Qalamkaar قلمکار

Qalamkaar قلمکار NEWS-COLUMN

پتنگ بازی کی مشروط اجازت، دانشمندانہ حل کی ضرورتپنجاب حکومت نے ایک اہم فیصلے کے تحت طویل عرصے بعد لاہور میں بسنت منانے ک...
16/12/2025

پتنگ بازی کی مشروط اجازت، دانشمندانہ حل کی ضرورت
پنجاب حکومت نے ایک اہم فیصلے کے تحت طویل عرصے بعد لاہور میں بسنت منانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ وزیر اطلاعات وثقافت عظمیٰ بخاری نے اعلان کیا ہے کہ چھ، سات اور آٹھ فروری 2026 کو لاہور ڈسٹرکٹ میں بسنت منائی جائے گی۔ یہ اجازت دراصل صوبے بھر میں بسنت کی واپسی کا ابتدائی قدم اور تجرباتی بتایا جا رہا ہے جس کے بعد اس کو اگلے سال پورے پنجاب میں نافذ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حکومت کا مقصد عوام کو خوشی کے مواقع دینا ہے، لیکن اس اقدام نے عوامی تحفظ، طبقاتی تفریق، اور قوانین کے نفاذ کے حوالے سے کئی سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔حکومت نے محفوظ بسنت کو یقینی بنانے کے لیے سخت ہدایات جاری کی ہیں، جن میں دھاتی ڈور کی ممانعت، پتنگ بازی کا سامان بیچنے والوں کی رجسٹریشن، اور ان تین دنوں کے علاوہ خلاف ورزی پر سزا، جرمانہ اور گرفتاری شامل ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کی حفاظت کے لیے حکومت مفت اینٹینا دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔جسے ہر موٹر سائیکل سوار کو فراہمی مشکل نظر اتی ہے یہ ارادہ یا بیان ابتدا میں شہریوں کو مطمئن کرنے کے لئے ہے ہمہ وقتی نہیں ہو سکتا اور بہت سے شہریوں کو موٹرسائیکل پر اینٹینا لگانے کے لیے مارکیٹ سے خریدنا پڑے گا لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: جب لاہور سے ابتدا کے بعد پتنگ بازی کی اجازت پورے صوبے میں دے دی جائے گی، تو یہ کون جانے گا کہ مخصوص دنوں کے علاوہ پتنگ بازی کے قانون کی خلاف ورزی کہاں ہو رہی ہے دیہی اور دور دراز علاقوں میں مخصوص دنوں کی پابندی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائے گا، جس کے نتیجے میں خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور حادثات کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان قوانین کے نفاذ کا سب سے بڑا بوجھ عام شہری پر پڑے گا، خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں پر۔ ایک جانب تو وہ ٹریفک چالان، مہنگائی اور دیگر لوازمات کے دباؤ میں ہیں، دوسری جانب ان پر یہ لازم ہو جائے گا کہ وہ حفاظتی اینٹینا ڈیرھ دو ماہ تک لگائے رکھیں، حالانکہ پتنگ بازی کی اجازت مخصوص دنوں کے ہوگی مگر قانون کی وائلیشن کا خطرہ برقرار رہے گا اس طرح کے لوازمات شہریوں کی جیب پر ایک غیر ضروری مالی اور ذہنی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، اور یوں دیہاڑی دار اور محنت کش طبقے کے لیے ہر نیا قانون ایک نئی آزمائش بن جاتا ہے۔
دوسری جانب، یہ اجازت طبقاتی تفریق کو بھی فروغ دے گی۔ یہ ایک ایسا کھیل بن کر رہ جائے گا جس سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکیں گے جو حکومتی شرائط اور ممکنہ بھاری فیسوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ یہ اقدام پنجاب کے لاکھوں غریب دلوں پر تیر چلانے کے مترادف ہے، جن کے بچے پتنگ لوٹنے کا مزہ نہیں لے سکیں گے اور اگر کوشش کریں گے تو والدین کو انہیں سخت سزاؤں اور جرمانوں کے خوف سے روکنا پڑے گا۔ ایسے میں عوامی تحفظ پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس کھیل کو واپس لانا مناسب نہیں، کیونکہ ماضی میں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور مفت اینٹینا بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کوئی بچہ چھت سے گر کر موت کا شکار نہیں ہو گا۔
لہٰذا، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حساس مسئلے کا ایک دانشمندانہ اور پائیدار حل تلاش کرے تاکہ چند لوگوں کی خوشیوں کی خاطر لاکھوں لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو۔ جن شائقین کو پتنگ بازی کے بغیر اپنی زندگی کے دن ادھورے لگتے ہیں، ان کے لیے ایک عملی متبادل فراہم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، حکومت مخصوص دنوں کے لیے جنوبی پنجاب کے وسیع و عریض علاقے چولستان میں جیپ ریلی کی طرز پر پتنگ بازی کا میلہ سجا سکتی ہے۔ اس طرح، پتنگ بازی کے شائقین کا شوق بھی محفوظ ماحول میں پورا ہو جائے گا اور شہری آبادی، خاص کر غریب اور متوسط طبقے کے شہری خطرناک ڈور سے ہونے والے جانی نقصانات اور غیر ضروری مالی و ذہنی پریشانیوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ حکومت کو تفریح اور تحفظ کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے نہ کہ صرف چند دن کے تجربہ کی جزوی اجازت سے پوری قوم کو دوبارہ نئے خطرات اور پریشانیوں سے دوچار کرے۔
،،،قلمکار ،،،
زاہد رؤف کمبوہ
غلہ منڈی گوجرہ
(ٹوبہ ٹیک سنگھ)

