30/09/2025
رکشہ ڈرائیورز سے ہائی ایس ویگن کی ڈرائیوری تک
جب ڈاکٹر بن رہا تھا تو میرے ایک ماموں نے رکشہ بنا لیا کہ گھر سے پانچ بچے شہر پڑھنے جاتے ہیں تو گاڑی ہے نہیں، موٹر سائیکل پر اتنے لوگ جا نہیں سکتے اور کرایہ بھرنے سے بہتر ہے کہ زمینداری کے ساتھ اپنے ہی رکشے پر بچے بھی چھوڑ آیا کروں گا اور چار پیسے اور بھی بن جائیں گے۔ اسی رکشے کو متعدد بار چلانے کا اتفاق ہوا اور دو بار تو دوسرے رکشوں والوں کے ساتھ ریس لگاتے لگاتے حادثہ بھی ہونے والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔
اس یاد میں ساری عمر رکشوں والوں کے ساتھ کرائے کی بحث میں یہ بات ضرور کہی کہ میں نے خود بھی دو سال رکشہ چلایا ہے برگر بچہ نہیں ہوں۔ مجھے سب حساب کتاب کا پتا ہے۔
ادھر آسٹریلیا آیا تو کلینک والوں کو کہا کہ باقی سب ڈاکٹروں کو گاڑی دی ہے تو مجھے بھی دو۔ انھوں نے کہا کہ ایک گاڑی خراب ہے جو مکینک کے پاس کھڑی ہے۔ تب تک یہ بائیس سال پرانی ہائی ایس چلا کر گزارا کرو۔یہ سواری چار لاکھ کلو میٹر چل گئی ہے اور پچھلے حصے میں متنوع قسم کے جانوروں کے پنجروں سے بھری ہوئی ہے۔ بلیوٹوتھ کی عدم موجودگی میں انہی پنجروں کے کھڑکنے کی آواز کو کلاسیکل غزل سمجھ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
وائے قسمت کہ اگر یہ آفر پاکستان میں ہوتی تو چھٹی والے دن پرائیوٹ بکنگ لگا لیا کرنی تھی ڈاکٹر صاحب نے۔ لہور اے لہور اے
لیکن اب ہائی ایس ڈرائیوروں کے ساتھ بھی بحث کرنے جوگےہو گئے کہ بڑا عرصہ ویگن چلائی ہے سانوں کہانیاں نہ سنا۔