Public News Mirror

Public News Mirror Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Public News Mirror, TV Network, gilgit, Gilgit.

Journalism is a profession that involves collecting information about a particular subject, then reporting findings and conclusions to a wider audience through print, digital or broadcast media. haq.haqdaar.kak this period of time no right to hand over to government its embassy and politician population .achieved to wrote law of 1947 independent day of pk.now you easly achieved rights to the unite this.

خالد خورشید سابق سی ایم قانون کی باریکیوں سے سیاست کی پیچیدگیوں تکتحریر یاسر دانیال صابری گلگت بلتستان کی وادیوں میں جب ...
20/09/2025

خالد خورشید سابق سی ایم قانون کی باریکیوں سے سیاست کی پیچیدگیوں تک
تحریر یاسر دانیال صابری

گلگت بلتستان کی وادیوں میں جب بھی قیادت کے رنگین اور دھندلے پہاڑوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو ایک نام اپنی شفاف قانونی تربیت اور پختہ عزم کے باعث نمایاں ہوتا ہے—خالد خورشید خان۔ برطانیہ کی درسگاہوں میں قانون کی باریکیاں سیکھنے والا یہ نوجوان بیرسٹر جب اپنے آبائی خطے استور کی باسی گلیوں میں لوٹا تو شاید اسے اندازہ بھی نہ تھا کہ پہاڑوں کی سیاست سمندر کی موجوں سے کہیں زیادہ تیز اور بے رحم ہے۔ مگر اس نے نہ صرف اس حقیقت کا سامنا کیا بلکہ اپنی بصیرت اور سیاسی حکمتِ عملی سے ایک وقت میں گلگت بلتستان کی سب سے بڑی سیاسی کرسی تک جا پہنچا۔
خالد خورشید کا یہ سفر محض ایک سیاسی کامیابی کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسے خطے کی تعبیر بھی ہے جو دہائیوں سے قومی دھارے میں اپنی شناخت اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ 2020 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کر کے وہ گلگت بلتستان کے تیسرے منتخب وزیرِاعلیٰ بنے۔ نوجوان قیادت کی صورت میں ان کا انتخاب عوام کی اس امید کا عکاس تھا کہ اب پہاڑوں کی یہ دھرتی جدید تعلیم یافتہ، قانون دان قیادت کے سائے میں ترقی کی نئی راہیں دیکھے گی۔
ان کے دورِ حکومت میں سڑکوں کی تعمیر، سیاحت کے فروغ اور تعلیمی منصوبوں کے کئی وعدے سامنے آئے۔ مقامی سطح پر انہیں ایک ایسا رہنما سمجھا جانے لگا جو وفاق اور گلگت بلتستان کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ نرم لہجہ، دلیل سے قائل کرنے کی مہارت اور عوامی مسائل کو قانونی فریم میں دیکھنے کا انداز ان کی شخصیت کو اور نمایاں بناتا ہے۔
مگر سیاست کا آسمان کبھی مستقل نیلا نہیں رہتا۔ 2023 میں ڈگری کے تنازع نے ان کے سیاسی کیریئر پر گہرا بادل ڈال دیا۔ الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دیا اور یوں ایک ایسا سفر جو بھرپور عوامی تائید کے ساتھ شروع ہوا تھا، قانونی موشگافیوں کے بھنور میں آ گیا۔ مگر یہاں بھی خالد خورشید کی قانونی تربیت ان کے ساتھ کھڑی رہی؛ انہوں نے عدالتوں کا راستہ اختیار کیا اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے یہ ثابت کیا کہ ان کی سیاست محض اقتدار کی ہوس نہیں بلکہ اصول کی لڑائی بھی ہے۔
گلگت بلتستان کی سیاست ہمیشہ سے وفاق اور مقامی خواہشات کے بیچ ایک نازک رسی پر چلتی آئی ہے۔ ایسے میں خالد خورشید جیسے تعلیم یافتہ اور عالمی سطح پر تربیت یافتہ رہنما کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو بارہا اجاگر کر چکے ہیں کہ گلگت بلتستان کے مسائل محض مقامی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے ہیں، جنہیں قانونی اور آئینی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے۔
ان کی نااہلی کے بعد بھی عوام میں ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ نوجوان انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں جو جدید سوچ، صاف شفاف طرزِ سیاست اور قانون کی گہری سمجھ بوجھ کے ساتھ علاقے کو نئی سمت دے سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی گلگت کے بازاروں سے لے کر استور کی وادیوں تک جب مستقبل کی قیادت کی بات ہوتی ہے تو خالد خورشید کا نام خاموشی سے نہیں، بلکہ امید کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ سیاست میں کامیابی ہمیشہ کرسی کی موجودگی سے نہیں ناپی جاتی۔ اصل کامیابی وہ ہے جو عوام کے دلوں میں بسا دی جائے۔ خالد خورشید نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔ آج اگرچہ وہ حکومتی کرسی سے دور ہیں مگر ان کا کردار اور وژن گلگت بلتستان کی سیاست کے افق پر ایک مستقل ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ قانون کے اس سپاہی کا اگلا سیاسی معرکہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔

19/09/2025
انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن کی ضرورت کیوں پڑی قلم کی طاقت، قوم کی بقا ۔۔۔لکھاری معاشرے کی آنکھ ہےتحریر یاسر دانیال صابر...
19/09/2025

انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن کی ضرورت کیوں پڑی
قلم کی طاقت، قوم کی بقا ۔۔۔لکھاری معاشرے کی آنکھ ہے
تحریر یاسر دانیال صابری
لکھاری ہمیشہ سے قوم کا مرآہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی زمیں، وہاں کے پہاڑ، وادیاں اور لوگ اپنے اندر ایک ایسی داستان رکھتے ہیں جس کا بیان صرف قلم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ قلمی بیانیہ تاریخ کو ریکارڈ کرتا ہے، شعور کو جگاتا ہے، اور انصاف کے دروازے کھولتا ہے۔ جب لکھاری خاموش رہتا ہے تو معاشرہ اندھا ہو جاتا ہے؛ جب لکھاری بولتا ہے تو آئینے میں وہ چہرہ ابھر آتا ہے جو ریاست، طاقتور طبقے یا منافع خور دائرہٴ اختیار کے پردوں کے پیچھے دب جاتا ہے۔ اس لیے لکھاری محض لفظوں کا مجموعہ نہیں، وہ سماج کی بینائی ہے، وہ ضمیر کی نبض ہے۔
گلگت بلتستان کی جدوجہد اور حقوق کا معاملہ اسی بینائی کا تقاضا کرتا ہے۔ تاریخی ناانصافی، سیاسی محرومی، معاشی نظراندازی اور یہاں کے لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوششیں محض اعداد و شمار یا پالیسیوں کی بات نہیں ۔ یہ انسانی زندگیوں، امیدوں اور مستقبل کی باہمی جنگ ہے۔ اس جنگ میں قلم کی وہ نوک ہی سب سے تیز ہونی چاہیے جو سچائی کی راہ دکھائے، جو مظلوم کی داستان سنائے، اور جو قوتیں ظلم و ناانصافی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کریں اُن کے پردے چیر دے۔ لکھاری جب مسلسل تحقیق کے ساتھ حقائق سامنے رکھتے ہیں تو وہ صرف خبر نہیں دیتے، وہ تبدیلی کا بیج بوتے ہیں۔ یہی بیج وقت آنے پر سرخ رو ترو تازہ درخت بن کر پھل دیتا ہے۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جب ایک باقاعدہ، منظم اور بین الاقوامی سطح پر مربوط تنظیم ۔۔انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن ۔قائم ہوتی ہے تو یہ صرف ایک انجمن نہیں، یہ قلم کی ایک قافلہ ہے جو سچ کے دفاع کے لیے کھڑا ہے۔ اس قافلے میں شامل معروف تجزیہ نگار، صحافی اور تحقیق کار وہ پہچان ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کے مسائل کو آواز دیتے ہیں۔ ان کا کام نہ صرف رپورٹس لکھنا اور کالمز شائع کرنا ہے بلکہ حقائق کو ایسے طریقوں سے سامنے لانا بھی ہے جس سے معاشرتی شعور بیدار ہو، انصاف کے تقاضے واضح ہوں، اور عوام کو اپنے حقوق دلوانے کی راہ میں ہچکچاہٹ ختم ہو۔ جب لکھاری اپنی قلمی طاقت سے عوامی رضامندی اور بین الاقوامی توجہ حاصل کرتے ہیں تو ظلم و استبداد کے جال کھل کر سامنے آتے ہیں۔
