Worldroof

Worldroof Media services providers in Gilgit-Baltistan
(3)

18/07/2025
18/07/2025

Stranded for over 28 hours on the Karakoram Highway (KKH), thousands of tourists and local passengers continue to suffer as a protest in Nagar's Harespo and Sikandarabad areas blocks all movement. The sit-in is being held in response to the arrest of a local political activist.

Travellers stuck on both sides of the highway have pleaded with authorities and demonstrators to restore traffic, highlighting severe difficulties due to the unavailability of food, water, and medical aid.

18/07/2025

گلگت بلتستان کے درخشاں ستارے: عالمی سطح پر پاکستان کا فخر

گلگت بلتستان نہ صرف قدرتی حسن کی سرزمین ہے بلکہ ذہانت، محنت اور وژن سے بھرپور نوجوانوں کی آماجگاہ بھی ہے۔ یہاں کے باصلاحیت نوجوان دنیا کے معتبر ترین اداروں اور بین الاقوامی پروگرامز میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر نہ صرف پاکستان بلکہ اپنے خطے کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔
حال ہی میں عالمی سطح کے "اُڑان پاکستان پروگرام" کے لیے دنیا بھر کے 50 سے زائد ممالک سے 3,000 سے زیادہ طلبہ نے درخواستیں دی تھیں۔ اس سخت مقابلے کے بعد صرف 33 طلبہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا، جن میں گلگت بلتستان سے دو نوجوان بھی شامل ہیں۔ یہ اعزاز اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے شمالی خطے کے نوجوان عالمی فورمز پر اپنی موجودگی ثابت کر رہے ہیں۔
زوناش عاصم اس وقت برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی میں بزنس اینڈ مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ Enactus Durham اور Durham Student Energy کی صدر ہیں، اور Durham Energy Institute کی ایڈوائزری بورڈ کی رکن بھی ہیں۔
زوناش ماحولیاتی جدت، سرکلر اکانومی اور نوجوان قیادت پر مبنی کئی عالمی منصوبوں کی قیادت کر رہی ہیں۔ ان کا وژن واضح ہے: عالمی تجربات کو مقامی حل سے جوڑ کر ایک پائیدار اور مساوی معاشرہ تخلیق کرنا۔
سعد عطا برچہ اس وقت دنیا کی ممتاز ترین یونیورسٹی آکسفورڈ (برطانیہ) سے موسیقی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
وہ گلگت بلتستان کی صدیوں پرانی موسیقی اور ثقافتی ورثے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے تحقیقی اور عملی میدان میں سرگرم ہیں۔ ان کا مشن ہے پاکستان کی ثقافتی صنعت کے لیے ایسی پالیسیاں تیار کرنا جو فنونِ لطیفہ کو فروغ دیں اور فنکاروں کو بااختیار بنائیں۔
زوناش عاصم اور سعد عطا برچہ کی کامیابیاں اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ گلگت بلتستان کے نوجوان عالمی سطح پر قیادت، علم، تخلیق اور وژن کے میدانوں میں ایک روشن مقام حاصل کر رہے ہیں۔
یہ دونوں درخشاں ستارے آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کے شمالی پہاڑوں کے درمیان جنم لینے والے خواب بھی دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔

18/07/2025
18/07/2025

گلگت بلتستان کی آمنہ بیگ دبئی میں عالمی سطح پر درخشاں

پاکستان، بالخصوص گلگت بلتستان کے لیے ایک اہم لمحہ—نصیرآباد شناکی، ہنزہ سے تعلق رکھنے والی آمنہ بیگ دبئی میں جاری "گلوبل انکاؤنٹر فیسٹیول – ورلڈ کلاس ریٹریٹ" میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

آمنہ بیگ اس بین الاقوامی ایونٹ میں اولمپکس منیجر اور کوچ کے طور پر شریک ہیں، جہاں دنیا کے 36 ممالک سے منتخب 100 سے زائد کھلاڑیوں اور فنکاروں کو ان کی مہارت اور خدمات کے اعتراف میں مدعو کیا گیا ہے۔ اس نمائندگی کے ذریعے آمنہ نہ صرف کھیلوں میں اپنی قیادت کو اجاگر کر رہی ہیں بلکہ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں سے ابھرتی صلاحیتوں کی کہانی بھی دنیا تک پہنچا رہی ہیں۔

ان کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی عالمی سطح کے فورمز پر مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ آمنہ بیگ کی جدوجہد اور شمولیت نئی نسل، بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ محنت، عزم اور وژن کے ذریعے کسی بھی سرحد کو عبور کیا جا سکتا ہے۔

