Cooper Collab

  • Home
  • Cooper Collab

Cooper Collab world

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی اڈیالہ جیل کے باہر رات بھر پڑاؤ کے بعد وہاں سے روانہ ہو گئے ہیں۔پاکستان تحریکِ انص...
28/11/2025

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی اڈیالہ جیل کے باہر رات بھر پڑاؤ کے بعد وہاں سے روانہ ہو گئے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے مطابق سہیل آفریدی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ملاقات کی کوشش کریں گے جس میں عمران خان سے ہفتے میں دو مرتبہ ملاقات کے عدالتی حکمنامے پر عمل درآمد پر زور دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے جمعرات کو بھی ملنے نہیں دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ کارکنان کے ہمراہ جیل کے باہر ہی بیٹھ گئے تھے۔

وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد اب تک سہیل آفریدی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ملاقات نہیں کر سکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان کے مطابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اب تک آٹھ مرتبہ عمران خان سے ملنے کے لیے اڈیالہ جیل آ چکے ہیں۔

گذشتہ کئی دنوں سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی صحت سے متعلق قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

جمعرات کی دوپہر اڈیالہ جیل کے باہر آمد کے موقع پر سہیل آفریدی نے ان افواہوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ'ہم چاہتے ہیں کہ آج ہماری ان سے ملاقات ہو جائے کیونکہ غیر یقینی کی صورتحال میں اضطراب، تشویش بڑھ رہی ہے اور عوام میں بھی بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسی کیفیت طویل ہوئی تو قوم سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔'

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی بھی اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج میں شریک تھے۔ انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج کا آغاز ہے، یہاں ایک پورا صوبہ احتجاج پر بیٹھا ہے۔ ان کے مطابق ’اب یہ دھرنے پورے ملک تک پھیلیں گے اور نہ کوئی وزیر اعلیٰ رہے گا اور نہ کوئی وزیر اعظم ہوں گا اور راج کرے گی خلق خدا۔‘

’ہمیں بتایا گیا کہ عاصم منیر کی توسیع تک کسی کو بھی عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘
عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سوشل میڈیا ایپ ایکس پر لکھا کہ ’عمران خان غیر قانونی قید تنہائی میں ہیں۔ لوگ ہم سے ان کی صحت اور حفاظت کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص تک رسائی نہیں جو ہمیں تصدیق شدہ معلومات دے سکے۔‘

ان کے مطابق ’میڈیا جیل حکام کے ’سرکاری بیانات‘ کا حوالہ دے سکتا ہے لیکن ہم ان کی ایک بھی بات پر اعتماد نہیں کرتے۔‘

علیمہ خان کے مطابق ’حل آسان ۔۔۔۔ عدالتی احکامات کی پیروی کریں اور اپنے خاندان، وکلا اور پارٹی قیادت کو اپنوں سے ملنے کی اجازت دیں۔ علیمہ خان نے کہا کہ 'ہم انھیں محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ حکام عمران خان کے سر کے ایک بال کو بھی نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں کریں گے۔ وہ اس طرح کی کسی بھی بے وقوفی کے نتائج سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کم از کم 90 فیصد پاکستان کے رہنما ہیں۔‘

عمران خان کی بہن نے لکھا کہ ’انھیں (حکمرانوں کو) یقینی طور پر پاکستانی قوم کے غصے سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ ہمارے خاندان اور قانونی ٹیم نے عمران خان سے آخری بار 16 اکتوبر کو ملاقات کی، جو ان اور بشریٰ بی بی کے جیل مقدمے کے آخری دن تھا۔ اس کے بعد سے صرف ہماری بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان کو ان سے دو بار – 28 اکتوبر اور چار نومبر کو ۔۔۔ تقریباً 20 منٹ کے لیے ملنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’یہ اجازت بھی صرف اس وقت دی گئی جب ہم نے آدیالہ کے باہر احتجاج اور دھرنے کیے تھے۔‘

علیمہ خان نے کہا کہ ’عمران خان سے آخری ملاقات ڈاکٹر عظمیٰ اور بشری بی بی کی بیٹی کی چار نومبر کو ہوئی۔ اس دن کے بعد سے ہمارا رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے، نہ کوئی خاندان، نہ وکیل، اور نہ ہی کسی پارٹی رکن کو عمران خان سے ملاقات کے لیے کسی قسم کی رسائی دی گئی۔‘

علیمہ خان نے یہ دعویٰ کیا کہ ’نو دن پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب تک عاصم منیر کو اس کی توسیع کی اطلاع نہ ملے، کوئی بھی عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ہم اب بھی یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہمارے قانونی اور آئینی حق کا اپنے بھائی سے ملنے کا کسی کی توسیع سے کیا تعلق ہے۔ ایک خاندان کی رسائی حکومت کی نوکری کی توسیع سے کیوں منسلک ہے؟‘

اس سے قبل پاکستان کے سوشل میڈیا پر بدھ کے روز سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں متضادات اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔

بدھ کی شب سوشل میڈیا پر جہاں کئی صارفین نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے کسی اور مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، وہیں بعض افراد کا کہنا تھا کہ جیل میں قید کے دوران عمران خان انتقال کر گئے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان دو سال سے زیادہ عرصے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انھیں 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں احتساب عدالت نے سزا سنائی تھی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبروں پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان بالکل صحت مند ہیں۔

اڈیالہ جیل کے حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان بالکل صحت مند ہیں اور انھیں جیل کے قوائد کے علاوہ عدالت کی طرف سے ہدایت کردہ دیگرتمام سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب عمران خان کی بہن علیمہ خان نے اپنے بھائی کے انتقال اور اسی نوعیت کی دیگر افواہوں کی مکمل تردید کی ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ جیل میں قید کے دوران عمران خان کے انتقال کی افواہیں گردش کر رہی ہیں لیکن اس بار یہ خبریں پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے اہلخانہ کو گذشتہ تین ہفتوں سے ان سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی، جس نے مزید افواہوں کو جنم دیا۔

واضح رہے کہ رواں مہینے میں عمران خان کے اہلخانہ اور پارٹی قائدین کو ان سے ملنےکی اجازت نہیں دی گئی

سوشل میڈیا پر متعدد اکاؤنٹس کی جانب سے ایک تصویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہے جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ہپستال کے بیڈ پر لیٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم بی بی سی اردو نے ریورس انجن سرچ کے ذریعے یہ معلوم کیا ہے کہ یہ تصویر دراصل نومبر 2022 کی ہے، جب پنجاب کے علاقے وزیرِ آباد میں عمران خان کے احتجاجی مارچ پر فائرنگ ہوئی تھی اور وہ بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے تھے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پرگذشتہ شب سے یعنی ’عمران خان کہاں ہیں‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صارفین پوچھ رہے ہیں عمران خان کہاں ہیں اور ایسی کیا وجوہات ہیں جو اُن سے ملاقات نہیں کرنے دی جا رہی۔

عمران خان کے اہلخانہ اور پارٹی کے دیگر قائدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی ہفتوں سے جیل حکام نے انھیں عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی، جس پر اہلخانہ اور پارٹی قائدین نے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج بھی کیا۔

جیل میں ہفتہ وار ملاقات کے دن پر تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھی لیکن انھیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا۔

جس کے بعد تحریکِ انصاف کے لندن میں مقیم رہنما زلفی بخاری نے عمران خان کے بارے میں سوشل میڈیا ایکس پر ایک بیان جاری کیا اور اُن کے بیان نے مختلف زیر گردش افواہوں کو مزید تقویت دی۔

زلفی بخاری نے کہا کہ ’عمران خان کی قیدِ تنہائی دن بدن مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی اُن سےملاقات نہیں ہوئی۔‘

زلفی بخاری نے کہا کہ ’اگر انھیں (عمران خان کو ) کہیں اور منتقل کیا گیا ہے تو خاندان کو کیوں مطلع نہیں کیا گیا۔ عدالتی احکامات کے باوجود بھی عمران خان تک رسائی کیوں نہ دی جا رہی۔‘

