13/10/2025
لاہور انڈر ورلڈ کی داستان۔
کبھی لاہور میں ہر علاقے کا بڑا بدمعاش پہلوان کہلاتا تھا۔پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔سنہ 1950 کے لاہور میں نتھو نامی کوچوان کا بڑا چرچہ تھا۔ وہ کہنے کو تو صرف تانگہ چلاتا تھا مگر اس کی پہلوان جیسی جسامت سے سب ہی سہمے سہمے رہتے تھے۔ وہ اکثر لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا اور اس کا کیا فیصلہ سب ہی کو ماننا پڑتا۔اس کے بعض فیصلوں نے کچھ متاثرہ لوگوں کو اس کا جانی دشمن بنا دیا۔ ایک دن نتھو شاہ عالم چوک سے لوہاری مسجد کے لیے نکلا ، ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ یکایک اس پر کسی نے خنجر سے حملہ کر دیا۔ پے در پے وار سے نتھو نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا اور وہیں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔
نتھو کو دنیا سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اس کی گدی اس کے بیٹے نے سنبھال لی ۔امیر الدین عرف بلا ۔ وہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے تھا۔ اپنا زور بڑھانے کے لیے بلے نے پولیس افسروں اور بااثر مقامی لوگوں سے دوستیاں بنانا شروع کر دیں۔اس نے ایک پنچائتی ڈیرہ سا بنا لیا تھا جہاں وہ لوگوں کے لین دین کے آپسی تنازعات سیٹل کرتا تھا اور اپنا “کمیشن” بھی دونوں پارٹیوں سے لیتا تھا۔شاہ عالمی مارکیٹ میں اس کے باپ کی دھاک پہلے سے ہی تھی۔ بلے نے یہاں ٹرک گڈز ٹرانسپورٹ کا کام شروع کیا جو پھیلتا چلا گیا۔کہا جاتا ہے اس کام کے لیے ابتدائی طور پر سرمایہ لاہور کے ایک بااثر سیاسی خاندان نے لگایا تھا۔یہیں سے اس کا نام پڑ گیا بلا ٹرکاں والا۔
بلا ٹرکاں والا نے ساری زندگی پستول اپنی جیب میں نہیں رکھا، وہ اس کا سٹائل ہی نہیں تھا۔یہ کاروباری آدمی بھی نہیں تھا۔ اس کے ٹرک اڈے پر چھوٹے موٹے جرائم پیشہ کن کٹے ٹائپ لوگ جمع ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ بلا ان کو چرس اور دیگر لوازمات پیش کرتا اور یوں اس نے ایک گینگ سا تشکیل دے رکھا تھا۔ بلے کا کام تو یہ تھا ٹیلی فون پر بیٹھ کر اس کو اٹھا لو اس کو پکڑ لو۔ بسیکلی وہ دکانوں پر قبضہ کرانے میں دلچسپی لیتا تھا منشیات فروش نہیں تھا، جوا نہیں کراتا تھا۔
ٹرکاں والا خاندان کشمیری ہے جس میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں ۔ آج ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بڑا کاروبار ہے ۔ پورے ملک میں ان کے سینکڑوں ٹرکس سامان لیے پڑتے ہیں۔ ٹرکاں والا کا ڈیرہ کیسے اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ بنا، زمینوں پر قبضے سے لے کر قتل تک جرائم کا کاروبار کیسے پھیلتا چلا گیا۔ یہ داستان ہے لاہور انڈر ورلڈ کی اور بہت سنسنی خیز فلمی داستان ہے۔ بااثر سیاسی لوگوں کی آشیرباد اور پولیس افسران کے گٹھ جوڑ سے لاہور میں دو بڑے گینگ وجود میں آئے جو ایک دوسرے سے اختیار و طاقت کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ مارتے رہے۔ مرتے رہے۔
