آگاہی-گلگت بلتستان

آگاہی-گلگت بلتستان پورے دنیا میں مقیم گلگت بلتستان کے باسیوں کی آواز

31/07/2025

زندگی کی آخری ویڈیو بیان

وائس چیرمین عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان مرحوم جناب جاوید لمبردار کا زندگی کی آخری ویڈیو بیان یاد رہے جاوید لمبردار کو گزشتہ روز تانگیر کے مقام پر انکے بچوں اور ماں کے سامنے قتل کر دیا گیا ہے۔

وادی بگروٹ میں گرگو گلیشئر کے سرکنے کی وجہ سے ایک افسوسناک حادثے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ علاقے کے جوان اور ریسکیو  ...
31/07/2025

وادی بگروٹ میں گرگو گلیشئر کے سرکنے کی وجہ سے ایک افسوسناک حادثے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ علاقے کے جوان اور ریسکیو اہلکار ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔ حادثے کا شکار ہونے والوں اور ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والوں کی سلامتی کے لئے آپ سب سے دعاؤں کی اپیل ہے۔

*3 سالہ ڈپلومہ آف ایسوسیٹ انجینئرنگ 14 سالہ تعلیم کے برابر قرار*ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بڑا اعلان
31/07/2025

*3 سالہ ڈپلومہ آف ایسوسیٹ انجینئرنگ 14 سالہ تعلیم کے برابر قرار*
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بڑا اعلان

حکومت نے پورے ملک کے تمام یوٹیلٹی سٹورز بند کرنے کانوٹیفکیشن جاری کر دیا
31/07/2025

حکومت نے پورے ملک کے تمام یوٹیلٹی سٹورز بند کرنے کانوٹیفکیشن جاری کر دیا

بٹگرام میں گدھے کا گوشت بغیر این او سی کے پکڑے جانے پر جن افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا، ان میں ہنزہ کا رہائشی انور شا...
31/07/2025

بٹگرام میں گدھے کا گوشت بغیر این او سی کے پکڑے جانے پر جن افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا، ان میں ہنزہ کا رہائشی انور شاہ بھی شامل ہے۔

31/07/2025

گلگت بلتستان حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے لیے وفاقی حکومت کو 15 ارب روپے دینے کی تحریری درخواست دے دی ۔

دیامر: عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے وائس چیئرمین جاوید ناجی غیرت کے نام پر قتلدیامر: گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی و...
31/07/2025

دیامر: عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے وائس چیئرمین جاوید ناجی غیرت کے نام پر قتل

دیامر: گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی وادی تانگیر میں غیرت کے نام پر ایک افسوسناک واقعے میں عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے وائس چیئرمین اور دیامر کی توانا سیاسی آواز، نمبردار جاوید ناجی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ جاوید ناجی اپنی والدہ اور اہلیہ کے ہمراہ درکلی میں دریائے تانگیر کے کنارے کپڑے دھونے آئے تھے کہ اسی دوران ان پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں ایک شادی شدہ خاتون کو بھی غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تانگیر میں غیرت کے نام پر یہ دوسرا اندوہناک واقعہ ہے، جس میں مجموعی طور پر دو خواتین اور دو مردوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

جاوید ناجی نہ صرف ایک سیاسی کارکن تھے بلکہ دیامر کے سماجی و تعلیمی مسائل پر بھرپور آواز اٹھانے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی ناگہانی موت پر علاقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کے قتل کی مذمت کی جارہی ہے۔

امریکہ اور پاکستان اپنے اپنے تیل کے زخائر مل کر تلاش کرینگے۔
31/07/2025

امریکہ اور پاکستان اپنے اپنے تیل کے زخائر مل کر تلاش کرینگے۔

الیکشن کی گونج عوامی نمائندے پھر سے متحرک۔بلتستان حلقہ نمبر 1 کا مسیحا الیکشن جیتتے ہی غائب ہونے کے بعد آج منظر عام پر آ...
29/07/2025

