Ask News

Ask News ASK News is an Online News Portal that provides good quality content to social media users in variou

15/06/2025
https://youtu.be/AoKC_Kxgu2g
14/04/2025

https://youtu.be/AoKC_Kxgu2g

Jazba's Chief Editor Raja Tariq Mahmood made me the chief reporter on the very first news!My Good health at 75 years due to my positive Thinking.Journalism g...

ٹیچر کو سلام امریکہ میں تین طرح کے لوگوں کو VIP کا درجہ دیا جاتا ہے۔ (1) معذور (2) سائنسدان (3) ٹیچر - فرانس کی عدالت می...
26/03/2025

ٹیچر کو سلام
امریکہ میں تین طرح کے لوگوں کو VIP کا درجہ دیا جاتا ہے۔
(1) معذور (2) سائنسدان (3) ٹیچر -
فرانس کی عدالت میں ٹیچر کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی۔
جاپان میں پولیس کو ٹیچر کی گرفتاری کے لیے پہلے حکومت سے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔
کوریا میں کوئی بھی ٹیچر اپنا کارڈ دکھا کر ان تمام سہولیات سے قائد و اٹھا سکتا ہے، جو ہمارے ملک میں وزراء ، ایم این اے ، ایم پی اے کو حاصل ہیں ۔

۔بقول اشفاق احمد وہ اٹلی میں جب تعلیم دیتے تھے تو اُنکے سکوٹر کا چالان ہو گیا۔ جب وہ عدالت میں چالان بھرنے گئے تو جج نے اُن کا پیشہ پوچھا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ میں ایک ٹیچر ہوں تو عدالت میں کہرام مچ گیا کہ ’’ٹیچر اِن دی کورٹ، ٹیچر اِن دی کورٹ۔
یہ سب کچھ تو میرے نالج میں تھا ہی ۔ دو تین روز قبل گجرات چناب ٹول پلازہ کراس کرتے ہوئے کچھ ایسا ہی انہونا واقع ہوا ایک لیڈی نے ٹول پلازہ پر ٹول ٹیکس کی اداہیگی کے بعد اپنی گاڑی وزیر آباد کی جانب جانے کیلئے چند گز ہی آگے بڑھائی ہو گی۔ سامنے کھڑے نیشنل ہائی وے کے پولیس آفیسر نے گاڑی کو روکنے اور ایک جانب کھڑی کرنے کا اشارہ کیا ۔ لیڈی نے گاڑی کو ایک طرف کرتے ہوئے بریک لگائی اور کار کے دروازے کے شیشے کو نیچے کیا اور کہا کہ جی فرمائیے ۔ پو لیس آفیسر نے لیڈی سے کہا کہ آپ نے سیٹ بیلٹ نہیں لگا رکھی ۔ آپ کو 2 ہزار روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا ۔ اپنا شناختی کارڈ دیکھائیں ۔ لیڈی بولی سر آپ معافی دے دیں آیندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی ۔ آپ آئی ڈی کارڈ دیں یہاں غلطی کی کوئی معافی نہیں ہوتی لیڈی نے کہا جلدی میں آئی ہوں شناختی کارڈ ساتھ لا نا بھول گئی ہوں ۔
مہر بانی فرماییں ۔ پولیس آفیسر نے پو چھا کہ آپ کیا کرتی ہیں ۔ لیڈی بولی میں ٹیچر ہوں اور بیکن ہاؤس سکول گجرات میں بچوں کو پڑھاتی ہوں ۔ پولیس آفیسر بولا ہم کسی کو معاف تو نہیں کرتے مگر آپ ٹیچر ہیں اس لئے آپ کا احترام کرتے ہوئے آپ کو جانے کی اجازت دیتا ہوں ۔ مگر آیندہ ایسی غلطی مت کریں یہ آپ ہی کے فاہدہ کی بات ہے ۔ لیڈی ٹیچر پولیس آفیسر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیر آباد کی جانب روانہ ہو گئیں ۔

کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ اور N تھریمحمد شہباز،۔          ایک سال قبل میری بیٹی کنول نے فون کیا کہ مجھے کمپیوٹرائزڈ  نکاحِ ن...
04/01/2025

کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ اور N تھری
محمد شہباز،۔ ایک سال قبل میری بیٹی کنول نے فون کیا کہ مجھے کمپیوٹرائزڈ نکاحِ نامہ چاہیے ۔ میں نے اسے کہا کہ ماموں کو اپنے نکاح نامے کی فوٹو کاپی سینڈ کریں اور اسے بولیں کہ مجھے کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ چاہیے ۔ میں ان دنوں امریکہ ، نیویارک میں تھا ۔ میں نے بھی کنول کے ماموں اور اپنے ماموں زاد طارق سلیمی جو سیاسی اور سماجی شخصیت اور تحریک منہاج القران کے عہدیدار بھی ہیں سے فون پر بات کی کہ میونسپل کمیٹی وزیر آباد سےکنول بیٹی کو کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ بنوا دیں ۔
ایک ہفتہ بعد طارق سلیمی سے فون پر رابطہ کیا تو جواب ملا کہ میونسپل کمیٹی کی متعلقہ برانچ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس نکاح نامے کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔ تاہم بلدیہ کے ایک دوسرے اہلکار سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یار مشورہ دیتا ہوں ایسے کیسیز میں متعلقہ برانچ کے انچارج کو 30 سے 35 ہزار روپے کی آفر کی جائے تو پھر ریکارڈ ہو نہ ہو کمپیوٹرائزڈ نکاح نامے کے علاوہ برتھ سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز بھی فوری بنا دیتے ہیں ۔
میری بڑی بیٹی کنول جو اپنے نانا ( میرے سسرال) کے گھر ہی پلی بڑھی ۔ اسکی شادی تو گجرات میں ہی ہوئی ۔ مگر اسکی برات گجرات سے وزیر آباد ہی گئی اور اسکا نکاح بھی وزیر آباد میں ہی پڑھا اور میونسپل کمیٹی وزیر آباد میں ہی رجسٹر ہوا تھا ۔
جب طارق سلیمی نے بلدیہ میں ریکارڈ نہ ہونے اور 30 سے 35 ہزار روپے دیےکر کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ مل سکتا ہے کی بات کی تو میرا ایک ہی جواب تھا ۔ سلیمی صاحب میں نے تو شعبہ صحافت میں آنے سے قبل بھی کس بھی ادارے میں اپنا کوئی بھی کام رشوت دیکر نہیں کروایا ۔
18 سالہ صحافت میں بھی میرا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ اپنا تو دور کی بات کسی دوسرے فرد کے
کام کیلئے بھی نہ کوئی پیسے کسی ادارے کے متعلقہ اہلکار کو دلوانے اور نہ ہی کبھی لئے ۔ بس آپ رہنے دیں ۔ کوئی ایمر جینسی نہیں میں جب پاکستان آؤں گا تو بنوا لوں گا ۔
پاکستان واپس آیا تو میونسپل کارپوریشن گجرات آفس میں یونین کونسل 12 کے آفس میں نعیم شہزاد صاحب اور مہمد ندیم صاحب سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی اور مختلف موضوعات پر بات چیت بھی ہوتی ۔
اخباری نمائندوں کے حوالے سے بات ہوئی تو مجھے کہنے لگے آخبار نویس تو زیادہ تر کسی کام کی غرض سے ہی آتے ہیں آپ نے کبھی بھی کوئی کام نہیں کہا ۔ہم چائے بھی زبردستی ہی پلاتے ہیں ۔
میں نے نعیم صاحب سے میونسپل کمیٹی وزیر آباد میں کمپیوٹرائزڈ نکاح نامے کی بات کی تو انہون نےندیم سے بولا کہ یار نوید صاحب کا نمبر ملاؤ اور
ان سے اس معاملے پر بات کرو ۔ ٹیلیفون کی گھنی بجی اور نوید اسلم صاحب نے فون اٹھا لیا ۔ندیم صاحب نے ان سے بات کی اور ان سے میرے مسئلے پر بات کی تو نوید صاحب نے کہا کہ اپنے دوست شہباز کو بھیج دیں ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ ابھی وزیر آباد میونسپل کمیٹی آفس وزیر آباد پہنچ جاہیں ۔
میں نے نوید اسلم صاحب سے کہا ٹھیک ہے ۔ اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو آپ بھ میرے ساتھ ہی چلیں وہ بھی تیار ہو گئے ۔ ہم نے گاڑی سٹارٹ کی اور 30 منٹ میں بلدیہ آفس پہنچ گئے ۔ یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ گجرات والے دونوں دوست ندیم صاحب اور نعیم صاحب دونوں سب انجینیئر اور انکے وزیر آباد والے دوست بھی بطورِ سب انجینیئر ہی کام کرتے ہیں ۔
