Aaban Gamer 1

Aaban Gamer 1 I always Love to play Games.

25/10/2024

کیا آپ کو بھی یہ بیماری ہے کہ جھگڑے کے وقت کچھ بولتے نہیں بعد میں اچھے اچھے جواب یاد آتے ہیں😂🤣🤣🤣🤪🤪

02/05/2024

ہمارے پاس بجلی نہیں ہوتی، پھر ہم بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ اور اتنی بجلی پیدا کرتے ہیں کہ اسے خرچ کرنے کا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

ہمارے پاس گندم کی کمی ہوتی ہے۔ ہم باہر سے امپورٹ کرتے ہیں۔
لیکن پھر اتنی گندم ہوجاتی ہے کہ ہمارے پاس ذخیرہ کرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔

ہمارے ہاں چینی کا بحران ہوتا ہے۔ مگر پھر چینی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہمیں ایکسپورٹ کرنا پڑجاتی ہے۔

ہم سولر پر جانے کے لیے سبسڈی دیتے ہیں۔ قوم کو ترغیب دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن پھر ہم ایک دم ہڑبڑا کر اُٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سولرائزیشن اتنی ہورہی ہے تو پہلے سے موجود بجلی کا کیا بنے گا؟

ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور کیوں ہیں؟
Copied

27/04/2024

اصل لوٹ مار"تندور"والوں نے مچارکھی تھی انکو لگام ڈالنا ضروری تھا۔
باقی چینی،کھاد،فلور ملزوالوں کی خیرہےیہ چھوٹے موٹےدھندےہیں۔😂

28/03/2024

ایسا شوق جس میں کسی بھی انسان کی جان جانے کا خطرہ ہو وہ قبیح، جاہلانہ اور انسانیت سوز ہے، یہ اتنا ہی بُرا اور ظالمانہ فعل ہے جتنا کہ ہوائی فائرنگ کرنا، کل کو ہوائی فائرنگ کا شوق رکھنے والے بھی اعتراض اٹھائیں گے کہ تمام عوام ہر وقت بلٹ پروف جیکٹ اور آہنی ہیلمٹ پہن کر رکھے، ہمارے شوق پراعتراض کر کے جذباتی پن نہ دکھائیں، نری جاہلیت!!!

24/03/2024

پولیس چاہے تو ایک ہفتے میں آسمان پر کوئی پتنگ نظر نہ آئے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ پولیس خود نہیں چاہتی کہ یہ سلسلہ رکے۔
خود فیصلہ کریں ۔
پتنگ بنانے کے لیے کاغذ تیار ہوا پولیس نے ان سے منتھلی لی اور کچھ نہیں کیا۔
پتنگ کی فیکٹری میں ہزاروں پتنگیں تیار ہوئیں ۔ منتھلی لی اور کچھ نہیں کیا۔
فیکٹری سے دکانوں تک پہنچیں۔ منتھلی لی اور کچھ نہیں کیا۔
جب بچوں نے دکانوں سے خرید کر اڑانی شروع کی تو نکل پڑے پکڑنے😂
تا کہ انھیں پکڑ کر ان سے بھی مال وصول کیا جا سکے۔
تو میرے بھائی ان کا تو ہر جگہ فائدہ ہی فائدہ ہے وہ کیوں روکیں گے اسے😂۔

نقصان صرف میرے اور آپ جیسوں کا ہے جو ان کی ڈور کی زد میں آ کر جان گنواتے ہیں۔😔

19/03/2024

‏لوگ کہتے ہیں ہم بھکاریوں کو نہ دیں تو پھر کیا کریں ، ہمیں سفید پوش نہیں ملتے اور نہ ہی معلوم ہے کہ سفید پوش کون کون ہے
جواب
👇
جو آپ کے گھر پانی سپلائی کرتا ہے وہ سفید پوش ہے ، کسی بینک کے باہر کھڑا گارڈ سفید پوش ہے ، آپ کے گھر کام کرنے والی خاتون ، گلی میں غبارے بیچنے والا ، چھان بورا خریدنے والا سفید پوش ہے ، کسی درخت کے سائے یا دھوپ میں کھڑا سبزی فروش بوڑھا سفید پوش ہے ، روزے کے ساتھ گھر گھر بائیک پہ فوڈ پانڈا پہنچانے والا نوجوان سفید پوش ہے ، کسی چوک میں دھوپ میں بیٹھ کر جوتے پالش اور گانٹھنے والا اور گلی کا خاکروب سفید پوش ہے ، آپ کے قریبی پارک کا مالی اور کسی مسجد میں پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والا امام سفید پوش ہے ۔ ورکشاپ پہ کام کرنے والے بارہ تیرہ سالہ بچے سفید پوش ہیں ۔ سارا دن دھوپ میں سخت کام کرنے والا مزدور سفید پوش ہے ۔کسی گھر کا واحد کمانے والا فرد سفید پوش ہے ۔ آپ کے خاندان میں بھی کئی سفید پوش ہوں گے ۔
ان کو تلاش کیجیے
چہروں سے پہچانیے ۔۔۔ اور ان کے ہاتھوں میں ، ان کے گھروں میں چپکے سے دے آئیے شکریہ