زلفی بخاری نے کہا کہ ’یہ خاموشی بہت غیر قانونی اور انتہائی پریشان کن ہے۔‘

بدھ کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھی۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں تحریکِ انصاف کے کارکن اور قائدین جیل کے باہر نعرے بازی کر رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا نے کہا کہ ’شک ہے کہ جیل حکام نے انھیں (عمران خان کو) اڈیالہ سے کہیں اور منتقل نہ کر دیا ہو

سوشل میڈیا پر عمران خان کے بارے جو افواہیں یا متضاد اطلاعات گردش کر رہی ہیں اُن میں زیادہ تر اکاؤنٹس ایسے ہیں جو بظاہر انڈیا یا افغانستان سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ ان اکاؤنٹس پر عمران خان کی جیل میں موت کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔

جس کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کی صحت کے بارے میں وضاحت دیں اور ان افواہوں کی واضح الفاظ میں تردید کریں۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس بارے میں ایکس پر جاری اپنے تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ ’افغانستان اور انڈین میڈیا کے پلیٹ فارمز اور غیر ملکی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے اکاؤنٹس سے سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی خیریت سے متعلق افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیئرمین عمران خان کی صحت، سلامتی اور موجودہ حیثیت کے بارے میں سرکاری سطح پر شفاف اور باضابطہ بیان جاری کیا جائے اور اس طرح کی خطرناک اور حساس نوعیت کی افواہوں کے پھیلانے والوں کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔‘

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی بھی جمعرات کو عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے لیڈر اور قائد جناب عمران خان کی طبیعت ناساز ہے یا مختلف افواہیں پھیل رہی ہیں۔‘

سہیل آفریدکی وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد سے اب تک عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آج ہماری ان سے ملاقات ہو جائے، کیونکہ غیر یقینی صورتحال میں اضطراب، تشویش بڑھ رہی ہے اور یہ عوام میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسی کیفیت طویل ہوئی تو قوم سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔‘

’اگر آج بھی ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو ہم یہیں موجود ہیں اور اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل مشاورت سے طے کریں گے۔‘

عمران خان کو اڈیالہ سے منتقل نہیں کیا گیا: پنجاب حکومت
پنجاب حکومت نے عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقل کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے بتایا کہ عمران خان بالکل ٹھیک ہیں اور انھیں جیل سے کسی اور جگہ منتقل کرنے کی باتیں بالکل فضول ہیں۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ جیل میں عمران خان کو تمام سہولیات مل رہی ہیں اور ڈاکٹرز اُن کا معمول کے مطابق طبی معائنہ کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ روز اڈیالہ کے سپرٹینڈنٹ کا بیان آیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں سیاسی ملاقاتیں کرتے ہیں جن میں وہ احتجاج اور ہنگاموں کی بھی ہدایات دیتے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان ایک قیدی ہیں اور اہلخانہ اور وکلا تک ان کو رسائی حاصل ہے۔

واضح رہے کہ رواں مہینے میں عمران خان کے اہلخانہ اور پارٹی قائدین کو ان سے ملنےکی اجازت نہیں دی گئی۔

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے پاکستان کے صوبہ سندھ کو ’تہذیبی طور پر ہمیشہ انڈیا کا حصہ‘ کہنے سے متعلق بیان کو پاک...
27/11/2025

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے پاکستان کے صوبہ سندھ کو ’تہذیبی طور پر ہمیشہ انڈیا کا حصہ‘ کہنے سے متعلق بیان کو پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ’غیر حقیقی، اشتعال انگیز اور خطرناک حد تک تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش‘ قرار دیا ہے۔

انڈیا کے وزیرِ دفاع نے سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں (اڈوانی) نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ’سندھی ہندو، بالخصوص اُن کی نسل کے لوگ، آج تک سندھ کو انڈیا سے الگ کرنے کو قبول نہیں کر پائے ہیں۔‘

آگے چل کر انھوں نے مزید کہا کہ ’آج شاید سندھ کی سرزمین انڈیا کا حصہ نہ ہو، لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ انڈیا کا حصہ رہے گا۔ اور جہاں تک زمین کی بات ہے تو سرحدیں بدل سکتی ہیں۔ کیا پتا کل کو سندھ پھر سے بھارت میں واپس آ جائے۔‘

انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں اس نئی تلخی کے تناظر میں آئیے دیکھتے ہیں کہ تاریخ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے اور تاریخ اور سیاسیات کے ماہرین سندھ کے معاملے پر کیا کہتے ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق موجودہ صوبہ سندھ کا علاقہ، جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا حصہ ہے، وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز تھا۔

اس تہذیب کی نمائندگی ’موئن جو دڑو اور کوٹ ڈیجی جیسے مقامات کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی تہذیب تقریباً 2300 قبل مسیح سے 1750 قبل مسیح تک موجود رہی۔

برٹینیکا میں لکھا ہے کہ دنیا کی تین اوّلین عظیم تہذیبوں (یعنی میسوپوٹیمیا، مصر اور وادیِ سندھ) میں سے وادیِ سندھ کی تہذیب ’رقبے کے اعتبار سے سب سے زیادہ وسیع تھی۔ یہ تہذیب سب سے پہلے1921 میں ہڑپہ (پنجاب) میں دریافت ہوئی اور پھر 1922 میں موئن جو دڑو (موجودہ سندھ میں دریائے سندھ کے قریب) دریافت ہوئی۔‘

سہیل ظہیر لاری اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ تہذیب تقریباً موجودہ پاکستان کے خطے پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب اور مشرق میں موجودہ انڈین صوبوں گجرات، راجستھان اور ہریانہ تک، جبکہ مغرب میں افغانستان تک وسعت رکھتی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ گرمیوں میں دریائے سندھ کا پانی سردیوں کے مقابلے میں 16 گنا زیادہ ہو سکتا ہے اور اسی تغیر نے ’منظم آبپاشی اور کاشتکاری کے امکانات کم کر دیے تھے۔ جو علاقے آبپاشی، کاشتکاری اور زرعی بستیوں کے لیے موزوں تھے وہ دراصل چھوٹے دریا تھے۔ اسی لیے ہڑپہ کی تہذیب کی بیشتر بستیاں دریائے سندھ کے مرکزی دھارے سے دور تھیں۔

یہ صورتحال اُس وقت تک رہی جب تک ہڑپائی لوگوں نے 2500 قبل مسیح کے آس پاس ایک انقلابی فیصلہ نہ کر لیا: یعنی ہڑپہ اور موئن جو دڑو کو پہلے سے طے شدہ نقشے کے مطابق مرکزی شہری مراکز کے طور پر تعمیر کرنا، تاکہ دریائے سندھ کو آمد و رفت اور تجارت کے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘

’انتظامی طور پر، اس فیصلے نے دریائے سندھ کے دونوں اطراف آباد ہڑپائی بستیوں کو آبی مواصلات کے جال کے ذریعے باہم جوڑ دیا جو اس خطے میں، جہاں بارشوں اور سیلابوں کے دوران زمین سمندر کی مانند بن جاتی تھی، نقل و حمل کا سب سے موزوں طریقہ تھا۔‘

’اس سے ہڑپہ کی تہذیب کو یہ سہولت بھی ملی کہ وہ سمندری ساحل کے ساتھ ساتھ ایک طرف خلیجِ فارس تک اور دوسری طرف دکن کے خطے تک پھیل سکے۔

برٹینیکا کے مطابق اِس کے بعد تاریخی ریکارڈ میں ایک ہزار سال سے زائد کا وقفہ ہے۔

’پھر سندھ کی (ایرانی) ہخامنشی سلطنت میں شمولیت کا ذکر ملتا ہے، جب دارا اوّل نے چھٹی صدی قبل مسیح کے آخر میں اسے فتح کیا۔‘

’تقریباً دو صدی بعد، سکندر اعظم نے 326 اور 325 قبل مسیح میں اس خطے کو فتح کیا۔ اُن کی وفات کے بعد سندھ پر سلوقس اوّل نیکیٹر، چندرگپت موریا (تقریباً 305 قبل مسیح)، پھر تیسری تا دوسری صدی قبل مسیح میں ہند-یونانی اور پارتھی حکمرانوں، اور بعد ازاں پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی تک سیتھین اور کشان حکمرانوں کا تسلط رہا۔

پہلی صدی مسیح میں کُشان دور میں سندھ کی آبادی نے بدھ مت اختیار کر لیا۔ تیسری سے ساتویں صدی تک یہ علاقہ ایرانی ساسانی سلطنت کے زیرِ حکمرانی رہا۔‘

برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سنہ 711 میں عربوں کی سندھ میں آمد نے برصغیر میں اسلام کے داخلے کی بنیاد رکھی۔ 712 سے تقریباً 900 تک سندھ اموی اور عباسی سلطنتوں کے صوبہ الِسند کا حصہ رہا جس کا دارالحکومت موجودہ حیدرآباد سے 72 کلومیٹر شمال میں واقع المنصورہ تھا۔

’خلافت کی مرکزی طاقت کے کمزور پڑنے کے بعد، دسویں سے 16ویں صدی تک الِسند کے عرب گورنروں نے خطے میں اپنی مقامی اور خاندانی حکمرانی قائم کر لی۔‘

’16ویں اور 17ویں صدی میں (1591–1700) سندھ مغلوں کے زیرِ حکومت رہا، جس کے بعد اسے کئی آزاد سندھی ریاستی خاندانوں نے چلایا۔ یہاں تک کہ 1843 میں آخری سندھی حکومت کو برطانوی فوج نے شکست دی۔ اس وقت سندھ کے بیشتر حصے کو بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کر دیا گیا۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے 14 نکات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلمانوں کے مطالبے پر برطانوی حکومت نے 1936 میں سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے الگ صوبے کا درجہ دیا۔ سنہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت سندھ کو مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔

محقق اور مصنف ڈاکٹر محمد علی شیخ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بدھ مت کے راجا سہاسی دوم کے 28 سالہ دورِ حکومت میں ریاست کے زیادہ تر معاملات اُن کے وفادار برہمن وزیر چچ کے سپرد تھے۔ تقریباً 642 میں چینی زائر ہسوان تسانگ سندھ آئے اور انھوں نے لکھا کہ یہاں ’لاتعداد سٹوپے‘ اور ’سینکڑوں سنگھارامے جن میں تقریباً دس ہزار راہب رہتے تھے‘ موجود تھے۔

برطانوی مؤرخ جان کیے اپنی کتاب ’انڈیا اے ہسٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ بدھ مت سندھ کا سب سے غالب مذہب تھا مگر ہندو ازم بھی موجود تھا، اور یہاں تقریباً ’تیس ہندو مندر‘ تھے۔

ساتویں صدی میں سندھ کی سلطنت میں تقریباً پوری وادی سندھ شامل تھی، ماسوائے شمالی حصے کے۔ تخت نشین ہونے کے بعد جب چچ نے فتوحات شروع کیں تو انھوں نے اپنے ملک کی سرحدیں متعین کرنے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا: مختلف خطوں کے مطابق موزوں درخت لگا کر۔

اسی سیاق و سباق میں کیے لکھتے ہیں کہ ’اگر شمال مغرب میں صرف قدیم گندھارا کا علاقہ شامل ہو جاتا تو چچ کی ریاست ایک طرح کا پروٹو پاکستان بن جاتی۔‘

مؤرخ اور تاریخ کے استاد ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب کا مرکز و محور وہ علاقہ ہے جو اب پاکستان ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس میں پنجاب بھی ہے، بلوچستان بھی، خیبرپختونخوا بھی، ٹیکسلا کی تہذیب کے حوالے سے، اورسندھ، موئن جوداڑو وغیرہ۔ یہ مرکز ہے، سرچشمہ ہے، اور یہاں سے وادی سندھ کی تہذیب ابھری اور پھیلی، اور اس کے اثرات گجرات تک گئے۔‘

’تہذیبی طور پر یہ علاقہ اگر مجتمع ہے تو یہ بہت ہی فطری سی بات لگتی ہے۔ بہت ہی غیر فطری ہو گا کہ سندھ الگ ہو کر انڈیا کے ساتھ چلا جائے۔ تاریخی طور پر اگر تہذیب کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘

’سندھ کا مطلب علاقہ یا صوبہ سندھ نہیں ہے، سارا علاقہ ہے جو سندھ طاس تہذیب کا محور و مرکز تھا، جس میں پنجاب ہے، بلوچستان ہے، اور جس میں سندھ بھی ہے۔ اس کی اجتماعی تہذیبی اکائی وہی ہے، جہاں پہ پاکستان بنا ہوا ہے۔ اس مرکز سے جو تہذیبی سوتے پھوٹے، انھوں نے آگے جا کر اپنے اثرات دوسری جگہوں پر مرتسم کیے۔

ان کی رائے ہے کہ انڈین وزیر دفاع راج ناتھ نے ’بس ایک پُھلجھڑی چھوڑ دی ہے جس کے پیچھے کوئی علمی گہرائی یا گیرائی نظر نہیں آتی ہے۔‘

سندھ کے ماہر سیاسیات ڈاکٹر امیر علی چانڈیو کہتے ہیں کہ انڈیا کے وزیر دفاع کا یہ بیان ’سراسر سامراجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے‘ اور اس میں واضح طور پر ’قبضہ خوری کی بُو محسوس ہوتی ہے۔‘

بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سندھ ’کبھی ہندوستان یا انڈیا کا حصہ نہیں رہا۔‘

’اگر کبھی مختصر عرصے کے لیے مغل سلطنت نے سندھ پر قبضہ کیا بھی، تو سندھی عوام نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ شاہ عنایت شہید، جنھیں تاریخ کا پہلا سوشلسٹ صوفی کہا جاتا ہے، نے جاگیردارانہ نظام اور مغل بالادستی— جو اس نظام کی پشت پناہی کر رہی تھی— کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کی۔‘

چانڈیو کے مطابق سنہ 1843 میں جب برٹش ایمپائر اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے سندھ پر قبضہ کیا، اُس وقت بھی سندھ ایک آزاد ملک اور الگ وطن تھا، انڈیا کا حصہ نہیں تھا۔

’سنہ 1847 میں سندھ کو عوام کی خواہشات کے خلاف سازش کے تحت جبراً بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف سندھ کے عوام نے طویل جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں سندھ کا جداگانہ تشخص بالآخر بحال ہوا۔‘

’اس کے بعد بھی سندھ نے انگریزوں کے خلاف نہ صرف پارلیمانی اور جمہوری جدوجہد کی، بلکہ حروں کی مسلح تحریک بھی سندھ کی مزاحمتی تاریخ کا روشن باب ہے۔ حتیٰ کہ انگریزوں کو سندھ میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا، مگر سندھ نے غلامی قبول نہیں کی۔‘

چانڈیو بتاتے ہیں کہ سنہ 1940 کی قراردادِ لاہور (قراردادِ پاکستان) کو سب سے پہلے قبول کرنے والوں میں سندھ کے عوام شامل تھے۔ اس سے پہلے 1938 میں بھی سندھ اسمبلی یہ اعلان کر چکی تھی کہ ’ہم ہندوستان کے ساتھ نہیں رہیں گے۔‘

’بانی پاکستان کا تعلق بھی سندھ سے تھا اور تین مارچ 1943 کو پاکستان کے حق میں سب سے پہلی قرارداد سندھ اسمبلی نے منظور کی، جسے جی ایم سید نے کلیدی کردار ادا کر کے پاس کرایا۔

چغتائی مرزا اعجاز الدین کی تحقیق ہے کہ متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے صوبہ سندھ ہی نے ایک آزاد مسلم ریاست کے حق میں قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی۔

’بانی پاکستان کا یہ مؤقف کہ ہندوستان کبھی ایک متحد قوم نہیں رہا اور مسلم ہندوستان ہمیشہ ایک الگ اکائی رہا ہے — اس کی گونج جی ایم سید کے بیان میں بھی سنائی دی، جو اس وقت مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ایک ممتاز سندھی رہنما تھے۔‘

’جی ایم سید نے کہا کہ موئن جو دڑو سے منکشف ہونے والی وادی سندھ کی تہذیب اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے علاقے کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہے۔ اور یہ کہ سندھ، پنجاب، افغانستان اور سرحد مشرقِ بعید کا نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا حصہ تھے۔‘

’برصغیر کے تمام صوبوں میں صرف سندھ اسمبلی ہی نے 3 مارچ 1943 کو، جی ایم سید کی پیش کردہ قرارداد کے ذریعے، لاہور قرارداد کی طرز پر پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔‘

’بعد ازاں 26 جون 1947 کو سندھ اسمبلی نے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ نئی پاکستان دستور ساز اسمبلی کا حصہ بنے گی۔ یوں سندھ پاکستان میں شامل ہونے والا پہلا صوبہ بنا۔‘

’سندھ کے وہ ارکان جنھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، پاکستان کے بانیانِ قوم ہیں۔ وہ یہ تھے: غلام حسین ہدایت اللہ، محمد ایوب کھوڑو، میر بندہ علی خان تالپور، پیرزادہ عبد الستار، محمد ہاشم گزدر، پیر الٰہی بخش، میران محمد شاہ، محمود ہارون، قاضی محمد اکبر، خان صاحب غلام رسول جتوئی، سردار قیصر خان گزدر، میر جعفر خان جمالی، سردار نبی بخش سومرو، غلام محمد وسان، سردار نور محمد بجارانی، غلام نبی ڈھیراج— اور سپیکر آغا بدر الدین جنھوں نے اجلاس کی صدارت کی۔‘

چانڈیو بتاتے ہیں کہ ’آج بھی سندھ کے لوگ اگر کہتے ہیں تو یہی کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں، بس ہمیں قراردادِ 1940 کے تحت ہمارے آئینی و سیاسی حقوق دیے جائیں۔‘

’یوں سندھ، جو ایک آزاد وطن تھا اور انگریزوں کے قبضے میں تھا، رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بنا۔ پاکستان کی تحریک میں بنگال کے ساتھ ساتھ سندھ کا کردار بھی نمایاں اور تاریخی ہے۔‘

’سندھ کے عوام نے کبھی ہندوستان کی بالادستی قبول نہیں کی۔ انڈیا کی سامراجی خواہشات آج بھی انھیں قبول نہیں، نہ کبھی ہوں گی۔ انڈیا کا حصہ بننے، یا اس کے کسی تسلط کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

چانڈیو کے مطابق سندھ تاریخی طور پر ایک آزاد وطن رہا ہے اور رضاکارانہ طور پر پاکستان میں شامل ہوا تھا۔

دانشور وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ اگر انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی منطِق کو درست سمجھا جائے تو مستقبل میں دلی، اَوَدھ اور حیدر آباد دکن پاکستان کا حصہ بن سکتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ تاریخ کا سفر پرانے مخطوطوں کی روشنی میں آگے نہیں بڑھتا۔ ’پون صدی قبل ہندوستان تقسیم ہو گیا اور دو قومی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ اس وقت کی قیادت نے یہ فیصلہ تسلیم کر لیا۔‘

’گذشتہ سات دہائیوں میں دونوں ممالک کی سیاست، معیشت اور تمدن میں منفرد خطوط نمودار ہوئے ہیں۔ اب راج ناتھ جیسی باتوں سے سوائے غیر ضروری تلخی کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘

وجاہت مسعود کا مشورہ ہے کہ بہتر ہے کہ دونوں ملک اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا سیکھیں اور اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

یہ 14 جولائی 1948 کا دن تھا جب اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کے پیش نظر کوئٹہ سے زیارت منتقل کیا گیا...
27/11/2025

یہ 14 جولائی 1948 کا دن تھا جب اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کے پیش نظر کوئٹہ سے زیارت منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ فقط 60 دن زندہ رہے اور 11 ستمبر 1948 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ بابائے پاکستان کے یہی آخری 60 دن اس تحریر کا موضوع ہیں۔

یہ پراسرار گتھی آج تک حل نہیں ہوسکی کہ ’قائد اعظم‘ محمد علی جناح کو شدید بیماری کے عالم میں کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔

زیارت اپنے صنوبر کے درختوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور کوئٹہ سے 133 کلو میٹر فاصلے پر 2449 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جگہ ایک بزرگ خرواری بابا کی آخری آرام گاہ کی نسبت سے زیارت کہلاتی ہے اور جناح کی آرام گاہ یا ’قائد اعظم ریزیڈنسی‘ زیارت سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ان کی بہن فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’مائی برادر‘ میں تحریر کیا ہے کہ کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا فیصلہ جناح کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ ان کی سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات کے باعث کوئٹہ میں بھی انھیں آرام کا موقع بالکل نہیں مل رہا تھا اور مختلف اداروں اور مختلف رہنماؤں کی جانب سے انھیں مسلسل دعوتیں موصول ہو رہی تھیں کہ وہ ان کے اجتماعات میں شرکت کریں اور ان سے خطاب کریں۔

تاہم یہ بات پھر بھی محل نظر ہے کہ جناح کو زیارت کے بارے میں کس نے بتایا تھا اور وہاں منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا تھا.

زیارت پہنچنے کے بعد بھی انھوں نے کسی مستند معالج سے علاج کروانے پر توجہ نہ دی لیکن انہی دنوں اطلاع ملی کہ مشہور ڈاکٹر ریاض علی شاہ اپنے ایک مریض کو دیکھنے کے لیے زیارت آئے ہوئے ہیں۔ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی سے کہا کہ ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی زیارت موجودی سے فائدہ اٹھانا چاہیے مگر انھوں نے یہ کہتے ہوئے تجویز سختی سے مسترد کر دی کہ انھیں کوئی زیادہ سنگین مرض لاحق نہیں ہے اور اگر صرف ان کا معدہ خوراک کو ذرا بہتر طور پر ہضم کرنے لگے تو وہ جلد ہی دوبارہ صحت مند ہو جائیں گے۔

بقول فاطمہ جناح: ’وہ ڈاکٹروں کے ایسے مشوروں سے ہمیشہ گریز کرتے تھے کہ کیا کریں، کیا کھائیں، کتنا کھائیں، کب سوئیں اور کتنی دیر آرام کریں۔ علاج سے گریز کی ان کی یہی پرانی عادت ایک مرتبہ پھر عود کر آتی تھی۔‘

مگر جلد ہی وہ اپنی اس عادت کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔ زیارت پہنچنے کے ایک ہفتے کے اندر ان کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ ان کی صحت خود ان کے لیے پریشانی کا باعث بن گئی۔ اب تک ان کا خیال تھا کہ وہ صحت کو اپنی مرضی کے تابع رکھ سکتے ہیں مگر 21 جولائی 1948 کو جب انھیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا، انھوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انھیں صحت کے سلسلے میں زیادہ خطرات مول نہیں لینے چاہییں اور یہ کہ اب انھیں واقعی اچھے طبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔

فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انھیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے ان کے پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کے ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔

ڈاکٹر الٰہی بخش 23 جولائی 1948 کو کوئٹہ اور پھر وہاں سے بذریعہ کار زیارت پہنچے لیکن دن بھر سفر کرنے کے باوجود انھیں زیارت پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی اور جناح سے ان کی ملاقات اگلی صبح ہی ممکن ہوسکی۔ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ: ’جب میں نے قائد سے ان کی بیماری سے متعلق استفسارات کیے تو ان کا تمام زور اسی بات پر تھا کہ وہ بالکل بھلے چنگے ہیں اور یہ کہ ان کا معدہ ٹھیک ہو جائے تو وہ جلد ہی معمول کے مطابق کام کرنے لگیں گے۔‘

مگر جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا معدہ تو بالکل ٹھیک ہے لیکن ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کے مشورے پر اگلے دن کوئٹہ کے سول سرجن ڈاکٹر صدیقی اور کلینیکل پیتھالوجسٹ ڈاکٹر محمود ضروری آلات اور سازو سامان کے ساتھ زیارت پہنچ گئے۔ انھوں نے فوری طور پر جناح کے ٹیسٹ کیے جن کے نتائج نے ڈاکٹر الٰہی بخش کے ان خدشات کی تصدیق کر دی کہ وہ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہیں۔

ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کے مرض کے حوالے سے سب سے پہلے فاطمہ جناح کو مطلع کیا اور پھر ان ہی کی ہدایت پر اپنے مریض کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں: ’قائد اعظم نے جس انداز میں میری تشخیص کو سنا، میں اس سے انتہائی متاثر ہوا۔‘

چوہدری محمد حسین چٹھہ نے اپنے ایک انٹرویو میں ضمیر احمد منیر کوبتایا کہ جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق کا مرض لاحق ہے تو جناح نے جواب دیا: ’ڈاکٹر، یہ تو میں 12 برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔‘

برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک بالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘

ڈاکٹر پٹیل نے جناح کی درخواست پر ان ایکس ریز کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہ بتایا۔ تاہم انھوں نے جناح کو علاج اور صحت یابی کے لیے یہ مشورہ ضرور دیا کہ ان کا علاج صرف اور صرف آرام میں مضمر ہے۔ مگر بانی پاکستان کے پاس آرام کا وقت کہاں تھا؟

ان کے پاس وقت کم تھا اور کام بہت زیادہ تھا اور وہ باقاعدہ علاج کا اہتمام کبھی نہ کرسکے۔ وہ اتنی آہنی ہمت کے مالک تھے کہ انھوں نے اپنے مرض کے بارے میں اپنی عزیز ترین بہن کو بھی آگاہ نہیں کیا، حتیٰ کہ انھوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو بھی اپنے راز سے اس ہی وقت آگاہ کیا جب وہ خود یہی تشخیص کر چکے تھے۔

ماؤنٹ بیٹن نے خاصے طویل عرصے بعد لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ساری طاقت جناح کے ہاتھ میں تھی۔ ’اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ بہت کم عرصے میں ہی فوت ہوجائیں گے تو میں ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ یہ واحد صورت تھی کہ ہندوستان متحدہ صورت میں برقرار رہتا۔ راستے کا پتھر صرف مسٹر جناح تھے، دوسرے رہنما اس قدر بے لوچ نہیں تھے اور مجھے یقین ہے کہ کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی اور پاکستان تاقیامت وجود میں نہ آتا۔‘

ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں: ’جب مرض کی تشخیص ہوگئی تو میں نے ایک جانب علاج اور خوراک میں مناسب ردوبدل کی اور دوسری جانب لاہور سے ڈاکٹر ریاض علی شاہ، ڈاکٹر ایس ایس عالم اور ڈاکٹر غلام محمد کو ٹیلی گرام دیا کہ وہ ضروری سازو سامان اور سفری ایکس ریز کے آلات لے کر فوراً زیارت پہنچیں۔

تیس جولائی 1948 کو جناح کے یہ تمام معالجین زیارت پہنچ گئے۔ اس سے ایک دن پہلے بابائے قوم کی دیکھ بھال کے لیے کوئٹہ سے ایک تربیت یافتہ نرس، فلس ڈلہم کو بھی زیارت بلوایا جا چکا تھا۔ اب خدا خدا کرکے جناح کا باقاعدگی سے علاج شروع ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ اسی دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس پر اب تک خاموشی کے پراسرار پردے پڑے ہوئے ہیں اور جو لوگ اس سے واقف بھی ہیں ان کا یہی اصرار ہے کہ اس واقعے کو اب بھی راز ہی رہنے دیا جائے۔

یہ واقعہ سب سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’مائی برادر‘ میں قلم بند کیا تھا۔ انہوں نے یہ کتاب جی الانا کی مدد سے تحریر کی تھی۔ ان کی وفات کے بعد اس کا مسودہ ان کاغذات میں دستیاب ہوا جو اب اسلام آباد کے قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات پاکستان (National Archives) میں محفوظ ہیں۔

اس مسودے کو 1987 میں قائداعظم اکیڈمی، کراچی نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا مگر اس کتاب میں سے ان پیراگرفس کو حذف کردیا گیا تھا جو محترمہ نے 30 جولائی 1948 کو پیش آنے والے ایک واقعہ کے حوالے سے تحریر کیے تھے۔

محترمہ نے اپنی اس کتاب میں لکھا: ’جولائی کے اواخر میں ایک روز وزیراعظم لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک زیارت پہنچ گئے۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے پوچھا کہ جناح کے مرض کے بارے میں ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ انھیں فاطمہ جناح نے بلایا ہے اور وہ اپنے مریض کے بارے میں صرف ان ہی کو کچھ بتا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے اصرار کیا کہ وہ بطور وزیراعظم، گورنر جنرل کی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں لیکن تب بھی ڈاکٹر الٰہی بخش کا مؤقف یہی رہا کہ وہ اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ نہیں بتاسکتے۔‘

فاطمہ جناح آگے لکھتی ہیں: ’میں اس وقت بھائی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب مجھے بتایا گیا کہ وزیراعظم اور کابینہ کے سیکریٹری جنرل ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس کی اطلاع بھائی کو دی تو وہ مسکرائے اور بولے، فاطی! تم جانتی ہو وہ یہاں کیوں آیا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میری بیماری کتنی شدید ہے اور یہ کہ میں اب کتنے دن زندہ رہوں گا۔‘

چند منٹ بعد انھوں نے اپنی بہن سے کہا: ’نیچے جاؤ۔۔۔ وزیراعظم سے کہو میں اس سے بھی ملوں گا۔‘

فاطمہ جناح نے بھائی سے گزارش کی کہ ’بہت دیر ہوچکی ہے، آپ ان سے صبح مل لیجیے گا۔‘ مگر جناح نے حکم دیا ’نہیں۔۔۔ اسے ابھی آنے دو، وہ خود آخر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔‘

وہ لکھتی ہیں: ’دونوں کی ملاقات آدھے گھنٹے جاری رہی۔ جونہی لیاقت علی خان واپس نیچے آئے تو میں اوپر اپنے بھائی کے پاس گئی۔ وہ بری طرح تھکے ہوئے تھے اور ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پھلوں کا جوس مانگا اور پھر چوہدری محمد علی کو اندر بلوا لیا جو 15 منٹ تک ان کے پاس رہے۔ پھر جب وہ دوبارہ تنہا ہوئے تو میں اندر ان کے پاس گئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ جوس یا کافی کچھ لینا پسند کریں گے مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں محو تھے۔ اتنے میں رات کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ بھائی نے مجھ سے کہا ’بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

’نہیں،‘ انھوں نے زور دے کر کہا، ’میں آپ ہی کے پاس بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھالوں گی۔‘

’نہیں،‘ بھائی نے کہا، ’یہ مناسب نہیں ہے۔ وہ یہاں ہمارے مہمان ہیں، جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

اس کے بعد فاطمہ جناح لکھتی ہیں: ’کھانے کی میز پر میں نے وزیراعظم کو بہت خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ لطیفے سنا رہے تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے جبکہ میں بھائی کی صحت کے لیے خوف سے کانپ رہی تھی جو اوپر کی منزل میں بستر علالت پر پڑے ہوئے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔ کھانا ختم ہونے سے پہلے میں اوپر چلی گئی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو بھائی مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’فاطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔‘ میں نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی بڑی کوشش کی جو میری آنکھوں میں امڈ آئے تھے۔‘

سترہ اکتوبر 1979 کو پاکستان ٹائمز لاہور میں شریف الدین پیرزادہ کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’دی لاسٹ ڈیز آف دی قائد اعظم‘۔ اس مضمون میں انھوں نے ممتاز ماہر قانون ایم اے رحمٰن کے ایک خط کا حوالہ دیا۔

اس خط میں ایم اے رحمٰن نے انھیں لکھا تھا کہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے بیٹے ہمایوں خان نے بھی انھیں اس واقعے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس روایت کے مطابق ’قائد اعظم پر دوا کا اثر بڑا موافق ہو رہا تھا اور وہ بتدریج صحت یاب ہو رہے تھے۔ ایک روز لیاقت علی خان قائداعظم سے ملنے کے لیے زیارت آئے۔ وہ ان کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ رہے۔ اسی دوران دوا کھلانے کا وقت آگیا لیکن میرے والد اندر جاکر قائداعظم کو دوا نہیں دے سکتے تھے کیونکہ اندر جو ملاقات ہو رہی تھی وہ بے حد خفیہ تھی۔ چنانچہ وہ باہر انتظار کرتے رہے تاکہ ملاقات ختم ہوتے ہی وہ قائداعظم کو دوا کھلا سکیں۔‘

’جب لیاقت علی خان کمرے سے باہر نکلے تو میرے والد فوراً کمرے میں داخل ہوئے اور قائداعظم کو دوا کھلانا چاہی۔ انھوں نے دیکھا کہ قائد اعظم پر سخت اضطرابی افسردگی طاری ہے اور انھوں نے دوا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اب میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ اس کے بعد والد صاحب کی بھرپور کوشش اور اصرار کے باوجود قائد اعظم نے اپنے ڈاکٹر کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔‘

ہمایوں خان نے مزید بتایا: ’قائداعظم کے انتقال کے فوراً بعد لیاقت علی خان نے میرے والد کو بلاوا بھیجا۔ لیاقت علی خان نے ان سے پوچھا کہ اس روز زیارت میں جب میں کمرے سے باہر نکل آیا اور آپ اندر گئے تو قائداعظم نے آپ سے کیا بات کی تھی۔ میرے والد نے لیاقت علی خان کو بہترا یقین دلانے کی کوشش کی قائد نے آپ دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو کے بارے میں مجھ سے قعطاً کوئی بات نہیں کی تھی سوائے اس کے کہ اس کے بعد قائد نے دوا کھانی بند کر دی تھی، لیکن میرے والد کے اس جواب سے لیاقت علی خان کو تسلی نہیں ہوئی۔‘

’لیاقت علی خان کافی دیر تک میرے والد کو زیر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب ان کی ملاقات ختم ہوئی اور میرے والد کمرے سے نکلنے لگے تو لیاقت علی خان نے انھیں واپس بلوایا اور انھیں تنبیہ کی اگر انھوں نے کسی اور ذریعے سے اس ملاقات کے بارے میں کچھ سنا تو انھیں، یعنی میرے والد صاحب کو، سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘

یہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے صاحبزادے، ہمایوں خان کی بیان کردہ روایت ہے جو ہم تک اے آر رحمٰن اور شریف الدین پیرزادہ کے توسط سے پہنچی ہے۔ اس کی صحت پر بحث کی گنجائش ہوسکتی ہے کیونکہ خود ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب ’قائداعظم کے آخری ایام‘ میں اس سے مختلف بیان دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’نیچے اترا تو وزیراعظم سی ڈرائنگ روم میں ملاقات ہوئی۔ وہ اسی روز مسٹر محمد علی کے ساتھ قائداعظم کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے تھے۔ انھوں نے بڑی بے تابی سے قائداعظم کی کیفیت دریافت کی اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ مریض کو اپنے ڈاکٹر پر اعتماد ہے اور انشااللہ اس کا ان کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔ انھوں نے بہت تاکید کی کہ قائداعظم کی اس طویل بیماری کی جڑ کا ضرور کھوج لگایا جائے۔ میں نے انھیں یقین دلایا کہ قائداعظم کی حالت تشویشناک ہونے کے باوجود وہ پر امید ہیں کہ اگر انھوں نے وہ جدید دوائیں کھالیں جو کراچی سے منگوائی جا رہی ہیں تو ممکن ہے وہ صحت یاب ہوجائیں گے۔ بڑی امید افزا بات یہ ہے کہ مریض میں مدافعت کی کافی قوت ہے۔ وزیراعظم اپنے رہنما اور پرانے رفیق کی علالت سے بہت افسردہ تھے، ان کی دل سوزی سے میں بہت متاثر ہوا۔‘

اب حقیقت کیا ہے؟ اس کا علم تو صرف ان پانچ، چھ شخصیات ہی کو تھا جو اس وقت موقع پر موجود تھیں۔ اب بدقسمتی سی ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔ واقعے پر بھی 72 سال کے ماہ و سال کی گرد جم چکی ہے اور اب ایسا کوئی ذریعہ باقی نہیں جو قوم کو اس واقعہ کی اصلیت سے آگاہ کرسکے۔

دو تین دن میں جناح کی حالت اتنی بہتر ہوگئی کہ 3 اگست کو ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے ان سے لاہور جانے کے لیے چاروں کی رخصت بھی حاصل کر لی۔ بظاہر اس کا سبب یہ نظر آتا ہے کہ چند دن بعد عید آنے والی تھی اور ڈاکٹر الٰہی بخش یہ عید اپنے اہل خانہ کے ساتھ منانا چاہتے تھے۔

مگر ابھی انھیں لاہور پہنچے ایک دن گزرا تھا کہ انھیں ڈاکٹر عالم کے ساتھ شعاعوں کے ذریعہ علاج کرنے کا آلہ (Ultraviolet apparatus) لے کر فوراً زیارت لوٹنے کی تاکید کی گئی اور چھ اگست کو وہ یہ آلہ لے کر زیارت پہنچ گئے۔ ڈاکٹر ریاض حسین شاہ نے انھیں بتایا کہ ان کی غیر حاضری میں جناح بہت کمزور ہوگئے اور ان کا بلڈ پریشر بہت گر گیا تھا مگر انجکشن لگانے سے ان کی حالت کچھ بہتر ہوگئی تھی۔

اگلے دن سات اگست 1948 کو عیدالفطر تھی۔ اسی شام برقی شعاعوں سے جناح کے علاج کا آغاز ہوا مگر یہ انھیں موافق نہیں آیا اور ان کے پیروں پر کچھ ورم سا ہوگیا۔

نو اگست کو ڈاکٹروں نے رائے دی کہ زیارت کی بلندی مریض کے حق میں اچھی نہیں اور انھیں کوئٹہ منتقل کر دینا چاہیے۔ جناح پہلے تو 15 اگست سے پہلے سفر کے لیے آمادہ نہیں تھے کیونکہ اسی سال جون میں فیصلہ ہوچکا تھا کہ یوم آزادی 15 کے بجائے 14 اگست کو منایا جائے گا۔ لیکن اپنے معالجین کے اصرار پر وہ 13 اگست کو کوئٹہ جانے پر رضا مند ہوگئے۔

جناح کے زیارت کے قیام کے زمانے کی بات ہے کہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے پوچھا: ’آپ کے بھائی کو کچھ کھانے پر کیسے آمادہ کیا جائے، ان کی خاص پسند کا کوئی کھانا بتائیں۔‘

فاطمہ جناح نے بتایا کہ بمبئی میں ان کے ہاں ایک باورچی ہوا کرتا تھا جو چند ایسے کھانے تیار کرتا تھا کہ بھائی ان کو بڑی رغبت سے کھاتے تھے، لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ باورچی کہیں چلا گیا۔ انھیں یاد تھا کہ وہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کا رہنے والا تھا اور کہا کہ شاید وہاں سے اس کا کچھ اتا پتا مل سکے۔

یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے حکومت پنجاب سے درخواست کی کہ اس باورچی کو تلاش کر کے فوراً زیارت بھجوایا جائے۔ کسی نہ کسی طرح وہ باورچی مل گیا اور اسے فوراً ہی زیارت بھجوا دیا گیا تاہم جناح کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

کھانے کی میز پر انھوں نے اپنے مرغوب کھانے دیکھتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا اور خوش ہو کر خاصا کھانا کھا لیا۔ جناح نے استفسار کیا کہ آج یہ کھانے کس نے بنائے ہیں تو ان کی بہن نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے ہمارے بمبئی والے باورچی کو تلاش کر کے یہاں بھجوایا ہے اور اس نے آپ کی پسند کا کھانا بنایا ہے۔

جناح نے بہن سے پوچھا کہ اس باورچی کو تلاش کرنے اور یہاں بھجوانے کاخرچ کس نے اٹھایا ہے۔ عرض کیا کہ یہ کارنامہ حکومت پنجاب نے انجام دیا ہے، کسی غیر نے تو خرچ نہیں کیا۔ پھرجناح نے باورچی سے متعلق فائل منگوائی اور اس پر لکھا کہ ’گورنر جنرل کی پسند کا باورچی اور کھانا فراہم کرنا حکومت کے کسی ادارے کا کام نہیں ہے۔ خرچ کی تفصیل تیار کی جائے تا کہ میں اسے اپنی جیب سے ادا کرسکوں‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

جناح زیارت میں ایک ماہ قیام کے بعد جب 13 اگست 1948 کی شام کوئٹہ واپس پہنچے تو انھوں نے اپنی معالجوں سے کہا: ’بہت اچھا کیا کہ آپ مجھے یہاں لے آئے۔۔۔ زیارت میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پنجرے میں بند ہوں۔‘

کوئٹہ پہنچنے کے بعد 16 اگست کو ان کے معالجین نے ایک مرتبہ پھر ان کے ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ لیے۔ ایکسرے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جناح کی صحت بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور ٹیسٹ کے نتائج نے بھی اسی رائے کو تقویت دی۔ چنانچہ معالجین نے جناح کو مصروف رکھنے کے لیے ان کو اخبارات کے مطالعہ کی اجازت دے دی اور انھیں بعض دفتری فائلیں نمٹانے سے بھی منع نہیں کیا گیا۔

