Bamat baba welfare organization

Bamat baba welfare organization Bamat baba Welfare Organization Remember the needy families who have helped depend only on your help

20/10/2025

آپ تمام معزز احباب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر آپ کے پاس *ریاست دیر* سے متعلق کوئی قیمتی یادگار موجود ہو — جیسے:
- پرانی کتابیں
- دیر کے پرانے گانے
- تاریخی تصاویر یا دستاویزات
- یا کسی اور کے پاس ایسی چیزوں کی معلومات ہو
تو براہِ کرم ہم سے *میسنجر* پر رابطہ کریں۔
ہماری کوشش ہے کہ ان قیمتی ورثوں کو *محفوظ* کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تاریخ سے جڑی رہیں۔
*آپ کا تعاون ہمارے ماضی کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔*

25/09/2025

دیر شاہی مقبرہ میں کام جاری ہے دایم شاہ صاحب خود نگرانی کررہا ہے

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770563632351791/?app=fbl
17/09/2025

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770563632351791/?app=fbl

خان شہید (شاہی مقبرہ) دیر میں جو شخصیات مدفون ہیں اس کے مختصر تاریخ ترجمان دیر رائل فیملی اخون خیل نواب زادہ فاروق عالم خان کے قلم سے

*1. خان قاسم خان (رح)*

خان قاسم خان یوسفزئی (1814ء – 1822ء): دیر کا خودمختار افغان حکمران
مقالہ و تحقیق: آرکیٹیکٹ فاروق خان
تعارف

افغان تاریخ خصوصاً خطۂ دیر کی سیاسی و سماجی تاریخ میں خان قاسم خان یوسفزئی ایک نہایت اہم اور مرکزی کردار کے طور پر ابھرتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت (1814ء – 1822ء) مقامی خودمختاری، عسکری طاقت، اسلامی عدل و انصاف اور پشتون ولی کی روایات کی پاسداری کے حوالے سے سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ برطانوی مؤرخین اور مقامی روایت دونوں انہیں دیر کے سب سے طاقتور حکمرانوں میں شمار کرتے ہیں۔

فوجی طاقت اور عسکری نظام

میجر ریورٹری (Major Raverty) جیسے معروف برطانوی مؤرخین کا کہنا ہے کہ خان قاسم خان کے پاس 40,000 گھڑ سواروں پر مشتمل ایک وسیع و منظم لشکر تھا۔ یہ تعداد اُس دور کے کسی بھی افغان حکمران کے لئے غیرمعمولی سمجھی جاتی ہے۔ ان کے لشکر میں:

گھڑ سوار، جو تیزی اور چابکدستی میں مشہور تھے۔

پیدل سپاہی، جو پہاڑی جنگی حکمت عملی میں ماہر تھے۔

قبائلی لشکری، جو مشکل وقت میں اپنے قبائل کی طرف سے آتے اور خان کے جھنڈے تلے لڑتے۔

یہ فوج صرف جنگی مقاصد کے لئے نہیں بلکہ داخلی امن قائم رکھنے اور تجارتی راستوں کے تحفظ کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی۔

علاقائی عملداری

خان قاسم خان کی عملداری پانچ بڑے اور اہم خطوں تک وسیع تھی:

بونیر – جو ہمیشہ سے پشتون قبائل کی خودمختار ریاستوں میں اہم مقام رکھتا تھا۔

سوات – اُس وقت متعدد قبائلی سربراہوں اور مذہبی پیشواؤں کے زیر اثر تھا، لیکن خان قاسم خان نے اسے اپنی فوجی طاقت سے اپنے اثر میں رکھا۔

پنجکوڑہ – ایک نہایت اسٹریٹیجک وادی، جسے تجارتی قافلے استعمال کرتے تھے۔

بشکار (کاشکار) – یہ خطہ بدخشاں اور چترال کی طرف جانے والے راستوں پر واقع تھا، جس کی حکمرانی پر قبضہ قاسم خان کی سیاسی بصیرت کا ثبوت ہے۔

