Sajjad Wali

Sajjad Wali Sajjad Wali is an experienced development practitioner having more than 18 years working experiences.

Besides that he has good command on Digital Marketing, Social Media Management, Content Writing..

Thank you PAMIR TIMES for Publishing my write uphttps://www.facebook.com/share/p/19b39khvV9/
06/08/2025

Thank you PAMIR TIMES for Publishing my write up

https://www.facebook.com/share/p/19b39khvV9/

By Sajjad Wali Climate change is no longer just a worry for the future; it is already affecting daily life in Gilgit-Baltistan. This beautiful region, known for its glaciers, rivers, forests, and clean mountain air, is now facing serious environmental problems. Glaciers are melting rapidly, floo

پاکستان میں اسکول سے باہر بچے: ایک صنفی بحران.. پاکستان ایک سنگین تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا کر رہا ہے، جہاں 5 سے 16 سال ک...
26/07/2025

پاکستان میں اسکول سے باہر بچے: ایک صنفی بحران..
پاکستان ایک سنگین تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا کر رہا ہے، جہاں 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں — جو کہ اسکول جانے والے بچوں کی کل آبادی کا تقریباً 44 فیصد بنتا ہے۔ یہ بحران نہ صرف نظام کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ایک تشویشناک صنفی فرق کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
ان میں سے 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے بچیاں ہیں، جو غربت، کم عمری کی شادی، گھریلو ذمے داریوں، اور ثقافتی پابندیوں جیسے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں۔ صورتحال سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب و گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں خاص طور پر تشویشناک ہے، جہاں تعلیمی سہولیات کی کمی، ناقص صفائی، اور خواتین اساتذہ کی قلت لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو مزید محدود کرتی ہے۔
حال ہی میں آنے والی ماحولیاتی آفات، خاص طور پر سیلاب، اور COVID-19 کے دیرپا اثرات نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے خاص طور پر لڑکیاں، بڑی تعداد میں اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
یہ محض تعلیم کا مسئلہ نہیں—یہ ایک قومی ترقی اور انسانی حقوق کا بحران ہے۔ پاکستان ان لاکھوں بچوں، خصوصاً بچیوں کے مستقبل کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، جو تعلیم سے محروم ہیں۔ ہر بچے کو اسکول لانے اور اسے وہاں برقرار رکھنے کے لیے فوری، جامع اور صنف پر مبنی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔





15/07/2025

ورلڈ یوتھ اسکلز ڈے | 15 جولائی
2025
کا موضوع: "امن و خوشحالی کے لیے نوجوانوں کی مہارتیں"

یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار، خود روزگاری اور پائیدار مستقبل کے لیے عملی مہارتوں سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دنیا بھر، خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں، 60 فیصد سے زائد نوجوان ضروری مہارتوں سے محروم ہیں۔ ایسے میں فنی تربیت، ڈیجیٹل مہارتیں اور زندگی سے متعلق سافٹ اسکلز میں سرمایہ کاری محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔

آئیں آج اپنے نوجوانوں کو بااختیار بنائیں تاکہ وہ کل ایک پرامن، جدید اور خوشحال معاشرہ تعمیر کر سکیں۔
💡 نوجوانوں کو ہنر دینا دراصل قوم سازی ہے۔

