Hijabi girl

Hijabi girl اور تمہارے لیے تمہارا اللہ ہی کافی ہے. I Upload all types of videos. Keep supporting.

16/07/2025

پچھتاوے کا بوجھ

میں اپنے والد سے ہمیشہ نفرت کرتی تھی کیونکہ وہ ایک موٹر سائیکل مکینک تھے۔ میرے اسکول کی دوستوں کے والد یا تو ڈاکٹر تھے یا وکیل، کسی کے والد بزنس مین، کسی کے پروفیسر۔ میرے ابو؟ وہ تو محلے کے کونے پر واقع اپنی ورکشاپ میں دن بھر تیل میں لت پت ہاتھوں سے پرانی بائیکس ٹھیک کرتے رہتے تھے۔

مجھے ہر بار شرمندگی ہوتی جب وہ اپنی پرانی یاماہا پر، جس کی آواز دور سے سنائی دیتی تھی، میرے اسکول آتے۔ وہ ہمیشہ چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوتے جس پر کالک کے داغ، اور ان کی سفید ہوتی داڑھی ہوا میں لہراتی۔ وہ مجھے ہمیشہ "میری بیٹی" کہہ کر آواز دیتے تھے، لیکن میں نے کبھی انہیں اپنے دوستوں کے سامنے والد کہہ کر نہیں پکارا۔ وہ میرے ساتھ محبت سے پیش آتے، مگر میں نے جان بوجھ کر ان سے فاصلہ رکھا۔

آخری بار جب میں نے ابو کو زندہ دیکھا، وہ میرا یونیورسٹی گریجویشن دیکھنے لاہور آئے تھے۔ میرے سب دوستوں کے والدین نفیس سوٹ اور قیمتی ملبوسات میں تھے۔ ابو نے اپنی بہترین قمیص پہن رکھی تھی اور وہی پرانی جینز، جس سے ان کے بازو پر بنا دھندلا سا ٹیٹو نہیں چھپ سکا۔ تقریب کے بعد جب وہ مجھے گلے لگانے کے لیے آگے بڑھے، میں پیچھے ہٹ گئی، اور اس کے بجائے رسمی مصافحہ کیا۔ ان کی آنکھوں میں ایک لمحے کو چبھنے والا درد اُبھر آیا۔ وہی لمحہ اب میری راتوں کی نیند اُڑا دیتا ہے۔

تین ہفتے بعد میرے ماموں کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ مری کے راستے میں تیز بارش کے دوران ایک لکڑی لے جانے والا ٹرک سڑک کی دوسری جانب آ گیا تھا، اور ابو کی بائیک اس کے نیچے آ گئی۔ میں نے فون بند کر دیا۔ اور مجھے کچھ بھی محسوس نہ ہوا۔ بس ایک عجیب سی خالی پن، جہاں غم ہونا چاہیے تھا۔

جنازے کے لیے میں واپس اپنے چھوٹے سے آبائی شہر پہنچی۔ میں سمجھی شاید چند قریبی لوگ ہوں گے۔ کچھ محلے والے، یا پھر وہ چند پرانے ساتھی جن کے ساتھ ابو شام کو چائے پینے جایا کرتے تھے۔ لیکن مسجد کے باہر پہنچ کر میں دنگ رہ گئی۔ پارکنگ میں سیکڑوں موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں۔ بائیکر حضرات چھ ریاستوں سے آئے تھے۔ ہر ایک کی جیکٹ پر نارنجی ربن لگا تھا۔

"یہ تمہارے ابو کا رنگ تھا،" ایک بوڑھی عورت نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ "وہ کہتا تھا خدا کو ہائی وے پر نظر آنا چاہیے، اس لیے نارنجی پہنتا ہے۔"
مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔

میں مسجد کے اندر پہنچی تو وہاں مختلف لوگ ابو کی یاد میں باتیں کر رہے تھے۔ کوئی انہیں "بھائی سلیم" کہہ کر مخاطب کرتا تھا، کوئی "استاد جی"۔ سب کی زبان پر ان کے احسان، ہنر اور شفقت کے قصے تھے جو میں نے کبھی نہیں سنے تھے۔ ان سب نے میرے باپ کی وہ تصویر بنائی جو میں نے کبھی دیکھی ہی نہ تھی۔

ایک باریش شخص نے کہا: "میرا والد ایک مستری تھا، لیکن میرے لیے وہ پہاڑ جیسا مضبوط تھا۔ میرے گھر کی ہر چیز اس کے ہاتھوں سے بنی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ایک بار جب میں کرائے کے مکان میں رہ رہا تھا، تو اس نے میرے لیے لکڑی کا دروازہ تک بنایا۔"