کوہستان اور دیر – مرکزی اقتدار کا علاقہ، جہاں سے وہ اپنی حکومت چلاتے تھے۔

ان خطوں کی قبائل اپنے اندرونی جھگڑوں کے باوجود مشکل وقت میں خان قاسم خان کے جھنڈے تلے متحد ہو جاتی تھیں۔

حکمرانی کا نظام
اسلامی عدل و انصاف

خان قاسم خان نے شریعت اسلامیہ کے قوانین اور پشتون روایتی نظام (پشتون ولی) کو ملا کر ایک مضبوط عدالتی ڈھانچہ قائم کیا۔

جرگہ سسٹم کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی۔

مقدمات کا فیصلہ قاضیوں اور جرگہ ممبران کی مشاورت سے ہوتا۔

قتل، چوری، اور دیگر بڑے جرائم پر شرعی حدود اور جرمانے نافذ کئے جاتے۔

پشتون ولی اور رواج

پشتون ولی کی روایات مثلاً بدل، ننگ، میلمستیا اور پناہ کو ریاستی سطح پر نافذ کیا گیا۔ اس سے قبائل کو حکومت کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم ہوا۔

معیشت اور تجارت

خان قاسم خان کے دور کو دیر کی تاریخ میں تجارتی خوشحالی کا دور کہا جا سکتا ہے۔

تجارتی قافلوں کے لئے راستوں کی حفاظت کے لئے فوجی چوکیاں قائم کی گئیں۔

الفنسٹون (Elphinstone) کے مطابق انہوں نے پولیس اور امدادی فورسز بھی قائم کیں تاکہ تاجروں کو ہر قسم کی لوٹ مار اور خطرے سے بچایا جا سکے۔

کشمیر، پنجاب اور زیریں پختونخواہ کے تاجر دیر کا رخ کرنے لگے۔

دیر اُس زمانے میں ایک چھوٹا مگر محفوظ تجارتی مرکز بن گیا، جہاں نمک، غلہ، خشک میوہ جات اور گھوڑوں کی خرید و فروخت عام تھی۔

سیاسی تعلقات اور بین الاقوامی کردار

قاسم خان نے کابل کے ساتھ اتحاد قائم کیا تاکہ ممکنہ برطانوی یا سکھ حملے کے خلاف مشترکہ دفاع کیا جا سکے۔

یہ اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف مقامی سردار نہیں بلکہ ایک مدبر اور دوراندیش سیاسی رہنما بھی تھے۔

ایک معاہدہ بھی ہوا جس کے تحت دونوں خطے ایک دوسرے کی مدد کرنے پر متفق ہوئے۔

یہ خارجہ پالیسی اُس دور کے دیگر پشتون حکمرانوں سے کہیں زیادہ منظم تھی۔

شخصیت اور قیادت

خان قاسم خان کی شخصیت میں سختی اور نرمی دونوں پہلو موجود تھے:

ایک طرف وہ سخت گیر عسکری حکمران تھے جنہوں نے بڑے بڑے سلاطین کو زیر کیا۔

دوسری طرف وہ قبائلی سرداروں کے ساتھ مشاورت کو بھی اہمیت دیتے تھے۔

مقامی روایات کے مطابق وہ دیندار، شریعت پر کاربند اور مہمان نواز تھے۔

وفات اور تاریخی وراثت

1822ء میں خان قاسم خان ایک المناک حادثے کے باعث وفات پا گئے۔ ان کی موت کے بعد دیر کے علاقے میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، لیکن ان کا نام آج بھی دیر کے تاریخی حافظے میں بہادری، خودمختاری اور عدل کے استعارے کے طور پر زندہ ہے۔

نتیجہ

خان قاسم خان یوسفزئی نہ صرف دیر بلکہ پورے پختون خطے کے ان حکمرانوں میں شامل ہیں جنہوں نے:

مقامی قبائل کو متحد کیا،

اسلامی اور پشتون روایات کو نافذ کیا،

تجارت کو فروغ دیا،

اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے کے لئے سیاسی بصیرت سے فیصلے کئے۔

ان کی حکمرانی کا عشرہ دیر کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے،

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770565015684986/?app=fbl
17/09/2025

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770565015684986/?app=fbl

خان شہید (شاہی مقبرہ) دیر میں جو شخصیات مدفون ہیں اس کے مختصر تاریخ ترجمان دیر رائل فیملی اخون خیل نواب زادہ فاروق عالم خان کے قلم سے

*3. نواب رحمت اللہ خان (رح)*
نواب رحمت اللہ خان یوسفزئی (1870ء – 1884ء)

تحقیق و تحریر: Architect فاروق خان

ابتدائی تعارف اور شخصیت

نواب رحمت اللہ خان یوسفزئی ریاست دیر کے اُن حکمرانوں میں شامل ہیں جنہیں تاریخ میں ان کی عسکری بہادری، سیاسی بصیرت اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمتی کردار کی بدولت نمایاں مقام حاصل ہے۔

برطانوی مؤرخین نے اُن کی شخصیت کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق رحمت اللہ خان ایک طویل القامت، خوش شکل، مضبوط جسم اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی فطری قیادت کی صلاحیت اور عسکری جرات نے انہیں اپنے عہد کا ایک مثالی حکمران بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز ریکارڈز میں اُنہیں ایک ایسے حکمران کے طور پر یاد کیا گیا ہے جو نہ صرف اپنے قبیلے بلکہ خطے کے کئی دیگر اتحادیوں کی نمائندگی کرتا تھا۔

کابل کا سرکاری دورہ (1873ء)

1873ء میں نواب رحمت اللہ خان کو کابل جانے کا موقع ملا۔ اس دورے کی اہمیت دو پہلوؤں سے ہے:

بین الاقوامی سطح پر پہچان: وہ بادشاہ شیر علی خان کے دربار میں شریک ہوئے جہاں انہیں ’’نواب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ یہ اعزاز دیر کے حکمران کے مرتبے کو افغانستان کے اعلیٰ سیاسی حلقوں میں تسلیم کیے جانے کی دلیل ہے۔

تحائف اور مراعات: بادشاہ شیر علی خان نے انہیں جدید بندوقیں اور سالانہ الاؤنس بھی دیا، جس سے نہ صرف اُن کے عسکری وسائل میں اضافہ ہوا بلکہ اُن کی حیثیت بھی مزید مستحکم ہوئی۔

یہ دورہ دیر کو افغانستان اور وسطی ایشیائی سیاست میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر متعارف کرانے کا باعث بنا۔

برطانوی توسیع پسندی اور عسکری صورتِ حال

19ویں صدی کا وسط و آخری حصہ ’’گریٹ گیم‘‘ (Great Game) کے عروج کا زمانہ تھا، جہاں برطانیہ اور روس وسطی ایشیا اور برصغیر پر اپنا تسلط جمانے کے لیے سرگرم تھے۔

برطانوی منصوبہ یہ تھا کہ کشمیر کے راجہ کی مدد سے چترال پر قبضہ کیا جائے تاکہ بروغل وادی کے راستے روس تک رسائی حاصل ہو سکے۔

لیکن برطانوی ماہرین نے اس پر اعتراض اٹھایا۔ ان کا مؤقف تھا کہ موجودہ وقت میں یہ اقدام نامناسب ہے کیونکہ نواب رحمت اللہ خان یوسفزئی کے چترال کے کٹور شاہی خاندان سے نسلی و تاریخی تعلقات تھے۔ دونوں خاندانوں میں نسل در نسل اتحاد اور سیاسی روابط قائم تھے۔

