14/09/2025
یہ کارکن پرستی، جانبداری اور خاص الخاص طبقے کو نوازنے کا وہی پرانا طرزِ عمل ہے جس کے خلاف خود بادینی صاحب قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ ایسی تنخواہیں حرام ہیں کیونکہ یہ دوسروں کے حق تلفی پر مبنی ہیں۔ مگر اقتدار میں آتے ہی وہی بادینی صاحب اپنی تبدیلی اور انقلاب کے نعرے کے ساتھ کھلواڑ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کس قانون میں لکھا ہے کہ (فورتھ کلاس) کی آسامیاں صرف ایم پی ایز کے منظورِ نظر افراد، ذاتی نوکر شاہی یا مخصوص کارکنوں کے لیے مختص ہوں؟ کیا شفافیت قائم رکھنے والے ادارے اس پر قانونی کارروائی کریں گے؟
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ محترم بادینی صاحب نے بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں مقامی بلوچ پشتون ، سندھی و دیگر اقوام کے افراد کو بھرتی کرنے سے اس جواز پر انکار کیا کہ پچاس ہزار کی تنخواہ پر ان کا گزر بسر ممکن نہیں۔ لہٰذا ان آسامیوں پر ایبٹ آباد، پنڈی، اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں کے افراد بھرتی کیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کوئٹہ میں وفاقی اداروں میں کام کرنے والے انہی علاقوں کے خاکروب، چوکیدار، ڈرائیور اور نائب قاصد تو اس سے بھی کم تنخواہ پر اپنا گھر کیسے چلا رہے ہیں؟
تبدیلی کے دعوے انقلاب کے نعرے اور اسلامی طرزِ عمل کی حکمرانی کا دم بھرنے والوں کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ وہ ماضی کے حکمرانوں سے بھی دو قدم آگے نکل گئے ہیں؟
اہلیانِ جعفرآباد کے لیے بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ فورتھ کلاس کی آسامیاں صرف بادینی صاحب کے خاص الخاص اور مخصوص کارکنان کے لیے مختص ہیں باقی قصہ قارئین خود سمجھ سکتے ہیں۔