15/10/2025
قلعہ روہتاس Rohtas Fort
قلعہ روہتاس جنوبی ایشاء کے سب سے بڑے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے جس کی ایک طرف نالہ کس دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گھری کھاٸی اور گھنا جنگل واقع ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم میں واقع ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس قلعہ کی تعمیر کے لیے اٹھنے والے اخراجات 34 لاکھ 25 ہزار تھے 4 سال 7 ماہ میں مکمل ہوا جو کہ شہر اسلام آباد سے تقریبا 113 کلومیٹر کی دوری پر اسلام آباد سے گجرات کی جانب واقع ہے۔یہ قلعہ کم و بیش 4 کلومیٹر
کے رقبہ کو گھیرے ہوے ہے۔ اور اس قلعہ روہتاس کی دیواریں بہت مضبوط اور اونچی ہیں۔ یہ قلعہ آج بھی قائم و دائم ہے۔ یہ قلعہ روہتاس برصغیر پاک و ہند میں خالصتاً فوجی فنِ تعمیر کا عظیم الشان اور منفرد نمونہ ہے۔ شیر شاہ سوری کا اصل نام (فرید خاں) تھا1486عیسوی میں سہرام ( انڈیا)میں پیدا ہوا جبکہ اس کی وفات 1545عیسوی میں کلنجرکی جنگ میں ہوئی ۔ شیر شاہ سوری کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے مشہور علاقہ ( روا) سے تھا۔ شیر شاہ سوری نے اس قلعہ کی تعمیر کا حکم 948ہجری بمطابق 1541عیسوی میں ٹوڈریل کھتری اور شاہو سلطانی کو دیا۔ یہ قلعہ 1548میں سات سال کے مختصر عرصہ میں مکمل ہوا۔ شیر شاہ سوری کے داد ا کی ہندوستان میں آمد علاقائی طور پر شیر شاہ سوری کا تعلق افغانستان کے مشہور علاقہ روا سے تھا۔ اس کا دادا ابراہیم سوری اپنے بیٹے حسن خاں سُوری کے ساتھ بہلول لودھی کی درخواست پر ہندوستان آیا۔ اور ترنول کے پرگنہ علاقے میں آباد ہوگیا۔ شیر شاہ سوری جس نے سُوری خاندان کی بنیاد
رکھی ، کچھ عرصہ جلال خان، ابراہیم لودھی ، بہار خان لوھانی اور مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ اُس کے بعد اس نے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر بہار اور بنگال کا انتظام سنبھالااور دہلی کی طرف پیش قدمی کی ۔ اس نے 1539ء میں بادشاہ ہمایوں کو چونسہ اور قنوج کی لڑائیوں میں شکست دی ۔ مختلف علاقوں میں قبضہ کرتے ہوے جب شیر شاہ سوری اس اہم جگہ پر پہنچا تو اس نے ایک دیو قامت قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس قلعہ کی تعمیر کا بنیادی مقصد مُغل بادشاہ ہمایوں جو شکست کے بعد ایران بھاگ گیا تھا کی ممکنہ واپسی اور کشمیریوں و گھکھڑوں جو مغلوں کے پرانے دوست تھے پر نظر رکھنا تھا۔ بے قاعدہ ہیبت والے اس دیو قامت قلعہ کا محیط 4 کلومیٹر سے زیادہ ہے ۔ جبکہ اندرونی رقبہ 175ایکڑ پر محیط ہے۔ اس کی موٹی فصیل جو کہ دو سے تین چبوتروں پر مشتمل ہے ، پہاڑوں کے قدرتی نشیب و فراز پر بنائی گئی ہے۔ یہ فصیل 30 سے40 فٹ تک چوڑی جبکہ 50 سے 80فٹ سے تک اونچی ہے۔ اس فصیل کی مضبوطی کے لیے 72برج ، ٍ14دروازےاور تقریبا 2377کنگرے ہیں جن میں تیر اندازوں ، توپچیوں اور
گرم پانی انڈیلنے والوں کے لیے خاص سُوراخ موجود ہیں۔ قلعہ کے اندرانی حصے کو ایک دیوار کی مدد سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اوپر والا مغربی حصہ جوکہ زیادہ تر شاہی خاندان کے استعمال میں رہا ( اندرکوٹ ) کہلاتا ہے۔ جبکہ قلعہ کا باقی حصہ جو سپاہیوں ، کاریگروں اور قلعہ کی تعمیر کرنے والوں کے استعمال میں رہا آرمی ایریا یا بنیادی قلعہ کہلاتا ہے۔ اندر کوٹ دو رہائشی عمارتوں حویلی مان سنگ اور رانی محل پر مشتمل ہے۔
اس قلعہ میں سوری زمانے کے فن تعمیر کا سب سے اعلیٰ اور دلکشن نمونہ شاہی مسجد ہے۔ جس کی تزیئن وآرائش خوبصورت چھجوں ، دلکش بریکٹوں ، چھوٹےکنگروں اور میڈلوں سے کی گئی ہے۔ قلعہ میں پانی کی ضروریات کو آسانی سے پورا کرنے کے لیے تین عدد سیڑھیوں والے کنویں بھی موجود ہیں۔ اس قلعہ کی دلکشی ، اعلی کاریگری ، عظیم فن تعمیر ، تاریخی اور آرکیا لوجیکل اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے 1997ء میں اسے تاریخی عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اور یادگار تحفظ نوادرات کے قانون مجریہ 1975ء کے تحت محفوظ قرار ی گئی۔یہ قلعہ اپنی نوعیت کا واحد قلعہ ہے جس کی خوبصورتی آج بھی قاٸم ہے جسے دیکھنے نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اور سوری دور کی فن تعمیر اور مہارت کا اندازہ لگاتے اور سراہتے ہیں
۔۔