ہم اپنے کام کیلئے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار جن کا نام عبد الرزاق بتایا جاتا ہے کےپاس پہنچے توانہوں نے وہی بات دوہرائی جو انہوں نے میرے ماموں زاد طارق سلیمی سے کہی تھی ۔ نوید صاحب نے ان سے الگ سے بات کی ایک ہی جواب ملا کہ ہمارے پاس اس نکاح نامے کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ یہ نکاح رجسٹرار دو نمبری تھا ۔ اس نے اس نکاح نامے کا کوئی ریکارڈ بلدیہ میں جمع نہیں کروایا تھا اور یہ نکاح رجسٹرار اب اس دنیا میں بھی نہیں ۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر یہ رجسٹرار 2نمبری تھا ۔ نکاح رجسٹرار تھا تو آپکے ادارے کا ۔ اس سے تو آپ انکار نہیں کر سکتے ۔ اسکا جواب تو انکے پاس نہیں تھا ۔
جب نوید صاحب کی سبھی کوششیں نکام ہوئیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں کے چیف آفیسر کا تعلق گجرات سے ہے اگر چہ وہ آفس میں موجود نہیں ۔ انکے نام درخواست لکھتے ہیں اور سپرینٹنڈنٹ کو جمع کروا دیتے ہیں ۔میں نے کہا کہ چیف آفیسر کا تعلق گجرات سے ہے تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔
ہم نے درخواست لکھی اور درخواست کے ساتھ نکاح نامے کی کاپی لگائی اور سپرنٹینڈنٹ کے آفس میں چلے گئے ۔ انہیں درخواست دی تو عین اسی وقت متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا اہلکار عبد الرزاق بھی وہاں پہنچ گیا اور سپرنٹینڈنٹ کو بھی وہی کہانی سنانے لگا ۔ جو ہمیں سنائی گئی تھی ۔ میں نے سپرنٹینڈنٹ سے کہا جی آپ ہماری درخواست وصول کریں ۔ باقی جو ہو گا دیکھا جائے گا ۔ سپرنٹینڈنٹ نے درخواست لی اور کہا کہ اس پر آپ اپنا موبائل نمبر بھی لکھ دیں میں نے اپنا موباہل نمبر بھی لکھ دیا ۔ درخواست دیکر ہم بلدیہ آفس سے باہر آ گئے ۔ نوید صاحب نے قریبی شاپ پر جا کر فروٹ چاٹ اور دئی بھلے کھلائے اور پھر ہم گجرات واپس آ گئے ۔
اگلے ہی روز دوپہر 12 بجے کے قریب موبائل فون پر کال موصول ہوئی ۔ کال کرنے والے نے پوچھا کہ آپ شہباز بول رہے ہیں جواب دیا جی ۔ دوسرا سؤال تھا کہ آپ نے چیف آفیسر کے نام کوئی درخواست دی ہے ۔جواب دیا جی ۔ کال کرنے والے نے کہا کہ آپ میونسپل کمیٹی وزیر آباد آفس آ جاہیں ۔ میں نے سوال کیا کہ وزیر آباد انے کے بعد مجھے واپس ہی بھیجنا ہے یا میرا کام بھی کرنا ہے ۔ جواب ملا کہ کام ہو جائے گا ۔
میں میونسپل کارپوریشن گجرات آفس پہنچا اور ندیم صاحب اور نویدِ صاحب کو بتایا کے وزیر آباد والو نے فون کیا ہے کہ آپ آفس آ جائیں آپ کا کام ہو جائے گا ۔ آپ بھی ساتھ چلیں ۔دونوں دوست بولے کہ ہم دونوں افیشل ڈیوٹی پر آفس سے باہر جا رہے ہیں ۔
نوید صاحب کو فون کر دیتے ہیں ۔ وہ وہا ں آفس میں پہنچ جائیں گے ۔ نوید صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ میں وزیر آباد افس پہنچ جاتا ہوں ۔
میں وزیر اباد آفس پہنچا تو نوید اسلم صاحب مجھ سے پہلے وزیر آباد افس پہنچ چکے تھے ۔ نوید صاحب وزیر آباد بلدیہ آفس کے اندر ایک یونین کونسل کے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور اس آفس کا اہلکار ایک رجسٹر کھول کر نوید صاحب کو بتا رہے تھے . اس رجسٹر میں آپکے نکاح نامے کا ایک پرت میں لگا ہوا ہے ۔ آپکے نکاح نامہ 1998 کا ہے اور یہ رجسٹر 2002 میں جمع کریا گیا تھا ۔ اگر چہ یہ اہلکار جھوٹ بول رہا تھا ۔ کیونکہ نکاح رجسٹرار اپنا رجسٹر تو مکمل ہونے کے بعد ہی جمع کرواتا ہے مگر نکاح نامے کا ایک پرت نکاح کے چند روز بعد ہی جمع کروا دیتا ہے ۔ میں خاموش رہا کہ چلیں ہمیں کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ مل جائے گا ۔ اس اہلکار سے کیا بحث کرنی ہے ۔ کمپیوٹر نکاح نامے کی 300 روپے فیس دی اور کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ لے لیا