قلم کی یہ طاقت خطرناک قوتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔ جب حقائق شفاف انداز میں منظر عام پر آتے ہیں تو وہ طاقتیں جن کے مفادات اندھیرے میں پنہاں ہوتے ہیں، بے نقاب ہو کر کانپنے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لکھاریوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور کبھی کبھار ان کی حفاظت کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایک معاشرہ جو اپنے لکھاریوں کی عزت اور حفاظت میں سنجیدہ نہیں وہ اپنی آنکھوں کی حفاظت نہیں کر رہا۔ گواہی اور تحقیق کی حفاظت کوئی وقتی فیشن نہیں، یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن کا یہ عزم کہ وہ اپنے لکھاریوں کے حقوق اور حفاظت کے لیے کھڑی رہے گی، عملی معنوں میں اس حفاظت کی ضمانت فراہم کرتا ہے — نہ صرف کاغذ پر، بلکہ عوامی شعور اور ریاستی ذمہ داریوں کے دائرے میں۔
صحافت اور قلم کی آزادانہ مشق کا مطلب محض تنقید نہیں، بلکہ ذمہ دارانہ تحقیق بھی ہے۔ لکھاری وہ آلہ ہے جو معاشرتی گرد و غبار کو صاف کرتا ہے، وہ سوال اٹھاتا ہے، اور وہ پالیسی سازوں کو جوابدہ بناتا ہے۔ گلگت بلتستان کے حالات میں جہاں انفارمیشن کی رسائی اکثر محدود رہی ہے، وہاں آزاد لکھاری عوام کے لیے روشنی کا مینار بن سکتے ہیں۔ مگر یہ کام تنہا ممکن نہیں؛ جب ایک تنظیم لکھاریوں کو تربیت، قانونی معاونت، اور حفاظتی نیٹ ورکس فراہم کرتی ہے تو ان کی تحریری قوت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ انہیں اپنی تحریر میں خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے، اور معاشرہ بھی جانتا ہے کہ کوئی ادارہ ان کے پیچھے ہے جو حق کی آواز کو برقرار رکھے گا۔
تحقیق پر مبنی صحافت کبھی الگ تھلگ نہیں ہوتی؛ وہ گروہی کاوش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب مختلف پس منظر کے لکھاری، دانشور اور مقامی رہنما ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف متنوع نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی آواز کو مؤثر انداز میں عالمی فورمز تک پہنچا سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی پیچیدگیوں کا درست اندازے کے ساتھ احاطہ اسی وقت ممکن ہے جب مقامی تجربے کو تحقیقی معیار کے ساتھ جوڑا جائے۔ انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن اسی ملاپ کی خواہش مند ہے — مقامی سچائی کو عالمی اسٹیج پر پیش کرنا، تاکہ مسئلے کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ پیدا ہو سکے۔
