
20/09/2025
خالد خورشید سابق سی ایم قانون کی باریکیوں سے سیاست کی پیچیدگیوں تک
تحریر یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان کی وادیوں میں جب بھی قیادت کے رنگین اور دھندلے پہاڑوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو ایک نام اپنی شفاف قانونی تربیت اور پختہ عزم کے باعث نمایاں ہوتا ہے—خالد خورشید خان۔ برطانیہ کی درسگاہوں میں قانون کی باریکیاں سیکھنے والا یہ نوجوان بیرسٹر جب اپنے آبائی خطے استور کی باسی گلیوں میں لوٹا تو شاید اسے اندازہ بھی نہ تھا کہ پہاڑوں کی سیاست سمندر کی موجوں سے کہیں زیادہ تیز اور بے رحم ہے۔ مگر اس نے نہ صرف اس حقیقت کا سامنا کیا بلکہ اپنی بصیرت اور سیاسی حکمتِ عملی سے ایک وقت میں گلگت بلتستان کی سب سے بڑی سیاسی کرسی تک جا پہنچا۔
خالد خورشید کا یہ سفر محض ایک سیاسی کامیابی کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسے خطے کی تعبیر بھی ہے جو دہائیوں سے قومی دھارے میں اپنی شناخت اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ 2020 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کر کے وہ گلگت بلتستان کے تیسرے منتخب وزیرِاعلیٰ بنے۔ نوجوان قیادت کی صورت میں ان کا انتخاب عوام کی اس امید کا عکاس تھا کہ اب پہاڑوں کی یہ دھرتی جدید تعلیم یافتہ، قانون دان قیادت کے سائے میں ترقی کی نئی راہیں دیکھے گی۔
ان کے دورِ حکومت میں سڑکوں کی تعمیر، سیاحت کے فروغ اور تعلیمی منصوبوں کے کئی وعدے سامنے آئے۔ مقامی سطح پر انہیں ایک ایسا رہنما سمجھا جانے لگا جو وفاق اور گلگت بلتستان کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ نرم لہجہ، دلیل سے قائل کرنے کی مہارت اور عوامی مسائل کو قانونی فریم میں دیکھنے کا انداز ان کی شخصیت کو اور نمایاں بناتا ہے۔
مگر سیاست کا آسمان کبھی مستقل نیلا نہیں رہتا۔ 2023 میں ڈگری کے تنازع نے ان کے سیاسی کیریئر پر گہرا بادل ڈال دیا۔ الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دیا اور یوں ایک ایسا سفر جو بھرپور عوامی تائید کے ساتھ شروع ہوا تھا، قانونی موشگافیوں کے بھنور میں آ گیا۔ مگر یہاں بھی خالد خورشید کی قانونی تربیت ان کے ساتھ کھڑی رہی؛ انہوں نے عدالتوں کا راستہ اختیار کیا اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے یہ ثابت کیا کہ ان کی سیاست محض اقتدار کی ہوس نہیں بلکہ اصول کی لڑائی بھی ہے۔
گلگت بلتستان کی سیاست ہمیشہ سے وفاق اور مقامی خواہشات کے بیچ ایک نازک رسی پر چلتی آئی ہے۔ ایسے میں خالد خورشید جیسے تعلیم یافتہ اور عالمی سطح پر تربیت یافتہ رہنما کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو بارہا اجاگر کر چکے ہیں کہ گلگت بلتستان کے مسائل محض مقامی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے ہیں، جنہیں قانونی اور آئینی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے۔
ان کی نااہلی کے بعد بھی عوام میں ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ نوجوان انہیں ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں جو جدید سوچ، صاف شفاف طرزِ سیاست اور قانون کی گہری سمجھ بوجھ کے ساتھ علاقے کو نئی سمت دے سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی گلگت کے بازاروں سے لے کر استور کی وادیوں تک جب مستقبل کی قیادت کی بات ہوتی ہے تو خالد خورشید کا نام خاموشی سے نہیں، بلکہ امید کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ سیاست میں کامیابی ہمیشہ کرسی کی موجودگی سے نہیں ناپی جاتی۔ اصل کامیابی وہ ہے جو عوام کے دلوں میں بسا دی جائے۔ خالد خورشید نے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔ آج اگرچہ وہ حکومتی کرسی سے دور ہیں مگر ان کا کردار اور وژن گلگت بلتستان کی سیاست کے افق پر ایک مستقل ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔ آنے والے وقت میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ قانون کے اس سپاہی کا اگلا سیاسی معرکہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