17/09/2025
https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770567342351420/?app=fbl
خان شہید (شاہی مقبرہ) دیر میں جو شخصیات مدفون ہیں اس کے مختصر تاریخ ترجمان دیر رائل فیملی اخون خیل نواب زادہ فاروق عالم خان کے قلم سے
*2. خان غزن خان (رح)*
خان غزن خان شجاعت پناہ یوسفزئی
حکمرانِ دیر اور غازیٔ امبیلہ (1810ء – 1870ء تقریباً)
مقالہ و تحقیق: آرکیٹیکٹ فاروق خان
تعارف
خان غزن خان شجاعت پناہ یوسفزئی کو دیر کے سب سے طاقتور اور طویل حکمرانی کرنے والے حکمرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی وجاہت، شجاعت اور شاہانہ شان کے لئے مشہور تھے بلکہ عسکری حکمت عملی، سیاسی بصیرت اور قبائلی اتحاد میں بھی ایک بے مثال شخصیت تھے۔ 1936ء میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی کے پروگرام انڈین لسنر میں ذکر کیا گیا کہ دیر کے حکمرانوں کو ہندوستان کے دیگر مہاراجاؤں جیسا رتبہ، وقار اور اعزاز حاصل تھا۔
خان غزن خان کو خاص طور پر ان کی بہادری، گھڑ سواری، شکار کے شوق، گوریلا جنگی حکمت عملی، مضبوط ریاستی نظام، اور سب سے بڑھ کر برطانوی سامراج کے خلاف جنگِ امبیلہ (Ambela Campaign) کی قیادت کی وجہ سے تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔
شخصیت اور ذاتی اوصاف
خان غزن خان وجیہہ اور خوش شکل شخصیت کے مالک تھے۔
وہ جسمانی طور پر مضبوط، چاق و چوبند اور توانائی سے بھرپور حکمران تھے۔
شکار اور گھڑ سواری ان کے پسندیدہ مشاغل میں شامل تھے، جو ان کی عسکری زندگی کے لئے عملی تربیت بھی ثابت ہوئے۔
انہیں گوریلا وار (Guerrilla War) کے حربوں پر گہری مہارت حاصل تھی، جس سے انہوں نے دشمنوں کو حیران و پریشان کیا۔
پشتون روایات کے مطابق وہ مہمان نواز، جرأت مند اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے والے حکمران سمجھے جاتے تھے۔
حکومتی ڈھانچہ اور انتظامی اصلاحات
خان غزن خان نے دیر کی روایتی حکمرانی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی۔
کابینہ کا قیام: مختلف محکموں کے وزراء مقرر کئے، جو انتظامی، مالیاتی اور عدالتی امور دیکھتے تھے۔
سوات میں علیحدہ انتظامیہ: انہوں نے وادیٔ سوات کے لئے ایک الگ انتظامی ڈھانچہ قائم کیا تاکہ ریاست کے معاملات بہتر طور پر چلائے جا سکیں۔
قلعہ جات کی تعمیر: دیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دور دراز مقامات پر قلعے تعمیر کروائے۔ یہ قلعے صرف دفاعی نہیں بلکہ انتظامی مراکز کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے۔
چترال پر اثر و رسوخ: برطانوی ریکارڈز کے مطابق چترال دیر کا خراج گزار تھا اور وہاں سے دیر کو باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا تھا۔
عسکری قوت اور فوجی نظام
خان غزن خان کی سب سے بڑی طاقت ان کی زبردست فوج تھی۔
ان کے پاس 80,000 گھڑ سواروں پر مشتمل ایک عظیم فوج تھی۔
12,000 سپاہیوں پر مشتمل ایک خصوصی فورس (Special Force) بھی قائم کی گئی، جو جنگوں اور خاص مہمات کے لئے استعمال ہوتی تھی۔
وہ اپنی فوج کو جدید بنانے کے لئے مختلف ذرائع سے اسلحہ اور ہتھیار خریدتے تھے۔
اپنی فوجی مہارت اور گوریلا جنگی حکمت عملی کی وجہ سے وہ برطانوی افواج کے لئے ایک سخت حریف ثابت ہوئے۔
برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد
ابتدائی مزاحمت
1852ء تا 1853ء کے دوران خان غزن خان نے اپنی افواج کو شبقدر، کوہاٹ اور پشاور کی طرف بھیجا تاکہ وہاں برطانوی افواج کے خلاف پشتون قبائل کی مدد کی جا سکے۔ اس دور میں دیر، ملاکنڈ اور اردگرد کے علاقے برطانوی تسلط کے خلاف قبائلی مزاحمت کا مرکز بن گئے۔
جنگِ امبیلہ (Ambela Campaign)
خان غزن خان کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگِ امبیلہ برصغیر کی نوآبادیاتی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
یہ جنگ 1863ء میں لڑی گئی، جس میں پشتون قبائل اور دیر کے لشکر نے برطانوی افواج کا سامنا کیا۔
خان غزن خان نے 6,000 گھڑ سواروں کی قیادت کی، جبکہ مختلف قبائل کے کل جنگجوؤں کی تعداد 20,000 کے قریب تھی۔
جنگ کے دوران 5,000 پشتون شہید ہوئے جبکہ 3,000 سے زائد برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔
جنگ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے اپنے کئی سپاہیوں کو وِکٹوریا کراس جیسے اعلیٰ عسکری اعزازات سے نوازا۔
لیکن اس کے باوجود برطانیہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور قبائلی اتحاد کو شکست نہ دے سکے۔
یہ جنگ خان غزن خان کو ہمیشہ کے لئے تاریخ میں غازیٔ امبیلہ کے لقب سے امر کر گئی۔
سیاسی بصیرت اور قبائلی اتحاد
خان غزن خان نے اپنی حکمت عملی سے مختلف پشتون قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔
انہوں نے سوات، بونیر، پنجکوڑہ اور ملاکنڈ کے قبائل کو اپنے ساتھ ملایا۔
ان کی سیاسی بصیرت کا کمال یہ تھا کہ قبائل، جو عمومی طور پر باہمی اختلافات کا شکار رہتے تھے، برطانوی دشمن کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہو گئے۔
حکمرانی کا طویل دور اور وفات
خان غزن خان نے 40 سال سے زائد عرصہ تک دیر پر حکومت کی۔
ان کا دور امن و خوشحالی، عسکری طاقت اور مزاحمت کا دور تھا۔
ان کی وفات کے بعد دیر میں سیاسی تبدیلیاں آئیں لیکن ان کا نام آج بھی دیر کی تاریخ میں آزادی اور غیرت کے استعارے کے طور پر زندہ ہے۔
نتیجہ
خان غزن خان شجاعت پناہ یوسفزئی کا شمار اُن حکمرانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے:
دیر کو ایک مضبوط اور خودمختار ریاست بنایا،
فوجی اور سیاسی نظام کو منظم کیا،
پشتون قبائل کو متحد کیا،
اور برطانوی سامراج کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی قبائلی جنگ کی قیادت کی۔
ان کی شخصیت، کردار اور وراثت آج بھی دیر اور پشتون تاریخ میں زندہ ہے۔ وہ ایک ایسے حکمران تھے جنہوں نے آزادی اور غیرت کے پرچم کو بلند رکھا اور اپنی قوم کو غلامی کے طوق سے بچانے کے لئے آخری دم تک جدوجہد کی۔