میں دوبئی گیا ہوں ؟محمد شہباز۔۔۔۔۔۔۔۔۔  29 نومبر کو حاجی ارشد محمود آف ارشد الیکٹرک سٹور گجرات کی رہائش واقع بھمبرروڈ پر...
15/12/2024

میں دوبئی گیا ہوں ؟
محمد شہباز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 29 نومبر کو حاجی ارشد محمود آف ارشد الیکٹرک سٹور گجرات کی رہائش واقع بھمبرروڈ پر صبح 6 بجے بل دی ۔ چند منٹوں کے بعد
حاجی ارشد محمود خان کے بیٹے عمر ارشد نے گیٹ کھولا اور میں اپنی گاڑی کو گیٹ کے اندر لے گیا ۔ اگلے چند منٹوں میں حاجی صاحب اور انکے چھوٹے بھائی ظفر محمود خان عرف گوگی اف گوگی الیکٹرک سٹور بھی آ گئے ۔ ہم گاڑی میں سوار ہوئے اور اسلام آباد کیلئے روانہ ہو گئے ۔ میاں جی کے ہوٹل پر ناشتہ کیلئے رکے تو عمر ارشد سے پو چھا کہ جناب کل آپ نے 3
مختلف جگہوں کا نام لیا تھا ۔ لیکن ابھی تک بتایا نہیں کہ ہم نے کہاں جانا ہے ۔
ناشتہ کے دوران عمر ارشد نے کہا کہ ہم اسلام اباد سے آگے خان پور ڈیم (۔ مبالی ائی لینڈ ) جاہیں گے ۔ او کے خان پور ڈیم جانے کیلئے راولپنڈی سے خان پور ڈیم کیلئے نیشنل ہائی وے پر سفر کرنا ہے ۔ راوالپنڈی سے ٹیکسلا اور پھر وہاں سے خان پور ڈیم جانا ہے میں ان راہوں کو جانتا ہوں 1967 اور 1968 کے دوران میں براستہ خانپور ڈیم ہی ہری پور ہزارا جایا کرتا تھا ۔ سو ہم مبالی آئی لینڈ کیلئے راوالپنڈی اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگئے ساڑھے 3 گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم راوالپنڈی اسلام آباد سے گزر کر نیشنل ہائی وے پر ڈرائیو کرتے ہوئے براستہ ٹیکسلا ، ٹیکسلا میوزیم کے سامنے سے گزرتے ہوئے دوپہر 12 بجے کے قریب خان پور ڈیم پہنچ گئے ہے ۔ کوئی 57 سال قبل جب میں ٹیلیفون انڈسٹری آف پاکستان TIP میں جاب کرتا تھا تو اسی راستے پر خانپور ڈیم سے گزرتے ہوئے TIP ہری پور ہزارہ پہنچتا تھا ۔ ٹیکسلا سے ہری پور ہزارہ جانے کیلے نیشنل ہائی وے براستہ حسن ابدال بھی سفر کیا جاتا ہے ۔ 1968 سے 1970 تک ہیوی مکینیکل کمپلیکس کے ٹریننگ سنٹر ( ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ ) میں بھی پڑھتا رہاہوں ۔
