Muraqba Hall Gujar Khan

Muraqba Hall Gujar Khan Sufi Order Silsila Azeemia,s Centre

71- عنوان : روشنی سے علاج کتاب : آگہیقرآن پاک کے بیان کردہ حقائق یہ ہیں کہ ہر شئے الگ الگ معین مقدار کے ساتھ تخلیق ہوئی ...
25/08/2025

71- عنوان : روشنی سے علاج
کتاب : آگہی

قرآن پاک کے بیان کردہ حقائق یہ ہیں کہ ہر شئے الگ الگ معین مقدار کے ساتھ تخلیق ہوئی ہے۔ ہر شئے کی لہریں ہمیں وجود کی اطلاع بخشتی ہیں۔ اس وقت ہمیں سوچنا ہے کہ لوہا، تانبا، سونا، لکڑی، انسان اور حیوانات، نباتات اور جمادات میں کون سی لہریں کام کرتی ہیں۔

اللّٰه تعالیٰ نے تخلیقی فارمولے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔اللّٰه

’’وہ خالق جس نے تم کو نفس واحدہ سے تخلیق کیا۔‘‘(سورۃ الاعراف۔ آیت۱۸۹)

یعنی نوع انسانی کی تخلیق میں بنیادی چیز ’’نفس‘‘ ہے۔

یہ نفس کیا ہے؟

اس کی وضاحت میں کافی وقت اور کاغذ درکار ہیں لیکن اللّٰه تعالیٰ کے اس فرمان سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ کائنات میں موجود ہر شئے مقرر کردہ انبیاء پر قائم ہے۔ مظاہراتی اشیاء (Visible Objects) میں درخت اپنی جڑوں پر، مکان اور بلڈنگیں بنیادوں پر قائم ہیں۔ غائب کی دنیا (Invisible World) میں ہر شئے کی بنیاد روشنی ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

70- قرآن علوم کا سرچشمہ ہے کتاب : آگہیقرآن پاک کائنات کے تمام قوانین اور علوم کا سرچشمہ ہے۔ قرآن پاک کے مضامین معنویت کے...
09/08/2025

70- قرآن علوم کا سرچشمہ ہے
کتاب : آگہی

قرآن پاک کائنات کے تمام قوانین اور علوم کا سرچشمہ ہے۔ قرآن پاک کے مضامین معنویت کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔

ایک حصہ ان اصول و قوانین اور شریعت پر مشتمل ہے جو ایک فلاحی معاشرے کے لئے ضروری ہے اور اسی حصہ میں اخلاقی اقدار اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب بھی بیان کئے گئے ہیں۔

دوسرا حصہ تاریخ اور حالات تیسرا حصہ جو قرآن کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ان فارمولوں اور قوانین سے بحث کرتا ہے جن کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ اس حصہ میں موت کے بعد کی زندگی کے حالات بھی شامل ہیں اور اسی حصہ کو معاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ کائناتی قوانین ناقابل تغیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق یہ ازل سے ایک ہیں اور ابد تک ایک ہی رہیں گے۔

قرآن پاک میں انہیں ’’فطرت اللہ‘‘ اور ’’اللہ تعالیٰ کا امر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یا اللہ تعالیٰ کا امر ان قوانین اور فارمولوں کا مجموعہ ہے جن کے تحت ہر آن اور ہر لمحہ کائنات کو حیات نو مل رہی ہے۔ کائنات ایک مربوط اور منظم پروگرام ہے جس میں ’’اتفاق‘‘ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب کچھ ’’الٰہی قانون‘‘ کے تحت واقع ہوتا ہے۔

علماء باطن اور محققین نے پہلے دو حصوں پر تو توجہ دی ہے اور تیسرے حصے کی وضاحت اس لئے نہیں ہوئی کہ اس کو سمجھنے کے لئے شعوری مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ اس علم کا تعلق عقل و شعور کے ساتھ روحانی کیفیات سے ہے۔

روحانی علوم اس وقت حاصل ہوتے ہیں۔ جب طالب علم شعوری طور پر واردات و کیفیات سے آگاہ اور باخبر ہو۔ ورائے لاشعور (روحانی) علوم کو سمجھنے کے لئے یہ امر لازم ہے کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات اور زندگی کے ظاہری عوامل پر ضرب لگا کر دنیاوی دلچسپیاں کم سے کم کر دیں۔

قرآن پاک میں اس علم کو ’’کتاب کا علم‘‘ سے متعارف کرایا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے درباریوں سے فرمایا:

’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی دربار میں آ جائے۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت۳۸)

عفریت نے کہا جو قوم جنات میں سے تھا۔۔۔

’’اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں یہ تخت لا سکتا ہوں۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۳۹)

جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔

’’اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے تخت دربار میں موجود ہو گا۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۴۰)

حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت دربار میں موجود تھا۔ حالانکہ یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً پندرہ سو میل ہے۔

کتاب کا یہ علم ان کائناتی قوانین اور فارمولوں پر قائم ہے جن پر کائنات چل رہی ہے۔ زمین کی گردش، آسمان سے پانی برسنا، نباتات کا اُگنا، زمین پر موجود حیوانات اور جمادات کی پیدائش اور موت، ان کی زندگی کی تحریکات، سیاروں کی گردشیں، ان میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں غرض کہ ہر حرکت قانون کی پابند ہے۔ یہی علم آدم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور خاص ودیعت ہوا ہے۔ جسے قرآن پاک میں ’’علم الاسماء‘‘ کہا گیا ہے اور اسی علم نے آدم کو فرشتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ یہی علم مومن کی میراث ہے اس علم سے کوئی انسان جس کو اللہ تعالیٰ چاہے تسخیر کائنات کے فارمولوں سے واقف ہو جاتا ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