پھر ایک اور بزرگ بولے: "اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ’اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘ یہ نہیں کہا کہ جب وہ امیر ہوں یا خوبصورت لگیں تب ہی عزت کرو۔"

ایک نوجوان بائیکر نے کہا: "میں نے سلیم بھائی سے بہت کچھ سیکھا۔ اُن کا ہاتھ سنہرا تھا۔ پرانی بائیک کو ایسی آواز دیتا کہ نئی لگنے لگتی۔ وہ کامیاب تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کے ہنر سے عزت کمائی۔"

پھر ایک آواز آئی: "بیٹی، تمہیں شرمندگی ہونی چاہیے، اور تمہیں فخر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے تمہیں تعلیم دی، تمہیں ہر وہ چیز دی جس کی تمہیں ضرورت تھی۔ تم نے ان کا دل توڑا، لیکن انہوں نے کبھی تم سے شکایت نہیں کی۔"

"جو کچھ تم نے اپنے باپ کے ساتھ کیا، وہ تمہارے ساتھ واپس آئے گا۔ وقت گزر چکا ہے۔ اب صرف پچھتاوا باقی ہے۔"

"یہ بچی اب پچھتاوے کے بوجھ کے ساتھ زندہ رہے گی۔"

"ہم سب اس دنیا میں خالی ہاتھ آئے تھے، اور خالی ہاتھ ہی واپس جائیں گے۔ لیکن جو محبت والدین نے تمہیں دی، وہی تمہارا اصل سرمایہ ہے۔"

ان سب کی باتیں میرے دل میں تیر کی طرح گئیں۔ میں شرمندہ تھی۔ شرمندہ اس انسان کے سامنے جو اب دنیا میں نہیں تھا۔ آج میرے پاس سب کچھ ہے – اچھی جاب، عمدہ لباس، دنیاوی سہولتیں – لیکن جس کا پیار سب سے سچا اور بے لوث تھا، اس کو میں نے نظر انداز کیا۔

اب راتوں کو جب آنکھ لگتی ہے، تو وہ آنکھیں یاد آتی ہیں – وہ جن میں دکھ تھا، اور جنہیں میں نے آخری بار گلے نہیں لگایا۔
میری زندگی آگے بڑھے گی، مگر اس ایک گلے کے انکار کا بوجھ، ہمیشہ میرے ساتھ چلے گا۔

---









29/06/2025

حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ حضور نبی کریم (ص) کو کیسے دیکھا؟
بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، انکی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔
ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار نے آ لیا۔ سخت جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا، لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھ کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پہ میری قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کے جَو پیس۔
اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہائت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟
جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔
قصہ مختصر کہ بلال نے حضور کو کافی سخت جملے کہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب چل پڑے تو بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔۔
حضور یہ سن کر بھی چلتے رہے۔۔ بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔ لیکن بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے۔
بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔
میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔۔
بلال سو گئے اور حضور نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔
صبح بلال کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔۔
یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابی ءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔
وہ بلال جو ایک دن اذان نہ دے تو خدا تعالی سورج کو طلوع ہونے سے روک دیتا ہے، اس نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔
ایثار اور اخوت کا یہ جذبہ اتنا طاقتور ہے۔
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین
دوستو...!!!چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کہ اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

19 گریڈ کا پروفیسر 70cc موٹر سائیکل پر سوار ڈمپر کے نیچے آ کر شہید ہو گیا۔ افسوس ہے ایسے نظام پر جہاں 19 گریڈ کا پروفیسر...
11/06/2025

19 گریڈ کا پروفیسر 70cc موٹر سائیکل پر سوار ڈمپر کے نیچے آ کر شہید ہو گیا۔ افسوس ہے ایسے نظام پر جہاں 19 گریڈ کا پروفیسر جس کی جوانی علم کی روشنی پھیلاتے ہوئے گزری اور اسکی موت بھی علم کی روشنی پھیلاتے ہوئے ہوئی وہ کباڑ سے خریدی 70 موٹر سائیکل پر ڈمپر کے نیچے آجاتا ہے جبکہ 17 گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر دو کروڑ کی لینڈ کروزر میں چھ پولیس کمانڈوز کی حفاظت میں پیاز ٹماٹر کی ریڑھیاں الٹی کرتا ہے
19 گریڈ کا پروفیسر استاد چھ لاکھ کی پرانی مہران نہیں خرید سکتا 14 گریڈ کا ایس ایچ او حیات آباد ڈی ایچ اے اور کراچی کے بحریہ ٹاؤن میں دس کروڑ کا بنگلہ خرید لیتا ہے !!