ہم جب خانپور ڈیم پہنچے تو پتہ چلا کہ کوئی ڈیڑھ ماہ قبل یہاں کے ٹھیکے دار اور ڈیم کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے باعث نہ تو جھولے اور نہ ہی بوہٹ , Boat چلانے یا دوسری سرگرمیاں کرنے کی اجازت ہے ۔ یہاں پر کشتیاں تو درجنوں کے حساب سے کھڑی تھیں مگر ایک خاموشی سی چھائی ہوئی تھی ۔ یہاں پر ایک دو کیمرہ مین اور چند دوسرے لوگ موجود تھے جو یہاں انے والے وزیٹرز کو گائیڈ کرتے اور اندر خانے ڈیم کے اندر سپیشل بوہٹ کشتی کی بھی آفر کرتے مگر پیسے کچھ زیادہ ہی مانگتے ۔
یہاں کھڑی بوہٹ کے کناروں پر لگے ایک بورڈ پر
دوبئی لکھا ہوا نظر آیا تو میں نے عمر ارشد سے کہا یہاں میری فوٹو بناہیں اور اس فوٹو میں بورڈ پر لکھا دوبئی نمایاں نظر انا چاہیے ۔
خانپور ڈیم پر موجود ایک اہلکار سے پوچھا کہ مبالی
ائی لینڈ Mabali island جانا چاہتے ہیں وہ کدھر ہے۔ تو اہلکار نے ڈیم کے پانی کے دوسرے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وو سامنے جو بلڈنگز نظر آ رہی ہیں
وہ مبالی ائی لینڈ ہی ہے ۔ اس روڈ سے 15 منٹ کی ڈرائیو کے بعد داہیں جانب جو سڑک مڑتی ہے ۔ وہ
مبالی ائی لینڈ ہی جاتی ہے ۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی کوداہیں جانب مڑنے والی سڑک پر موڑتے ہوئے
آگے بڑھنے لگے ۔ سڑک کے دونوں جانب آبادی تھی اور یہ پکی سڑک تھی ۔ 5 سے 6 منٹ کی ڈراہیو کے بعد کچی سڑک آ گئی ۔ مگر اس سڑک پر چھوٹے اور بڑے ہوٹل بنے ہوئے تھے مگر سبھی ویران نظر آئے ۔ جب ان سے مبالی ائی لینڈ کا پوچھتے تو وہ اگے مزید 15 منٹ کی ڈرائیو کا بولتے ۔ 15 سے 20 منٹ کی ڈراہیو کے بعد انے والے ہوٹل کی انتظامیہ سے مبالی ائی لینڈ کا پوچھا تو انہوں نے مزید 10 ۔ 15 منث کی ڈراہیو کا بولا مبالی ائی لینڈ کے مخصوص ریسٹورنٹ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہاں صرف فیملی والے لوگ ہی جا سکتے ہیں اس جواب کے بعد ہم نے یو ٹرن لیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا اور کوئی ساڑھے تین بجے کے قریب روات سے تھوڑا اگے ، میاں جی پنجاب ہوٹل پر کھانا کھانے کیلئے رکے ۔ کھانا کھانے کے بعد شام 6 بجکر 15 منٹ پر واپس گھر پہنچ گئے
اگلے روز خانپور ڈیم پر دوبئی بورڈ والی فوٹو فیس بک پو شیئر کی تو کئی دوستوں نےپو چھا کہ آپ دوبئی گئے ہوئے تھے ۔ ایک دوست بولا اج تو آپ نے دوبئی کی فوٹو شیئر کی ہے اور آپ شہر میں پھر رہے ہو تو میں دوست سے ہنستے ہوئے بولا کہ یار دوبئی کتنا دور ہے 3 گھنٹے کی تو فلائٹ ہے ۔؟؟؟؟ # shahbax