اس کے ساتھ ہی نواب رحمت اللہ خان اور ملیزئی قبیلے کو امبیلہ جنگ (1863ء) اور شبقدر کے معرکوں میں عسکری تجربہ حاصل تھا۔

ان وجوہات کی بنا پر انگریز حکام نے اس نتیجے پر پہنچا کہ نواب رحمت اللہ خان کی موجودگی میں براہِ راست چترال کی طرف پیش قدمی ایک بڑی جنگ کو جنم دے گی۔ اس طرح اُن کی شخصیت نے عملی طور پر برطانوی منصوبوں کو کئی برس تک مؤخر کر دیا۔

کشمیر اور چترال کے ساتھ اتحاد

نواب رحمت اللہ خان نے کشمیر کے راجہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات قائم رکھے۔ یہ تعلقات محض سیاسی نہیں بلکہ عسکری تعاون پر بھی مبنی تھے۔

کشمیر کے ساتھ اتحاد نے انہیں ایک وسیع تر دفاعی دائرہ فراہم کیا۔

چترال کے کٹور خاندان کے ساتھ اتحاد نے دیر کو شمال میں ایک قدرتی دفاعی حصار بخشا۔

ان دونوں اتحادوں نے دیر کو نہ صرف علاقائی سیاست میں اہم مقام دیا بلکہ برطانوی پالیسی سازوں کو بھی احتیاط پر مجبور کیا۔

عمرا خان جندول کی پیش قدمی

کتاب Road and Rebels کے مطابق، دیر کی سیاسی تاریخ کا ایک نازک موڑ اُس وقت آیا جب جندول کے عمرا خان نے انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔

عمرا خان نے برطانوی حکام کو خط لکھا کہ وہ بجور، سوات اور دیر کے کسی بھی مخالف کے خلاف اُن کا وفادار سپاہی بننے کو تیار ہے۔

اس وعدے کے بدلے انگریزوں نے اُسے جدید اسلحہ اور سہولتیں فراہم کیں۔

برطانوی سرپرستی ملنے کے بعد عمرا خان نے نواب رحمت اللہ خان کے خلاف محاذ کھولا اور دیر پر بارہا حملے کیے۔

عسکری بصیرت اور دفاعی حکمتِ عملی

اگرچہ عمرا خان برطانوی حمایت سے مضبوط ہوا، لیکن نواب رحمت اللہ خان کی عسکری مہارت اور تجربہ اُس پر بھاری رہا۔

امبیلہ اور شبقدر کے میدانوں میں اُنہیں جو جنگی بصیرت ملی تھی، وہ اس موقع پر دیر کے دفاع میں کام آئی۔

انہوں نے عمرا خان کی پیش قدمی کو کئی مرتبہ ناکام بنایا اور دیر کو محفوظ رکھا۔

عمرا خان نے ’’والئی کنڈاؤ‘‘ کو دیر اور بجور کی سرحد بنانے کی تجویز پیش کی، لیکن نواب رحمت اللہ خان نے اسے سختی سے رد کر دیا۔ یہ فیصلہ اُن کی سیاسی خودداری اور علاقائی خودمختاری کا واضح ثبوت ہے۔

وفات اور تاریخی ورثہ

1884ء میں نواب رحمت اللہ خان یوسفزئی کا انتقال ہوا۔ وہ ’’غازیِ امبیلہ‘‘ کے لقب سے یاد رکھے جاتے ہیں۔

ان کی اہمیت اس لیے بھی مسلم ہے کہ:

انہوں نے انگریزوں کی پالیسیوں کو چیلنج کیا اور ان کے بڑے منصوبے مؤخر کیے۔

انہوں نے دیر کو ایک فعال ریاست کے طور پر پیش کیا جو نہ صرف عسکری لحاظ سے مضبوط بلکہ سفارتی اعتبار سے بھی اہم تھی۔

ان کی شخصیت نے برصغیر میں آزادی اور مزاحمت کی ایک مستقل روایت کو تقویت بخشی۔

اہم مآخذ

Who is Who of Afghanistan

British Colonial Records (Ambela & Shabqadar Expeditions)

