DM for paid promotion and collaborations.Digital marketing,brand promotion ,Social media marketing.
01/10/2025
میرے نیا page کو سب follow کرلیں.
شکریہ.
01/10/2025
میرے نیا page کو follow کر لیں سب تاکہ آپ کو ہر نئی پوسٹ مل سکے. شکریہ.
اعمال کا درومدار نیتوں پہ ہے ✨
30/09/2025
میرے نیا page کو follow کر لیں اب پوسٹ یہاں پر ہو گی.
بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ❤
29/09/2025
میں نے یہ page 2022 میں بنایا تھا لیکن میری ساری محنت ضائع ہوگئ 😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢
29/09/2025
Monetization کیا ہے؟
📌 فیس بک مونیٹائزیشن ایک ایسا سسٹم ہے جس کے ذریعے آپ اپنی ویڈیوز اور ریلز سے پیسے کما سکتے ہیں۔
✅ شرط یہ ہے کہ آپ کا پیج active ہو
✅ آپ کے ویوز زیادہ ہوں
✅ اور آپ کے پاس original content ہو۔
29/09/2025
ناول ہجر کی رات. Episode 24
تحریر: مائرہ ہارون
یمنہ گھر واپس آ کر احمر کے والدین سے بھی معافی مانگ چکی تھی، اور انہوں نے دل سے اسے معاف کر دیا تھا۔ اب گھر کا ماحول سکون سے بھرا رہتا۔ احمر یمنہ کا بےحد خیال رکھتا، اس کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت پوری کرتا، اس کی ہر بات سنتا۔ لیکن یمنہ کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ احساس موجود رہتا کہ یہ وہ پرانا احمر نہیں رہا۔
اب وہ زیادہ تر سنجیدہ سا رہتا، اکثر تنہا بیٹھ کر کسی انجانی سوچ میں کھو جاتا۔ یمنہ جانتی تھی کہ اس کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں ابھی تک حور کی یاد بسی ہوئی ہے۔ مگر اس نے اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا کہ جو بھی ہے، وہ اسی احمر کا ساتھ نبھائے گی۔
احمر وقت ضرور یمنہ کو دیتا تھا، لیکن بارش کے دنوں میں اس کے رویے میں کچھ اور ہی کیفیت جھلکتی۔ وہ لان میں بارش کے قطروں میں بھیگتا رہتا، جیسے کسی دکھ کو بارش کے حوالے کر رہا ہو۔ کئی بار یمنہ کو گمان ہوا کہ شاید وہ رو رہا ہے، مگر کبھی اس نے خود احمر سے یہ سوال نہ کیا۔
جو بھی تھا، یمنہ یہ بات سمجھ گئی تھی کہ حور کی کہانی ہمیشہ احمر کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں زندہ رہے گی— ایک ایسے راز کی طرح، جو وقت کے ساتھ مدھم تو ہو سکتا ہے، مگر کبھی مٹ نہیں سکتا۔
*************************************************
پاشا کی بے حد توجہ اور دیکھ بھال کی وجہ سے جیا کی کیفیت اب رفتہ رفتہ معمول پر آنے لگی تھی۔ پچھلے چند دنوں میں وہ ہر لمحہ اُس کے ساتھ ایک سائے کی مانند رہا۔ جیا کو بھی آج ہلکا پھلکا سکون محسوس ہو رہا تھا۔ ان دنوں کے دوران اس کے دل میں پاشا کے لیے نرمی سی جنم لینے لگی تھی۔ وہ اس کے نرم لہجے کی عادی بنتی جا رہی تھی۔
پاشا نے بھی جیا کے لیے اپنے آپ کو بہت حد تک بدل لیا تھا۔ وہ باتیں جو جیا کو ناگوار گزرتیں، اب وہ کوشش کرتا کہ اُنہیں کبھی دہرانا نہ پڑے۔ مگر اب تک نہ پاشا نے اپنے دل کا حال کہا تھا اور نہ ہی جیا نے۔
شاور لینے کے بعد جیا نے لال رنگ کی لانگ قمیض اور ساتھ کیپری زیبِ تن کی۔ گلے میں دوپٹہ نفاست سے پھیلایا۔ اُس دن کے واقعے کے بعد اب وہ دوپٹے کو ہمیشہ احتیاط سے اوڑھتی تھی، اور پاشا کو اُس کی یہ وضع داری بےحد پسند آتی تھی۔
جیا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی دوپٹہ درست کر رہی تھی کہ پاشا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ دونوں کی نظریں ایک ساتھ آئینے میں ٹکیں۔
"بیوٹیفل..." پاشا کے لبوں سے بےساختہ نکلا۔ جیا نے نظریں جھکا لیں۔ وہ اب بھی اس سے بہت کم بات کرتی تھی۔
"ایسی ہی رہا کرو، اچھی لگتی ہو۔"
پاشا نے آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جیا نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا۔
"جیا... کیا ہم نارمل کپلز کی طرح زندگی نہیں گزار سکتے؟" پاشا کی زبان سے یہ الفاظ سن کر جیا حیران رہ گئی۔ یہ وہ شخص تھا جو ہمیشہ چھیننے پر یقین رکھتا تھا، کبھی مانگنے پر نہیں۔ جیسے اُس نے اُسے ڈاکٹر حمدان سے چھینا تھا۔ یہی ایک بات تھی جو آج تک جیا کو پاشا کی طرف جھکنے نہیں دیتی تھی۔ جب بھی ڈاکٹر حمدان کا زخمی چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آتا، اُس کے دل میں پاشا کے لیے نفرت تازہ ہو جاتی۔ اس لمحے بھی حمدان کی یاد اُس کے دل کو چیر گئی، اور آنکھیں نم ہو گئیں۔
"کتنی زیادتی ہوئی نہ اُن کے ساتھ... اور وہ بھی میری وجہ سے..."