پتنگ بازی کی مشروط اجازت، دانشمندانہ حل کی ضرورتپنجاب حکومت نے ایک اہم فیصلے کے تحت طویل عرصے بعد لاہور میں بسنت منانے ک...
16/12/2025

پتنگ بازی کی مشروط اجازت، دانشمندانہ حل کی ضرورت
پنجاب حکومت نے ایک اہم فیصلے کے تحت طویل عرصے بعد لاہور میں بسنت منانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ وزیر اطلاعات وثقافت عظمیٰ بخاری نے اعلان کیا ہے کہ چھ، سات اور آٹھ فروری 2026 کو لاہور ڈسٹرکٹ میں بسنت منائی جائے گی۔ یہ اجازت دراصل صوبے بھر میں بسنت کی واپسی کا ابتدائی قدم اور تجرباتی بتایا جا رہا ہے جس کے بعد اس کو اگلے سال پورے پنجاب میں نافذ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حکومت کا مقصد عوام کو خوشی کے مواقع دینا ہے، لیکن اس اقدام نے عوامی تحفظ، طبقاتی تفریق، اور قوانین کے نفاذ کے حوالے سے کئی سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔حکومت نے محفوظ بسنت کو یقینی بنانے کے لیے سخت ہدایات جاری کی ہیں، جن میں دھاتی ڈور کی ممانعت، پتنگ بازی کا سامان بیچنے والوں کی رجسٹریشن، اور ان تین دنوں کے علاوہ خلاف ورزی پر سزا، جرمانہ اور گرفتاری شامل ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کی حفاظت کے لیے حکومت مفت اینٹینا دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔جسے ہر موٹر سائیکل سوار کو فراہمی مشکل نظر اتی ہے یہ ارادہ یا بیان ابتدا میں شہریوں کو مطمئن کرنے کے لئے ہے ہمہ وقتی نہیں ہو سکتا اور بہت سے شہریوں کو موٹرسائیکل پر اینٹینا لگانے کے لیے مارکیٹ سے خریدنا پڑے گا لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: جب لاہور سے ابتدا کے بعد پتنگ بازی کی اجازت پورے صوبے میں دے دی جائے گی، تو یہ کون جانے گا کہ مخصوص دنوں کے علاوہ پتنگ بازی کے قانون کی خلاف ورزی کہاں ہو رہی ہے دیہی اور دور دراز علاقوں میں مخصوص دنوں کی پابندی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائے گا، جس کے نتیجے میں خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور حادثات کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان قوانین کے نفاذ کا سب سے بڑا بوجھ عام شہری پر پڑے گا، خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں پر۔ ایک جانب تو وہ ٹریفک چالان، مہنگائی اور دیگر لوازمات کے دباؤ میں ہیں، دوسری جانب ان پر یہ لازم ہو جائے گا کہ وہ حفاظتی اینٹینا ڈیرھ دو ماہ تک لگائے رکھیں، حالانکہ پتنگ بازی کی اجازت مخصوص دنوں کے ہوگی مگر قانون کی وائلیشن کا خطرہ برقرار رہے گا اس طرح کے لوازمات شہریوں کی جیب پر ایک غیر ضروری مالی اور ذہنی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، اور یوں دیہاڑی دار اور محنت کش طبقے کے لیے ہر نیا قانون ایک نئی آزمائش بن جاتا ہے۔
دوسری جانب، یہ اجازت طبقاتی تفریق کو بھی فروغ دے گی۔ یہ ایک ایسا کھیل بن کر رہ جائے گا جس سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکیں گے جو حکومتی شرائط اور ممکنہ بھاری فیسوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ یہ اقدام پنجاب کے لاکھوں غریب دلوں پر تیر چلانے کے مترادف ہے، جن کے بچے پتنگ لوٹنے کا مزہ نہیں لے سکیں گے اور اگر کوشش کریں گے تو والدین کو انہیں سخت سزاؤں اور جرمانوں کے خوف سے روکنا پڑے گا۔ ایسے میں عوامی تحفظ پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس کھیل کو واپس لانا مناسب نہیں، کیونکہ ماضی میں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور مفت اینٹینا بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کوئی بچہ چھت سے گر کر موت کا شکار نہیں ہو گا۔
لہٰذا، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حساس مسئلے کا ایک دانشمندانہ اور پائیدار حل تلاش کرے تاکہ چند لوگوں کی خوشیوں کی خاطر لاکھوں لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو۔ جن شائقین کو پتنگ بازی کے بغیر اپنی زندگی کے دن ادھورے لگتے ہیں، ان کے لیے ایک عملی متبادل فراہم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، حکومت مخصوص دنوں کے لیے جنوبی پنجاب کے وسیع و عریض علاقے چولستان میں جیپ ریلی کی طرز پر پتنگ بازی کا میلہ سجا سکتی ہے۔ اس طرح، پتنگ بازی کے شائقین کا شوق بھی محفوظ ماحول میں پورا ہو جائے گا اور شہری آبادی، خاص کر غریب اور متوسط طبقے کے شہری خطرناک ڈور سے ہونے والے جانی نقصانات اور غیر ضروری مالی و ذہنی پریشانیوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ حکومت کو تفریح اور تحفظ کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے نہ کہ صرف چند دن کے تجربہ کی جزوی اجازت سے پوری قوم کو دوبارہ نئے خطرات اور پریشانیوں سے دوچار کرے۔
،،،قلمکار ،،،
زاہد رؤف کمبوہ
غلہ منڈی گوجرہ
(ٹوبہ ٹیک سنگھ)