17/03/2024

‏جِس قوم کے سارے گُناہ وظیفے پڑھنے، مذہبی پوسٹیں فارورڈ کرنے, سے معاف ہو جائیں۔
تو اِس قوم کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنے کِردار اور عمل کو بہتر کرنے کی کوشش کرے۔😢

06/03/2024

ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ مجھے ﺍﯾﮏ ﺭﻭﻧﮓ ﻧﻤﺒﺮ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ

کبھی کالز 🤪

ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺲ ﮐﺎﻟﺰ😟

کبھی میسجز🙄

ﻧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺩﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﭘﮭﻞ ﮐﮍﻭﺍہیﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ😏😏

ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ Olx ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮐﻨﮉﯾﺸﻦ ﮐﺎ ﺁﺋﯽ ﻓﻮﻥ 7 ﮈﺍﻻ _____ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﻤﺖ 5 ﮨﺰﺍﺭ ﻟﮑﮫ ﺩﯼ ____ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺒﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ😒😒😏😏

ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﭩﺲ . Cultus کار ﮐﯽ ﭘﮏ ﺍﭘﻠﻮﮈ ﮐﯽ ___ ﻗﯿﻤﺖ 70 ﮨﺰﺍﺭ ، ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻧﯿﭽﺮ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻧﻤﺒﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ۔😒😒😏😏😏😏

پھر ضرورت رشتہ کے لیے ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر لوڈ کر کے اور اسی کاہی نمبر ڈالا😏😏😜😜😜

وہ دن اور آج کا دن یقین کرے تین ماہ سے زیادہ ہوگٸے اور ابھی تک اس کا فون نمبر بند ہی جا رھا ہے 🤣🤣🤣

انج تے فیر انج ائی سہی 😜
ساڈے نال پنگے🤣🤣🤣,,,,,,,

18/02/2024

فرینڈ لسٹ میں ہمیشہ ان لوگوں کو رکھیں، جو پانچ سو اختلافات کے باوجود بھی عزت و احترام والا رشتہ قائم رکھیں!!

16/02/2024

‏مبارک ہو ۔۔۔۔۔بلکہ بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔
ایک زبردست اور "اچھی" خبر

زرا سمجھنے کی کوشش کیجیے گا
سال 2023 کے آخری تین ماہ یعنی اکتوبر تا دسمبر چونکہ سرد ہوتے ہیں لہذا ان مہینوں میں بجلی کی طلب، باقی سال کے مقابلے کافی کم ہوجاتی ہے

طلب میں اس کمی کی وجہ سے، کئی بجلی گھر بند پڑے رہے

یعنی،

انھوں نے کوئی بجلی بنائی، اور نہ ہی بیچی

اگر وہ ان تین ماہ اپنی کیپیسٹی کے مطابق بجلی بناتے، تو اس بجلی کی لاگت قریباً 81 ارب بننی تھی

تو انھوں نے بجلی تو نہیں بنائی، پر اس "نہ" بنائی جانے والی بجلی کا بل جو 81 ارب کے لگ بھگ ہے، وہ حکومت کے اداروں کو بھیج دیا ہے

اور ظاہر ہے، حکومت وہ بل اب آپ کو بھیجنے والی ہے۔۔۔۔۔۔۔

یعنی جو بجلی بنی ہی نہیں، جو آپ نے استعمال کی ہی نہیں، اس کا 81 ارب کا بل آپ نے آئندہ آنے والے بلوں میں بھرنا ہے

ہے ناں کمال کی پالیسی

اسے کہتے ہیں کیپیسٹی پیمنٹ

اور اس کمال کی پالیسی کا سہرا سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو جاتا ہے

یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ بجلی گھروں کے مالکان کون ہیں

تو کیسی لگی یہ پالیسی؟

اب جب اس نہ استعمال کی جانے والی بجلی کے بھاری بل آپ کے ہاتھوں میں آئیں تو شکریہ نواز شریف اور جیئے بھٹو کہنا نہ بھولیے گا ۔۔۔۔۔۔!!!!

