Education with Zafar

Education with Zafar Rising
Gratitude
Busy
Roaming
Attractive
Cool
Smart
Proactive
Challenge
Attitude

29/07/2025

Daily routine for ECCE class













*اکاؤنٹ آفس سے متعلقہ تمام طرح کے ڈاکیومنٹس ایک ہی جگہ پہ اکٹھے کردئیے گئے ہیں اپنی ضرورت کے مطابق تمام معزز اساتذہ اکرا...
28/07/2025

*اکاؤنٹ آفس سے متعلقہ تمام طرح کے ڈاکیومنٹس ایک ہی جگہ پہ اکٹھے کردئیے گئے ہیں اپنی ضرورت کے مطابق تمام معزز اساتذہ اکرام فارم اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔*
https://drive.google.com/drive/folders/1EYUJfHyHoI_Do2jMlYTFKczu_ACoaDGy
*اکاؤنٹ آفس فارمز*

22/07/2025
عنوان: عبد الخالد – فرض، علم اور وطن سے محبت کی روشن مثالپاکستان کی مٹی ہمیشہ ایسے نوجوانوں کو جنم دیتی ہے جو اپنی ذات س...
12/06/2025

عنوان:
عبد الخالد – فرض، علم اور وطن سے محبت کی روشن مثال

پاکستان کی مٹی ہمیشہ ایسے نوجوانوں کو جنم دیتی ہے جو اپنی ذات سے بڑھ کر وطن کے لیے جینا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہونہار، باکردار اور باہمت طالبعلم کا نام ہے عبد الخالد، جو ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان کے قصبہ دلے والا کا ایک درخشندہ ستارہ ہے۔ یہ کہانی صرف ایک طالبعلم کی کامیابی کی نہیں، بلکہ عزم، قربانی اور حب الوطنی کی مکمل داستان ہے۔

ابتداء ہی سے عبد الخالد نے تعلیم میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بھکر سے ایف ایس سی انجینئرنگ گروپ میں ٹاپ کیا۔ لیکن ان کے خواب محض کسی ادارے میں فرسٹ آنا نہیں تھے، بلکہ ان کا اصل خواب تھا پاکستان کی خدمت۔ یہی سوچ انہیں پاک آرمی کے دروازے تک لے گئی۔ انہوں نے PMA کا امتحان دیا، لیکن کامیابی نہ ملی۔ ایک لمحے کو مایوسی نے دستک دی، مگر ان کے جذبے نے ہار نہ مانی۔

عبد الخالد نے سوچا کہ اگر فوج میں شامل نہ ہو سکے تو علم کی طاقت سے ملک کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے فزکس میں اعلیٰ تعلیم کے ذریعے پاکستان کے میزائل پروگرام میں شامل ہونے کا عزم کیا۔ مگر معاشرے کے تنگ نظری نے انہیں اس راستے سے موڑ دیا۔ لوگوں نے طعنے دیے کہ سائنس کا انتخاب انجینئرنگ میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ان کے والد بھی اس دباؤ میں آ گئے، اور یوں عبد الخالد نے ECAT کا امتحان دیا اور پاکستان کے ممتاز تعلیمی ادارے UET سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔

ان کے دل میں وطن کی خدمت کا جذبہ اس قدر گہرا تھا کہ انہوں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بیرون ملک جانے کی بجائے، اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت کا آغاز کیا تاکہ پہلے کچھ سیکھیں اور پھر اپنے وطن کے لیے بہترین طریقے سے خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں، انہوں نے فرنٹیئر کور (FC) کی ورک برانچ میں کنسلٹنگ انجینئر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ ان کی پوسٹنگ جنوبی وزیرستان میں ہوئی ، ایک ایسا علاقہ جہاں عام لوگ قدم رکھنے سے کتراتے ہیں۔ مگر عبد الخالد نے نہ صرف وہاں کام کیا بلکہ فوجی ڈسپلن، نظم و ضبط اور قومی ترقی کے بڑے منصوبے بھی مکمل کروائے۔

اس کے بعد انہوں نے نیسپاک میں بطور سینئر انجینئر شمولیت اختیار کی، اور انہیں اپنے ہی ضلع بھکر میں سڑکوں کی بحالی کے منصوبے کی قیادت کا موقع ملا۔ یہ لمحہ ان کے لیے نہایت فخر کا باعث تھا، کیونکہ وہ اب اپنے علاقے کی بہتری کے لیے براہِ راست کام کر رہے تھے۔ مگر عبد الخالد کا سفر یہاں ختم نہ ہوا۔ وہ ساتھ ساتھ مسابقتی امتحانات کی تیاری بھی کرتے رہے۔