جیا نے دل ہی دل میں سوچا۔
"ہم نارمل کپلز کی طرح ہی تو زندگی گزار رہے ہیں۔"
جیا نے آہستہ سے کہا اور ایک طرف سے گزر کر جانے لگی۔ لیکن پاشا نے نرمی سے اُس کا بازو تھام لیا اور اپنے قریب کھینچ لیا۔
"کیا نارمل کپلز ایسے رہتے ہیں؟"
پاشا نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے میں یوں جمی تھیں جیسے وقت وہیں تھم گیا ہو۔
"ہم میں کیا نارمل ہے، میر تبریز پاشا؟"
جیا کی آواز بھاری تھی مگر لہجہ غیر معمولی طور پر پُرعزم۔ "نارمل لوگوں کی شادیاں یوں نہیں ہوتیں جیسے ہماری ہوئی ہے۔"
جیا کی آنکھیں اب بھی اُس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔ اُس کا ہاتھ ابھی تک پاشا کے ہاتھ میں تھا۔ جیا کے یہ الفاظ سن کر پاشا کی آنکھوں میں گہرا کرب اُترا، جیسے دل پر کسی نے ان دیکھے نشتر چلائے ہوں۔ اُس نے دھیرے سے جیا کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
جیا نے چپ چاپ دوپٹے کو سر پر اچھی طرح لپیٹا اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔ اب تو وہ گارڈز کے سامنے بھی دوپٹہ اتارنے کی عادی نہ رہی تھی۔ پاشا کو اُس میں یہ تبدیلی بےحد بھلی لگی۔ دل نے بےاختیار تسلیم کیا کہ یہ لڑکی رفتہ رفتہ بدل رہی ہے۔
مگر یہ بھی سچ تھا کہ جس طرح اُن کی شادی ہوئی تھی، اُس رشتے کو ایک "نارمل" روپ دینے کے لیے وقت درکار تھا۔ اور پاشا. اور پاشا کو پہلی بار یہ شدت سے احساس ہوا۔
*************************************************
پاشا آج جیا کو باہر ڈنر پر لایا تھا۔ اُس نے پورا ریسٹورنٹ صرف جیا کے لیے بُک کر رکھا تھا۔ ترکی میں پاشا کے لیے کوئی بھی ہوٹل بُک کرانا کوئی مشکل نہ تھا؛ وہ چاہتا تو یہاں کوئی بھی پراپرٹی خرید سکتا تھا یا قابض ہو سکتا تھا۔ لوگ اُس کے نام سے ہی لرزتے تھے۔
اب وہ پاشا کے گارڈز کے سامنے بھی کم ہی آتی تھی۔ زندگی نے اُسے بہت بڑا سبق سکھا دیا تھا۔ اُس دن کو سوچتے ہی اُس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے—اگر اُس دن پاشا نہ پہنچتا تو کیا ہوتا؟ اُس سے آگے سوچنا بھی محال تھا۔ اُسے یقین تھا کہ پاشا نے اُس شخص کو ضرور سخت سزا دی ہو گی۔
پاشا نے جیا کی خاطر اپنے گارڈز کو محل کے اندر آنے سے بھی منع کر دیا تھا۔ اس وقت وہ مسلسل جیا کو ہی دیکھ رہا تھا۔ حجاب کے حصار میں جیا کا چہرہ اُسے بےحد حسین لگ رہا تھا۔ اُس کی خواہش تھی کہ جیا کی آنکھوں میں کبھی اپنے لیے محبت دیکھے، مگر یہ خواب اُس کے لیے بہت مشکل محسوس ہوتا تھا۔ ایک لمحے میں دوسروں کی زندگیاں بدلنے والا آج اپنی بیوی کے سامنے بےبس تھا۔
کھانے کا آرڈر پاشا نے خود دیا۔ یہاں پاکستانی کھانا بھی دستیاب تھا، اسی لیے وہ جیا کو یہاں لایا تھا۔
"جیا، کھانا شروع کرو،"
کھانا آنے پر پاشا نے نرمی سے کہا۔ مگر جیا خاموشی سے شیشے کی دیوار کے پار برستی بارش دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے سر ہلایا، پلیٹ میں چاول نکالے اور کھانے لگی۔ ذائقہ اُسے اتنا اچھا لگا کہ ہاتھ رُکتا ہی نہ تھا۔ پاشا کو خوشی ہوئی کہ جیا کو کھانا پسند آیا۔
"کھانا کیسا لگا؟"
اُسے معلوم تھا کہ جیا کو کھانا پسند آیا ہے، لیکن گفتگو کے لیے پوچھ لیا۔
"اچھا ہے کھانا… بلکہ بہت اچھا ہے،"
جیا نے کھل کر تعریف کی۔
پاشا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور کہا:
"سوچ رہا ہوں گھر کے لیے بھی کوئی ایسا کُک ڈھونڈوں جسے پاکستانی کھانے بنانے آتے ہوں۔"
جیا نے ایک نگاہ پاشا کی طرف ڈالی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
کھانے کے بعد پاشا نے کافی منگوائی، جیا نے کسی اور چیز کا آرڈر دینے سے منع کر دیا۔ جیا کی نظریں باہر برستی بارش پر ٹکی تھیں اور پاشا کی نظریں جیا پر۔ اچانک جیا کے کانوں میں پاشا کی آواز پڑی، "میں نے ڈاکٹر حمدان کو اغوا نہیں کیا تھا۔" جیا چونک کر پاشا کی طرف دیکھنے لگی۔ پاشا عام طور پر وضاحت کم دیتا تھا، مگر اس لڑکی کی بیزاری وہ مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
