Life unfiltered

Life unfiltered Telling the world’s stories without filters — raw nature, everyday truth, and unscripted journeys.

13/10/2025

لاہور انڈر ورلڈ کی داستان۔

کبھی لاہور میں ہر علاقے کا بڑا بدمعاش پہلوان کہلاتا تھا۔پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔سنہ 1950 کے لاہور میں نتھو نامی کوچوان کا بڑا چرچہ تھا۔ وہ کہنے کو تو صرف تانگہ چلاتا تھا مگر اس کی پہلوان جیسی جسامت سے سب ہی سہمے سہمے رہتے تھے۔ وہ اکثر لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا اور اس کا کیا فیصلہ سب ہی کو ماننا پڑتا۔اس کے بعض فیصلوں نے کچھ متاثرہ لوگوں کو اس کا جانی دشمن بنا دیا۔ ایک دن نتھو شاہ عالم چوک سے لوہاری مسجد کے لیے نکلا ، ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ یکایک اس پر کسی نے خنجر سے حملہ کر دیا۔ پے در پے وار سے نتھو نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا اور وہیں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔

نتھو کو دنیا سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اس کی گدی اس کے بیٹے نے سنبھال لی ۔امیر الدین عرف بلا ۔ وہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے تھا۔ اپنا زور بڑھانے کے لیے بلے نے پولیس افسروں اور بااثر مقامی لوگوں سے دوستیاں بنانا شروع کر دیں۔اس نے ایک پنچائتی ڈیرہ سا بنا لیا تھا جہاں وہ لوگوں کے لین دین کے آپسی تنازعات سیٹل کرتا تھا اور اپنا “کمیشن” بھی دونوں پارٹیوں سے لیتا تھا۔شاہ عالمی مارکیٹ میں اس کے باپ کی دھاک پہلے سے ہی تھی۔ بلے نے یہاں ٹرک گڈز ٹرانسپورٹ کا کام شروع کیا جو پھیلتا چلا گیا۔کہا جاتا ہے اس کام کے لیے ابتدائی طور پر سرمایہ لاہور کے ایک بااثر سیاسی خاندان نے لگایا تھا۔یہیں سے اس کا نام پڑ گیا بلا ٹرکاں والا۔

بلا ٹرکاں والا نے ساری زندگی پستول اپنی جیب میں نہیں رکھا، وہ اس کا سٹائل ہی نہیں تھا۔یہ کاروباری آدمی بھی نہیں تھا۔ اس کے ٹرک اڈے پر چھوٹے موٹے جرائم پیشہ کن کٹے ٹائپ لوگ جمع ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ بلا ان کو چرس اور دیگر لوازمات پیش کرتا اور یوں اس نے ایک گینگ سا تشکیل دے رکھا تھا۔ بلے کا کام تو یہ تھا ٹیلی فون پر بیٹھ کر اس کو اٹھا لو اس کو پکڑ لو۔ بسیکلی وہ دکانوں پر قبضہ کرانے میں دلچسپی لیتا تھا منشیات فروش نہیں تھا، جوا نہیں کراتا تھا۔

ٹرکاں والا خاندان کشمیری ہے جس میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں ۔ آج ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بڑا کاروبار ہے ۔ پورے ملک میں ان کے سینکڑوں ٹرکس سامان لیے پڑتے ہیں۔ ٹرکاں والا کا ڈیرہ کیسے اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ بنا، زمینوں پر قبضے سے لے کر قتل تک جرائم کا کاروبار کیسے پھیلتا چلا گیا۔ یہ داستان ہے لاہور انڈر ورلڈ کی اور بہت سنسنی خیز فلمی داستان ہے۔ بااثر سیاسی لوگوں کی آشیرباد اور پولیس افسران کے گٹھ جوڑ سے لاہور میں دو بڑے گینگ وجود میں آئے جو ایک دوسرے سے اختیار و طاقت کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ مارتے رہے۔ مرتے رہے۔

بلا ٹرکاں والا نے تین دوستوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ الیاس جٹ جو فیصل آباد میں پیپلز پارٹی کا رکن اسمبلی تھا۔ پیلا پہلوان جو سونے کے سمگلروں میں ڈان مشہور تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی تھا۔ ایس پی امان اللہ، جعلی پولیس مقابلے میں بندے پھڑکانے میں اس کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ سب عالم چوک پر بلا ٹرکاں والا کے ڈیرے پر روز محفل لگاتے۔ ایس پی امان اللہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بات بعد میں کرتا تھا بندہ پہلے مار دیتا تھا۔ اب انہوں نے لاہور پر حکومت شروع کر دی۔ ایک یونیورسٹی کھول دی جس میں جرائم کی دنیا کے لوگ پرورش پاتے تھے۔