69 - عنوان : Kirlian Photographyکتاب : آگہی سائنسدان فوٹو گرافی کی اعلیٰ ترین تکنیک کرلین فوٹو گرافی (Kirlian Photograph...
01/08/2025

69 - عنوان : Kirlian Photography
کتاب : آگہی

سائنسدان فوٹو گرافی کی اعلیٰ ترین تکنیک کرلین فوٹو گرافی (Kirlian Photography) استعمال کر کے رنگوں کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے جسم مثالی یا ہالۂ نور کے وجود سے بھی واقفیت حاصل کی جو ہر مادی شئے پر محیط ہے اور اسے (AURA) کا نام دیا۔ امریکہ، یورپ اور بطور خاص روس میں کی جانے والی دریافت نے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ لہریں مادہ کو کنٹرول کرتی ہیں اور اسی کی بنیاد پر مادہ کا قیام ہے۔ اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انسان کے اندر صلاحیتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جس میں ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی جیسی صلاحیتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور ان پر تحقیقی کام جاری ہے۔ آج انسان اس نقطہ پر ہے جہاں وہ مادہ کو محسوس کرنے کے بعد لہروں پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

68- عنوان : تحقیق و تلاشکتاب : آگہیاول اول اس نے طبیعیات کے میدان میں ہاتھ پیر مارے اور اس کی توجہ مادے کو سمجھنے میں مر...
23/07/2025

68- عنوان : تحقیق و تلاش
کتاب : آگہی

اول اول اس نے طبیعیات کے میدان میں ہاتھ پیر مارے اور اس کی توجہ مادے کو سمجھنے میں مرکوز رہی۔ اس نے اپنی ضروریات اور خواہشات کے مطابق دھات، عمارت سازی، فلکیات، طب اور اسی طرح کے اور بہت سے علوم مدون کئے اور ان علوم کو وسعت دیتا رہا۔ لیکن پھر بھی کائنات کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ واضح رہے کہ یہ انسان کی عمومی حالت کا ذکر ہے کیوں کہ ہر زمانے میں نوع انسانی میں بہت سے ایسے حضرات موجود رہے جو پابندیوں سے ماوراء تھے اور ان کی صلاحیتیں لوگوں کے لئے مشعل راہ بنی رہیں۔

دسویں صدی ہجری /۱۶ویں صدی عیسوی سے ترقی کی رفتار نے کروٹ لی اور اس میں تیزی پیدا ہوئی اور پھر یہ رفتار بڑھتی رہی۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی جو اسلامی کیلنڈر کے حساب سے تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری ہےمیں علم طبیعیات میں انقلاب برپا ہوا اور انسان کے سامنے نئی نئی راہیں اور نئے نئے علوم آتے رہے۔

انسان نے لہروں کو دریافت کر کے ریڈیو اور ٹی وی ایجاد کر لیا۔ بجلی دریافت کر کے برقیات کی بنیاد رکھی۔
فاصلے سمٹ گئے اور وقت کی اس حد تک نفی کر دی گئی کہ برسوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔

ان نت نئی ترقی اور سوچ بچار نے انسان کے ذہن کو تیزی عطا کی اور اس نے یہ معلوم کر لیا کہ انسان کے شعور اور مادی حرکات کے پیچھے بھی لطیف حرکات موجود ہیں جن کے ذریعے مادہ حرکت کر رہا ہے۔

آواز کی دریافت ان کے طول موج کی پیمائش اور لہروں کی دریافت نے ان خیالات کو تقویت بخشی ہے۔

انسان نے مزید جستجو کر کے نفسیات کی بنیاد رکھی اور اس کو باقاعدہ ایک علم کی شکل دے دی۔

خیالات، تصورات اور احساسات جیسے غیر مرئی وجود کو اہم اور اثر پذیر سمجھ کر اس پر تحقیق کے دروازے کھول دیئے پھر انسان نے ایک قدم اور بڑھایا اس نے اپنی تحقیقات کے ذریعے طبیعیات اور نفسیات کے اس پار بھی ایک اور دنیا کا سراغ لگایا اور اس کو مابعد الطبیعیات میٹا فزکس یا پیراسائیکالوجی کا نام دیا

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

66- عنوان : افکار کی دنیا کتاب: آگہی دنیا میں رائج علوم کو ہم تین دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں1- ۔ طبعی علوم2- ۔ نفسیاتی...
16/07/2025

66- عنوان : افکار کی دنیا
کتاب: آگہی

دنیا میں رائج علوم کو ہم تین دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں

1- ۔ طبعی علوم

2- ۔ نفسیاتی علوم

3- ۔ مابعد النفسیاتی علوم
پہلے دو علوم کے بارے میں تفصیلات بیان کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ہم مابعد النفسیات کے علوم کی تشریح بیان کرتے ہیں۔
آدمی تین دائروں سے مرکب ہے۔ شعور، لاشعور، ورائے لاشعور۔ یہ تینوں دائرے دراصل تین علوم ہیں۔
جس وقت ہم مظاہراتی خدوخال میں داخل ہوتے ہیں یعنی ہمیں کسی چیز کا احساس ہوتا ہے ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں یا ہمارے اند رخواہشات اور تقاضے پیدا ہوتے ہیں تو ہم تین دائروں میں سفر کرتے ہیں۔

پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں تصوراتی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصوراتی نقش و نگار، مظہر کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔

اطلاعات کے علم کو ہم ایک دوسرے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔

کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اطلاعات تمام موجودات میں قدر مشترک رکھتی ہیں۔