جیا نے طنزیہ لہجے میں کہا، "جتنا مجھے پتا ہے پاشا جھوٹ نہیں بولتا۔" اس نے خود وہ ویڈیو دیکھ رکھی تھی۔ پاشا نے جواب دیا، "میں نے ڈاکٹر حمدان کو بلا کر سب بتا دیا تھا۔ میں تمہارے گھر والوں کو اس کھیل کا حصہ نہیں بنانا چاہتا تھا، اس لیے ڈاکٹر حمدان کی مدد سے یہ کام کیا گیا — وہ سب پہلے سے پلین کیا گیا تھا۔" پاشا کی نظریں جیا کی نظریں ٹکراتی رہیں۔ جیا صدمے میں تھی؛ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ڈاکٹر حمدان اس کے ساتھ ایسا کرے گا، اس کی کیا حالت ہو گئی ہے۔
پاشا نے واضح انداز میں کہا، "میں بےگناہوں کو سزا نہیں دیتا، اس لیے تم نے جو سوچا وہ نہیں تھا ۔ میں کبھی تمہارے گھر والوں یا ڈاکٹر حمدان کو نقصان پہنچانے والا نہیں تھا۔" جیا کچھ دیر تک کشمکش میں بیٹھی رہی۔ پاشا نے اس کا ہاتھ پکڑا، اپنے لبوں پر رکھا اور پھر اسے اٹھا کر گاڑی کی
طرف لے گیا— پیچھے دو آ نکھوں آنکھوں میں ایک روشنی سی چمکی تھی؛ آخرکار وہ پاشا کی کمزوری تھی جو اس کے ہاتھ لگ گئی تھی۔
*************************************************
حور کی باتوں کا اثر تھا کہ آج سہیل مہرین کو لینے نکل کھڑا ہوا۔ بیٹے کو ساتھ لیے وہ سسرال پہنچا۔ ڈور بیل پر مہرین کے بھائی آفتاب نے دروازہ کھولا۔ سہیل کو دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا۔ وہ لوگ ویسے بھی مہرین سے تنگ تھے؛ اس کی وجہ سے روز روز گھر میں جھگڑے ہوتے تھے۔ سہیل سے مل کر آفتاب نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
اسی وقت کچن سے مہرین باہر آرہی تھی۔ نظر سہیل پر پڑتے ہی وہ دوڑ کر اس کے پاس آئی، بیٹے کو اپنی بانہوں میں لیا اور اسے پیار کرنے لگی۔ مہرین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، وہ بے آواز رونے لگی۔ سہیل تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ عجیب سے کپڑے پہنے ہوئے، جو شاید برتن دھونے کی وجہ سے بھیگ گئے تھے۔
سہیل کے دل کو دکھ ہوا—اگر وہ آج بھی نہ آتا تو... مگر یہ بھی سچ تھا کہ مہرین نے غلطی تو خود کی تھی۔
"اپنا بیگ لے آؤ، گھر چلیں،" سہیل نے کہا۔ آفتاب اس کے سامنے شرمندہ سا کھڑا رہ گیا۔
مہرین نے آفتاب کو دیکھتے ہوئے کہا،
"میں وہاں سے خالی ہاتھ آئی تھی، یہاں میرا کچھ بھی نہیں ہے۔" آفتاب نے نظریں چرا لیں۔
سہیل اسے ساتھ لے کر بائیک پر اپنے گھر آگیا۔ گھر پہنچتے ہی
سامنے شہرین اس کا انتظار کر رہی تھی۔ بہن کو دیکھتے ہی دونوں گلے مل کر خوب روئیں۔ مہرین کی حالت، اس کا حلیہ، سب کچھ اس کی تکالیف چیخ چیخ کر بتا رہا تھا۔
شہرین اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ مہرین اب بھی روئے جا رہی تھی۔
"مجھے اپنے کیے کی سزا مل گئی ہے، میں نے سب کے ساتھ بہت برا کیا،" مہرین کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ شہرین نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
مہرین نے شکایت بھرے لہجے میں کہا، "تمہیں پتہ تھا نا وہاں رہنا مشکل ہے، تو تم نے سہیل کو پہلے کیوں نہیں بھیجا؟"
"سہیل تو ہماری بالکل نہیں سن رہا تھا، وہ تو حور آئی اور اس نے سہیل کو سمجھایا، پھر کہیں جا کے وہ مانا۔"
شہریں کی بات سن کر مہرین مزید شرمندہ ہوگئی۔ وہ جانتی تھی کہ حور کے ساتھ اس نے کیا کچھ نہیں کیا، اور وہ پھر بھی اس کے لیے اچھا ہی سوچ رہی تھی۔
مہرین نے نظریں جھکا کر ہاتھوں پر جما دیں اور دھیرے سے کہا، "میں حور سے معافی مانگوں گی، میں نے اس کے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔"
*************************************************
"سر، پاشا کی کمزوری ہاتھ لگ گئی ہے۔"
ہوٹل کی لابی میں کھڑا ایک لڑکا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے آنے والی آواز بھاری تھی، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ شخص عمر میں بڑا ہے۔
"بکواس نہ کرو، وہ انسان کوئی کمزوری رکھتا ہی نہیں،" دوسری طرف والا شدید بے صبری سے پاشا کی بربادی کا منتظر تھا۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں، وہ ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے، اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی... جس کا وہ بہت خیال رکھ رہا تھا،" لڑکے نے جھنجھلا کر کہا۔ اسے دکھ ہو رہا تھا کہ سامنے والا اس کی بات پر یقین ہی نہیں کر رہا۔
دوسری طرف سے قہقہے گونجنے لگے، "ہاہاہا... لڑکی؟ تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟ یا پھر کوئی نشہ کر رکھا ہے؟ لڑکی اور وہ بھی پاشا کے ساتھ؟ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
