
09/06/2025
ماں یا قاتلہ؟ پھول سی بچی کی چیخیں اور انسانیت کا جنازہ
ممتا کا جنازہ
مرادوال تحصیل ملکوال ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک گھر میں، ایک ماں نے اپنی ہی کلی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہاں، وہی ماں جسے رب نے ممتا کا اعلیٰ درجہ دے کر جنت اس کے قدموں کے نیچے رکھی، وہی ماں آج قاتلہ بن گئی۔ اور قتل بھی کس کے کہنے پر؟ ایک مرد کی تسکین کی خاطر، ایک نئی شادی کے مطالبے پر۔
یہ سن کر روح کانپ جاتی ہے کہ نئی شادی کے لیے ہونے والے شوہر نے شرط رکھی: "اس بچی کو مار دو۔"
اور ماں نے، ہاں اسی ماں نے، ممتا کو روندتے ہوئے اپنی گود اجاڑ دی۔ اس کا دل نہ کانپا، ہاتھ نہ لرزے، آنکھیں نہ بھیگیں؟ کیا وہ پل نہیں یاد آئے جب اس بچی نے "امی" کہہ کر پہلی بار پکارا ہوگا؟ کیا راتوں کو جاگ کر اسے دودھ پلانے کے لمحات مٹی ہو گئے تھے؟
ہمیں رکنا ہوگا۔
ہمیں سوچنا ہوگا۔
ہمیں ایسے معاشرتی زہر کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔
ورنہ کل نہ جانے کتنی اور مائیں، کتنی اور گودیں، کتنی اور کلیاں اس ہوس کی آگ میں جلا دی جائیں گی۔
منڈی بہاؤالدین کی فضا سوگوار ہے۔ وہاں کی ہوائیں اب بھی ایک پھول سی بچی کی سسکیوں سے لرز رہی ہیں۔ آٹھ سال کی وہ ننھی کلی، جو گڑیا کھیلنے کی عمر میں تھی، جسے زندگی کی الف بے بھی پوری نہ آتی تھی، جس کی آنکھوں میں ابھی خواب جاگ رہے تھے... وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ اور اس کی قاتلہ... کوئی اور نہیں، اس کی اپنی ماں نکلی۔
جی ہاں! یہ کوئی افسانہ نہیں، ایک لرزہ خیز حقیقت ہے۔ ایک ماں نے شادی کی خواہش میں اپنی ہی بیٹی کو مار ڈالا۔ اس نے پہلے اغوا کا ڈرامہ رچایا، لوگوں سے ہمدردی سمیٹی، پولیس کو دھوکہ دیا، مگر سچ چھپ نہ سکا۔ آخرکار تفتیش نے جب حقیقت کا پردہ چاک کیا تو جو منظر سامنے آیا، اس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔
ذرا تصور کریں: وہ ننھی بچی جو ہر دن اپنی ماں سے لپٹ کر سوتی تھی، جو ہر تکلیف میں “امی” کہہ کر پکارتی تھی، وہی ماں اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر گئی۔ صرف اس لیے کہ وہ اپنی نئی زندگی میں اس کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔
کیا اہل زمیں اس قدر مردہ ہوچکے؟ کیا ماں جیسا عظیم رشتہ بھی خواہشات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے؟ کیا ایک عورت، جو نو ماہ پیٹ میں بچہ پالتی ہے، اب خود اپنے خون سے ہاتھ رنگنے لگی ہے؟
یہ صرف ایک بچی کا قتل نہیں، یہ ماں کے تقدس، ممتا کے وقار، اور انسانیت کے دل پر کاری ضرب ہے۔ آج اس ماں کے عمل نے حضرت مریم، حضرت خدیجہ، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن جیسی مقدس ماؤں کی عظمت کو بھی رُلا دیا ہے۔
ہمیں رک کر سوچنا ہوگا۔ ہمیں اپنے سماج کے اس زوال کو پہچاننا ہوگا جہاں مادّی خواہشیں خون سے زیادہ قیمتی ہو گئی ہیں۔
آئیں! اس واقعے کو صرف ایک خبر نہ سمجھیں، بلکہ اسے ضمیر کی عدالت میں پیش کریں، اسے معاشرے کے آئینے میں دیکھیں، اور انسانیت کے بچاؤ کے لیے آواز بلند کریں۔