الیکشن کی گونج عوامی نمائندے پھر سے متحرک۔
بلتستان حلقہ نمبر 1 کا مسیحا الیکشن جیتتے ہی غائب ہونے کے بعد آج منظر عام پر آگیا ہے۔
یاد رہے موصوف حلقے میں کسی کام کے سلسلے میں تو چھوڑیں علاقے /معاشرے کے معروف شخصیات کی فوتگی تک میں شرکت کرنا ان سے گوارا نہیں ہوتا اور گلگت میں مکمل طور پر شفت ہوگیا ہے حلقے کے عوام کا کہنا ہے کہ راجہ صاحب آنے والے انتخابات میں گلگت سے ہی الیکشن لڑے تو بہتر ہے۔۔۔

یہ چار بدنصیب بھائی پشتون ہیں، نوشہرہ سے تعلق رکھتے ہیں، چاروں نے بڑی محنت اور کوشش کے بعد اٹلی میں اپنا ذاتی کاروبار بن...
28/07/2025

یہ چار بدنصیب بھائی پشتون ہیں، نوشہرہ سے تعلق رکھتے ہیں،
چاروں نے بڑی محنت اور کوشش کے بعد اٹلی میں اپنا ذاتی کاروبار بنایا،باہر کی نیشنلٹی حاصل کی،
یہ ایک بھائی کی شادی کرنے پاکستان آئے، رشتہ داروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرکے خوشیوں کی چند گھڑیاں ساتھ
بیتائیں
ان بھائیوں نے شادی کے بعد چچا کے بیٹوں کے لیے ایک پُرتکلف دعوت رکھی، حسد اور بغض کی آگ میں جلنے والے چچا کے بیٹوں نے چاروں بھائیوں پر قاتلانہ حملہ کیا جن میں سے تین موقع پر جان سے گزر گئے
مگر انہیں کیا خبر تھی کہ جن رشتہ داروں کو عزت دی،
وہی حسد اور بغض کی آگ میں
ان کے جنازے اٹھانے کا بندوبست کر چکے ہیں۔
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے، یہاں کامیابی سب کو برداشت نہیں ہوتی۔😭

گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کی تخلیقتحریر : عزیز علی داددو ہزار نو کےاوائل میں راقم نے گلگت بلتستان پہ ایک بشریاتی تحقیق...
26/07/2025

گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کی تخلیق

تحریر : عزیز علی داد

دو ہزار نو کےاوائل میں راقم نے گلگت بلتستان پہ ایک بشریاتی تحقیق کی جس میں اس سوال کا جواب سعی کی گئی کہ مقامی لوگ قدرتی آفات کو دوبارہ کیوں تخلیق کرتے ہیں؟ تحقیق کے مطابق اس کا سبب روایتی قوانین اور مقامی علم سے روگردانی، نئے اور جدید قوانین و انتظام و انصرام کا فقدان، آبادی میں اضافہ، مارکیٹ کی قوتیں، موسمی تبدیلی اور معاشی ضروریات شامل تھیں۔ اس تحقیق کے چند حصے ہاکستان ایک انگریزی اخبار اور ایک تحقیقی کتابچے میں چیپٹر کے طور پر شائع ہوئیں۔ اب سولہ سال بعد ایک نئے اور بہت بڑے عناصر اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ عنصر بڑے سرمایے اور ریاستی نظام کا گڑھ جوڈ ہے۔ اس مضمون میں کوشش ہوگی کہ اس بات پہ روشنی ڈالی جائے کہ ریاست اور سرمایے کے اتحاد سے گلگت بلتستان میں کس طرح قدرتی آفات اور خطرات کی تخلیق اور تخلیق نو کی جاتی ہے۔