"ویڈیو بھیج رہا ہوں، خود دیکھ لیں،" لڑکے نے تلخی سے کہا۔
جیسے ہی ویڈیو موصول ہوئی، دوسری طرف والے نے پلے کی۔ اب اس کا حیران ہونا بنتا بھی تھا۔
"کون ہے یہ لڑکی؟" اس کے لہجے میں سنجیدگی آچکی تھی۔ دماغ میں کئی خیال گردش کر رہے تھے۔
"میں نہیں جانتا... لیکن اب پاشا کو جھکانے کا وقت آگیا ہے،" لڑکے کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی۔
"ہاں، تم نظر رکھو، ہم بہت جلد کچھ بڑا کریں گے،" دوسری طرف سے کہہ کر کال کاٹ دی گئی۔ لڑکے نے ادھر ادھر دیکھا اور جلدی سے وہاں سے نکل گیا۔
ناول ہجر کی رات. Episode 24
تحریر: مائرہ ہارون
یمنہ گھر واپس آ کر احمر کے والدین سے بھی معافی مانگ چکی تھی، اور انہوں نے دل سے اسے معاف کر دیا تھا۔ اب گھر کا ماحول سکون سے بھرا رہتا۔ احمر یمنہ کا بےحد خیال رکھتا، اس کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت پوری کرتا، اس کی ہر بات سنتا۔ لیکن یمنہ کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ احساس موجود رہتا کہ یہ وہ پرانا احمر نہیں رہا۔
اب وہ زیادہ تر سنجیدہ سا رہتا، اکثر تنہا بیٹھ کر کسی انجانی سوچ میں کھو جاتا۔ یمنہ جانتی تھی کہ اس کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں ابھی تک حور کی یاد بسی ہوئی ہے۔ مگر اس نے اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا کہ جو بھی ہے، وہ اسی احمر کا ساتھ نبھائے گی۔
احمر وقت ضرور یمنہ کو دیتا تھا، لیکن بارش کے دنوں میں اس کے رویے میں کچھ اور ہی کیفیت جھلکتی۔ وہ لان میں بارش کے قطروں میں بھیگتا رہتا، جیسے کسی دکھ کو بارش کے حوالے کر رہا ہو۔ کئی بار یمنہ کو گمان ہوا کہ شاید وہ رو رہا ہے، مگر کبھی اس نے خود احمر سے یہ سوال نہ کیا۔
جو بھی تھا، یمنہ یہ بات سمجھ گئی تھی کہ حور کی کہانی ہمیشہ احمر کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں زندہ رہے گی— ایک ایسے راز کی طرح، جو وقت کے ساتھ مدھم تو ہو سکتا ہے، مگر کبھی مٹ نہیں سکتا۔
*************************************************
پاشا کی بے حد توجہ اور دیکھ بھال کی وجہ سے جیا کی کیفیت اب رفتہ رفتہ معمول پر آنے لگی تھی۔ پچھلے چند دنوں میں وہ ہر لمحہ اُس کے ساتھ ایک سائے کی مانند رہا۔ جیا کو بھی آج ہلکا پھلکا سکون محسوس ہو رہا تھا۔ ان دنوں کے دوران اس کے دل میں پاشا کے لیے نرمی سی جنم لینے لگی تھی۔ وہ اس کے نرم لہجے کی عادی بنتی جا رہی تھی۔
پاشا نے بھی جیا کے لیے اپنے آپ کو بہت حد تک بدل لیا تھا۔ وہ باتیں جو جیا کو ناگوار گزرتیں، اب وہ کوشش کرتا کہ اُنہیں کبھی دہرانا نہ پڑے۔ مگر اب تک نہ پاشا نے اپنے دل کا حال کہا تھا اور نہ ہی جیا نے۔
شاور لینے کے بعد جیا نے لال رنگ کی لانگ قمیض اور ساتھ کیپری زیبِ تن کی۔ گلے میں دوپٹہ نفاست سے پھیلایا۔ اُس دن کے واقعے کے بعد اب وہ دوپٹے کو ہمیشہ احتیاط سے اوڑھتی تھی، اور پاشا کو اُس کی یہ وضع داری بےحد پسند آتی تھی۔
جیا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی دوپٹہ درست کر رہی تھی کہ پاشا کمرے میں داخل ہوا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ دونوں کی نظریں ایک ساتھ آئینے میں ٹکیں۔
"بیوٹیفل..." پاشا کے لبوں سے بےساختہ نکلا۔ جیا نے نظریں جھکا لیں۔ وہ اب بھی اس سے بہت کم بات کرتی تھی۔
"ایسی ہی رہا کرو، اچھی لگتی ہو۔"
پاشا نے آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جیا نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا۔
"جیا... کیا ہم نارمل کپلز کی طرح زندگی نہیں گزار سکتے؟" پاشا کی زبان سے یہ الفاظ سن کر جیا حیران رہ گئی۔ یہ وہ شخص تھا جو ہمیشہ چھیننے پر یقین رکھتا تھا، کبھی مانگنے پر نہیں۔ جیسے اُس نے اُسے ڈاکٹر حمدان سے چھینا تھا۔ یہی ایک بات تھی جو آج تک جیا کو پاشا کی طرف جھکنے نہیں دیتی تھی۔ جب بھی ڈاکٹر حمدان کا زخمی چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آتا، اُس کے دل میں پاشا کے لیے نفرت تازہ ہو جاتی۔ اس لمحے بھی حمدان کی یاد اُس کے دل کو چیر گئی، اور آنکھیں نم ہو گئیں۔
"کتنی زیادتی ہوئی نہ اُن کے ساتھ... اور وہ بھی میری وجہ سے..."
