15/10/2025
کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا گیا بچہ — ایک ماں باپ کی بے حسی، ایک معاشرے کا نوحہ
آج میں ایک ایسی کہانی بیان کرنے جا رہا ہوں جسے لکھتے ہوئے قلم بھی کانپ رہا ہے، دل کے زخم تازہ ہو رہے ہیں اور انسانیت شرم سے جھک گئی ہے۔
چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔
میں حسبِ معمول کلینک میں مصروف تھا کہ اچانک وارڈ سے ایک کال موصول ہوئی —
"سر، ایک نومولود بچہ لایا گیا ہے… چنگچی والے نے بتایا ہے کہ اسے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا ہے!"
میری سانس رک گئی۔
فوراً وارڈ پہنچا تو وہ منظر دیکھ کر دل لرز گیا —
ایک ننھا سا جسم، پورا چہرہ زخموں سے بھرا ہوا، جیسے کسی ظالم درندے نے اسے نوچ کھایا ہو۔
ظاہر تھا کہ بچہ ساری رات کوڑے پر پڑا رہا،
اور بلیوں، کتوں نے اسے اپنی بھوک کا شکار بنا ڈالا…
ماں یا باپ — یا شاید دونوں — نے اس ننھی جان کو زندہ لاش بنا کر پھینک دیا تھا۔
ہم نے فوراً علاج شروع کیا۔
ہر لمحہ، ہر سانس اس کے لیے لڑنے لگا۔
بچے کے جسم پر تشدد کے نشان، زخموں میں پیپ، مگر آنکھوں میں اب بھی زندگی کی جھلک تھی۔
میں نے اپنے دوست، معروف پلاسٹک سرجن ڈاکٹر توصیف خان سے رابطہ کیا۔
ان کی آواز میں امید تھی —
"اگر ہم اسے بچا لیں، تو شاید اس کا چہرہ دوبارہ زندگی کی مسکراہٹ بن سکے۔"
دل میں اک کرن جاگی — شاید یہ معجزہ ہو جائے۔
لیکن… ہر بات انسان کے اختیار میں کہاں ہوتی ہے۔
اختیار تو اُس ذات کا ہے جس کے حکم سے زندگی سانس لیتی ہے۔
26 گھنٹے کی مسلسل جدوجہد،
پھر ایک لمحہ آیا جب مانیٹر کی لائٹس بجھ گئیں…
اور وہ ننھی جان خاموشی سے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔
اس وقت وارڈ کی فضا جیسے ماتم کدہ بن گئی۔
ڈاکٹر، نرسز، مریض — سب کی آنکھوں میں آنسو،
سب کے دل میں ایک ہی سوال —
آخر وہ ماں کون تھی؟
کیا اس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بچے کا چہرہ نہیں دیکھا ہوگا؟
یا شاید وہ مجبوریوں کے ہاتھوں اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ ممتا بھی ہار گئی؟
یہ صرف ایک واقعہ نہیں —
یہ انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے،
یہ یاد دہانی ہے کہ معاشرہ کہاں جا رہا ہے،
اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس ننھی روح کو جنت کے سب سے خوبصورت گوشے میں جگہ دے —
کسی ایک بچے کی کہانی شاید ہزاروں بچوں کی زندگی بدل دے —اس پیج کو فالو کریں تاکہ آپ تک ہر اہم پیغام پہنچے۔
ڈاکٹر سمیع اللہ خان سدوزئی