Road and Rebels (برطانوی فوجی و سیاسی مشاہدات)

مقامی قبائلی روایات، شجرہ ہائے نسب اور تاریخِ دیر

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770567342351420/?app=fbl
17/09/2025

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770567342351420/?app=fbl

خان شہید (شاہی مقبرہ) دیر میں جو شخصیات مدفون ہیں اس کے مختصر تاریخ ترجمان دیر رائل فیملی اخون خیل نواب زادہ فاروق عالم خان کے قلم سے

*2. خان غزن خان (رح)*
خان غزن خان شجاعت پناہ یوسفزئی
حکمرانِ دیر اور غازیٔ امبیلہ (1810ء – 1870ء تقریباً)
مقالہ و تحقیق: آرکیٹیکٹ فاروق خان
تعارف
خان غزن خان شجاعت پناہ یوسفزئی کو دیر کے سب سے طاقتور اور طویل حکمرانی کرنے والے حکمرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی وجاہت، شجاعت اور شاہانہ شان کے لئے مشہور تھے بلکہ عسکری حکمت عملی، سیاسی بصیرت اور قبائلی اتحاد میں بھی ایک بے مثال شخصیت تھے۔ 1936ء میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی کے پروگرام انڈین لسنر میں ذکر کیا گیا کہ دیر کے حکمرانوں کو ہندوستان کے دیگر مہاراجاؤں جیسا رتبہ، وقار اور اعزاز حاصل تھا۔

خان غزن خان کو خاص طور پر ان کی بہادری، گھڑ سواری، شکار کے شوق، گوریلا جنگی حکمت عملی، مضبوط ریاستی نظام، اور سب سے بڑھ کر برطانوی سامراج کے خلاف جنگِ امبیلہ (Ambela Campaign) کی قیادت کی وجہ سے تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔

شخصیت اور ذاتی اوصاف

خان غزن خان وجیہہ اور خوش شکل شخصیت کے مالک تھے۔

وہ جسمانی طور پر مضبوط، چاق و چوبند اور توانائی سے بھرپور حکمران تھے۔

شکار اور گھڑ سواری ان کے پسندیدہ مشاغل میں شامل تھے، جو ان کی عسکری زندگی کے لئے عملی تربیت بھی ثابت ہوئے۔

انہیں گوریلا وار (Guerrilla War) کے حربوں پر گہری مہارت حاصل تھی، جس سے انہوں نے دشمنوں کو حیران و پریشان کیا۔

پشتون روایات کے مطابق وہ مہمان نواز، جرأت مند اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرنے والے حکمران سمجھے جاتے تھے۔

حکومتی ڈھانچہ اور انتظامی اصلاحات

خان غزن خان نے دیر کی روایتی حکمرانی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی۔

کابینہ کا قیام: مختلف محکموں کے وزراء مقرر کئے، جو انتظامی، مالیاتی اور عدالتی امور دیکھتے تھے۔

سوات میں علیحدہ انتظامیہ: انہوں نے وادیٔ سوات کے لئے ایک الگ انتظامی ڈھانچہ قائم کیا تاکہ ریاست کے معاملات بہتر طور پر چلائے جا سکیں۔

قلعہ جات کی تعمیر: دیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دور دراز مقامات پر قلعے تعمیر کروائے۔ یہ قلعے صرف دفاعی نہیں بلکہ انتظامی مراکز کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے۔

چترال پر اثر و رسوخ: برطانوی ریکارڈز کے مطابق چترال دیر کا خراج گزار تھا اور وہاں سے دیر کو باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا تھا۔

عسکری قوت اور فوجی نظام

خان غزن خان کی سب سے بڑی طاقت ان کی زبردست فوج تھی۔

ان کے پاس 80,000 گھڑ سواروں پر مشتمل ایک عظیم فوج تھی۔

12,000 سپاہیوں پر مشتمل ایک خصوصی فورس (Special Force) بھی قائم کی گئی، جو جنگوں اور خاص مہمات کے لئے استعمال ہوتی تھی۔