جیا نے دل ہی دل میں سوچا۔
"ہم نارمل کپلز کی طرح ہی تو زندگی گزار رہے ہیں۔"
جیا نے آہستہ سے کہا اور ایک طرف سے گزر کر جانے لگی۔ لیکن پاشا نے نرمی سے اُس کا بازو تھام لیا اور اپنے قریب کھینچ لیا۔
"کیا نارمل کپلز ایسے رہتے ہیں؟"
پاشا نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے میں یوں جمی تھیں جیسے وقت وہیں تھم گیا ہو۔
"ہم میں کیا نارمل ہے، میر تبریز پاشا؟"
جیا کی آواز بھاری تھی مگر لہجہ غیر معمولی طور پر پُرعزم۔ "نارمل لوگوں کی شادیاں یوں نہیں ہوتیں جیسے ہماری ہوئی ہے۔"
جیا کی آنکھیں اب بھی اُس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔ اُس کا ہاتھ ابھی تک پاشا کے ہاتھ میں تھا۔ جیا کے یہ الفاظ سن کر پاشا کی آنکھوں میں گہرا کرب اُترا، جیسے دل پر کسی نے ان دیکھے نشتر چلائے ہوں۔ اُس نے دھیرے سے جیا کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
جیا نے چپ چاپ دوپٹے کو سر پر اچھی طرح لپیٹا اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔ اب تو وہ گارڈز کے سامنے بھی دوپٹہ اتارنے کی عادی نہ رہی تھی۔ پاشا کو اُس میں یہ تبدیلی بےحد بھلی لگی۔ دل نے بےاختیار تسلیم کیا کہ یہ لڑکی رفتہ رفتہ بدل رہی ہے۔
مگر یہ بھی سچ تھا کہ جس طرح اُن کی شادی ہوئی تھی، اُس رشتے کو ایک "نارمل" روپ دینے کے لیے وقت درکار تھا۔ اور پاشا. اور پاشا کو پہلی بار یہ شدت سے احساس ہوا۔
*************************************************
پاشا آج جیا کو باہر ڈنر پر لایا تھا۔ اُس نے پورا ریسٹورنٹ صرف جیا کے لیے بُک کر رکھا تھا۔ ترکی میں پاشا کے لیے کوئی بھی ہوٹل بُک کرانا کوئی مشکل نہ تھا؛ وہ چاہتا تو یہاں کوئی بھی پراپرٹی خرید سکتا تھا یا قابض ہو سکتا تھا۔ لوگ اُس کے نام سے ہی لرزتے تھے۔
اب وہ پاشا کے گارڈز کے سامنے بھی کم ہی آتی تھی۔ زندگی نے اُسے بہت بڑا سبق سکھا دیا تھا۔ اُس دن کو سوچتے ہی اُس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے—اگر اُس دن پاشا نہ پہنچتا تو کیا ہوتا؟ اُس سے آگے سوچنا بھی محال تھا۔ اُسے یقین تھا کہ پاشا نے اُس شخص کو ضرور سخت سزا دی ہو گی۔
پاشا نے جیا کی خاطر اپنے گارڈز کو محل کے اندر آنے سے بھی منع کر دیا تھا۔ اس وقت وہ مسلسل جیا کو ہی دیکھ رہا تھا۔ حجاب کے حصار میں جیا کا چہرہ اُسے بےحد حسین لگ رہا تھا۔ اُس کی خواہش تھی کہ جیا کی آنکھوں میں کبھی اپنے لیے محبت دیکھے، مگر یہ خواب اُس کے لیے بہت مشکل محسوس ہوتا تھا۔ ایک لمحے میں دوسروں کی زندگیاں بدلنے والا آج اپنی بیوی کے سامنے بےبس تھا۔
کھانے کا آرڈر پاشا نے خود دیا۔ یہاں پاکستانی کھانا بھی دستیاب تھا، اسی لیے وہ جیا کو یہاں لایا تھا۔
"جیا، کھانا شروع کرو،"
کھانا آنے پر پاشا نے نرمی سے کہا۔ مگر جیا خاموشی سے شیشے کی دیوار کے پار برستی بارش دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے سر ہلایا، پلیٹ میں چاول نکالے اور کھانے لگی۔ ذائقہ اُسے اتنا اچھا لگا کہ ہاتھ رُکتا ہی نہ تھا۔ پاشا کو خوشی ہوئی کہ جیا کو کھانا پسند آیا۔
"کھانا کیسا لگا؟"
اُسے معلوم تھا کہ جیا کو کھانا پسند آیا ہے، لیکن گفتگو کے لیے پوچھ لیا۔
"اچھا ہے کھانا… بلکہ بہت اچھا ہے،"
جیا نے کھل کر تعریف کی۔
پاشا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور کہا:
"سوچ رہا ہوں گھر کے لیے بھی کوئی ایسا کُک ڈھونڈوں جسے پاکستانی کھانے بنانے آتے ہوں۔"
جیا نے ایک نگاہ پاشا کی طرف ڈالی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
کھانے کے بعد پاشا نے کافی منگوائی، جیا نے کسی اور چیز کا آرڈر دینے سے منع کر دیا۔ جیا کی نظریں باہر برستی بارش پر ٹکی تھیں اور پاشا کی نظریں جیا پر۔ اچانک جیا کے کانوں میں پاشا کی آواز پڑی، "میں نے ڈاکٹر حمدان کو اغوا نہیں کیا تھا۔" جیا چونک کر پاشا کی طرف دیکھنے لگی۔ پاشا عام طور پر وضاحت کم دیتا تھا، مگر اس لڑکی کی بیزاری وہ مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
جیا نے طنزیہ لہجے میں کہا، "جتنا مجھے پتا ہے پاشا جھوٹ نہیں بولتا۔" اس نے خود وہ ویڈیو دیکھ رکھی تھی۔ پاشا نے جواب دیا، "میں نے ڈاکٹر حمدان کو بلا کر سب بتا دیا تھا۔ میں تمہارے گھر والوں کو اس کھیل کا حصہ نہیں بنانا چاہتا تھا، اس لیے ڈاکٹر حمدان کی مدد سے یہ کام کیا گیا — وہ سب پہلے سے پلین کیا گیا تھا۔" پاشا کی نظریں جیا کی نظریں ٹکراتی رہیں۔ جیا صدمے میں تھی؛ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ڈاکٹر حمدان اس کے ساتھ ایسا کرے گا، اس کی کیا حالت ہو گئی ہے۔
پاشا نے واضح انداز میں کہا، "میں بےگناہوں کو سزا نہیں دیتا، اس لیے تم نے جو سوچا وہ نہیں تھا ۔ میں کبھی تمہارے گھر والوں یا ڈاکٹر حمدان کو نقصان پہنچانے والا نہیں تھا۔" جیا کچھ دیر تک کشمکش میں بیٹھی رہی۔ پاشا نے اس کا ہاتھ پکڑا، اپنے لبوں پر رکھا اور پھر اسے اٹھا کر گاڑی کی
