Taqpa

Taqpa Empowering Voices, Informing Minds from heart of Gilgit Baltistan.
(2)

Taqpa is a dynamic advertising services and digital publishing company based in Gilgit, Gilgit-Baltistan, Pakistan. Taqpa specializes in providing innovative advertising solutions while also focusing on news and current affairs publishing as its primary source of engagement. The company has gained recognition for its role in promoting tourism and supporting local businesses, particularly in the af

termath of the COVID-19 pandemic. Utilizing digital platforms and social media, Taqpa enhances visibility for businesses and highlights the cultural and natural beauty of Gilgit-Baltistan. In addition to its advertising services, Taqpa is committed to delivering customized content that keeps its audience informed about current events. The platform aims to create a tailored engagement experience while actively investing in human resource development to build a skilled workforce that supports its publishing and marketing efforts. Headquartered in one of Pakistan’s most picturesque regions, Taqpa is dedicated to fostering economic growth by connecting local enterprises with broader markets. Its work not only supports tourism but also showcases the unique heritage and potential of Gilgit-Baltistan on a larger scale.

گزشتہ 8 محرم الحرام کو چھموگڑ کے مقام پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے میں جلال آباد کی طرف سے نامزد کئے جانے والے چھموگڑ...
29/08/2025

گزشتہ 8 محرم الحرام کو چھموگڑ کے مقام پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے میں جلال آباد کی طرف سے نامزد کئے جانے والے چھموگڑ کے انیس الرحمن، ضیاء الرحمن ، فواد الرحمان ، ساجد، شاہ رئیس خان، سلطان ولی، خشت اللہ، محمد طاہر، شہزاد عالم ، شاہ رخ ، ظہیر، نصرت اللہ، سعید خان، صدام حسین ، عابد ظفر، مجاہد، اکمال، قاری عنایت ، سلطان محمود ، محمد ایاز، کاشان، توصیف، نوید اور محمد عارف کے وارنٹ گرفتاری انسداد دہشتگری کے دفعات کے تحت 26 اگست کو انسداد دہشتگری عدالت گلگت نے جاری کردئیے ہیں۔

تالی داس کا سیلاب ایک سوشل تجربہ اور طالبہ کی نظر میں ✍️ ماہنور جہاں، اینکر ڈسکورس پاکستانگزشتہ دنوں غذر کے علاقے تالی د...
29/08/2025

تالی داس کا سیلاب
ایک سوشل تجربہ اور طالبہ کی نظر میں
✍️ ماہنور جہاں، اینکر ڈسکورس پاکستان

گزشتہ دنوں غذر کے علاقے تالی داس میں اچانک آنے والے سیلاب نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک ہی لمحے میں پہاڑوں سے اترتا ہوا پانی راستے بہا لے گیا، دریا رک گیا اور وادی ایک جھیل میں بدل گئی۔ یہ منظر صرف ایک قدرتی آفت نہیں تھا بلکہ ایک ایسا تجربہ بھی تھا جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انسان کا اصل چہرہ، اس کا حوصلہ اور اس کا جذبہ مشکل گھڑی میں ہی سامنے آتا ہے۔
اس حادثے میں سب سے پہلا اور سب سے روشن کردار ان چرواہوں کا تھا جو چراگاہوں میں موجود تھے۔ انہوں نے جب پانی کی شدت دیکھی تو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر گاؤں والوں کو موبائل فون سے اطلاع دی۔ ان کے پاس نہ کوئی طاقت تھی نہ بڑے وسائل، لیکن ان کی بروقت کالز نے سیکڑوں زندگیاں بچا لیں۔ میں نے یہ واقعہ سنا تو دل سے ایک ہی خیال آیا کہ اصل بہادری وہ ہے جو سادہ دل انسانوں میں چھپی ہوتی ہے، جنہیں عام دنوں میں شاید ہی کوئی یاد کرتا ہو۔
یہ کہانی صرف چرواہوں پر ختم نہیں ہوتی۔ کئی نوجوان ایسے بھی تھے جنہوں نے اندھیری رات میں گھر گھر جا کر لوگوں کو جگایا۔ کسی نے بزرگوں کو کندھوں پر اٹھایا، کسی نے عورتوں اور بچوں کو محفوظ جگہوں تک پہنچایا۔ کچھ لوگ بیچ پانی میں اتر کر دوسروں کو نکالتے رہے حالانکہ ان کے پاس نہ کشتی تھی نہ لائف جیکٹ۔ میں تصور کرتی ہوں کہ وہ لمحے کتنے خوفناک ہوں گے، مگر پھر بھی ان کے حوصلے نے سب کو بچا لیا۔ یہ وہ لمحے تھے جب انسانیت کا اصل روپ سامنے آیا۔
جب میں نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی تو سب نے ایک ہی جملہ کہا:
"ہم غریب ہیں، لیکن ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
یہ جملہ میرے دل کو چھو گیا۔ مجھے لگا یہ صرف ایک بات نہیں بلکہ ان کی پوری زندگی کا فلسفہ ہے۔ کوئی کھانا پکا رہا تھا، کوئی ریسکیو میں لگا تھا، اور کوئی اپنے گھر چھوڑ کر دوسروں کی پناہ گاہ بنا رہا تھا۔ یہ منظر مجھے ان کی ثقافت کا اصل رنگ دکھا گیا کہ یہاں لوگ دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں۔
فوجی ہیلی کاپٹر بھی مدد کو پہنچے، مگر اس سے پہلے مقامی لوگوں نے ہی اپنی مدد آپ کے تحت بے شمار خاندانوں کو نکال لیا تھا۔ یہ سب دیکھ کر مجھے یقین ہوا کہ اجتماعی تعاون صرف کتابوں کی بات نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ غذر کے کلچر میں یہ روایت ہے کہ خوشی ہو یا غم، پورا گاؤں ایک ساتھ ہوتا ہے۔ یہی روایت اس آفت کے وقت بھی زندہ رہی۔