قدرتی آفات کی تخلیق اور تخلیق نو کا تصور بظاہر متناقض سا لگتا ہے کہ انسان کس طرح ایک قدرتی چیز پیدا کرنے پر قادر ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک منطقی تصور ہے جو قدرتی آفات اور انسانون کے درمیان تعلق اور تعامل اور اس کے نتائج کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ میں نے مطالعے کے لئے قدرتی آفات سے متاثرہ مقامات میں مقامی لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا تاکہ ان کی باتوں کو ان کے اپنے تناظر اور نقطہ نظر سے سمجھ سکوں۔ لوگوں سے میری بات چیت کا محور یہ سمجھنا تھا کہ آخر لوگ قدرتی آفات سے متاثرہ جگہوں پر پھر سے تعمیرات کیوں کرتے ہیں؟ قدرتی آفات کی دوبارہ تخلیق کے تصور کو ایک مثال سے واضع کرتے ہیں۔ مثلاؓ لوگ دریا کے راستے پہ بنی آبادی کو سیلاب کی زد میں آنے کے بعد دوبارہ آباد کرتے ہیں۔ اس طرح سے وہ قدرتی آفات کے خطرے کو دوبارہ سے تخلیق کرتے ہیں۔

آفات کی دوبارہ تخلیق کرنے کے عمل کو قدرت کے متعلق خالصتاؓ سائنسی معاملہ سمجھنا ہمیں اصل حقائق سے بہت دور لے جاتا ہے۔ گو کہ گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کا ایک سماجی پہلو بھی ہے۔ مگر قدرتی خطرات کی تخلیق میں سب سے اہم پہلو سیاسی و انتظامی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جس طرح کا سیاسی نظام اور انتظامی انصرام رائج ہے وہ قدرتی آفات اور خطرات کے تخلیق اور تخلیق نو کا باعث بن رہا ہے۔اس کو ہم کچھ عملی مثالوں سے واضع کرتے ہیں۔

Crony capitalist عصر حاضر کے پاکستان میں اقربائی سرمائے کا معیشت اور حکومت پر مکمل قبضہ ہوچکا ہے۔ اس کے نتیجے ملک کو شدید معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی بحران کا سامنا ہے۔ سرمائے اور ریاستی اداروں کی طرف سے سرمایہ داروں کی سہولت کاری اور استعمال کا نقش اول گلگت بلتستان میں بہت پہلے قائم ہوا تھا۔ چونکہ گلگت بلتستان ماحولیاتی طور پر بہت حساس علاقہ ہے۔ اس لئے موسمی تبدیلیوں کے مضر اثرات یہاں اپنی پوری شدت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ان موسمی تبدیلیوں کو پیدا کرنے کا سبب گلگت بلتستان میں مروج نظام ہے۔ جو عوامی ضروریات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا۔ یہاں کا نظام پاکستان کے اشرافیہ، سرمایہ دار اور حکمران طبقے کا ایک مطلق کلب بن گیا ہے جہاں عوام کے مفادات کو داخل ہونے نہیں دیا جاتا ہے۔ اسی لئے تو ایسے فیصلے کئے جاتے ہیں جو قدرتی آفات کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ اسکی داغ بیل ڈوگروں سے آزادی کے بعد ہی ڈال دی گئی تھی۔ جب کچھ لوگ راتوں رات گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کے ہیرو بھی بن گئے۔ ان میں ایک اہم شخصیت جو اپنے کوڈ نام کرنل پاشا سے پہچانے جاتے تھے۔ مشہور ہیں۔ یہ گلگت بلتستان میں برگیڈیئر اسلم خان کے نام سے مشہور ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ گلگت بلتستان جنگ آزادی یکم نومبر کو شروع ہوئی اور کرنل پاشا تیس نومبر کو گلگت پہنچے۔ مگر ان کو سرکاری سرہرستی میں گلگت بلتستان کے جنگ آزادی کا ہیرو بنایا گیا۔