طرف لے گیا— پیچھے دو آ نکھوں آنکھوں میں ایک روشنی سی چمکی تھی؛ آخرکار وہ پاشا کی کمزوری تھی جو اس کے ہاتھ لگ گئی تھی۔
*************************************************
حور کی باتوں کا اثر تھا کہ آج سہیل مہرین کو لینے نکل کھڑا ہوا۔ بیٹے کو ساتھ لیے وہ سسرال پہنچا۔ ڈور بیل پر مہرین کے بھائی آفتاب نے دروازہ کھولا۔ سہیل کو دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا۔ وہ لوگ ویسے بھی مہرین سے تنگ تھے؛ اس کی وجہ سے روز روز گھر میں جھگڑے ہوتے تھے۔ سہیل سے مل کر آفتاب نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
اسی وقت کچن سے مہرین باہر آرہی تھی۔ نظر سہیل پر پڑتے ہی وہ دوڑ کر اس کے پاس آئی، بیٹے کو اپنی بانہوں میں لیا اور اسے پیار کرنے لگی۔ مہرین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، وہ بے آواز رونے لگی۔ سہیل تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ عجیب سے کپڑے پہنے ہوئے، جو شاید برتن دھونے کی وجہ سے بھیگ گئے تھے۔
سہیل کے دل کو دکھ ہوا—اگر وہ آج بھی نہ آتا تو... مگر یہ بھی سچ تھا کہ مہرین نے غلطی تو خود کی تھی۔
"اپنا بیگ لے آؤ، گھر چلیں،" سہیل نے کہا۔ آفتاب اس کے سامنے شرمندہ سا کھڑا رہ گیا۔
مہرین نے آفتاب کو دیکھتے ہوئے کہا،
"میں وہاں سے خالی ہاتھ آئی تھی، یہاں میرا کچھ بھی نہیں ہے۔" آفتاب نے نظریں چرا لیں۔
سہیل اسے ساتھ لے کر بائیک پر اپنے گھر آگیا۔ گھر پہنچتے ہی
سامنے شہرین اس کا انتظار کر رہی تھی۔ بہن کو دیکھتے ہی دونوں گلے مل کر خوب روئیں۔ مہرین کی حالت، اس کا حلیہ، سب کچھ اس کی تکالیف چیخ چیخ کر بتا رہا تھا۔
شہرین اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ مہرین اب بھی روئے جا رہی تھی۔
"مجھے اپنے کیے کی سزا مل گئی ہے، میں نے سب کے ساتھ بہت برا کیا،" مہرین کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ شہرین نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
مہرین نے شکایت بھرے لہجے میں کہا، "تمہیں پتہ تھا نا وہاں رہنا مشکل ہے، تو تم نے سہیل کو پہلے کیوں نہیں بھیجا؟"
"سہیل تو ہماری بالکل نہیں سن رہا تھا، وہ تو حور آئی اور اس نے سہیل کو سمجھایا، پھر کہیں جا کے وہ مانا۔"
شہریں کی بات سن کر مہرین مزید شرمندہ ہوگئی۔ وہ جانتی تھی کہ حور کے ساتھ اس نے کیا کچھ نہیں کیا، اور وہ پھر بھی اس کے لیے اچھا ہی سوچ رہی تھی۔
مہرین نے نظریں جھکا کر ہاتھوں پر جما دیں اور دھیرے سے کہا، "میں حور سے معافی مانگوں گی، میں نے اس کے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔"
*************************************************
"سر، پاشا کی کمزوری ہاتھ لگ گئی ہے۔"
ہوٹل کی لابی میں کھڑا ایک لڑکا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ دوسری طرف سے آنے والی آواز بھاری تھی، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ شخص عمر میں بڑا ہے۔
"بکواس نہ کرو، وہ انسان کوئی کمزوری رکھتا ہی نہیں،" دوسری طرف والا شدید بے صبری سے پاشا کی بربادی کا منتظر تھا۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں، وہ ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے، اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی... جس کا وہ بہت خیال رکھ رہا تھا،" لڑکے نے جھنجھلا کر کہا۔ اسے دکھ ہو رہا تھا کہ سامنے والا اس کی بات پر یقین ہی نہیں کر رہا۔
دوسری طرف سے قہقہے گونجنے لگے، "ہاہاہا... لڑکی؟ تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟ یا پھر کوئی نشہ کر رکھا ہے؟ لڑکی اور وہ بھی پاشا کے ساتھ؟ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
"ویڈیو بھیج رہا ہوں، خود دیکھ لیں،" لڑکے نے تلخی سے کہا۔
جیسے ہی ویڈیو موصول ہوئی، دوسری طرف والے نے پلے کی۔ اب اس کا حیران ہونا بنتا بھی تھا۔
"کون ہے یہ لڑکی؟" اس کے لہجے میں سنجیدگی آچکی تھی۔ دماغ میں کئی خیال گردش کر رہے تھے۔
"میں نہیں جانتا... لیکن اب پاشا کو جھکانے کا وقت آگیا ہے،" لڑکے کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی۔
"ہاں، تم نظر رکھو، ہم بہت جلد کچھ بڑا کریں گے،" دوسری طرف سے کہہ کر کال کاٹ دی گئی۔ لڑکے نے ادھر ادھر دیکھا اور جلدی سے وہاں سے نکل گیا۔
************************************************
*************************************************
Pta nhi Kia issue ay rha hy
28/09/2025
کیا آپ جانتے ہیں کہ فیس بک صرف دوستوں سے جڑنے کا پلیٹ فارم نہیں بلکہ یہ لاکھوں لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے؟
آپ بھی اپنی صلاحیتوں اور تھوڑی سی محنت کے ساتھ فیس بک سے پیسے کما سکتے ہیں۔
👉 کمنٹ میں بتائیں، آپ نے کبھی فیس بک سے earning کے بارے میں سوچا ہے؟
28/09/2025
ناول :محبت کے قیدی
قسط نمبر : 4
رومنٹک ناول.
