08/07/2025
اسلام آباد — پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں سائبر کرائم سرکل اسلام آباد نے 27 یوٹیوب چینلز کو بند کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ ایف آئی اے کے ذیلی ادارے “نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی” (NCCIA) نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ یوٹیوب چینلز ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف جھوٹ، فیک نیوز، اشتعال انگیز اور بدنام کن مواد پھیلا رہے ہیں جو عوام میں خوف، بے چینی، اور بغاوت کو جنم دے سکتا ہے۔
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ چینلز “انتہائی اشتعال انگیز، توہین آمیز، اور اشتعال پیدا کرنے والا مواد” شیئر کر رہے ہیں جو ریاستی اداروں، فوج، اور عدلیہ کے خلاف نفرت اور بداعتمادی کو ہوا دے رہا ہے۔ درخواست کے مطابق، ان چینلز پر موجود معلومات نہ صرف گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ ان سے معاشرتی امن اور ریاستی استحکام کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
بند کیے جانے کی سفارش کردہ یوٹیوب چینلز کی فہرست:
درخواست کے ساتھ 27 یوٹیوب چینلز کی فہرست منسلک کی گئی ہے جن میں کئی معروف صحافی، تجزیہ نگار، اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ شامل ہیں، جن کے نام درج ذیل ہیں:
1. Haider Mehdi
2. Siddique Jan
3. Saeed Kazmi
4. Orya Maqbool Jan
5. Arzoo Kazmi
6. Raza Uzair Speaks
7. Sajid Gondal
8. Habib Akram
9. Matiullah Jan MJtv
10. Asad Toor Uncensored
11. Imran Riaz Khan
12. Naya Pakistan
13. Sabir Shakir
14. Imran Khan
15. Aftab Iqbal
16. Real Entertainment TV
17. Pakistan Tehreek-e-Insaf (پی ٹی آئی کا آفیشل یوٹیوب چینل)
18. Daily Qudrat
19. Abdul Qadir
20. Charsadda Journalist
21. Naila Pakistani Reaction
22. Wajahat Saeed Khan
23. Ahmad Noorani
24. Nazar Chohan
25. Moeed Pirzada
26. Makhdoom Shahabud Din
27. Shayan Ali
عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ یوٹیوب کی مرکزی کمپنی “Google LLC, D/B/A YouTube, 901 Cherry Ave, San Bruno, CA 94066, USA” کو ان چینلز کی بندش کے لیے subpoena / warrant جاری کیا جائے۔
سرکاری مؤقف:
درخواست پر سائبر کرائم سینٹر اسلام آباد کے سب انسپکٹر ایم وسیم خان کے دستخط ہیں جنہوں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ ان چینلز کی بندش ریاستی سلامتی، سماجی ہم آہنگی اور قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں سوشل میڈیا پر سیاسی کشیدگی، افواہوں، اور اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہمات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس اقدام کو سوشل میڈیا پر ریاستی رٹ قائم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جبکہ ناقدین اس کو اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دے سکتے ہیں۔