بارہ گریڈ کا پچاس ہزار روپے تنخواہ لینے والے پٹواری کا بینک بیلنس تیس تیس کروڑ روپے ہوتا ہے اور وہ سو سو ایکڑ زرعی زمینوں کا مالک بن جاتا ہے جبکہ 19 گریڈ کا پروفیسر پوری زندگی کرائے کے مکان میں گزار دیتا ہے۔ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے پاس بیٹی کی شادی کے لئے پیسے نہیں ہوتے جبکہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ کانسٹیبل بیٹی یا بیٹے کی شادی میں پچاس لاکھ روپے اڑا دیتا ہے !!فالو کریں تاکہ ایسے مسائل کا اواز اٹھانا مظبوط بنے

11/06/2025

"بھوک"
تقریباً دس سال کا اخبار بیچنے والا لڑکا گھر کے گیٹ کی بار بار گھنٹی بجا رہا تھا -
(شاید اس دن اخبار نہ چھپا ہوگا)

مالکن باہر آئی اور پوچھا " کیا ہے؟

بچہ - "آنٹی جی کیا میں آپ کے باغ کی صاف صفائی کر دوں ؟

مالکن - نہیں، ہمیں نہیں کروانا ..

بچہ - ترس بھری آواز میں ہاتھ جوڑتے ہوئے.. "پلیز آنٹی جی کروا لیں ، میں اسے بہت اچھا صاف کر دوں گا۔

مالکن - جچ ہوتے ہوئے "ٹھیک ہے، کتنے پیسے لونگے؟

بچہ - پیسے نہیں چاہیے آنٹی کھانا دے دینا -

مالکن- اوہ!! چلو ٹھیک ہے کر دو...
(لگتا ہے غریب بھوکا ہے پہلے اسے کھانا دے دیتی ہوں .. مالکن سوچنے لگی )

مالکن- اے لڑکے.. پہلے کھانا کھا لو، پھر کام کرنا

بچہ - نہیں آنٹی پہلے مجھے کام کرنے دو پھر کھانا دے دینا ۔

مالکن - ٹھیک ہے! یہ کہہ کر وہ اپنا کام کرنے لگی..

بچہ - ایک گھنٹے بعد "آنٹی جی دیکھیں، صفائی اچھی ہوئی یا نہیں...

مالکن - اوہ واہ! تم نے بہت اچھی صفائی کی ہے، گملے بھی اچھی طرح سے رکھ دیۓ ہیں.. بیٹھو میں کھانا لاتی ہوں..

جیسے ہی مالکن نے اسے کھانا دیا.. لڑکے نے جیب سے پلاسٹک کی تھیلی نکالی اور کھانا اس میں رکھنے لگا..

مالکن - بھوکے بھوکے کام تو کر لیا بھوک تو بہت لگی تھی تمھیں ، اب یہاں بیٹھ کر کھانا تو کھا لو، ضرورت پڑی تو اور بھی دوں گی۔

بچہ - نہیں آنٹی میری امی بیمار ہیں گھر پر ہیں سرکاری ہسپتال سے دوائی لے آئی ہے لیکن ڈاکٹر نے کہا ہے کہ دوائی خالی پیٹ نہ دینا یہ کھانا میں اپنی ماں کیلئے لے جا رہا ہوں ۔

مالکن رو پڑی.. اور اپنے ہاتھوں سے اس معصوم کو دوسری ماں بن کر کھانا کھلایا..

پھر... اس بچے کی بیمار ماں کے لیے روٹیاں بنائیں.. اور اس کے گھر جا کر ماں کو روٹیاں دیں۔

اور کہنے لگی-
’’بہن آپ بہت امیر ہیں، جو دولت آپ نے اپنے بیٹے کو دی ہے، ہم اپنے بچوں کو دینے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘
.خدا ایسے بچے ان کو دیتا ہے جو بہت خوش نصیب ہوتے ہیں۔
میرے پروفائل کو ضرور فالو کریں ♥️

*ختم شد-

07/06/2025

میری طرف سے تمام دوستوں کو عید مبارک ✨
عید نام ہے خوشی کا خیال رہے آپ کی وجہ سے کسی کا دل نہ دکھے
اپنی خوشیوں میں اپنے پیاروں کو ضرور شامل کریں گلے ملے تو سب گلے بھول جائیں خوش رہیں .