بالآخر ان کی محنت رنگ لائی، اور وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن (PPSC) کے ذریعے پنجاب کے سب سے طاقتور ادارے، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA) میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر منتخب ہوئے، وہ بھی پہلی پوزیشن پر۔ اس کے بعد بھی کامیابیاں ان کا مقدر بنتی گئیں: وہ ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر (کینال مجسٹریٹ)، اور پھر کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ میں سب ڈویژنل آفیسر کے طور پر منتخب ہوئے — جو کہ ایک گزٹیڈ آفیسر کی حیثیت سے تیسری بڑی کامیابی تھی۔

آج وہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ان کے دل میں آج بھی ایک خواب زندہ ہے — کہ مستقبل میں نیوکلیئر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کر کے وہ پاکستان کے میزائل پروگرام کا حصہ بنیں، اور اس مادرِ وطن کے دفاع کو مزید مضبوط کریں۔

عبد الخالد نہ صرف کامیاب انجینئر ہیں، بلکہ وہ پاکستانیت کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ ان کی کہانی ہر نوجوان کے لیے مشعلِ راہ ہے جو محض کیریئر کے لیے نہیں بلکہ مقصد کے لیے جینا چاہتے ہیں۔

اعظم حسین… ایک ایسا نام جو عزم، قربانی اور خوابوں کی تعبیر کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس نوجوان نے زندگی کی اندھیری راتوں م...
11/06/2025

اعظم حسین… ایک ایسا نام جو عزم، قربانی اور خوابوں کی تعبیر کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس نوجوان نے زندگی کی اندھیری راتوں میں امید کا چراغ جلایا، ہر طوفان کے سامنے دیوار بن کر کھڑا رہا، اور اپنی محنت سے ان راستوں پر بھی روشنی کردی جہاں قدم رکھنا بھی ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ غربت، پریشانی، اور بے شمار رکاوٹوں کے باوجود اُس نے علم کی راہ نہیں چھوڑی، بلکہ ہر ٹھوکر کو سیڑھی بنا کر آگے بڑھتا گیا۔ آج وہ لمحہ آیا ہے جب اُس کی انتھک محنت رنگ لائی — اور اُس نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کے لیے اسکالرشپ پر داخلہ حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ سچے جذبے اور مسلسل جدوجہد سے کوئی خواب ناممکن نہیں۔ اعظم حسین کی یہ کامیابی صرف ایک فرد کی جیت نہیں، یہ ہر اُس نوجوان کے لیے امید کی کرن ہے جو حالات کے اندھیروں میں بھی علم کا دیا جلائے بیٹھے ہیں۔ ہم اعظم حسین کو دل کی گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں — اس کی یہ کامیابی یقیناً قابلِ فخر، قابلِ تقلید اور ناقابلِ فراموش ہے۔