قلم صرف مسائل کی نشاندہی نہیں کرتا، وہ حل بھی تجویز کرتا ہے۔ لکھاری جب ذمہ دارانہ انداز میں پالیسی تجاویز، متبادل ماڈل اور بہترین عملی طریقے پیش کرتا ہے تو وہ فیصلہ سازوں کے لیے ایک قیمتی وسیلہ بن جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کی ترقیاتی ضروریات، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت اور قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کے معاملے میں مفصل اور عملی تجاویز کی اشد ضرورت ہے۔ ان تجاویز کو عوامی مکالمے میں شامل کرنے کے لیے مضبوط لکھاری جماعت اور تنظیمی مدد ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فعال، بین الاقوامی رائٹرز نیٹ ورک مقامی مسائل کو نہ صرف منظر عام پر لاتا ہے بلکہ انہیں حل کے ڈھانچے میں بھی تبدیل کر دیتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لکھاریوں کی حفاظت صرف انفرادی طور پر ضروری نہیں، یہ قومی سلامتی کا بھی معاملہ ہے۔ جب معاشرہ آزادانہ طور پر حقائق تک رسائی حاصل کرتا ہے، جب تنقیدی آوازیں محفوظ محسوس کرتی ہیں، تو سماجی ہم آہنگی اور انصاف کا مستقل درجہ قائم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب لکھاری خوفزدہ ہوں یا پابندیوں کا شکار ہوں تو معاشرہ جھوٹ اور افواہوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ گلگت بلتستان جیسی حساس سرحدی اور تاریخی اہمیت رکھنے والی جگہ میں سچائی کی حفاظت ایک قومی فریضہ ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے لکھاریوں کو قانونی، معاشی اور جسمانی تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری صرف ایک رحم دل اقدام نہیں بلکہ ایک حکمت عملی ہے جس سے دیرپا استحکام ممکن ہوتا ۔۔۔انٹرنیشنل رائٹرز ایسوسی ایشن
کو محض ایک خاموش قانونی ادارہ نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اسے ایک فعال عوامی تحریک کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اس تنظیم کا مشن لکھاریوں کو بااختیار بنانا، ان کے حقوق کا تحفظ، اور معاشرتی مسائل کو تحقیق اور دلائل کے ذریعے عوامی ایجنڈے کا حصہ بنانا ہے۔ ہر شہری، ہر ادارہ اور خاص طور پر ہر سرکاری محکمۂ تعلیم و اطلاعات کو اس کوشش میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ قلم کی طاقت کو طاقتور ہتھیار سمجھ کر اس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ قلم زندہ رہے گا تو قوم زندہ رہے گی۔
قلم صرف کاغذ پر سیاہی کے نشان نہیں؛ وہ امید ہے، وہ تاریخ ہے، وہ احتجاج ہے، اور وہ تعمیرِ نو کا عہد بھی ہے۔ گلگت بلتستان کے لکھاری اور صحافی جب بغیر خوف کے اپنا کام کریں گے تو وہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کا حصول محض ایک خواب نہیں رہے گا بلکہ حقیقت بن کر سامنے آئے گا۔ اس لیے حکومت، سماجی و فکری ادارے، اور بین الاقوامی برادری مل کر یہ یقینی بنائیں کہ لکھاری محفوظ رہیں، عزت سے رہیں، اور اپنی قلم سے سچ کی جسارت کرتے رہیں۔ قلم کا نوک ہتھیار سے بھی تیز ہے — اس کی تیز نوک سے جب حق کے ورق پلٹتے ہیں تو معاشرہ بہتر، منصف اور زندہ بنتا ہے۔
(یہ کالم لکھاریوں کی عزت اور حفاظت کے لیے — کیونکہ جب قلم زندہ ہوگا، تبھی قوم زندہ رہے گی۔)
چئیرمن یاسر دانیال صابری