وہ اپنی فوج کو جدید بنانے کے لئے مختلف ذرائع سے اسلحہ اور ہتھیار خریدتے تھے۔

اپنی فوجی مہارت اور گوریلا جنگی حکمت عملی کی وجہ سے وہ برطانوی افواج کے لئے ایک سخت حریف ثابت ہوئے۔

برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد
ابتدائی مزاحمت

1852ء تا 1853ء کے دوران خان غزن خان نے اپنی افواج کو شبقدر، کوہاٹ اور پشاور کی طرف بھیجا تاکہ وہاں برطانوی افواج کے خلاف پشتون قبائل کی مدد کی جا سکے۔ اس دور میں دیر، ملاکنڈ اور اردگرد کے علاقے برطانوی تسلط کے خلاف قبائلی مزاحمت کا مرکز بن گئے۔

جنگِ امبیلہ (Ambela Campaign)

خان غزن خان کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگِ امبیلہ برصغیر کی نوآبادیاتی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔

یہ جنگ 1863ء میں لڑی گئی، جس میں پشتون قبائل اور دیر کے لشکر نے برطانوی افواج کا سامنا کیا۔

خان غزن خان نے 6,000 گھڑ سواروں کی قیادت کی، جبکہ مختلف قبائل کے کل جنگجوؤں کی تعداد 20,000 کے قریب تھی۔

جنگ کے دوران 5,000 پشتون شہید ہوئے جبکہ 3,000 سے زائد برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔

جنگ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے اپنے کئی سپاہیوں کو وِکٹوریا کراس جیسے اعلیٰ عسکری اعزازات سے نوازا۔

لیکن اس کے باوجود برطانیہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور قبائلی اتحاد کو شکست نہ دے سکے۔

یہ جنگ خان غزن خان کو ہمیشہ کے لئے تاریخ میں غازیٔ امبیلہ کے لقب سے امر کر گئی۔

سیاسی بصیرت اور قبائلی اتحاد

خان غزن خان نے اپنی حکمت عملی سے مختلف پشتون قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔

انہوں نے سوات، بونیر، پنجکوڑہ اور ملاکنڈ کے قبائل کو اپنے ساتھ ملایا۔

ان کی سیاسی بصیرت کا کمال یہ تھا کہ قبائل، جو عمومی طور پر باہمی اختلافات کا شکار رہتے تھے، برطانوی دشمن کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہو گئے۔

حکمرانی کا طویل دور اور وفات

خان غزن خان نے 40 سال سے زائد عرصہ تک دیر پر حکومت کی۔

ان کا دور امن و خوشحالی، عسکری طاقت اور مزاحمت کا دور تھا۔

ان کی وفات کے بعد دیر میں سیاسی تبدیلیاں آئیں لیکن ان کا نام آج بھی دیر کی تاریخ میں آزادی اور غیرت کے استعارے کے طور پر زندہ ہے۔

نتیجہ

خان غزن خان شجاعت پناہ یوسفزئی کا شمار اُن حکمرانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے:

دیر کو ایک مضبوط اور خودمختار ریاست بنایا،

فوجی اور سیاسی نظام کو منظم کیا،

پشتون قبائل کو متحد کیا،

اور برطانوی سامراج کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی قبائلی جنگ کی قیادت کی۔

ان کی شخصیت، کردار اور وراثت آج بھی دیر اور پشتون تاریخ میں زندہ ہے۔ وہ ایک ایسے حکمران تھے جنہوں نے آزادی اور غیرت کے پرچم کو بلند رکھا اور اپنی قوم کو غلامی کے طوق سے بچانے کے لئے آخری دم تک جدوجہد کی۔