اس کی مثال یہ ہے کہ پانی کو آدمی، حیوانات، نباتات و جمادات پانی سمجھتے ہیں اور پانی سے اسی طرح استفادہ کرتے ہیں جس طرح آدمی کرتا ہے۔ جس طرح پانی کو پانی سمجھا جاتا ہے اسی طرح آگ ہر مخلوق کے لئے آگ ہے۔ آدمی اگر آگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو بکری، شیر، کبوتر اور حشرات الارض بھی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک آدمی مٹھاس پسند کرتا ہے۔ دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طرف راغب نہیں ہوتا لیکن ہر دو اشخاص میٹھے کو میٹھا اور نمک کو نمک کہتے ہیں۔علم مابعد النفسیات یا مصدر اطلاعات کا علم ایک ایسا علمی دائرہ ہے جس کے اندر بے رنگی پائی جاتی ہے۔ جب اس بے رنگی میں لاشعور رنگ بھر دیتا ہے تو اس کی حیثیت نفسیات کی ہو جاتی ہے اور جب یہ عمل فعال اور متحرک ہو جاتا ہے تو اس کی حیثیت شعوری بن جاتی ہے۔
شعور اس ایجنسی کا نام ہے جو معانی کو مظاہراتی لباس بخشتا ہے۔ لاشعور اس رخ کا نام ہے جو کسی اطلاع کو معنی پہناتا ہے اور ورائے لاشعور ایک ایسا دائرہ ہے جس میں علم کی حیثیت محض علم کی ہوتی ہے یعنی وہ علم جو بحیثیت علم کے صرف علم ہوتا ہے۔ اس میں معانی اور خدوخال سمتیں یا اُبعاد (Dimension) نہیں ہوتے۔ ورائے لاشعور سے گزر کر جب علم شعور میں داخل ہوتا ہے تو لاشعور اپنی دلچسپی اور ماحول سے ملی ہوئی طرز فکر کے مطابق اسے معنی پہنا دیتا ہے۔

67- عنوان : مثال
کتاب : آگہی

بھوک ایک اطلاع ہے جب تک یہ ورائے لاشعور میں موجود ہے محض بھوک ہے لیکن لاشعور میں داخل ہونے کے بعد اس تقاضے کی تکمیل الگ الگ معانی پہنا کر کی جاتی ہے۔

بھوک کی اطلاع شیر اور بکری دونوں میں موجود ہے لیکن بکری اس اطلاع کی تکمیل میں پتے کھاتی ہے اور شیر بھوک کی اطلاع پوری کرنے کے لئے گوشت کھاتا ہے۔

بھوک کا معاملہ دونوں میں قدر مشترک ہے۔ البتہ بھوک کی اطلاع کو الگ الگ معانی پہنانا دونوں کا جداگانہ وصف ہے۔
نوع انسانی میں شروع ہی سے تحقیق و تلاش کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ آدم زاد نے ابتدائے آفرینش سے اپنے اردگرد موجود اشیاء کو سمجھنے اور اس پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہمیشہ طبع آزمائی کرتا رہا کہ

یہ پوری کائنات کیسے بنی؟

کیوں بنی؟

میں خود کیسے وجود میں آیا اور میں فنا کیوں ہو جاتا ہوں؟

اس کوشش میں انسان نے بہت سے مدارج طے کئے

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

64 - عنوان : ملائکہ اعلان کرتے ہیںکتاب : آگہی اہل مدینہ دو دن تفریح کیا کرتے تھے۔رسول اللّٰهﷺ نے دریافت فرمایا۔ ’’یہ دو ...
07/07/2025

64 - عنوان : ملائکہ اعلان کرتے ہیں
کتاب : آگہی

اہل مدینہ دو دن تفریح کیا کرتے تھے۔
رسول اللّٰهﷺ نے دریافت فرمایا۔ ’’یہ دو روز کیا ہیں؟‘‘
اہل مدینہ نے عرض کیا۔
’’یا رسول اللّٰهﷺ! زمانہ جاہلیت کے وقت ہم ان دنوں میں کھیل کود اور تفریح کیا کرتے تھے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا۔
’’اے اہل یثرب اللّٰه تعالیٰ نے تم کو ان دونوں کی بجائے ان سے بہت اعلیٰ و ارفع دن عیدالفطر اور عیدالضحیٰ عطا فرمائے ہیں۔‘‘
اور ارشاد فرمایا۔
’’جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے عید گاہ کے راستے میں انتظار کرتے ہیں اور پکارتے ہیں۔‘‘(حدیث)

’’اے مسلمانوں کے گروہ چلو رب کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے بھلائی کے ساتھ اور اجر عطا فرماتا ہے اور تم کو عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس تم نے قیام کیا اور تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کریم کی اطاعت کی۔ اب تم انعام حاصل کرو اور جب نمازی عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے ہیں تو ملائکہ اعلان کرتے ہیں۔‘‘

’’آگاہ ہو جاؤ بے شک تمہارے رب نے تمہیں اجر عطا فرمایا اور تم آئے اپنے گھر کی طرف کامیاب ہوکر۔‘‘(حدیث)

65- عنوان : بچے اور رسول اللّٰه ﷺ

عیدالفطر کا دن تھا۔ صبح سویرے تمام مسلمان عید کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مسرت و شادمانی کی فضا مدینہ پر چھائی ہوئی تھی۔ عید کی نماز کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا تھا، بوڑھے اور جوان اپنے اچھے اور پاکیزہ لباس میں ملبوس عید گاہ کی طرف جوق در جوق جا رہے تھے۔ بچے اپنے بزرگوں کے ساتھ تھے۔ فضا خوشبو سے معطر تھی اور بچوں کی آوازیں خوشنما روح پرور، فرحت انگیز اور دلکش تھیں عید کی نماز ختم ہوئی۔ لڑکے اچھلتے کودتے شاداں اور فرحاں اپنے اپنے گھروں کی جانب واپس ہونے لگے۔

