Babar's Empire

Babar's Empire Information about Health and Food and different Things

جب ایک مسلمان حکمران نے ایک لڑکی کی خاطر پورا شہر تباہ کیا
15/08/2024

جب ایک مسلمان حکمران نے ایک لڑکی کی خاطر پورا شہر تباہ کیا

Islamic History Islamic History in Urdu Ottoman Empire Ertughral Ghazi

https://urdukahaniyanurdu.blogspot.com/2024/08/blog-post.html
09/08/2024

https://urdukahaniyanurdu.blogspot.com/2024/08/blog-post.html

جب زمانے میں مسلمانوں کی قدر و قیمت ہوا کرتی تھی عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ایک قاصد کو شاہ روم کے پاس کسی کام سے بھیجا قاصد پیغام پہنچانے ک...

اسرائیل کے بعد یہودیوں کی تعداد سے ایران دوسرے نمبر پر
09/08/2024

اسرائیل کے بعد یہودیوں کی تعداد سے ایران دوسرے نمبر پر

اسرائیل کے بعد یہودیوں کی تعداد سے ایران دوسرے نمبر پر پہلی نظر میں سے یہ بات آپ کو عجیب لگے گی لیکن ایران وہ واحد ملک ہے جس میں یہودی پار ل...

01/07/2024

#हिंदीतथ्य ゚ #गजबतथ्य

06/04/2024

حلوہ تو اک بہانہ تھا اصل مقصد لبرلز اور موم بتی مافیاکیلئے راہ ہموار کرناتھا تاکہ اہل ایمان کے جذبات ٹھنڈے کردیے جائیں اور گستاخی پر کوئی بھی نہ بولے
اس تصویر میں خاتون کے لباس پر لفظ "محمد" لکھاہوا ہے کہیں اللہ لکھا ہوا ہے کہیں کچھ کہیں کچھ
ہمیں اپنی آنکھیں کھولناہوں گی اور ان اسلام دشمنوں کی ہر چال کو ناکام بناناہوگا ورنہ یہ اسلام دشمنی میں اتناآگے نکل جائیں گے کہ سنبھالنامشکل ہوسکتاہے

پانچ چھ دن پہلے کی بات ہے میں روٹیاں لینے کے لیے تندور پہ کھڑا تھا جب وہ چالیس پینتالیس سالہ جوان بندہ وہاں آیا۔ وہ تندو...
29/06/2023

پانچ چھ دن پہلے کی بات ہے میں روٹیاں لینے کے لیے تندور پہ کھڑا تھا جب وہ چالیس پینتالیس سالہ جوان بندہ وہاں آیا۔ وہ تندور والے سے نوکری مانگنے آیا تھا اور نوکری کے لیے کسی کی سفارش بھی کروا چکا تھا۔

تندور والے نے کچھ رسمی بات چیت کے بعد اس سے کہا
"اچھا کل سے آ جانا ، کام کاج کے ساتھ رہنا بھی یہیں ہو گا۔"
اس نوکری. مانگنے والے نے داڑھی رکھی ہوئی تھی، صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بات چیت سے پتا چل رہا تھا کہ وہ اس مزدوری سے زیادہ قابلیت کا انسان ہے۔ بات چیت طے ہوئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے آہستہ سے پوچھا" نماز کے وقت پہ نماز کے لیے تو جانے کی اجازت ہو گی نا؟"
تندور والا ہنستے ہوئے کہنے لگا "تم نے کون سا دکان ہاتھوں پہ اٹھا کر رکھنی ہے۔ نماز کے لیے ضرور جانا ، باقی یہاں پہ کام ٹھیک سے کرتے رہنا تو ہمیں تمھارے نماز پڑھنے سے کوئی مسئلہ نہیں۔"

پھر تندور والے کو ایک دم خیال آیا تو بولا
" اب کل سے کام پہ آ رہے ہو تو چار دن بعد دوبارہ سے عید کے لیے گھر نہ چلے جانا ، یہ نہ ہو چار دن بعد ہی عید کی چھٹیاں مانگنے لگ جاؤ"

وہ آدمی کچھ لمحے چپ ہی رہا پھر بولا
" جب ہاتھ میں کچھ نہ ہو تو کیسی عید۔ میں خالی ہاتھ عید پہ گھر جا کر کروں گا بھی کیا؟ جب عید منانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا تو وہاں جا کر بچوں کو کیا منہ دکھانا ہے"
اس کے لہجے میں شدید تکلیف تھی۔ میں نے مڑ کر اسے دیکھا تو تکلیف اس کے چہرے سے بھی چھلکتی نظر آ رہی تھی۔

میری روٹیاں لگ چکی تھیں، میں دھیمے قدموں سے وہاں سے چلا آیا لیکن بہت دیر تک اس آدمی کا تکلیف سے بھرا شکستہ لہجہ میرے وجود میں چبھتا رہا۔

اب کل عید ہے تو اس کا خیال آ رہا ہے اور اس جیسے جانے کتنے ہی اور ہوں گے جو اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے جائز خواہشات قربان کر رہے ہوں گے۔ جو کچھ پہسے کمانے کے لیے گھر سے دور مزدوری کر رہے ہوں گے۔ جو عید پہ بھی اپنے بچوں سے ملنے جلنے کے بجائے کام دھندے میں لگے رہیں گے۔ خدا ان سب کو بہترین مال و دولت سے نوازے، ان کی مشکلات آسان فرمائے اور انھیں خوشیوں کے ساتھ آئندہ اپنی عیدیں اپنے گھروں میں کرنا نصیب فرمائے (آمین)

