24/03/2025
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بیوروکریٹک نظام: ایک نیا بحران؟
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں انتظامی عہدوں کے لیے اہل امیدواروں کے انتخاب کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ پالیسیوں کے مطابق، صرف وہ افراد جو پہلے سے انتظامی تجربہ رکھتے ہیں، یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدوں کے لیے اہل سمجھے جا رہے ہیں۔ یہ سوچ دراصل بیوروکریسی کے اس ماڈل کی عکاسی کرتی ہے جس نے ملکی گورننس کو ناقابلِ اصلاح بنا دیا ہے۔ اگر یہی ماڈل جامعات میں لاگو ہو گیا، تو اس کا انجام بھی پاکستان کے سرکاری دفاتر جیسا ہوگا—جہاں اختیارات تو ہوتے ہیں، لیکن وژن کا فقدان ہوتا ہے۔
بیوروکریسی کا ناکام ماڈل
پاکستان میں بیوروکریسی، خصوصاً سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران، ملکی انتظامی نظام پر حاوی ہیں۔ مگر اس نظام نے ملک کو ترقی دینے کے بجائے مزید مسائل میں الجھا دیا ہے۔ پیچیدہ قواعد و ضوابط، غیر ضروری تاخیر، کرپشن، اور اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں اس نظام کی پہچان بن چکی ہیں۔
اگر یہی فارمولا یونیورسٹیوں میں اپنایا گیا اور انتظامی عہدے صرف بیوروکریٹک تجربہ رکھنے والوں تک محدود کر دیے گئے، تو جامعات کا مستقبل بھی سرکاری دفاتر جیسا ہو جائے گا—جہاں ترقی سے زیادہ فائلوں کو حرکت دینا کامیابی سمجھی جاتی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے زوال کی اصل وجہ
اگر ہم پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی تباہی پر نظر ڈالیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی ذمہ داری اساتذہ پر نہیں ڈالی جا سکتی، بلکہ پورا نظام کمزور ہو چکا ہے۔
جب بھی یونیورسٹیوں میں بدعنوانی، اقربا پروری، یا دیگر بدانتظامی کی شکایات چانسلر آفس یا دیگر متعلقہ اداروں تک پہنچائی جاتی ہیں، تو انہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ بیوروکریسی اور حکومتی افسران دیگر سرکاری محکموں میں اس سے کہیں زیادہ کرپشن اور قوانین کی خلاف ورزیاں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک یونیورسٹی کی سطح کے مسائل معمولی لگتے ہیں، کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن کے عادی ہو چکے ہیں۔
یہ سوچ احتساب کے عمل کو مفلوج کر دیتی ہے، اور بدعنوان عناصر بے خوف ہو کر اپنے مفادات کی تکمیل کرتے رہتے ہیں۔ جب تک یونیورسٹیوں کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا، تعلیمی معیار مزید گرتا جائے گا۔
یونیورسٹیوں میں بیوروکریٹک نظام کے خطرات
1. تعلیم و تحقیق کا زوال
ایسے افراد جو تدریسی اور تحقیقی شعبے سے ناآشنا ہیں، وہ یونیورسٹیوں کو صرف فائلوں کی حد تک چلائیں گے، جبکہ تعلیمی معیار اور تحقیق کو نظرانداز کر دیا جائے گا۔
2. ضرورت سے زیادہ سرکاری رکاوٹیں (ریڈ ٹیپزم)
جیسے بیوروکریسی میں ہر کام کے لیے غیر ضروری ضابطے اور اجازت نامے درکار ہوتے ہیں، ویسے ہی یونیورسٹیوں میں بھی ترقیاتی کام سست روی کا شکار ہو جائیں گے۔
3. سفارشی کلچر کا فروغ
جب انتظامی عہدے صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو جائیں گے، تو پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے، جس سے میرٹ اور شفافیت ختم ہو جائے گی۔
4. اساتذہ اور محققین کا کردار محدود ہو جائے گا
تدریسی اور تحقیقی عملہ، جو یونیورسٹی کا اصل سرمایہ ہے، فیصلوں میں شامل نہیں ہوگا۔ نتیجتاً پالیسی سازی ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جائے گی جو تعلیمی مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
حل کیا ہے؟
پاکستان کی یونیورسٹیوں کو صرف تجربہ کار افسران نہیں، بلکہ وژنری تعلیمی رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
اساتذہ کی تربیت
جو اساتذہ انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں، انہیں جدید مینجمنٹ کی تربیت دی جائے تاکہ وہ مستقبل میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔
اہلیت کا متوازن نظام
انتظامی عہدوں کے لیے صرف تجربے کو شرط نہ بنایا جائے، بلکہ علمی قابلیت، تحقیقی تجربہ، اور قیادت کی صلاحیت کو بھی اہمیت دی جائے۔
احتساب کا شفاف نظام
یونیورسٹی انتظامیہ کی کارکردگی کو تعلیمی معیار، تحقیقی کامیابیوں، اور تعلیمی ترقی سے جوڑا جائے، نہ کہ صرف بیوروکریٹک سرگرمیوں سے۔
اگر یونیورسٹیاں بھی بیوروکریٹک طرز پر چلائی گئیں، تو اعلیٰ تعلیم مزید زوال کا شکار ہو جائے گی۔ ہمیں اس رجحان کو روکنے کے لیے آواز اٹھانی ہوگی اور ایک ایسا نظام متعارف کرانا ہوگا جو تعلیمی ترقی کو ترجیح دے، نہ کہ بیوروکریسی کو۔
My opinion Higher Education Commission, Pakistan Khyber Pakhtunkhwa Updates