بلا ٹرکاں والا نے تین دوستوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ الیاس جٹ جو فیصل آباد میں پیپلز پارٹی کا رکن اسمبلی تھا۔ پیلا پہلوان جو سونے کے سمگلروں میں ڈان مشہور تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی تھا۔ ایس پی امان اللہ، جعلی پولیس مقابلے میں بندے پھڑکانے میں اس کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ سب عالم چوک پر بلا ٹرکاں والا کے ڈیرے پر روز محفل لگاتے۔ ایس پی امان اللہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بات بعد میں کرتا تھا بندہ پہلے مار دیتا تھا۔ اب انہوں نے لاہور پر حکومت شروع کر دی۔ ایک یونیورسٹی کھول دی جس میں جرائم کی دنیا کے لوگ پرورش پاتے تھے۔
اب بلا لاہور انڈر ورلڈ کا بادشاہ بن چکا تھا۔ہر گینگ اور ہر اشتہاری اس کی صحبت میں تھا۔ شفیق عرف بابا ، حنیف عرف حنیفہ ، اکبر عرف جٹ، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے بڑے بدمعاش اس کی مٹھی میں تھے۔ یہ سب گینگسٹرز تھے۔ حنیفہ اور بابا دونوں سگے بھائی تھے ۔ بلا ٹرکاں والا ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اور وہ بھی بلے کو ابا کا درجہ دیتے تھے۔ اور وہ اسی طرح پلے بڑھے جیسے بلے کا سگا بیٹا ٹیپو ٹرکاں والا پلا بڑھا۔ بلے کے ایک اشارے پر یہ لوگ سب کچھ کر گزرتے تھے۔
ایک روز بابا ، حنیف اور بلے کے سگے بیٹے ٹیپو نے اکبری گیٹ میں ایک رہائشی امیر الدین تارہ والا کو دو دوستوں سمیت قتل کر دیا۔ معاملہ دکان پر قبضے کا تھا۔ پولیس کیس ہوا تو بابا اور حنیفہ کے ساتھ بلے کا بیٹا ٹیپو بھی نامزد ہوا۔یہ تینوں قتل ٹیپو نے فائر کر کے کئیے تھے مگر بلے نے کمال ہوشیاری سے اپنے سیاسی تعلقات کے بل بوتے اپنے بیٹے کا نام کیس سے نکلوا دیا۔ بابا اور حنیفہ سے کہا کہ وہ ابھی اپنا جرم قبول کر لیں بہت جلد انہیں جیل سے وہ چھڑوا لے گا۔ انہوں نے قبول کر لیا۔ لیکن بلا ان کو چھڑوا نہ سکا۔ بابا اور حنیفہ کو سات سال قید ہو گئی۔
اس موڑ پر یہاں انٹری ہوتی ہے گوالمنڈی کے طیفی بٹ اور گوگی بٹ کی جو ٹرکاں والا خاندان کے سب سے بڑے دشمن مشہور ہیں۔ طیفی اور گوگی آپس میں کزن تھے لیکن دونوں کی جوڑی سگے بھائیوں جیسی تھی۔ یہ ہر وقت ہر جگہ اکٹھے نظر آتے تھے۔ ان کا خاندان گوالمنڈی کا بااثر تاجر خاندان تھا۔ گوالمنڈی فوڈ سٹریٹ لاہور کی پہلی فوڈ سٹریٹ تھی جو انہوں نے بنائی تھی۔اس وقت نواز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے تھے وہ خود افتتاح کرنے آئے تھے۔یہ خواجہ کشمیری تھے۔ ان کے بڑے بھائی اور بزرگ اکبری منڈی اور گوالمنڈی مارکیٹ کے صدر تھے۔ گوالمنڈی اور شاہ عالمی میں تھوڑا ہی فاصلہ ہے۔
