Chitral Tv

Chitral Tv lastest news and Updates from Chitral.

الحمدللہ سلامت شاہ صاحب کو عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی عبادات کو قبول فرمائے اور بار بار اپنے گھر ...
26/09/2025

الحمدللہ سلامت شاہ صاحب کو عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی عبادات کو قبول فرمائے اور بار بار اپنے گھر کی حاضری نصیب کرے۔

24/09/2025

سینیٹر محمد طلحہ محمود سینیٹ کے قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین منتخب

منتخب ہوتے ہی کمیٹی کے سامنے چترال کے مسائل کو اجاگر کیا،چترال میں پی آئی اے کے فلائٹس کی بحالی اور دفاعی بجٹ سے چترال کے دفاعی شاہراہوں کی تعمیر پر زور دیا۔

اگر چترال میں ضمنی انتخابات ہوجاتے ہیں تو کیا آپ چترال کی خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے لئے سینیٹر طلحہ محمود صاحب کو منتخ...
22/09/2025

اگر چترال میں ضمنی انتخابات ہوجاتے ہیں تو کیا آپ چترال کی خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے لئے سینیٹر طلحہ محمود صاحب کو منتخب کریں گے؟

#چترال

لوئر چترال کے علاقے جغور رضاندہ سے تعلق رکھنے والے مولانا احسان الدین رازی نے سپیریئر یونیورسٹی لاہور سے ایم فل کے تحقیق...
20/09/2025

لوئر چترال کے علاقے جغور رضاندہ سے تعلق رکھنے والے مولانا احسان الدین رازی نے سپیریئر یونیورسٹی لاہور سے ایم فل کے تحقیقی مقالے کا کامیابی سے دفاع کیا۔
مولانا صاحب کے مقالے کا موضوع تھا:
"A Research Study on the Qur`anic Framework for Character Building in the Light of Tafheem-ul-Qur’an"
"عصرِ حاضر میں کردار سازی کے لیے قرآنی فریم ورک کا تفہیم القرآن کی روشنی میں تحقیقی جائزہ"

وایوا کے دوران بیرونی ممتحن ڈاکٹر حمیرہ اور داخلی ممتحن ڈاکٹر علی اکبر الازہری تھے۔ اس تحقیق میں ابتدا سے اختتام تک رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے پر سپروائزر ڈاکٹر نیلم بانو، اسسٹنٹ پروفیسر سپیریئر یونیورسٹی لاہور، کی محنت اور رہنمائی اس کامیابی کا اہم حصہ ہیں۔

یہ کامیابی والدہ کی دعاؤں اور فکروں اور بڑے بھائی اصف لال کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ اساتذہ اور دوستوں کی علمی اور اخلاقی مدد نے بھی اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، جو نہایت قابلِ قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے۔

یہ کامیابی مولانا صاحب نے اپنے والد مرحوم جان نظور خان لال کے نام کی ہے، جن کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کرے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور اس علمی کام کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔

14/09/2025

فہم القرآن کلاسز چترال
15 سے 21 ستمبر || بعد از نماز فجر || پولو گراؤنڈ چترال
مدرس: مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب

13/09/2025

سینیٹر طلحہ محمود نے چترال کی ترقی کے لیے ایک نہایت اہم فیصلہ کیا ہے جس کے تحت چترال کو تجارتی لحاظ سے Central Asia سے ملایا جائے گا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں چترال سے تاجکستان، چین، افغانستان اور دیگر ممالک تک تجارت کے مواقع پیدا ہوں گے، جس سے نہ صرف معیشت کو سہارا ملے گا بلکہ روزگار کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔ یہ اقدام چترال کو خطے میں تجارتی مرکز بنانے کی سمت ایک مضبوط قدم ہے اور عوام کے لیے خوشحالی اور ترقی کی امید کی نئی کرن ہے۔

13/09/2025

سینیٹر طلحہ محمود کا قافلہ بُمبوریت جاتے ہوئے مختلف سڑکوں کے حالات کا جائزہ لیتا رہا۔ راستے میں جہاں جہاں سڑکوں کی خستہ حالی اور عوامی مشکلات نمایاں تھیں، وہاں سینیٹر طلحہ محمود نے نہ صرف گہری دلچسپی ظاہر کی بلکہ عوام کو یقین دلایا کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ ان کا یہ انداز اس بات کا عکاس ہے کہ وہ عوامی مسائل کو قریب سے دیکھ کر سمجھتے ہیں اور ترقیاتی کاموں کو اپنی اولین ترجیح بناتے ہیں۔ بُمبوریت کے عوام کے لیے یہ ایک امید افزا پیغام ہے کہ ان کے مسائل ایوانوں تک پہنچانے والا اور ان کے حل کے لیے میدانِ عمل میں اترنے والا ایک مخلص رہنما ان کے ساتھ موجود ہے۔