برگیڈیئر اسلم ایئر مارشل اصغر خان کے بھائی تھے۔ اصغر خان نے دسمبر انیس سو سنتالیس میں چلاس کا فضائی سروے بھی کیا تھا۔ یوں کرنل پاشا کو گلگت بلتستان کے متعلق زمینی معلومات کے ساتھ ساتھ فضائی معلومات بھی ہاتھ آگئیں۔ جب ان معلومات کے ساتھ پاکستانی نظام میں اثرورسوخ کا تڑکا مل گیا تو بے شمار فوائد کے نئے در وا ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ برگیڈیئر اسلم نے زور بازو سکردو میں شنگریلہ، دیامر میں فیری میڈوز کے علاقے میں زمیںنیں ہتھیالیں۔ یہ گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کا وہ نام نہاد ہیرو ہے۔ جو علاقے میں اربوں کی جائیداد کا مالک ہے۔ اس کے برعکس جن سپاہیوں نے جنگ ان کے چھاتی پر کچھ میڈل تھے۔ شنگریلہ کا ذکر میں نے "گلگت بلتستان میں نوآبادیت کا نقش اول" کے نام سے لکھے گئے ایک مضمون میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدرتی خطرات کی دوبارہ تخلیق کرنے اور گورننس یا سرکاری نظام کا کیا تعلق ہے؟ اس تعلق کو آج کے دور میں درپیش ایک مسؑلے سے واضع کرتے ہیں۔ آج دیامر میں شاہراہ قراقرم کا سب سے خطرناک حصہ تتہ پانی میں واقع راستہ ہے۔ گلگت بلتستان کا ہر مسافر حکومت سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ تتو المعروف تتہ پانی کے دریا پار کا دڈم داس کا علاقہ پانی اور سلائیڈنگ سے پاک ہے۔ قراقرم ہائے وے کو دڈم داس کے محفوظ علاقے سے گزارنے کی بجائے تتہ پانی کے خطرناک علاقے میں تعمیر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب ہے برگیڈیئر اسلم خان۔ یہ کہا جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم کے ابتدائی پلان میں اس شاہراہ کو تتہ پانی کے مخالف سمت میں واقع دڈم داس کے علاقے سے گزرنا تھا۔ مگر برگیڈیئر اسلم نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے اس کا روٹ تبدیل کروا کے رائیکوٹ پل سے تتہ پانی کی طرف موڈ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فیری میڈوز کے لئے راستہ تتہ پانی والے سمت سے جاتا ہے۔ بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ رائیکوٹ پل کے منہ سے ہی ایک سڑک اوپر کی طرف نکالی گئی ہے جو فیری میڈو پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم یہاں پر واضع طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح مروج نظام میں اہم قومی فیصلوں میں عوامی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد کے بناء پر فیصلے لئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تتہ پانی کا علاقہ لوگوں کے لئے پل صراط بن گیا ہے۔یہاں ہر بارش کے ساتھ سڑک کا بلاک ہونا معمول کی بات ہے۔ چونکہ تتہ پانی کے پہاڑ میں سلفر موجود ہے۔ اس لئے یہ پہاڑ متحرک رہتے ہیں اور پتھروں کا گرنا اور لینڈ سلائڈنگ روزانہ کا معمول ہے۔ مگر ہمارا نظام کا کیا کہنا۔ اس راستے میں ہر وقت مرمت اور بحالی کا کام جاری رہتا ہے۔ یوں پھر سے ایک قدرتی آفت کی ہروقت تخلیق کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ راستہ کچھ اداروں کے لئےاے ٹی ایم بنا ہوا ہے۔ ویسے قدرتی آفات میں بہت پیسہ ہے۔

یہ تو ایک مثال تھی۔ ایک ایسے راستے کی جس کا فیصلہ چھ دیہائیوں پہلے کیا گیا تھا مگر یہ اب تک موت کا راہگزر بنا ہوا ہے۔ اب موجودہ دور سے ایک مثال اٹھا کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح گلگت بلتستان کی پوری انتظامی مشینری پاکستانی اقربائی سرمایہ داروں کے سہولت کاری میں لگی ہوئی ہے تاکہ گلگت بلتستان کے حسن کو کشید کرکے منافع کمایا جاسکے۔ اس کے عوض علاقے کے عوام کو صرف ماحولیاتی تباہی اور بیگانگی ملتی ہے۔ یہ تباہی ایک دفعہ نہیں آتی ہے بلکہ ایک منظم ادارجاتی انتظام کے تحت پورے گلگت بلتستان میں قدرتی آفات کی تخلیق اور تخلیق نو کی جاتی ہے۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت عطا آباد میں واقع لیکسس ہوٹل ہے۔

