
15/07/2025
The Kingdom of Seharan
Chapter 1: The Hidden Prince
افق کے پار، پہاڑوں کی سنہری چوٹیوں کے پیچھے، دریاؤں، جھیلوں، اور اسرار سے بھرے جنگلات کے درمیان، سلطنتِ سحران پھیلی ہوئی تھی—ایک ایسی سرزمین جہاں جادو، روایت، اور تقدیر ایک دوسرے سے باندھے گئے تھے۔ سحران صرف ایک سلطنت نہ تھی، بلکہ یہ ایک خواب تھا جو وقت کی گہرائیوں میں زندہ تھا۔ یہاں کی فضا میں بھی جادو کی ہلکی سی مہک شامل تھی، جیسے ہوا خود کسی قدیم ورد کو دہرا رہی ہو۔
داریآباد، سحران کا مرکزی شہر، اس سلطنت کا دل تھا۔ چوڑے پتھریلے راستے، بلند و بالا مینار، اور رنگین بازار داریآباد کی شان تھے۔ لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف تھے، مگر ہر ایک کی آنکھوں میں کسی نہ کسی راز کا عکس چھپا ہوتا۔ بعض نے جادو سیکھا تھا، بعض نے جنگ، اور بعض خاموشی سے تقدیر کی موہوم ڈوروں سے بندھے ہوئے تھے۔
ان ہی گلیوں کے ایک کونے میں، ایک بیس سالہ نوجوان، ہارون، اپنی سادہ زندگی گزار رہا تھا۔ اس کا لباس عام کسانوں جیسا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو کسی عظیم مقصد کی جھلک دیتی ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اس سلطنت کی تقدیر میں مرکزی کردار ادا کرنے والا ہے۔ اس کے دل میں ہمیشہ ایک خلا سا رہا، ایک انجانی طلب، جیسے اس کی زندگی کی کہانی ابھی پوری نہیں ہوئی۔
ہارون بچپن سے ہی یتیم تھا۔ گاؤں کے بزرگوں نے بتایا تھا کہ اس کے والدین ایک حادثے میں مارے گئے تھے، مگر ہارون کے دل نے اس کہانی کو کبھی قبول نہیں کیا۔ ہر بار جب وہ آسمان پر جھلملاتے ستاروں کو دیکھتا، اسے یوں لگتا جیسے کوئی پکار رہا ہو، کوئی جو بہت دور ہے مگر اسے جانتا ہے۔
داریآباد کے باہر، ایک پرانا کھنڈر تھا جسے "چراغی قلعہ" کہا جاتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہاں جن بھوتوں کا بسیرا ہے، مگر ہارون اکثر وہاں جایا کرتا۔ اس کھنڈر میں وہ عجیب سکون محسوس کرتا، جیسے پتھروں کی دراڑوں میں اس کی کہانی لکھی ہو۔
ایک دن جب شام کے سائے داریآباد پر چھا رہے تھے، ہارون نے کھنڈر کے اندر ایک روشنی سی دیکھی—ایک مدھم نیلا سا نور، جو زمین سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ حیران ہو کر وہ آگے بڑھا، اور ایک پرانے پتھر کو ہٹایا۔ نیچے ایک تہہ خانہ تھا، جس میں زینے نیچے جا رہے تھے۔ ہارون نے سانس کھینچی اور نیچے اتر گیا۔
زینوں کے اختتام پر ایک گول کمرہ تھا جس کی دیواروں پر قدیم رسمیں کھدی ہوئی تھیں۔ درمیان میں ایک پتھریلا تخت تھا جس پر ایک عورت بیٹھی تھی—سفید چغہ پہنے، چہرے پر روشنی جیسی نرمی، اور آنکھوں میں علم کی گہرائی۔ "تھایا،" اس نے کہا، "تم آخر کار آ گئے۔"
