D͛͛͛a͛͛͛i͛͛͛l͛͛͛y͛͛͛ ͛͛͛D͛͛͛o͛͛͛s͛͛͛e͛͛͛

  • Home
  • Pakistan
  • Gilgit
  • D͛͛͛a͛͛͛i͛͛͛l͛͛͛y͛͛͛ ͛͛͛D͛͛͛o͛͛͛s͛͛͛e͛͛͛

D͛͛͛a͛͛͛i͛͛͛l͛͛͛y͛͛͛ ͛͛͛D͛͛͛o͛͛͛s͛͛͛e͛͛͛ “Talent hits a target no one else can hit. ...
“Believe in yourself. ...
“Everyone has talent. ..

Talent hits a target no one else can hit. ...
“Believe in yourself. ...
“Everyone has talent. ...
“When I stand before God at the end of my life, I would hope that I would not have a single bit of talent left, and could say, 'I used everything you gave me.”

‏مزار پر جاتے ہوئے ایک آدمی کی چابی گر گئی،پیچھے سے ایک بزرگ آرہے تھے انہوں نےچابی اٹھالی اور کافی دیر تک  انتظار کیا کہ...
12/08/2025

‏مزار پر جاتے ہوئے ایک آدمی کی چابی گر گئی،پیچھے سے ایک بزرگ آرہے تھے انہوں نےچابی اٹھالی اور کافی دیر تک انتظار کیا کہ کوئی آئےاور اپنی چابی لے لیکن کوئی نہیں آیا
‏بزرگ نے چابی اٹھائی اوردرخت پر لٹکا کرمزار کےاندرچلے گئے
‏پیچھے سے آنے والے شخص نےدیکھا کہ یہاں ایک چابی ٹانگ کرمزار کےاندر جایا جاتاہے
‏اب یہ روایت مشہور ہو گئی کہ مزارمیں جانے سے پہلے اگر ایک چابی درخت پر لٹکا دی جائے تو منتیں پوری ہوتی ہے.

دنیور نالہ حادثہ — جاں بحق ہونے والے مقامی رضاکاروں کی فائل فوٹو
11/08/2025

دنیور نالہ حادثہ — جاں بحق ہونے والے مقامی رضاکاروں کی فائل فوٹو

30/07/2025

🎉 Congratulations, Rehan Afzal! 🎉

We are proud to share that Rehan Afzal, a dedicated student of The Learning Academy Gilgit, has been shortlisted for the fully funded National Outreach Programme (NOP) Summer Coaching Session at LUMS in August 2025! 📚

This is a remarkable achievement and a testament to Rehan's hard work, academic excellence, and potential to become a future leader. 🌟

We wish Rehan Afzal all the best for this exciting journey ahead and are confident he will make the most of this life-changing opportunity. 💫

فطرت کا فیصلہ ہے کہ بڑے بڑے زہریلے سانپ اور نیولے اکثر ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں. سانپ نیولے کے بچے کھاتا ہے.  نیولا اپن...
17/07/2025

فطرت کا فیصلہ ہے کہ بڑے بڑے زہریلے سانپ اور نیولے اکثر ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں. سانپ نیولے کے بچے کھاتا ہے. نیولا اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے پھر سانپ کھا جاتا ہے. لوگ سمجھتے ہیں نیولے پر سانپ کا زہر اثر نہیں کرتا. بیشک نیولے کے نیورو سسٹم میں ایسے ریسپٹرز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زہر اس پر کم اور جلدی اثر نہیں کرتا لیکن یہ زہر سے مکمل محفوظ نہیں ہوتے.

نیولا لیکن سانپ سے لڑنا سیکھ چکا ہے. اسے سانپ کی طاقت کا دائرہ سمجھ آگیا ہے. سانپ پوری قوت سے حملہ کرتا ہے. وہ یا تو اسے کاٹ سکتا ہے یا اس سے لپٹ کر اتنا دبا سکتا ہے کہ نیولے کا دم ہی گھٹ جائے اور ہڈی پسلی ایک ہو جائے. نیولا سانپ کے ان دو ہتھیاروں سے اپنا بچاو کرتا ہے. اس لئے نیولا سانپ کو غصہ اشتعال دلاتا ہے. اپنی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کا استعمال کر کے اس کے وار سے خود کو بچاتا ہے.

