16/12/2025
پتنگ بازی کی مشروط اجازت، دانشمندانہ حل کی ضرورت
پنجاب حکومت نے ایک اہم فیصلے کے تحت طویل عرصے بعد لاہور میں بسنت منانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ وزیر اطلاعات وثقافت عظمیٰ بخاری نے اعلان کیا ہے کہ چھ، سات اور آٹھ فروری 2026 کو لاہور ڈسٹرکٹ میں بسنت منائی جائے گی۔ یہ اجازت دراصل صوبے بھر میں بسنت کی واپسی کا ابتدائی قدم اور تجرباتی بتایا جا رہا ہے جس کے بعد اس کو اگلے سال پورے پنجاب میں نافذ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حکومت کا مقصد عوام کو خوشی کے مواقع دینا ہے، لیکن اس اقدام نے عوامی تحفظ، طبقاتی تفریق، اور قوانین کے نفاذ کے حوالے سے کئی سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔حکومت نے محفوظ بسنت کو یقینی بنانے کے لیے سخت ہدایات جاری کی ہیں، جن میں دھاتی ڈور کی ممانعت، پتنگ بازی کا سامان بیچنے والوں کی رجسٹریشن، اور ان تین دنوں کے علاوہ خلاف ورزی پر سزا، جرمانہ اور گرفتاری شامل ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کی حفاظت کے لیے حکومت مفت اینٹینا دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔جسے ہر موٹر سائیکل سوار کو فراہمی مشکل نظر اتی ہے یہ ارادہ یا بیان ابتدا میں شہریوں کو مطمئن کرنے کے لئے ہے ہمہ وقتی نہیں ہو سکتا اور بہت سے شہریوں کو موٹرسائیکل پر اینٹینا لگانے کے لیے مارکیٹ سے خریدنا پڑے گا لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: جب لاہور سے ابتدا کے بعد پتنگ بازی کی اجازت پورے صوبے میں دے دی جائے گی، تو یہ کون جانے گا کہ مخصوص دنوں کے علاوہ پتنگ بازی کے قانون کی خلاف ورزی کہاں ہو رہی ہے دیہی اور دور دراز علاقوں میں مخصوص دنوں کی پابندی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائے گا، جس کے نتیجے میں خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور حادثات کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان قوانین کے نفاذ کا سب سے بڑا بوجھ عام شہری پر پڑے گا، خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں پر۔ ایک جانب تو وہ ٹریفک چالان، مہنگائی اور دیگر لوازمات کے دباؤ میں ہیں، دوسری جانب ان پر یہ لازم ہو جائے گا کہ وہ حفاظتی اینٹینا ڈیرھ دو ماہ تک لگائے رکھیں، حالانکہ پتنگ بازی کی اجازت مخصوص دنوں کے ہوگی مگر قانون کی وائلیشن کا خطرہ برقرار رہے گا اس طرح کے لوازمات شہریوں کی جیب پر ایک غیر ضروری مالی اور ذہنی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے، اور یوں دیہاڑی دار اور محنت کش طبقے کے لیے ہر نیا قانون ایک نئی آزمائش بن جاتا ہے۔
دوسری جانب، یہ اجازت طبقاتی تفریق کو بھی فروغ دے گی۔ یہ ایک ایسا کھیل بن کر رہ جائے گا جس سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکیں گے جو حکومتی شرائط اور ممکنہ بھاری فیسوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ یہ اقدام پنجاب کے لاکھوں غریب دلوں پر تیر چلانے کے مترادف ہے، جن کے بچے پتنگ لوٹنے کا مزہ نہیں لے سکیں گے اور اگر کوشش کریں گے تو والدین کو انہیں سخت سزاؤں اور جرمانوں کے خوف سے روکنا پڑے گا۔ ایسے میں عوامی تحفظ پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اس کھیل کو واپس لانا مناسب نہیں، کیونکہ ماضی میں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور مفت اینٹینا بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کوئی بچہ چھت سے گر کر موت کا شکار نہیں ہو گا۔
لہٰذا، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حساس مسئلے کا ایک دانشمندانہ اور پائیدار حل تلاش کرے تاکہ چند لوگوں کی خوشیوں کی خاطر لاکھوں لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو۔ جن شائقین کو پتنگ بازی کے بغیر اپنی زندگی کے دن ادھورے لگتے ہیں، ان کے لیے ایک عملی متبادل فراہم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، حکومت مخصوص دنوں کے لیے جنوبی پنجاب کے وسیع و عریض علاقے چولستان میں جیپ ریلی کی طرز پر پتنگ بازی کا میلہ سجا سکتی ہے۔ اس طرح، پتنگ بازی کے شائقین کا شوق بھی محفوظ ماحول میں پورا ہو جائے گا اور شہری آبادی، خاص کر غریب اور متوسط طبقے کے شہری خطرناک ڈور سے ہونے والے جانی نقصانات اور غیر ضروری مالی و ذہنی پریشانیوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ حکومت کو تفریح اور تحفظ کے درمیان توازن قائم رکھنا چاہیے نہ کہ صرف چند دن کے تجربہ کی جزوی اجازت سے پوری قوم کو دوبارہ نئے خطرات اور پریشانیوں سے دوچار کرے۔
،،،قلمکار ،،،
زاہد رؤف کمبوہ
غلہ منڈی گوجرہ
(ٹوبہ ٹیک سنگھ)