ضرب قلم

ضرب قلم قلم کاری✒

20/11/2025

نگران کابینہ میں استور سے عمار اعظم بھی نگران کیلئے موزوں امیدوار سامنے آگئے۔۔

‎عمار اعظم کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع استور سے ہے انہوں نے انجینرئینگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور انٹرنیشل ریلشنز میں بھی اعلی ڈگری کے حامل ہیں!!
‎اس کے علاوہ عمار اعظم ایک بہترین شاعر ، ادیب ، مترجم اور نوجوان دانشور ہیں۔ وہ متعدد ادب پاروں اور شاعری کا اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔۔ ابن رشد کا مشہور مقالہ “تہافت التہافت” incoherence of the
incoherence “
‎کا اردو ترجمہ بھی ان کے کریڈیٹ پر ہے!

ساوتھ ایشیاء ٹائمز کے لئے ان کا لکھا گیا تحقیقی فیچر
Hindutva: a civilisational Gerrymandering of India
اہل علم کی خصوصی توجہ حاصل کر چکا ہے

‎اس کے علاوہ بہت سی جامعات کے ادبی اور تقریری مقابلوں میں بطور منصف بھی شرکت کر چکے ہیں! وہ پاکستان بھر کے بہت سے مشاعروں میں اردو شاعری کی توانا آوازوں کے ساتھ سٹیج شئیر کر چکے ہیں!

عمار اعظم South Asia Times میں ایک strategic analyst اور براڈ کاسٹ جرنلسٹ کے طور پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک فرنچ این جی او Médecins Sans
‏Frontières (MSF)
میں بطور کنسلٹنٹ کام کر چکے ہیں
امریکہ کے شہر شکاگو میں موجوNGO Empowering Women NFP کے لئے بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں

‎پاک افغان یوتھ فورم اور Hindu Kush Tribune Network کے انگلش چینل کے لئے بطور پروڈیکشن ہیڈ خدمات سرانجام دے چکے ہیں!

11/11/2025
17/10/2025

گلگت اور کاشغر: ترقی، معیارِ زندگی اور طرزِ حکمرانی کا تقابلی جائزہ

تحریر: سادات شیر خان

گزشتہ سات برسوں کے دوران مجھے بارہا گلگت سے تاشقُرغان اور کاشغر تک سفر کرنے کا موقع ملا۔ یہ سفر محض ایک سرحد عبور کرنے کا عمل نہیں بلکہ ترقی، طرزِ زندگی اور حکمرانی کے فرق کا عینی مشاہدہ ہے۔ ان تجربات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ہمارے ہمسایہ ملک کے سرحدی علاقوں کو خوشحال بنا دیا، جبکہ ہم اب تک بنیادی سہولیات کے حصول میں پیچھے ہیں۔

معاشی صورتِ حال: قیمتوں اور معیار کا فرق

چین کے سرحدی شہروں میں داخل ہوتے ہی سب سے نمایاں فرق قیمتوں میں نظر آتا ہے۔ کاشغر اور تاشقُرغان میں روزمرہ زندگی سے متعلق تمام اشیاء چاہے وہ خوراک ہو، اسٹیشنری، رہائش، سفری سہولتیں، ہارڈ ویئر، یا زرعی و تعمیری سامان — گلگت کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستے اور معیاری ہیں۔

وہاں کی زرعی اور تعمیراتی صنعتیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، منڈیوں میں فراوانی ہے، اور نظامِ ترسیل منظم و مستحکم ہے۔ اس کے برعکس، گلگت بلتستان میں بیشتر اشیاء دشوار گزار راستوں کے ذریعے مہنگے داموں منگوائی جاتی ہیں، جس سے مجموعی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