سانپ کا سٹیمنا کم ہوتا ہے. نیولا اسے تھکا دیتا ہے. تھک کر سانپ کے وار میں اب وہ تیزی نہیں رہتی. اس وقت نیولا وہ موقع ڈھونڈتا ہے جہاں وہ اسکا سر اپنے منہ میں تیز دانتوں کے درمیان پکڑ سکے. ایک بار یہ سر نیولے کے منہ میں آگیا جنگ ختم ہو جاتی ہے. نیولا یہ جنگ جیت جاتا ہے. ایک چھوٹا سا نیولا ایک لمبے زہریلے موٹے سانپ سے یہ جنگ اس لئے جیت جاتا ہے کیونکہ نیولا سانپ سے ڈرتا نہیں ہے.

ہم انسانوں کے ڈر خوف جبکہ عجیب ہیں. مثلاً ہمیں شیر اور سانپ سے تو ڈر لگتا ہے مچھر سے نہیں. جبکہ شیر سالانہ تقریباً ڈھائی سو لوگ مارتے ہیں سانپ ایک لاکھ جبکہ مچھروں سے ہوئی اموات ملینز میں ہوتی ہیں. ہم لیکن مچھر سے نہیں ڈرتے جبکہ سانپ کی پھنکار اور شیر کی دھاڑ سنتے ہی کانپنے لگتے ہیں. ہمارے یہی غیر منطقی خوف زندگی کے دوسرے چیلنجز پر بھی ہوتے ہیں. ہم کسی چیلنج سے نہیں ہارتے بلکہ ہمیں ہمارا ڈر شکست دیتا ہے.

کامیاب پھر وہی لوگ ہوتے ہیں جو نیولے کی طرح بہادر تیز طرار موقع شناس اور ہمت والے ہوتے ہیں. یہ خوف کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں. یہ زندگی کے چیلنجز کے سامنے قہقہہ لگانا سیکھ جاتے ہیں. اور موقع ملتے ہی اسے دبوچ لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔۔

خوشی کے أنسو تھے یا غم کے أنسو تا حال پتہ نہی چلا
16/07/2025

خوشی کے أنسو تھے یا غم کے أنسو تا حال پتہ نہی چلا

٭مجلس شام غریباں کی روایت 1926ء میں شروع ہوئی۔٭اس مجلس کو مجلس شام غریباں کا نام منے آغا صاحب راز اجتہادی نے دیا۔٭ شام غ...
14/07/2025

٭مجلس شام غریباں کی روایت 1926ء میں شروع ہوئی۔
٭اس مجلس کو مجلس شام غریباں کا نام منے آغا صاحب راز اجتہادی نے دیا۔

٭ شام غریباں کی پہلی مجلس سے مولانا سبط محمد ہادی نے خطاب کیا۔
٭ 1930ء یا 1931ء میں یہ مجلس لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے بھی نشر ہونے لگی۔

٭1928ء سے 1963ء تک اس مجلس سے عمدۃ العلما مولانا سید کلب حسین صاحب نے خطاب فرمایا۔
٭ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ مجلس شام غریباں 1954ء میں نشر ہوئی۔
٭پاکستان ٹیلی وژن سے پہلی مرتبہ مجلس شام غریباں 1968ء میں نشر ہوئی۔

*** ***

مجلس شام غریباں برصغیر پاک و ہند کی عزاداری کا ایک اہم حصہ ہے۔ شاید ہی کوئی عزا خانہ ایسا ہو جہاں دس محرم کو مغرب کے بعد اس مجلس کا اہتمام نہ ہوتا ہو۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس مجلس کی تاریخ سو سال سے بھی کم ہے۔