نویدؔخالد

ہم بھی تو دیکھیں ہم کہاں کھڑے ہیں سوڈان کے ایک شخص نے ایک مضمون لکھا ہے۔اس میں اس نے اپنے ساتھ پیش آنیوالے دو دلچسپ واقع...
27/06/2023

ہم بھی تو دیکھیں ہم کہاں کھڑے ہیں

سوڈان کے ایک شخص نے ایک مضمون لکھا ہے۔
اس میں اس نے اپنے ساتھ پیش آنیوالے دو دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔
پہلا واقعہ:
مجھے آیرلینڈ میں میڈیکل کا امتحان دینا تھا. امتحان فیس 309 ڈالر تھی۔ میرے پاس کھلی رقم (ریزگاری) نہیں تھی، اس لیے میں نے 310 ڈالر ادا کر دیے۔ اہم بات یہ کہ میں امتحان میں بیٹھا، امتحان بھی دے دیا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد سوڈان واپس آ گیا۔ ایک دن اچانک آئرلینڈ سے میرے پاس ایک خط آیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ "آپ نے امتحان کی فیس ادا کرتے وقت غلطی سے 309 کی جگہ 310 ڈالر جمع کر دیے تھے۔ ایک ڈالر کا چیک آپ کو بھیجا جارہا ہے، کیوں کہ ہم اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتے"

حالانکہ یہ بات وہ بھی جانتے تھے کہ لفافے اور ٹکٹ پر ایک ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہوں گے!!

دوسرا واقعہ:
میں کالج اور اپنی رہائش کے درمیان جس راستے سے میں گزرتا تھا، اس راستے میں ایک عورت کی دوکان تھی جس سے میں 18 پینس میں کاکاو کا ایک ڈبہ خریدتا تھا۔

ایک دن دیکھا کہ اس نے اسی کاکاو کا ایک ڈبہ اور رکھ رکھا ہے جس پر قیمت 20 پینس لکھی ہوئی ہے۔

مجھے حیرت ہوئی اور اس سے پوچھا کہ کیا دونوں ڈبوں کی نوعیت (کوالٹی) میں کچھ فرق ہے کیا؟

اس نے کہا : نہیں، دونوں کی کوالٹی یکساں ہے۔

میں نے پوچھا کہ پھر قیمت کا یہ فرق کیوں؟
اس نے جواب دیا کہ نائجیریا، جہاں سے یہ کاکاو ہمارے ملک میں آتا ہے، اس کے ساتھ کچھ مسائل پیدا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے قیمت میں اچھال آگیا ہے۔ زیادہ قیمت والا مال نیا ہے، اسے ہم 20 کا بیچ رہے ہیں اور کم قیمت والا پہلے کا ہے، اسے ہم 18 کا پیچ رہے ہیں۔
میں نے کہا، پھر تو 18 والا ہی خریدیں گے جب تک یہ ختم نہ ہوجائے؟ 20 والا تو اس کے بعد ہی کوئی خریدے گا۔

اس نے کہا: ہاں، یہ مجھے معلوم ہے۔
میں نے مشورہ دیا کہ دونوں ڈبوں کو مکس کر دو اور 20 کا ہی بیچو ۔ کسی کے لیے قیمت کا یہ فرق جاننا مشکل ہوگا۔
اس نے میرے کان میں پھسپھساتے ہوئے کہا : کیا تم کوئی لٹیرے ہو(are you a robber) ؟؟؟
مجھے اس کا یہ جواب عجیب لگا اور میں آگے بڑھ گیا۔
لیکن یہ سوال آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ کیا میں کوئی لٹیرا ہوں؟

یہ کون سا اخلاق ہے؟
دراصل یہ ہمارا اخلاق ہونا چاہیے تھا۔

یہ ہمارے دین کا اخلاق ہے ۔
یہ وہ اخلاق ہے جو ہمارے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا تھا، لیکن؟

اپنی ایمانداری سے بتائیں کیا ہم لٹیرے نہیں ؟
جگاڑ میں حلال حرام تک کو ایک ہی گاڑی سے روندتے چلے جاتے ہیں ۔

27/06/2023

ایک فیملی بہت غریب تھی ،
وہ کل چھ افراد تھے ،
میاں بیوی اور چار بچے ،
وہ لوگ 18 سال کرائے کے مکان میں رہے ،
اتنے غریب تھے کہ بس ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا تھا ، مکان کے کرائے کے لیے پیسے تک نہیں ہوتے تھے ،
اور کرائے کا مکان ایسا تھا کہ اس میں گیس کا بندوست بھی نہیں تھا ،
صرف ایک کمرہ تھا
اور وہ چھ افراد اس میں رہتے تھے ،

سب لوگ ان کی غربت پر افسوس کرتے تھے ،
انہیں کمتر اور حقیر سمجھتے تھے ،

لیکن غربت کے باوجود ان کے والدین نے اپنے چاروں بیٹوں کو دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم ضرور دلوائی ،

ان کے والد نے بچوں سے کام نہیں کروایا ،
بلکہ صرف پڑھایا ،

ان کے والد تعلیم یافتہ تھے
لیکن محنت کرنے سے بلکل نہیں شرماتے تھے ،

بچوں کی تعلیم کے لیے انہوں نے ٹھیلے پر مونگ پھلی تک بھی بیچی ،

چاروں بھائیوں میں سے بڑے تینوں بھائی تو پڑھنے میں بہت قابل تھے
لیکن سب سے چھوٹا والا ایک نمبر کا نکما نالائق تھا ، اسکول کی پڑھائی میں اس کا بلکل بھی دل ہی نہیں لگتا تھا ۔
یہاں تک کہ اس نے دو بار دوسری جماعت پڑھی تھی ،
ہر کوئی اس بچے کو نالائق اور نکما ہی کہتا تھا ،

