Adnan Younas - Writer

Adnan Younas - Writer Hi, my name is Adnan Younas and I am a professional writer with over 10 years of experience.

مولانا روم سے 5 سوال پوچھے گئے، مولانا روم کے جواب غور طلب ہیں۔سوال ۔ 1 ۔ خوف کس شے کا نام ہے ؟جواب ۔ غیرمتوقع صورتِ حال...
21/10/2024

مولانا روم سے 5 سوال پوچھے گئے، مولانا روم کے جواب غور طلب ہیں۔

سوال ۔ 1 ۔ خوف کس شے کا نام ہے ؟
جواب ۔ غیرمتوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے ۔ اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو وہ ایک مُہِم جُوئی میں تبدیل ہو جاتا ہے
‏سوال ۔ 2 ۔ حَسَد کِسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ دوسروں میں خیر و خُوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے ۔ اگر اِس خوبی کو تسلیم کر لیں تو یہ رَشک اور کشَف یعنی حوصلہ افزائی بن کر ہمارے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
‏سوال ۔ 3 ۔ غُصہ کس بلا کا نام ہے ؟
جواب ۔ جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے ۔ اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غُصہ ہے ۔ اگر کوئی تسلیم کر لے کہ یہ امر اُس کے قابو سے باہر ہے تو غصہ کی جگہ عَفو ۔ درگذر اور تحَمّل لے لیتے ہیں
‏سوال ۔ 4۔ نفرت کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ کسی شخص کو جیسا وہ ہے ویسا تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے ۔ اگر ہم غیر مشروط طور پر اُسے تسلیم کر لیں تو یہ محبت میں تبدیل ہو سکتا ہے.
‏سوال ۔ 5 ۔ زہر کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ” زہر“ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ہو ۔ انانیت ہو ۔ دولت ہو ۔ بھوک ہو ۔ لالچ ہو ۔ سُستی یا کاہلی ہو ۔ عزم و ہِمت ہو ۔ نفرت ہو یا کچھ بھی ہو

17/10/2024

ابھی تو میں جوان ہوں

اپنے بوڑھے ھونے کا احساس اُس وقت ھوتا ھے جب ھم اپنے کسی بوڑھے کلاس فیلو کو دیکھیں، ورنہ تو خود کو بندہ ہمیشہ جوان *کاکا* ھی سمجھتا رھتا ھے۔
کیا کبھی آپ نے اپنے کسی ھم عمر کو اچانک دیکھ کر سوچا ھے کہ یہ کیسا لگ رہا ھے؟ کِتنا بوڑھا ھو گیا ھے یہ تو؟
اگر آپ کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ھُوا تو درج ذیل واقعہ کو ضرور پڑھیئے:
میرا نام ماریہ ھے اور میں حال ھی میں اِس شہر میں منتقل ھوئی ھوں۔ ایک دن میں شہر کے ایک ڈینٹل سرجن کے کلینک میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ کلینک کی دیوار پر ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد آویزاں تھیں۔ وقت گُزاری کے لیئے انہیں پڑھتے ہوئے میری نظر ڈاکٹر کے مکمل نام پر پڑی تو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔
یہ تو وُھی اُونچا لمبا، چمک دار سیاہ بالوں والا، خُوش شکل، خُوش لباس اور انتہائی ہینڈسم میرا کلاس فیلو تھا۔
میں اپنی باری پر اندر گئی تو ڈاکٹر کو دیکھتے ھی میرے سارے جذبات بھاپ بن کر بھَک سے اُڑ گئے۔
یہ ڈاکٹر سر سے گنجا، کانوں کے اوپر سلیٹی رنگ کے بالوں کی جھالر، چہرے پر جھُریاں ھی جھُریاں، باہر کو نکلا ھُوا مٹکے جیسا پیٹ اور کمر اُس سے کہیں زیادہ جھُکی ھوئی جتنی میرے کئی دیگر ھم عمر دوستوں کی تھی جنہیں میں جانتی تھی۔
ڈاکٹر نے میرے دانتوں کا معائنہ کر لیا تو میں نے پوچھا:
"ڈاکٹر صاحب، کیا آپ فلاں شہر کے فلاں کالج میں بھی پڑھتے رھے ہیں؟"
کالج کا نام سُنتے ھی ڈاکٹر کا لب و لہجہ ھی بدل گیا۔ جذبات کو بمشکل قابو میں رکھتے ھوئے اونچی آواز میں بولا:
"جی جی، کیا یاد دلا دیا آپ نے! میں اُسی کالج سے ھی تو پڑھا ھوں۔"
میں نے پوچھا:
"آپ نے کِس سال میں وہاں سے گریجوایٹ کیا تھا؟"
ایک بار پھر ڈاکٹر نے چہکتے ھوئے کہا:
"میں نے 1975 میں وہاں سے گریجوایشن کی تھی، لیکن آپ کیوں پوچھ رھی ہیں؟"
میں نے اُسے بتایا کہ ان دنوں میں بھی اُسی کلاس میں ھُوا کرتی تھی۔
اُس بُڈھے، بد شکل، گنجے، بھالو جیسی توند والے موٹے، اُجڑی ہوئی منحوس شکل والے بے شرم اور بے حیا ڈاکٹر نے میری شکل کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا:

"کونسا مضمون پڑھایا کرتی تھیں آپ؟"
---------------
اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

زندگی جینا شروع کرو ایک انتہائی دلچسپ اور متاثر کن تحریر ۔ ایک دفعہ ضرور پڑھیں ان شاء اللہ آپ کا زندگی جینے کے بارے میں ...
16/10/2024

زندگی جینا شروع کرو
ایک انتہائی دلچسپ اور متاثر کن تحریر ۔ ایک دفعہ ضرور پڑھیں ان شاء اللہ آپ کا زندگی جینے کے بارے میں کچھ نہ کچھ نظریہ ضرور تبدیل ہوگا۔

