی وجہ سے بھائی کو وہ اچھا لگا، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہی اظفر رافعہ کا منگیتر ہے۔میرے امتحان شروع ہو گئے، تو میں نے رافعہ کے گھر جانا بند کر دیا۔ ان دنوں رافعہ اور بھائی نیاز کے درمیان قربت بڑھتی جا رہی تھی۔ ان کی خاموش محبت کا کسی کو علم نہ تھا — حتیٰ کہ رافعہ کی ماں کو بھی نہیں۔ادھر اظفر کئی بار بھائی نیاز کو اپنے گھر مدعو کر چکا تھا، لیکن بھائی نہیں جا سکے۔ اظفر کا گھر بہت بڑا اور شاندار تھا۔ اس کے والد امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔پھر اچانک اظفر سنجیدہ رہنے لگا۔ پتہ چلا کہ اس کی والدہ کو بلڈ کینسر ہو گیا ہے۔ تب وہ شوخیاں چھوڑ کر ہر وقت ماں کے ساتھ لگا رہتا۔اس کی والدہ کی خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھیں۔ چنانچہ منگنی کا دن طے ہوا۔جب بھائی نیاز تحفہ لے کر اس کے گھر گئے تو پتا چلا کہ اظفر کی منگنی رافعہ سے ہو رہی ہے۔یہ جان کر بھائی کے دل پر جیسے بجلی گر گئی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2025/10/jaidad-ka-lalach.html