ہمارے پیارے نبیﷺ نے دیکھا کہ عید گاہ میں ایک طرف بچہ کھڑا ہوا ہے۔ جس نے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور وہ رو رہا ہے۔ نبی کریمﷺ اس لڑکے کے قریب تشریف لے گئے شفقت و محبت سے لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا۔ لڑکے نے رسول اللّٰه ﷺ سے کہا۔ ’’خدا کے واسطے مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘

حضورﷺ نے اس کے بالوں میں شفقت سے انگلیاں پھیریں اور فرمایا:

’’میرے بچے۔۔۔مجھے بتاؤ تمہارے ساتھ ہوا کیا ہے؟‘‘

بچے نے روتے ہوئے کہا۔

’’میری ماں نے دوسری شادی کر لی ہے اور ابا نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ آج سب لڑکے نئے نئے کپڑے پہن کر خوشی خوشی کھیل رہے ہیں اور میرے پاس نہ کھانے کی کوئی چیز ہے اور نہ پہننے کو کپڑے ہیں۔‘‘

لڑکے کی داستان سن کر آپﷺ نے فرمایا کہ

’’اگر میں تمہارا باپ ہو جاؤں اور عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن بن جائیں تو میرے بچے کیا تم خوش ہو جاؤ گے؟‘‘
لڑکے نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا اور آنحضرتﷺ سے لپٹ گیا۔ آپﷺ اس کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔

حضرت عائشہؓ سے فرمایا:

’’عائشہؓ یہ تمہارا بیٹا ہے۔‘‘

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا نے بچے کو کپڑے دیئے اور کہا جاؤ غسل کر کے کپڑے پہن لو اور کھانا کھلانے کے بعد فرمایا۔

’’بیٹے! اب تم باہر جاؤ اور بچوں کے ساتھ کھیلو، مگر دیکھو تھوڑی دیر کے بعد اپنے گھر واپس آ جانا۔‘‘

66 - عنوان : افکار کی دنیا

دنیا میں رائج علوم کو ہم تین دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

1۔ طبعی علوم
2۔ نفسیاتی علوم
3۔ مابعد النفسیاتی علوم

پہلے دو علوم کے بارے میں تفصیلات بیان کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ہم مابعد النفسیات کے علوم کی تشریح بیان کرتے ہیں۔
آدمی تین دائروں سے مرکب ہے۔ شعور، لاشعور، ورائے لاشعور۔ یہ تینوں دائرے دراصل تین علوم ہیں۔
جس وقت ہم مظاہراتی خدوخال میں داخل ہوتے ہیں یعنی ہمیں کسی چیز کا احساس ہوتا ہے ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں یا ہمارے اند رخواہشات اور تقاضے پیدا ہوتے ہیں تو ہم تین دائروں میں سفر کرتے ہیں۔

پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں تصوراتی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصوراتی نقش و نگار، مظہر کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔

اطلاعات کے علم کو ہم ایک دوسرے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔

کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اطلاعات تمام موجودات میں قدر مشترک رکھتی ہیں۔

اس کی مثال یہ ہے کہ پانی کو آدمی، حیوانات، نباتات و جمادات پانی سمجھتے ہیں اور پانی سے اسی طرح استفادہ کرتے ہیں جس طرح آدمی کرتا ہے۔ جس طرح پانی کو پانی سمجھا جاتا ہے اسی طرح آگ ہر مخلوق کے لئے آگ ہے۔ آدمی اگر آگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو بکری، شیر، کبوتر اور حشرات الارض بھی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک آدمی مٹھاس پسند کرتا ہے۔ دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طرف راغب نہیں ہوتا لیکن ہر دو اشخاص میٹھے کو میٹھا اور نمک کو نمک کہتے ہیں۔علم مابعد النفسیات یا مصدر اطلاعات کا علم ایک ایسا علمی دائرہ ہے جس کے اندر بے رنگی پائی جاتی ہے۔ جب اس بے رنگی میں لاشعور رنگ بھر دیتا ہے تو اس کی حیثیت نفسیات کی ہو جاتی ہے اور جب یہ عمل فعال اور متحرک ہو جاتا ہے تو اس کی حیثیت شعوری بن جاتی ہے۔
شعور اس ایجنسی کا نام ہے جو معانی کو مظاہراتی لباس بخشتا ہے۔ لاشعور اس رخ کا نام ہے جو کسی اطلاع کو معنی پہناتا ہے اور ورائے لاشعور ایک ایسا دائرہ ہے جس میں علم کی حیثیت محض علم کی ہوتی ہے یعنی وہ علم جو بحیثیت علم کے صرف علم ہوتا ہے۔ اس میں معانی اور خدوخال سمتیں یا اُبعاد (Dimension) نہیں ہوتے۔ ورائے لاشعور سے گزر کر جب علم شعور میں داخل ہوتا ہے تو لاشعور اپنی دلچسپی اور ماحول سے ملی ہوئی طرز فکر کے مطابق اسے معنی پہنا دیتا ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

[7/4, 11:13 AM] Rizwan Ali Azm: https://maps.app.goo.gl/pikb3wLPPC4XZZbr8?g_st=aw[7/4, 11:14 AM] Rizwan Ali Azm: السلام ...
04/07/2025

[7/4, 11:13 AM] Rizwan Ali Azm: https://maps.app.goo.gl/pikb3wLPPC4XZZbr8?g_st=aw
[7/4, 11:14 AM] Rizwan Ali Azm: السلام علیکم
یہ مراقبہ ہال گوجرخان کا گوگل میپ پہ لوکیشن لنک ہے اگر کسی بھائی کو مراقبہ ہال پہنچنے میں دقت پیش آئے تو آپ اس کی مدد سے آسانی سے مراقبہ ہال گوجرخان پہنچ سکتے ہیں

Find local businesses, view maps and get driving directions in Google Maps.