اب بلا لاہور انڈر ورلڈ کا بادشاہ بن چکا تھا۔ہر گینگ اور ہر اشتہاری اس کی صحبت میں تھا۔ شفیق عرف بابا ، حنیف عرف حنیفہ ، اکبر عرف جٹ، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے بڑے بدمعاش اس کی مٹھی میں تھے۔ یہ سب گینگسٹرز تھے۔ حنیفہ اور بابا دونوں سگے بھائی تھے ۔ بلا ٹرکاں والا ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اور وہ بھی بلے کو ابا کا درجہ دیتے تھے۔ اور وہ اسی طرح پلے بڑھے جیسے بلے کا سگا بیٹا ٹیپو ٹرکاں والا پلا بڑھا۔ بلے کے ایک اشارے پر یہ لوگ سب کچھ کر گزرتے تھے۔

ایک روز بابا ، حنیف اور بلے کے سگے بیٹے ٹیپو نے اکبری گیٹ میں ایک رہائشی امیر الدین تارہ والا کو دو دوستوں سمیت قتل کر دیا۔ معاملہ دکان پر قبضے کا تھا۔ پولیس کیس ہوا تو بابا اور حنیفہ کے ساتھ بلے کا بیٹا ٹیپو بھی نامزد ہوا۔یہ تینوں قتل ٹیپو نے فائر کر کے کئیے تھے مگر بلے نے کمال ہوشیاری سے اپنے سیاسی تعلقات کے بل بوتے اپنے بیٹے کا نام کیس سے نکلوا دیا۔ بابا اور حنیفہ سے کہا کہ وہ ابھی اپنا جرم قبول کر لیں بہت جلد انہیں جیل سے وہ چھڑوا لے گا۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ لیکن بلا ان کو چھڑوا نہ سکا۔ بابا اور حنیفہ کو سات سال قید ہو گئی۔

اس موڑ پر یہاں انٹری ہوتی ہے گوالمنڈی کے طیفی بٹ اور گوگی بٹ کی جو ٹرکاں والا خاندان کے سب سے بڑے دشمن مشہور ہیں۔ طیفی اور گوگی آپس میں کزن تھے لیکن دونوں کی جوڑی سگے بھائیوں جیسی تھی۔ یہ ہر وقت ہر جگہ اکٹھے نظر آتے تھے۔ ان کا خاندان گوالمنڈی کا بااثر تاجر خاندان تھا۔ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ لاہور کی پہلی فوڈ سٹریٹ تھی جو انہوں نے بنائی تھی۔اس وقت نواز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے تھے وہ خود افتتاح کرنے آئے تھے۔یہ خواجہ کشمیری تھے۔ ان کے بڑے بھائی اور بزرگ اکبری منڈی اور گوالمنڈی مارکیٹ کے صدر تھے۔ گوالمنڈی اور شاہ عالمی میں تھوڑا ہی فاصلہ ہے۔

پنجاب سمیت ملک بھر سے آئے سامان کا لین دین اندرون لاہور کے انہی بازاروں میں ہوتا ہے۔بلا ٹرکاں والا کا گڈز ٹرنسپورٹ کا اڈا تھا۔ بات دراصل علاقے میں چودراہٹ قائم کرنے کے ساتھ منڈیوں پر کنٹرول اور دھاک بٹھانے کی تھی۔ گوالمنڈی کے طیفی اور گوگی بٹ بلا ٹرکاں والے کے سامنے بچے تھے مگر یہ بات انہیں قبول نہ تھی کیونکہ وہ خود کو زیادہ بااثر، پیسے والا اور کھرپینچ سمجھتے تھے۔طیفی اور گوگی بٹ نے سامنے آئے بغیر بلے کا پتہ صاف کرنے کی ٹھانی۔۔

بابا اور حنیفہ اپنی سزا بھگت کر باہر آئے تو انہوں نے بلے کے خلاف انہیں خوب بھڑکایا۔ ان دونوں کے دماغ میں یہ بات اچھی طرح اتار دی کہ بلے نے اپنے بیٹے کو تو بچا لیا مگر تم دونوں کو جیل میں سڑتا چھوڑ دیا۔اگر تم اس کے حقیقی بچے ہوتے تو وہ ٹیپو کی طرح تمہیں بھی مقدمے سے نکلوا لیتا ۔ ٹیپو نے بندہ قتل کیا تھا لیکن وہ جیل نہیں گیا۔ تمہیں اس نے دھوکا دے کر جرم قبول کروا کے جیل بھیج دیا۔ الغرض بابا اور حنیفہ کے سر پر ایک بھوت سوار ہو گیا کہ وہ ہر قیمت پر بلے اور ٹیپو سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔

طیفی اور گوگی تو ماسٹر پلانر تھے ہی۔ بھولا سنیارا جیسا خطرناک گروہ بھی بلے سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ہو لیا۔ بھولا سنیارا کو بھی بٹوں نے اپنے دام میں پھنسا لیا تھا۔ سنہ 1994 کی ایک صبح جب بلا اپنے ٹرک اڈے پر نماز فجر کی تیاری کر رہا تھا، گھات لگائے بابا اور حنیفہ نے گولیوں کی برسات کر دی۔ بلا اپنے ہی اڈے پرقتل ہو گیا۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے لاہور انڈر ورلڈ کی وہ کہانی جس نے لاہور میں خونی دشمنی کا بازار گرم کر دیا۔

باپ کی موت نے ٹیپو کو زخمی شیر بنا دیا اور اس نے باپ کے ڈیرے کو قلعہ بنا کر دشمنی کا جواب دینا شروع کر دیا۔اس کے ڈیرے پر درجنوں محافظ ہر وقت آٹومیٹک ہتھیار لیےموجود رہتے۔ ٹیپو ایک پہلوان اور شیروں کا شوقین تھا۔ اپنے ڈیرے پر اس نے دس شیر پال رکھے تھے جن کو وہ کھلا ساتھ لیے پھرتا اور ان کو اپنے ہاتھوں سے کھانا اور قلفیاں کھلاتا۔ ٹیپو بالکل انپڑھ تھا۔ اس نے ایک بندہ ملازم رکھا ہوا تھا جو اس کو اخبار پڑھ کے سناتا تھا۔ اس کا ملنا ملانا بہت تھا ۔ جتنے بھی بڑے سے بڑے پولیس آفیسرز تھے اور خاص طور پر جو رینکرز پولیس آفیسرز تھے ان کا اس ساری لڑائی میں بڑا رول رہا۔ وہ بہت آکے دونوں طرف کے ڈیروں پر بیٹھتے تھے۔

بلا کے قتل کے بعد دشمنی کی دہکتی آگ نے کئی گھرانوں کے چراغ گل کیئے۔ ایک دوسرے کے بندوں کا قتل ہوتا رہا۔گینگ وار شروع ہو چکی تھی ۔ہمایوں گجر، ناجی بٹ ، مناظر شاہ ، داؤد ناصر، ثنا گجر اور پنجاب کے کئی اور نامور اشتہاری گینگسٹرز ایک ایک کر کے طیفی و گوگی بٹ سے جا ملے ۔ حنیفہ اور بابا جو کبھی ٹیپو کی طاقت ہوا کرتے تھے وہ پہلے ہی طیفی و گوگی کی صفوں میں تھے ۔ ٹیپو ان سب سے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے بیتاب تھا۔ یہاں ٹیپو نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔

نعیم اور قیصر نامی گینگسٹر طیفی گروپ میں ٹیپو کیلئے کام کرنے لگے۔ بھولا سنیارا گروپ کے بھی کئی لوگ پیسے لے کر ٹیپو کیلئے مخبری کیا کرتے۔اور جو لوکل گینگسٹر تھے جو اس علاقے میں خاص طور پر والڈ سٹی یا اندرون لاہور میں بہت پنپ رہے تھے ، وہ دونوں گروپس کے ساتھ اپنے آپ کو لنک کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح ان کی گرپ بڑھتی تھی کہ فلانا فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا ، فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ٹیپو نے اپنے باپ سے ایک ہی بات سیکھی تھی کہ دھاک بٹھاؤ اور سامنے آئے بغیر کام نکلواتے جاؤ ۔ باپ کا انداز اپناتے ہوئے اس نے ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کو مروانا شروع کر دیا۔

اس کام کے لیے ٹیپو نے کرائے کے قاتلوں کا اور پولیس مقابلوں کا سہارا لیا ۔ پہلے اس نے بھولا سنیارا کو مخبری کر کے مروایا ،پھر ناجی بٹ اور ہمایوں گجر جیسے گینگسٹر بھی مارے گئے۔انسپکٹر نوید نے شاہدرہ میں پولیس مقابلے کر کے انہیں گولیوں سےبھون ڈالا ۔ٹیپو نے طیفی بٹ گینگ کے داؤد ناصر کو بھی نہیں چھوڑا جو بٹ کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔ نوے کے دہائی میں شاہ عالم گیٹ اور اندرون لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والا خوف اور دہشت کی علامت بن چکا تھا۔ طیفی بٹ بھی موت بانٹنے کے کھیل میں ٹیپو سے پیچھے نہ تھا۔