پنجاب سمیت ملک بھر سے آئے سامان کا لین دین اندرون لاہور کے انہی بازاروں میں ہوتا ہے۔بلا ٹرکاں والا کا گڈز ٹرنسپورٹ کا اڈا تھا۔ بات دراصل علاقے میں چودراہٹ قائم کرنے کے ساتھ منڈیوں پر کنٹرول اور دھاک بٹھانے کی تھی۔ گوالمنڈی کے طیفی اور گوگی بٹ بلا ٹرکاں والے کے سامنے بچے تھے مگر یہ بات انہیں قبول نہ تھی کیونکہ وہ خود کو زیادہ بااثر، پیسے والا اور کھرپینچ سمجھتے تھے۔طیفی اور گوگی بٹ نے سامنے آئے بغیر بلے کا پتہ صاف کرنے کی ٹھانی۔۔
بابا اور حنیفہ اپنی سزا بھگت کر باہر آئے تو انہوں نے بلے کے خلاف انہیں خوب بھڑکایا۔ ان دونوں کے دماغ میں یہ بات اچھی طرح اتار دی کہ بلے نے اپنے بیٹے کو تو بچا لیا مگر تم دونوں کو جیل میں سڑتا چھوڑ دیا۔اگر تم اس کے حقیقی بچے ہوتے تو وہ ٹیپو کی طرح تمہیں بھی مقدمے سے نکلوا لیتا ۔ ٹیپو نے بندہ قتل کیا تھا لیکن وہ جیل نہیں گیا۔ تمہیں اس نے دھوکا دے کر جرم قبول کروا کے جیل بھیج دیا۔ الغرض بابا اور حنیفہ کے سر پر ایک بھوت سوار ہو گیا کہ وہ ہر قیمت پر بلے اور ٹیپو سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔
طیفی اور گوگی تو ماسٹر پلانر تھے ہی۔ بھولا سنیارا جیسا خطرناک گروہ بھی بلے سے ٹوٹ کر ان کے ساتھ ہو لیا۔ بھولا سنیارا کو بھی بٹوں نے اپنے دام میں پھنسا لیا تھا۔ سنہ 1994 کی ایک صبح جب بلا اپنے ٹرک اڈے پر نماز فجر کی تیاری کر رہا تھا، گھات لگائے بابا اور حنیفہ نے گولیوں کی برسات کر دی۔ بلا اپنے ہی اڈے پرقتل ہو گیا۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے لاہور انڈر ورلڈ کی وہ کہانی جس نے لاہور میں خونی دشمنی کا بازار گرم کر دیا۔
باپ کی موت نے ٹیپو کو زخمی شیر بنا دیا اور اس نے باپ کے ڈیرے کو قلعہ بنا کر دشمنی کا جواب دینا شروع کر دیا۔اس کے ڈیرے پر درجنوں محافظ ہر وقت آٹومیٹک ہتھیار لیےموجود رہتے۔ ٹیپو ایک پہلوان اور شیروں کا شوقین تھا۔ اپنے ڈیرے پر اس نے دس شیر پال رکھے تھے جن کو وہ کھلا ساتھ لیے پھرتا اور ان کو اپنے ہاتھوں سے کھانا اور قلفیاں کھلاتا۔ ٹیپو بالکل انپڑھ تھا۔ اس نے ایک بندہ ملازم رکھا ہوا تھا جو اس کو اخبار پڑھ کے سناتا تھا۔ اس کا ملنا ملانا بہت تھا ۔ جتنے بھی بڑے سے بڑے پولیس آفیسرز تھے اور خاص طور پر جو رینکرز پولیس آفیسرز تھے ان کا اس ساری لڑائی میں بڑا رول رہا۔ وہ بہت آکے دونوں طرف کے ڈیروں پر بیٹھتے تھے۔
بلا کے قتل کے بعد دشمنی کی دہکتی آگ نے کئی گھرانوں کے چراغ گل کیئے۔ ایک دوسرے کے بندوں کا قتل ہوتا رہا۔گینگ وار شروع ہو چکی تھی ۔ہمایوں گجر، ناجی بٹ ، مناظر شاہ ، داؤد ناصر، ثنا گجر اور پنجاب کے کئی اور نامور اشتہاری گینگسٹرز ایک ایک کر کے طیفی و گوگی بٹ سے جا ملے ۔ حنیفہ اور بابا جو کبھی ٹیپو کی طاقت ہوا کرتے تھے وہ پہلے ہی طیفی و گوگی کی صفوں میں تھے ۔ ٹیپو ان سب سے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے بیتاب تھا۔ یہاں ٹیپو نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔
نعیم اور قیصر نامی گینگسٹر طیفی گروپ میں ٹیپو کیلئے کام کرنے لگے۔ بھولا سنیارا گروپ کے بھی کئی لوگ پیسے لے کر ٹیپو کیلئے مخبری کیا کرتے۔اور جو لوکل گینگسٹر تھے جو اس علاقے میں خاص طور پر والڈ سٹی یا اندرون لاہور میں بہت پنپ رہے تھے ، وہ دونوں گروپس کے ساتھ اپنے آپ کو لنک کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح ان کی گرپ بڑھتی تھی کہ فلانا فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا ، فلانا اس کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ٹیپو نے اپنے باپ سے ایک ہی بات سیکھی تھی کہ دھاک بٹھاؤ اور سامنے آئے بغیر کام نکلواتے جاؤ ۔ باپ کا انداز اپناتے ہوئے اس نے ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کو مروانا شروع کر دیا۔
اس کام کے لیے ٹیپو نے کرائے کے قاتلوں کا اور پولیس مقابلوں کا سہارا لیا ۔ پہلے اس نے بھولا سنیارا کو مخبری کر کے مروایا ،پھر ناجی بٹ اور ہمایوں گجر جیسے گینگسٹر بھی مارے گئے۔انسپکٹر نوید نے شاہدرہ میں پولیس مقابلے کر کے انہیں گولیوں سےبھون ڈالا ۔ٹیپو نے طیفی بٹ گینگ کے داؤد ناصر کو بھی نہیں چھوڑا جو بٹ کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔ نوے کے دہائی میں شاہ عالم گیٹ اور اندرون لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والا خوف اور دہشت کی علامت بن چکا تھا۔ طیفی بٹ بھی موت بانٹنے کے کھیل میں ٹیپو سے پیچھے نہ تھا۔
دشمنی کی آگ میں دونوں گروہوں نے کروڑوں روپے جھونک ڈالے۔ ایس ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک پولیس کا ہر فرد اس لڑائی کا حصہ بنتا چلا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسپکٹر عابد باکسر کے پولیس مقابلے مشہور ہو رہے تھے۔ اشتہاری ایک ایک کر کر ختم ہو رہے تھے۔ ٹیپو اور طیفی بٹ نے ایک دوسرے پر مقدمے کرنا شروع کر دیے تھے۔ کہتے ہیں دشمن داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ٹیپو اور طیفی کی دشمنی سے ان کی خواتین اب تک بچی ہوئیں تھیں۔مگر ایک روز ٹیپو نے ریڈ لائن کراس کر لی۔ پولیس میں اپنے لوگوں کے ذریعے اس نے حنیفہ اور بابا کی خواتین کو اٹھا لیا۔حنیفہ اور بابا اپنی خواتین پر آنچ آتی دیکھ کر غصے سے پاگل ہو گئے۔
اب ان دونوں نے باپ کے بعد بیٹے کو سبق سکھانے کی ٹھانی ۔ سنہ 2003 میں ٹیپو ایک مقدمے کی پیشی پر آیا تو لاہور کچہری کے باہر اس پر ایک بڑا قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ حملہ مبین بٹ کے ذریعے کیا گیا جو کہ مشہور کرائے کا قاتل تھا۔ٹیپو کے پانچ گارڈز مارے گئے اور وہ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ٹیپو کے لیفٹ رائٹ گولیاں چل رہی تھیں لیکن وہ بھاگ کر مجسٹریٹ کی عدالت میں گھس گیا۔ مقدمہ طیفی اور گوگی بٹ پر درج ہوا۔حنیفہ اور بابا نے ٹیپو پر کئی قاتلانہ حملے کروائے مگر قسمت یاوری کرتی رہی اور وہ ہر بار بچ نکلا۔