1926ء میں جنت البقیع کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ کے رہنے والے دو عرب جن میں سے ایک کا نام سید صالح تھا 2 محرم کو لکھنؤ میں وارد ہوئے جن کے قیام و طعام کا اہتمام غفران مآب کے امام باڑے کے حجرے میں کیا گیا۔ اس سال یوم عاشور (10محرم 1345ھ) 21 جولائی 1926ء کو پڑا۔ عاشور کی شام کو یہ دونوں عرب مہمان امام باڑے میں بیٹھے تھے کہ مولانا سید کلب حسین مجتہد کی رائے پر فیصلہ کیا گیا کہ فاقہ شکنی امام باڑے میں ہی کی جائے۔ فاقہ شکنی کا سامان اور چائے کا سماوار گھر سے منگوا لیا گیا۔ اس فاقہ شکنی میں مولانا سبط محمد ہادی عرف کلن صاحب، سید محمد رضی اجتہادی اور سید شجاع حسین عرف شجن صاحب بھی شریک تھے۔ عرب مہمان سید صالح نے تجویز پیش کی کہ اگر اس وقت کسی مجلس عزا کا اہتمام ہو تو بہتر ہوگا۔ شجن صاحب نے کہا کہ اس مجلس میں ذکر اسیران اہل بیت ہو تو کیا ہی اچھا ہو، سب نے اس رائے کو پسند کیا۔ محلے میں مقیم مومنین کو اطلاع کی گئی اور ستّر، اسّی حضرات جمع ہوگئے۔

مولانا سید سبط محمد ہادی عرف کلن صاحب نے، جو انتخاب العلما کے لقب سے معروف تھے، ذاکری فرمائی اور خیام حسینی کے جلائے جانے اور اسیران کربلا کے قافلے کے شام کی جانب کوچ کرنے کا ذکر کیا۔ سامعین یہ ذکر سن کر بے تاب ہو گئے۔ مولانا کلب حسین صاحب نے مجلس کے بعد فرمایا کہ یہ مجلس جس کی آج ابتدا ہوئی ہے ہر سال اسی مقام اور اسی وقت برپا ہوا کرے گی چنانچہ دوسرے سال بھی اسی دن اور اسی وقت پر یہ مجلس برپا ہوئی اور مولوی للن صاحب اور مولوی کبن صاحب زیب منبر ہوئے۔ تیسرے برس اس مجلس کی اہمیت اور شہرت کے پیش نظر اس کا اہتمام اور انتظام محرم سے پہلے ہی سے شروع ہو گیا۔ خاندان کے ایک بزرگ منے آغا صاحب راز اجتہادی نے تجویز پیش کی کہ اس مجلس کا نام مجلس شام غریباں رکھا جائے۔ اس سال اس مجلس سے عمدۃ العلما مولانا سید کلب حسین صاحب نے خطاب فرمایا۔ ان کا بیان اتنا اثر انگیز تھا کہ کئی آدمیوں کو غش آ گیا۔

تیسرے سال سے مجلس کے بعد زوجہ حر کی جانب سے اہل حرم کے لئے کھانا اور پانی لانے کی روایت کی تاسی میں مجلس میں کچھ خوان اور پانی کی مشکیں لائی گئیں، کچھ لوگوں کے ہاتھ میں شمعیں روشن تھے۔ اس مظاہرے سے مجلس کی اثر انگیزی میں اضافہ ہوگیا۔ یہ مجلس سال بہ سال ترقی کرتی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مجلس کے بعد اتنا شدید گریہ طاری ہوتا تھا کہ کئی افراد کو اسپتال لے جانا پڑتا تھا۔ چنانچہ ہر سال وکٹوریہ گنج اسپتال کے ڈاکٹرز اور کمپائونڈر بھی دوائوں کے ساتھ مجلس میں شریک ہونے لگے۔ مجمع کی کثرت سے امام باڑہ غفران مآب کا وسیع صحن تنگ پڑنے لگا۔

سید کلب حسین مجتہد
رفتہ رفتہ یہ مجلس ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی منعقد ہونے لگی اور راج کمار محمود آباد کی کوششوں سے 1930ء یا 1931ء میں یہ مجلس لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے بھی نشر ہونے لگی۔ اس مجلس کے لئے لکھنؤ ریڈیو کی جانب سے صرف پندرہ منٹ دیئے جاتے تھے اور مولانا سید کلب حسین اس مختصر دورانیے میں معرکہ کربلا کی تاریخ، مقاصد، اہل بیت کی سیرت اور کربلا کے مصائب سب کچھ ہی سمیٹ لیتے تھے اور قطرے میں سمندر سمو دیتے تھے۔ مجلس کے نشر ہونے کے بعد تمام عزا خانوں میں یہ انتظام کیا جانے لگا کہ اس مجلس کے وقت عزا خانے کی روشنیاں گل کر دی جائیں، فرش اٹھا دیا جائے اور بجائے ذاکر کے ریڈیو رکھ دیا جائے۔ ہر امام باڑے میں ذاکر کی عدم موجودی کے باوجود وہی اثر انگیزی قائم ہونے لگی جو غفران مآب کے امام باڑے میں براہ راست سننے والے سامعین پر ہوتی تھی۔