05/06/2025

اے اللہ ہم حاضر ہیں
نم آنکھیں لیے خالی جھولی لیےـ🥹🙏
سکون میں بدل دے سارے غم🙏❤️
لبيك اللهم لبيك ـ لبيك لا شریک لک لبيك ـ ان الحمد والنعمة لك والملك ـ لا شریک لك❤️🙏

03/06/2025

الصلوة والسلام عليك يا رحمت اللعالمين💕🙏

02/06/2025

حاجیوں مصطفی (صہ) سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں. ❤

01/06/2025

خدا کرے کہ ہماری قبریں ہمارے بستروں سے زیادہ آرام دہ ہوں
آمین"

01/06/2025

ایک بڑی کمپنی کو منیجر کی پوسٹ کےلئے کسی انتہائی قابل شخص کی تلاش تھی تاہم پینٹ کوٹ پہنے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کے درجنوں انٹرویوز کے باوجود کوئی بھی امیدوار یہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا ، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی کا مالک انٹرویورز کے پینل میں خود بھی بیٹھتا تھا اور جب پینل کے دیگر ممبران اپنے سوالات مکمل کر لیتے تو مالک آخر میں ہر امیدوار سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہوتی ہے. اس سوال کے جواب میں میں کوئی امیدوار کہتا کہ ایک اچھے منیجر کو وقت کا پابند ہونا چاہیے، کسی کا جواب ہوتا اسے پروفیشنل ہونا چاہیے، کوئی کہتا اسے سکلڈ ہونا چاہیے اسی طرح کوئی تجربہ کاری، کوئی ذمہ داری تو کوئی ایمانداری کو اچھے منیجر کی پہچان بتاتا، تاہم کمپنی مالک ان میں سے ہر جواب پر غیر تسلی بخش انداز میں خاموش ہو جاتا اور امیدوار کو جانے کا کہہ دیتا، پینل کے دیگر ممبران ایک تو انٹرویو کرکر کے تنگ آچکے تھے دوسرا وہ اس تجسس میں تھے کہ آخر کمپنی مالک کے نزدیک ایک اچھے منیجر کی سب سے خاص بات کیا ہو سکتی ہے، انھوں نے خود بھی اس سوال کا جواب کمپنی مالک سے جاننے کی کوشش کی تاہم مالک نے اپنا مطلوبہ جواب کسی پر ظاہر نہیں کیا. اور پینل کو انٹرویوز جاری رکھنے کو کہا.
ایک روز ایک سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور عام سے حلیے والا نوجوان انٹرویو دینے آ گیا، اسے دیکھ کر پینل کے ممبران طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اتنے ماڈسکاڈ اور اپ ٹو ڈیٹ قسم کے لوگ یہ انٹرویو پاس نہیں کر پاے تو یہ دیسی سا انسان کہاں سلیکٹ ہو پائے گا اور اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے اس سوال کا جواب معلوم ہو جو باقی امیدواروں کی ناکامی کی وجہ بنا.

