25/04/2025
ہمارے ایشیا کی عورتیں کچھ زیادہ ہی ایموشنل فول ہیں
یہ طلاق بھی لیتی ہیں ساتھ میں بچے بھی لیتی ہیں اور مرد سال چھ مہینے میں نئی شادی کر کے بیوی کے ساتھ گل چھرے اڑاتا نظر آتا ہے اور یہ اموشنل فول
عورتیں اپنی ساری زندگی ایسی شخص کی اولاد پالنے میں برباد کر دیتی ہیں جس نے طلاق کی صورت میں انہیں داغ دار بھی کیا ہوتا ہے ان کے غرور کو بھی توڑا ہوتا ہے آخر میں بچے پھر بھی باپ کے ہوتے ہیں اگر مرد کو طلاق دینے کی سزا ہی دینی ہے تو اس کے گلے سے بچوں کا پٹا کبھی نا اتاریں بلکہ بچے اسے ہی دے کر اپنا گھر بسا لیں تاکہ مرد کی بھی آنکھیں کھلیں عرب امارات میں آج بھی طلاق کے بعد بچے باپ کو ہی ملتے ہیں اور وہاں کی عورتیں پوری طرح سے طلاق کے بعد آزاد ہوتی ہیں اور ایک اچھی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں اور یہاں بچوں کی فوج لے کر ہزاروں لاکھوں عورتیں در در کی ٹھوکریں کھاتی نظر آتی ہیں کئی بچوں کو پالنے کے لئے لوگوں کے جھوٹے برتن دھوتی نظر آتی ہیں اور کئی دفاتر میں ٹکے ٹکے کے بندوں کی گالیاں کھاتی حراسمنٹ کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں اور کئی کوٹھوں کی زینت بنی نظر آتی ہیں سو میں سے میں سے کوئی دس فیصد ہی ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں جو بچوں کے ساتھ طلاق کے بعد بھی عزت کی زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں، ورنہ نوے فیصد عورتیں تو ذلیل ہی ہو رہی ہوتی ہیں اور مرد کو رتی برابر بھی کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا اور ہو بھی کیوں اس پر کونسا کوئی بوجھ ہوتا ہے وہ تو طلاق دے کر آزاد ہو جاتا ہے ذلیل ہوتی ہے تو عورت ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہیے جب اللہ نے اولاد باپ کو دینے کا حکم دیا ہے تو یہ اللہ کے حکم پر اپنے جذبات کو کیوں غالب لے آتی ہیں جب اولاد کی ذمہ داری الله نے باپ کو سونپی ہے تو یہ کیوں خود کے گلے میں پھندا ڈالتی ہے؟