ٹیپو کے پاس گرے رنگ کی ایک شراڈ کار ہوتی تھی جو اس کو بہت پسند تھی۔ ٹیپو اس میں پھرتا بھی تھا۔ اس گاڑی پر تین بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر ہر بار ٹیپو بچ نکلا۔ حنیفہ و بابا کی جانب سے بار بار کے حملوں سے تنگ ہو کر بلآخر وہ اپنے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر دبئی منتقل ہو گیا اور وہاں ایک ہوٹل خرید لیا۔ٹیپو نے تینوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو ملک سے باہر پڑھایا۔ ٹیپو کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کی لاہور میں جائز ناجائز اربوں روپے کی جائیدادیں تھیں۔
گینگ کو چھوڑنا یا پرانی زندگی سے نکلنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اس لیے وہ دبئی میں زیادہ عرصہ نہ ٹھہر سکا۔ پھر یوں ہونے لگا کہ وہ فیملی سے مل کر کچھ عرصے بعد واپس لاہور آ جاتا۔بائیس جنوری سنہ 2010 کو ٹیپو دبئی سے لاہور جانے والی پرواز میں بیٹھا تھا اور کوئی اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی ہوئے تھا۔لاہور میں پانچ بہترین نشانہ بازوں کو ایک ہائی پروفائل قتل کی سپاری دی گئی تھی۔ لیکن جب کرائے کے قاتلوں کو ان کے ٹارگٹ ٹیپو کا نام بتایا گیا تو چاروں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے لیکن پانچویں نشانے باز خرم بٹ نے ٹیپو کو تنہا مارنے کی حامی بھر لی۔
خرم بٹ کا بھائی ٹیپو کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا تھا اور وہ ہر قیمت پر بھائی کے انتقام کا بدلہ چاہتا تھا۔ ائرپورٹ پر اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن خرم بٹ کو ائرپورٹ کے اندر اسلحہ پہنچا دیا گیا۔ جیسے ہی ٹیپو کار پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آتا ہے خرم اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ ٹیپو چوبیس گھنٹے ہسپتال میں موت سے لڑتا رہا اور پھر یہ جنگ ہار گیا۔ جان چلی گئی لیکن دشمنی ابھی بھی باقی تھی۔۔
ٹیپو جاتے جاتے اپنے باپ کے قتل سے شروع ہونے والی سولہ سالہ دشمنی اپنے اٹھارہ سالہ بیٹھے امیر بالاج کو ورثے میں دے گیا۔بالاج نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا تھا جہاں وہ اور اس کے بہن بھائی بہترین سکولز میں پڑھے تھے۔ باپ کے قتل کے بعد اب بالاج کو اٹھارہ سال کی عمر میں ڈیرہ سنبھالنا تھا۔مگر وہ اپنے خاندان کو ورثے میں ملی دشمنیاں ختم کرنا چاہتا تھا۔ ٹیپو ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں اپنے باپ کا بدلہ لوں گا۔ وہ طیفی اور گوگی کو نہیں مار سکا اور خود مارا گیا۔
ٹیپو کا بیٹا بالاج ٹرکاں والا صلح صفائی چاہتا تھا۔ وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس دشمنی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کوشش کی لیکن صلح صفائی میں پڑنے اور دنوں گینگز کی گارنٹی لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ٹیپو کے بعد بندوقیں کچھ عرصہ خاموش رہیں۔ امیر بالاج نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرا باپ قتل ہو گیا اور دشمنی کا ڈھول میرے گلے میں ڈال گیا۔میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔ بالاج جب بھی دشمنی ختم کرنے کی بات کرتا کوئی نہ کوئی اس کے سامنے آ کر اسے اپنے باپ دادا اور رشتہ دار کا خون یاد دلا دیتا۔ اُدھر طیفی بٹ گینگ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ٹیپو کا بیٹا دشمنی ختم کرنے میں مخلص ہو سکتا ہے۔