"تم جانتی ہو میرا نام؟" ہارون نے ہکلا کر پوچھا۔
تھایا نے مسکرا کر جواب دیا، "میں تمہارے آنے کا انتظار برسوں سے کر رہی ہوں۔ تم سحران کے کھوئے ہوئے ولی عہد ہو۔ تمہارے خون میں وہ طاقت ہے جو وقت کو مڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔"
ہارون کا سر چکرا گیا۔ "یہ سب کیا ہے؟ میں تو بس ایک عام لڑکا ہوں۔"
"نہیں،" تھایا نے نرمی سے کہا، "تم شہزادے ہو، شاہ البرک کے بیٹے۔ تمہیں بچپن میں ہی دشمنوں سے بچانے کے لیے عام لوگوں کے درمیان چھپا دیا گیا۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ تم اپنے مقدر کو پہچانو۔"
اس لمحے، ہارون کے دل میں سب کچھ بدل گیا۔ جیسے کسی نے اس کی روح کو جھنجھوڑ دیا ہو۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی زندگی کی خلا کیا تھی—اس کی اصل شناخت، اس کا کھویا ہوا ماضی، اور ایک ایسی سلطنت جسے وہ جانتا تک نہ تھا، مگر جو اس کی ذمہ داری تھی۔
تھایا نے اسے قدیم کتابیں دکھائیں، جن میں سحران کی تاریخ، رُونز (جادوئی علامات)، اور شاہی نسب کا ذکر تھا۔ ہر لفظ اس کے اندر اترتا جا رہا تھا۔
"مگر کیوں؟" ہارون نے پوچھا۔ "کیوں مجھے؟"
"کیونکہ صرف تم ہی ہو جو سحران کو تباہی سے بچا سکتا ہے،" تھایا نے کہا۔ "اندھیرے کا سایہ بڑھ رہا ہے، اور تم وہ روشنی ہو جسے تقدیر نے چنا ہے۔"
کمرے کے ایک کونے میں رکھا ہوا قدیم آئنہ جگمگانے لگا۔ اس میں ہارون نے خود کو دیکھا—مگر وہ جو عکس تھا، وہ بادشاہی لباس میں، کندھے پر تلوار، اور آنکھوں میں طاقت اور سکون کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ خود سے نظریں نہ ہٹا سکا۔
اسی لمحے، زمین ہلنے لگی۔ تھایا چونک گئی۔ "انہیں پتہ چل گیا ہے کہ تم جاگ چکے ہو۔ ہمیں فوراً یہاں سے نکلنا ہوگا۔"
ہارون نے آخری بار اپنے عکس کو دیکھا، اور تھایا کے ساتھ باہر کی طرف دوڑ پڑا۔ زینے لرز رہے تھے، دیواریں گرنے کو تھیں۔ وہ دونوں بمشکل کھنڈر سے باہر نکلے ہی تھے کہ پیچھے کا دروازہ دھڑام سے بند ہو گیا۔
"یہ تو بس آغاز ہے،" تھایا نے سانس لیتے ہوئے کہا۔ "اب تمہیں اپنا سفر شروع کرنا ہوگا۔"
داریآباد اب ویسا نہ رہا تھا جیسا صبح تھا۔ ہارون کی نگاہ میں ہر چیز نئی لگ رہی تھی۔ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ ایک معمولی لڑکا نہیں، بلکہ ایک ایسا وارث ہے جس پر ایک پوری سلطنت کا انحصار ہے۔
چاندنی رات میں، جب سب سو رہے تھے، ہارون جاگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھے، مگر دل میں ایک نئی روشنی جاگ چکی تھی۔ اب وہ اپنے ماضی کی طرف نہیں، اپنے مقدر کی طرف دیکھ رہا تھا۔