اس بچے کا اسکول پانچویں جماعت تک تھا ۔
اس بچے کی نالائقی دیکھ کر اسکول والے بھی پریشان ہو گئے تھے ۔
اسی لیے اسکول والوں نے اسے پانچویں جماعت تک ایک بوجھ سمجھ کر ترقی پاس کرکے زبردستی اسکول سے نکالا ،
کیونکہ نہ اسے اردو لکھنی پڑھنی آتی تھی۔
نہ کوئی اور زبان ،
انگلش زبان سے تو اسے بخار آجاتا تھا ،

اس کا نکماپن دیکھ کر اس کے والدین نے اس سے اسکول چھڑوادیا اور اسے مدرسے میں داخلہ دلوا دیا ،

لیکن اس سے قرآن بھی نہیں پڑھا جاتا تھا کیونکہ اس کی زبان میں لکنت تھی ،
صحیح طرح سے نہیں بولا جاتا تھا ،
بہت اٹکتا تھا ،
ہر لفظ میں اٹکتا تھا ،
قرآن تو پڑھنا اس کے لیے انگلش سے زیادہ مشکل تھا ،

اس کی زبان پر سب لڑکے مذاق اڑاتے تھے ،
ہستے تھے ،
بہت ہستے تھے ،
بہت شدید ہستے تھے ،
اتنا زیادہ ہستے تھے کہ اسے اکیلے میں بہت شدید رونا آتا تھا ،

خیر اس نے اٹکتے ہوئے پورا قرآن پاک ناظرہ میں ختم کر لیا ،
اس بچے کے ناظرہ ختم کرتے ہی اس کے گھر کے حالات تھوڑے اچھے ہو گئے ،

مدرسے میں اس بچے کے قاری صاحب اس بچے پر بہت محنت کی تھی ،
انہوں نے اس بچے کو حفظ کرنے کا کہا ،
اور یہ بچہ حفظ کرنے کے لیے راضی ہو گیا ،
لیکن سب لوگ کہتے تھے کہ حفظ کرنا تمھارے بس کی بات نہیں ، تم تو پہلے سے ہی بولتے ہوئے اٹکتے ہو،

لیکن اس بچے نے گھر والوں سے کہا کہ آپ مجھے حفظ کرنے دیں ،
گھر والوں نے اجازت دے دی ،
پھر اس نے قرآن کو حفظ کرنے میں بہت محنت کی ،

یہ قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا تھا ،
اٹک اٹک کر حفظ کا سبق سناتا تھا،
اٹکنے کی وجہ سے سب دوست بہت ہنستے تھے اور ہکلا ہکلا بولتے تھے

دوستوں کی ہنسی کی وجہ سے اکیلے میں اسے بہت رونا آتا تھا ،
یہ قرآن کو سینے سے لگا کر بہت روتا تھا ،
اور اللہ تعالیٰ سے روتے روتے باتیں کرتا تھا
اور کہتا تھا کہ یا اللہ جی مجھے سبق بلکل یاد ہے

لیکن پتا نہیں کیوں زبان سے الفاظ نہیں نکلتے!
وہ یہ بولتا رہتا تھا اور روتا رہتا تھا

اس کے رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں قرآن کی بہت شدید محبت ڈال دی ،
کھیل کود ، فلمیں ڈرامے ، دوست یار سب کو اس کو چھوڑ دیا تھا ،
وہ نماز کا بھی بہت پابند بن گیا تھا ،
سبق میں بلکل بھی ناغہ نہیں کرتا تھا ،

وہ چھٹی والے دن ڈبل سبق لیتا تھا ،
چھٹیوں میں بھی چھٹیوں کے حساب سے سبق لیتا تھا ،

یعنی اگر دس دن کی چھٹی تھی تو ایک ساتھ دس دن کا سبق لیتا تھا اور سناتا تھا ،

عید کی چھٹیوں میں بھی اس نے عید کے دن اپنے سبق کو یاد کیا ،
سب دوست باہر کھیل رہے ہوتے تھے اور وہ مسجد میں بلکل اکیلا سبق یاد کررہا ہوتا تھا ،

عید کے دنوں میں تو اکثر نوجوان لڑکے نماز بھی نہیں پڑھتے لیکن وہ بچہ ہو کر بھی عید کے دن بھی سبق یاد کررہا ہوتا تھا ،
اس کی قرآن سے محبت دیکھ کر سب لوگ اس کی تعریف کرتے تھے ،

اور پھر اس نے ڈیڑھ سال مکمل گردان سمیت قرآن پاک حفظ کرلیا ، اس کے حفظ کرنے کے ایک ہفتے بعد ہی اس کے والد کی سرکاری نوکری لگ گئی ، اور پھر کچھ ماہ بعد ہی انہوں نے اپنا ذاتی مکان بھی خرید لیا ، اس بچے نے اسی مکان میں اپنی پہلی تراویح پڑھانا شروع کی ، اس نے تراویح پڑھانا تو شروع کردی تھی لیکن وہ اس وقت بھی اٹک اٹک کر قرآن پاک پڑھتا تھا ، اسے قرآن پکا یاد تھا لیکن زبان سے الفاظ ہی ادا نہیں ہوتے تھے ،