بطور طالبہ اس واقعے نے مجھے سکھایا کہ اصل تعلیم صرف کتابوں میں نہیں بلکہ ایسے تجربات میں بھی چھپی ہوتی ہے۔ ہم کلاس روم میں ہمدردی، تعاون اور بھائی چارے کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن تالی داس کا سیلاب یہ سب کچھ حقیقت میں دکھا گیا۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ ہیرو وہ نہیں جو خبروں میں شہ سرخی بنتا ہے بلکہ وہ ہے جو خاموشی سے دوسروں کے لیے قربانی دیتا ہے۔
یہ حادثہ مجھے یہ سبق دے گیا کہ قدرتی آفات کے وقت صرف حکومت یا ادارے کافی نہیں ہوتے، ہمیں خود بھی تیار رہنا ہوگا۔ پہاڑوں کے درمیان رہنے والے لوگ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ بقا صرف اسی کی ہے جو دوسروں کا سہارا بنے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اجتماعی تعاون کو سب سے بڑی طاقت مانا جاتا ہے۔

آخر میں میں یہ کہوں گی کہ تالی داس کا سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں تھا، یہ ایک سوشل تجربہ تھا۔ اس نے مجھے یہ دکھایا کہ انسانیت اور بھائی چارہ سب سے بڑی قوت ہے۔ اس نے مجھے سکھایا کہ تعلیم کا اصل مقصد صرف ڈگری لینا نہیں بلکہ ایک ایسا انسان بننا ہے جو مشکل وقت میں دوسروں کا سہارا بن سکے۔ یہ وہ سبق ہے جو کسی نصاب میں نہیں ملتا، بلکہ قدرت خود اپنے انداز میں پڑھا دیتی ہے۔





گزشتہ 8 محرم الحرام کو چھموگڑ کے مقام پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے میں چھموگڑ کی طرف سے نامزد کئے جانے والے جلال آباد...
29/08/2025

گزشتہ 8 محرم الحرام کو چھموگڑ کے مقام پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے میں چھموگڑ کی طرف سے نامزد کئے جانے والے جلال آباد کے عارف، خادم حسین ،محمد صادق ، مظہر، بہادر علی، واجد، حاجت، سید اقتدار، ولادت، اختر، فردوس، اقتدار، منور، شاجہان، طارق حسین، صابر حسین ، مجتبیٰ علی، دوستدار علی، معین علی، عاشق حسین، ذیشان، میر علی، اور منتظر کے وارنٹ گرفتاری انسداد دہشتگری کی دفعات کے تحت 26 اگست کو انسداد دہشتگری عدالت گلگت نے جاری کردئیے ہیں۔