دشمنی کی آگ میں دونوں گروہوں نے کروڑوں روپے جھونک ڈالے۔ ایس ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک پولیس کا ہر فرد اس لڑائی کا حصہ بنتا چلا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسپکٹر عابد باکسر کے پولیس مقابلے مشہور ہو رہے تھے۔ اشتہاری ایک ایک کر کر ختم ہو رہے تھے۔ ٹیپو اور طیفی بٹ نے ایک دوسرے پر مقدمے کرنا شروع کر دیے تھے۔ کہتے ہیں دشمن داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ٹیپو اور طیفی کی دشمنی سے ان کی خواتین اب تک بچی ہوئیں تھیں۔مگر ایک روز ٹیپو نے ریڈ لائن کراس کر لی۔ پولیس میں اپنے لوگوں کے ذریعے اس نے حنیفہ اور بابا کی خواتین کو اٹھا لیا۔حنیفہ اور بابا اپنی خواتین پر آنچ آتی دیکھ کر غصے سے پاگل ہو گئے۔

اب ان دونوں نے باپ کے بعد بیٹے کو سبق سکھانے کی ٹھانی ۔ سنہ 2003 میں ٹیپو ایک مقدمے کی پیشی پر آیا تو لاہور کچہری کے باہر اس پر ایک بڑا قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ حملہ مبین بٹ کے ذریعے کیا گیا جو کہ مشہور کرائے کا قاتل تھا۔ٹیپو کے پانچ گارڈز مارے گئے اور وہ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ٹیپو کے لیفٹ رائٹ گولیاں چل رہی تھیں لیکن وہ بھاگ کر مجسٹریٹ کی عدالت میں گھس گیا۔ مقدمہ طیفی اور گوگی بٹ پر درج ہوا۔حنیفہ اور بابا نے ٹیپو پر کئی قاتلانہ حملے کروائے مگر قسمت یاوری کرتی رہی اور وہ ہر بار بچ نکلا۔

ٹیپو کے پاس گرے رنگ کی ایک شراڈ کار ہوتی تھی جو اس کو بہت پسند تھی۔ ٹیپو اس میں پھرتا بھی تھا۔ اس گاڑی پر تین بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر ہر بار ٹیپو بچ نکلا۔ حنیفہ و بابا کی جانب سے بار بار کے حملوں سے تنگ ہو کر بلآخر وہ اپنے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر دبئی منتقل ہو گیا اور وہاں ایک ہوٹل خرید لیا۔ٹیپو نے تینوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو ملک سے باہر پڑھایا۔ ٹیپو کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کی لاہور میں جائز ناجائز اربوں روپے کی جائیدادیں تھیں۔

گینگ کو چھوڑنا یا پرانی زندگی سے نکلنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اس لیے وہ دبئی میں زیادہ عرصہ نہ ٹھہر سکا۔ پھر یوں ہونے لگا کہ وہ فیملی سے مل کر کچھ عرصے بعد واپس لاہور آ جاتا۔بائیس جنوری سنہ 2010 کو ٹیپو دبئی سے لاہور جانے والی پرواز میں بیٹھا تھا اور کوئی اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی ہوئے تھا۔لاہور میں پانچ بہترین نشانہ بازوں کو ایک ہائی پروفائل قتل کی سپاری دی گئی تھی۔ لیکن جب کرائے کے قاتلوں کو ان کے ٹارگٹ ٹیپو کا نام بتایا گیا تو چاروں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے لیکن پانچویں نشانے باز خرم بٹ نے ٹیپو کو تنہا مارنے کی حامی بھر لی۔

خرم بٹ کا بھائی ٹیپو کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا تھا اور وہ ہر قیمت پر بھائی کے انتقام کا بدلہ چاہتا تھا۔ ائرپورٹ پر اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن خرم بٹ کو ائرپورٹ کے اندر اسلحہ پہنچا دیا گیا۔ جیسے ہی ٹیپو کار پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آتا ہے خرم اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ ٹیپو چوبیس گھنٹے ہسپتال میں موت سے لڑتا رہا اور پھر یہ جنگ ہار گیا۔ جان چلی گئی لیکن دشمنی ابھی بھی باقی تھی۔۔