چنانچہ پانچویں روزے کی تراویح میں سولہواں پارہ پڑھاتے ہوئے اس کی زبان بلکل بند ہو گئی ، اسے پارے پکے یاد تھے لیکن ایک لفظ بھی اس کی زبان سے نہیں نکل رہا تھا ، وہ بہت کوشش کررہا تھا کہ اس کی زبان سے الفاظ ادا ہو جائیں لیکن ایک لفظ بھی اس سے نہیں بولا جارہا تھا ، پھر اس نے فورا رکوع سجدہ کرکے سلام پھیر دیا ، اور پیچھے اس کے دوست اس کے اٹکنے پر ہنس رہے تھے ،

اسی وقت اس کے والد اور بھائی نماز تراویح کے دوران ہی اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی بیس رکعت پوری کر لو کل سے تراویح نہیں پڑھانا ، تم سے تراویح نہیں پڑھائی جاتی ، جب اس نے اپنے پاپا سے یہ جملہ سنا تو وہ بے حد ٹوٹ گیا تھا ، انتہائی درجے کی اسے تکلیف ہونے لگی ،

اس وقت تراویح کی چار رکعت ہوئی تھی ،اسے سولہ رکعت اور پڑھانی تھی ، وہ پھر کھڑا ہوا اور نیت باندھ لی ، اور سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد دوبارہ سے اس کی زبان بند ہو گئی ، اسے نماز کے دوران ہی نماز کی حالت میں اتنا شدید رونا آیا کہ اس کا شدید رونا سن کر اس کے پیچھے سب لوگ رونے لگ گئے ،

اس نے سولہ کی سولہ رکعت اسی طرح روتے روتے پڑھائی ، اور اس کے پیچھے سب لوگ رو رہے تھے ، وہ زندگی میں اب تک اتنا شدید نہیں رویا جتنا وہ اس نماز کی حالت میں رو رہا تھا ، اس وقت اس کے رونے کی وجہ سے اس کی زبان میں بہتری آئی اور وہ روتے روتے پڑھاتا رہا ،

اس تراویح والے دن کے بعد سے اس کی زبان اچھی ہوتی رہی ، اس رات کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بہت نوازا، اتنا نوازا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ،

چنانچہ وہ پھر سے اسکول جانے لگ گیا ، اور وہ قرآن پر محنت کی وجہ ، قرآن کی برکت سے ہر امتحان میں پوزیشن لیتا رہا ، اس نے میٹرک کے بعد درس نظامی کا کورس کیا ، دو سال پہلے اس نے سوفٹ ویئر میں آریکل کا بھی کورس کر لیا ،
آج اسے قرآن سے بہت محبت ہے ، اتنی شدید محبت ہے کہ اس نے قرآن پڑھانے کے لیے خود کا ہی مدرسہ کھول لیا ، وہاں وہ صبح سے رات تک بچوں کو قرآن پاک پڑھاتا رہتا ہے ،
اسے اپنے مدرسے سے اور قرآن پاک سے اتنی شدید محبت ہے
کہ وہ کبھی بھی مدرسہ چھوڑ کر کسی اور کام میں نہیں لگنا چاہتا ،
اس کے والد آج ایک بہت ہی زیادہ بڑے سرکاری ادارے کے آفیسر ہے ، ان کے بڑے بھائی سوفٹویئر انجینئر میں آئی ٹی ٹی میسنجر ہیں ، اور دوسرے بھائی نیوی میں ہیں ، لیکن اسے بس قرآن سے محبت ہے ، اپنے مدرسے سے ہی محبت ہے ، اور وہ کہتا ہے کہ ان شاءاللہ میری موت بھی اسی مدرسے میں آئی گی ، اور اسی مدرسے سے میرا جنازہ نکلے گا
چنانچہ اس قرآن کی برکت سے آج ان کے پاس کئی زمینیں ہیں ، کئی سارے مکانات ہیں ، اور تین تین کارے ہیں ، اور اس نے پچھلے سال ہی 24 سال کی عمر میں ہی حج بھی کر لیا ہے ،

اب وہ ہر سال تراویح پڑھاتا ہوں ، اور بلکل بھی نہیں اٹکتا ، اس کی زبان بھی بہت اچھی ہو گئی ہے ، یہ اس کی زبان کا اچھا ہونا اس کے لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے ،
وہ بچہ اور کوئی نہیں ہے ، وہ بچہ محمد ارسلان ہے ، یعنی وہ بچہ میں ہی ہوں ، اور یہ کہانی بالکل سچی کہانی ہے ،
اس پوری کہانی کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن بہت بڑی دولت ہے ، جو شخص قرآن پر محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں بھی نوازتے ہیں اور آخرت میں بھی ان شاءاللہ ضرور نوازے گے ،

___کیا آپ یقین کریں گے؟___افریقہ میں اسلام کی دعوت پھیلانے والے عظیم عرب داعی شیخ عبدالرحمن السمیط رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں ...
26/06/2023