دریائے راوی، چناب اور ستلج میں طغیانی پانی ریکارڈ درجے تک تک بڑھ گیا۔سیلابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ...
29/08/2025

دریائے راوی، چناب اور ستلج میں طغیانی پانی ریکارڈ درجے تک تک بڑھ گیا۔
سیلابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے الرٹ جاری کر دیا۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

29/08/2025

سوست تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی کی پریس کانفرنس۔
پریس کانفرنس میں گزشتہ روز صوبائی وزراء کی طرف سے کی جانے والی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے عباس میر نے کہا کہ تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی سوست کے حوالے سے صوبائی کابینہ
کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتی ہے تاہم کابینہ کے فیصلے کی سمری اور وفاق کو بھیجے گئے مندرجہ ذات کو سامنے لانے میں تاخیر نے اس فیصلے کو مشکوک بنا دیا ہے۔
نیز پاک چین تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی نے اپنے حقوق کے حصول تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔
جبکہ عباس میر نے پاک چین تاجر اتحاد ایکشن کمیٹی کی جانب سے سانحہ ہڈور کی پرزور الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ جب بھی گلگت بلتستان میں امن ہونے لگتا ہے تو ایسے واقعات رونماء کروا کر امن کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

29/08/2025

غذر شندور ایکسپریس وے کو تالی داس کے مقام پر عارضی طور پر بحال کردیا گیا۔
البتہ لوگوں کے متبادل راستے کے حوالے سے تحفظات۔

29/08/2025

Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars - they help me earn money to keep making content you love.

Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars!

27/08/2025

Let these sacrifices inspire us to imagine a world where solidarity and empowerment are not exceptions born of tragedy, but guiding principles of daily life.

An article by Syed Shams Uddin on the incidents of Danyore Nullah and Raooshan Tali Das.

LINK IN THE COMMENT SECTION 👇🏻

26/08/2025

دارالہنر فاؤنڈیشن دنیور کی طالبہ علینہ زہرا اور پاکستان بلائنڈ سپورٹس فیڈریشن کی پلیئر سمیرا گری نے ایشین پیسفک چیمپیئن شپ کے لئے کوالیفائی کرلیا، دونوں طالبات پاکستان کی طرف سے گول بال ٹیم میں کھیلیں گی،حال ہی میں دونوں طالبات نے کراچی میں ہونے والے ٹرائلز میں حصہ لیا اور سلیکٹ ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

سنگل داریل چراگاہ تنازعہ، کچھ کٹھی میٹھی باتیں!اَسّی کی دہائی تھی۔ ضیاء الحق صاحب نے ملک میں ڈنڈا بردار اسلام نافذ کرنے ...
26/08/2025

سنگل داریل چراگاہ تنازعہ، کچھ کٹھی میٹھی باتیں!

اَسّی کی دہائی تھی۔ ضیاء الحق صاحب نے ملک میں ڈنڈا بردار اسلام نافذ کرنے کی ٹھانی۔ اب اسلام تو ایک نرمی، محبت اور اخلاق کا دین ہے، مگر حضور نے اسے ڈنڈے اور صلوٰۃ کمیٹیوں کے حوالے کر دیا۔ یوں پورے ملک میں کمیٹیاں ایسے اُگنے لگیں جیسے بارش کے بعد کھمبیاں۔ ضیاء صاحب نے سطحی ہی سہی لیکن پاکستان کو ہتھیار سے پاک ملک بنانے کی ٹھانی۔ چنانچہ حکم صادر ہوا کہ ہر شہری اپنا اسلحہ تھانے میں جمع کرائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلحے کا بیج اور بارود کا چھڑکاؤ خود انہی کے دستِ مبارک سے ہوا تھا۔ ہزہاٸی نس کے ساتھ دوستی سے بعد میں ضیاء صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوا تھا لیکن تب بہت دیر ہوچکی تھی۔