62- عنوان : دین فطرت کتاب : آگہیاسلام دین فطرت ہے۔نبی مکرمﷺ نے اس فطری خوشی کے اظہار کے لئے ایسے ضابطے بنائے ہیں جن میں ...
02/07/2025

62- عنوان : دین فطرت
کتاب : آگہی

اسلام دین فطرت ہے۔نبی مکرمﷺ نے اس فطری خوشی کے اظہار کے لئے ایسے ضابطے بنائے ہیں جن میں غیر فطری اعمال و حرکات نہیں ہیں بلکہ متانت اور برد باری ہے۔ اسلام نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح عید کی خوشی کے لئے بھی میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔

اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دوسری اقوام کی طرح مسلمان غیر اخلاقی اور غیر فطری حرکات کے مرتکب ہو کر عید کے بنیادی مقاصد کو نظر انداز کر دیں۔

اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کا مطلب ہے اعتدال۔ اعتدال میں عبادت اور عمل دونوں کو مساوی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی طرز زندگی جہاں روحانی خوشی کا سرچشمہ ہے وہاں کردار اور افعال کی تعمیر کا بھی وسیلہ ہے۔

قرآن و سنت کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد میں آدمیت کا احترام پیدا ہو جائے اور ہر مسلمان بحیثیت مسلمان اپنے بھائی کا سہارا بنے۔ ہر مسلمان ایک قوم کی حیثیت میں بلا تخصیص مذہب و ملت اس اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرے جو ہمارے نبی برحق حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے اگر کسی کو فائدہ نہیں پہنچے تو کسی کو نقصان بھی نہ پہنچے۔‘‘

رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہمیں یہی درس دیتا ہے۔

63- عنوان : عید
کتاب : آگہی

عید خوشیوں کا گہوارہ ہے۔ عید کے روز اُجلے کپڑے پہننا خوشبو اور عطر لگانا، فطرہ دینا، دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر لذیذ کھانے کھانا اور اپنے مرحوم اعزا و اقرباء کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھنا حضور اکرمﷺ کی سنت ہے۔

اس کا فلسفہ یہ ہے کہ مسلمان خوشی و مسرت اور فخر و انبساط کے موقعوں پر بھی ماضی اور مستقبل سے وابستہ رہے۔ اسے یہ یاد رہے کہ یہاں سے جانا ہے اور ماضی میں کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہے۔ اس کے ذہن میں دوسروں کے لئے برادرانہ جذبات ہوں وہ مسکینوں، محتاجوں، بے کسوں، یتیموں، بیواؤں اور معذوروں کی طرح دست گیری کرے کہ انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہو۔ اسلامی معاشرے کا منشاء ہی یہ ہے کہ قابل رحم افراد اور ضعیف طبقہ کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ وہ جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہاں کے لوگ ان کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

عیدالفطر جہاں عطر بیز ہواؤں سے مہکتا ہوا خوشی کا ایک دن ہے وہاں قوم کے ہر فرد کے لئے ایک آزمائش اور امتحان بھی ہے۔ ہم رمضان المبارک کا پورا مہینہ اتحاد و تنظیم اور یقین محکم کے پروگرام پر عمل کرکے اعلیٰ اخلاق اور روحانی تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں اور جب یہ تعلیم و تربیت ہمارے اوپر غیب و شہود کی دنیا کو روشن کرتی ہے تو ہم انفرادی اور اجتماعی مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
اسلام کا یہ تہوار جسے عید کہا جاتا ہے ایثار، قربانی، یتیموں اور مسکینوں کی دلجوئی، اجتماعیت، صلۂ رحمی، آپس میں الفت و یگانگت، احترام انسانیت اور عظمت دین کا آئینہ دار ہے۔ عید کے دن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ مسلمان صبح بیدار ہونے کے بعد ہی ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جب کہ عید اللّٰه تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اقرار ہے۔ اسلام سے پہلے عرب اپنی تقریبات بازاروں میں منعقد کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس قوم کے بتوں کو توڑا تھا۔ وہ ہر سال ایک مقررہ دن شہر سے باہر چلے جاتے تھے۔ آج کی دنیا میں بھی اعلیٰ تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی اقوام اپنے تہوار پارکوں، کلبوں، سڑکوں اور عیش و نشاط کی دیگر مخصوص جگہوں پر مناتی ہیں لیکن مسلمان اس بات کا پابند ہے کہ عید کی پرمسرت گھڑیوں کی ابتداء اور انتہاء عید گاہوں اور مساجد میں جمع ہو کر کرے اور اللّٰه کے حضور سجدہ ریز ہوں۔

اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

’’روزہ میرے لئے ہے‘‘۔ (حدیث قدسی)

اس جملے کے بہت سے معنی نکلتے ہیں۔ اللّٰه تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ روزہ میرے لئے ہے۔ روزہ اللّٰه اور بندے کے درمیان معاہدہ ہے۔ جس پر بندہ عمل کرتا ہے۔ فکر طلب یہ بات ہے کہ روزے میں دکھاوا نہیں ہوتا۔

اب ذرا ان اصولوں کو سمجھ لیجئے جن اصولوں پر روزے کی بنیاد قائم ہے اور جن اصولوں سے روزے کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ انسان تین وقفوں میں زندگی گزارتا ہے۔