۔
۔









17/07/2025

بابائے صحافت مرحوم حاجی سرتاج خان||1951 تا 2024

تحریر:شفیع اللہ قریشی

حاجی سرتاج خان 6 جون 1951 کے دہائی میں گلگت بلتستان کا علاقہ ضلع دیامر کے سب ڈویژن چلاس محلہ رونئی میں پیدا ہوئے۔ان کی ابتدائی تعلیم مقامی سکولوں میں ہوئی، جہاں انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ مقامی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی۔ بچپن سے ہی ان کی صحافت کے لیے دلچسپی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے جوش و خروش نمایاں تھا۔آپ کا 37 سالہ کیریئر بے شمار اور قابل تعریف خدمات سے انسان کو سحر انگیز کر دیتا ہے،پڑھانے کا مقدس شعبہ ان کے عملی زندگی کا پہلا سنگ میل تھا۔

حاجی سرتاج خان کی خدمات صرف صحافت تک محدود نہیں تھیں۔ آپ نے اپنے کیریئر میں ایک اور چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سیاست میں عملی قدم رکھا اور دوبارہ جنرل کونسلر میونسپل کمیٹی چلاس منتخب ہوئے۔انہوں نے سماجی خدمات کے شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔انہوں نے مختلف فلاحی منصوبوں کی بنیاد رکھی، جن میں تعلیم کے فروغ، صحت کی سہولیات اور خواتین کی خودمختاری شامل ہیں۔ ان کی کوششوں سے کئی خواتین نے ہنر سیکھے اور اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔آپ نے پربت سوشل ویلفیئر کے نام سے سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی اور عوام میں اپنی مدد اپ کا جذبہ اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔آپ ضلع دیامر کی طرف سے ناردن ایریاز چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے پہلے رکن منتخب ہوئے چیمبر اف کامرس کی وساطت سے آپ نے چائنہ ازبکستان، ترکمانستان، کارگستان، تاجکستان اور اظہر بھائی جان کا تجارتی دورہ کیا۔آپ سپورٹس ایسوسی ایشن ضلع دیامر کےجنرل سیکرٹری رہے۔آپ نے جشن بہاراں ٹورنامنٹ کی ابتدا کروائی،مزید یہ کہ سول ڈیفنس کے چیف وارڈن رہے،علاقے میں سول ڈیفنس رضاکار اور ادارے کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔آپ کی دماغی صلاحیتوں کا امتحان اور حقیقی خدمات کا سلسلہ تب شروع ہوتا ہے

حاجی سرتاج خان نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز 1976 سے مقامی اخبارات سے کیا اور لکھنا شروع کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف معلوماتی تھیں بلکہ عوامی مسائل کی عکاسی بھی کرتی تھیں۔ انہوں نے بہت جلد ایک ممتاز صحافی کے طور پر اپنی شناخت قائم کر لی۔جب آپ صحافی، مصنف اور پبلشر بننے کا چیلنج قبول کرتے ہیں،آپ نے ذرائع موصلات کی کمی کے باوجود گھٹن وادیوں کا سفر کیا،1979 میں باقاعدہ قومی اخبارات کے نامہ نگار مقرر ہوئے۔جنگ ، نوائے وقت راولپنڈی کے علاوہ خبریں اسلام،جزوقتی ریڈیو پاکستان گلگت کے نیوز رپورٹر بھی رہے۔بعد ازاں، کے ٹو،مقامی ہفت روزہ سیاچن، قراقرم، بادشمال کے بھی ہمراہ بھی منسلک ہوئے اور جولائی 1989 سے از خد چلاس جیسے پسماندہ جگہ سے ماہنامہ پربت کا اجراء کیا۔دیامر جیسے پسماندہ اور قبائلی علاقے میں اخبارات متعارف کرائے۔مقامی اخباروں اور نجی ٹی وی جیو نیوز اور جنگ گروپ کے ذریعے یہاں کے بنیادی مسائل حکومت ارباب اختیار تک نہ صرف پہنچائے بلکہ لوگوں میں علمی شعور بیدار کیا۔

حاجی سرتاج خان کی صحافت کا خاص پہلو یہ تھا کہ وہ ہمیشہ عوامی مسائل کو اپنی تحریروں کا حصہ بناتے اور ٹی وی کے ذریعے مسائل اجاگر کرتے تھے۔ انہوں نے صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل پر زور دیا۔ ان کی تحریروں نے حکومت اور انتظامیہ کی توجہ ان مسائل کی طرف دلائی، جو عموماً نظر انداز کر دیے جاتے تھے۔