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال قبل ملا تو وہ ایک شیخی خور انسان تھا‘ وہ لمبی لمبی ڈینگیں ماررہا تھا ’’میں نے لانگ آئی لینڈ میں پانچ ملین ڈالر کا فلیٹ خرید لیا‘ میں نے نئی فراری بک کروا دی‘ میں چھٹیوں میں بچوں کو ہونو لولو لے گیا‘ میں نے پچھلے سال ایدھی فائونڈیشن کو پانچ کروڑ روپے کا چیک بھجوا دیا اورآئی ہیٹ دس کنٹری‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ اس کی باتوں میں شیخی‘ ڈینگ‘ بناوٹ اور نفرت سارے عناصر موجود تھے‘ میں آدھ گھنٹے میں اکتا گیا‘
مجھے اس کی رولیکس واچ‘ گلے میں دس تولے کی زنجیر‘ بلیک اطالوی سوٹ‘ ہوانا کا سیگار اور گوچی کے جوتے بھی تنگ کر رہے تھے‘ وہ سر سے لے کر پائوں تک دولت کا بدبودار اشتہار تھا‘ وہ میرے دفتر آیا تو وہ پانی کی اپنی بوتل‘ کافی کا اپنا مگ اور اپنے ٹشو پیپر ساتھ لے کر آیا‘ وہ ہمارا منرل واٹر تک پینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ وہ ہاتھ ملانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا‘ ہاتھ باہر نکالتا تھا اور دونوں ہاتھ رگڑتا تھا‘ میں نے تھوڑا سا غور کیا تو پتا چلا اس نے جیب میں جراثیم کش کیمیکل رکھا ہوا ہے‘ وہ ہاتھ ملانے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا ‘ کیمیکل کی ٹیوب دبا کر مواد لگاتا تھا اور ہاتھ باہر نکال کر دونوں ہاتھ رگڑتا تھا اور اپنے ہاتھ اجنبی جراثیموں سے محفوظ کر لیتا تھا‘ وہ میرے دفتر کو بھی ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا‘
وہ آنکھیں چڑھا کر دائیں بائیں دیکھتا اور پھر برا سا منہ بناتا‘ وہ غیبت کا بھرا ہوا ڈرم بھی تھا‘ میں جس شخص کا نام لیتا تھا وہ اس کے خلاف مقدمے کھول کر بیٹھ جاتا تھا‘ میں جس مقام‘ جس شہر اور جس ملک کا تذکرہ کرتا تھا وہ اس کی منفی باتیں بیان کرنے لگتا ‘ وہ حس مزاح سے بھی عاری تھا‘ میں نے اسے جو بھی لطیفہ سنایا اس نے برا سا منہ بنا کر مجھے شرمندہ کر دیا‘ میں آدھے گھنٹے میں اس سے اکتا گیا‘ قدرت کا غیبی ہاتھ آیا‘ اس کا ’’گولڈ پلیٹڈ‘‘ موبائل فون بجا‘ وہ فون اٹھا کر کونے میں گیا اور فون ختم ہوتے ہی افراتفری میں میرے دفتر سے نکل گیا‘ میں نے چھت کی طرف منہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ وہ چلا گیا لیکن پندرہ سال ہمارا ای میل ‘ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر رابطہ رہا‘ یہ رابطہ بھی عید‘ شب برات یا یوم آزادی پر مبارک باد اور شکریے تک محدود تھا‘ مجھے بڑے عرصے بعد پتا چلا مبارک باد کی یہ ’’ای میلز‘‘ بھی وہ نہیں بھجواتا تھا‘ اس نے اپنے لیپ ٹاپ میں مبارک باد کا سافٹ ویئر لگا رکھا تھا‘ یہ سافٹ ویئر فہرست میں موجود لوگوں کو خود بخود پیغام بھجوا دیتا تھا‘ اس کے ایس ایم ایس بھی خود کار نظام کے تحت دنیا بھر میں پھیلے لوگوں تک پہنچ جاتے تھے۔
ہم پندرہ سال نہیں ملے‘ پندرہ سال طویل عرصہ ہوتا ہے‘ آپ اس عرصے میں بڑے سے بڑے حادثے‘ بڑے سے بڑے سانحے بھول جاتے ہیں‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ پندرہ سال کوئی زبان نہ بولے تو 95 فیصد لفظ اس کی یاد داشت سے محو ہو جاتے ہیں‘ ہم پندرہ سال نہیں ملے لیکن میں اس کے باوجود اسے بھول نہ سکا‘ میں جب بھی رولیکس گھڑی دیکھتا ‘ میرے سامنے کوئی لانگ آئی لینڈ کا نام لیتا یا میں کسی شخص کو کیمیکل سے ہاتھ صاف کرتے‘ فرنچ منرل واٹر پیتے یا پھر شیخی مارتے دیکھتا تو مجھے بے اختیار وہ یاد آ جاتا اور میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکتا مگرکچھ عرصہ قبل پندرہ سال بعد اس سے دوسری ملاقات ہوئی تو وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ اس نے جینز کی عام سی پینٹ‘ ڈھیلا سا سویٹر‘ لمبا کوٹ‘ لانگ شوز اور سر پر اونی ٹوپی پہن رکھی تھی‘ وہ مسکرا بھی رہا تھا‘ لطیفے بھی سنا رہا تھا اور قہقہے بھی لگا رہا تھا‘ وہ اٹھارہ سو سی سی کی عام سی گاڑی سے اترا تھا‘ اس نے میرے دفتر کی گھٹیا چائے بھی پی لی اور وہ ہر شخص سے بلا خوف ہاتھ بھی ملا رہا تھا‘ میرے دفتر میں درجنوں لوگ آتے ہیں‘ میں نے آج تک کسی شخص کو اپنے چپڑاسی سے ہاتھ ملاتے نہیں دیکھا لیکن وہ چپڑاسی کے لیے بھی کھڑا ہوا‘ اس نے اس سے ہاتھ بھی ملایا اور اس کی خیریت بھی پوچھی‘ وہ ملک کے بارے میں بھی مثبت رائے کا اظہار کر رہا تھا‘
وہ دوگھنٹے میرے ساتھ بیٹھا رہا اور ان دو گھنٹوں میں اس نے کسی کی غیبت کی‘ کسی کے خلاف منفی فقرہ بولا‘ کوئی شیخی بھگاری‘ کوئی ڈینگ ماری اور نہ ہی اپنی کسی گاڑی‘ سفر اور فلیٹ کا ذکر کیا‘ میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’آپ کی کمپنی کیسی چل رہی ہے؟‘‘ اس کے جواب نے حیران کر دیا‘اس کا کہنا تھا‘ کمپنی کی گروتھ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ ہمیں امید ہے یہ اگلے سال امریکا کی پہلی ہزار کمپنیوں میں آ جائے گی‘ ہماری ملاقات کے دوران نماز کا وقت آیا تو وہ اٹھا‘ جائے نماز بچھائی اور نماز ادا کر کے واپس آ گیا‘ اس نے بتایا وہ دن میں دو بار وضو کرتا ہے اور یہ دو وضو پورا دن گزار دیتے ہیں‘میں اس کایا پلٹ پر بہت حیران تھا‘ میں اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکا تو میں نے اس کایا پلٹ کے بارے میں پوچھ لیا‘ وہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ’’ بھائی جاوید یہ سب میری زندگی کے دس دنوں کا کمال ہے‘
وہ دس دن آئے اور انہوں نے حیات کا سارا پیٹرن بدل دیا‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’مجھے ایک دن ٹریڈ مل پر بھاگتے ہوئے پیٹ میں درد ہوا‘ میں ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے دوا دی لیکن مجھے آرام نہ آیا‘ میں اگلے دن ہسپتال چلاگیا‘ ڈاکٹر نے معائنہ کیا‘ خون اور پیشاب کے نمونے لیے‘ یہ نمونے لیبارٹری بھجوا دیے‘ خون کے نمونوں کے نتائج آئے تو پائوں کے نیچے سے زمین سرک گئی‘ میں لبلبے کے کینسر میں مبتلا تھا‘ میرے پاس زیادہ وقت نہیں تھا‘ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا‘ میں ہسپتال کے لان میں بینچ پر بیٹھ گیا اور حسرت سے دنیا کو دیکھنے لگا‘زندگی کے پیچھے زندگی بھاگ رہی تھی مگر میں اداس تھا‘ میرے اندر گہرائی میں کوئی چیز ٹوٹ رہی تھی‘ مجھے محسوس ہوا میری رگوں میں لہو نہیں کرچیاں ہیں اور یہ کرچیاں دل کی ہر دھک کے ساتھ آگے سرک رہی ہیں‘ میں بینچ سے اٹھا‘ اپنا موبائل فون توڑا‘
بینک سے پچاس ہزار ڈالر نکلوائے‘ اپنا پرس‘ بیگ اور لیپ ٹاپ گاڑی میں رکھا‘ گاڑی گھر بھجوائی‘ ائیر پورٹ گیا اور ٹکٹ خرید کر فیچی آئی لینڈ چلا گیا‘ میرا خیال تھا میرے پاس صرف دو مہینے ہیں اور میں نے ان دو مہینوں میں پوری زندگی گزارنی ہے‘میں نے زندگی میں پہلی بار ٹینٹ خریدا اور میں یہ ٹینٹ لے کر جنگلوں میں نکل گیا‘ میں نے چار دن جنگلوں‘ جھیلوں‘ آبشاروں اور سمندر کے اداس کناروں پر گزارے‘ میں اس کے بعد شہر کی رونق میں گم ہوگیا‘ میں نوجوانوں کے ساتھ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ڈانس کرتا‘ سڑک کے کنارے سٹالوں سے برگر خرید کر کھاتا‘صبح صادق کے وقت مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا اور سورج کو اپنے سامنے اگتا ہوا دیکھتا‘ میں ننگے پائوں ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا‘ میں لہروں کو ابھرتے‘ ساحل سے ٹکراتے اور واپس جاتے دیکھتا‘ میں اپنے پائوں تلے ریت کو کھسکتے ہوئے محسوس کرتا‘ میں درختوں میں روشنی کے بنتے بگڑتے سائے بھی دیکھتا‘ میں نے زندگی میں پہلی بار صدائوں کے‘ آوازوں کے‘
گرتی ہوئی آبشاروں کے اور دوڑتے اڑتے پرندوں کے پروں میں بندھی زندگی دیکھی‘ میں نے زندگی میں پہلی بار زندگی کو محسوس کیا‘ میں پانی بھی پیتا تھا تو میں حلق سے لے کر معدے تک اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا تھا‘ میں کھاتا تھا تومیں کھانے میں چھپے تمام ذائقے محسوس کرتا تھا‘ میں آنکھیں بند کرتا تھا تو اندھیرے میں چھپے رنگ محسوس کرتا تھا‘ میں اجنبیوں سے ملتا تھا تو مجھے ان کی اچھائیاں نظر آتی تھیں‘ میں اپنے دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھتا تھا تو مجھے ہر چیز‘ ہر منظر اچھا لگتا تھا‘ مجھے زندگی میں پہلی بار دنیا کی کوئی برائی برائی‘ کوئی خامی خامی اور کوئی خرابی خرابی محسوس نہ ہوئی‘ مجھے دنیا ایک خوب صورت جزیرہ‘ ایک نعمت محسوس ہوئی‘ میں دس دن اس کیفیت میں رہا‘ میں نے دسویں دن اپنی بیوی کو فون کیا‘ وہ بہت پریشان تھی‘ وہ لوگ مجھے پوری دنیا میں ڈھونڈ رہے تھے‘
میری بیوی نے انکشاف کیا ’’ تمہاری میڈیکل رپورٹ غلط تھی‘ ہسپتال نے خون کے نمونے تین مختلف لیبارٹریوں میں بھجوائے تھے‘ پہلی رپورٹ میں لبلبے کا کینسر نکلا جب کہ دوسری دونوں رپورٹیں نارمل ہیں‘ ڈاکٹر دوبارہ خون کے نمونے لینا چاہتے ہیں‘‘ میں یہ سن کر حیران رہ گیا‘ میں سیدھا فیچی کے ہسپتال گیا‘ خون دیا‘ رپورٹ آئی تو میں اس میں بھی نارمل تھا‘ میں نے شکر ادا کیا اور امریکا واپس چلا گیا‘‘۔
وہ دوبارہ بولا ’’میں آج یہ سمجھتا ہوں‘ وہ رپورٹ قدرت کی طرف سے ’’ویک اپ کال‘‘ تھی‘مجھے اللہ تعالیٰ زندگی کی حقیقت بتانا چاہتا تھا اور میں یہ حقیقت جان گیا‘ میں آج یہ سمجھتا ہوں آپ جب تک زندگی کے ہر لمحے کو آخری سمجھ کر زندگی نہیں گزارتے آپ اس وقت تک زندگی کو اس کے اصل رنگوں میں محسوس نہیں کر سکتے‘ آپ کو اس وقت تک زندگی محسوس نہیں ہو سکتی‘‘۔
(تحریر جاوید چودھری)