المختصر خصوصاً غذر اور ہنزہ میں جہاں اسماعیلی کمیونٹی کی ایک کثیر تعداد بستی ہے، وہاں کے مکینوں نے خود اپنے گھروں سے پستول تک اُٹھایا اور حکومت کے حوالے کیے۔ اس عمل میں اسماعیلی کونسلات کا بھی مثبت کردار رہا۔ انہوں نے جماعتوں کو حکومتِ وقت سے تعاون کرکے ہر قسم کی ہتھیار تھانوں میں جمع کرنے کی اپیل کی۔ جماعت نے کونسل کے حکم کو امام کا حکم سمجھتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ چٹورکھنڈ کے چنار تلے ایک محفل سجی۔ قہقہے، چائے کے کپ اور حسبِ دستور طنزیہ جملے۔ قہقہوں پر مبنی ایسی محافل آج بھی مختلف دیہاتوں میں ہوتی رہتی ہیں۔ کیونکہ ہماری دُکھ سکھ سبھی سانجھے ہیں۔ آپس میں خونی رشتے ہیں۔ ایک دل جَلے سنی بھائی نے موقع غنیمت جانا اور از راہِ تفنن کہہ بیٹھا ’’ارے بھائی جان! آپ لوگ تو بڑے سیدھے نکلے۔ حکومت کے اعلان کو دل سے مان لیا اور ہتھیار تھانے کے حوالے کر دیے۔ ہم نے تو اپنی بندوقیں چُھپا رکھی ہیں۔ اب آپ کی خیر نہیں۔‘‘

یہ سنتے ہی محفل ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگئی۔ قہقہے بلند ہوئے۔ یاد رہے کہ اسی کی دہائی میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے گلگت بلتستان کی وادیوں میں نئی زندگی کی لہر دوڑائی تھی۔ بنجر زمینیں آباد ہونے لگیں، باغات نے شادابی اوڑھ لی، اور شجرکاری نے پہاڑوں کے دامن کو سبزہ زار بنا دیا۔ دیہات میں مرد و خواتین کی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے بچت کی روایت کو جنم دیا، چھوٹے چھوٹے کاروبار کی بنیاد رکھی، اور گھریلو صنعتوں کو پروان چڑھایا۔ خواتین کے لیے سلائی کڑھائی کے مراکز، لیڈیز شاپس، اور مرغیوں کی افزائش جیسے منصوبے اس تبدیلی کے روشن چراغ بنے۔

یہ عالم تھا کہ اگر چٹورکھنڈ میں کوئی مرغی بیمار پڑ جاتی تو گلگت سے ڈاکٹر طویل سفر طے کرکے پہنچتا، علاج کرتا اور واپس لوٹ جاتا۔ گویا انسان اور پرندے دونوں ہی اس ترقی یافتہ سوچ کے دائرۂ رحمت میں شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خدمت کا جذبہ محض انسانوں تک محدود نہ رہا بلکہ حیات کی ہر صورت کو سہارا دینے کی جستجو نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

سنی بھائی نے جب از راہِ تففن اسماعیلیوں کو دھمکی دی۔ مگر وہیں بیٹھا ایک اسماعیلی بھائی نے مسکرایا اور بولا ’’پیارے بھائی، مجھے آپ کی نادانی پر ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی۔ آپ ابھی تک بابائے آدم کے دور کی زنگ آلود بندوقوں پر نازاں ہیں۔ ہمیں ان کھٹارہ ہتھیاروں سے کیا لینا! آپ سن لیں، اگر میری مرغی بیمار ہو جائے تو گلگت سے گریڈ اٹھارہ کا ڈاکٹر، امام کی دی ہوئی بیس لاکھ کی گاڑی پر سوار ہو کر صرف اُس مرغی کا علاج کرنے یہاں چٹورکھنڈ پہنچتا ہے اور پھر واپس جاتا ہے۔ اب ذرا سوچ لیجیے، خدانخواستہ اگر مجھ پر مشکل وقت آیا تو... حضور! امریکہ کے سارے جہاز چٹورکھنڈ پر اُترے ہوں گے۔‘‘

یہ سن کر محفل پر ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ سنی بھائی نے اپنی بندوق کو یاد کیا، جس کی نالی میں مکڑی کا جالا اور پچھلی گولی کا دھواں اب تک پھنسا تھا۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچا ’’واقعی، یہ زمانہ اب زنگ آلود ہتھیاروں کا نہیں، بلکہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ایک مدبر میرِ کارواں کی قیادت کا ہے۔‘‘