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770568755684612/?app=fbl
17/09/2025

https://www.facebook.com/100081944845685/posts/770568755684612/?app=fbl

خان شہید (شاہی مقبرہ) دیر میں جو شخصیات مدفون ہیں اس کے مختصر تاریخ ترجمان دیر رائل فیملی اخون خیل نواب زادہ فاروق عالم خان کے قلم سے
*4. نواب محمد شریف خان (رح)*

نواب محمد شریف خان یوسفزئی، حکمران دیر (1884ء – 1904ء)

تحقیق و تحریر: Architect فاروق خان

ابتدائی تعارف اور ولادت

نواب محمد شریف خان یوسفزئی، ریاست دیر کے حکمران، 1848ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن اپنے دادا، غزن خان، اور والد، نواب رحمت اللہ خان، کے زیرِ تربیت گزرا۔ ان دونوں بزرگوں نے انہیں نہ صرف عسکری مہارت بلکہ سیاسی بصیرت بھی عطا کی۔

شریف خان نے ابتدائی عمر ہی میں عسکری زندگی اختیار کی اور 1868ء کی امبیلہ جنگ میں دیر کی فوج کے ساتھ شامل ہو کر انگریزوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ اس جنگ نے نہ صرف ان کے عسکری تجربے کو مضبوط کیا بلکہ انہیں مستقبل کے لیے حکمت عملی اور قیادت کی تربیت بھی دی۔

برطانوی لکھاریوں نے شریف خان کی شخصیت کو بڑی اہمیت دی۔ ان کے مطابق وہ نہایت صاحبِ وقار، ذہین اور جنگجو تھے، جو مشکل حالات میں بھی ریاست کی حفاظت اور قبائلی اتحاد قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

دیر اور کابل کے تعلقات: پرانی معاہداتی روایت

نواب شریف خان کے دور کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کی معاہداتی اور سیاسی روایت کو جاری رکھا۔

ان کے پردادا قاسم خان نے 1816ء میں کابل کے ساتھ ایک اتحاد کا معاہدہ کیا تھا۔

یہ معاہدہ بعد میں نواب رحمت اللہ خان نے تازہ کیا اور شریف خان نے اسے برقرار رکھا۔

اس معاہدے کا مقصد دیر کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانا اور برطانوی دباؤ کے مقابلے میں افغانستان کی پشت پناہی حاصل کرنا تھا۔

نواب شریف خان نے یہ بھی سمجھا کہ کابل کے ساتھ تعلقات مضبوط رہنے سے دیر کے حکمرانوں کو سیاسی تحفظ اور عسکری اعتماد حاصل ہوگا۔ اسی سبب سے انہوں نے 1880ء کی دہائی میں برطانوی اتحاد کی پیشکش کو مسترد کر کے کابل کے ساتھ پرانا الحاق برقرار رکھا۔

برطانوی دباؤ اور داخلی دشمنیاں

نواب رحمت اللہ خان کی وفات کے بعد ریاست دیر ایک نازک مرحلے میں داخل ہو گئی۔

برطانیہ نے شمال مغربی سرحد پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے دیر کے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔

ساتھ ہی عمرہ خان جندول نے ریاست دیر کے خلاف سازشیں کیں اور برطانیہ کے ساتھ رابطہ قائم کر کے دیر پر حملہ آور ہوا۔

1890ء میں عمرہ خان نے برطانیہ کی حمایت کے ساتھ نواب شریف خان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔

اس دوران برطانوی حکومت نے عمرہ خان کو چترال روڈ کی حفاظت کے عوض پانچ سال تک اس کی ذمہ داری دی اور سالانہ چند روپے (2 تا 8 روپے) انعام کے طور پر مقرر کیے۔ (The Frontier and Overseas Expeditions)

جلاوطنی اور کابل کا سفر

اقتدار سے محروم ہونے کے بعد نواب شریف خان نے پانچ سال تک سوات میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اس دوران وہ اپنے تمام بھائیوں کے ساتھ کابل گئے تاکہ افغان بادشاہ کو دیر کے اور کابل کے 100 سالہ معاہدے کی یاد دہانی کرائیں۔