کوئٹہ پہنچنے کے بعد جناح کی صحت چند روز کے لیے اس قدر سنبھل گئی تھی کہ وہ تھکان محسوس کیے بغیر روزانہ ایک گھنٹہ کام کرنے لگ گئے تھے۔ ان کا معدہ بھی بہتر کام کر رہا تھا، یہاں تک کہ ایک دن انھوں نے ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجود حلوہ پوری تیار کروا کے شوق سے کھائی۔ چند دن بعد انھوں نے ڈاکٹروں کی اجازت سے سگریٹ نوشی بھی شروع کر دی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر کوئی عادی سگریٹ نوش بیماری کے دوران سگریٹ طلب کرے تو یہ اس کی صحت کی جانب لوٹنے کی علامت ہوتا ہے۔

اب ڈاکٹروں نے جناح کی صحت کا مزید جائزہ لیتے ہوئے ان سے گزازش کی کہ انھیں کوئٹہ سے کراچی منتقل ہو جانا چاہیے لیکن جناح سٹریچر پر لیٹے لاچار کیفیت میں گورنر جنرل ہائوس نہیں جانا چاہتے تھے۔

ان سے بار بار درخواست کی گئی تو وہ اس شرط پر کراچی جانے پر آمادہ ہوگئے کہ وہ گورنر جنرل ہاؤس میں نہیں بلکہ ملیر میں نواب آف بہاولپور کی رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔ ان دنوں نواب آف بہاولپور انگلستان میں مقیم تھے۔

جناح سے کہا گیا کہ ان کی قیام گاہ میں رہائش کے لیے ان کو ایک خط تحریر کرنا پڑے گا تو ان کی اصولی پسندی نے انھیں یہ خط تحریر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ مملکت کے گورنر جنرل ہوتے ہوئے اپنی مملکت میں شامل ایک ریاست کے نواب سے کسی قسم کی سہولت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت طلب کریں۔

اگست 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا ایک مرتبہ پھر معائنہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’قائد اعظم کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے یہ امید ظاہر کی کہ جس ریاست کو آپ وجود میں لائے ہیں اسے پوری طرح مستحکم اور استوار کرنے کے لیے بھی دیر تک زندہ رہیں۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ آیا تا کہ میرے جذبات سے وہ غمگین ہو جائیں گے۔ ان کے یہ الفاظ اور ان کا افسردہ اور یاس انگیز لہجہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘

جناح نے ڈاکٹر الٰہی بخش کو مخاطب کرکے کہا: ’آپ کو یاد ہے، جب آپ پہلی بار زیارت آئے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا لیکن اب میرا مرنا جینا برابر ہے۔‘

ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں کہ یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک ایسے شخص کو آبدیدہ دیکھ کر، جسے جذبات سے یکسر عاری اور فولاد کی طرح سخت سمجھا جاتا تھا، ڈاکٹر الٰہی بخش دنگ رہ گئے۔ جناح اس وقت بتدریج روبہ صحت تھے، اس لیے جناح کی مضمحل طبیعت سے انھیں اور بھی حیرانی ہوئی۔ انھوں نے وجہ دریافت کی تو جناح نے فرمایا: ’میں اپنا کام پورا کرچکا ہوں۔‘

ڈاکٹر الٰہی بخش لکھتے ہیں کہ:’اس جواب سے میری الجھن اور بڑھ گئی اور خیال ہوا کہ وہ اصل بات پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں اور جو وجہ انھوں نے بیان کی ہے وہ یونہی ٹالنے کے لیے ہے۔ میں رہ رہ کر سوچتا تھا کہ کیا آج سے پانچ ہفتے پہلے ان کا کام نامکمل تھا اور اب یکایک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ میں یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ کوئی بات ضرور ہے جس نے ان کی جینے کی آرزو مٹا دی ہے۔‘

یہی واقعہ فاطمہ جناح نے بھی تحریر کیا ہے، مگر قدرے مختلف الفاظ میں۔ وہ لکھتی ہیں: ’اگست کے آخری دنوں میں جناح پر اچانک مایوسی کا غلبہ ہو گیا۔ ایک دن میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا ’فاطی۔۔۔ اب مجھے زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں جتنی جلد چلا جاؤں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘

’یہ بدشگونی کے الفاظ تھے۔ میں لرز اٹھی، جیسے میں نے بجلی کے ننگے تار کو چھو لیا ہو۔ پھر بھی میں نے صبر و ضبط سے کام لیا اور کہا: جن! آپ جلد ہی اچھے ہو جائیں گے۔ ڈاکٹروں کو پوری امید ہے۔‘

’میری یہ بات سن کر وہ مسکرائے۔ اس مسکراہٹ میں مرونی چھپی تھی۔ انھوں نے کہا: نہیں۔۔۔ اب میں زندہ رہنا نہیں چاہتا۔‘

یکم ستمبر 1948 کو جناح نے زیارت سے بری فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کے نام ایک خط تحریر کیا جو بدقسمتی سے ان کی آخری تحریر ثابت ہوئج۔ اس خط میں انہوں نے لکھا: ’میں نے آپ کے خط کی ایک نقل قائد اعظم ریلیف فنڈ کے نائب صدر کو بھیج دی ہے اور میں نے اس فنڈ میں سے تین لاکھ روپے کی امداد کی منظوری دے دی ہے جو تھل پروجیکٹ کے مہاجر فوجیوں کی بہبود کے لیے مخصوص ہے۔‘
اسی روز ڈاکٹر الٰہی بخش نے مایوسانہ لہجے میں محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ ان کے بھائی کو ہیمریج ہو گیا ہے اور انھیں فوراً کراچی لے جانا چاہیے کیونکہ کوئٹہ کی بلندی ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اگلے آنے والے دنوں میں جناح کی طبیعت مزید بگڑتی چلی گئی۔ پانچ ستمبر کو ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ ان پر نمونیا کا حملہ بھی ہوا ہے۔
ڈاکٹر الٰہی بخش نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر مرزا ابوالحسن اصفہانی کو لکھا کہ وہ جناح کے لیے چند ڈاکٹروں کو بھجوا دیں۔ ان ڈاکٹروں کے نام ڈاکٹر فیاض علی شاہ نے تجویز کیے تھے۔ اسی دوران ڈاکٹر الٰہی بخش نے کراچی سے ڈاکٹر مستری کو بھی کوئٹہ بلوا لیا مگر اس کے باوجود جناح کی طبیعت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا اور ان کی نقاہت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے جب جناح کے سیکریٹری فرخ امین نے جناح سے کسی کی ملاقات کروانا چاہی تو ڈاکٹر الٰہی بخش نے ان کے کئی بار اصرار کرنے پر بھی یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے لکھا ہے کہ انھیں اس ملاقاتی کا نام نہیں بتایا گیا تھا تاہم اس وقت کے حیدرآباد دکن کے وزیراعظم میر لائق علی نے اپنی کتاب ’ٹریجیڈی آف حیدر آباد‘ کے ایک باب میں جس کا عنوان ج’ناح آن ڈیتھ بیڈ‘ ہے، میں لکھا ہے کہ یہ ملاقاتی وہ خود تھے تاہم اصرار کرنے کے باوجود جناح سے ملاقات میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
دس ستمبر 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ اب جناح کے زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی اور یہ کہ اب وہ فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔
غالباً اسی دن جناح پر بےہوشی کا ایک غلبہ ہوا۔ اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے۔ وہ بڑ بڑا رہے تھے: ’کشمیر۔۔۔ انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو۔۔۔ آئین۔۔۔ میں اسے مکمل کروں گا۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ مہاجرین۔۔۔ انھیں ہر ممکن۔۔۔ مدد دو۔۔۔ پاکستان۔۔۔‘
گیارہ ستمبر 1948 کو جناح کو سٹریچر پر ڈال کر ان کے وائی کنگ طیارے تک پہنچا دیا گیا۔ جب انھیں طیارے تک لے جایا جا رہا تھا تو عملے نے انھیں سلامی دی اور پھر سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جناح نے انتہائی نقاہت کے باوجود فوراً ہی ان کا جواب دیا۔ ان کے ہاتھ کی جنبش سے محسوس ہوتا تھا کہ انھیں بستر مرگ پر بھی نظم و ضبط کے تقاضوں کا مکمل احساس تھا۔