 #تحریر: ساجد یاسین   #عنوان : میری نظر  میں ہم صرف اپنے مخالفین کی مخالفت کرتے ہیں، نہ کہ غلط کیچترال جو اپنی خوبصورتی،...
12/09/2025

#تحریر: ساجد یاسین

#عنوان : میری نظر میں ہم صرف اپنے مخالفین کی مخالفت کرتے ہیں، نہ کہ غلط کی

چترال جو اپنی خوبصورتی، روایات اور سکون کے لیے مشہور ہے، آج سیاسی اور سماجی انتشار کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی ہم نے اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف مخالفین کی مخالفت کو اپنی پہچان بنا لیا ہے۔
اگر کوئی کام ہمارے سیاسی یا سماجی مخالف کرے تو وہ غلط اور ناقابلِ قبول ٹھہرتا ہے، لیکن اگر وہی قدم ہمارا قریبی یا حمایتی اٹھائے تو ہم نہ صرف اسے درست کہتے ہیں بلکہ اس کے لیے دلیلیں بھی تراشتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چترال میں مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
چاہے وہ مقامی حکومت کے فیصلے ہوں، ترقیاتی منصوبے ہوں یا عوامی مسائل—ہم سب اپنے اپنے گروہ اور جماعت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ بجلی، روزگار، تعلیم اور صحت کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ہم ایک دوسرے کی مخالفت میں وقت اور توانائی ضائع کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عام عوام مشکلات میں پس رہے ہیں جبکہ لیڈران صرف اپنی برادری یا پارٹی کو خوش کرنے میں لگے ہیں۔
چترال جیسے حساس خطے میں جہاں جغرافیائی اور معاشی چیلنج پہلے ہی بہت بڑے ہیں، وہاں اس رویے نے مزید کمزوری پیدا کر دی ہے۔ اگر ہم نے اپنے طرزِ عمل کو نہ بدلا تو آنے والی نسلیں بھی انہی مسائل میں الجھی رہیں گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم برائی کو برائی کہیں چاہے وہ اپنے قبیلے، برادری یا جماعت سے کیوں نہ ہو، اور اچھائی کو تسلیم کریں چاہے وہ مخالفین ہی سے کیوں نہ آئی ہو۔ یہی انصاف، یہی دیانت اور یہی رویہ چترال کو بہتر مستقبل دے سکتا ہے۔
ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور افراد کو پیمانہ بنا لیا ہے۔ کسی عمل کی درستی یا نادرتی کا فیصلہ ہم اس بنیاد پر نہیں کرتے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کام کس نے کیا ہے۔ اگر وہ کام ہمارے مخالف نے کیا ہے تو چاہے وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، ہم اسے برا ثابت کرنے میں اپنی توانائیاں اور ساری طاقت لگا دیتے ہیں۔ اور اگر وہی عمل ہمارے پسندیدہ فرد ،کسی تعلیمی ادارے کے سربراہ ، ڈاکٹر حضرات یا جماعت نے کیا ہے تو ہم اندھی تقلید کرتے ہیں اور خاموش رہنے کو ہی اپنی دانشمندی سمجھتے ہیں۔
یہ رویہ ہمیں اجتماعی طور پر منافقت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ مخالفت برائے مخالفت اور حمایت برائے حمایت نے انصاف، سچائی اور حق گوئی کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ معاشرے میں مثبت تنقید کے بجائے الزام تراشی کا چلن بڑھ گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اچھا کام کرنے والا بھی حوصلہ ہار جاتا ہے اور برائی کرنے والا مطمئن رہتا ہے کہ اس کے حمایتی اس کے غلط کو بھی درست ثابت کر دیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم افراد اور جماعتوں سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ کسی کے عمل کو صرف اس لیے مسترد نہ کریں کہ وہ ہمارا مخالف ہے، اور نہ ہی کسی کے غلط کام کو صرف اس لیے درست کہیں کہ وہ ہمارا اپنا ہے۔ معاشرے میں انصاف اور ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہم صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی اخلاقی جرات پیدا کریں۔