حاجی سرتاج خان نے دیامر کے خوبصورت برف پوش اور اسمان سے باتیں کرتے پہاڑ خوبصورت وادیوں نے آپ کی توجہ فوٹوگرافی کی طرف راغب کروائے،آپ کے کیمرے نے بہت سارے خوبصورت مناظر اور برف پوش پہاڑوں کو کیمرے کی انکھ سے محفوظ کر لیا،ان میں قابل ذکر خونی پہاڑ نانگا پربت کے دلکش مناظر شامل ہے،آپ کے پاس بدھ مت کے دور پہ پتھر بنائے ہوئے نقش وہ نگار جو دریائے سندھ کے کنارے جن کا ایک وسیلہ خیرا موجود ہے جو کہ ایک تہذیب کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں،اپ کی جمع کردہ تصاویر ایک زندہ لائبری کی سی اہمیت ہے۔

آپ نے گمشدہ پاکستانی جہاز PK-404 جو کہ پاکستان انڈیا بارڈر کے قریب ننگا پربت کے مقام پر حادثے کا شکار ہوا تھا اپنی رضاکارانہ ٹیم کے ہمراہ جہاز کی تلاش شروع کی، اونچے خطرناک گلیشیئرز اور برفانی تو دوں پگھلتی ہوئی برف طوفانی ہواؤں کے باوجود آپ کا حوصلہ پست نہیں ہوا،اخر کار 15 روز ان تھک جستجو کوشش کے بعد جہاز کے کچھ شواہد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے،جو کہ تقریبا20 ہزار فٹ کی بلندی پر پائے گئے،آپ کی ان کاوشوں کی بدولت یہ شواہد حکومت پاکستان تک پہنچے۔آپ نے کیمرے سے ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے 2005 کے زلزلہ زدگان علاقے استور، رائی کوٹ، تتو،مٹھاٹ کی دردناک کہانیاں کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کی،آپ اور آپ کی ٹیم نے زلزلہ متاثرین کی بھرپور مدد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

آپ نے شاہراہ قراقرم کو اپگریڈ کرنے والوں کے ساتھ رابطے میں بھی رہے اور شمالی علاقہ جات کے انتظامیہ کو متعدد بار دیامر بادشاہ ڈیم کے میڈیا افیئرز کے حوالے سے جوائن کیا،آپ ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے متاثرین دیامر بادشاہ ڈیم اور گورنمنٹ کے درمیان پل کا کام کیا۔آپ نے دیامر پریس کلب کی بنیاد رکھی اور پہلے صدر منتخب ہوئے اور بعد ازاں سرپرست اعلی منتخب ہوئے۔

آپ نے دسمبر 1992 کے دہائی میں اپنی کاوشوں سے دیامر کے حوالے سے پہلی بار معلوماتی ریفرنس بک "آئینہ دیامر" لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جو کہ سرکاری طور پر ریفرنس بک کرار پائی،اس کتاب میں ضلع دیامر کی تاریخی ثقافت و ادب وغیرہ کی بیش بہا تفصیلات موجود ہیں،مزید یہ کہ اپ نے "ماہ نامہ پربت"کے نام سے رسالے کا اجرا کیا،اپ کی دوسری کتاب" دیامر کے قبائل"کے نام سے زیر طباعت ہے،جس میں دیامر کے قبائل کی مختلف اقوام کی ثقافت تاریخ اور ادب کا مختلف انداز میں ذکر ہے جو کہ دیامر کے خاندانوں قبائل کو جاننے کا ذریعہ بنے گی۔

آپ ان تمام کاوشوں کے بدولت نتیجے میں ایک قیمتی اثاثہ تھے اور آپ ایک رضاکار،سماجی خدمت کار ذمہ دار میڈیا شخصیت، ماہر تعلیم، تاریخ دان، پبلیشر اور ایک محب وطن انسان تھے۔حاجی سرتاج خان کی خدمات نے نہ صرف صحافت کو ایک نئی سمت دی بلکہ آپ نے گلگت بلتستان کے عوام














17/07/2025

حضرت ارطغرل ثانی کا ظہور جدید دور میں ہوا تھا سو ماحول بنانے کے تقاضے بھی نئے تھے۔ ڈرامہ ڈائریکٹروں کو حکم دیا گیا کہ بھئی بناؤ ارطغرل اور عثمان نامی ڈرامے۔ تاکہ مسلم دنیا کے احمقانِ عالم کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب بیچا جاسکے۔ عربوں نے پچھلے عثمانی اچھی طرح بھگت رکھے تھے سو انہوں نے تو اپنے ممالک میں ان ڈراموں کو نہ آنے دیا۔
وی نیوز کے لیے رعایت اللہ فاروقی کا آج کا کام

https://wenews.pk/news/333125/

Address


Website

http://worldroofmedia.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Worldroof posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Worldroof:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share