لیکسس ہوٹل آئین آباد کے چھوٹے گاوں کی ایک ایسی زمین پہ بنایا گیا ہے جہاں ایک سیلابی نالے بروندو کا منہ کھلتا ہے۔ مقامی علم اور رواجی قوانین کے تحت گلگت بلتستان میں نالے کے سامنے، دریا کنارے اور ایوالانچ یعنی برفانی تودہ گرنے والی جگہ کے سامنے انسانی آبادی بسانا۔ممنوع تھا۔ تعمیرات کے متعلق یہ اصول تصور جدید علوم سے متصادم نہیں ہے۔ مگر لیکسس کے مالکان لاشاری گروپ اتنا بااثر اور طاقتور ہے کہ اس نے گلگت بلتستان کی حکومت کے آنکھوں کے سامنے بزور بازو اس کا کلرینس لینے کے ساتھ ہوٹل کی تعمیر عین نالے کے منہ پر ، جھیل کے کنارے اور اندر تعمیر کی۔ مقامی زبان میں محاورہ ہے کہ دریا اور نالہ اپنا راستہ کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ اس سیلابی نالے کی تاریخ کا علم ہونے کے باوجود لیکسس کو تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ عطا آباد جھیل کا پانی آس پاس کے صاف گلیشروں سے آتا ہے۔ ماحولیاتی طور پر ایسی حساس جھیل پر گٹر بنائے گئے مگر حکومتی اداروں نے اس جقیقت سے آنکھیں چرائیں۔ مزید یہ کہ لیکسس ہوٹل میں رہائش پذیر سیاحوں کے لئے موت کا جال بنتا جارہا ہے۔ اگرچہ اب تک اس ہوٹل میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ مگر پچھلے سال اور اس سال ایک مہینے میں دو دفعہ سیلاب نے ہوٹل کو تین اطراف سے گھیر لیا۔چوتھی طرف جھیل تھی۔ پچھلے مہینے یہ سیلابی ریلہ ہوٹل کے کار پارکنگ میں داخل ہوگیا۔ ہوٹل میں پھنسے مسافروں کو عطا آباد جھیل کی طرف سے کشتیوں سے ریسکیو کیا گیا۔ انتظامیہ نے راتوں رات ایکسکیویٹر لگا کر نالے کا رخ بدلا اور کچھ دنوں بعد ہوٹل انتظامیہ شوشل میڈیا پہ اس دعویٰ کے ساتھ نمودار ہوئی کہ ہوٹل کی رابطہ سڑک بحال کیا گیا ہے۔ اس عمل کے ذریعے ہوٹل اور سیاحوں کو محفوظ نہیں کیا گیا بلکہ ایک اور خطرے کے لئے راستے تیار کیا گیا اور ہوا بھی وہی۔ نالے کو کیا غرض کہ جی بی کی حکومت اور لاشاری گروپ کتنے طاقتور اور مضبوط ہیں۔ کل بروندو نالہ پھر سے بپھر گیا اور ہوٹل کو دوبارہ گھیرلیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود مقامی انتظامیہ ہوٹل کو بند نہیں کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ قدرتی آفت کے پے در پے حملوں کے باوجود ہوٹل کیسے چل رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ ہوٹل کو نہیں ہوٹل کی انتظامیہ حکومتی انتطامیہ کو چلا رہی ہے۔ یہ نظام شنگریلا ہوٹل کی طرح اقربائی سرمایہ داری اور انتظامی مشینری کے گٹھ جوڈ سے وجود میں آیا ہے۔ اس سرمائے کے مفاد کے بقاء اور منافع کے تحفظ کے لئے مقامی لوگوں کی زمیںوں پہ قبضہ کرکے ان کو سرمائے کی تخلیق کردہ ماحولیاتی اور قدرتی آفات میں دھکیلا جارہا ہے۔ لیکسس کے لاشاریوں کا سیلاب کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود ہوٹل کو چلانا قدرتی آفات کو دوبارہ تخلیق کرنے کا عمل ہے۔

