گرلز کمیونٹی سکول حکیم راغو D.I.K

گرلز کمیونٹی سکول حکیم راغو D.I.K Come To Learn ❤️Go To Lead

31/05/2025

*صوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ*
*بجٹ میں مندرجہ ذیل الاؤنسز کے اگر نام بھی تبدیل کر دئیے جائیں تو بھی کسی حد تک تسلی ہو جاۓ گی*
*ہاؤس رینٹ الاؤنس کو خیمہ الاؤنس*
*میڈیکل الاؤنس کو پھکی الاؤنس*
*کنوینس الاؤنس کو گدھا گاڑی الاؤنس*

Eata...
27/05/2025

Eata...

25/05/2025

نقل: فقط طالبِ علم کا گناہ نہیں، پوری قوم کا عذرِ گناہ ہے؛

#نقل، کیا یہ صرف طالب علم کا گناہ ہے؟
کیا ہم نے کبھی اس سوال پر غور کیا کہ اس کے پیچھے چھپی سماجی حقیقتیں، مادی ترجیحات اور نظام کی خامیاں کس حد تک اس بیماری کے بانی ہیں؟
اگر نقل صرف ایک تعلیمی جرم ہوتا، تو کیا ہم اسے صرف امتحانی قوانین اور سخت نگرانی کے ذریعے ختم کر پاتے؟

نہیں، نقل ایک فکری بیماری ہے، جو طالب علم کے قلم سے نکل کر پورے معاشرتی جسم میں سرایت کر چکی ہے۔
نقل دراصل ایک علامت ہے، اس شکست خوردہ سوچ کی جو محنت کے بجائے کامیابی کو فوراً حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی قوم کی بے صبری کی عکاسی کرتی ہے جو بیج بونے سے گریزاں ہے، مگر فصل کاٹنے کی آرزو دل میں رکھتی ہے۔ یہ وہ طرزِ فکر ہے جس میں تعلیم محض ایک ذریعہ بن کر رہ گئی ہے، مقصد نہیں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوال کیا کہ اگر تعلیم کا مقصد صرف نمبروں کا حصول بن جائے، تو اس کا اخلاقی و فکری نتیجہ کیا ہو گا؟
اگر ہم طالبِ علم کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ اسے یہ راستہ کس نے دکھایا؟ کیا وہ صرف اس دنیا میں جیتنے کے لیے دوڑتے ہیں یا پھر ان کے سامنے ایک ایسا ماحول ہے جس میں محنت کی بجائے شارٹ کٹس کا سہارا لیا جاتا ہے؟ والدین جو صبح شام اپنے بچوں کا تقابل کرتے ہیں: "فلانے کے بیٹے کے اتنے نمبر ہیں، تمہارے کیوں نہیں؟" یہ والدین جب اپنے بچے کو محنت کر کے بھی کم نمبروں کے ساتھ دیکھتے ہیں، تو مایوس ہو جاتے ہیں، لیکن اگر وہ نقل سے زیادہ نمبر لے آتے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
استاد کا کردار بھی کم اہم نہیں۔ وہ استاد جسے کردار سازی کا پیام بر ہونا چاہیے تھا، بسا اوقات اپنے ادارے کے مفاد کے لیے آنکھیں بند کر لیتا ہے، یا خود نقل کرواتا ہے۔ کیا یہ نہیں کہ وہ استاد جس نے کبھی سچ لکھنے کی ترغیب دی تھی، اب بسا اوقات سچ مٹانے میں مددگار بن چکا ہے؟
یہ وہ وقت ہے جب تعلیمی ادارے محض نمبر پیدا کرنے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولز کا مافیا "رزلٹ 100٪" کے بورڈز لگا کر تعلیم کا جنازہ پڑھ رہا ہے۔ انہیں کردار نہیں، گراف چاہیے؛ انہیں طالب علم کا ذہن نہیں، اس کی مارک شیٹ درکار ہے۔ اور پھر ان اداروں کی فہرست میں استاد کی جگہ ایک سیلز مین بن چکا ہے، جو صرف تعلیم نہیں، بلکہ کاروبار کرتا ہے۔
پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے امتحانی نظام کی کیا حیثیت ہے؟ وہ امتحانی مراکز جو نگرانوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں، اکثر صرف رسمی حیثیت رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں تو نقل کی ایسی مارکیٹیں لگی ہوتی ہیں جہاں سوالوں کے دام اور جوابات کا بھاؤ طے ہوتا ہے۔ پھر ریاست خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہوتی ہے، اور معاشرہ مصروف۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس تعلیمی اخلاقی تباہی کا نوحہ لکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ نقل کے اثرات صرف امتحان گاہ تک محدود نہیں رہتے؟ یہ ایک ایسی عادت بن جاتی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں در آتی ہے۔ جب طالب علم میدانِ عمل میں قدم رکھتا ہے، تو کیا وہ سچائی کی قدر کرتا ہے یا وہ شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے؟ جب وہ عدالت یا حکومتی دفاتر میں آتا ہے، تو کیا وہ صداقت کو اہمیت دیتا ہے یا صرف اپنی جگہ بنانے کی فکر میں ہوتا ہے؟ یہ وہ ذہنیت ہے جو کل تک نقل کے ذریعے نمبروں تک پہنچی، اور آج وہ معاشرتی فیصلوں میں چالاکی کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ قوم کا مستقبل کیا ہو گا؟ سوال یہ ہے کہ کیا اس قوم کا کوئی مستقبل باقی بھی رہ جائے گا؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسل علم سے لبریز ہو، سچ پر قائم ہو اور کردار میں بے داغ ہو، تو ہمیں صرف نقل نہیں بلکہ اس کی جڑوں کو کاٹنا ہوگا۔ وہ جڑیں جو گھر، استاد، نظام اور پورے معاشرے میں گڑی ہوئی ہیں۔
کیا ہم اپنے معاشرتی اور تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم ان اساتذہ کی قدر کریں گے جو صرف امتحانی سلیبس نہیں پڑھاتے، بلکہ زندگی کا درس بھی دیتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو سچائی اور دیانت کا پیکر بنانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم یہ سوال پوچھیں گے کہ ہم نے تعلیم کو صرف نمبروں تک کیوں محدود کر دیا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار ہیں کہ نقل کی جڑیں اس معاشرتی ڈھانچے میں پھیلی ہوئی ہیں جہاں کامیابی کی قیمت صرف نمبروں میں لگائی جاتی ہے؟
یہ وہ وقت ہے جب ہمیں ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جب ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ نقل محض ایک عمل نہیں بلکہ ایک بیماری ہے۔ اور اگر ہم نے اس بیماری کا علاج نہ کیا، تو کل یہی نقل شدہ کامیابیاں ہماری اجتماعی ناکامی کا سبب بن جائیں گی۔
آئیے! سوال کریں، جھنجھوڑیں، اور یہ جان لیں کہ نقل نہ صرف ایک عمل ہے، بلکہ ایک فتنہ ہے۔ اگر ہم نے اسے نہ روکا، تو ہماری کامیابیاں ہمارے گناہ کی نشانی بن جائیں گی۔