ٹیپو جاتے جاتے اپنے باپ کے قتل سے شروع ہونے والی سولہ سالہ دشمنی اپنے اٹھارہ سالہ بیٹھے امیر بالاج کو ورثے میں دے گیا۔بالاج نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا تھا جہاں وہ اور اس کے بہن بھائی بہترین سکولز میں پڑھے تھے۔ باپ کے قتل کے بعد اب بالاج کو اٹھارہ سال کی عمر میں ڈیرہ سنبھالنا تھا۔مگر وہ اپنے خاندان کو ورثے میں ملی دشمنیاں ختم کرنا چاہتا تھا۔ ٹیپو ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے باپ کا بدلہ لوں گا۔ وہ طیفی اور گوگی کو نہیں مار سکا اور خود مارا گیا۔

ٹیپو کا بیٹا بالاج ٹرکاں والا صلح صفائی چاہتا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس دشمنی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کوشش کی لیکن صلح صفائی میں پڑنے اور دنوں گینگز کی گارنٹی لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ٹیپو کے بعد بندوقیں کچھ عرصہ خاموش رہیں۔ امیر بالاج نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرا باپ قتل ہو گیا اور دشمنی کا ڈھول میرے گلے میں ڈال گیا۔میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔ بالاج جب بھی دشمنی ختم کرنے کی بات کرتا کوئی نہ کوئی اس کے سامنے آ کر اسے اپنے باپ دادا اور رشتہ دار کا خون یاد دلا دیتا۔ اُدھر طیفی بٹ گینگ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ٹیپو کا بیٹا دشمنی ختم کرنے میں مخلص ہو سکتا ہے۔

بالاج ڈیرے کی چار دیواری چھوڑ کر کہیں بھی نکلتا تو اسلحہ سے لیس محافظوں کا قافلہ اس کے آگے پیچھے ہوتا لیکن اس کا قلعے جیسا ڈیرہ اور محافظوں کا ٹولہ نہ تو دادا کی جان بچا سکا تھا نہ ہی باپ کی۔ ٹرکاں والا خاندان کے نصیب میں ایک اور موت لکھی جا چکی تھی۔ فروری سنہ 2024 لاہور کی ایک سوسائٹی میں شادی کی تقریب جاری تھی۔ڈی ایس پی اکبر کے گھر میں شادی کے لیے راستے پہ جگہ جگہ پولیس والے کھڑے ہیں۔ یہاں آنے والے ہر شخص کو دو سیکیورٹی لیئرز سے گزرنا پڑتا تھا۔اسلحہ تو دور وہاں سوئی لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

تقریب میں ایک فوٹوگرافر کافی دیر سے لوگوں کی تصاویر لیتے کبھی سٹیج تو کبھی میز کے اردگرد مہمانوں کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کی نظریں بار بار اینٹرنس گیٹ پر اٹھتی ہیں۔ جیسے وہ کسی کا بڑی میں چینی سے انتظار کر رہا ہو۔ سب مہمان آ چکے تھے لیکن ڈی ایس پی اکبر کو تو بس اپنے عزیز دوست کا انتظار ہے۔بلآخر بندوق بردار محافظوں سے لدی گاڑیاں امیر بالاج کو لیے اڑتی ہوئی اپنی منزل تک آ پہنچیں۔اچانک فوٹو گرافر نے کیمرہ پھینک کر اپنے لباس سے ایک پستول نکالی اور بالاج پر فائر کر دیا۔ محافظوں نے پہلا فائر سنتے ہی جوابی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ چار گولیاں بالاج کے جسم کو چھلنی کر چکی تھیں۔اس کی لاش زمین پر پڑی تھی۔

اس گینگ وار کے دوران تین نسلیں گزریں اور بیسیوں افراد دشمنی کی آگ میں جل گئے۔بلا سے بالاج تک اس لڑائی میں زیادہ نقصان ٹرکاں والا فیملی نے اٹھایا۔طیفی بٹ کو دو روز قبل سی سی ڈی نے دبئی انٹرپول سے منگوا کر پولیس مقابلے میں پار لگا دیا ہے۔ گوگی بٹ کی تلاش کے لیے چھاپے جاری ہیں اور شنید ہے کہ اسے بھی پار لگا کر اس گینگ وار کا باب ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے گا۔لیکن لاہور میں جرائم کی دنیا ابھی موجود ہے۔کئی گینگسٹرز آج بھی بٹ اور ٹرکاں والا کی جگہ لینے کیلئے بے چین ہیں۔