گھر میں ایک نئی طوفانی صورتحال پیدا ہو گئی۔
ارمان کی امی نے سب کے سامنے کہنا شروع کر دیا:
"ہنا شادی کے بعد سے ارمان کو بس اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے، اسے باقی گھر والوں کی پرواہ ہی نہیں رہی۔"
ثنا نے موقع دیکھا اور ماں کے کان بھرے:
"امی! آپ کو پتا ہے، ارمان بھائی ہنا کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھاتے۔ یہ سب ہنا کی چال ہے۔"
یہ باتیں ہنا کے کانوں تک بھی پہنچیں۔اندر ہی اندر گھٹنے لگی، مگر شوخی چھوڑی نہیں۔
رات کو جب ارمان کمرے میں آیا، ہنا نے طنز کیا:
"سچ میں… آپ بس میرے غلام ہیں؟"
ارمان نے حیرت سے پوچھا:
"یہ کس نے کہا؟"
ہنا نے پلکیں جھکائیں اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:
"امی اور ثنا کہہ رہی تھیں۔"ارمان نے ہنا کو قریب کھینچا اور اس کے کان کے قریب سرگوشی کی:
"ہاں، مانتا ہوں… میں تمہارا غلام ہوں۔ دل کا قیدی ہوں۔"
ہنا نے شرارت سے کہا:
"پھر اپنے قیدی ہونے کا ثبوت دیجئے۔"
ارمان نے ایک لمحے میں کمرے کی لائٹ بند کر دی۔
اندھیرے میں صرف دھڑکنیں تھیں، لمس تھا، اور ایک دوسرے کی سانسیں۔
وہ لمحہ ایسا تھا جیسے دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ کبھی رہا ہی نہ ہو۔فیملی ڈرامہ بڑھتا جا رہا تھا۔
ایان اب کھلم کھلا ہنا کے قریب آنے کی کوشش کرتا۔
ایک دن لان میں سب بیٹھے تھے، ایان نے ہنا سے پانی مانگا۔
ہنا جیسے ہی پانی دینے اٹھی، ارمان نے فوراً گلاس اس کے ہاتھ سے لیا اور سخت لہجے میں بولا:
"ہنا میری بیوی ہے، نوکرانی نہیں۔ آئندہ اسے کہنے کی ضرورت نہیں!"
سب ششدر رہ گئے۔
ایان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا، مگر کچھ نہ بول سکا۔
ارمان نے ہنا کا ہاتھ تھاما اور سب کے سامنے اسے کمرے کی طرف لے گیا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی ہنا نے ارمان کے سینے پر سر رکھ دیا۔
"آپ کو پتا ہے… جب سب کے سامنے آپ نے میرا ہاتھ تھاما… تو مجھے لگا جیسے دنیا کی سب سے خوش نصیب لڑکی ہوں۔"
ارمان نے اسے بانہوں میں لے کر کہا:
"تم خوش نصیب نہیں… تم خوشی کی وجہ ہو۔"
ہنا نے شوخی سے کہا:
"اتنی بڑی تعریف کے بعد… میرا حق بنتا ہے کہ آپ مجھے اپنے دل کی سب سے چھپی ہوئی خواہش بتائیں۔"
ارمان نے اس کی کمر مضبوطی سے پکڑ کر کہا:میری سب سے بڑی خواہش صرف ایک ہے… تم… تمہاری مسکراہٹ، تمہارا لمس، تمہارا ہر انداز۔"
ہنا نے مسکراتے ہوئے لب اس کے لبوں پر رکھ دیے۔
محبت کا وہ لمس اتنا گہرا تھا کہ کمرے کی دیواریں بھی گواہ بن گئیں۔
باہر سازشیں تھیں، رشتوں کے طعنے تھے، مگر اندر صرف دو دل ایک دوسرے کے قیدی تھے۔
ایان نے طے کر لیا تھا کہ وہ کسی طرح ہنا اور ارمان کے درمیان دراڑ ڈالے گا۔
ایک دن اس نے ثنا کو بہکایا:
"تمہیں پتا ہے، ہنا نے ارمان کو پوری طرح قابو کر لیا ہے۔ اگر وقت پر روکا نہ گیا تو کل کو سارا گھر اسی کے اشارے پر چلے گا۔"
ثنا نے فوراً امی کو جا کر یہی بات بتائی۔
امی نے سب کے سامنے ہنا کو طعنے دینا شروع کر دیے:
"ہم نے اپنی بہو سے یہ امید نہیں رکھی تھی۔"ہنا اندر سے رو گئی، مگر چہرے پر ہنسی لا کر بولی:
"امی، ارمان میرا شوہر ہے۔ اگر وہ میری پرواہ کرتا ہے تو یہ محبت ہے، کوئی چال نہیں۔"
اس رات ہنا کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔
دروازہ کھلا اور ارمان آیا۔ اس نے ہنا کے آنسو دیکھے اور فوراً اس کے قریب بیٹھ گیا۔
"کس نے رلایا میری جان کو؟"
ہنا نے بھرائی آواز میں کہا:ارمان… میں سب کے لئے بری کیوں ہوں؟"
ارمان نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا اور دھیرے سے کہا:
"تم سب کے لئے بری ہو سکتی ہو، مگر میرے لئے تم سب سے اچھی ہو۔ تم میری زندگی ہو۔"
ہنا نے سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔
"پھر مجھے ایسا محسوس کروائیے… جیسے صرف آپ کا پیار ہی میری دنیا ہے۔"
ارمان نے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بیڈ پر لٹایا۔کمرے میں اندھیرا تھا، مگر ان کے درمیان کی روشنی اتنی تیز تھی کہ ہر لمس، ہر دھڑکن، ہر سانس ایک دوسرے میں گھل رہی تھی۔
وہ لمحے اتنے شدید تھے کہ دونوں خود کو بھول گئے—صرف ایک دوسرے میں کھو گئے۔اگلی صبح ایان نے ایک نیا کھیل کھیلا۔
اس نے خفیہ طور پر ہنا کے فون پر ایک پرانا نمبر کال کروایا—تاکہ لگے وہ کسی لڑکے سے بات کر رہی ہے۔
ثنا نے شور مچایا:
"امی! دیکھیں ہنا کسی اور سے چھپ چھپ کر بات کر رہی تھی!"