یہ صرف آغاز تھا۔رات کا سناٹا داریآباد کی گلیوں پر چھایا ہوا تھا۔ ہر گلی، ہر دیوار، ہر سایہ، جیسے کوئی پرانا راز چھپا رہا ہو۔ ہارون، جو ابھی ابھی اپنی اصل شناخت سے آشنا ہوا تھا، اپنے کمرے میں بیٹھا، آسمان کی طرف تکتا رہا۔ چاندنی رات اس کے دل کی الجھنوں سے کوئی میل نہیں کھاتی تھی۔ تھایا کی باتیں، کھنڈر کا تہہ خانہ، قدیم آئنہ، اور سب سے بڑھ کر—یہ حقیقت کہ وہ شاہ البرک کا بیٹا ہے—سب کچھ اس کے لیے ایک خواب سا لگ رہا تھا۔
"کیا واقعی میں اس قابل ہوں؟" اس نے زیر لب کہا۔
اگلے دن، تھایا اسے داریآباد کے کنارے پر واقع ایک پرانے کتب خانے میں لے گئی۔ وہاں گرد آلود کتابیں، جھاڑیوں سے چھپی الماریاں، اور بوسیدہ تختیاں تھیں، مگر ان سب میں چھپی تھی سلطنتِ سحران کی تاریخ۔
"یہاں تم سیکھو گے،" تھایا نے کہا، "نہ صرف اپنی طاقت، بلکہ اپنے لوگوں کی کہانی۔"
ہارون نے ایک کتاب اٹھائی، اس کے صفحے پر ایک لفظ چمک رہا تھا: "نورالفجر۔"
"یہ کیا ہے؟"
تھایا مسکرائی، "یہ وہ جادو ہے جو صرف شاہی خون میں بہتا ہے۔ تم میں ہے، ہارون۔ لیکن اسے جگانے کے لیے قربانی دینی ہوگی۔"
کتب خانے میں کئی دن گزر گئے۔ ہارون نے علومِ خفیہ، قدیم زبانیں، اور جادو کے اصول سیکھے۔ تھایا نے اسے سحرانی رُونز (جادوئی علامات) لکھنا سکھایا۔ ہر علامت کے پیچھے ایک تاریخ، ایک جذبہ، اور ایک خطرہ چھپا تھا۔
ایک دن جب ہارون نے رُونز کی ایک زنجیر مکمل کی، ایک ہلکی سی روشنی اس کے ہاتھ سے نکلی اور فضا میں تحلیل ہو گئی۔ وہ حیران تھا۔ تھایا نے کہا، "یہ تمہارا پہلا رابطہ تھا نورالفجر سے۔ اب یہ تمہارا ساتھی ہے۔"
مگر سحر کا علم اکیلا نہ آیا۔ ایک رات، جب وہ اکیلا مراقبہ کر رہا تھا، اسے ایک سایہ دکھائی دیا۔ ایک لمبا، کالی چادر میں لپٹا ہوا شخص، جس کی آنکھوں سے سیاہ دھواں نکل رہا تھا۔
"تو تو جاگ چکا ہے، وارث،" اس نے سرگوشی کی۔ "مگر ہر روشنی کا سایہ ہوتا ہے۔ کیا تم تیار ہو؟"
ہارون نے رُونز کا ورد کیا، مگر سایہ ہنس پڑا۔ "یہ تو ابھی شروعات ہے۔" اور وہ غائب ہو گیا۔
تھایا نے جب یہ سنا، تو اس کی آنکھوں میں پریشانی آ گئی۔ "یہ سایہ 'ظلان' کا قاصد تھا۔ اندھیرے کا شہزادہ۔ اگر وہ تمہیں دیکھ چکا ہے، تو وہ تمہیں ختم کرنے آئے گا۔"
ہارون نے کہا، "میں نہیں ڈرتا۔"
تھایا نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، "خوف بہادری کو پیدا کرتا ہے۔ مگر بے خوفی اکثر نادانی سے جنم لیتی ہے۔ ہوشیار رہو۔"
اگلے دن، تھایا نے اسے قلعہ دار کی پہاڑیوں پر لے جایا۔ وہاں قدیم مجسمے، ویران گلیاں، اور چٹانوں میں کھدی ہوئی علامتیں تھیں۔ "یہ تمہارے باپ کا قلعہ تھا، جہاں وہ اپنے مشیروں کے ساتھ مل کر سلطنت چلاتے تھے،" تھایا نے بتایا۔
وہاں ایک دروازہ تھا جو بند تھا، مگر اس پر وہی رُونز نقش تھے جو ہارون نے کتابوں میں پڑھے تھے۔ اس نے ایک ایک کر کے وہی رُونز پڑھنا شروع کیے۔ اچانک دروازہ ہلنے لگا اور آہستہ آہستہ کھل گیا۔