18/05/2025

Copied
منقول ہے !
اک ایسی چیز جس کا نام سنتے ہی انسان حواس کھو بیٹھتا ہے کینسر۔۔
میری والدہ کو کینسر ہوا۔ میں گھر کا بڑا بیٹا ہوں اور آپ لوگ اچھے سے سمجھ سکتے ہیں کے مجھ پر کیا گزر رہی ہوگی سب سے پہلے تو میں نے وہی
‏کیا جو اس وقت تقریبا پاکستان میں رہنے والا ہر شخص کرتا۔ میں ساری رپورٹس سمیت والدہ کو لیکر شوکت خانم میموریل ہسپتال لاہور گیا۔ جہاں ڈاکٹر رضوان نامی ڈاکٹر صاحب سے ٹائم ملا ہوا تھا۔ خیر قصہ مختصر ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ کیا اور ساری رپورٹس دیکھیں۔ اس کے بعد انہوں نے میری والدہ ‏ کوباہر انتظار کرنے کا کہا اور مجھے اپنے کلینک میں بلا کر بتایا کے کینسر سارے جسم میں پھیل چکا ہے اور اس کی سٹیج 4 ہے۔ جس پر میں نے ڈاکٹر رضوان کو کہا کے جناب اب اس کا علاج شروع کب تک ہوگا۔ تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور پوچھا آپ ان کے بیٹے ہیں؟
میں نے کہا جی۔
تو وہ بولے ‏کیا آپ کی شادی ہوچکی ہے؟
میں نے نفی میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا " آپ کی والدہ کے پاس 1 سے ڈیڑھ ماہ کا وقت ہے اور شوکت خانم ہسپتال سٹیج 4 کے مریض کو ٹریٹ نہیں کرتا آپ ان کو گھر لیجائیں اور خوشیاں دیں۔
شادی کریں آپ کی والدہ خوش ہوں گی۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے میں نے منت والی آواز ‏میں ڈاکٹر صاحب سے کہا: "سر آپ ان کا علاج شروع کریں جو بھی خرچہ ہوگا ہم وہ اٹھائیں گے ایسی بات مت کریں" لیکن ڈاکٹر نے صاف کہا: یہ پالیسی نہیں ہے شوکت خانم کی اس لیئے آپ ان کو لے جائیں۔
میں نے آنکھوں سے آنسو صاف کئے باہر گیا تو والدہ انتظار کر رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی بولیں ‏مبین کیا کہا ڈاکٹر نے۔
میں نے کہا کچھ نہیں وہ ابھی رپورٹس پر تھوڑا ٹائم لگائیں گے اور آپ کے چند ٹیسٹس ہوں گے اور پھر ہی بتائیں گے۔
خیر میں نے والدہ کو گاڑئ میں بٹھایا اور اپنے والد کے اک دوست (جو کے مجھے سگوں سے بھی عزیز ہیں) کو کال کی اور ساری سیچوئیشن بتائی انہوں ‏نے مجھے گھر واپس جانے کا کہا اور میں چلا گیا۔
شام کو مجھے ان کی کال آئی اور انہوں نے کہا تم کل ساری رپورٹس لے کر پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے سامنے اور شیخ زاید ہسپتال کے بالکل ساتھ والی بلڈنگ جسکا نام " INMOL" ہے چلے جاؤ اور وہاں جا کر رپورٹس دکھاؤ۔
میں جو کے سمجھتا تھا کہ ‏پاکستان میں کینسر کا شوکت خانم کے علاوہ کوئی ہسپتال نہیں اگلے دن صبح انمول چلا گیا۔
جہاں میری ملاقات ڈاکٹر نصرالسلام سے ہوئی جنہوں نے ساری رپورٹس دیکھیں اور مجھے ڈاکٹر عائشہ اور ڈاکٹر مصباح کے پاس ریفر کیا۔
جب میں ان سب ڈاکٹرز سے ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کے حالت واقعی ‏الارمنگ ہے مگر "آپ لوگ دعا کیجیئے ہم دوا کریں گے باقی اللہ کی جو رضا ہوئی وہی ہوگا"
ان کی اس بات نے جیسے میرے دل کو سکون سا دے دیا تھا۔
اگلے روز میں والدہ کو لیکر وہاں گیا اور ڈاکٹرز نے اپنی کونسلنگ کے دوران والدہ کو یہ بات بتائی کے انکو یہ مرض ہے مگر اس طریقے سے بتائی کے ‏میری والدہ زرا نہیں گھبرائیں اور اس امید پر کلینک سے نکلیں کے انشاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
قصہ مختصر الحمداللہ وہاں علاج شروع ہوا اور علاج مکمل ہوا۔
اللہ نے میری والدہ کو صحت دی زندگی دی اور وہ آج بھی میرے سر ہر موجود ہیں الحمداللہ۔
یہ سب لکھنے کا مقصد اپنی کہانی سنانا نہیں ‏تھا اس تھریڈ کا اک مقصد تھا جو اب شروع کرنے لگا ہوں جب مجھ پر یہ وقت آیا تو مجھے شوکت خانم کے علاوہ کسی ہسپتال کا معلوم نہیں تھا حالانکہ پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال بن نے سے پہلے بھی کئی کینسر ہسپتال کام کر رہے تھے۔
اللہ نا کرے کے کسی پر ایسا وقت آئے مگر پھر بھی آپ کو یا ‏پیاروں کو کبھی اس قسم کے حالات کو فیس کرنا پڑے تو میں اک لسٹ بنا دیتا ہوں جس میں پاکستان کے تقریبا سب ہسپتالوں کے نام اور ڈیٹیلز موجود ہوں گی۔
1) INMOL (Institute of Nuclear Medicine and Oncology) Lahore
2) CENUM (Centre for Nuclear Medicine) Lahore
3)GINUM Gujranwala
4)SKMH ( شوکت خانم ) Lahore
5)BINO Bahawlapur
6)MINAR Multan
7)PINUM Faisalabad
8)NCCI Karachi
9)Ziauddin Cancer Hospital KHI
10)The Cancer Foundation Hospital KHI
11)Bait Ul Sukon Cancer Hospital KHI
12) Agha Khan KHI
13)AEMC (Atomic Energy Medical Centre) KHI
14)KIRAN Khi
15) LINAR Larkana
16) NIMRA Jamesheoro
17) NORIN Nawabshah
18) Northwest Hopsital Peshawar
19)BINOR Bannu
20) INOR AMC Abbotabad
21) IRNUM Peshawar
22) SINOR Saidu Sharif Sawat
23) D.I.Khan Institute of Nuclear Medicine D.I.K
24) NORI (PIMS) Isb
25) Shifa International Isb
26) Quiad E Azam International Hospital Isb
27) Gilgit Institute of Nuclear Medicine and Oncology Gilgit
28) CENAR Quetta.
اللہ آپکو اور آپکے پیاروں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔ ‏ان میں سے اکثر ہسپتال 80 کی دہائی سے کام کر رہے ہیں اور مفت کام کر رہے ہیں سپیشلی وہ جو PAEC پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے انڈر آتے ہیں
منقول ہے