گلگت بلتستان میں قدرتی آفات اور خطروں کی تخلیق اور تخلیق نو میں سب سے بڑی وجہ علاقے کا بے آئین اور بے شناخت ہونا ہے۔ اب رواجی قوانین کی عملداری کے لئے کوئی ادارہ نہیں رہا۔ جدید نظام اور اس کے سیاسی نمائندے بااختیار نہیں ہیں۔ اگر موجود ہیں بھی تو حکمران طبقے کو سہولت بہم پہنچانے کے لئے ہیں۔ خود گلگت بلتستان پاکستانی آئین کا حصہ نہیں ہے۔ اس سیاسی بے اختیاری، قانونی ابہام، شناختی برزخ کی موجودگی پاکستان کے سرمایہ دار طبقے اور ریاستی مشینری کو مقامی لوگوں کے اور قدرتی وسائل کا بلا روک ٹوک استعمال اور استعصال کرنے کے شاندار مواقع فراہم کرتا ہے۔ جس طرح کی تباہی گلگت بلتستان میں اقربائی سرمایے اور حکومتی بے حسی کی تخلیق کردہ آفات سے ہورہی وہ اس دھرتی پر موجود ہر چرند پرند، درخت، کھیت کھلیان، حیوان اور انسانوں کی معدومیت کا سبب بنے گی۔

اس شتر بے مہار سرمایے اور نظام حکومت کو لگام دینے کے لئے سول سوسائٹی کا متحرک ہونا لازمی ہے۔ اب گلگت بلتستان پر ریاستی بیوروکریسی اور سرمایہ دار اشرافیہ کا معیشت پر مکمل تصرف حاصل ہوگیا ہے۔ ہہ مہلک ملاپ سماجی تباہی کے ساتھ قدرتی ماحول کو بھی تباہ کر رہا ہے۔ ان تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے ایک ایسے ادارے کی اشد ضرورت ہے جو عوامی مفاد کے لئے واچ ڈاگ کا کام کرے۔ عوام۔مفاد اور حقوق کے تحفظ کے لئے وقتا فوقتا ایسے کاروبار، سیاحتی اداروں اور ہوٹلوں کے متعلق فیکٹ شیٹش اور رپورٹس جاری کرنا لازمی ہے جو نہ صرف مقامی زمینوں پر قابض ہوتے ہے بلکہ قدرتی آفات کے تخلیق اور تخلیق نو کا باعث بنتے ہیں ۔ مزید برآں گلگت بلتستان میں موجود قابض اور ماحولیاتی تباہی کے مرتکب کاروبار، ہوٹلوں اور تفریحی مقامات کی فہرست کا اجرا کرنا لازمی ہے تاکہ پبلک کو ان کے متعلق علم ہو۔ چونکہ ایسے ہوٹلوں کا مقصد دھونس اور دھاندلی سے منافع کمانا ہے، اس لئے حقاِئق پر مبنی رپورٹس کی تشہیر بھی لازمی ہے تاکہ سیاحوں میں اخلاقی سیاحت متعارف کروائی جاسکے۔ اگر ان سب حقائق کو جاننے کے باوجود سیاح ایسے ہوٹلوں اور کاروبار کا وزٹ کرتا ہے تو وہ مقامی لوگوں کے خلاف اخلاقی جرم کو سپورٹ کرتے ہیں تو سیاح نہیں رہتے ہیں بلکہ استعصال نظام کےساتھی بن جاتے ہیں۔