مولانا سید کلب حسین صاحب اپنی زندگی کے آخری محرم 1963ء تک اس مجلس سے مسلسل خطاب کرتے رہے۔ اس مجلس کی مقبولیت دیکھ کر ریڈیو کے ذمے داروں نے اس کا دورانیہ نصف گھنٹہ کردیا۔ مولانا سید کلب حسین صاحب کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری مولانا سید کلب عابد اور مولانا سید کلب صادق نے سنبھال لی۔ اب یہ مجلس آل انڈیا ریڈیو کے متعدد اسٹیشنز سے نشر ہوتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد 1954 ء کے لگ بھگ سید نجف حیدر جعفری نے ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری کو ایک خط تحریر کیا اور ان سے درخواست کی کہ مجلس شام غریباں کا یہ سلسلہ ریڈیو پاکستان سے بھی شروع کیا جائے۔ زیڈ اے بخاری نے یہ درخواست قبول کرلی، چنانچہ 10 محرم 1374ھ مطابق 9 ستمبر 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے بھی مجلس شام غریباں کی اس روایت کا آغازہوگیا اورشام 7 بج کر 45 منٹ پر بڑا امام باڑہ کھارادر سے علامہ رشید ترابی کی مجلس شام غریباں براہ راست نشر ہوئی۔اسی روز اس مجلس کے اختتام کے بعد رات 8 بجکر 30 منٹ پر، ناصر جہاں کی پرسوز آواز میں سید آل رضا کی ایک نظم بھی نشر ہوئی جس کا عنوان شام غریباں تھا۔ بعد میں یہی نظم سلام آخر کے نام سے معروف ہوئی اور ریڈیو اور ٹیلی وژن کی مجالس شام غریباں کا جزو لازمی بن گئی۔

ایک نادر تصویر (دائیں سے بائیں) مولانا کلب عابد، مولانا کلب حسین اور ڈاکٹر مولانا کلب صادق
دو برس بعد 18 اگست 1956ء سے ریڈیو پاکستان سے مجلس شام غریباں اور سلام آخر کے درمیان مشہور نوحہ گھبرائے گی زینب بھی نشر کیا جانے لگا۔ یہ نوحہ ایک روایت کے مطابق عہد انیس کے معروف شاعرچھنّولال دلگیر کا لکھا ہوا ہے، یہ نوحہ بھی سید ناصر جہاں کی پرسوز آواز میں ریکارڈ کیا گیا ۔

1967ء میں جب کراچی ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو 9 اپریل 1968ء مطابق 10 محرم 1388ھ سے پاکستان ٹیلی وژن سے بھی مجلس شام غریباں کے نشریے کی اس روایت کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہونے والی پہلی مجلس شام غریباں سے علامہ محمد مصطفی جوہر نے خطاب فرمایا۔ 1969ء سے 1973ء تک علامہ رشید ترابی اس مجلس سے خطاب فرماتے رہے۔ انھوں نے مسلسل پانچ برس اس مجلس سے خطاب کیا۔ علامہ رشید ترابی کے انتقال کے بعد جن خطیبوں نے پاکستان ٹیلی وژن سے اس مجلس شام غریباں سے خطاب کرنے کا اعزاز حاصل کیا ان میں علامہ عقیل ترابی، علامہ نصیر الاجتہادی، علامہ عرفان حیدر عابدی، علامہ طالب جوہری اور علامہ نسیم عباس کے نام سرفہرست ہیں۔

Reference: Article byAQEEL ABBAS JAFFRI
www.humsub.com.pk

13/07/2025

یہ ایک مشہور ڈاکٹر کی طرف سے Lipid Profile (چربیوں کی جانچ) کی بہت خوبصورت اور منفرد انداز میں وضاحت ہے:

تصور کریں کہ ہمارا جسم ایک چھوٹا سا شہر ہے۔

اس شہر کا سب سے بڑا شرارتی کردار ہے — کولیسٹرول۔

اس کے کچھ ساتھی بھی ہیں۔ اس کا اہم ساتھی ہے — ٹریگلسرائیڈ۔

ان دونوں کا کام ہے کہ وہ گلیوں میں گھومیں، ہنگامہ کریں، اور سڑکوں کو بلاک کریں۔

دل اس شہر کا مرکزی مقام ہے — City Center۔

جب یہ شرارتی عناصر زیادہ ہو جاتے ہیں تو آپ خود سوچیں کیا ہوتا ہوگا؟
یہ دل کے کام میں رکاوٹ بننے لگتے ہیں۔

مگر خوش قسمتی سے، اس شہر میں ایک پولیس فورس بھی ہے — HDL
(یعنی اچھا کولیسٹرول)۔

یہ اچھے پولیس والے ان شرارتیوں کو پکڑ کر جیل (یعنی جگر) میں ڈال دیتے ہیں۔
اور پھر جگر انہیں جسم سے باہر نکال دیتا ہے — ہماری نکاسی آب (drainage system) کے ذریعے۔

لیکن، ایک برا پولیس والا بھی ہے — LDL
(یعنی برا کولیسٹرول)۔

یہ طاقت کا بھوکا LDL، ان شرارتیوں کو جیل سے نکال کر دوبارہ گلیوں میں چھوڑ دیتا ہے۔

جب اچھا پولیس والا یعنی HDL کم ہو جاتا ہے،
تو پورے شہر میں افراتفری مچ جاتی ہے۔

سوچیں، کون ایسے شہر میں رہنا چاہے گا؟

کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان شرارتیوں کو کم کیا جائے اور اچھے پولیس والوں کی تعداد بڑھائی جائے؟

تو شروع کریں واک کرنا! 🚶‍♂️🚶‍♀️

ہر قدم کے ساتھ HDL بڑھے گا، اور شرارتی جیسے کولیسٹرول، ٹریگلسرائیڈ اور LDL گھٹیں گے۔

آپ کا جسم (شہر) پھر سے جی اُٹھے گا۔

آپ کا دل — جو شہر کا مرکز ہے — ان رکاوٹوں سے محفوظ رہے گا۔

اور جب دل صحت مند ہوگا، آپ بھی صحت مند رہیں گے۔

لہٰذا جب بھی موقع ملے — چلنا شروع کریں!
صحت مند رہیں... اور نیک تمناؤں کے ساتھ

یہ تحریر آپ کو یہ بہترین طریقہ بتاتی ہے کہ:

اچھا کولیسٹرول (HDL) کیسے بڑھائیں
اور
برا کولیسٹرول (LDL) کیسے کم کریں
یعنی: واک کریں۔

ہر قدم HDL بڑھاتا ہے۔
تو — چلو، آگے بڑھو اور چلتے رہو۔

ان چیزوں کو کم کریں:
1. نمک
2. چینی
3. بلیچ شدہ میدہ
4. دودھ سے بنی مصنوعات
5. پراسیسڈ فوڈ (بازاری تیار شدہ اشیاء)

یہ چیزیں روزانہ کھائیں:
1. سبزیاں
2۔ پھل
3۔ گوشت
4. دالیں / لوبیا
5. خشک میوے
6. کولڈ پریسڈ تیل

تین چیزیں بھلانے کی کوشش کریں:
1. اپنی عمر
2. اپنا ماضی
3. اپنی شکایتیں
چار اہم چیزیں اپنائیں:
1. اپنے گھر والے
2. اپنے دوست
3. مثبت سوچ
4. صاف ستھرا، خوشگوار ماحول

تین بنیادی چیزیں اپنائیں:
1. ہمیشہ مسکرائیں۔
2. اپنے مطابق جسمانی سرگرمی کریں۔
3. اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں۔

منقول

11/07/2025

بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار قبائلی تنازعہ کا فیصلہ “ChatGPT” نے کر دیا! دونوں فریقین نے من و عن تسلیم کر لیا!