ٹوپہ ،پڑوپی اور بسم اللّٰہ دی ڈولیانگڑی میں دانے صاف ہو جاتے تو ان کو گول شکل میں جمع کردیا جاتا ،جمع شدہ گندم کی ڈھیری ...
14/05/2025

ٹوپہ ،پڑوپی اور بسم اللّٰہ دی ڈولی

انگڑی میں دانے صاف ہو جاتے تو ان کو گول شکل میں جمع کردیا جاتا ،جمع شدہ گندم کی ڈھیری میں برکت کےلئے ایک مٹی کا چھوٹا سا برتن جس میں بسم اللّٰہ لکھا ہوتے اس کےمنھ کو کپڑے سے باندھ کر ڈھیری میں چھپا دیا جاتا۔بسم اللّٰہ مولی صاحب سے یا پیر صاحب سے خاص طور پر لکھائی جاتی۔
یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا اہم دور تھا۔یہ ثقافتی ہمارے معاشرے میں صدیوں سے جاری تھا۔جس کا خاتمی ہوگیا ہے۔جدید مشین اور ٹیکنالوجی نے اس کو بے نشان کر دیا ہے۔ہم نئے زمانے کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے ۔لیکن روایات سے آگاہی حاصل کرنا اور نسلوں کو روشناس کروانا ہماری زمین داری ہے۔
گاؤں والے اور کم وبیش تمام رشتہ دار ڈھیری کے گرد جمع ہو جاتے اور ایک صحت مند اور عقل مند چاچا جی ٹوپہ ہاتھ میں پکڑے نیچے بیٹھ کر پہلا ٹوپہ بھرتے تو سب لاگ صدق دل سے بسم اللّٰہ پڑھتے اور خاموش ہو جاتے ،دوسرے ٹوپہ پر برکت کی صدا گونج اٹھتی اس طرح آگے تین چار پانچ شمار جاری ہوجاتا۔
ٹوپہ لکڑی کا ایک پیمانہ تھا جس کے ذریعے سے گندم کے نانے ماپے جاتے۔
اسی طرح پڑوپی بھی ایک پیمانہ تھی جو ٹوپہ سے چھوٹی ہوتی تھی ۔شاید آدھا کلو کے برابر ۔اور ٹوپہ ڈھائی تین کلو کے لگ بھگ تھا۔
گندم کی ڈھیری کی پیمائش ٹوپے کے ذریعے کی جاتی ۔چونٹھ اور پت ایک بڑا حساب تھا
دس بوری کے برابر پت تھا اور چونٹھ شاید چار من کے برابر تھی ۔اگر میرا حساب غلط ہے تو کومنٹس میں تصحیح کر دیجئے گا ۔
لوگ مل کر چاچا جی کی طرف گندم دھکیلتے رہتے اور چاچا جی ٹوپے شمار کرتے رہتے ۔اور آخر میں بتا دیتے کہ گندم کتنے پتھ ،کتنے چونٹھ اور کتنے منڑ ہوئی ہے۔

Address

Kuantan
<<NOT-APPLICABLE>>

Telephone

+601116899433

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Education with Zafar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Education with Zafar:

Share