مارخور: گلگت بلتستان کا حسن یا نیلامی کا شکار؟از: یاسر دانیال صابریمارخور گلگت بلتستان کے پہاڑوں کا وہ شاہکار ہے جو صرف ...
03/09/2025

مارخور: گلگت بلتستان کا حسن یا نیلامی کا شکار؟
از: یاسر دانیال صابری

مارخور گلگت بلتستان کے پہاڑوں کا وہ شاہکار ہے جو صرف ایک جانور نہیں بلکہ ایک علامت ہے—قدرت کے حسن، قومی وقار اور ہماری پہچان کی علامت۔ یہ وہ نایاب خزانہ ہے جسے دنیا بھر میں دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں اور جس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پہچان کو پیسوں کے عوض نیلام کیا جا رہا ہے۔ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے حال ہی میں مارخور کے شکار کا پرمٹ دو لاکھ ڈالر میں نیلام کیا۔ یہ صرف ایک شکار نہیں بلکہ قدرت کے حسن پر تجارت ہے، اور یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہماری زمین اور ہمارا ماحول صرف ڈالر پر منحصر ہے؟
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی غریب شخص اپنے گھر کے لئے گوشت کے طور پر شکار کرے تو اس کو بیس سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، مگر جب کوئی غیر ملکی لاکھوں ڈالر دے کر آتا ہے تو اس کے لئے شکار کو "ٹرافی ہنٹنگ" کا نام دے کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار کیوں؟ کیا قانون صرف غریب کے لئے ہے اور ڈالر لانے والوں کے لئے سب کچھ مباح ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ مقامی لوگوں کو اپنی زمین پر اپنے وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں، لیکن گوروں کے سامنے ساری وائلڈ لائف کا دروازہ کھلا ہے؟
مارخور کی قیمت ڈالر میں نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ جنگلوں، پہاڑوں اور گھاٹیوں کا حسن ہے۔ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا حصہ ہے۔ اگر آج ہم نے صرف پیسوں کی خاطر اسے شکار ہونے دیا تو کل یہ جانور قصے کہانیوں میں رہ جائے گا، تصویروں میں محفوظ ہوگا یا پھر صرف "نایاب جانور" کے عنوان کے ساتھ کتابوں میں پڑھایا جائے گا۔
یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں کئی مقامی افراد اور بااثر لوگ انہی شکار کے پیسوں سے عیش و عشرت کرتے رہے۔ کروڑوں ڈالر کی نیلامی سے اگر واقعی علاقے کی ترقی ہوتی تو آج گلگت بلتستان کے گاؤں گاؤں میں خوشحالی ہوتی۔ مگر افسوس کہ یہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی اور عوام کے حصے میں غربت اور محرومی آئی۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اس ملک میں گوروں کا راج ہے؟ "ڈالر دو اور قدرتی حسن خراب کرو، ڈالر دو اور دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرو" — کیا یہ ہے ہمارا اصول؟ اگر ہماری دھرتی، ہمارے جانور اور ہمارا ماحول صرف کرنسی کے عوض بیچنے کی چیزیں ہیں تو پھر ہماری آنے والی نسلوں کے لئے کیا بچے گا؟
اب وقت آ گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں اس غیر منصفانہ "ٹرافی ہنٹنگ" پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ وائلڈ لائف کو تحفظ دینے کے لئے سخت قوانین بنائے جائیں۔ مارخور اور دوسرے نایاب جانور ہماری پہچان ہیں، انہیں محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔ یہ زمین ہماری ہے، اس کا حسن ہماری امانت ہے اور ہم اسے پیسوں کے لالچ میں بیچنے کے مجرم نہیں بن سکتے۔
اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری پہاڑیاں خالی ہوں گی، جنگل سنسان ہوں گے اور ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اس لیے ایک ہی نعرہ کافی ہے:

"مارخور کا شکار بند کرو — گلگت بلتستان کا حسن بچاؤ!"

حراموش اسپورٹس گالا5-7 ستمبر، کٹوال (ڈوری بَری) میں!کرکٹ، والی بال اور روایتی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیں۔ٹیم رجسٹریشن...
03/09/2025

حراموش اسپورٹس گالا
5-7 ستمبر، کٹوال (ڈوری بَری) میں!
کرکٹ، والی بال اور روایتی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیں۔
ٹیم رجسٹریشن کی آخری تاریخ: 4 ستمبر
رابطہ: ارسلان صادق - 03554434730
رجسٹریشن فیس: 1000 روپے فی ٹیم
آئیں اور حراموش کے اس تاریخی اسپورٹس ایونٹ کا حصہ بنیں!
منجانب: حراموش یوتھ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن






Daily Mountain Pass
Tourism, Sports, Culture, Archaeology & Museum Department Gilgit-Baltistan

Haramosh Kutwal Valley Tours
Information Department Gilgit-Baltistan
Gilgit Baltistan Sports Board
Snow-Capped Adventure Club Gilgit Baltistan Culture & Sports
Gilgit Baltistan Tourism Department
Gilgit Baltistan Tour Planners

وادی ہڈور کے سامنے شاہراہ قراقرم پر رات گئے نامعلوم افراد کی جانب سے جی بی سکاوُٹس کی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں دو ج...
29/08/2025

وادی ہڈور کے سامنے شاہراہ قراقرم پر رات گئے نامعلوم افراد کی جانب سے جی بی سکاوُٹس کی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں دو جوان شہید جب کہ تین شدید زخمی ہوگئے ہیں۔۔۔
Video Courtesy

چلاس: ہوڈر موڑ پر گلگت بلتستان اسکاؤٹس پر دہشت گردوں کا حملہ بزدلانہ، سنگین اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ یہ حملہ صرف چند جو...
29/08/2025

چلاس: ہوڈر موڑ پر گلگت بلتستان اسکاؤٹس پر دہشت گردوں کا حملہ بزدلانہ، سنگین اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ یہ حملہ صرف چند جوانوں پر نہیں بلکہ پوری قوم پر حملہ ہے۔ دشمن قوتیں اس دھرتی کے محافظوں کے حوصلے پست نہیں کر سکتیں۔ ہمارے دو جوان نے جامِ شہادت نوش کر کے وطنِ عزیز کا دفاع کیا اور تین جوان زخمی ہوئے، مگر ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ دہشت گردوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ امن، ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں۔
ہم پوری قوم کی طرف سے اپنے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کا خون اس دھرتی کی حفاظت کے لیے امانت ہے۔ دشمن چاہے کسی بھی روپ میں ہو، چاہے کسی بھی سازش کے ساتھ آئے، ہم اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ یہ وطن ہمارے شہداء کی قربانیوں پر قائم ہے، اس پر کسی بزدل حملے سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔
ہم حکومتِ پاکستان اور ریاستی اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو نہ صرف گرفتار کیا جائے بلکہ انہیں ایسا عبرتناک انجام دیا جائے کہ دوبارہ کوئی بھی ملک کے محافظوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ یہ وقت اتحاد، یکجہتی اور عزم کا ہے۔ پوری قوم اپنی افواج اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔
اللہ پاک شہید کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ زخمی جوانوں کی جلد صحتیابی کے لیے پوری قوم دعاگو ہے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
کیپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع مسلم لیگ ن

"چلاس: ہوڈر موڑ پر فائرنگ سے جی بی اسکاؤٹس کے تین جوان زخمی، 2 شہید۔ زخمیوں کو طبی امداد دی جاری ہے، سیکیورٹی فورسز نے ع...
29/08/2025

"چلاس: ہوڈر موڑ پر فائرنگ سے جی بی اسکاؤٹس کے تین جوان زخمی، 2 شہید۔ زخمیوں کو طبی امداد دی جاری ہے، سیکیورٹی فورسز نے علاقے کی ناکہ بندی کرکے سرچ ٹارگٹ آپریشن شروع

20/08/2025

صدر پیپل پارٹی امجد ایڈووکیٹ کی طرف سے صدر PSF عمران حسین اور ٹیم PSF گلگت کی سربراہی میں دانیور کے عوام کے لیا فری پانی کے ٹینکرز تقسیم ہورہے

20/08/2025

امجد ایڈوکیٹ نے دنیور میں ٹینکر پانی بھجوایا کالم نگار یاسر دانیال صابری کا اظہار خیال

Address

Gilgit
Gilgit
11

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Public News Mirror posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Public News Mirror:

Share

Category