یہ ساری داستان بہت اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائیں تو یہ بہت طویل اور بہت سنسنی خیز داستان ہے۔ کوشش کی ہے کہ خلاصہ لکھ دوں۔ اس پر ایک بہترین ویب سیریز پروڈیوس ہو سکتی ہے۔ کہانی سچی ہے۔ کہانی جرم کی ہے۔ کہانی سیاست کی ہے۔ کہانی کرپٹ سسٹم اور پولیس کے کردار کی ہے۔ بہت سے کردار ابھی ذکر میں نہیں آ سکے۔ اس داستان کا ہر کردار ایک منفرد کریکٹر ہے۔ ہر کریکٹر کا الگ بیک گراؤنڈ ہے۔ ہر کردار کی اپنی الگ کہانی ہے۔ دشمنیاں، بدمعاشی، قتل و غارت، ڈرگز، سسپنس، ایکشن، ڈرامہ، ۔۔۔۔

26/07/2025

یز-ید کو خلیفہ/امیر کہنے والوں کا قصور نہیں ہے۔دراصل تقاضہ عدل یہ ہے کہ جو حسین جیسی نعمت کو چھوڑ دے تو یز-ید جیسی ز-لت انکا مقدر بن جاتی ہے۔

26/07/2025

تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد اور کئی مان ٹوٹنے کے بعد،ہمیں کسی انسانی آسرے کی ضرورت نہیں رہتی۔پھر ہم ہوتے ہیں اور ہماری تنہائی۔

26/07/2025

“پاکستان میں گھر خریدنے کے بجائے رینٹ پر کیوں رہنا بہتر ہے؟”

فرض کریں آپ کے پاس 4 کروڑ روپے ہیں۔
اگر آپ یہ رقم کسی اچھی انویسٹمنٹ میں لگائیں تو سالانہ کم از کم 1 کروڑ روپے کما سکتے ہیں۔

اب فرض کریں آپ نے وہی 4 کروڑ کا گھر خرید لیا۔
اسی معیار کا گھر رینٹ پر لیں، تو سال کا کرایہ بنتا ہے تقریباً 12 لاکھ روپے۔

یعنی پھر بھی آپ کے پاس 88 لاکھ روپے بچتے ہیں، جو آپ کہیں اور لگا کر مزید کما سکتے ہیں۔

تو سوال یہ ہے:
کیا 12 لاکھ دے کر 1 کروڑ کمانا زیادہ عقل مندی نہیں؟

“اپنا گھر” صرف جذبات کی تسلی ہے، اصل آزادی تو فنانشل پلاننگ میں ہے۔

دنیا کی ہر چیز کا نعم البدل مل سکتا ہے، مگر ماں کا کوئی بدل نہیں۔ 🖤
26/07/2025

دنیا کی ہر چیز کا نعم البدل مل سکتا ہے، مگر ماں کا کوئی بدل نہیں۔ 🖤

عطاء اللہ بندیالوی کی گرفتاری زبردست عمل ہے ایسے مُلا جو پاکستان میں تعصب اور نفر-تیں پیدا کرتے ہیں انہیں جیل کی سلاخوں ...
26/07/2025

عطاء اللہ بندیالوی کی گرفتاری زبردست عمل ہے ایسے مُلا جو پاکستان میں تعصب اور نفر-تیں پیدا کرتے ہیں انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ہونا چاہیے
کاپیڈ

Thats called a nation of integrity. Thats called trust and honesty!Few time ago, Japan's toll system crashed for over a ...
26/07/2025

Thats called a nation of integrity. Thats called trust and honesty!

Few time ago, Japan's toll system crashed for over a day. The authorities couldnt charge the toll tax to cars so they told the drivers to pay at their ease when the system is back in operation and let them pass for free.

The toll authorities had no data, and surprisingly 24,000 drivers paid the toll tax, later.

Follow us۔

ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘ میں اکثر لوگوں سے پوچھتا رہتا ھوں  کہ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ ک...
24/07/2025

ہم میں سے
95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘
میں اکثر لوگوں سے پوچھتا رہتا ھوں کہ
آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اپنے والد سے بہتر زندگی نہیں گزار رہے؟“

ہر شخص ہاں میں سر ہلاتا ہے!!

آپ کسی روز اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ کر لیں‘
آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘
آپ کے گھر میں بچپن میں ایک پنکھا چلتا تھا اور پورا گھر وہیں سوتا تھا!
سارے گھر کے لئے ایک دو روپے کی برف خرید کر کولر میں پورا دن استعمال ہوتی تھی۔
لوگ دوسروں کے گھروں سے بھی برف مانگتے تھے!

ہمسایوں سے سالن مانگنا‘ شادی بیاہ کے لیے کپڑے اور جوتے ادھار لینا بھی عام تھا!
بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے!