۱۔ حصول معاش میں آٹھ گھنٹے۔

۲۔ حقوق اللّٰه، حقوق العباد کو پورا کرنے میں آٹھ گھنٹے۔

۳۔ آرام کرنے اور زندگی کے لئے توانائی حاصل کرنے کے لئے آٹھ گھنٹے۔

ان حصوں میں سے ایک حصے میں کھانا پینا، کاروبار معاش اور زندگی کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان سولہ گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے میں ’’من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ‘‘ (جس نے خود کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا) کے زیر اثر آتے ہیں۔ یہ وہ عرصہ ہے جس عرصے میں انسان غور و فکر کرتا ہے کہ

میں کون ہوں؟

کہاں سے آیا ہوں؟

مجھے کس نے پیدا کیا ہے؟

کیوں پیدا کیا ہے اور میری تخلیق کا منشاء کیا ہے؟

اس طرح انسان کو آٹھ گھنٹے باطن کا تزکیہ کرنے کے لئے مل جاتے ہیں اور اسے اللّٰه تعالیٰ توفیق عطا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کو پہچان لے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ

’’ہم تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘

(سورۃ ق۔ آیت 16)

انسان کے پاس آٹھ گھنٹے سونے آرام کرنے، صحت مند اور بیمار رہنے کے لئے باقی رہتے ہیں۔

عام زندگی کے برعکس رمضان المبارک کے مہینے میں غور و فکر کا وقفہ بڑھ جاتا ہے۔ نیند کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ غذا کم ہو جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں اللّٰه کے لئے بھوکے پیاسے رہنے سے اور عبادت سے دماغ میں آہستہ آہستہ بیس دن میں اتنی پاکیزگی آ جاتی ہے کہ اندرونی احوال کا دل پر عکس پڑنے لگتا ہے۔

آخری میں تیسرا عشرہ آتا ہے اس عشرے میں ہر رات زیادہ سے زیادہ جاگنا اور اللّٰه تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا فضول باتوں اور خرافات سے محفوظ رہنا دل کو جلا بخشتا ہے اور یہ تمام اعمال انسان کو اتنا نورانی کر دیتے ہیں کہ وہ خود کو لطیف محسوس کرتا ہے اور جس نورانی کیفیت سے وہ عید کا چاند دیکھتا ہے یہ کیفیت اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔

وہ اسی خوش کن کیفیت میں صبح بیدار ہوتا ہے، نہاتا ہے، کپڑے بدلتا ہے، خوشبو لگاتا ہے۔ شیر خرمہ کھاتا ہے اور عید گاہ کی طرف جاتا ہے تا کہ اس نورانی کیفیت کے شکرانے میں دو نفل ادا کرے۔

نمازی اللّٰه تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ جب ضمیر کے مطابق عمل کرنے والا بندہ اللّٰه تعالیٰ کے حضور جھک جاتا ہے تو وہ اس حالت میں خود کو اللّٰه کے قریب محسوس کرتا ہے۔ یہ عمل انفرادی طور پر نہیں اجتماعی طور پر ہوتا ہے۔ عید کی نماز ادا کرتے وقت تمام افراد اجتماعی طور پر خود کو ایک فرد محسوس کرتے ہیں اور یہی اہم بات ہے کہ پورا عالم اسلام اجتماعی طور پر اللّٰه سے قریب ہو جاتا ہے۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

60- عنوان : زندگی کا تجزیہکتاب : آگہیتصوف کے راستے پر چلنے والے لوگوں کے لئے عظیمی بہن بھائیوں کے لئے اور وہ لوگ جو خود ...
27/06/2025

60- عنوان : زندگی کا تجزیہ
کتاب : آگہی

تصوف کے راستے پر چلنے والے لوگوں کے لئے عظیمی بہن بھائیوں کے لئے اور وہ لوگ جو خود شناسی کے ساتھ ساتھ خدا شناس ہونا چاہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اپنی زندگی کا تجزیہ کریں۔ اپنے اندر تلاش کریں گے تو علم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے علاوہ یہاں کچھ نہیں ہے۔

جب اللّٰه تعالیٰ کا چاہنا ہی زندگی ہے تو اپنی پوری زندگی اللّٰه تعالیٰ کے سپرد کر دینا روحانیت ہے۔ اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ خود کو وابستہ کرنا اللہ تعالیٰ کا عرفان ہے۔ اللّٰه تعالیٰ کی قدرت پر غور کرنا، اللّٰه تعالیٰ کے علوم سیکھنا اللّٰه اللہ تعالیٰ کے اوصاف کو تلاش کرنا، اپنے اندر، زمین کے اوپر، زمین کے اندر، آسمانوں میں، کہکشانی نظاموں میں تفکر کرنا، روحانیت ہے۔

61- عنوان: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ
کتاب : آگہی

جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور انسان کی سماجی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں روئے زمین پر بسنے والی ہر قوم اور ہر قبیلے میں مختلف رسم و رواج نظر آتے ہیں۔ جو کسی قوم کے تشخص کا اظہار ہیں۔ رسوم و رواج کی حیثیت گو کہ ہر قوم میں جداگانہ ہے لیکن ان کی موجودگی انسانی معاشرت کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ ان رسوم و رواج میں تہواروں کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے۔
زمین پر آباد ہر قبیلہ، ہر قوم کسی نہ کسی نام سے جشن یا تہوار مناتی ہے اور یہ اس قوم کے قومی تشخص کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اس آئینے میں قومی شعار کا چہرہ صاف اور واضح نظر آتا ہے۔ قوموں میں تہوار منانے کے طریقے جداگانہ ہیں۔ بعض قومیں یہ تہوار صرف کھیل کود، راگ رنگ اور سیر و تفریح کے ذریعے مناتی ہیں۔