یہ ایک انتہائی دلچسپ اور متاثر کن تحریر تھی۔اس شخص نے ان دو مہینوں میں جو کچھ کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شخص نے زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس شخص نے فطرت کے قریب ہو کر، اپنی تمام حواس کو استعمال کر کے اور زندگی کے لمحات کو محسوس کر کے ایک نئی دنیا دریافت کی ہے۔
اس شخص نے جو کچھ سیکھا ہے، اس سے ہم سب کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
• زندگی کو سادگی سے جِیئیں: اس شخص نے سادہ زندگی گزار کر اس کا لطف اٹھایا۔ اس شخص نے فطرت کے قریب ہو کر اس کی خوبصورتی کو محسوس کیا۔
• ہر لمحے کو جیئیں: اس شخص نے ہر لمحے کو پوری توجہ سے جیا۔ اس نے کھانا کھاتے ہوئے، پانی پیتے ہوئے، اور فطرت کو دیکھتے ہوئے ہر لمحے کا لطف اٹھایا۔ آپ بھی نوالہ منہ میں لیں اور اللہ کا ہر نوالے پر شکر ادا کریں
• ہر چیز میں اچھائی تلاش کریں:اس نے لوگوں اور دنیا میں اچھائی تلاش کی اور اسے دیکھا۔
• زندگی کی قدر کریں:اس نے زندگی کی قدر کی اور اسے ایک نعمت کے طور پر دیکھا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیشہ خوش رہیں تو آپ یہ کام کر سکتے ہیں:
• فطرت کے قریب جائیں: ہفتے میں ایک دن فطرت کے قریب جانے کی کوشش کریں۔ آپ پارک میں جا سکتے ہیں، جنگل میں جا سکتے ہیں، یا ساحل سمندر پر جا سکتے ہیں۔
• نئی چیزیں سیکھیں: نئی چیزیں سیکھنے سے آپ کا دماغ فعال رہتا ہے اور آپ بور نہیں ہوتے۔
• نئے لوگوں سے ملیں: نئے لوگوں سے ملنے سے آپ کے دوستوں کا دائرہ بڑھتا ہے اور آپ کی زندگی میں خوشی آتی ہے۔
• اپنی پسند کی چیزیں کریں: آپ کو جو کام پسند ہے، اسے کریں۔ اس سے آپ خوش رہیں گے۔
• مکمل نیند لیں: کافی نیند لینا بہت ضروری ہے۔
• کھیلوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں: ورزش کرنے سے آپ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہیں گے۔
• اپنے آپ سے محبت کریں: اپنے آپ سے محبت کرنا بہت ضروری ہے۔
• اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں: اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے سے آپ کو زندگی میں ایک مقصد ملے گا۔