𝔸𝕕𝕞𝕚𝕤𝕤𝕚𝕠𝕟𝕤 𝕠𝕡𝕖𝕟 𝕥𝕚𝕝𝕝 𝟛𝟙 𝕄𝕒𝕪 𝟚𝟘𝟚𝟝 𝔾𝕚𝕣𝕝𝕤 ℂ𝕠𝕞𝕞𝕦𝕟𝕚𝕥𝕪 𝕊𝕔𝕙𝕠𝕠𝕝 𝔼𝕊𝔼𝔽 𝔻𝕀𝕂 𝕂ℙ𝕂𝔽ℝ𝔼𝔼 𝔹𝕆𝕆𝕂𝕊 𝔽𝕣𝕖𝕖 𝔼𝕕𝕦𝕔𝕒𝕥𝕚𝕠𝕟 𝕊𝕠𝕝𝕒𝕣 𝔽𝕒𝕔𝕚𝕝𝕚𝕥𝕪 𝕒𝕧𝕒𝕚𝕝𝕒𝕓𝕝𝕖..
24/05/2025

𝔸𝕕𝕞𝕚𝕤𝕤𝕚𝕠𝕟𝕤 𝕠𝕡𝕖𝕟 𝕥𝕚𝕝𝕝 𝟛𝟙 𝕄𝕒𝕪 𝟚𝟘𝟚𝟝 𝔾𝕚𝕣𝕝𝕤 ℂ𝕠𝕞𝕞𝕦𝕟𝕚𝕥𝕪 𝕊𝕔𝕙𝕠𝕠𝕝 𝔼𝕊𝔼𝔽 𝔻𝕀𝕂 𝕂ℙ𝕂
𝔽ℝ𝔼𝔼 𝔹𝕆𝕆𝕂𝕊 𝔽𝕣𝕖𝕖 𝔼𝕕𝕦𝕔𝕒𝕥𝕚𝕠𝕟 𝕊𝕠𝕝𝕒𝕣 𝔽𝕒𝕔𝕚𝕝𝕚𝕥𝕪 𝕒𝕧𝕒𝕚𝕝𝕒𝕓𝕝𝕖..

*محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کا ضم اضلاع کے ہونہار طلباء کے لیے "فاؤنڈیشن ایکسیلنس اسکالرشپ پروگرام"*ضم اض...
21/05/2025

*محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کا ضم اضلاع کے ہونہار طلباء کے لیے "فاؤنڈیشن ایکسیلنس اسکالرشپ پروگرام"*
ضم اضلاع کے کمیونٹی سکولوں کے 20 ذہین طلباء و طالبات کا میرٹ پر انتخاب۔ صوبائی ٹسٹنگ ایجنسی ایٹا کے تحت مکمل شفاف نظام کے ذریعے طلباءو طالبات کا انتخاب۔
صوبے کے معروف اداروں میں مفت داخلہ کلاس 6 سے بارہویں جماعت تک مکمل مفت سکالرشپ۔
ٹیوشن فیس، رہائش، کتابیں اور یونیفارم محکمہ تعلیم کا زیلی ادارہ مرجڈ ایریاز ایجوکیشن فاؤنڈیشن ادا کرےگا۔
طلباء کا انتخاب پراجیکٹ مینجمنٹ کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا ہے۔
تعلیمی مساوات اور ضم اضلاع میں تعلیمی ترقی کے لئے ایک انقلابی اقدام۔

20/05/2025

یہ وہ Market Base Pay ہے جس کی ہم بات کرتے ہیں۔
یہ ماہانہ تنخواہ کی لسٹ دیکھیں تو خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔

فریش بھرتی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 1,50,000 روپے
5 سال سروس کے بعد ۔۔۔۔ 3,05,520 روپے
10 سال سروس کے بعد۔۔۔ 4,48,280 روپے
15 سال سروس کے بعد۔۔۔ 9,00,090 روپے

اگر صوبائی یا مرکزی حکومت پنشن ختم کر رہے ہیں تو پھر اس کے مقابلے میں موجودہ تنخواہوں کے بجائے Market Base Pay لاگو کیا جائے۔
اگر پنشن نہ ہو تو اصولا اور قانونا مارکیٹ بیس پے سرکاری ملازم کا بنیادی حق بنتا ہے۔
حکومت جب بات کرتی ہے کہ باہر کے کئی ممالک میں پنشن نہیں ہے اور وہاں پر CP Fund ہے تو یاد رہے کہ وہ ممالک اپنے ملازمین کو Market Base Pay دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ تمام بوڑھوں کو Old Age Benifits کے نام سے مراعات/ Allowances دے رہی ہے۔
لیکن افسوس ہمارے صوبائی اور مرکزی حکومتوں پر کہ تنخواہ BPS میں دیتے ہیں اور پنشن کے حوالے سے پھر CP Fund لاگو کراتے ہیں۔
دوہرا نظام اور دوہرا معیار نہیں چلے گا۔
یا تو تنخواہ BPS بمع پنشن دیں گے
اور
اگر CP Fund دینا چاہتے ہیں تو پھر Market Base Pay دینا پڑے گا۔
بصورت دیگر CP Fund ایک کالا قانون ہے اور ملازم دشمن پالیسی ہے۔ جسے کوئی بھی سرکاری ملازم تسلیم نہیں کرتا۔

گرمی کی شدت کی وجہ سے سکول کے اوقات کار میں تبدیلی۔حاضری= 7:15چھٹی= 11:40
20/05/2025

گرمی کی شدت کی وجہ سے سکول کے اوقات کار میں تبدیلی۔
حاضری= 7:15
چھٹی= 11:40

19/05/2025

پرنسپل صاحبان سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے اپنے اسکول میں ٹھنڈے پانی کا لازمی انتظام کریں ۔ہمارے سکولز کے بچے دراصل ہمارے بچے ہوتے ہیں ۔ہمیں اپنے بچوں کی طرح خیال رکھنا چاہیے ۔
ESEF DIKHAN KPK

Offline
19/05/2025

Offline

18/05/2025

چھٹیاں ہو جائیں تو بچے پھر بھی ٹیوشن جاتے اور فیس دیتے ہیں آرام پھر بھی نہیں کرتے کیوں نہ صبح 6.30سے 10تک ثمر کیمپ ہوں تمام سکولوں میں تو نصاب بھی پورا ہوگا اور غریب کی تعلیم بھی ٹھیک رہے گی.
ESEF KPK DIKHAN

18/05/2025

Address

Dera Ismail Khan

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when گرلز کمیونٹی سکول حکیم راغو D.I.K posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share