پورے محلے میں ایک فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دے رکھا ہوتا تھا
ٹیلی ویژن بھی اجتماعی دعا کی طرح دیکھا جاتا تھا
بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔
سائیکل خوش حالی کی علامت تھا!
اور موٹر سائیکل کے مالک کو امیر سمجھا جاتا تھا!
گاڑی صرف کرائے پر لی جاتی تھی۔
گھر کا ایک بچہ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے کے لیے وقف ہوتا تھا!
پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا
اور لوگ کپڑے کے ”پونے“ میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے!
بچوں کو بھی روٹی یا پراٹھے پر اچار کی پھانگ رکھ کر سکول بھجوا دیا جاتا تھا اور ”لنچ بریک“ کے دوران یہ لنچ پھڑکا کر نلکے کا پانی پی لیتے تھے۔
ہم سب نے یہاں سے زندگی شروع کی تھی!
اللہ کا کتنا کرم ہے اس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا!

آپ یقین کریں قدرت ایک نسل بعد اتنی بڑی تبدیلی کا تحفہ بہت کم لوگوں کو دیتی ہے!
آج اگر یورپ کا کوئی بابا قبر سے اٹھ کر آ جائے تو اسے بجلی‘ ٹرین اور گاڑیوں کے علاوہ یورپ کے لائف سٹائل میں زیادہ فرق نہیں ملے گا
جب کہ ہم اگر صرف تیس سال پیچھے چلے جائیں تو ہم کسی اور ہی دنیا میں جا گریں گے۔
لیکن سوال یہ ہے اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور لائف سٹائل میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟
میں جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں صرف ایک ہی جواب آتا ہے
ناشکری!
ہماری زندگی میں بنیادی طور پر شکر کی کمی ہے‘ ہم ناشکرے ہیں‘ آپ نے انگریزی کا لفظ ڈس سیٹس فیکشن سنا ہوگا‘ یہ صرف ایک لفظ نہیں ‘ یہ ایک خوف ناک نفسیاتی بیماری ہے
اور اس بیماری میں مبتلا لوگ تسکین کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا لوگ پانی پیتے ہیں لیکن پانی پینے کے باوجود ان کی پیاس نہیں بجھتی
ہم میں سے کچھ لوگ ”آل دی ٹائم“ بھوکے بھی ہوتے ہیں‘ یہ کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی بھوک ختم نہیں ہوتی!
اور ہم میں سے کچھ لوگ اربوں کھربوں روپے کمانے کے باوجود امیر نہیں ہوتے‘ کیوں؟
آپ نے کبھی سوچا!
کیوں کہ یہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ان کی بیماری کا نام ”ڈس سیٹس فیکشن“ ہے۔
ہم من حیث القوم کسی نہ کسی حد تک ڈس سیٹس فیکشن کی بیماری کا شکار ہیں ۔
اور اس بیماری کی واحد وجہ وٹامن
شکر
کی کمی ہے۔
انسان جب شکر چھوڑ دیتا ہے تو پھر یہ ڈس سیٹس فیکشن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ بیماری پھر مریض کا وہی حشر کرتی ہے جو اس وقت ہم سب کا ہو رہا ہے۔

بلاشبہ ہم سب اپنے والدین اور اپنے بچپن سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں
چنانچہ ایک لمحے کے لیے اپنا بچپن یاد کریں‘ اپنے آج کے اثاثے اور زندگی کی نعمتیں شمار کریں اور پھر اللہ کا شکر ادا کریں🌹🌹🌹

آپ کو نتائج حیران کر دیں گے‘ یقین کریں آپ کا شکر آپ کی زندگی سنوار دے گا ورنہ آپ کتنے ہی اچھے یا بڑے کیوں نہ ہوجائیں ‘آپ ایک ادھوری‘ غیر مطمئن اور تسکین سے محروم زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائینگے ۔
(Copied)

پاکستان میں مسلسل آسمانی واقعات اگر آسمان سے بارش قطروں کی بجائے اکٹھی آجائے تو کیا ہوگا ؟ سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ قط...
24/07/2025