نوٹ: خبر کا ریفرنس ۔
tribune.com.pk/story/2454944/…‎
منقول

11/02/2024

بہت مزیدار کالم

وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: ووٹ کو نہ سہی خود کو ہی عزت دے دو

ماڈل بھی وہی ستر برس پرانا ہے اور خواہش بھی جوں کی توں یعنی انتخابات اچھے ہیں اگر نتائج کنٹرول میں رہیں۔ مگر سوار لاکھ اچھا ہو کبھی کبھی گھوڑا بدک بھی جاتا ہے۔

جیسے 1970 میں صدرِ مملکت کو حساس اداروں نے رپورٹ پیش کی گئی کہ ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کے اصول پر پہلے عام انتخابات کی تاریخی کلغی پی کیپ میں سجانے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔

مشرقی پاکستان کی 162 نشتسوں میں سے اگرچہ عوامی لیگ زیادہ نشستیں لے گی مگر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) اور جماعتِ اسلامی کو بھی اچھی خاصی نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی 148 نشستیں پیپلز پارٹی، قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی اور نیپ وغیرہ میں انیس بیس کے فرق سے تقسیم ہو جائیں گی۔ ان جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ چار و ناچار انھیں آپ کا تعاون حاصل کرنا ہو گا اور یوں آپ چاہیں تو وردی اتار کے بھی معقول حد تک بااختیار صدر بنے رہیں گے۔

پھر یوں ہوا کہ حساس اداروں کی تجزیاتی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ووٹروں نے ملک کے دونوں بازوؤں میں وہ میز ہی الٹ دی جس پر مستقبل کا نقشہ بچھایا گیا تھا اور پھر یہ میز ہی چھینا جھپٹی میں ٹوٹ ٹاٹ گئی۔

2018 میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی ڈیزائن دوبارہ استعمال ہوا اور کم و بیش سب چیزیں توقعات کے مطابق کنٹرولڈ ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام پا گئیں۔

جن کی مشکیں کسنی تھیں انھوں نے بہت زیادہ چوں چاں نہیں کی۔ جس جماعت کو فری ہینڈ ملا اس نے بھی لگ بھگ ڈھائی سال تک تابعداری دکھائی اور اس کے عوض اسے بھی ریاستی بزرگ انگلی پکڑ کے چلاتے سکھاتے رہے۔

پھر پتہ ہی نہ چلا کہ بچے کا قد کیسے بانس کی طرح بڑھنے لگا مگر بزرگ تو بزرگ ہوتے ہیں وہ اسے ببلو گبلو سعادت مند بچہ ہی سمجھتے رہے۔ یہ کرو وہ نہ کرو، یہ کھاؤ وہ کھاؤ، اس سے ملو اس سے گریز کرو وغیرہ وغیرہ۔

ایک دن اس کی بس ہو گئی اور اس نے کوئی ایسی گستاخی کی کہ بزرگوں سے برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے کھڑے کھڑے یہ کہہ کر نکال دیا کہ لاڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کچھ دن ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی سمجھ جائے گا اور آ کے معافی مانگ لے گا اور پھر پہلے کی طرح ہمارے کہنے پر چلتا رہے گا۔

مگر آپ کو تو پتہ ہے کہ آج کل کے بچے کیسے ہوتے ہیں۔ مر جائیں گے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے۔ چنانچہ بزرگوں کی پگڑی ہوا میں اڑا دی گئی اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ برخوردار برابری کی سطح پر منھ کو آ گیا۔ لہذا تمام مروتیں اور روایات ایک طرف رکھ کے کمبل کٹائی شروع ہو گئی اور اسے عاق نامہ تھما دیا گیا۔

منصوبہ یہ تھا کہ اس گستاخ بے وفا برخوردار کے چکر میں جن نسلی تابعداروں کو چور ڈاکو بدعنوان قرار دے کر راندہِ درگاہ کیا گیا۔ انھیں دوبارہ منا کے واپس لایا جائے اور آئندہ کسی نئے لمڈے کو اس کے شجرہِ وفاداری کی چھان پھٹک کے بغیر گود نہ لیا جاوے۔

مگر ضدی بچہ کچھ لے دے کے بھی جان چھوڑنے پر تیار نہیں بلکہ مسلسل مفاداتی کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ کے سائیڈ پکڑنے کے بجائے اپنے حصے سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