• شکرگزاری : ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو۔ بندوں کا شکر گزار بنو۔ جو بندو کا شکر گزار نہیں وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں۔شکر اور احسان مندی کی ایک فہرست بنائیں۔جو پابندی سے اس کی مشق کرتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔
• معاف کر دینا: دوسروں کا معاف کردیا کریں۔ لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربِّ کریم کو بہت پسند ہے۔اگر آپ ایسا کریں گیں تو آپ کی زندگی پرسکون ہوجائے گی۔

• بانٹنے والے بن جاؤ: اگر ہوسکے تو اپنے مال میں سے کچھ حصہ مختص کرکے لوگوں کی مدد کریں ان شاء اللہ اس سے آپ کو جو خوشی نصیب ہوگی اس کااحساس آپ خود محسوس کریں گے اور بنانٹنے کا جذبہ بیدار ہوگا۔ اگر مال سے خوش نہیں کرسکتے تو لوگوں کے لئے آسانیاں اور خوشیا ں بانٹنے کا سامان بنیں۔

یہ صرف چند تجاویز ہیں جو آپ خوش رہنے کے لیے کر سکتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں خوشی کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں، وہ کر سکتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ خود کو خوش رکھیں۔

23/09/2024

آپ کے حالات جیسے بھی ہیں مگر یقین کریں لاکھوں لوگ آپ جیسی زندگی گزارنے کو بھی ترس رہے ہیں ہر وقت اللّه کی ذات کا شکر ادا کرتے رہیں.
حدیث شریف میں بھی ہمارے پیارے آخری رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
(دنیاوی معاملے میں اپنے حسب نسب میں ) تم اپنے سے نیچے والے کو دیکھو ، اپنے سے اوپر والے (امیر کبیر اور صاحب ثروت انسان ) کو نہ دیکھو۔ (کیونکہ) یہ عمل اس کا باعث بنے گا کہ تم اللہ کی نعمت کی ناقدری کرنے لگ جاؤ گے۔
الحمد للہ

ایک تصویر مکمل کہانی۔ اے اللہ ہم کمزور ہیں تو طاقتور ہے۔ غزہ کے مظلوموں کی مدد فرما۔ آمین
12/06/2024

ایک تصویر مکمل کہانی۔ اے اللہ ہم کمزور ہیں تو طاقتور ہے۔ غزہ کے مظلوموں کی مدد فرما۔ آمین

آخری سانسیں لیتے مریضوں کی آخری پانچ خواہشاتگارڈین اخبار کی ایک ریسرچ  کے مطابق ‘ایک رپورٹر نے آخری سانس لیتے ہوئے مریضو...
16/04/2024

آخری سانسیں لیتے مریضوں کی آخری پانچ خواہشات

گارڈین اخبار کی ایک ریسرچ کے مطابق ‘ایک رپورٹر نے آخری سانس لیتے ہوئے مریضوں کی آخری خواہشات جمع کیں‘ یہ بے شمار مرتے ہوئے لوگوں سے ملا اور ان ملاقاتوں کی روشنی میں اس نے اپنی ریسرچ مکمل کی‘ ریسرچ کے مطابق مرنے والوں میں پانچ خواہشیں ’’ مشترک‘‘ تھیں‘
پہلے نمبر پر اکثر کا کہنا تھا ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں جو عنایت کیا تھا‘ ہم اسے فراموش کر کے ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہے جو ہمارے نصیب میں نہیں تھیں‘اللہ تعالیٰ اگر ہماری زندگی میں اضافہ کر دے یا یہ ہمیں دوبارہ زندگی دے دے تو ہم صرف ان نعمتوں کو انجوائے کریں گے جو ہمیں حاصل ہیں‘ ہم زیادہ کی بجائے کم پر خوش رہیں گے‘‘
دوسرا ان کا کہنا تھا‘ ہم نے پوری زندگی لوگوں کو ناراض کرتے اور لوگوں سے ناراض ہوتے گزار دی‘ ہم بچپن میں اپنے والدین‘ اپنے ہمسایوں‘ اپنے کلاس فیلوز اور اپنے اساتذہ کو تنگ کرتے تھے‘ ہم جوانی میں لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے اور ہم ادھیڑ عمر ہو کر اپنے ماتحتوں کو تکلیف اور سینئرز کو چکر دیتے رہے‘ ہم بچپن میں دوسروں کے ٹائر کی بلاوجہ ہوا نکال دیتے تھے ۔‘ دوسروں کی گاڑیوں پر خراشیں لگا دیتے تھے اور شہد کے چھتوں پر پتھر مار دیتے تھے‘ ہم بڑے ہوئے تو بہن بھائیوں اور بیویوں کے حق مار کر بیٹھے رہے‘ ہم لوگوں پر بلاتصدیق الزام لگاتے رہے‘ ہم نے زندگی میں بے شمار لوگوں کے کیریئر تباہ کیے‘ ہم اہل لوگوں کی پروموشن روک کر بیٹھے رہتے تھے اور ہم نااہل لوگوں کو پروموٹ کرتے تھے‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی مل جائے تو ہم عمر بھر کسی کو تکلیف دیں گے اور نہ ہی کسی سے تکلیف لیں گے‘ ہم ناراض ہوں گے اور نہ ہی کسی کو ناراض کریں گے‘‘
زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگوں کا تیسرے نمبر پر یہ بھی کہنا تھا‘ ہماری مذہب کے بارے میں اپروچ بھی غلط تھی‘ ہم زندگی بھر لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے رہے‘ ہم انہیں دوزخی یا جنتی قرار دیتے رہے‘ جو مسلمان تھے وہباقی مذاہب کے لوگوں کو کافر سمجھتے رہے اور اگر یہودی اور عیسائی تھے توان کا کہناتھا ہم زندگی بھر مسلمانوں کو برا سمجھتے رہے‘ ہم آج جب زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے دنیا کا ہر شخص ایک ہی جگہ سے دنیا میں آتا ہے اور وہ ایک ہی جگہ واپس جاتا ہے‘ ہم ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور قبر کے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں‘ ہمیں اگر آج دوبارہ زندگی مل جائے یا اللہ تعالیٰ ہماری عمر میں اضافہ کر دے تو ہم مذہب کو کبھی تقسیم کا ذریعہ نہیں بنائیں گے‘ ہم لوگوں کو آپس میں توڑیں گے نہیں‘ جوڑیں گے‘ ہم دنیا بھر کے مذاہب سے اچھی عادتیں‘ اچھی باتیں کشید کریں گے اور اپنے مذہب کے اندر رہتے ہوئے دوسروں کے مذاہب کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ بلکہ ان کے مذہبی جذبات کا احترام کریں گے۔ ایک ایسا مذہب جس میں تمام لوگ اپنے اپنے عقائد پر کاربند رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور دنیا میں مذہب کی بنیاد پر کوئی جنگ نہ ہو‘
آخری سانسیں گنتے لوگوں کا چوتھے نمبر پر کہنا تھا‘ ہم نے زندگی بھر فضول وقت ضائع کیا‘ ہم پوری زندگی بستر پر لیٹ کر چھت ناپتے رہے‘ کرسیوں پر بیٹھ کر جمائیاں لیتے رہے اور ساحلوں کی ریت پر لیٹ کر خارش کرتے رہے‘ ہم نے اپنی دو تہائی زندگی فضول ضائع کر دی‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی ملے تو ہم زندگی کے ایک ایک لمحے کو استعمال کریں گے‘ ہم کم سوئیں گے‘ کم کھائیں گے اور کم بولیں گے‘ ہم دنیا میں ایسے کام کریں گے جو دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو آسان بناتے ہوں‘ جو محروم لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے ہوں وہ کام کریں گے۔
اور زندگی کی آخری سیڑھی پر بیٹھے لوگوں آخر میں یہ کہنا تھا‘ ہم عمر بھر پیسہ خرچ کرتے رہے لیکن ہم اس کے باوجود اپنی کمائی کا صرف 30 فیصد یا اس سے بھی بہت کم خرچ کر سکے‘ ہم اب چند دنوں میں دوزخ یا جنت میں ہوں گے لیکن ہماری کمائی کا ستر فیصد حصہ بینکوں میں ہو گایا پھر یہ دولت ہماری نالائق اولاد کو ترکے میں مل جائے گی‘ ہمیں اگر دوبارہ زندگی ملی تو ہم اپنی دولت کا ستر فیصد حصہ ویلفیئر میں اور غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے‘ ہم مرنے سے قبل اپنی رقم چیریٹی کر جائیں گے۔
یہ مرنے والے لوگوں کی زندگی کی پانچ آخری خواہشات کا حاصل تھا‘ یہ زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے پانچ راز بھی ہیں لیکن انسانوں کو یہ راز زندگی میں سمجھ نہیں آتے‘ ہم انسان یہ راز اس وقت سمجھتے ہیں جب ہم موت کی دہلیز پر کھڑے ہوتے ہیں‘ جب ہمارے ہاتھ سے زندگی کی نعمت نکل جاتی ہے‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ اس کی آنکھ اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کی آنکھیں مستقل طور پر بند نہیں ہو جاتیں اور ہم میں سے زیادہ تر لوگ آنکھیں کھولنے کے لیے آنکھوں کے بند ہونے کاانتظار کرتے ہیں۔