خیر نوجوان نے پینل کے سوالات کے انتہائی اعتماد سے جواب دیے. جس کے بعد کمپنی کے مالک نے اپنا سوال پوچھا ' جینٹل مین، یہ بتائیں کہ ایک اچھے منیجر کی سب سے بہترین کوالٹی کیا ہوتی ہے؟'
نوجوان نے سوال سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر کمپنی مالک کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے مسکرا کرکہا 'سر، اچھا منیجر وہی ہے جو کمپنی کے معاملات کو کمپنی کے مالک سے بھی زیادہ بہتر جانتا اور سمجھتا ہو اور جس کے ہوتے ہوئے مالک برائے نام مالک ہی کہلائے'
یہ عجیب و غریب سن کر پینل ممبران چونک گئے، وہ نوجوان کی اس بدتمیزی اور گستاخانہ لہجے پر تلملا اٹھے اور اس پر 'شٹ اپ' اور' ماینڈ یور لینگویج' جیسے کلمات کی بوچھاڑ کر دی. تاہم کمپنی مالک نے ممبران کو خاموش رہنے اور انتظار کرنے کو کہا. پھرمسکرا کر نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا، ' بالکل ٹھیک جواب دیا آپ نے، لیکن یہ بات آپ نے کس سے سیکھی ؟' پینل ممبران حیرت سے ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے.
نوجوان نے بد دستور خود اعتمادی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا. 'سر اپنے گھر سے اور اپنے والدین سے'
پینل ممبران نوجوان کی بات غور سے سننے لگے. نوجوان نے باری باری ان ممبران کی جانب دیکھتے ہوئے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی. ' ہم بہن بھائیوں نے اپنے والد کو اپنے گھر کے سربراہ کا درجہ دیا. ایک منٹ کے لئے مان لیجیے کہ وہ کمپنی مالک تھے. گھر بھر کی کفالت ان کی ذمہ داری تھی. لیکن گھر کو چلانا کس منیجر کا کام تھا. کس کے کپڑے کہاں ٹانگے ہیں، کس کے جوتے کہاں رکھے ہیں، کس کی کتابیں کہاں دھری ہیں، کس کے کھلونے کہاں پڑے ہیں، کپڑے گندے ہو گئے تو کون دھوے گا، استری کر کے کون دے گا، سب کی من پسند کھانا بنانا، بنا کے سامنے رکھنا، پھر برتن دھونا کس کی ذمہ داری ہے، پھر گھر بھر کی صفائی، جھاڑوپونچھ، فرش کی دھلائی، رات سب کو سلاکر پھر سونا، صبح سب سے پہلے جاگ کر سب کو جگانا، ایک ایک کو کھلا پلاکر تیار کر کے سکول بھیجنا، کپڑے پھٹ جاتے تو پیوند لگانا، بٹن ٹوٹ جاتا تو ٹانکا لگانا، بیمار پڑ جاتے تو پرہیز والا کھانا اور دوائی دینا،عید شادیوں، سیر سپاٹے، رشتہ داروں سے ملنے جانے کے لئے سب کی تیاری،گھر میں دعوت پر درجن بھر مہمانوں کا کھانا بنانا، سر میں تیل ڈالنا، جوییں نکالنا، بخار میں ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھنا، مالش کرنا، کبھی کھیر، کبھی حلوہ، کبھی گجریلا کبھی کھچڑی، کبھی زردہ، کبھی شربت، کبھی ابلے ہوئے انڈے، اور نہ جانے کیا کیا کچھ. یہ سب مینج کرنے والی میری امی تھیں ، وہ شاندار منیجر تھیں، کبھی بھول کر ہم ابو سے پوچھ لیتے کہ ہماری فلاں چیز کہاں پڑی ہے تو ڈانٹ کر کہتے 'ارے بھئی مجھے کیا معلوم، اپنی امی سے پوچھو' اور اس سے بھی مزیدار بات یہ کہ خود ابو کا موبائل، پرس، کپڑے، جوتے، موٹر سائیکل کی چابی حتیٰ کہ دفتر کی فائلیں تک امی کے پتے پر ہوتی تھیں. تبھی ہم اکثر ابو کو چھیڑتے ہوئے کہا کرتے تھے، آپ تو بس برائے نام ہی گھر کے مالک ہیں، آپ سے کہیں زیادہ تو امی گھر کو جانتی اور سمجھتی ہیں اور ابو بھی ہنس کر اعتراف کیا کرتے کہ امی کے ہوتے ہوئے انھیں کبھی کسی بھی بات کی فکر نہیں ہوتی اس لیے وہ گھر کے برائے نام مالک ہی ٹھیک ہیں .... بس سر اس لیے میرے نزدیک ایک اچھے منیجر کی یہی تعریف ہے'
I don't know writer name.
کمپنی مالک نے تحسین آمیز نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اور پھر پینل سے مخاطب ہوکرکہا' آپ سب نے اس نوجوان کا جواب سن کر اسے ڈانٹ دیا تھا. لیکن اب جبکہ اس نے اپنے جواب کی تشریح کی ہے تو مجھے امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کے جواب کے پیچھے اس کا مشاہدہ بھی ہے اور عمر بھر کا تجربہ بھی اور ایک ٹھوس نظریہ بھی. مجھے بھی ایسے ہی منیجر چاہیے جس کے ہوتے ہوئے میں برائے نام مالک اور بے فکر شخص بن جاؤں' یہ کہہ کر کمپنی مالک نے نوجوان کو منیجر کی پوسٹ کےلئے منتخب ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پینل کے ممبران کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگ گئے

اس کہانی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ گھر کا ماحول بہترین درسگاہ ہے اور دوسرا یہ کہ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے رٹی رٹائی اور گھسی پٹی کتابی باتوں کا سہارا لینے کی بجائے سادہ الفاظ عملیت پسندی اور فطری مشاہدات پر مبنی سوچ سے کام لیں،

31/05/2025

کہاں کہاں بارش ہو رہی ہے. ؟

08/05/2024

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hijabi girl posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hijabi girl:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share