اندر ایک بڑا ہال تھا، جس کے بیچ میں ایک تخت تھا—شاہ البرک کا۔ تخت کے سامنے ایک ہالہ سا نمودار ہوا، اور اس میں شاہ البرک کی شبیہ نظر آئی۔ "میرے بیٹے، اگر تم یہ سن رہے ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ تم بیدار ہو چکے ہو۔ سحران کو تمہاری ضرورت ہے۔ تمہیں اپنی روشنی کو بچانا ہوگا، ورنہ اندھیرا سب کچھ نگل جائے گا۔"
ہارون کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے پہلی بار اپنے باپ کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ صرف ایک پیغام نہ تھا، وہ ایک وعدہ تھا۔
جب وہ قلعہ سے باہر نکلا، سورج غروب ہو رہا تھا۔ آسمان سرخ اور سنہری رنگوں میں لپٹا ہوا تھا، جیسے قدرت خود اعلان کر رہی ہو کہ کچھ بدل رہا ہے۔ ہارون نے آسمان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں کہا، "میں تیار ہوں۔"
اس رات، داریآباد کے باہر کی فضا میں ایک عجیب سی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ دور پہاڑوں میں ایک سبز شعلہ بھڑکا۔ تھایا چونک گئی، "یہ تو شعلۂ سایہ ہے۔ یہ ظلان کی فوجوں کا اشارہ ہے۔ ہمیں تیاری کرنی ہوگی۔"
ہارون نے گردن سیدھی کی۔ اب وہ صرف سیکھنے والا طالب علم نہ رہا تھا۔ اب وہ جنگ کے لیے جاگ چکا تھا۔
صبح کے دھندلکے میں داریآباد ابھی سویا ہوا تھا، مگر ہارون کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ تھایا کے ساتھ قلعہ دار کی پہاڑیوں سے واپس آنے کے بعد وہ ایک لمحے کو بھی سکون میں نہ آ سکا۔ ہر لمحہ، ہر سانس، اس کے اندر کچھ بدل رہا تھا۔ اس کی رگوں میں دوڑتا شاہی خون اب بیدار ہو چکا تھا۔ اسے اپنی تقدیر کے سائے دور سے دکھائی دینے لگے تھے، مگر ان سائے کے ساتھ ساتھ خطرے کی آندھیاں بھی چل رہی تھیں۔
"تھایا، کیا میں تیار ہوں؟" ہارون نے ایک دن اچانک پوچھا، جب وہ کتب خانے کے باہر بیٹھے تھے۔
تھایا نے اس کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر وہی نرمی، مگر آنکھوں میں گہری سنجیدگی تھی۔ "کوئی بھی کبھی مکمل تیار نہیں ہوتا، ہارون۔ مگر جب وقت بلاتا ہے، تو ہم یا تو چھپتے ہیں یا سامنے آتے ہیں۔"
ہارون نے اثبات میں سر ہلایا۔ "پھر میں چھپوں گا نہیں۔"
اسی دن، تھایا اسے داریآباد کے شمال میں واقع ایک خفیہ درّے پر لے گئی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں شاہی محافظوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ درّے کے دونوں طرف بلند پتھر تھے، اور درمیان میں ایک کھلا میدان۔ یہاں وقت کا پتہ نہ چلتا۔
"یہاں سے تمہاری اصل تربیت شروع ہوگی،" تھایا نے کہا۔ "نہ صرف جسمانی، بلکہ روحانی۔ تمہیں نہ صرف تلوار کا استعمال، بلکہ روشنی کو قابو کرنا بھی سیکھنا ہوگا۔"