امی نے فوراً ارمان کو بلا کر کہا:
"یہی ہے تمہاری وفادار بیوی؟ شادی کے بعد بھی پرانے تعلقات نبھا رہی ہے!"کمرہ سن ہو گیا۔
ہنا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
"ارمان… یہ جھوٹ ہے۔ میرا آپ کے سوا کوئی نہیں۔"
سب کی نظریں ارمان پر تھیں۔
ارمان نے ایک لمحے کو ہنا کی آنکھوں میں دیکھا، اور پھر سب کے سامنے اعلان کر دیا:
"میں اپنی بیوی پر شک نہیں کر سکتا۔ وہ میرا سب کچھ ہے۔ اگر کسی نے ہنا کے خلاف ایک لفظ بھی کہا، تو وہ مجھ سے دشمنی کرے گا۔"
سب کے چہرے اتر گئے، خاص طور پر ایان کا۔
رات کو ہنا نے ارمان کے گلے لگتے ہوئے کہا:"آپ نے سب کے سامنے میرا ساتھ دیا… آپ کو اندازہ نہیں، میرے دل نے کیسا سکون پایا۔"
ارمان نے دھیرے سے اس کے لبوں پر بوسہ دیا اور کہا:
"یہ میرا فرض نہیں… میرا عشق ہے۔"
ہنا نے شرارت سے کہا:
"پھر آج یہ عشق لفظوں میں نہیں… عمل میں دکھائیے۔"
اس رات کمرے میں صرف ایک ہی صدا تھی—
محبت کی شدت، لمس کی گرمی، اور ایک دوسرے کے وجود میں ڈوب جانے کا جنون۔گھر کے صحن میں بڑی محفل بیٹھی تھی۔
کاشف نے سب کے سامنے کہا:
"ارمان، بزنس کا ہر فیصلہ تم اکیلے کیوں کرتے ہو؟ ہم سب کا حق ہے۔"
ارمان نے سکون سے جواب دیا:
"فیصلے وہی کرے گا جو محنت کرے۔ تمہیں بزنس سے زیادہ پارٹیوں میں دلچسپی ہے۔"
کاشف کا چہرہ لال ہو گیا۔ رابعہ نے موقع دیکھ کر آہ بھری:
"امی، یہ انصاف نہیں… کاشف کی محنت کو کوئی نہیں دیکھتا۔"
امی فوراً بگڑ گئیںارمان! تم اکیلے مالک نہیں ہو۔ یہ بزنس سب کا ہے!"
ہنا نے ارمان کا ہاتھ دبایا تاکہ وہ غصے میں کچھ نہ بولے۔
بعد میں کمرے میں آ کر اس نے دھیرے سے کہا:
"آپ اکیلے سب سے لڑ نہیں سکتے… مجھے بھی ساتھ کھڑا ہونے دیں۔"
ارمان نے اسے بانہوں میں بھر کر کہا:
"میری طاقت تم ہی ہو، ہنا۔"اور پھر وہ لمحے شروع ہوئے جہاں دونوں ایک دوسرے کی محبت میں ایسے کھو گئے جیسے باہر کی دنیا کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔دوسری طرف حسنین اپنی محبت "مریم" کے لئے پریشان تھا۔
"بھائی، سب کہتے ہیں یہ رشتہ خاندان کی عزت کے خلاف ہے۔ میں کیا کروں؟"
ارمان نے اسے سمجھایا:
"محبت گناہ نہیں، مگر تمہیں ہمت دکھانی ہوگی۔"
ہنا نے بھی حسنین سے کہا:
"مریم سے ملاؤ، میں تم دونوں کی مدد کروں گی۔"
ایان نے یہ سب سنا اور موقع دیکھ کر آ کر امی کو بھڑکایادیکھیں، ایک بہو پہلے ہی ارمان کو اپنے قابو میں کر چکی ہے، اب یہ دوسرے بھائی کو بھی بگاڑ رہی ہے۔ کل کو سارا خاندان تباہ ہو جائے گا۔"
امی کا دل اور سخت ہو گیا۔
لیکن انہی دنوں کاشف کی بیوی رابعہ بھی چپکے چپکے حسنین کی محبت پر نظر رکھے ہوئی تھی۔
وہ چاہتی تھی کہ مریم کی جگہ کوئی اپنی پسند کی لڑکی آئے تاکہ بزنس اور جائیداد پر ان کا قبضہ بڑھے۔شام کے وقت حسنین چھپ کر ہنا کے کمرے میں آیا۔
"بھابھی… مجھے مریم سے ملنا ہے، لیکن گھر والے کبھی اجازت نہیں دیں گے۔"
ہنا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا:
"محبت چھپانے سے نہیں ملتی حسنین۔ دلیر بنو۔ میں تمہیں ملاؤں گی۔"
وہ دونوں مریم سے ملنے نکلے۔
ایک چھوٹے سے کیفے میں مریم ان کا انتظار کر رہی تھی۔
سادہ شلوار قمیض میں، سر پر دوپٹہ، آنکھوں میں محبت اور خوف۔مریم نے حسنین کو دیکھا تو رو پڑی:
"تمہارے خاندان والے مجھے کبھی قبول نہیں کریں گے۔ تم کیوں اپنی زندگی برباد کر رہے ہو؟"
حسنین نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا:
"تم میری زندگی ہو، تمہارے بغیر کچھ نہیں۔"
ہنا نے یہ منظر دیکھ کر دل میں کہا:
"محبت کی یہ شدت مجھے اپنے اور ارمان کے درمیان بھی ہمیشہ چاہیے…"
اُسی رات جب وہ کمرے میں واپس گئی، ارمان نے ہنستے ہوئے پوچھا:آج بہت خوش لگ رہی ہو… کوئی خاص وجہ؟"
ہنا نے شرارت سے کہا:
"وجہ تو آپ ہیں… لیکن شاید آپ کو پتا نہیں کہ آپ مجھے کس حد تک اپنا بنا چکے ہیں۔"
ارمان نے اسے اپنی بانہوں میں کھینچا اور کان میں سرگوشی کی:
"پھر آج رات تمہیں وہ حد بھی دکھا دوں… جو صرف میرا حق ہے۔"کمرے کی خاموشی میں سانسوں کا شور اور محبت کی شدت تھی…
ایسی شدت کہ لمحے قیامت بن گئے۔
جاری ہے.
Follow krlo sab .
Be the first to know and let us send you an email when Hijabi girl posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.