خُزغدار، بلوچستان (خصوصی رپورٹ) — بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں صدیوں سے چلے آنے والے روایتی تنازعات، جرگے، سرداروں اور ٹکریوں کی موجودگی میں ایک ایسا ناقابلِ یقین واقعہ پیش آیا ہے جس نے پورے خطے میں ہلچل مچا دی ہے۔

خُزغدار کے مضافاتی علاقے میں دو قبائل کے درمیان دو سال پرانا زمین کا تنازعہ تھا، جس پر کئی جرگے ناکام ہو چکے تھے، بات بگڑتی جا رہی تھی، اور حالات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسی دوران علاقے کے چند نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ اس بار معاملہ Artificial Intelligence (AI) کے ذریعے حل کرایا جائے۔

انہوں نے عالمی سطح پر معروف ChatGPT کو دونوں قبائل کے دلائل، زمین کی حدود، تاریخ، گوگل میپس اور سابقہ فیصلوں کی معلومات فراہم کیں۔ حیرت انگیز طور پر، ChatGPT نے ایک متوازن، دلائل پر مبنی اور روایتی بلوچ اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ تحریر کیا۔

جب یہ فیصلہ دونوں قبائل کے سامنے پیش کیا گیا، تو نہ صرف دونوں نے اسے تسلیم کیا بلکہ ایک دوسرے کو گلے لگا کر صلح کا اعلان کیا۔ گواہوں کا کہنا ہے کہ:
“ایسا فیصلہ نہ کبھی کسی جرگے نے دیا، نہ کسی ٹکری نے۔ مکمل غیر جانبدار، منطقی اور عزت دار فیصلہ تھا!”

روایتی سربراہان بھی مطمئن – AI کو قبول کر لیا گیا

مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد علاقے کے بزرگ سرداروں اور جرگوں کے سربراہان نے نہ صرف اس فیصلے کو سراہا بلکہ باقاعدہ اعلان کیا کہ آئندہ ایسے تنازعات میں ChatGPT اور دیگر AI ٹولز کو بطور مشیر یا “جرگا معاون” استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ دوسرے علاقوں کے جرگے بھی ChatGPT اور AI کو سیکھیں اور استعمال کریں تاکہ پاکستان میں انصاف کے عمل کو تیز، شفاف اور غیر جانبدار بنایا جا سکے۔

ایک معزز بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا:
“ہم نے ساری زندگی انصاف کے لیے جدوجہد کی، آج ٹیکنالوجی نے ہماری جدوجہد کو نئی روشنی دے دی ہے۔ اب ہمارے جرگے بھی ڈیجیٹل ہو گئے ہیں!”

جمعہ مبارکأٹھ بہنوں کا  اکلوتا بھائ
11/07/2025

جمعہ مبارک
أٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائ

چین نے ایک مچھر کے سائز کا جاسوس ڈرون تیار کیا ہے جسے "سپر جاسوس مچھر" کہا جا رہا ہے۔ یہ ڈرون چینی نیشنل یونیورسٹی آف ڈی...
11/07/2025

چین نے ایک مچھر کے سائز کا جاسوس ڈرون تیار کیا ہے جسے "سپر جاسوس مچھر" کہا جا رہا ہے۔ یہ ڈرون چینی نیشنل یونیورسٹی آف ڈیفنس ٹیکنالوجی (NUDT) نے بنایا ہے اور اسے خفیہ فوجی کارروائیوں اور انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے....☆

یہ ڈرون مچھر جتنا چھوٹا ہے اس کا وزن 0.6 سینٹی میٹر سے بھی کم ہے اور اس کی شکل بھی مچھر جیسی ہے اس کے پنکھ پتوں کی طرح پیلے رنگ کے اور جسم پتلا، سیاہ ہے...☆

اسے اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ قدرتی ماحول میں گھل مل جائے اور روایتی حفاظتی نظاموں سے اس کا پتہ لگانا مشکل ہو۔ اس میں کمیونیکیشن گیئر، سینسرز پاور یونٹس اور کنٹرول الیکٹرانکس شامل ہیں....☆

چین کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے بائیوونک روبوٹ معلومات کی جاسوسی اور میدان جنگ میں خصوصی مشنوں کے لیے موزوں ہیں اس ڈرون کی رونمائی سے عالمی سطح پر تشویش پیدا ہوئی ہے کہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، جیسے کہ جاسوسی، سائبر کرائم اور یہاں تک کہ بائیو وارفیئر (حیاتیاتی جنگ) کے لیے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ ڈرون گھروں میں گھس کر نجی گفتگو سن سکتا ہے یا ذاتی معلومات چوری کر سکتا ہے....☆

سونی چوہدری ۔۔۔۔☆

10/07/2025

‏ایک بادشاہ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اچھی بات کہے گا اس کو چار سو دینار (سونے کے سکے) دیئے جائیں گے...!!!!