روزانہ کا آدھا منٹ آپ کو مستقبل میں ناقابل یقین فائدہ دے سکتا ہےPost Date 9-Sept-2020نوٹ:۔ یہ کام بالکل فری ہے آپ کا ایک...
09/01/2024

روزانہ کا آدھا منٹ آپ کو مستقبل میں ناقابل یقین فائدہ دے سکتا ہے
Post Date 9-Sept-2020
نوٹ:۔ یہ کام بالکل فری ہے آپ کا ایک روپیہ بھی نہیں لگے گا۔ ہاں روزانہ آپ کو آدھے منٹ کے لئے ایک دفعہ ایپ کھول کر مائننگ کو دوبارہ سٹارٹ کرنا ہوگا۔ یہ دنیا کی واحد ڈیجیٹل کرنسی ہے جو سمارٹ فون سے مائن ہوتی ہے۔

نقصان ہونے کے امکانات -کوئی بھی نہیں
فائدہ ہونے کے امکانات - بالکل ہیں

تحریر
دوستو! مارکیٹ میں ایک نئی پائی نیٹ ورک کرپٹو کرنسی لانچ ہونے جا رہی ہے جو بالکل BTC یعنی بٹ کوائن کی ہی طرح سٹارٹ لے رہی ہے۔2009 میں BTC کرپٹو کرنسی نے بھی ایسے ہی فری مائننگ سے سٹارٹ لیا تھا اور اس وقت $ 0.003 ڈالر اس کے ایک کوائن کا ریٹ تھا۔
اور آج اسی کوائن کا ریٹ $11900 ڈالر ہے۔ یعنی ایک بٹ کوائن تقریبا 20 لاکھ روپے کا ہے۔
پائی کوائن بھی 14 مارچ 2019 سے فری مائننگ سٹارٹ کئے ہوئے ہے۔ اور مزید تقریباً 6 ماہ اور فری مائننگ ہوتی رہے گی۔ لیکن 6 ماہ بعد اس میں جوائننگز فری نہیں ہو گی۔ یعنی آپ کو اس کو جوائن کرنے کے لئے پیسے دینے ہوں گے۔ میں یہ ایپ تقریبا 3 ماہ سے استعمال کررہا ہوں۔

یہ دنیا کی واحد کرپٹو کرنسی ہے جو سمارٹ فون سے مائن ہوسکتی ہے۔ اس آٹو مائننگ سسٹم میں آپ کو صرف ایک سافٹ ویئر پلے سٹور سے فری ڈاؤن لوڈ کرنا ہے اور ہر 24 گھنٹے بعد صرف ایک بار ایک بٹن دبا کہ اگلے 24 گھنٹے کے لئے مائننگ شروع کر لینی ہے۔
اس طرح آپ ہر روز 6 فری کوائن مائن کرلیں گے۔ یعنی چار گھنٹے میں ایک کوائن۔ لیکن آپ یہ ریٹ اپنے دوستوں کو انوائٹ کرکے بڑھا بھی سکتے ہیں۔ یعنی یہ ریٹ روزانہ 24 کوائن یا اس بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
تقریبا 6 ماہ بعد ورلڈ آن لائن کرنسی ایکسچینج میں یہ سسٹم اپنی کرنسی کا ریٹ لاؤنچ کرے گی۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے ریٹ میں اضافہ ہوتا جائے گا باکل بٹ کوائن کی طرح۔
ابھی ہمارے پاس گولڈن چانس ہے انٹرنیٹ تو ویسے بھی آج کل ہر کوئی یوز کر ہی رہا ہے۔ اگر ساتھ میں یہ کام کرلیا جائے تو کیا حرج ہے۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں یہ کوائنز آپ کو دولت مند بنادیں۔ بالفرض اگر آپ 1000 کوائنز اکٹھا کرلیتے ہیں اور چند سال بعد اس کی مارکیٹ ویلیو اگر 20 ڈالر بھی ہوجاتی ہے تو آپ کے یہ کوائنز آج کے ڈالر ریٹ کے حساب سے 34 لاکھ کے ہوسکتے ہیں۔ اور اگر اس کوائن کی قیمت اگر 100 ڈالر سے تجاوز کرجاتی ہے تو آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ آپ کو کتنا فائدہ ہوسکتاہے۔ اور اگر بالفرض اس کرنسی کی ویلیو 1 ڈالر سے نیچے ہی رہتی ہے تو بھی کم از کم آپ کا کوئی نقصان تو نہیں ہوگا۔ بلکہ کچھ نہ کچھ تو فائدہ ہی ہوگا۔باقی آپ کی قسمت۔