___کیا آپ یقین کریں گے؟___

افریقہ میں اسلام کی دعوت پھیلانے والے عظیم عرب داعی شیخ عبدالرحمن السمیط رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں :
میرے افریقہ میں دعوتی کام کے دوران ، ایک دن میں وہاں چلڈرن ہسپتال کے وزٹ پر تھا کہ میں نے ایک افریقی عورت کی درد بھری آہ و بکا سنی ، یہ عورت ایک بچوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے سامنے کھڑی گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنی افریقی زبان میں بار بار کوئی التجا کر رہی تھی اور اس کیلئے اسے رو رو کر واسطے دے رہی تھی۔
میں اُس کے اصرار کی شدت اور اپنے مقصد کو منوانے کے عزم سے واقعی متاثر ہوا، اور میں نے آگے بڑھ کر مترجم کے ذریعے ڈاکٹر سے دریافت کیا کہ جناب اس عورت کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟
اُس نے بتایا کہ : اس عورت کا دودھ پیتا لاغر سا بیمار بیٹا ہے ، جسے ہم ناقابل علاج قرار دے چکے ہیں، مگر یہ عورت نہیں سمجھ رہی ، اور چاہتی ہے کہ میں اس کے بیٹے کو بھی اُن بچوں میں شامل کر لوں جنہیں علاج کی غرض سے ایڈمٹ کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس طرح جو رقم ہم اس کے قریب المرگ بیٹے پر خرچ کریں گے وہ ضائع ہی جائے گی۔ اور اُس کا علاج کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا ۔۔۔ کیونکہ اس کا بیٹا گنتی کے چند ایّام ہی جیئے گا، سو یہ پیسے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں کسی اور بچے پر خرچ کیا جائے کہ جس کا علاج ممکن ہو ..

شیخ السمیط کہتے ہیں : ڈاکٹر کے ساتھ میرے اس مکالمے کے دوران وہ عورت میری طرف بڑی امید بھری اور رحم طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی ، جبکہ ڈاکٹر میرے مترجم کے ذریعے اس کے بیٹے کی بابت مجھے بڑی ہی سخت مایوس کن رپورٹ دے رہا تھا ۔۔۔۔
آخر میں نے کچھ سوچتے ہوئے مترجم سے کہا :
ڈاکٹر سے پوچھو کہ اسے اس بچے کو داخل admit کر لینے کی صورت میں اس کے علاج معالجے کیلئے یومیہ کسقدر اضافی رقم درکار ہو گی؟ جب اُس نے رقم بتائی تو میں نے اسے بہت ہی معمولی پایا۔ اتنی کہ جتنی ہم اپنے ملک میں ایک دفعہ سافٹ ڈرنک پی کر خرچ کر دیتے ہیں۔۔۔!

سو میں نے کہا : کوئی مسئلہ نہیں ، آپ اس بچے کو بھی داخل کر لیں اور اسے بچانے کی کوشش کریں۔ اور اس کے علاج پر جتنی اضافی رقم خرچ ہو گی وہ میں اپنی طرف سے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں سے ادا کر دیتا ہوں۔ اور یوں ڈاکٹر نے میری سفارش پر اور اس بچے کے علاج پر آنے والے اخراجات کی ذمہ داری اٹھا لیئے جانے پر مطمئن ہو کر اس قریب المرگ بچے کو بھی داخل کرنے اور اس کا علاج کرنے کی حامی بھر لی۔
ادھر بچے کی ماں یہ ماجرا دیکھ سن کر فرط مسرت سے میرے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھی ، جسے میں نے منع کر دیا ۔۔۔
اور پھر چیک بک نکالتے ہوئے اس عورت سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کے سال بھر کے علاج کیلئے یہ رقم لے لے۔ اور اگر پیسوں کی کچھ کمی ہوئی تو وہ رقم بھی تمہیں یہ شخص دے دے گا، اور یہ بات میں نے اپنے ایک مقامی افریقی معاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اُس عورت کو ایک چیک سائن کرکے دے دیا تا کہ وہ مطلوبہ رقم وصول کر سکے ۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر کی باتیں سن کر میں نے بھی اس عورت کے بچے کو میت dead body ہی سمجھ لیا تھا۔ مگر مذکورہ رقم تو محض اُس کی ماں کو تسلی دینے کیلئے دی تھی، اور اس لیئے بھی تا کہ وہ قبول اسلام کیلئے اپنے کئے گئے وعدے پر قائم رہے اور وہ اس تالیف قلبی کے سبب اسلام پر پختہ ہو جائے۔۔

اس واقعے کے بعد مہینے اور سال گزرتے گئے اور افریقہ میں دعوتی مصروفیات کے سبب میں یہ معمولی سا واقعہ یکسر طور پر بھول چکا تھا۔۔۔

لیکن اس واقعے کے تقریبا 12 سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ کے بعد ایک دن جب میں اپنے افریقی دعوتی مرکز میں بیٹھا تھا۔ کہ میرا ایک ماتحت آیا اور بولا کہ ایک افریقی عورت آپ سے ملنے پر اصرار کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک دس بارہ سال کا لڑکا بھی ہے۔ اور ہمارے اُسے ٹالنے کے باوجود وہ بار بار پھر آ جاتی ہے۔
میں نے کہا : اسے بھیج دو۔!