بالاج ڈیرے کی چار دیواری چھوڑ کر کہیں بھی نکلتا تو اسلحہ سے لیس محافظوں کا قافلہ اس کے آگے پیچھے ہوتا لیکن اس کا قلعے جیسا ڈیرہ اور محافظوں کا ٹولہ نہ تو دادا کی جان بچا سکا تھا نہ ہی باپ کی۔ ٹرکاں والا خاندان کے نصیب میں ایک اور موت لکھی جا چکی تھی۔ فروری سنہ 2024 لاہور کی ایک سوسائٹی میں شادی کی تقریب جاری تھی۔ڈی ایس پی اکبر کے گھر میں شادی کے لیے راستے پہ جگہ جگہ پولیس والے کھڑے ہیں۔ یہاں آنے والے ہر شخص کو دو سیکیورٹی لیئرز سے گزرنا پڑتا تھا۔اسلحہ تو دور وہاں سوئی لانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
تقریب میں ایک فوٹوگرافر کافی دیر سے لوگوں کی تصاویر لیتے کبھی سٹیج تو کبھی میز کے اردگرد مہمانوں کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کی نظریں بار بار اینٹرنس گیٹ پر اٹھتی ہیں۔ جیسے وہ کسی کا بڑی میں چینی سے انتظار کر رہا ہو۔ سب مہمان آ چکے تھے لیکن ڈی ایس پی اکبر کو تو بس اپنے عزیز دوست کا انتظار ہے۔بلآخر بندوق بردار محافظوں سے لدی گاڑیاں امیر بالاج کو لیے اڑتی ہوئی اپنی منزل تک آ پہنچیں۔اچانک فوٹو گرافر نے کیمرہ پھینک کر اپنے لباس سے ایک پستول نکالی اور بالاج پر فائر کر دیا۔ محافظوں نے پہلا فائر سنتے ہی جوابی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ چار گولیاں بالاج کے جسم کو چھلنی کر چکی تھیں۔اس کی لاش زمین پر پڑی تھی۔
اس گینگ وار کے دوران تین نسلیں گزریں اور بیسیوں افراد دشمنی کی آگ میں جل گئے۔بلا سے بالاج تک اس لڑائی میں زیادہ نقصان ٹرکاں والا فیملی نے اٹھایا۔طیفی بٹ کو دو روز قبل سی سی ڈی نے دبئی انٹرپول سے منگوا کر پولیس مقابلے میں پار لگا دیا ہے۔ گوگی بٹ کی تلاش کے لیے چھاپے جاری ہیں اور شنید ہے کہ اسے بھی پار لگا کر اس گینگ وار کا باب ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے گا۔لیکن لاہور میں جرائم کی دنیا ابھی موجود ہے۔کئی گینگسٹرز آج بھی بٹ اور ٹرکاں والا کی جگہ لینے کیلئے بے چین ہیں۔
یہ ساری داستان بہت اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائیں تو یہ بہت طویل اور بہت سنسنی خیز داستان ہے۔ کوشش کی ہے کہ خلاصہ لکھ دوں۔ اس پر ایک بہترین ویب سیریز پروڈیوس ہو سکتی ہے۔ کہانی سچی ہے۔ کہانی جرم کی ہے۔ کہانی سیاست کی ہے۔ کہانی کرپٹ سسٹم اور پولیس کے کردار کی ہے۔ بہت سے کردار ابھی ذکر میں نہیں آ سکے۔ اس داستان کا ہر کردار ایک منفرد کریکٹر ہے۔ ہر کریکٹر کا الگ بیک گراؤنڈ ہے۔ ہر کردار کی اپنی الگ کہانی ہے۔ دشمنیاں، بدمعاشی، قتل و غارت، ڈرگز، سسپنس، ایکشن، ڈرامہ، ۔۔۔۔