محمد شہباز رتی گلی جھیل سے واپسی ۔قسط ۔ 3۔      رتی گلی جھیل سے واپسی پر اپنا بیگ کمرے میں رکھا اور ڈنر کیلئے مقررہ جگہ ...
02/11/2024

محمد شہباز
رتی گلی جھیل سے واپسی ۔قسط ۔ 3۔
رتی گلی جھیل سے واپسی پر اپنا بیگ کمرے میں رکھا اور ڈنر کیلئے مقررہ جگہ پر پہنچ گئے
اج بون فاہر Bonfire بھی تھا ۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد سبھی لوگ اءک داہرے میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے درمیان میں آگ جلائی گئی اور ساؤنڈ سسٹم پر گانوں کی گونج سنائی دینے لگی ۔ آواز گونجی کہ ڈاکٹر صاحب ڈانس کریں گے ۔ میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مجھ جیسا ڈسپنسر ڈانس میں ڈاکٹر صاحب کا ڈاتھ دے گا ۔ شمالی علاقہ جات اور کشمیر کی خوبصورت وادیوں کی سیر کو جانے والے ٹوریسٹ ایسے بون فاہر میں گانوں پر ڈانس اور بھنگڑے سے لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں ۔ کوئی رات 10 بجے کے قریب ہم سونے کیلئے اپنے روم میں چلے گئے ۔ صبح 8 بجے راوالپنڈی واپسی اور ساڑھے 7 بجے ناشتے کیلئے بولا گیا تھا ۔ ہم کوئی 19 بجے کے قریب ہی Kieran سے راولپنڈی کیلئے روانہ ہوئے ۔
سیک مقام پر ہم دوپہر کے کھانے کیلئے رکے کوئی ایک گھنٹے کیلئے یہاں ٹھرے اور پھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا ۔
دوپہر کے گھانے کیلئے جب کوچ رکی تو کہا گیا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد یہ کوچ ڈاہریکٹ لاہور ہی جائیے گی راستے میں کوچ پیٹرول ڈلوانے کیلئے رکی تو سبھی لوگ کوچ سے اتر گئے ۔ اور واش روم جانے کیلئے لاہن میں لگ گئے ۔ یہاں بھی کمو بیش 45 منٹ رکنا پڑا ۔
اسلام آباد ، مری روڈ ٹول پلازہ پر ٹریفک پولیس نے گاڑی روک کر اوور لوڈنگ پر چلان جر دیا ۔ شام سے کچھ دیر قبل راولپنڈی پہنچ گئے ۔ وہاں پر دو لوگوں کو اتارا گیا جنہوں نے فیصل آباد جانا تھا ڈراہیور نے ہی انہیں اس ڈٹاپ کیلئے رکشا کروا کر دیا جہاں سے سن کو فیصل آباد کی کو چ ملنی تھی ۔ یہاں سے گاڑی روانہ ہوئی تو کوچ لالہ موسٰی کے قریب پٹرول ڈلوانے کیلئے غنی پٹرولیم پر رکی تو بیشتر لوگ کوچ سے اتر گئے ۔ اور پھر ویسا ہی ہوا جیسا پچھلے پثرول پمپ پر ہوا تھا ۔ یہاں کافی ٹائم کیلے رکنے کے بعد گاڑی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئی ۔ 8 بجکر 45 منٹ پر ہم سرگودھا روڈ شاہین چوک پر اتر گئے ۔ میرا بیٹا حیدر علی ہمیں لینے کیلئے گاڑی لیکر شاہین چوک میں پیلے سے ہی موجود تھا ۔ ڈاکٹر ضیا الحسن چیمہ ، ٹورسٹ گائیڈ شرجیل مہر اور ہم 9 بجے کے بعد ہں اپنے اپنے گھروں میں بخریت واپس پہنچ گئے