تبھی ایک عورت اندر داخل ہوئی ، جسے میں پہچانتا نہ تھا، اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت اور مطمئن چہرے والا لڑکا تھا۔ وہ عورت آتے ہی کہنے لگی :
یہ میرا بیٹا عبدالرحمن ہے۔ اور یہ پورا قرآن حفظ کر چکا ہے، اور اسے بہت سی احادیث رسول صلّی اللہ علیہ وسلم بھی زبانی یاد ہیں۔ اور میں یہ چاہتی ھوں کہ یہ آپ کے ساتھ رہ کر آپ ہی کی طرح کا داعئ اسلام بن جائے ۔۔!
میں خاموش بیٹھا تھا اور وہ عورت بار بار اپنی بات دھرائے جا رہی تھی۔۔
میں اُس کے اصرار پر حیران ہوا اور مترجم کے ذریعے اس سے پوچھا کہ : تم اپنی اس درخواست پر مجھ سے اتنا اصرار کیوں کر رہی ہو؟!!
میرے یہ پوچھنے پر ماں کی بجائے لڑکا مترجم کے بغیر براہ راست عربی میں جواب دینے لگا۔ تو میں بڑا حیران ہوا کہ یہ بچہ افریقی زبان کی بجائے بڑے اطمینان سے عربی بول رہا تھا۔ وہ مجھے کہنے لگا :
"شیخ ! اگر اسلام اور اس کی رحمتیں نہ ہوتیں تو میں آج زندہ نہ ہوتا اور نہ ہی آج آپ کے سامنے کھڑا یوں باتیں کر رہا ہوتا۔۔ میری ماں نے آپ کے ساتھ بیتا سارا قصہ مجھے سنا رکھا ہے، اس نے بتایا ہے کہ میری صغر سنی میں جب ڈاکٹر مجھے لاعلاج قرار دے کر مجھے ہسپتال سے نکال رہے تھے ، تو میری ماں کے رونے دھونے پر رحم کھا کر کس طرح آپ نے میرے علاج معالجے کے خرچ کی ذمہ داری اٹھا کر مجھے ہسپتال میں داخل کروا دیا تھا۔۔ اور میں نے اپنی اسی مہربان ماں کی شدید خواہش پر بڑی محبت سے قرآن حفظ کیا ہے اور ابتدائی طور پر اسلام کو سیکھا ہے۔ اور ابھی میں اپنی ماں کا حکم مان کر بڑے شوق سے آپ کے تحت رہ کر اسلام کی بابت بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور اسلام کیلئے بہت کچھ کرنا بھی چاہتا ہوں۔ میں عربی اور افریقی دونوں زبانیں یکساں جانتا ہوں۔ اور میں آپ کے ماتحت رہ کر آپ کی طرح اسلام کے داعی کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ اور اس کام کے عوض مجھے کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہئے ہو گا۔ اور شیخ ! اس موقع پر مجھے اور میری ماں کو اچھا لگے گا اگر آپ میری قرآن کی تلاوت بھی سن لیں۔۔۔۔".
میں نے مسکراتے ہوئے اسے تلاوت کرنے کیلئے کہا تو ۔۔۔ اس نے بڑی ہی سریلی آواز میں ترتیل کے ساتھ سورۃ البقرہ کی آیات پڑھنا شروع کر دیں۔ اور اس دوران اس کی خوبصورت ذھین آنکھیں مجھے مسلسل امید کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔۔

اور اسی دوران میری یاداشت میں ایکدم وہ بھولا بسرا ہوا واقعہ روشن ہونے لگا کہ جس کا ذکر یہ بچہ اپنی تلاوت سے پہلے کر رہا تھا .... سب کچھ یاد آ جانے پر میں نے فرط حیرت ومسرت سے کہا :
کیا یہ وہی بچہ ہے جسے ڈاکٹروں نے ناقابل علاج قرار دے دیا تھا؟
ماں نے کہا : ہاں ہاں ۔۔۔ یہ وہی بچہ ہے جسے انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ زندہ نہیں بچے گا !
پھر وہ بولی : یہی بتانے کے لئے تو میں اسے ساتھ لے کر آپ کے پاس آنے کیلئے اصرار کر رہی تھی، اور میں نے اس کا نام بھی آپ کے نام پر عبدالرحمن رکھا ہے۔۔۔۔

شیخ السمیط کہتے ہیں :
حقیقت حال معلوم ہونے پر مجھ پر خوشی سے کپکپاہٹ طاری ہونے لگی۔ اور مجھے لگا کہ میرے قدم میرا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ سو میں ایکدم فرش پر بیٹھ گیا۔۔ میں خوشی اور حیرت سے کسی مفلوج آدمی جیسا ہو چکا تھا۔ میں نے وہیں پہ اللہ کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا۔ اور پھر میں روتے ہوئے گویا اپنے رب تعالیٰ سے کہہ رہا تھا :
صرف سوفٹ ڈرنک جتنا خرچ ایک جان بچا سکتا ہے ۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر -الحمد للہ- ہمیں ایک داعی بھی عطا کر سکتا ہے کہ جس کی ہمیں اس وسیع میدان میں شدید ضرورت بھی ہے ۔۔۔ اور ساتھ ہی میری زبان پر بے ساختہ سورت مائدہ کی آیت جاری ہو گئی :.. وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ... !
اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا ساری نوع انسانی کو بچا لیا۔
[ سورة المائدة : آیة : 32 ]

اور -الحمد للہ- بعد میں یہی لڑکا غیر مسلم افریقی قبائل میں اسلام کی دعوت پھیلانے والا سب سے مشہور داعی بنا۔ جسے اپنی زبان کی تاثیر کے سبب لوگوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔۔۔

بسا اوقات بعض معمولی سے صدقات بے شمار لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں اور انہیں سعادت مند بنا دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف کتنے ہی کثیر اموال ہم بغیر کِسی مقصد اور ہدف کے فضول خرچ کر دیتے ہیں جو کہ خود ہمارے لیئے اور امت کیلئے بھی وبال بن جاتے ہیں۔۔۔
آپ بھی صدقہ جاریہ کا حصہ بنیں

منقول

18/06/2023

سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلاوا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔
دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔
مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟
اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔
ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔
بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔
ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔
مسند احمد ٣/١٤٦،
تفسیر ابن کثیر جز ٢٧، صفحہ ٢٤٠ پر بھی یہی واقعہ مختصر الفاظ میں موجود ہے
💕

شارک مچھلی کا مبارک حملہ!خونخوار مچھلی "شارک" کا کمزور انسان پر حملہ مبارک کیسے ہو سکتا ہے؟ ٹھہریئے ذرا۔ قدرت کے کھیل بڑ...
15/06/2023