ان تقاریب کے پس منظر میں قوموں کو ان کے اسلاف سے جو روایات یا اخلاق منتقل ہوا ہے اس کی نمایاں طور پر منظر کشی ہوتی ہے۔ تہوار ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر کسی قوم کی تہذیب کو پرکھا جا سکتا ہے۔

یہ مسلمہ امر ہے کہ قوم کی اخلاقی اور روحانی طرز فکر جتنی بلند یا پست ہوتی ہے اس کا اظہار ماحول میں رائج روایات اور طریقوں سے ہوتا ہے۔ ان روایا ت اور طریقوں کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ تہوار منانے میں اختیار کردہ طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طریقے اعلیٰ مقاصد اور بنیادی اصولوں سے اخذ شدہ ہوتے ہیں جن سے اس قوم کی بقا اور قیام وابستہ ہے۔

ہر قوم اپنے ماضی پر زندہ ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس ماضی نہیں ہے تو اس کی حیثیت قوم کی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بھی ایک ماضی ہے اور اس ماضی کو یاد رکھنے اور ماضی کے تاثرات کو آنے والی نسلوں میں پختہ کرنے کے لئے مسلمان دو تہوار مناتے ہیں۔
پہلا تہوار عیدالفطر ہے جس کی نورانیت اور پاکیزگی اس امر پر قائم ہے کہ یہ تہوار اس وقت منایا جاتا ہے جب من حیث القوم ہر فرد اپنا تزکیۂ نفس کر کے پاک صاف اور مصفیٰ و مجلیٰ ہو جاتا ہے۔ تیس دن اور تیس رات وقت کی پابندی، غذا اور نیند میں کمی سحر و افطار میں اجتماعیت، عمل میں ہم آہنگی، ایسی یکسوئی پیدا کر دیتی ہے کہ جس یکسوئی کے ذریعے انسان اپنے نفس سے واقف ہو جاتا ہے۔ یہ واقفیت آدمی کے اندر بسنے والے انسان کو متحرک کر دیتی ہے۔

جب تزکیۂ نفس کے بعد انسان بیدار ہو جاتا ہے تو صلاحیتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اضافہ دراصل ذہن کی رفتار ہے۔ آدمی کے اندر بسنے والے انسان کی رفتار پرواز عام آدمی نسبت ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ تیس روزے رکھنے کے بعد آدمی کے اندر کاانسان انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف فرشتوں کو دیکھتا ہے بلکہ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یہی وہ عید (خوشی) ہے جو انسان کے لئے قلبی سکون کا باعث بنتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو قوم کی فکر و نظر میں ایسی تبدیلی لے آتی ہے جو بندے کو اللّٰه سے قریب کر دیتی ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے ایک تربیتی پروگرام ہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان کو اطاعت خداوندی کا خوگر بنایا جاتا ہے۔

نفسیات کا مسلمہ اصول ہے کہ ذہنی مرکزیت سے قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہن کو کسی ایک نقطہ پر مرکوز کر دینے سے روشنیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب یہ روشنیاں ذخیرہ ہو جاتی ہیں تو آدمی مادی پستیوں سے نکل کر روحانی رفعتوں کو چھونے لگتا ہے۔

رمضان المبارک کے بیس روزوں کے بعد ایک رات ایسی آتی ہے جس کے بارے میں اللّٰه تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں اور یہ پوری رات اللّٰه کی طرف سے خیر اور سلامتی کی رات ہے۔

اللّٰه تعالیٰ کے ہر فرمان میں حکمت مخفی ہے۔

شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک رات کی عبادت و ریاضت ساٹھ ہزار دن اور رات کی عبادت اور ریاضت سے افضل ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی مقام ہے:

’’شب قدر میں فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ اپنے رب کے حکم سے سلامتی کے ساتھ اترتے ہیں اور جو بندے شب قدر میں اپنے خالق کی یاد اور محبت میں اور اس کی قربت کے حصول کیلئے جاگتے ہیں۔ فرشتے اور حضرت جبرائیل ؑ ان سعید بندوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی سعادت اور خوشی ہے کہ اس پر جتنا شکر کیا جائے اور جس قدر خوشی کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ عید دراصل اسی سعادت اور اسی نعمت کا شکر ادا کرنے کا نام ہے۔‘‘

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

59- عنوان : پانچ کھرب بائیس کروڑ کتاب : آگہیہم اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق کوئ...
06/06/2025

59- عنوان : پانچ کھرب بائیس کروڑ
کتاب : آگہی

ہم اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق کوئی آدمی اپنی زندگی کے کسی ایک عمل میں خود مختار نہیں ہے۔ اس لئے کہ خیال آئے گا تو ہم کام کریں گے۔ وہ خیال شیطانی طرز فکر سے متعلق ہو یا رحمانی طرز فکر سے متعلق ہو۔ اس محفل میں ماشاء اللّٰه سب پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلسل 35 سال کی جدوجہد اور کوشش سے اب ذہن اتنے کھل گئے ہیں کہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔

70 سال کی زندگی کا اگر حساب لگایا جائے تو گھنٹے، منٹ اور لمحات کتنے بنتے ہیں؟ وہ ایک کھرب تیس کروڑ سے زیادہ ہیں اور خیالات کی آمد تقریباً پانچ کھرب بائیس کروڑ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان نے ستر سال میں کھربوں عمل کئے۔ کھربوں فیصلے لئے۔ آپ کوئی ایک عمل ایسا بتائیں جو خیال آئے بغیر آپ نے کیا ہو۔ کوئی ایک بات بھی آپ بیان نہیں کر سکتے۔ لاریب انسان مجبور ہے۔ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اسے Feedکر دیا جاتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے زندگی کے دو رخ بتائے ہیں۔ ایک Independentہونا یعنی اپنی انا کے خ*ل میں بند ہو کر زندگی گزارنا جس میں اقتدار کی خواہش، اپنے آپ کو منوانا، ضد کرنا، بحث کرنا، فساد برپا کرنا شامل ہے۔