آج گلگت بلتستان تاریخ کے ایسے دوراہے پہ کھڑا ہے جہاں اس کو بے لگام سرمایہ، منافعے کی لالچ اور عوام دشمن نظام سے وجودی خطرہ لاحق ہے۔ مقامی لوگوں کے وجود کو دھرتی سے مٹانے سے پہلے قدرتی آفات کی تخلیق نو کی جاتی ہے۔ لیکسس ہوٹل پر سیلاب کا تواتر سے حملہ مگر ہوٹل انتظامیہ کا پھر بھی ہوٹل چلانا اور حکومت کی سہولت کاری اور خاموشی دراصل ایک بڑی قدرتی آفت تیار ہونے کی طرف اشارہ ہے۔مگر افسوس کہ ہنزہ والے وہ مومن ہیں۔ جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسنے کے خوگر ہوچکے ہیں۔ تاریخ میں بروندو نالے میں سیلاب تو آتے رہتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو تباہی کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں۔

کیف بھوپالی 20 فروری 1917ء کو ریاست بھوپال مدھیہ پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے. خواجہ محمد ادریس نام اور کیف تخلص تھا۔ کیف ...
25/07/2025

کیف بھوپالی
20 فروری 1917ء کو ریاست بھوپال مدھیہ پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے.
خواجہ محمد ادریس نام اور کیف تخلص تھا۔
کیف کی والدہ خود ایک شاعرہ تھیں، اس لیے کیف بھوپالی بچپن ہی سے شعر گوئی کی طرف راغب تھے۔ پہلے اپنے خالو ذکی وارثی, بعد میں شعری بھوپالی کے تلامذہ میں شامل ہوگئے۔
کیف بھوپالی ایک اردو کے معروف شاعر نغمہ نگار اور مکالمہ نگار تھے۔ وہ مشاعروں کے حلقوں میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ ان کا نغمہ ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ جسے محمد رفیع نے 1972ء میں فلم پاکیزہ کے لیے گایا تھا، جو بہت مقبول ہوا۔
انھوں نے مشہور غزلیں جیسے "تیرا چہرہ کتنا سہانہ لگتاہے”، جھوم کے جب رندوں نے پلا دی ، جیسے نغمات لکھے جنہیں جگجیت سنگھ نے گایا تھا۔
1982ء کی کمال امروہی کی فلم رضیہ سلطانہ کا نغمہ اے خدا شکر تیرا، بھی کافی مشہور ہواتھا۔
بعدازاں فلمی دنیا سے قطع تعلق کرکے کیف صاحب بھوپال آگئے۔ انھوں نے بقیہ زندگی اور ساری صلاحیتیں قرآن مجید کی منظوم تفسیر لکھنے صرف کر دی. ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’آہنگ کیف‘، ’مفہوم القرآن‘(منظوم)۔
24 جولائی 1991ء کو بھوپال میں وفات پا گئے۔
کیف بھوپالی کی دختر پروین کیف بھی ایک مشہور شاعرہ ہیں جو مشاعروں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔
——
منتخب کلام

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

——
تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے
ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے
——
تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے
——
سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ
——
ایک کمی تھی تاج محل میں
میں نے تری تصویر لگا دی
——
ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں
مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے
——
تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے
——
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں
——
یوں ڈھونڈتے پھرتے ہیں مرے بعد مجھے وہ
وہ کیفؔ کہیں تیرا پتہ ہے کہ نہیں ہے
——
کچھ محبت کو نہ تھا چین سے رکھنا منظور
اور کچھ ان کی عنایات نے جینے نہ دیا
——
اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے
——
گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا
——
جناب کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی
یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں

Address

Main City Market Gilgit City
Gilgit

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when آگاہی-گلگت بلتستان posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category

آگاہی-گلگت بلتستان

آگاہی-گلگت بلتستان پورے پاکستان میں مقیم گلگت بلتستان کمیونٹی اور عوام کے سیاسی تشخص کی آواز ہے.