یہ واقعہ یوں ہی ذہن میں نہیں آیا۔ ان دنوں داریل اور سنگل کے مابین چراگاہ کا تنازعہ شدّت اختیار کر چکا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ چراگاہ کس کی ملکیت ہے اور کس کا حق زیادہ ہے۔ تاہم میرا مقصد اس جھگڑے کے حق اور مخالفت میں دلائل دینا نہیں بلکہ اس تنازعے کے ایک نہایت خطرناک پہلو کی طرف توجہ دلانا ہے۔ داریل سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں یہ بات کھل کر دکھائی دیتی ہے کہ چند افراد ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہوئے نہ صرف دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ ریاستی اداروں، پاک فوج اور آئینِ پاکستان کی رٹ کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات کے باوجود اب تک ریاستی سطح پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا آئینِ پاکستان کسی کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ریاستی رٹ کو یوں کھلم کھلا چیلنج کرے؟ ہم یہاں صرف اتنی سی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ محض سنگل کے عوام کو دھمکی نہیں، بلکہ ہزاروں لالک جانوں کی سرزمین کے باسیوں اور شہدائے وطن کی پاکیزہ روحوں کو مجروح کرنے کی جسارت ہے۔ یوں سمجھے کہ میری یہ تحریر صرف ایک احتجاج نہیں، بلکہ امن کی ایک التجا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ریاست ہتھیاروں کی اس نمائش اور رٹِ ریاست کو چیلنج کرنے والے اس رویے کے خلاف فوری اور ٹھوس قدم اُٹھائے گی۔ جہاں تک چراگاہوں کے تنازع کا تعلق ہے، اس کا حل قانونی راستہ ہی ہے، ہمیں اصل اعتراض تو صرف اس اسلحہ برداری پر ہے جس نے ماحول کو مکدر کر دیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ چند شرپسندوں کے باعث اس خطے کا سکون اور ہمارے باہمی رشتے متاثر ہوں۔ یہ دھرتی ہماری مشترکہ یادوں سے جُڑی ہوئی ہے۔۔۔ میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں کہ میری شادی میں عنایت اللہ شمالی بھائی چلاس سے سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے بارجنگل پہنچے تھے؟ یا کشروٹ کے میرے بڑے بھائی عبدالخالق تاج نے میری شادی میں رقص کرکے پوری محفل لوٹ لی تھیں۔ میں سلیمی، حقانی اور ناز ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تعلقات خراب نہ ہوں۔ شرپسندوں کو لگام دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ رشتہ ناتا، یہ یاریاں اور خونی رشتے ہمارا اصل سرمایہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ امن کی ڈور کو شرپسندی کی قینچی سے کٹنے نہ دیا جائے۔ تعلقات کی حفاظت ہماری خواہش ہے، اور شرپسندوں کو لگام دینا ریاست کی ذمہ داری۔

ہم یہاں اسماعیلی نوجوانوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر واقعے کو سنجیدگی کے ساتھ پرکھیں اور سوشل میڈیا کے استعمال میں ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ اسماعیلی کمیونٹی کے پاس ایک مضبوط ادارہ جاتی اور امامتی نظام موجود ہے۔ ایسے وقتوں میں اسی نظام پر اعتماد اور اس کی رہنمائی پر عمل کرنا ضروری ہے۔

اسماعیلی ائمہ کا کردار تاریخ کے ہر دور میں مثالی رہا ہے۔ بہت دور جانے کی ضرروت نہیں۔ پاکستان کی آزادی کی ہی بات کرے تو سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کی خدمات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ ’’مطالعہ پاکستان‘‘ سے فرصت ملے تو جسونت سنگھ کی انگریزی کتاب ’’جناح ۔۔۔ پارٹیشن، انڈیپیڈینس‘‘ جوکہ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے چھپی ہے، کو ضرور ملاحظہ کیجئے گا۔

۱۹۷۲ء میں یوگنڈا کے آمر حکمران عیدی امین نے اچانک ایک فرمان جاری کیا کہ تمام ایشیائی باشندے نوّے دن کے اندر ملک چھوڑ دیں۔ یہ اعلان ہزاروں خاندانوں کے لیے ایک بھیانک آزمائش سے کم نہ تھا۔ خوف و ہراس کے اس عالم میں، جب لوگ اپنے آپ کو بالکل بے سہارا سمجھنے لگے، امامِ وقت ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم نے اپنی جماعت کو تنہا نہ چھوڑا۔ آپ نے فوری طور پر وزیرِاعظم کینیڈا پیئر ٹروڈو سے رابطہ کیا اور محض چوبیس گھنٹوں کے اندر کینیڈا نے اسماعیلی کمیونٹی کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ یوں ایک ایسا قافلہ، جو بظاہر بے یار و مددگار دکھائی دیتا تھا، اپنے مرشد کی بصیرت اور رہنمائی کے باعث ایک نئی سرزمین پر باعزت اور محفوظ زندگی سے ہمکنار ہوا۔