نئی بابری مسجد کی تعمیر: بھارت میں مذہبی کشیدگیہندوستان میں پولیس کے سخت حفاظتی حصار میں مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد کے...
10/12/2025

نئی بابری مسجد کی تعمیر: بھارت میں مذہبی کشیدگی
ہندوستان میں پولیس کے سخت حفاظتی حصار میں مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد کے شہر بیلڈانگا میں بابری مسجد کی طرز پر ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ لا تعداد لوگوں نے مسجد کی بنیاد رکھنے کے ثواب اور برکت کی نیت سے اینٹیں اور دیگر تعمیراتی سامان اٹھا کر سنگ بنیاد میں حصہ لیااس موقع پر حاضرین کی ضیافت کے لئے چالیس ہزار پیکٹ شاہی بریانی کے ڈبے تیار کیے گئے تھے۔ تقریباً تین ہزار رضاکار ہجوم کو ہدایت دینے، آمد و رفت سنبھالنے اور سڑکیں صاف کرنے کے لیے مقرر کیے گئے تھے، جبکہ حکومت کی طرف سے بھی تین ہزار سے زائد کا عملہ سیکیورٹی کے لیے تعینات کیا گیا تھامذکورہ مسجد ایودھیا میں منہدم ہونے والی بابری مسجد کی یاد میں تعمیر کی جا رہی ہے بتایا گیا ہے کہ اس مسجد کو تینتیس سال قبل ایودھیا میں منہدم ہونے والی بابری مسجد سے ملتے جلتے نقشے کے مطابق تعمیر کیا جائے گا۔ مسجد کا سنگ بنیاد رکھتے وقت ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی اس موقع پر حکومت کی طرف سے سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے کیونکہ ہندوؤں کی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کا آغاز ترنمول کانگریس کے معطل ایم ایل اے ہمایوں کبیر کی زیر نگرانی کیا گیا، جنہوں نے تقریر کرتے ہوئے سامعین کو بتایا کہ ایک پرائیویٹ شخص نے انہیں اس مسجد کی تعمیر کے لیے آٹھ کروڑ روپے کا عطیہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے اس شخص کا نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ نجی فنڈ سے ہی اس کی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور مسجد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے سرکاری فنڈ وصول نہیں کریں گے مذکورہ مسجد کا سنگ بنیاد سن 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کی تینتیسویں برسی کے موقع پر رکھا گیا ہے۔ ادھر شدت پسند ہندو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر اس مسجد کا نام بابری رکھا گیا تو وہ اس کو بھی گرا کر مندر تعمیر کریں گے اس سلسلے میں گزشتہ روز بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشوپرساد موریہ کا بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر بنگال کے شہر مرشد آباد میں بابری مسجد بنتی ہے تو اسے ایودھیا کی طرح منہدم کر دیا جائے گاواضح رہے کہ ہندوستان میں تنگ نظر اور متعصب ہندو تنظیموں کے رہنما آئے روز مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور رسومات پر اعتراضات اور قدغنیں لگا دیتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں اپنے مذہبی رسومات جیسے کہ نماز اور قربانی وغیرہ کی ادائیگی میں بھی جبر و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قانون کو نافذ کرنے والے ادارے اکثر شدت پسند ہندوؤں کی پشت پناہی اور حمایت کرتے پائے جاتے ہیں جس سے سیکولر ہندوستان کا پرچار کرنے والے انڈین حکمرانوں کا پردہ چاک ہو جاتا ہے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی بھارت کے سیکولر کردار پر سوالات اٹھانے شروع کر دیئے ہیں انصاف پسند دانشوروں کا ماننا ہے کہ ہندو سیاسی رہنما اپنے اپنے مذہبی عقائد اور ووٹ بینک کی خاطر شدت پسند مذہبی رہنماؤں کے زیر اثر ہیں جس کی وجہ سے عملی طور پر بھارت میں سیکولرازم پر مکمل عمل نہیں ہو رہاخاص طور پر حالیہ برسوں میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ہندوتوا نظریات کا زور ہے اور بعض متنازع قوانین و واقعات کی وجہ سے آزاد میڈیا اور انصاف کے اداروں میں بھارت کے سیکولر کردار پر اب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ آئینی طور پر یہ ملک سیکولر کہلواتا ہے، مگر عملی طور پر کئی معاملات میں متنازع اور جانبدارانہ طرز عمل کی اجارہ داری ہے۔
،،،قلمکار ،،،
زاہد رؤف کمبوہ
غلہ منڈی گوجرہ
(ٹوبہ ٹیک سنگھ)