1970 کے بعد پہلا موقع ہے کہ پلان اے، بی، سی یکے بعد دیگرے ناکام ہوتے جا رہے ہیں اور بزرگوں کو ستر پوشی مشکل ہو رہی ہے۔ ان کے اعمال انہی کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں میں پلنے والا برخوردار انہی کو اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہلا ہلا کے دکھا رہا ہے اور مزید کا بھی دعوی دار ہے۔

مگر بزرگ ہیں کہ اس لمحے تک بھی سوشل میڈیا کے بدتمیز دور میں بیسویں صدی کے مائنڈ سیٹ میں مبتلا ہیں کہ ’ڈنڈہ پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔‘ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ 1979 نہیں کہ لٹکانے سے کام چل جائے۔ انیس سو ستانوے بھی نہیں کہ دو تہائی اکثریت کو ٹھکانے لگا کے ڈنڈہ ڈولی کر کے جہاز میں بٹھا دیا جائے۔

یہ تو عقل سے پیدل گروہ ہے جو اپنا نفع نقصان دیکھنے اور بزرگوں کی سننے کے بجائے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘ ٹائپ گیتوں پر ناچتا ہے۔

آگے کا راستہ بہت آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ ان نوجوانوں کے غصے کی اصل وجوہات جاننے کی سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔ ان کو محض بچہ سمجھ کے چپس، لیپ ٹاپ اور مفت دواؤں کے لالی پاپ دکھاتے رہیں گے تو یہ اور بھڑکیں گے۔

انھیں عزت کے ساتھ بٹھا کے ان کی بات تحمل سے سنی جائے۔ ان کا جتنا حصہ بنتا ہے دے دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے کہ یہ ڈگمگا بھی گئے تو خود کو گر پڑ کے سنبھال ہی لیں گے۔ جب اور جتنا مشورہ مانگیں بس اسی پر اکتفا کیا جائے۔

ویسے بھی جو خاکی و نوری افلاطون اس نسل کے تاحیات مامے بننے پر مصر ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پانچ دس برس جئییں گے یا اپنے عہدوں پر رہیں گے۔ بعد میں بھی تو انہی لڑکے لڑکیوں نے ملک چلانا ہے۔

بہتر ہے کہ انھیں ابھی سے برابر کا حصہ دار بنا لیا جائے تاکہ آگے کی زندگی گذارنے کے لیے کچھ مشق ہو جائے اور وہ تلخیوں اور بدزنی کے ماحول سے نکل کے مستقبل کے چیلنج جھیل سکیں۔

اگر آپ خدا سے لو لگانے کی عمر میں بھی ڈھیلی لنگوٹ پہن کے اس نسل کے سامنے کبڈی کبڈی کرتے رہیں گے تو پھر تھپڑ، قینچی اور دھوبی پٹکے کے لیے بھی اپنے لخلخاتے انجر پنجر کو تیار رکھیں۔

10/02/2024

عمران خان کو چھوڑ کر اپنی سیاسی جماعتیں بنانے والے خود اپنی نشستیں بھی کیوں نہ جیت سکے؟

عزیز اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

پاکستان میں عام انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی نے سیاسی بساط پر ہلچل مچائی ہے وہیں ان سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے ایسے حیران کن نتائج بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو چھوڑ گئے تھے۔

ان میں سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلمینٹیرینز اور جہانگیر ترین کی جماعت استحکام پاکستان پارٹی ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کی سیاسی پارٹیاں انتخابی میدان میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکیں بلکہ یہ دونوں رہنما اپنے اپنے حلقوں میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔

پرویز خٹک انتخابی مہم کے دوران اپنے آپ کو صوبے کا وزیر اعلیٰ قرار دے رہے تھے اور وہ اپنی کارنر میٹنگز اور جلسوں میں کھلے عام یہ دعوے کرتے تھے کہ وہ صوبے کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے اور یہ کہ پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بھی منتخب ہونے کے بعد ان کا ساتھ دیں گے۔

اس کے علاوہ استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مرکز اور صوبہ پنجاب میں حکومت بنائیں گے لیکن وہ خود بھی ایک انتخابی نشست نہیں جیت سکے اور اب تک کے نتائج کے مطابق ان کی جماعت لاہور کے انتخابی حلقوں سے قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں جیت پائی ہے ان میں ایک عبدالعلیم خان اور دوسری سیٹ پر عون چوہدری کامیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ این اے 128 میں عون چوہدری کے مخالف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سلمان اکرم راجہ کی جانب سے انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کی شکایات اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن نے اس حلقے کے حتمی نتائج کو جاری کرنے سے روک دیا ہے۔