یہ منظرنامہ ہمیں مولانا رومیؒ کی ایک حکایت یاد دلاتا ہے جو روحانی نسبت کی حقیقت کو نہایت لطافت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بکری پیاس سے بے تاب ہو کر پانی کی تلاش میں نکلی۔ دور سے اسے پانی کا دھوکا ہوا، خوشی سے چھلانگ لگائی مگر وہ پانی نہیں بلکہ دلدل تھی۔ بکری جتنی نکلنے کی کوشش کرتی، اتنی ہی دھنستی جاتی۔ عین اسی لمحے ایک بھیڑیا بھی لالچ و حرص میں ادھر آ نکلا۔ اس نے بھی پانی سمجھ کر چھلانگ لگائی اور وہ بھی دلدل میں جا پھنسا۔ اب دونوں ایک ہی حال کو پہنچے مگر فرق اپنی جگہ باقی تھا۔

بکری نے بھیڑئیے کو دیکھا تو ہنس پڑی۔ بھیڑیا حیران ہو کر بولا ’’یہ کیسا وقت ہے اور تُو ہنس رہی ہے؟‘‘ بکری نے جواب دیا ’’جب ہنسنے کا سامان مل جائے تو اپنی تکلیف بھول جاتی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا ’’مگر کس بات پر ہنس رہی ہے؟ تُو بھی تو میری طرح پھنسی ہے۔‘‘ بکری مسکرائی اور کہا ’’ہاں، میں بھی پھنسی ہوں لیکن میرے اور تیرے پھنسنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں اپنے مالک کی بکری ہوں، شام کو جب وہ اپنے ریوڑ کو گنے گا تو اسے میری کمی محسوس ہوگی، وہ مجھے ڈھونڈنے نکلے گا اور دلدل سے نکال لے جائے گا۔ لیکن تُو؟ تیرا کوئی مالک نہیں، تجھے کون ڈھونڈے گا، تجھے کون چھڑائے گا؟

یہ حکایت دراصل اسی نکتے کی وضاحت ہے جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ۔ یہی وہ نکتہ ہے جو مولانا رومیؒ کی حکایت میں بھی جھلکتا ہے کہ اللہ کا فضل اور مرشد کی رہنمائی انسان کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑتی۔ پس اصل راز یہ ہے کہ پہلے اپنے آپ کو شاہ کے کھونٹے سے باندھنا سیکھو، پھر وہ تمہیں کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کا امام عالمی سطح پر امن، رواداری اور مصالحت کا علَم بردار ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں صلاح الدین ایوبی کا نام ملتا ہے، جو دیگر مسلمان بھائیوں کے نزدیک ہیرو مانے جاتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی صلاح الدین ایوبی نے فاطمی خلافت کے عظیم کتب خانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور کئی اسماعیلی مسلمانوں کو اپنی تلوار کی بھینٹ چڑھایا۔ صدیوں بعد جب حالات بدل گئے تو ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم نے وہی ایوبی قلعہ اور دیوار دوبارہ تعمیر کروائی اور قاہرہ کے قلب میں الازہر پارک کو ازسرِ نو آباد کیا، تاکہ زخم بھر جائیں اور ماضی کی تلخیوں پر اُمید کا سبزہ اُگ آئے۔

اس دوران بعض اسماعیلی رہنماؤں نے امام سے عرض کیا کہ صلاح الدین ایوبی کا کردار ہمارے لیے کسی طور قابلِ تعریف نہیں رہا، آپ نے انہیں یہ شرف کیوں بخشا؟ امام نے نہایت وقار اور بصیرت کے ساتھ فرمایا ’’صلاح الدین ایوبی تو جا چکے ہیں، مگر ہم ابھی باقی ہیں۔ ہم کسی سے نفرت نہیں کر سکتے۔‘‘

کیا شانِ بصیرت ہے کہ جہاں تاریخ انتقام کا سبق دیتی ہے، وہاں وقت کا امام محبت اور مصالحت کا پیغام دیتا ہے۔ سلام ہو اس وژن پر، جو دلوں کو جوڑنے اور نفرت کی دیواریں گرانے کا ہنر جانتا ہے۔