ٹریفک قوانین میں سخت جرمانے اورعوامی مشکلاتقلمکار  ۔   زاہد رؤف کمبوہحکومت پنجاب نے حال ہی میں ٹریفک قوانین میں بڑے پیما...
02/12/2025

ٹریفک قوانین میں سخت جرمانے اورعوامی مشکلات
قلمکار ۔ زاہد رؤف کمبوہ
حکومت پنجاب نے حال ہی میں ٹریفک قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں جن کے تحت معمولی خلاف ورزیوں پر بھی بھاری جرمانے اور سخت سزائیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ اس اچانک فیصلے نے موٹر سائیکل، رکشہ، کار، ٹرک اور بس مالکان کے ساتھ ساتھ ڈرائیور حضرات میں شدید پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے۔ بڑے شہروں کے بعد اب یہ سخت اقدامات پورے پنجاب میں نافذ کیے جا رہے ہیں، جس سے رکشہ ڈرائیور، پھیری والے اور موٹر سائیکل پر روزگار کمانے والے شہری بھی شدید اضطراب کا شکار ہو گئے ہیں۔عوام کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں ٹریفک کے پیچیدہ اصول و ضوابط تک مناسب رسائی حاصل ہے۔ ایسے میں ہزاروں روپے کے بھاری جرمانوں کا ڈنڈے کے زور پر نفاذ شہریوں کے لیے مشکلات بڑھا رہا ہے۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جو شخص روزانہ کی محنت سے بمشکل گھر چلاتا ہے یا معمولی تنخواہ پر گزارا کر رہا ہے وہ اتنے بھاری جرمانے دے کر گھریلو اخراجات کس طرح پورے کرے گا؟ غلطی انسان سے ہوتی ہے، اس لئے قانون کا نفاذ اصلاح کی نیت سے ہونا چاہیے، نہ کہ مجرموں جیسا سلوک روا رکھا جائے۔یہ صورتحال طلبہ کے لیے بھی سنگین مسئلہ بن گئی ہے۔ 18 سال سے کم عمر طلبہ موجودہ قانون کے تحت ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنوا سکتے، جبکہ سکول اور کالج کا سفر ان کے لیے ضروری ہے۔ بہت سے ایسے بچے اور بچیاں ہیں جن کے گھر میں کوئی بڑا فرد موجود نہیں، یا باپ پردیس میں ہے، یا وفات پا چکا ہے۔ وہ اپنی تعلیم کے لیے خود موٹر سائیکل استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ اپنے لیے لائسنس کیسے بنوائیں؟ اگر گھر میں کوئی ہنگامی صورتحال پیش آ جائے یا ماں بیمار ہو جائے تو ہسپتال لے جانے والا کون ہوگا؟عوام اس بات پر بھی سخت نالاں ہیں کہ حکومت بھاری جرمانے تو وصول کر رہی ہے مگر اس کے بدلے کوئی بنیادی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، سکول اور کالجز دور دراز علاقوں میں واقع ہیں، کاروبار اور صنعتیں زوال کا شکار ہیں، معیشت مشکلات کا شکار ہے، روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ شہری یہ پوچھ رہے ہیں کہ حکمران عوام کو دے کیا رہے ہیں جو اتنے بھاری ٹیکس اور جرمانے وصول کیے جا رہے ہیں۔بازاروں کی صورتحال بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ مرکزی بازاروں تک عوام کی رسائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر غیر قانونی پارکنگ بنائی گئی ہے جہاں پارکنگ مافیا بلدیہ کی سرپرستی میں بغیر رسید فیس وصول کر رہا ہے۔ عمر رسیدہ افراد اور خواتین جو پہلے موٹر سائیکل پر آ کر خریداری کر لیا کرتے تھے، اب گھر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سے تاجروں کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے اور مجموعی طور پر مایوسی، بے چینی اور بے اعتمادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔بھاری جرمانے امیر کے لیے معمولی اور غریب کے لیے معاشی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی چلانے والے شہری کے لیے پانچ یا دس ہزار روپے جرمانہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن رکشہ ڈرائیور، پھیری والے یا محنت کش کے لیے دو ہزار روپے بھی گھر کے خرچ کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ جرمانے اصلاح کے لیے ہونے چاہئیں، خزانہ بھرنے کے لیے نہیں۔ اگر اسی شدت سے قانون نافذ رہا تو محنت کش طبقہ فاقوں تک پہنچ جائے گا۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سخت قوانین اور بھاری جرمانوں کی تلوار عوام پر لٹکا کر ان کا معاشی قتل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔حکومت یورپ جیسے قوانین تو نافذ کر رہی ہے مگر یہ نہیں دیکھتی کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ ہسپتالوں، سکولوں اور کالجوں تک رسائی آسان نہیں، ہر سرکاری کام کی فیس ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے، ٹول ٹیکس بڑھ رہے ہیں، شناختی کارڈ، پیدائش، وفات اور فیملی سرٹیفیکیٹ کی فیسیں غریب کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے غریب شہری کو موٹر سائیکل سے سائیکل پر واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت ہر آباد علاقے کے قریب سکول اور کالج قائم نہیں کر سکتی، اس لیے اگر 15 یا 16 سال کی عمر میں طلبہ کو رعایتی فیس پر ڈرائیونگ لائسنس دینے کی اجازت دی جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایسے یتیم اور بے سہارا طلبہ کے لیے بھی خصوصی پالیسی بنانا ضروری ہے جو اپنی مجبوری کے تحت خود سفر کرتے ہیں۔ اگر حکومت انڈر 18 طلبہ کے لیے 20 سے 25 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار والی الیکٹرک سائیکل یا ای سکوٹی سستے نرخوں پر فراہم کرے تو سفر کے مسائل بڑی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف محکمہ لیبر کم عمر بچوں کو کام سے روک دیتا ہے،مگر انہی یتیم، غریب اور بے سہارا بچوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع بھی فراہم نہیں کیے جا رہے۔ اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کے گھر کے اخراجات کیسے چل رہے ہیں اور کون ان کی کفالت کر رہا ہے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور حکومت روزگار دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ بھاری جرمانے محفوظ ٹریفک نظام کی طرف قدم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن جب تک بنیادی سہولتوں کی فراہمی نہیں ہوگی، غریب کے لیے رعایتی اور قابلِ برداشت پالیسی نہیں بنائی جائے گی، اور طلبہ، یتیموں، بے سہارا خاندانوں اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے خصوصی اقدامات نہیں کیے جائیں گے، تب تک یہ قوانین عوام میں مزید بے چینی اور نفرت پیدا کرتے رہیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سختی کے بجائے آسانی اور ریلیف کا راستہ اپنائے تاکہ قانون پر عمل درآمد بھی ہو سکے اور عوام بھی عزت کے ساتھ اپنا گھر چلا سکیں۔

15/11/2025
گوجرہ کے پوسٹ آفس روڈ پر طالبات کا گزرنا محالشہری حلقوں کی طرف سے میری توجہ ڈاکخانہ روڈ پر چوک پوسٹ آفس پر رکشا اور ریڑھ...
20/09/2025