اللّٰه تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ دیئے ہیں۔ ہم ہاتھ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ خیال آتا ہے۔ خیال کے اندر ایک میکانکی حرکت ہوتی ہے۔ ہر مخلوق کے اندر ایک میکنزم (Mechanism) کام کر رہا ہے۔ انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا تصور منتقل کر دیا ہے۔

اچھائی برائی کا مطلب ہے کہ اس عمل میں جو عمل آپ آسمان سے آئے ہوئے خیال کے تحت کر رہے ہیں، آپ اس میں کیا معنی پہناتے ہیں۔ ایک آدمی اصلاح احوال کے لئے کسی آدمی کے تھپڑ مارتا ہے۔ یہ خیر ہے۔ دوسرا آدمی نفرت و حقارت کے تحت تھپڑ مارتا ہے۔ یہ شر ہے۔ تھپڑ مارنے کا عمل ایک ہے لیکن فیصلہ نیت پر ہوتا ہے۔

زندگی حرکت ہے۔ حرکت کے ساتھ آدمی چل پھر رہا ہے، دوڑ رہا ہے، کاروبار کر رہا ہے، شادی کر رہا ہے۔ نئی نئی ایجادات کر رہا ہے لیکن ابھی تک یہ بات طے نہیں ہوئی کہ زندگی کیا ہے؟

زندگی صرف اللّٰه تعالیٰ کا چاہنا ہے کہ جب تک اللّٰه تعالیٰ میرے لئے آپ کے لئے زیر کے لئے بکر کے لئے چاہتے ہیں کہ جسم میں حرکت رہے، ہم سب زندہ ہیں۔ اور جب اللّٰه تعالیٰ نہیں چاہتے کہ ہم زندہ رہیں، ہمارے اندر کا عمل ختم ہو جاتا ہے، کتنی دنیا پیدا ہوئی اور مر گئی۔ جس قدر دنیا موجود ہے یہ بھی مر جائے گی۔ بعد میں کتنی دنیا پیدا ہو گی وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

58- عنوان : ذات کی نفیکتاب : آگہیجن لوگوں کے اندر الٰہی صفات منتقل ہو جاتی ہیں اللّٰه تعالیٰ کی طرز فکر ان کے اندر مستحک...
28/05/2025

58- عنوان : ذات کی نفی
کتاب : آگہی

جن لوگوں کے اندر الٰہی صفات منتقل ہو جاتی ہیں اللّٰه تعالیٰ کی طرز فکر ان کے اندر مستحکم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ذات کی نفی کر دیتے ہیں۔

’’وہ کہتے ہیں ہم نے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے کہ فی الحقیقت اللّٰه تعالیٰ کے سوا کوئی شئے مستقل نہیں ہے ہر چیز اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر خیال آ رہا ہے تو وہ بھی اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بھوک لگ رہی ہے تو وہ بھی اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر پیاس لگ رہی ہے تو پیاس کا تقاضا بھی اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انسان کے اندر حرکت اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وریدوں شریانوں میں اگر خون دور کر رہا ہے تو وہ بھی اللّٰه تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ اگر وریدوں میں شریانوں میں خون بہنا بند ہو جائے تو وہ بھی اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ دنیا کی کوئی مشین، کوئی طاقت مردہ جسم کی وریدوں میں شریانوں میں خون نہیں دوڑا سکتی۔ انسان کی پیدائش اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انسان کی موت اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘

انسان کو یہ علم نہیں ہے کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے؟ انسان یہ بھی نہیں جانتا کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دھکیلتی ہے۔

وہ کیسے چلتا ہے، حرکت کرتا ہے، سوچتا ہے، کہاں سے سوچتا ہے؟ سوچنا کیا ہے؟ کہاں سے اسے فیڈنگ Feedingمل رہی ہے؟ کون سی برقی رو ہے جس برقی رو کی بنیاد پر وہ دوڑ رہا ہے، چل رہا ہے، سو رہا ہے، جاگ رہا ہے۔ شادی کر رہا ہے، بچے پیدا کر رہا ہے اور جب برقی رو رشتہ توڑ لیتی ہے تو وہ فنائیت کے درجہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر نہ بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے، نہ اس کے اندر کوئی تقاضا ابھرتا ہے۔

کوئی انسان مرنا تو بعد کی بات ہے، مرنے کا تصور بھی پسند نہیں کرتا، کوئی انسان بیمار ہونا نہیں چاہتا۔ اگر انسان کا بس چلتا وہ کبھی لاغر نہ ہوتا۔ بوڑھا نہ ہوتا۔ کسی انسان کا بچہ مرتا اور نہ کسی انسان کی ماں کا انتقال ہوتا۔ کوئی غریب نہیں ہوتا، کوئی معذور نہیں ہوتا، کوئی نابینا نہیں ہوتا، مفلوک الحال نہیں ہوتا۔ پیدائش پر اختیار ہوتا تو ہر شخص بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا۔

کتاب : آگہی
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

19/05/2025

Address

Brasta Jhandi , Morr Jhamath Road , Bhoke Imam Bakhsh Tehsil Gujar Khan
Gujar Khan

Telephone

+923350562292

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muraqba Hall Gujar Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share