آج کل چترال کے حالات میں ایک تلخ حقیقت ہے کہ
چترال جیسے پسماندہ مگر باشعور خطے میں ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں انصاف اور سچائی کا معیار سب کے لیے یکساں نہیں ہے۔ اگر کوئی بڑا عہدے دار ، استاد ، یا بااثر شخصیت اپنے طلبہ یا اپنی رعایا کے ساتھ زیادتی کرے تو اس ادارے کے لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کوئی جرات نہیں کرتا کہ ان کے خلاف آواز بلند کرے، کیونکہ ڈر ہے کہ کہیں نوکری نہ چلی جائے یا تبادلہ نہ ہو جائے یا کہیں نقصان نہ ہو جائے، یا کہیں تعلقات خراب نہ ہو جائیں۔
لیکن جب کوئی غریب، کمزور یا اسٹاف یا ایک طالب علم ہو یا ایک عام شہری سے کوئی چھوٹی سی غلطی سرزد ہو جائے تو پورا معاشرہ اس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ ایسے شخص کو نہ صرف شرمندہ کیا جاتا ہے بلکہ اس کے لیے کوئی رعایت نہیں رکھی جاتی۔ یہ رویہ انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ طاقتور طبقہ مزید طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور کمزور طبقہ مزید دباؤ اور ظلم کا شکار ہے۔ اگر معاشرہ طاقتور کے ظلم پر بھی اسی طرح کھڑا ہو جس طرح کمزور کی غلطی پر شور مچاتا ہے، تو شاید چترال کے لوگ زیادہ پرامن اور انصاف پر مبنی فضا میں جی سکیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم برائی کو برائی کہنے کی ہمت نہیں کرتے، بلکہ صرف اس وقت زبان کھولتے ہیں جب سامنے والا کمزور یا ہمارا مخالف ہو۔ یہ دوہرا معیار ہی معاشرتی بگاڑ کی سب سے بڑی جڑ ہے۔
ہمیں یہ اصول اپنانا ہوگا کہ غلطی غلطی ہے، چاہے وہ بڑے عہدے دار سے سرزد ہو یا ایک عام شہری سے۔ انصاف تبھی زندہ رہتا ہے جب سب کے لیے ایک پیمانہ ہو۔ یہی رویہ چترال کے معاشرتی اور تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
اب ہم ایک ایسی معاشرت میں جی رہے ہیں جہاں اچھائی اور برائی کا تعین اصولوں سے نہیں بلکہ پسند و ناپسند سے کیا جاتا ہے۔ یہاں اگر کوئی عمل ہمارے مخالف سے سرزد ہو تو وہ ظلم و زیادتی کہلاتا ہے، لیکن اگر وہی عمل ہمارے حامی کرے تو ہم اس کے لیے جواز ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم برائی کو برائی سمجھ کر اس کی مخالفت نہیں کرتے، بلکہ صرف اپنے مخالفین کی مخالفت کو ہی اصل حق سمجھ بیٹھے ہیں۔
یہی رویہ ہمارے سماج کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ انصاف، اصول اور سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم غلط کو غلط کہیں چاہے وہ ہمارے قریب ترین شخص سے سرزد ہوا ہو۔ لیکن افسوس کہ ہم نے وفاداری کو سچائی پر ترجیح دی اور شخصیات کو اصولوں پر غالب کر دیا۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انتشار بڑھتا جا رہا ہے، اختلاف دشمنی میں بدل رہا ہے اور ہم اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر صرف دوسروں کی خامیوں کو گن رہے ہیں۔ جبکہ ایک باشعور اور ذمہ دار قوم کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کی برائیوں کو بھی پہچانتی ہے اور انہیں درست کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اصل اصلاح تب ممکن ہے جب ہم یہ اصول اپنالیں کہ ہم برائی کی مخالفت کریں گے، چاہے وہ کسی سے بھی سرزد ہو، اور اچھائی کو اپنائیں گے چاہے وہ کسی مخالف ہی سے کیوں نہ آئی ہو۔ یہی رویہ معاشرے کو انصاف، اتحاد اور ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

شکریہ

Address

Albert Road
Dagenham
RM81LR

Telephone

+447984281081

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Chitral Tv posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share