09/07/2025

📰 تربیتِ اساتذہ کے پروگرام کیوں مؤثر نہیں؟
✍️ تحریر: شاہد صدیقی

کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے دیگر عوامل کے علاوہ تعلیم ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ایسی تعلیم جس کے ذریعے افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئے اور اس تبدیلی کی جھلک معاشرے میں بھی دکھائی دے۔ تعلیم کو ایک مؤثر معاشرتی قوت میں بدلنے کیلئے استاد کا کردار سب سے اہم ہے‘ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کی تربیت کا مناسب اہتمام کیا جائے۔ پاکستان میں تعلیم اساتذہ کے پروگرامز کی تاریخ بہت پرانی ہے‘ جس میں جے وی‘ ایس وی‘ بی ٹی‘ بی ایڈ‘ ایم ایڈکے پروگرام پیش کیے جاتے رہے۔ کچھ عرصہ پیشتر دو محققین واروِک (Warwick) اور ریمر (Reimer) نے تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامز پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ ٹیچر سر ٹیفکیٹ پروگرامز‘ جن کا مقصد تدریس میں بہتری لانا ہے‘ ان کا چار میں سے تین Achievement tests سے کوئی تعلق ہی نہیں اور ایک کے ساتھ کمزور سا تعلق ہے۔ اس تحقیق نے پاکستان میں تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامزکے مؤثر ہونے کے حوالے سے کئی سوال کھڑے کر دیے۔
تربیتِ اساتذہ کے جامع تصور کے مطابق ایک استاد میں تین سطحوں پر تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ علم‘ طریقۂ تدریس اور رویے کی سطحیں ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامز کا جائزہ لیں تو پورا زور طریقۂ تدریس پر ہوتا ہے۔ روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے ان پروگرامز میں اچھے استاد اور اچھی تدریس کی خوبیوں پر مشتمل فہرستیں اساتذہ میں اس مفروضے پر تقسیم کی جاتی ہیں کہ انہیں پڑھ کر وہ بھی اپنی تدریس کو بہتر بنا لیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اس ماڈل میں استاد Knowledge Producer کے بجائے محض Consumer of Knowledge کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے حوالے سے جتنے نظریات پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے‘ وہ جن ممالک سے درآمد کیے گئے ہیں‘ ان کی جماعت کے کمرے کا ماحول اور مسائل ہمارے اپنے تعلیمی مسائل سے یکسر مختلف ہیں۔ سو اس طرح استاد جب کمرۂ جماعت میں پڑھانے کیلئے جاتا ہے تو وہ پڑھائے جانے والے مواد کو جماعت کے کمرے کے ماحول سے بالکل مختلف پاتا ہے اور بمشکل ہی اس سے کوئی تعلق قائم کر پاتا ہے۔ شرکائے کورس کو کم ہی ایسے مواقع میسر آتے ہیں کہ وہ سکول کے مجموعی ماحول سے متعلق تنقیدی نظر سے فیصلہ سازی کرنے کے قابل ہو سکیں۔ نتیجتاً اساتذہ کے ہاتھ میں ایک جامد اور متعین شدہ تدریس کا ماڈل تھما دیا جاتا ہے۔ اس طرح تبدیلی کے عمل میں پڑھانے والوں کے خیالات اور کلاس کی عملی صورت میں فرق رکاوٹ بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ایک روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے کورس میں بمشکل ہی تدریس اور تحقیق میں کوئی تعلق قائم کرنے کی کو شش کی جاتی ہے جس کی بنا پر اساتذہ نصاب میں کوئی جدت لا سکتے ہوں اور اس طرح مختلف ورکشاپس کے ذریعے اس خیال کو اور زیادہ مضبوط کیا جاتا ہے کہ استاد کی حیثیت تعلیمی نظام میں مشین میں لگے ایک چھوٹے سے پرزے کی طرح ہے۔
اگرچہ سکول میں تبدیلی لانا ایک پیچیدہ معاملہ ہے لیکن تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں اس بات کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ بعض بنیادی تصورات مثلاً تبدیلی ایک سست رو عمل ہے‘ اس پر کم ہی بحث کی جاتی ہے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اداروں میں تبدیلی کے عمل کو خطرات سے دو چار کر دینے والا ایک اہم عنصر تبدیلی کے عمل کو مکمل اور جامع تبدیلی کے طور پر نہ سمجھنا ہے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اداروں کو ایسے کورسز بھی پڑھانے کی ضرورت ہے جن میں وہ ادارہ کے سربراہ‘ اساتذہ‘ منتظمین اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھا سکیں۔ ایک کامیاب تبدیلی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کیلئے فالو اَپ کے مؤثر نظام کا ہونا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں اساتذہ کو تنہائی کے جزیرے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ فالو اَپ کا نظام نہ صرف نگرانی بلکہ اساتذہ کو مدد فراہم کرنے میں بھی مفید ہوتا ہے۔ دیرپا تبدیلی کیلئے صدرمعلم کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ہم ادارے کے سربراہ کو تبدیلی کے عمل کا حصہ بنا لیں تو کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے کورسز میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ صدر معلم کے خیالات کو جگہ دی جائے۔ اس کا بالآخرنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صدرمعلم سکول کی سطح پر لائی جانے والی تبدیلیوں اور ان اساتذہ کو‘ جو اس تبدیلی کیلئے کام کرنے کے خواہاں ہو تے ہیں‘ کم ہی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس طرح تبدیلی کیلئے اٹھائے جانے والے بہت سے مفید اقدامات جن پر اُن سے مشاورت نہ کی گئی ہو‘ صدرمعلم کے آمرانہ نقطۂ نظر کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ صدرمعلمین کیلئے ایسے کورسز کی دستیابی بھی بہت کم ہے‘ جہاں پر انہیں اختیارات کی منتقلی‘ سربراہ ادارہ سے متعلقہ مسائل وغیرہ کے حوالے سے تربیت دی جا سکے جس کی بنیاد پر وہ دیرپا تعلیمی تبدیلی کیلئے اقدامات کر سکیں۔
تبدیلی کے ضمن میں طاقتور عنصر نصاب کا ہے۔ پاکستان میں نصاب سازی قو می سطح پر کی جاتی ہے اور اساتذہ اس کو نافذ کرنے والے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر سکولوں میں درسی کتب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اساتذہ اور انتظامیہ کی پوری توجہ کورس؍ نصاب کو مقررہ وقت میں ختم کرنے پر ہوتی ہے لہٰذا بہت سے اساتذہ تبدیلی کے عمل سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی پابندیوں کی وجہ سے تبدیلی نہیں لا سکتے۔ زیادہ تر سکولوں میں سربراہان کا جائزہ سکول کے نتائج کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسی بنا پر سربراہ ادارہ امتحانی نتائج ہی کو اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی استاد کا جائزہ اس کی کلاس کے نتائج کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ والدین کی توقعات اس سے مختلف نہیں ہوتیں۔ اس طرح طلبا‘ والدین‘ سربراہِ ادارہ اور رفقائے کار کا دباؤ کسی بھی استاد کو تدریس کے دوران میں جدت اختیار کرنے سے روک دیتا ہے‘ اگر چہ وہ اس کیلئے کتنا ہی پُرجوش کیوں نہ ہو۔
تعلیمِ اساتذہ کے پروگرامز کو نظریے (Theory) اور عمل (Practice) میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سکولوں کا معائنہ‘ کلا س روم کا تدریسی مشاہدہ‘ جماعتی تدریس‘ انفرادی تدریس‘ پڑھانے سے پہلے اور بعد کی ملاقاتیں‘ نظری چیزوں کو عمل میں لانے کی چند تجاویز میں Teaching Practice کو محض ایک رسمی سی کارروائی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے سوچ بچار پر مبنی سرگرمی کے طور پر قبول کیا جائے۔ شرکائے کورس کو براہِ راست کلاس میں پڑھانے کے بجائے پہلے سکول‘ کلا س روم‘ طلبا اور اساتذہ سے شناسائی حاصل کر لینی چاہیے۔ باقاعدہ تدریس سے پہلے اس طرح کی ابتدائی سرگرمیاں اساتذہ کو تدریس میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز میں ایک اہم چیز تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پورے تعلیمی پروگرام میں اساتذہ کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ طریقۂ تعلیم اور کورس پر تنقیدی انداز میں اظہارِ خیال کر سکیں اور ان کے متبادل پیش کر سکیں۔ یوں سیکھنے کا ایک مسلسل نظام تشکیل پا جائے گا۔ اس طرح تنقیدی خیالات نہ صرف ذاتی زندگی بلکہ سکول کی زندگی میں تبدیلی لانے کا باعث بن سکیں گے۔ تعلیمی اداروں میں تبدیلی کیلئے ہمیں استاد کے کردارکا ازسرِ نو تعین کرنا ہو گا۔ ان کا یہ نیا کر دار نہ صرف انہیں سوچ بچار اختیار کرنے والا عملی مدرس (Reflective Practitioner) بلکہ تعلیمی نظام کو بہتر کرنے اور جماعت کے اندر اپنی کارکردگی بڑھانے والا استاد بنا دے گا۔