گوجرہ کے پوسٹ آفس روڈ پر طالبات کا گزرنا محال
شہری حلقوں کی طرف سے میری توجہ ڈاکخانہ روڈ پر چوک پوسٹ آفس پر رکشا اور ریڑھی چھابڑی والوں کے قبضہ کی طرف مبذول کروائی گئی ہے مذکورہ چوک کے ایک طرف قریب ہی سٹی پولیس اسٹیشن بلدیہ گوجرہ عدالتیں اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین موجود ہے دوسری طرف ملکاں چوک ہے جو قائد اعظم روڈ سے ملتا ہے قابل ذکر مذکورہ ڈاکخانہ چوک کے ایک طرف نیشنل بنک روڈ ہے جس پر بھی رکشا اور ریڑھی والوں کا سارا دن قبضہ رہتا ہے جب کہ دوسری طرف سبزی منڈی کو جانے والی گلی ہے لہٰذہ بتائے بغیر آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جب اس چوک سے گزرنا محال رہتا ہے تو اس گلی کا تو حال اچھا نہیں ہو سکتا اس میں بھی ریڑھی چھابڑی والوں کی اجارہ داری ہے یہ ساری تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ صبح سات آٹھ بجے طالبات کے کالج جانے کا ٹائم ہوتا ہے اور یہی وقت اس چوک میں اور مذکورہ روڈ پر رکشا ریڑھی پر سبزی کی خریدو فروخت کے عروج کا ہے جس کی وجہ سے اندرون شہر مونگی ذیل اور انصار کالونی کی طرف سے آنے والی طالبات کا اس روڈپر پیدل کالج جانے کی جراٗت کرنا محال ہے موٹرسائیکل پر جانے والی طالبات متبادل روڈ پر چکر کاٹ کر کالج پہنچتی ہیں ضروری ہے کہ تحصیل انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کے حکام کم از کم سکول ٹائم پر اس روڈ کو کلیئر کرنے کے لئے مناسب اقدامات بروئے کار لائیں
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ
غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

           #
17/09/2025

#

قدرت سبق ضرور سکھاتی ہے تحریر۔ زاہد رؤف کمبوہیہ مضمون روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں مورخہ 9 فروری 2025 کو شائع ہوا   - ...
04/06/2025

قدرت سبق ضرور سکھاتی ہے
تحریر۔ زاہد رؤف کمبوہ
یہ مضمون روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں مورخہ 9 فروری 2025 کو شائع ہوا


-
-
-
-


https://e.jang.com.pk/lahore/09-02-2025/sunday-magazine-page11
قدرت کا اپنا ایک نظام اور طریقۂ کارہے، جو لوگ اس کے طے شدہ اصول وضوابط سے ہٹ کر زندگی بسر کرتے ہیں، اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ایک وقت ضرور آتا ہے کہ جب قدرت اپنے طے شدہ قوانین توڑنے پرسزا دیتی ہے اور اُس وقت انسان کا تکبّر، عیّاریاں، چالاکیاں قطعاً کام نہیں آتیں۔ بے شک، جو لوگ اپنی ذاتی و معاشرتی زندگی میں اپنے والدین کے ساتھ شفیق و مہربان نہیں، اُن کے ساتھ غیظ و غضب سے پیش آتے ہيں، وہ نہ صرف آخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے، بلکہ دنیا کی لذّت اور خوشی سے بھی بہرہ مند نہیں ہوں گے۔

والدکی نافرمانی ہی سے متعلق ایک سچّا واقعہ آپ کی نذر کررہا ہوں۔ چند سال قبل کی بات ہے کہ مَیں اپنے ایک دوست کے کلینک پر اخبار کی ورق گردانی کررہا تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ کلینک میں داخل ہوا۔ اس کی بیوی بیمار تھی، کلینک میں خاصا رش تھا، اس کی باری آنے میں تھوڑی دیر تھی، لہٰذا وہ اپنی بیوی کو لیڈیز کمپارٹمنٹ میں بٹھا کر میری سامنے والی نشست پر آکر بیٹھ گیا۔

میں بھی کافی دیر سے بیٹھا بور ہورہا تھا، اس نے میری طرف شناسا نگاہوں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا کہ ’’کیا آپ یہیں کہیں قریب ہی رہتے ہیں۔‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلایا، تو بولا کہ مَیں بھی قریب ہی رہتا ہوں، لیکن آج کل سعودی عرب میں بوجہ ملازمت مقیم ہوں، چھٹیوں پر آیا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ ’’آج کل کے نوجوان اپنے ملک میں کام نہیں کرتے، جب کہ باہر جاکر مزدوری بھی کر لیتے ہیں۔‘‘

میری بات پر اس شخص نے کہا کہ ’’جی آپ بالکل درست فرمارہے ہیں، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا، ملک سے باہر جانے سے قبل میں ایک لاابالی نوجوان تھا، اُس وقت تک میری شادی نہیں ہوئی تھی، اور بے روزگار بھی تھا، بس والد صاحب کی کمائی پر زندگی گزار رہا تھا۔ ایک روز حسبِ معمول گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ والد صاحب نے بلایا، میں باہر آیا تو انھوں نے کدال اور پھاوڑا تھمایا اور گھر کے باہر لے جاکر گلی میں ایک جگہ کی نشان دہی کی کہ ’’اس جگہ ایک گڑھا کھود دو، واٹر سپلائی کی پائپ لائن سے کنیکشن لینا ہے۔‘‘

