
12/07/2025
آج یونہی فارغ بیٹھا فیس بک اسکرول کر رہا تھا کہ اچانک میسنجر پر ایک پیغام موصول ہوا:
"سر، میں نے آج اپنی گریجویشن نفسیات میں گولڈ میڈل کے ساتھ مکمل کر لی ہے... اور سب سے پہلے آپ کو بتا رہی ہوں!"
ایک لمحے کو میں رُک گیا۔ کسی لڑکی کا آئی ڈی تھا۔ پروفائل تصویر میں چہرہ واضح نہ تھا، وہ بلوچی لباس میں ملبوس کسی پرانی سی عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔
نہ وہ میری فرینڈ لسٹ میں تھی، نہ فالوورز میں۔ نام بھی اجنبی سا لگا۔ میں نے پروفائل وزٹ کیا، وہاں بھی کچھ خاص نہ تھا۔
پہلے تو نظرانداز کرنے ہی والا تھا، مگر دل کے کسی کونے میں کوئی پرانی سی دستک سنائی دی۔ ایک مبہم سی یاد... جیسے کہیں، کبھی، مل چکے ہوں۔
میں نے جواب لکھا:
"مبارک ہو، لیکن معذرت... شاید ہم پہلے کبھی ملے نہیں؟"
کچھ لمحوں بعد ٹائپنگ کا نشان ظاہر ہوا۔
پھر پیغام آیا:
"نہیں سر، ہم ایک بار ملے تھے۔ آپ کو یاد ہو یا نہ ہو، لیکن مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے۔"
اب تجسس بڑھ چکا تھا۔ اور تب، جیسے دھند میں سے ایک چہرہ ابھرنے لگا... وہ دن یاد آ گیا۔
یہ تقریباً چار سال پرانی بات ہے۔
میں کراچی کی ایک مارکیٹ کے باہر بیٹھا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں دوستوں کے ساتھ آیا تھا۔ دوست اندر پلازے میں شاپنگ میں مصروف تھے، میں تھک کر باہر بنچ پر آ بیٹھا۔ ایک ایسا دن تھا، جب انسان لوگوں کی بھیڑ میں خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہے۔
تب میں نے اسے دیکھا۔
وہ پریشان سی لگ رہی تھی، شاید کسی سہیلی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد فون بند کیا، اور پھر کسی اور کو کال ملائی۔ دو تین جگہوں پر بات کرنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ تھکی ہوئی، شکستہ قدموں سے قریب ہی ایک بنچ پر بیٹھ گئی۔
اس کی باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ وہ اسٹوڈنٹ ہے اور اپنی سمسٹر فیس کے لیے پریشان ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ فیس جمع کرانے کا آج آخری دن ہے، اور اگر وہ نہ دے سکی تو اس کا یہ سمسٹر ضائع ہو جائے گا۔ والدین باوجود کوشش کے رقم نہیں بھیج سکے۔
میں نے جیب ٹٹولی۔ بٹوے میں دیکھے تو اتنے پیسے موجود تھے جتنی اس کو ضرورت تھی۔
واپسی کا کرایہ اگر نہ بھی ہوتا تو دوستوں سے ادھار لے لیتا۔
میں ججھکتے ہوئے اس کے قریب گیا۔
"مجھ سے زیادہ ان پیسوں کی شاید آپ کو ضرورت ہے۔ کچھ خیال نہ کریں، میں خود بھی اسٹوڈنٹ رہا ہوں، آپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں۔"
پھر میں نے نرمی سے کہا:
"نہ میں آپ سے نام پوچھوں گا، نہ کچھ اور... بس دل لگا کر پڑھئیے گا۔ اللہ تعالیٰ سبب کرتا رہے گا۔"
کافی اصرار کے بعد، وہ نم آنکھوں سے پیسے لے پائی۔ اس کی آنکھوں میں شکر گزاری تھی، لیکن ساتھ ایک خاموش وقار بھی۔
میں جان بوجھ کر فوراً واپس پلٹنے لگا تاکہ وہ کسی شرمندگی کا شکار نہ ہو۔
پیچھے سے اس نے آواز دی:
"سر، میں آپ کا نام جان سکتی ہوں؟"
میں نے مسکرا کر اپنا نام بتایا، اور شاپنگ پلازہ کے اندر چلا گیا۔
یہ واقعہ میں نے کبھی کسی کو نہیں بتایا۔
یہ محض ایک دن تھا میری زندگی کا... لیکن شاید اس کے لیے فیصلہ کن لمحہ۔
اور آج، برسوں بعد... وہی لڑکی میرے میسنجر پر تھی۔
میں نے لکھا:
"کیا تم وہی ہو جو پلازہ کے باہر ملی تھی؟ جسے فیس کے لیے مدد چاہیے تھی؟"
اس کا جواب آیا:
"جی، وہی۔ میں نے وعدہ کیا تھا نا کہ آپ کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گی۔ آج میرا گولڈ میڈل اسی وعدے کی تکمیل ہے۔ سب سے پہلے آپ کو اس لیے بتایا کیونکہ اگر اُس دن آپ نہ ہوتے، تو شاید آج میں بھی نہ ہوتی۔"
میری آنکھیں نم ہو گئیں۔
یہ ایک خاموش نیکی تھی، جو برسوں بعد مہک بن کر لوٹ آئی تھی۔
اس نے ایک آخری پیغام بھیجا:
"میرے بابا کہا کرتے تھے، جو لوگ آپ کو اندھیرے سے روشنی کی طرف دھکیلتے ہیں، اُن کا شکریہ ضرور ادا کرو۔ آج بابا نہیں ہیں... لیکن اُن کی بات مان کر، سب سے پہلے آپ کو بتایا۔"
میں نے میسنجر بند کیا، مگر دل کے اندر ایک نرم سی روشنی باقی رہ گئی...
اور ساتھ ایک سوال بھی:
کتنی دعائیں ہیں جو ہم نے کبھی لی ہی نہیں، لیکن وہ خاموشی سے ہمارے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