01/08/2024
قاتلان حسین ابن علی کون تھے ؟ کوفی؟ یا صحابہ اور صحابہ زادے؟
کوفہ والوں کی وفا پر اکثر انگلیاں اٹھتی رہیں مگر یہ کسی نے بھی نہ پوچھا کہ جب يزيد ابن معاویہ نے جبر ظلم طاقت سے ہر قیمت پر حسین ابن علی ع سے اپنی بیعت لینے کا حکم دیا تو مکہ اور مدینہ کے کتنے صحابہ کرام ان کی اولادوں اور مسلمانوں نے اس مشکل وقت رسول اللہ کی آل کو کیوں تنھا چھوڑ دیا ؟؟؟ یہ بات تاریخ کے اوراق پر ابھی ادھار ہے جو سامنے آئے گی اہل کوفہ پر بہتان کا جملہ ھے کہ كوفى لا يوفی ہیں
حضرت علی (ع) کے دور خلافت میں آپ کے اہم ساتھی
عمار ابن ياسر ......... مدینہ
مالک اشتر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوفہ
میثم تمار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوفہ
کمیل اسدی . کوفہ
صحصہ بن صوحان ... کوفہ
سلیم بن قيس کوفہ
عدي بن حاتم . کوفہ
حجر بن عدی ....... كوفه
اسی طرح حضرت امام حسین ع کے ساتھیوں میں جن نے جنگ میں ساتھ دیا صرف 8 یا 9 کا تعلق مدینہ اور مکہ سے ہے باقیوں کا تعلق کوفہ، شام اور بصرہ سے ہیں
اس سے سمجھانا یہ مقصود ھے کہ کربلا میں نواسہ رسول کے ساتھ ان کے اپنے اعزاء و اقارب کے علاوہ شہید ہونے والوں کی اکثریت کوفہ سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ پروپیگنڈہ بنو امیہ کے حامی مؤرخوں نے بنو امیہ کے اس بدترین ظلم و بربریت اور حیوانیت و سفاکیت کو چھپانے کے لئے کیا کہ کوفیوں نے خود کوفہ بلا کر بیوفائی کی تاکہ صحابہ زادوں کی قیادت میں شامی یزیدی فوج نے کربلا میں جس ظلم سے نبی کے گھر کو تخت و تاراج کیا وہ بیان نہ ھو۔ کوفہ والوں میں سے جو محبان اهلبیت تھے انکی کثیر تعداد کو ریاستی مشینری نے یا تو سانحہ کربلا سے پہلے قید و بند میں ڈال دیا تھا یا گھروں میں محصور کر دیا تھا یا پھر شہید کر دیا تھا۔ ماں کوفہ والوں نے ہی امام کو خط لکھے تھے اور خط لکھنے والے لشکر شام میں بھی شامل تھے اور جب امام نے کربلا میں انکو مذکورہ خطوط دکھائے تو وہ خاموش تھے گویا کہ یہ خط لکھ کر بلانے والے کوفی بھی ڈر خوف مجبوراً دنیاوی لالچ یا دیگر وجوہات کی بنا پر یزید کے حامی بن چکے تھے اور اسی کے اشاروں پہ چل رھے تھے
یہ ایک تاریخی حقیقت ھے کہ اھلبیت محمد
مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ کوفہ کے محبان اهلبیت نے ہی دیا جبکہ مکہ و مدینہ جیسی مراکز اسلامی کا رویہ شرمناک حد تک معاندانہ رها۔
تحریر عارف حسین