شارک مچھلی کا مبارک حملہ!
خونخوار مچھلی "شارک" کا کمزور انسان پر حملہ مبارک کیسے ہو سکتا ہے؟ ٹھہریئے ذرا۔ قدرت کے کھیل بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ بسا اوقات شر سے بھی خیر کا پہلو برآمد ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک امریکی نوجوان تیراکی کے دوران شارک کے نوکیلے دانتوں کی زد میں آگیا۔ پیٹھ بری طرح زخمی ہوگئی۔ لیکن جان بچ گئی۔ اسے اسپتال لے جایا گیا۔ طبی معائنہ سے معلوم ہوا کہ حالت خطرے سے باہر ہے۔ مگر پھر بھی ڈاکٹروں نے کچھ ضروری ٹیسٹ کروائے۔ مگر اس دوران انکشاف ہوا کہ اس کے پیٹ میں سرطان (کینسر) کا دانہ ہے۔ جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اسے فوراً سرجری کرکے نکال دیا گیا اور آپریشن بھی کامیاب رہا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر ابھی اس کا آپریشن نہ ہوتا تو دانہ بڑھ کر جگر، گردہ وغیرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ پھر شاید علاج ممکن نہ رہتا۔ مگر شارک مچھلی کا حملہ اس نوجوان کیلئے نہایت مبارک ثابت ہوا۔
اسی طرح گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں 2 افراد کی آپس میں لڑائی ہوگئی۔ ایک نے دوسرے کو تھپڑ مارا۔ جس سے اس کا منہ سوجھ گیا۔ جب اسے اسپتال لے جایا گیا تو ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ اسے تو منہ کا کینسر لاحق ہے۔ لیکن ہے ابھی ابتدائی اسٹیج پر۔
دبئی پولیس سے وابستہ ڈاکٹر روضہ شامسی کا کہنا تھا کہ اگر اسے تھپڑ نہ پڑتا تو شاید فوری طور پر کینسر کا پتہ بھی نہ چلتا، پھر شاید وہ اس اسٹیج تک پہنچتا کہ اس کی زبان کاٹنا پڑتی۔ مگر اس مبارک تھپڑ کی برکت سے اب اس کا علاج ہو جائے گا، زبان نہیں کٹے گی۔
مصر کے دو طالب علم یونیورسٹی کے اندر بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک تیز رفتار کار آئی اور ایک طالب علم کو پیچھے سے ٹکر مار دی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا تو پتہ چلا کہ چوٹ کی وجہ سے ایک گردہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ جسے آپریشن کر کے نکال دیا گیا۔ جب اس گردے کو لیبارٹری بھیجا گیا تو پتہ چلا کہ اس میں بھی سرطان جڑ پکڑ چکا تھا۔ لیکن تھا ابتدائی مراحل میں۔ اس کے بارے میں بھی ڈاکٹروں کا یہی کہنا تھا کہ اگر اسے کار والا ٹکر نہ مارتا تو شاید کینسر کا اس وقت تک پتہ بھی نہ چلتا جب تک وہ پوری طرح پھیل نہ جاتا، پھر اس کا علاج بھی ممکن نہ ہوتا۔
تو بھائیو! دوستو! بہنو! ہمیں چونکہ غیب کا علم نہیں ہے۔ جن چیزوں کا علم ہے، وہ بھی سرسری اور ظاہری ہے۔ حقائق کا ادراک نہیں کرپاتے۔ اس لئے جب کبھی جسمانی یا مالی نقصان ہوجاتا ہے تو دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔ افسوس کرتے رہتے ہیں۔ خود کو کوستے ہیں۔ دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ عین ممکن ہے کہ خالق جل شانہ کے علم ازلی میں یہی ظاہری نقصان ہمارے لئے کسی بڑے فائدے کا باعث ہو۔ اسی لئے اللہ جل شانہ کے ہر فیصلے پر خوش ہونا چاہئے۔ باقی جو تکلیف یا رنج و مصیبت آتی ہے، وہ تو تقدیر میں پہلے سے طے ہے۔ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دے گا۔ (سورۃ التغابن، 11)
ظاہر ہے ماں سے زیادہ مہربان رب ویسے ہی کسی کو مصیبت و تکلیف میں مبتلا نہیں کرے گا، اس میں ضرور انسان ہی کا فائدہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ فائدہ اخروی ہو یا دنیوی، مگر ہوتا ضرور ہے۔ اگرچہ ہم اپنے ناقص علم کی وجہ سے اسے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ رضا بالقضاء (تقدیر الٰہی پر راضی رہنا) بہت بڑی صفت ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو سورۃ الحج میں خوشخبری سنائی گئی ہے۔ "وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ" مخبتین وہی ہیں، جو تقدیر پر راضی اور مطمئن ہوتے ہیں۔ حق تعالیٰ ہم سب کو اس اعلیٰ صفت سے مزین فرمائے۔ آمین۔
(ضیاء چترالی)

15/06/2023

ایک دن حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں آئے

اور اپنی بیوی حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟

میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کمزور آواز سے یہ محسوس کیا کہ آپ بھو کے ہیں۔ اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جو کی چند روٹیاں دوپٹے میں لپیٹ کر حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ آپ کی خدمت میں بھیج دیں۔

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب بارگاہِ نبوت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ابو طلحہ نے تمہارے ہاتھ کھانا بھیجا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ” جی ہاں ” یہ سن کر آپ اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر تشریف لائے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات کی خبردی،