شہری سہولیات اور معیارِ زندگی

کاشغر اور تاشقُرغان میں شہری ترقی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی منصوبہ بندی کتنی دوراندیش ہے۔ صاف ستھری اور کشادہ سڑکیں، جدید انفراسٹرکچر، منظم رہائشی منصوبے اور ہر جگہ تیز رفتار 5G انٹرنیٹ — یہ وہ سہولیات ہیں جن کا تصور گلگت کے عوام اب تک نہیں کر پائے۔

تاشقُرغان، جو کبھی گلگت کے قصبہ سست جیسا ایک چھوٹا سا سرحدی علاقہ تھا، آج بین الاقوامی ہوائی اڈے کا حامل ایک جدید شہر بن چکا ہے۔ وہاں سے روزانہ پروازیں چین کے بڑے شہروں کو جاتی ہیں، جبکہ گلگت کا ہوائی اڈہ آج بھی محدود سہولیات اور موسمی مشکلات کے باعث غیر فعال رہتا ہے۔

سیاحت اور سرحدی رابطے

اس وقت روزانہ 300 سے 500 کے قریب سیاح، تاجر اور کاروباری شخصیات کاشغر اور تاشقُرغان کا رخ کرتے ہیں۔ ان شہروں میں آمد و رفت کے منظم نظام نے معیشت اور سیاحت دونوں کو فروغ دیا ہے۔

دوسری جانب، پاکستان کی سرحدی چوکیوں، امیگریشن اور کسٹمز کی حالت افسوسناک ہے۔ سست روی، غیر تربیت یافتہ عملہ، اور پرانی عمارتیں ہمارے نظام کی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ناتکو بس سروس کو مثالی قرار دیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی کارکردگی بین الاقوامی معیار سے کوسوں دور ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ گلگت سے تاشقُرغان یا کاشغر کے درمیان فضائی رابطہ اب تک کیوں قائم نہیں کیا گیا؟ اگر یہ سہولت میسر آ جائے تو تجارت، سیاحت اور عوامی روابط میں غیر معمولی بہتری آ سکتی ہے۔

انفراسٹرکچر اور حکومتی ترجیحات

ترقی یافتہ قومیں اپنے بنیادی ڈھانچے سے پہچانی جاتی ہیں۔ کاشغر میں بلند و بالا عمارتیں، جدید رہائشی منصوبے، صنعتی پارک اور صاف ستھری شاہراہیں ترقی کی علامت ہیں۔ اس کے برعکس، گلگت میں آج بھی سڑکیں کھود کر نکاسی آب کے نظام کی تعمیر جاری ہے ایک ایسا عمل جو ترقی کی بجائے بدانتظامی کی علامت بنتا جا رہا ہے۔

بجلی کی کمی، انٹرنیٹ کی سست رفتار، اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں کمزوریاں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ گلگت بلتستان میں حکومتی توجہ ناکافی ہے۔

اصلاحات کی ضرورت

گلگت اور کاشغر جغرافیائی لحاظ سے قریب، مگر ترقی کے لحاظ سے بہت دور ہیں۔ چین نے اپنی مغربی سرحد کو تجارت، سیاحت اور صنعتی ترقی کا دروازہ بنا دیا ہے، جبکہ پاکستان کا شمالی علاقہ آج بھی بنیادی سہولیات کا منتظر ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان کی قیادت مشترکہ طور پر خطے کے مستقبل کا واضح لائحہ عمل ترتیب دے۔ جدید کسٹمز نظام، بہتر سفری رابطے، سرمایہ کاری دوست پالیسیوں اور شفاف حکمرانی کے ذریعے یہ خطہ وسطی ایشیا اور چین کے درمیان ایک مستحکم معاشی پل بن سکتا ہے۔

اختتامیہ

سات برس کے سفر اور مشاہدے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کاشغر اور تاشقُرغان ترقی کے اُس ماڈل کی مثال ہیں جو بصیرت اور منصوبہ بندی سے وجود میں آیا۔ گلگت بلتستان میں بھی وہی صلاحیت موجود ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ نیت مضبوط ہو، وژن واضح ہو، اور عمل مستقل۔

Address

Gilgit

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ضرب قلم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share