کوئٹہ سے کراچی تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ اس دوران جناح بڑے بے چین رہے۔ انھیں بار بار آکسیجن دی جاتی رہی، یہ فرض کبھی فاطمہ جناح اور کبھی ڈاکٹر الٰہی بخش ادا کرتے رہے۔

ڈاکٹر مستری، نرس ڈنہم، نیول اے ڈی سی لیفٹیننٹ مظہر احمد اور جناح کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری فرخ امین بھی اسی طیارے میں سوار تھے۔ طیارہ جناح کو لے کر سہ پہر سوا چار بجے ماری پور کے ایئر پورٹ پر اترا۔ جناح کی ہدایت پر انھیں لینے کے لیے آنے والوں میں نہ حکومت کا کوئی اہم رکن موجود تھا، نہ ہی ضلعی انتظامیہ ان کی آمد سے باخبر تھی۔ ایئر پورٹ پر ان کا خیر مقدم کرنے والوں میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ کرنل جیفری نولز کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا۔

گورنر جنرل کے سٹاف نے انھیں سٹریچر پر ڈال کر فوجی ایمبولینس میں منتقل کیا۔ فاطمہ جناح اور فلس ڈنہم ان کے ساتھ بیٹھ گئیں جبکہ ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر مستری اور کرنل جیفری جناح کی کیڈیلیک کار میں سوار ہوگئے۔

جناح کی ایمبولینس نے ابھی فقط چار میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اس کا انجن پیٹرول ختم ہونے کے باعث ایک جھٹکے ساتھ بند ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ایمبولینس کے پیچھے پیچھے آنے والی کیڈیلیک کار، سامان بردار ٹرک اور دوسری گاڑیاں بھی رک گئیں۔

قائد کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ راستے میں بلاوجہ ایک لمحہ بھی ضائع کیا جاتا۔ ڈرائیور 20 منٹ تک انجن کو ٹھیک کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ آخر فاطمہ جناح کے حکم پر ملٹری سیکریٹری اپنی کار میں ایک اور ایمبولینس لینے کے لیے روانہ ہوگئے اور ڈاکٹر مستری بھی ان کے ساتھ تھے۔

ادھر ایمبولینس میں شدید حبس کا عالم تھا۔ سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ اس بےچینی پر مستزاد وہ سینکڑوں مکھیاں تھیں جو جناح کے چہرے کے اردگرد منڈلا رہی تھیں اور ان میں انھیں اڑانے کی سکت نہ تھی۔ فاطمہ جناح اور سسٹر ڈنہم باری باری انھیں گتے کے ایک ٹکڑے سے پنکھا جھلتی رہیں۔ ہر لمحہ بڑی اذیت میں گزر رہا تھا۔

کرنل نولز اور ڈاکٹر مستری کو گئے ہوئے بڑی دیر ہوگئی تھی لیکن نہ فوجی ایمبولینس کا انجن درست ہوا اور نہ کوئی اور متبادل انتظام ہوسکا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض بار بار اپنے قائد کی نبض دیکھتے تھے جو بتدریج ڈوب رہی تھی۔ بابائے قوم کو ایمبولینس سے کار میں منتقل کرنا بھی ممکن نہیں تا کیونکہ سٹریچر کار میں رکھا نہیں جاسکتا تھا اور خود جناح میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کار میں بیٹھ یا لیٹ سکتے۔

اس موقع پر امر انتہا تعجب خیز ہے کہ دارالحکومت میں کسی نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی کہ جناح سوا چار بجے ایئر پورٹ پر اترنے کے باوجود ابھی تک گورنر جنرل ہاؤس کیوں نہیں پہنچے، ان کا قافلہ کہاں ہے اور ان کی طبیعت کیسی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جناح کی کراچی آمد راز رکھی گئی تھی مگر کیا واقعی حکومت کے اعلیٰ عہدے داران ان کی آمد سے باخبر نہ تھے؟ کیا کسی کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ اسی صبح گورنر جنرل کا خصوصی طیارہ کوئٹہ بھیجا گیا ہے اور شام میں کسی بھی وقت دارالحکومت میں ان کی آمد متوقع ہے؟

واقفان حال بتاتے ہیں کہ چار ستمبر 1948 کو جب کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی گورنر جنرل کی نازک حالت دیکھ کر کراچی واپس پہنچے تھے تو اسی شام وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ اس اجلاس میں جناح کی بیماری زیر بحث نہ آئی ہو۔

اس کے بعد جب میر لائق علی گورنر جنرل سے ملے بغیر کراچی واپس لوٹ آئے تو انھوں نے غلام محمد کی رہائش گاہ پر لیاقت علی خان ، چوہدری محمد علی اور سر ظفر اللہ خان کو جناح کی انتہائی تشویش ناک حالت سے آگاہ کیا اور بقول میر لائق علی کے ’تمام افراد حیرت زدہ رہ گئے تھے۔‘

اس پس منظر میں جناح کی کراچی آمد سے حکومت کے کار پردازوں کی بے نیازی اور بے خبری تصویر کے کس رخ کی نشاندہی کرتی ہے؟ یہ سوال آج بھی لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان میں انڈیا کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش نے اپنی کتاب ’پاکستان: قیام اور ابتدائی حالات‘ میں بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: ’ان دنوں مقامی ریڈ کراس کے انچارج جمشید مہتا تھے جن کی عزت کراچی کا ہر فرد بشر کرتا تھا۔ بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ مجھے شام کو پیغام ملا کہ ایک آدمی بہت علیل ہے۔ کیا آپ اس کے لیے ایمبولینس بھیج سکتے ہیں؟ یہ واقعہ ساڑھے پانچ بجے شام کا ہے۔‘

خدا خدا کر کے کرنل نولز اور ڈاکٹر مستری ایک دوسری ایمبولینس لے کر واپس آئے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ وہی ایمبولینس ہوگی جس کا ذکر سری پرکاش نے کیا ہے۔

جناح کو سٹریچر پر ڈال کر اس ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں شام چھ بج کر دس منٹ پر وہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔ ایئر پورٹ سے رہائش گاہ تک کا نو میل کا فاصلہ جو زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ میں طے ہوجانا چاہیے تھا تقریباً دو گھنٹے میں طے ہوا۔ یعنی دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی تک اور دو گھنٹے ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک۔

یہ تکلیف دہ سفر جناح نے اس کسمپرسی کے عالم میں کیا کہ ہماری تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور نہ کوئی توجیہہ۔

سری پرکاش نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں تحریر کیا ہے کہ: ’مسٹر جناح کے انتقال کے وقت فرانسیسی سفارت خانے میں کاک ٹیل پارٹی ہو رہی تھی۔ میں نے اس پارٹی میں نواب زادہ لیاقت علی خان سے مسٹر جناح کے آنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ مسٹر جناح سادہ مزاج آدمی ہیں، اس لیے انہوں نے اس کو پسند نہیں کیا کہ ان کی آمد کے وقت ہنگامہ ہو۔‘

گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے کے بعد جناح فقط سوا چار گھنٹے زندہ رہے اور اس دوران وہ تقریباً غنودگی کے عالم میں رہے۔

ڈاکٹروں نے انھیں طاقت کا ایک انجکشن لگایا اور ڈاکٹر الٰہی بخش کے بقول جب انھوں نے ہوش میں آنے پر جناح سے کہا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے تو انھوں نے آہستگی سے کہا: ’نہیں۔۔۔ میں زندہ نہیں رہوں گا۔‘ ڈاکٹر الٰہی بخش کے مطابق یہ ’قائد اعظم‘ محمد علی جناح کے آخری الفاظ تھے۔

ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے لکھا ہے کہ جناح کے آخری الفاظ ’اللہ۔۔۔ پاکستان‘ تھے جبکہ فاطمہ جناح’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں: ’جناح نے دو گھنٹے کی پرسکون اور بے خلل نیند کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں، سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ساتھ بات کرنے کی آخری کوشش کی۔ ان کے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا: فاطی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ۔‘ پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

Address


Telephone

+923041468997

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Cooper Collab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Cooper Collab:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share