ایک دن بادشاہ رعایا کی دیکھ بھال کرنے نکلا اس نے دیکھا ایک نوے سال کی بوڑھی عورت زیتون کے پودے لگا رہی ہے بادشاہ نے کہا تم پانچ دس سال میں مر جاؤ گی اور یہ درخت بیس سال بعد پھل دیں گے تو اتنی مشقت کرنے کا کیا فائدہ؟؟؟

بوڑھی عورت نے جواباً کہا ہم نے جو پھل کھائے وہ ہمارے بڑوں نے لگائے تھے اور اب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہماری اولاد کھائے...!!!!

بادشاہ کو اس بوڑھی عورت کی بات پسند آئی حکم دیا اس کو چار سو دینار دے دیئے جائیں...!!!!

جب بوڑھی عورت کو دینار دیئے گئے وہ مسکرانے لگی...!!!!

بادشاہ نے پوچھا کیوں مسکرا رہی ہو؟؟؟

بوڑھی عورت نے کہا کہ زیتون کے درختوں نے بیس سال بعد پھل دینا تھا جبکہ مجھے میرا پھل ابھی مل گیا ہے...!!!!

بادشاہ کو اس کی یہ بات بھی اچھی لگی اور حکم جاری کیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں...!!!!

جب اس عورت کو مزید چار سو دینار دیئے گئے تو وہ پھر مسکرانے لگی...!!!!

بادشاہ نے پوچھا اب کیوں مسکرائی؟؟؟

بوڑھی عورت نے کہا زیتون کا درخت پورے سال میں صرف ایک بار پھل دیتا ہے جبکہ میرے درخت نے دو بار پھل دے دیئے ہیں..!!!!

بادشاہ نے پھر حکم دیا اس کو مزید چار سو دینار دیئے جائیں یہ حکم دیتے ہی بادشاہ تیزی سے وہاں سے روانہ ہو گیا...!!!!

وزیر نے کہا حضور آپ جلدی سے کیوں نکل آئے؟؟؟

بادشاہ نے کہا اگر میں مزید اس عورت کے پاس رہتا تو میرا سارا خزانہ خالی ہو جاتا مگر عورت کی حکمت بھری باتیں ختم نہ ہوتیں...!!!!

اچھی بات دل موہ لیتی ہے، نرم رویہ دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے حکمت بھرا جملہ بادشاہوں کو بھی قریب لے آتا ہے اچھی بات دنیا میں دوست بڑھاتی اور دشمن کم کرتی ہے اور آخرت میں ثواب کی کثرت کرتی ہے آپ مال و دولت سے سامان خرید سکتے ہیں مگر دِل کی خریداری صرف اچھی بات سے ہو سکتی ہے💯!
آپکا دوست عامر چوہدری

10/07/2025

**🌟 Join The Learning Academy Gilgit – The Premier Institution in Gilgit-Baltistan! 🌟**

**📢 Admissions Open for Grade 11 (Session 2025-26)**
**✨ Programs Offered:**
- **Pre-Medical**
- **Pre-Engineering**
- **Computer Science**

**📅 Important Dates:**
- **Last Date for Form Submission:** **18th July 2025**
- **Admission Test Date:** **20th July 2025**
- **Test Location:** **The Learning Academy Jutal Campus**

**Why Choose The Learning Academy Gilgit?**
✅ **Top-Quality Education** – Best faculty & modern teaching methods
✅ **State-of-the-Art Facilities** – Well-equipped labs & digital learning resources
✅ **Proven Success** – Outstanding academic results & student achievements
✅ **Career-Focused Curriculum** – Preparing students for professional excellence

**🔔 Limited Seats – Apply Now!**
Don’t miss this opportunity to secure your future at **Gilgit-Baltistan’s leading educational institution!**

**📞 Contact Us:**
📱 **Phone:** 03465499603
📍 **Address:** The Learning Academy, Jutal Campus, Gilgit

**🚀 Shape Your Future with The Learning Academy – Where Excellence Meets Opportunity!**

** **

*(Hurry! Limited seats available – Register before 18th July!)*

Address

Gilgit
Gilgit

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when D͛͛͛a͛͛͛i͛͛͛l͛͛͛y͛͛͛ ͛͛͛D͛͛͛o͛͛͛s͛͛͛e͛͛͛ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share