ہاں یاد رہے کہ آپ نے اس ایپ کے نوٹیفیکیشن آن رکھنے ہیں۔ تاکہ آپ کو ہر 24 گھنٹے کے بعد نوٹیفیکیشن آئے کہ آپ کا مائننگ پریڈ ختم ہوگیا ہے آپ ایپ کھول کر دوبارہ مائن کریں۔ بس اس وقت آپ کا انٹرنیٹ آن ہونا چاہئے۔ اس کے بعد یہ ایپ خود ہی مائن میں سے آپ کے لئے کوائن اکٹھا کرنا شروع کردی گی۔ چاہے آپ کا انٹرنیٹ چل رہا ہے یا نہیں۔اور آپ چاہے ایپ بند ہی کردیں۔ بلکہ موبائل ہی بند کردیں تب بھی یہ مائن کرتا رہے گا۔ یہ ایپ نہ ہی آپ کی بیٹری استعمال کرے گی نہ ہی آپ کا ڈیٹا استعمال کرے گی۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ کوئی پونزی سکیم نہیں جہاں آپ کے پیسے ضائع ہونے کا خدشہ ہو کیونکہ یہ نیٹ ورک مائننگ کے دوران کسی بھی سٹیج پر آپ سے پیسے نہیں مانگتا۔ اگر فوری پیسے کمانا چاہتے ہیں تو یہ ایپ آپ کے لئے نہیں۔ بلکہ اس کے لئے صبر ضروری ہے ہاں مستقبل میں یہ آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔ تو صبر کے ساتھ اس کو مائن کرتے رہیں۔

باقی آپ ان کی ویب سائٹ پر جاکر پوری انفارمیشن لے سکتے ہیں۔

فری مائننگ کرنے کے لئے نیچے دئیے گئے لنک پہ کلک کریں۔ اور ایپ کو انسٹال کریں
https://minepi.com/adnanunos
انویٹیشن کوڈ میں adnanunos لکھنا ہے
Invitation Code adnanunos

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور جاپان کس طرح دشمن سے اتحادی بن گئےدوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے...
14/02/2023

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور جاپان کس طرح دشمن سے اتحادی بن گئے
دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے۔ سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی جاپان ایشیا ء اور بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کا قریب ترین اور قابل اعتماد اتحادی بنا رہا۔۔ انہوں نے دشمنوں سے اتحادیوں میں اتنی کامیاب منتقلی کیسے کی؟ آئیے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اتنی گہری تبدیلی کا تصور کرنا مشکل ہے کیونکہ دسمبر 1941 ء میں پرل ہاربر پر جاپان کی اچانک بمباری نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا تھااور اسے باضابطہ طور پر اس جاپان کے خلاف اعلان جنگ کرنا پڑا ۔ تقریبا چار سال بعد ، امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو تباہ کن ایٹم بم گرائے ، جس سے جنگ عظیم دوئم کا مؤثر خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد ، امریکہ نے جاپان کو جنگ کے بعد سات سال طویل قبضے کا نشانہ بنایا جس نے شکست خوردہ ملک کی فوج کو ختم کردیا اور اس کے سیاسی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔

لیکن جنگ کے بعد امریکہ کا مقصد صرف امن قائم کرنا اور جاپان کی تعمیر نو نہیں تھا۔ ایک نئے عالمی نظام کا سامنا کرتے ہوئے، بڑھتی ہوئی سپر پاور نے کمیونزم کے پھیلاؤ کے خلاف چھوٹے لیکن تاریخی طور پر طاقتور بحر الکاہل کے جزیرے کے ملک کو اپنے ایشیائی ہتھیاروں میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی ۔ ایسا کرنے کے لئے ، امریکی قابضین نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کے نتائج سے اہم سبق سیکھا۔ انہوں نے جاپانی عوام کی مایوس معاشی حالت اور اس کی حکومت اور فوج سے مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت کے بیج بوئے اور آئین کو دوبارہ لکھا۔ اور اس سب کے دوران ، انہوں نے کئی ہزار جاپانی امریکی فوجی انٹیلی جنس ماہر لسانیات کو تعینات کیا ، جو جنگ کے بعد کی منتقلی کے لئے اتنے ہی اہم ثابت ہوئے جتنے وہ جنگ کے دوران خفیہ طور پر کام کرتے تھے۔

جنگ کے بعد جاپان کی منتقلی کی نگرانی کرنے والے اتحادی طاقتوں کے سپریم کمانڈر جنرل ڈگلس میک آرتھر نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کے معاہدوں سے حاصل ہونے والے سبق کو سنجیدگی سے لیا۔ شکست خوردہ ملک کی تذلیل کرنے اور بڑے پیمانے پر امریکی نقصانات تلافی کا مطالبہ کرنے کے بجائے ، امریکہ نے شکست خوردہ جاپان ، خاص طور پر اس کے شہنشاہ کے ساتھ اپنے سلوک کے ساتھ زیادہ مثبت تعلقات کی راہ ہموار کی۔ کیونکہ جنگ عظیم اول کے خاتمہ کے بعد فرانس اور اس کے اتحادی ممالک نے جرمن قوم کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور جس نے جرمنی کی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ۔اور بعد میں یہ ہی جرمن قوم کی محرومیاں اور بدلے کی آگ دوسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اسی سے امریکہ نے سبق سیکھا تھا اور جاپان کی شکست کے بعد جاپان سے اچھے سلوک کی بنا پر مثبت تعلقات قائم کیے۔

تباہ حال ملک میں بڑے پیمانے پر قحط پڑنے کے خوف سے امریکیوں نے انسانی بحران اور اس کے بعد ممکنہ بدامنی سے بچنے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے خوراک فراہم کی۔ جارح شہنشاہ ہیروہیتو پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کے بجائے ، امریکہ نے حکمت عملی کے تحت اسے ایک شخصیت کی حیثیت سے اپنے تخت پر برقرار رہنے کی اجازت دی ، جس سے یہ بیانیہ قائم ہوا کہ جنگ کے دوران اسے زیادہ فوجی قوتوں نے دھوکہ دیا تھا۔ صدر ہیری ٹرومین کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ملک کے رہنما کو اس کی حیثیت میں برقرار رکھنے کی اجازت دینا ایک بہتر پالیسی ہوگی کیونکہ وہ اپنے شہریوں کو امریکہ کے ساتھ ان مشکل حالات میں تعاون کرنے کی زیادہ موثر ترغیب دے سکتے ہیں۔