ایک بوڑھا شخص، درویش، جن کی سفید داڑھی ان کے سینے تک آتی تھی، میدان میں نمودار ہوا۔ ان کے ہاتھ میں ایک لکڑی کی چھڑی تھی، مگر ان کی آنکھوں میں آگ کا شعلہ۔ "تو تم ہو شہزادہ؟ ہم تمہارا انتظار کرتے رہے ہیں۔"
درویش کی تربیت سخت تھی۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے جاگنا، پہاڑوں پر دوڑنا، تلوار کے وار سیکھنا، اور پھر مراقبہ کے ذریعے اپنی توانائی کو قابو میں لانا۔ ہارون ہر دن تھک کر گرتا، مگر اگلی صبح نئے حوصلے سے اٹھتا۔
ایک رات، درویش نے اسے ایک گہرے غار میں لے جا کر کہا، "یہاں تم اپنے خوف سے ملو گے۔ تمہیں روشنی تبھی ملے گی جب تم سائے کو قبول کرو گے۔"
غار کے اندر ایک جادوئی آئینہ تھا۔ ہارون نے اس میں جھانکا، تو خود کو ایک سیاہ پوش جنگجو کے روپ میں دیکھا، جس کی آنکھوں میں رحم نہ تھا۔
"یہ کیا ہے؟" وہ پیچھے ہٹ گیا۔
"یہ وہ ہے جو تم بن سکتے ہو اگر تمہارے دل میں غرور آ جائے۔ اگر تم طاقت کو مقصد سمجھ بیٹھو۔"
ہارون نے آئینے کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا، "میں اپنی روشنی کو کبھی فراموش نہیں کروں گا۔"
اس کے بعد آئینہ دھندلا گیا، اور ایک سفید روشنی نے اسے ڈھانپ لیا۔ وہ پہلی بار مکمل روشنی سے جُڑ گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں حرارت سی محسوس ہوئی۔ درویش مسکرائے۔ "اب تم تیار ہو اپنے پہلے مشن کے لیے۔"
تھایا نے اسے ایک پرانی نقشہ دیا۔ "داریآباد کے مغرب میں 'زاغ کا جنگل' ہے۔ وہاں دشمن کی ایک چھوٹی چوکی ہے۔ تمہیں اسے تباہ کرنا ہوگا، اور قیدیوں کو آزاد کرانا ہوگا۔ یہ پہلا قدم ہے۔"
ہارون نے اپنا کمر باندھا۔ تلوار، رُونز کا سِکہ، اور اپنے اندر بیدار روشنی کو ساتھ لے کر وہ سفر پر روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے پہلی بار اپنی طاقت کو آزمایا۔ خشک درختوں پر روشنی کے دائروں سے نشانہ لگانا، گھنے جنگل میں سایوں سے بچنا، اور خاموشی سے آگے بڑھنا، سب کچھ ایک نئے جنگجو کی نشانیاں تھیں۔
زاغ کے جنگل میں سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ دشمن کی چوکی ایک پرانی لکڑی کی بیرک میں تھی، جس کے ارد گرد کالے جھنڈے لگے تھے۔ ہارون نے دور سے مشاہدہ کیا، قیدیوں کی کراہیں سنیں، اور پھر رُونز کی مدد سے اندھیرے میں غائب ہو کر اندر داخل ہوا۔
ایک ایک کر کے اس نے دشمنوں کو بے ہوش کیا۔ دروازے پر رُونز نقش کیے، جنہوں نے تالے پگھلا دیے۔ قیدیوں کو آزاد کر کے، وہ ان کے ساتھ ایک خفیہ راستے سے باہر نکلا۔
قیدیوں میں ایک لڑکی تھی—زری، جس کی آنکھوں میں شکریہ کے ساتھ ساتھ حیرت تھی۔ "تم کون ہو؟"
ہارون نے جواب دیا، "ایک دوست۔
جاری ہے…