تاہم اُس وقت کے امیرِ افغانستان، عبدالرحمن خان، نے نواب شریف خان کی مدد سے انکار کر دیا۔

اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عبدالرحمن خان نے معاہدۂ ڈیورنڈ پر دستخط کر دیے تھے، اور اس کے تحت افغان اور برطانوی تعلقات محدود تھے۔

مزید برآں، عمرہ خان کی دیر، سوات، بجور اور چترال میں سرگرمیاں اور جھڑپیں کابل کی پالیسی سازوں کے لیے مسائل پیدا کر رہی تھیں۔

عمرہ خان کے خلاف برطانوی مداخلت اور بحالی

عمرہ خان کے غیر مستحکم رویے اور مقامی لوگوں کے ساتھ جھڑپوں نے برطانوی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ نواب شریف خان کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔

برطانیہ نے ایک ریلیف فورس بھیجی جو عمرہ خان کو کمزور کر کے اقتدار سے ہٹایا۔

نواب شریف خان کو دوبارہ ریاست دیر کا حکمران مقرر کیا گیا اور کابل کے سابقہ ’’نواب‘‘ کا خطاب بحال کیا گیا۔

ریاست دیر کی سرحدیں متعین کی گئیں تاکہ مستقبل میں داخلی و خارجی تنازعات کم ہوں۔

برطانوی حکومت نے واضح کیا کہ وہ دیر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، صرف چترال کے راستے ڈاک و مواصلات کے لیے اختیار رکھے گی تاکہ روس کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔

مشکلات اور زندگی کا چیلنج

نواب شریف خان کی زندگی مسلسل مشکلات اور چیلنجز سے بھری رہی۔

ایک طرف برطانوی دباؤ، دوسری طرف عمرہ خان اور دیگر دشمن، اور تیسری طرف جلاوطنی اور کابل سے بے اعتمادی۔

ان تمام مشکلات کے باوجود، انہوں نے اپنے آبا و اجداد کی روایت کو برقرار رکھا اور دیر کے عوام اور قبائلی اتحاد کی حفاظت کی۔

وفات اور تاریخی ورثہ

نواب محمد شریف خان یوسفزئی 1904ء میں وفات پا گئے۔ ان کی حکمرانی کی اہم خصوصیات یہ تھیں:

دیر کی داخلی خودمختاری کو محفوظ رکھنا۔

آباؤ اجداد کے معاہداتی تعلقات کو جاری رکھنا۔

برطانوی دباؤ اور مقامی دشمنیوں کے درمیان توازن قائم کرنا۔

ان کی شخصیت اور قیادت نے دیر کے سیاسی اور عسکری ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انہیں ایک ایسے حکمران کے طور پر یادگار بنایا جو مشکلات کے باوجود اپنی ریاست کے وقار کے لیے ڈٹا رہا۔

اہم ماخذات

The Frontier and Overseas Expeditions (British Records)

Treaties, Sand and Agreements (British Government Records)

مقامی تاریخ دانوں اور قبائلی روایات کے مشاہدات

افغانستان کے تاریخی ریکارڈ

آج سے دو سال پہلے نہاگدرہ کاربادی سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش بزرگ کو بے دردی سے قتل کرنے والے قاتل کو 31 سال  سزا سن...
12/09/2025

آج سے دو سال پہلے نہاگدرہ کاربادی سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش بزرگ کو بے دردی سے قتل کرنے والے قاتل کو 31 سال سزا سنا دی گئی جس پر مقتول کے ورثاء اور بچے حکومت پاکستان اور متعلقہ عدالت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں
شکریہ بامت خیل فمیلی مشران

Address

Disst Dir
Dir

Telephone

+923029699979

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bamat baba welfare organization posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Bamat baba welfare organization:

Share