ایک اور تاریخی مثال اس بات کو مزید واضح کرتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نوے کی دہائی میں جب دُنیا کی دو سپر پاورز، امریکہ اور روس، آمنے سامنے تھیں اور سرد جنگ کی شدّت دُنیا کو ایک بڑی تباہی کی طرف دھکیل رہی تھی، تب امریکہ کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور روس کے صدر میخائل گورباچوف نے ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم سے مشورہ کیا۔ دونوں عالمی رہنما امام کی رہائش گاہ پر قیام پذیر رہے جہاں ہزہائی نس نے انہیں نصیحت کی کہ دو بڑی طاقتوں کا آپس میں ٹکرا جانا پوری دُنیا کے لیے تباہ کن ہوگا۔ نتیجتاً، دونوں صدور نے جنگ کی بجائے صلح کا راستہ اختیار کیا۔

سوچنے کی بات ہے کہ وہ امام، جس کی بصیرت اور نصیحت پر دُنیا کی سپر پاورز اپنے فیصلے بدل دیتی ہیں، اس کے ماننے والوں کو چند افراد کے زنگ آلود ہتھیاروں سے گھبرانے یا مشتعل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری اصل متاع امن، صبر اور ادارہ جاتی نظم پر یقین ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر کاربند رہ کر ہم نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ پورے معاشرے میں سکون، رواداری اور استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دیگر برادرانِ اسلام میں بھی ایسے اہلِ خرد اور دانائے وقت موجود ہیں جو زمانے کی نبض پہچاننے کا ہنر رکھتے ہیں؛ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ آگے آئیں، گھٹن زدہ فضا کو اپنی بصیرت کی روشنی سے منور کریں اور اُمت کو ایک نئی صبح کی نوید دیں۔

آج کے دور میں، جب انسانیت علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور بالخصوص مصنوعی ذہانت کے حیرت انگیز انکشافات سے روشناس ہو رہی ہے، یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم کب تک پرانے، زنگ آلود ہتھیاروں اور جمود زدہ اذہان کے ساتھ دُنیا کے سامنے تماشا بنتے رہیں گے۔ وقت کی نبض کو پہچاننے، حالات کو درست تناظر میں دیکھنے اور مستقبل کی سمت اپنا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے دیگر مسلمان بھائیوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی کا سفر جذباتی نعروں یا پُرانی عصبیتوں سے نہیں بلکہ علم، حکمت اور تدبر سے طے ہوتا ہے۔ جو قومیں جوش سے زیادہ ہوش کا دامن تھامتی ہیں، وہی وقت کی رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھتی ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی اپنے رویوں میں یہ تبدیلی نہ لائی تو دُنیا کے کارواں کے مقابل ہم پیچھے رہ جائیں گے اور ہماری پہچان بس پُرانے ہتھیاروں کی زنگ آلود چھاپ تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اسی روش پر قائم رہیں گے؟ اور جواب یہ ہے کہ وقت ہم سے بصیرت، برداشت اور روشن فکر کا تقاضا کر رہا ہے۔۔۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔

وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبينُ

یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی
کریم منزل، غذر
۲۶ اگست ۲۰۲۵ء
بروز منگل

ضلع غذر کے علاقے راوشن تالی داس میں گزشتہ دنوں آنے والے سیلاب کی پیشگی اطلاع دیکر 300 زندگیوں کو بچانے والے عظیم ہیروز ک...
25/08/2025

ضلع غذر کے علاقے راوشن تالی داس میں گزشتہ دنوں آنے والے سیلاب کی پیشگی اطلاع دیکر 300 زندگیوں کو بچانے والے عظیم ہیروز کی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات۔
ملاقات میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ دنوں غذر میں آنے والے سیلاب میں بروقت اطلاع دیتے ہوئے زندگیاں بچانے والے گلگت بلتستان کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 25 , 25 لاکھ کی انعامی رقم سے نوازتے ہوئے گلگت بلتستان کے ہیروز کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان و صدر مسلم لیگ ن گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اور ایڈیشنل ڈی سی ولی اللہ فلاحی بھی انکے ہمراہ تھے۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

25/08/2025

سینکڑوں جانیں بچانے والے فرشتے
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

Address

Gilgit

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Taqpa posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share