حوالدار لالک جان شہید نشانِ حیدر کا آج یوم شہادت ہے اس مناسبت سے یہ مضمون لکھا گیا ہے۔۔لالک جان شہید (نشانِ حیدر) – بہاد...
08/07/2025

حوالدار لالک جان شہید نشانِ حیدر کا آج یوم شہادت ہے اس مناسبت سے یہ مضمون لکھا گیا ہے۔۔
لالک جان شہید (نشانِ حیدر) – بہادری اور قربانی کی زندہ مثال

تحریر: سجاد ولی

پاکستان کی حفاظت کرنے والے کئی بہادر سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس سرزمین کو محفوظ بنایا۔ ان عظیم شہیدوں میں ایک روشن نام ہے حوالدار لالک جان شہید کا، جنہوں نے 1999 کی کارگل جنگ میں بے مثال بہادری دکھائی اور اپنی جان قربان کر کے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

لالک جان کا تعلق شمالی علاقے گلگت بلتستان کے خوبصورت گاؤں یاسین (ضلع غذر) سے تھا۔ وہ 1 اپریل 1967 کو ایک محنتی اور غیرت مند گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی ان کے دل میں وطن سے محبت، دیانت داری اور قربانی کا جذبہ موجود تھا۔

انہوں نے 1984 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی رجمنٹ تھی شمالی لائٹ انفنٹری (NLI)، جو گلگت بلتستان کے نوجوانوں پر مشتمل ایک دلیر رجمنٹ ہے۔ فوج میں شامل ہونے کے بعد وہ اپنے فرض کو ایمانداری اور دلیری سے ادا کرتے رہے۔

پھر آیا 1999 کا وہ وقت، جب بھارت نے کارگل کے پہاڑی علاقوں میں حملہ کیا۔ اس وقت لالک جان نے رضاکارانہ طور پر فرنٹ لائن پر جانے کی درخواست دی۔ انہیں سب سے بلند اور خطرناک پوسٹ پر تعینات کیا گیا۔ دشمن نے گولہ باری اور شدید حملے کیے، لیکن لالک جان ڈٹے رہے۔ کئی دن تک لڑتے رہے، یہاں تک کہ 7 جولائی 1999 کو ایک حملے میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ اس کے باوجود وہ مورچے سے نہ ہٹے اور دشمن کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

بالآخر وہ جامِ شہادت نوش کر گئے اور ہمیشہ کے لیے قوم کے دلوں میں زندہ ہو گئے۔ ان کی عظیم قربانی پر حکومتِ پاکستان نے انہیں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر دیا۔ وہ گلگت بلتستان کے پہلے سپاہی ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔

آج بھی ان کا مزار یاسین میں موجود ہے، جہاں لوگ عقیدت سے سلام پیش کرتے ہیں۔ ان کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وطن کی حفاظت کے لیے جان دینا سب سے بڑا فخر ہے۔

لالک جان شہید نے ہمیں سکھایا کہ سچا جذبہ اور پکا ارادہ ہو تو کوئی چیز ناممکن نہیں۔ وہ صرف ایک فوجی نہیں تھے، وہ قوم کے ہیرو اور گلگت بلتستان کا فخر ہیں۔ ان کا نام ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

09/07/2024
01/05/2024
داخلے جاری ہے
13/03/2024

داخلے جاری ہے

Enroll Your Children The Baccalaureate School System Gahkuch, Gilgit-Baltistan

اپنے بچوں کی سردیوں کی چھٹیوں کو مفید اور کارآمد بنائیں اور انہیں بنیادی کمپیوٹر کی سیکھائیں
19/12/2023

اپنے بچوں کی سردیوں کی چھٹیوں کو مفید اور کارآمد بنائیں اور انہیں بنیادی کمپیوٹر کی سیکھائیں

Productive Use of Your Children Winter Vacation and Learn Basic Computer Skill

21/10/2023

True 🙂
Follow Maybe Oneday

Autumn is its peak in my home town Yasin
16/10/2023

Autumn is its peak in my home town Yasin

Address

Gakuch
55555

Telephone

+923129722452

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sajjad Wali posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Sajjad Wali:

Share