پاکستان میں مسلسل آسمانی واقعات
اگر آسمان سے بارش قطروں کی بجائے اکٹھی آجائے تو کیا ہوگا ؟ سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ قطروں میں تقسیم ہونے کی بجائے اگر یکجان اور ایک دم گرے تو زمین کی طرف آتے ہوئے اسکی رفتار ایک میزائل جیسی ہوگی اور ٹکرا کر اتنی طاقت پیدا ہوگی جو راستے میں آنے والی ہر چیز کو مٹا ڈالے گی۔ پچاس ایسے بڑے قطروں کے گرنے کا مطلب ہے کہ ایٹم بم جتنی انرجی خارج ہوگی اور زمین پر بہت بڑا گڑھا پڑ جائے گا۔ اسلئے یہ ہم انسانوں کے لئے بہت بڑی رحمت ہے کہ جب بھی بارش برستی ہے تو وہ قطروں کی صورت میں زمین پر گرتی ہے۔ اب دیکھیں قرآن میں اللہ کیا فرماتا ہے کہ "وہ ہے جس نے آسمان سے ایک اندازے سے (ناپ تول کر) پانی اتارا"۔ سبحان اللہ۔ بے شک ہمارا رب ہی ہر چیز کا خالق ہے اور اسے بہتر معلوم ہے ہمارے لئے کیا بہترین ہے۔

گریفائٹ بم  دشمن کا خاموش بجلی چورجنگیں ہمیشہ دھماکوں سے نہیں جیتی جاتیں۔کبھی کبھی خاموشی، اندھیرا، اور بجلی کا کٹ جانا ...
24/07/2025

گریفائٹ بم دشمن کا خاموش بجلی چور

جنگیں ہمیشہ دھماکوں سے نہیں جیتی جاتیں۔
کبھی کبھی خاموشی، اندھیرا، اور بجلی کا کٹ جانا بھی ایک پورے ملک کو گھٹنوں پر لے آتا ہے۔
یہی ہے گریفائٹ بم۔

یہ بم کوئی روایتی بم نہیں ہوتا جو زمین پھاڑ دے، نہ ہی اس میں بارود ہوتا ہے جو دیواروں کو توڑ دے۔
یہ بم تو بجلی کو چوس لیتا ہے۔
جی ہاں، جب گریفائٹ بم کسی ملک پر گرتا ہے، تو وہاں کی بجلی کی لائنیں، گرڈ اسٹیشن، پاور پلانٹس — سب کچھ بند ہو جاتا ہے۔
پورا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے، نہ لائٹ، نہ نیٹ، نہ موبائل سگنل، نہ پانی کی موٹر۔

یہ بم کام کیسے کرتا ہے؟

گریفائٹ بم میں چھوٹے چھوٹے باریک کاربن فائبر ہوتے ہیں۔
جب یہ فضا میں پھٹتا ہے، تو وہ فائبرز پورے علاقے میں بکھر جاتے ہیں۔
یہ فائبرز بجلی کی لائنوں پر چپک جاتے ہیں، شورٹ سرکٹ کرتے ہیں، اور سسٹم کو اوورلوڈ کر کے تباہ کر دیتے ہیں۔

ایک چھوٹا سا بم... لیکن اس کا اثر اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ پورا ملک دیوالیہ سا محسوس کرنے لگتا ہے۔

❌ کیا ہوتا ہے جب گریفائٹ بم گرتا ہے؟

اسپتالوں میں جنریٹر بند

بینکنگ سسٹم فیل

فوجی رابطے کٹ

ایئرپورٹس بند

واٹر پلانٹس رک جاتے ہیں

انٹرنیٹ مکمل بند

اور سب سے خطرناک بات… عوام میں خوف پھیل جاتا ہے۔
کوئی سمجھی نہیں پاتا کہ یہ حملہ کہاں سے آیا، کیا ہوا، اور کب بجلی واپس آئے گی۔

🌍 کس نے استعمال کیا یہ ہتھیار؟

1991 میں امریکا نے عراق پر

1999 میں نیٹو نے صربیا پر

اور اب کئی جدید ممالک اس کو اپنے اسلحہ خانوں میں شامل کر چکے ہیں۔

یہ بم جسم پر نہیں، سسٹم پر حملہ کرتا ہے۔

🤔 کیا اسے روکا جا سکتا ہے؟

نہیں۔
کیونکہ یہ بم جسمانی نقصان نہیں کرتا، اس لیے روایتی راڈارز اور میزائل شیلڈز اس کو نہیں پہچانتے۔
جب تک پتا چلتا ہے، سب کچھ بند ہو چکا ہوتا ہے۔

💭 آخری بات

یہ دنیا اب صرف بارود سے نہیں،
بلکہ ڈیجیٹل اندھیرے سے بھی فتح کی جاتی ہے۔
گریفائٹ بم وہ خاموش قاتل ہے
جو روشنی چھین لیتا ہے
اور ملک کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے
بغیر کوئی خون بہائے
بغیر کچھ جلائے

24/07/2025

😂😂😂

24/07/2025

Ayein😂

Address

Dera Ghazi Khan

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00
Sunday 09:00 - 17:00

Telephone

+923354702200

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Life unfiltered posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Life unfiltered:

Share