ایک انتہائی قوم پرست سامراجی ریاست سے جمہوری ریاست میں منتقلی
جاپانی سلطنت کے مصنف جان ٹولینڈ کے مطابق امریکی ملٹری انٹیلی جنس کے الائیڈ ٹرانسلیٹر اینڈ انٹرپریٹر سیکشن (اے ٹی آئی ایس) میں کرنل سڈنی مشبیر نے میک آرتھر کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ شہنشاہ کو تیار کردہ اسکرپٹ پڑھنے پر مجبور کرکے اپنی قوم کے سامنےشرمندہ ہونے سے بچائیں۔ 15 اگست ، 1945 کو ریڈیو پر ان کی آواز سنائی دی شہنشاہ کی آواز ، جو پہلے کبھی جاپانی شہریوں نے نہیں سنی تھی - اونچی اور رسمی تھی ، پہلے سے ریکارڈ کردہ پیغام میں شہنشاہ نے "ہتھیار ڈالنے" کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ اس کے بجائے، انہوں نے اشارہ کیا کہ جاپان اب جوہری سطح کی جنگ جاری رکھنے کے بجائے امن کا انتخاب کر رہا ہے۔ ایک ایسی جنگ جو جاپان کو ختم کر سکتی ہے اور انسانی بقا کی "معدومیت" کا باعث بن سکتی ہے۔

کئی دہائیوں تک جاپانی عوام کو سامراج اور توسیع پسندی کی خوبیاں بیان کرنے کے بجائے شہنشاہ نے اپنی تقریر میں عاجزی اور استقامت کی ضرورت پر زور دیا "ہماری قوم کو اب سے جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا ہے وہ یقینی طور پر عظیم ہوں گے۔ جس کے لئے انہیں تیار رہنا چاہیئے" انہوں نے کہا کہ جاپانی شہریوں کو "ناقابل برداشت صبر اور بہترین جرات مندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے" باضابطہ ہتھیار ڈالنے کا عمل 2 ستمبر 1945 کو ٹوکیو خلیج میں یو ایس ایس مسوری پر ہوا، جو کہ جنرل میک آرتھر کے زیر انتظام تھا۔

جاپان کے ایک جمہوری معاشرے میں منتقلی کے دوران، امریکہ نے عوامی شمولیت کی اہمیت کو کبھی نظر اندازنہیں کیا۔ اس دستاویز میں جاپان کے لیے ہتھیار ڈالنے کے بعد امریکہ کی پالیسی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ 'امریکہ چاہتا ہے کہ یہ حکومت جمہوری خود مختاری کے اصولوں کے مطابق ہو ۔ یہ اتحادی طاقتوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ جاپان پر کسی بھی قسم کی حکومت مسلط کریں جسے عوام کی آزادانہ خواہش کی حمایت حاصل نہ ہو۔
یقینی طور پر ، میک آرتھر کے تحت فوجی حکومت کے پاس جاپان کی معاشی ، سماجی سیاسی اور ثقافتی منتقلی کی نگرانی کرتے ہوئے وسیع طاقت اور کنٹرول موجود تھا۔ اس کے باوجود، جنرل کے سرکاری عملے کی رپورٹوں کے مطابق، جاپانی عوام کو "عزت نفس اور خود اعتمادی کے نقصان" سے بچنے میں مدد کرنے کے لئے، قبضہ ٹیموں نے موجودہ سول ڈھانچے کی نگرانی کے طور پر کام کیا، جس سے مقامی حکام اور شہریوں کو مقررہ اصلاحات کے نفاذ میں زیادہ سے زیادہ پہل کرنے کی ترغیب ملی۔ امریکی افواج اب بھی اس عمل کی نگرانی کر رہی تھیں، اور اب بھی بہت ساری باہمی دشمنی تھی، لیکن جاپانی شہریوں کے ساتھ ان کے بڑے پیمانے پر شہری اور قابل احترام سلوک نے اعتماد کی فضاء پیداکر دی جو کہ امریکہ اور جاپانی عوام میں طویل مدتی مقاصد کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی۔

نیسی نے امریکہ کی طرف سے ایک اہم کام سر انجام دیا
نیسی ان جاپانی لوگوں کا کہا جاتا ہے جن کی امریکہ میں پیدائش ہوئی اور وہ امریکن شہری کی حیثیت میں امریکہ رہ رہے تھے ان پہلی نسل کے جاپانی امریکی (نیسی) جنہوں نے بحرالکاہل تھیٹر میں ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ماہر لسانیات کے طور پر خدمات انجام دیں تھیں۔ جاپانی تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہونے والے، کچھ نیسی جاپانی بولتے تھے خاص طور پر کیبی نامی لوگ ، جن کے والدین نے انہیں جنگ سے پہلے تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاپان واپس بھیج دیا تھا۔ جاپان کے ساتھ ممکنہ تصادم کے پیش نظر ، امریکہ نے پرل ہاربر سے پہلے انٹیلی جنس حاصل کرنے کے لئے نیسی جاپانی کو امریکی فوج میں بھرتی کیا اوران کو تربیت دی۔

جنگ کے دوران ، نیسی ماہر لسانیات نے مواصلات کی نگرانی کی ، نقشوں اور دستاویزات کا ترجمہ کیا اور دشمن کے قیدیوں سے پوچھ گچھ میں مدد کی۔ 1944 میں میک آرتھر کے انٹیلی جنس چیف جنرل چارلس ولوبی نے ایک بار فخر سے کہا تھا کہ "اے ٹی آئی ایس زبان کا صرف ایک ماہر ایک پوری انفنٹری بٹالین کے برابر ہے۔" انہوں نے اندازہ لگایا کہ جاپانی امریکی ماہر لسانیات نے جنگ کو دو سال تک کم کرنے میں مدد کی ہے۔

نیسی نے اتحادیوں کے قبضے اور جاپان کی تعمیر نو کے دوران بھی اہم کردار ادا کیا۔ قبضے کے دوران 5،000 سے زیادہ افراد نے خدمات انجام دیں ، جن میں سے بہت سے فوجی حکومت کی ٹیموں کا حصہ تھے جو ہرضلع میں مقرر کی گئی تھیں۔ کیبی خاص طور پر اہم ثابت ہوئے کیونکہ وہ ملک کے تاریخی ، سماجی سیاسی ، ثقافتی ، مذہبی ، معاشی ، تعلیمی اور عملی اصولوں کی زیادہ گہری فہم رکھتے تھے۔