اُس وقت وہاں محلّے کے کچھ لوگ اور میرے چند دوست بھی موجود تھے۔ مَیں نے پھاوڑے سے چند وار لگائے، لیکن پھر مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ میرے ہم سائے اور دوست کیا کہیں گے۔ مَیں نے جھلّاتے ہوئے والد صاحب کی طرف دیکھا اور بڑی بے رخی سے کہا کہ ’’مجھ سے یہ نہیں ہوگا، کسی مزدور کو بلوا کر گڑھا کُھدوالیں۔‘‘انھیں مجھ سے اس بات کی توقع نہیں تھی، میرے یک سر انکارپر خاموش ہوکر رہ گئے۔ مزدور کو کیا بلوانا تھا، انھوں نے خود ہی جیسے تیسے گڑھا کھودا اور واٹر سپلائی کی لائن لگوالی۔

کچھ ہی عرصے بعد میری شادی میری کزن سے ہوگئی اور چند ماہ بعد آزاد ویزے پر دبئی چلا گیا۔ جن دوستوں نے مجھے کام کا وعدہ کر کے بلایا تھا، انہوں نے دس پندرہ دن اپنے پاس رکھ کر منہ پھیر لیا اور نکال باہر کیا۔ مرتا، کیا نہ کرتا، کوئی تجربہ تھا نہیں، روٹی تو کھانی تھی۔ کسی نے گٹر صاف کرنے کا کام دلوادیا، تو اُسے غنیمت سمجھا اور گٹر صاف کرنے شروع کر دیئے۔
ایک سال سے زیادہ عرصہ گٹر صاف کر کے گزارہ کیا، پھر مجھے دوسرا کام مل گیا۔ لیکن وہ بھی واجبی سا تھا، اُدھر میری بیوی نے تقاضا شروع کردیا کہ یا تو مجھے اپنے پاس بلوالو یا طلاق دے دو۔ اُس وقت میرے حالات ایسے تھے کہ نہ تو واپس ملک جاسکتا تھا، نہ اسے اپنے پاس بلا سکتا تھا، ناچار چھے ماہ بعد طلاق دینی پڑی۔

پھر کچھ عرصے بعد دوسری شادی کرلی۔ اور آج یہ بات کہنے میں مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ مجھ پر دیارِ غیر میں جو کچھ بھی بِیتا وہ والد سے نافرمانی کی سزا تھی، مَیں نے پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلے والد کے قدموں میں گر کر صدقِ دل سے معافی مانگی، تو اب میرے حالات ٹھیک ہیں، چند دنوں بعد اپنی بیوی کو ساتھ لے کر واپس جا رہا ہوں۔‘‘

یقیناً یہ سبق ہے، اُن سب لوگوں کے لیے، جو والدین کی فرمانی کرتے ہیں، اُن کا کہا نہیں مانتے اور ان کے ساتھ خوش خلقی سے پیش نہیں آتے کہ پھر اِسی طرح اُن کے گھر تباہ و برباد ہوجاتے ہيں اور وہ مستقلاً مصیبتوں کے شکار رہتے ہیں۔

پس، جو لوگ اس دنیا میں پُرسکون اور خوش گوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ ربِ کعبہ کے طے شدہ اصول و ضوابط کے انحراف سے باز آئیں۔ اپنے والدین کے ساتھ نیکی، محبّت اور شفقت کا سلوک کریں، تاکہ مسّرت اور خوشی سے بھرپور زندگی کی لذّت حاصل کرسکیں۔ (زاہد رؤف کمبوہ، غلّہ منڈی، گوجرہ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

*✍️ عنوان: عبدالقدیر خان کا جرم وفاداری*  *🗞️ اشاعت: روزنامہ اساس*  *📅 تاریخ: 5 مئی 2025*  *✍️ تحریر: زاہد رؤف کمبوہ (غل...
15/05/2025

*✍️ عنوان: عبدالقدیر خان کا جرم وفاداری*
*🗞️ اشاعت: روزنامہ اساس*
*📅 تاریخ: 5 مئی 2025*
*✍️ تحریر: زاہد رؤف کمبوہ (غلہ منڈی، گوجرہ)*








06/05/2025

اندھی گولی ایک آدمی کی جان لے سکتی ہے مگر قلم کی خیانت قوم کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے

*✍️ عنوان: عبدالقدیر خان کا جرم وفاداری*  *🗞️ اشاعت: روزنامہ جناح*  *تاریخ:  4 مئی 2025*  *✍️ تحریر: زاہد رؤف کمبوہ (غلہ...
03/05/2025

*✍️ عنوان: عبدالقدیر خان کا جرم وفاداری*
*🗞️ اشاعت: روزنامہ جناح*
*تاریخ: 4 مئی 2025*
*✍️ تحریر: زاہد رؤف کمبوہ (غلہ منڈی، گوجرہ)*





#کالم

عبدالقدیرخان کاجرم وفاداری.. تحریر۔ زاہدرؤف کمبوہ
ایٹمی صلاحیت مہیا کرنے والے قوم کے ہیرو عبدالقدیر خان کو قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی آج انڈیا سے ہم سر اٹھا کر اور بے باک طریقے سے جو بات کر رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں دشمن ہم سے جنگ کرنے سے پہلے جس طرح سوچ بچار خوف اور تذبذب کا شکار ہے اس کی وجہ عبدالقدیر خان کی ماہرانہ سائنسی صلاحیت ملک کو ایٹمی قوت بنانا اور میزائل ٹیکنالوجی میں ہونے والی بے شمار خدمات ہیں جن کا نتیجہ اورصلہ اتنا عظیم ہے کہ یہ قوم ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے احسانوں کا بدلہ کبھی بھی نہیں چکا سکتی اور نااسے فراموش کر سکتی ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ عبدالقدیر خان کے آخری ایام غیر ملکی ایک بڑی طاقت کے ایما پر دکھ اور کرب میں گزرے
ان کا ایک شعر ہے جو انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں پڑھا تھا مجھے آج بھی دکھ اور شرمندگی میں مبتلا کر دیتا ہے انہوں نے کہا تھا کہ
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
اس شعر میں انہوں نے اپنے دکھ کرب اور امیدوں کی محرومی کا اظہار کیا ہے یاد رہے کہ عبدالقدیر خان کو ملک کو ایٹم بم دینے کے صلہ میں اعزازات سے نوازنے کی بجائے ایسی انہونی ہوئی کہ ایک بڑی طاقت کے ایما پر پر جنرل مشرف کے دباؤ کی وجہ سے عبدالقدیر خان نے ٹیلی ویژن پر آ کر مبینہ تحریر کردہ جرم پڑھ کر کے پوری قوم سے معافی مانگی تھی ان کی وفات کے بعد بھی حکمرانوں کی زیادتیوں میں کمی نہیں ہوئی قوم کی منشا کے مطابق فیصل مسجد کے احاطے میں قبر بنانے کی باتیں ہوئیں اور پھر انہیں عام سے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا
اور حد یہ بھی ہے کہ ان کے جنازہ کو بھی وہ اعزازی مقام حاصل نہ ہو سکا جو ایک قوم کے عظیم ہیرو کا ہونا چاہیے تھا بڑی طاقت کے ڈر سے بہت سے سیاسی لیڈر خواہش رکھنے کے باوجود جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تھے سوائے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے۔اقتدار کے مزے لینے والے بڑے بڑے لوگ جو ایٹم بم پر فخر اور اپنا حق جتاتے نہیں تھکتے انہوں نے بھی نظریں پھیر لیں تھیں اور ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے تھے ان کے انتقال کے وقت عمران خان برسر اقتدار تھے وہ بھی شریک نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ان کی کابینہ کا کوئی وزیر۔ملک کی خاطر اپنی زندگی صرف کرنے والے کی بڑی طاقت کے ایما پر اتنی بے قدری آنے والی نسلوں کو بے حوصلہ کرنے کی گہری سازش تھی عبدالقدیر خان کی اس طرح کی بے قدری سے جو وقت کے حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے ہوئی ہے ایٹمی دھماکوں کا نا م تو لیا جاتا ہے مگر اس کو بنانے میں ھالینڈ سے زندگی کے پر آسائش دن پاکستان میں آ کر داؤ پر لگا کر ایٹم بم بنانے والے سائنسدان کا نام لینے میں حکمرانوں کی زبانیں لڑکھڑا جاتی ہیں عبدالقدیر خان سے ہونے والی زیادتی آنے والے تاریخ کے اوراق میں پاکستانی قوم پر احسان فراموشی کا جو داغ دے گئی ہے وہ اب ان کی موت کے بعد کیسے دھل پائے گایہ میری ذاتی رائے ہے آپ اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں
قلمکار
زاہد رؤف کمبوہ غلہ منڈی گوجرہ (ٹوبہ ٹیک سنگھ)

Address

Gojra
36120

Telephone

+923356552655

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qalamkaar قلمکار posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share