عوام نے پرویز خٹک کو کیوں مسترد کیا؟

آخر کیا وجہ ہوئی کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی جماعت کا کوئی ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا اور ایسا کیا ہوا کہ ووٹرز نے پرویز خٹک اور ان کے دونوں بیٹوں کو ان کے اپنے علاقے نوشہرہ کے حلقوں میں مسترد کر دیا ہے۔

ان کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ نوشہرہ کی سات نشستوں سے پرویز خٹک ان کے دو بیٹے اور ایک داماد انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور وہ سات کی سات نشستیں ہار گئے ہیں، پرویز خٹک کے مخالف ایک نوجوان امیدوار نے انتخابی فتح سمیٹی ہے اور وہ ووٹوں کی گنتی میں ان کا تیسرا اور چوتھا نمبر آیا ہے۔

سینیئر صحافی لحاظ علی خان کا کہنا ہے کہ ’خیبر پختونخوا میں جن جماعتوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا لوگوں نے انھیں مسترد کر دیا ہے اور وہ ایک یا دو نشستوں تک محدود رہے ہیں جبکہ پرویز خٹک نے جماعت کی بنیاد ہی پی ٹی آئی کو توڑنے کے لیے رکھی تھی انھیں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

یاد رہے کہ پرویز خٹک کو انتخابی مہم کے دوران بھی سخت عوامی رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور عوام نے ان کی کارنر میٹنگز اور جلسوں کے دوران بھی ان کے خلاف نعرے لگائے تھے۔

سینیئر صحافی علی اکبر کہتے ہیں کہ ’پرویز خٹک کو امپائر پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ ہر وقت وزارت اعلیٰ کا ورد کرتے رہتے تھے، اب سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کا ان انتخابات میں جو حشر ہوا ہے اس کے بعد انھیں سوچنا ہوگا کہ عوام کی طاقت کے بغیر کسی اور پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔‘

عوامی سطح پر عمران خان سے بغاوت یا ان سے بے وفائی کا غصہ بھی عوام میں پایا جاتا تھا جس کا اظہار لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے سے دیا ہے۔

سینیئر صحافی عرفان خان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں عمران خان کو چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس کے علاوہ عمران خان کا بیانیہ لوگوں نے پسند کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگرچے پرویز خٹک اور محمود خان وزارت اعلٰی کے نشست پر براجمان تھے لیکن ان کی مقبولیت اور ان کی کارکردگی عمران خان کی پالیسیوں اور بیانیے کی مرہون منت تھی۔

جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی بھی ناکام

عمران خان اور ان کی جماعت پر جب مشکل وقت آیا تو صرف خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی پی میں شامل سیاستدان ہی نہیں بلکہ پنجاب کے بھی کچھ نامور سیاسی رہنما پی ٹی آئی سے علیحدہ ہو گئے اور وہ تمام عمران خان کے سابق ساتھی جہانگیر ترین کی قیادت میں بننے والی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔

ان انتخابات میں آئی پی پی نے قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں پر 12 اور پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر 37 امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ اس کے لیے آئی پی پی کے قائدین نے مسلم لیگ ن کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی۔

مگر اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق آئی پی پی صرف دو نشستیں جیت چکی ہے ان میں سے بھی ایک پر لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حتمی نتیجے کا اعلان کرنے سے روک دیا ہے۔

آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر ترین خو اپنی سیٹ ہار چکے ہیں ۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو جہانگیر ترین نواز شریف کے کیمپ میں لائیں گے بالکل ویسے جیسے 2018 کے انتخابات کے بعد جہانگیر ترین عمران خان کے لیے جہاز میں آزاد امیدوار لاتے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس وقت جو نتائج آئے ہیں اس نے سب کو حیران کر دیا ہے اور عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد متعدد سرپرائزز دیے ہیں حالانکہ کہ ان کے خلاف ہر طرح کی بھرپور مہم چلائی گئی لیکن ان سب کے باوجود عمران خان کا بیانیہ نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ صوبہ پنجاب میں بھی سراہا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں آئی پی پی اور خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی جماعت سمیت کوئی بھی دوسری جماعت کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

Address

Faisalabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aaban Gamer 1 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Aaban Gamer 1:

Share