قبضے کے ابتدائی چند مہینوں کے دوران ، نیسی اور کیبی نے متعدد پیچیدہ مقاصد پر در پردہ کام کیا۔ انہوں نے امریکی اور اتحادی جنگی قیدیوں کی واپسی اور بیرون ملک رہنے والے جاپانی فوجیوں اور شہریوں کو جاپان واپس لانے کے لئے کام کیا۔ انہوں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی میں مدد کی، جنگی مجرموں کی تلاش میں حصہ لیا اور ان پر مقدمہ چلانے کے لئے ثبوت جمع کرنے میں حصہ لیا۔ انہوں نے مزاحمت کے کسی بھی اشارے کے لئے عوام کی نگرانی کی جو ملک کی جمہوری تبدیلی کو روک سکتے ہیں۔ مالیاتی محاذ پر ، انہوں نے جاپان کی جنگ سے متعلق صنعتوں کو جہاں اسلحہ وغیرہ بنا کرتا تھا ختم کرنے اور تباہ کرنے میں مدد کی ، اور جنگ کے دوران مالیاتی گروہوں کی بلیک مارکیٹس اور منظم جرائم کو توڑنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

جاپان کے آئین کو دوبارہ لکھنا
شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیسی / کیبی نے جاپان کے نئے آئین کی تحریر میں بھی مدد کی۔ تقریبا 103 دفعات پر مشتمل یہ 3 مئی 1947 کو نافذ العمل ہوا۔ اس کی وسیع شقوں میں زمین کی اصلاحات، خواتین کے حق رائے دہی، آزادی اظہار رائے، اجتماع اور مذہب کا قیام، مزدور یونینوں کا ادارہ اور امریکی طرز کے تعلیمی نظام کا قیام شامل تھا۔

امریکہ کی انہی پالیسیوں اور جاپان میں اسی مثبت کردار کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے دو بدترین دشمن امریکہ اور جاپان دو بہترین اتحادی بن کر اُبھرے۔

تاریخ کا سب سے مہلک ترین  طیارہ حادثہدنیا کی  ہوائی جہاز کی تاریخ کا بدترین حادثہ    کے ایل ایم فلائٹ 4805 اور پین ایم ف...
27/01/2023

تاریخ کا سب سے مہلک ترین طیارہ حادثہ

دنیا کی ہوائی جہاز کی تاریخ کا بدترین حادثہ کے ایل ایم فلائٹ 4805 اور پین ایم فلائٹ 1736 دو کمرشل ایئرلائنز کا تھا جس میں دو جہاز آپس میں ٹکرا گئے تھے جس میں 583 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔جس کی تفصیل آپ اس پوسٹ میں جان سکتے ہیں۔

https://www.facebook.com/photo?fbid=114998144820786&set=a.114232268230707

جبکہ ہوائی تاریخ کا سنگل سب سے مہلک ترین حادثہ جاپان کی ائیر لائن 123 کے ساتھ پیش آیا تھا۔ جس ایک حادثے میں 520 افراد ہلاک ہوئے تھے۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
جاپان ایئر لائنز کی پرواز 123 ایک شیڈول ڈومیسٹک مسافر پرواز تھی جو جاپان ایئر لائنز (جے اے ایل) نے ٹوکیو کے ہنیڈا ہوائی اڈے اور اوساکا بین الاقوامی ہوائی اڈے کے درمیان چلائی تھی۔ 12 اگست 1985 کو بوئنگ 747 ایس آر نامی طیارے کو اس کے رئیر پریشر بلک ہیڈ کی اچانک اور تباہ کن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 520 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ تاریخ کا سب سے مہلک ترین طیارہ حادثہ تھا۔

یہ حادثہ ٹیک آف کے صرف 12 منٹ بعد اس وقت پیش آیا جب طیارے کا پچھلا پریشر بلک ہیڈ ناقص مرمت کی وجہ سے ناکام ہوگیا جو چار سال قبل کی گئی تھی۔ ناکامی کی وجہ سے طیارے کی دم ٹوٹ گئی اور طیارہ بے قابو گھومنے لگا۔ پائلٹ طیارے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہے اور بالآخر یہ جاپان کے گنما پریفیکچر میں ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ حادثے کی وجہ ایک مرمت تھی جو چار سال قبل طیارے کے پچھلے پریشر بلک ہیڈ کی خرابی کے بعد کی گئی تھی۔ مرمت ایک نامناسب طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے کی گئی تھی ، جس کی وجہ سے بلک ہیڈ میں پریشر کی وجہ سے ایک دراڑ پیدا ہوگئی تھی۔ آخر کار دراڑ بڑھتی گئی اور بلک ہیڈ کی تباہ کن ناکامی کا باعث بنی۔

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ مرمت ایک ناتجربہ کار مکینک نے کی تھی جس نے بلک ہیڈ کی مرمت کے لئے "ڈبلر پلیٹنگ" کے نام سے ایک نامناسب طریقہ استعمال کیا تھا۔ اس طریقہ کار میں موجودہ بلک ہیڈ پر دھات کے ایک نئے ٹکڑے کو ویلڈنگ کرنا شامل تھا ، جس کے نتیجے میں اس مقام پر تناؤ کا ارتکاز ہوا جہاں نئی دھات پرانی سے ملتی ہے۔ اس تناؤ کے ارتکاز کی وجہ سے دراڑ پیدا ہوئی اور بالآخر بلک ہیڈ کی ناکامی کا سبب بنا۔
ایک اور اہم عنصر یہ تھا کہ جاپان ایئرلائنز (جے اے ایل) کے پاس حفاظت پر شیڈول کو ترجیح دینے کا رواج تھا۔یعنی فلائیٹ میں دیری نہیں ہونی چاہیے اسی وجہ سے انہوں نے سکیورٹی کو زیادہ ترجیح نہیں دی۔ اس کی ویکہ وجہ یہ بھی تھی ۔ کہ دیکھ بھال کے محکمے میں عملے کی کمی اور ضرورت سے زیادہ کام سونپا گیا تھا۔اور دوسرا مرمت کے محکمے پر بھی تیزی سے مرمت مکمل کرنے کا دباؤ رہتا تھا، جس کی وجہ سے شارٹ کٹ لیا گیا اور مناسب معائنے یا نگرانی کے بغیر مرمت کی گئی۔ اسی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔
اس حادثے میں جاپان کے 498 لوگ جس میں عملے کے 15 لوگ بھی شامل تھے۔ 1 چین کا مسافر 2 جرمنی کے 4 ہانگ کانگ کے 3 انڈیا کے 2 اٹلی کے 3 کوریا کے 1 انگلینڈ کا اور 6 امریکہ کے مسافر ہلاک ہوئے۔ اور524 مسافروں میں سے صرف 4 مسافر ہی زندہ بچ سکے۔ جن کا تعلق جاپان سے تھا۔

جے اے ایل فلائٹ 123 کا حادثہ ایک المناک واقعہ تھا جس کے نتیجے میں 520 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ جاپان اور ہوا بازی کی صنعت کے لئے ایک اہم نقصان تھا ، کیونکہ یہ اس وقت کی تاریخ کا سب سے مہلک سنگل ایئر کرافٹ حادثہ تھا۔ جو آج تک ہے ۔حادثے کے نتیجے میں طیارے کی دیکھ بھال کے طریقہ کار میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہنگامی ردعمل اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں بہتری آئی۔

Address

House# 17, Street# 40, Block Y, Peoples Colony
Gujranwala
52260

Telephone

+923216405530

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Adnan Younas - Writer posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Adnan Younas - Writer:

Share