انہوں نے بی بی اُمِ سلیم سے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک جماعت کے ساتھ ہمارے گھر پر تشریف لا رہے ہیں۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مکان سے نکل کر نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا آپ نے تشریف لاکر حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو لاؤ ۔

انہوں نے وہی چند روٹیاں پیش کر دیں جن کو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ بارگاہ رسالت میں بھیجا تھا ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے ان روٹیوں کا چورہ بنایا گیا اور حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس چورہ پر بطور سالن کے گھی ڈال دیا،

ان چند روٹیوں میں آپ کے معجزانہ تصرفات سے اس قدر برکت ہوئی کہ آپ دس دس آدمیوں کو مکان کے اندر بلا بلا کر کھلاتے رہے اور وہ لوگ خوب شکم سیر ہو کر کھاتے اور جاتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی آدمیوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھا لیا۔

( بخاری جلد: ۱، صفحہ: ۵۰۵، علامات النبوة و بخاری، جلد: ۲، صفحہ: ۹۸۹ )

فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَرُوْحِیْ وَقَلْبِیْ یَاسَیِّدِیْ یَارَسُوْلَ اللّٰه ﷺ
For reading more existing stories please like and visit my this page urdu story.

14/06/2023

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺖ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﮔﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﻔﺴﺮ ﮐﻮ ﺑﻠﻮﺍ ﮐﺮ ﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎﯾﺎ -
ﻣﻔﺴﺮ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ , ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﯾﮧ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮧ ﺁﯾﺎ - ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﻔﺴﺮ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ،
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﺴﺮ ﮐﻮ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﮔﯿﺎ, ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﻨﺎﯾﺎ،
ﻣﻔﺴﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﺁﭘﮑﻮ ﻣُﺒﺎﺭ ﮎ ﮨﻮ۔ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﯾﮧ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﺎﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻟﻤﺒﯽ ﻋﻤﺮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﻔﺴﺮ ﮐﻮ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻭ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﯿﺎ --
ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﮩﯽ ﻣﻄﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻟﻤﺒﯽ ﻋﻤﺮ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍُﺳﮑﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﺟﯽ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﮨﯽ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ،،
👈ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﻮﻻ ﮔﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺮﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ،، ﺍﻭﺭ ﺯﺧﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ -
ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ .
✍️...🖤🔥

14/06/2023

بغداد کے مشہور شراب خانے کے دروازے پر دستک ہوئ, شراب خانے کے مالک نے نشے میں دُھت ننگے پاؤں لڑکھڑاتے ہوئے دروازہ کھولا تو اُس کے سامنے سادہ لباس میں ایک پر وقار شخص کھڑا تھا مالک نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا
" معذرت چاہتا ہوں سب ملازم جا چکے ہیں یہ شراب خانہ بند کرنے کا وقت ہے آپ کل آئیے گا "
اس سے پہلے کہ مالک پلٹتا, اجنبی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
" مجھے بشر بن حارث سے ملنا ہے اُس کے نام بہت اہم پیغام ہے "
شراب خانے کے مالک نے چونک کر کہا
بولیے ! میرا نام ہی بشر بن حارث ہے
اجنبی نے بڑی حیرت سے سر سے لے کر پاؤں تک سامنے لڑکھڑاتے ہوئے شخص کو دیکھا اور بولا
کیا آپ ہی بشر بن حارث ہیں ؟؟
مالک نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا
کیوں کوئ شک ؟؟
اجنبی نے آگے بڑھ کر اُس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور بولا
سُنو بشر بن حارث !
خالقِ ارضِ وسما نے مجھے کہا ہے کہ
میرے دوست بشر بن حارث کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا جو عزت تم نے میرے نام کو دی تھی وہی عزت رہتی دنیا تک تمہارے نام کو ملے گی "
اتنا سُننا تھا کہ بشر بن حارث کی نگاہوں میں وہ منظر گھوم گیا جب اک دن حسبِ معمول وہ نشے میں دُھت چلا جا رہا تھا کہ اُس کی نظر گندگی کے ڈھیر پر پڑے اک کاغذ پر پڑی جس پر اسم " اللہ " لکھا تھا, بشر نے کاغذ کو بڑے احترام سے چوما صاف کر کے خوشبو لگائی اور پاک جگہ رکھ دیا اور کہا
" اے مالکِ عرش العظیم یہ جگہ تو بشر کا مقام ہے تمہارا نہیں "
بس یہی ادا بشر بن حارث کو " بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ" بنا گئی۔ جس وقت آپ کو یہ پیغام ملا آپ اس وقت ننگے پاؤں تھے اور پھر آپ نے ساری زندگی ننگے پاؤں گزار دی آپ جن گلیوں سے گزرتےتھے ان گلیوں میں چوپائے بھی پیشاب نہیں کر تے تھے کہ آپ کے پاؤں گندے نہ ہو ں۔
وہی بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ جس کے متعلق اپنے وقت کے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے
" لوگوں
جس اللہ کو احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ مانتا ہے
بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ اُسے پہچانتا ہے۔"
دوستوآپ بھی کوشش کریں کہ کہیں اخبار یا کاغذ کے کسی ٹکڑے پر اللہ پاک یا نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یا مقدس ہستیوں کا نام نظر آئے تو اسے کسی پاک جگہ پر رکھ دیا کریں۔
_حوالہ کتب
( طبقات صُوفیہ, کشف المعجوب)

Address

Dera Ghazi Khan
32200

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Babar's Empire posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Babar's Empire:

Share