کیرا ن keran سے رتی گلی جھیل ۔۔۔۔۔ قسط 2  محمد شہباز ۔۔ ناشتہ کیلئے صبح ساڑھے 7 بجے کا ٹائم دیا گیا تھا ۔ ہم صبحِ اٹھ کر...
26/10/2024

کیرا ن keran سے رتی گلی جھیل ۔۔۔۔۔ قسط 2
محمد شہباز ۔۔ ناشتہ کیلئے صبح ساڑھے 7 بجے کا ٹائم دیا گیا تھا ۔ ہم صبحِ اٹھ کر واش روم سے ہو کر ٹھیک وقت پر تیار ہو گئے تو کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھولا تو دروازے کے باہر کھڑے نوجوان نے پو چھا کواش روم میں گرم پانی تھا ہم نے کہا کہ نہیں ٹھنڈا ہی تھا ۔ گرم نہیں تو نوجوان بولا اپ اندر سے بالٹی دیں میں گرم پانی لا دیتا ہوں ۔ہم تو ناشتے کی میز پر جانے کیلث تیار تھے نوجوان سے کہا رہنے دیں جی ۔ ناشتے کی میز پر پہنچے
تو ناشتے کی میز پر ہمارے سوا کوئی بھی نہیں تھا ۔ ناشتہ کا ٹائم تو ساڑھے 7 تھا مگر لوگوں کے لیٹ پہنچنے کی وجہ سے ساڑھے 9 بجے ناشتہ دیا گیا ۔ 10 بجے اپنی اپنی کو چ میں سوار ہوئے اور کوئی 15 سے 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد کوچز کو اس جگہ روکا گیا جہاں رتی گلی جھیل جانے کیلئے جیپیں کھڑی تھیں ۔ یہاں پر ایک جیپ کا مجموعی کرایہ ساڑھے 13 ہزار بتایا گیا ۔ اس جیپ میں کم سے کم 7 لوگ بیٹھتے تھے ۔ اور یہ لوگ ساڑھے 13 ہزار کو تقسیم کر کے اپنی اپنی رقم ڈراہیور کو دے دیتے ۔ اسی طرح لوگ جیپوں میں سوار ہو کر رتی گلی جھیل جانے کیلئے روانہ ہوتے گئے ۔ ہماری باری ائی تو ہمارے لئے ایک بڑی جیپ کا بندوبست کیا گیا تو اس کے بہت زیادہ پیسے مانگے گئے ۔ جیپ آئی جو دیکھنے میں ساہز کے لحاظ سے دوسری جیپوں جیسی ہی تھی ۔ بس دوسری جیپوں کی سیثوں سے اس جیپ میں سیٹں لکانے کا انداز مختلف تھا ۔ پہلے والی جیپوں میں ڈرائیور کے پچھلی جانب دو دو جڑواں سیٹوں کے دو سیٹ لگے ہوئے تھے ۔ مگر ان پر تین تین لوگ بٹھائے گیے تھے جبکہ ہمارے والی جیپ جسے بڑی جیپ کہا گیا تھا ۔اسکے ڈرائیور والی سیٹ کے پیچھے والی سیٹ تو دوسری جیپوں جیسی ہی تھی مگر اس سیٹ کے پیچھلی جانب آمنے سامنے جو سیٹیں لگائی گئیں ان پر دو دو اور ڈرائیور کی پچھلی سیٹ پر 4 لوگوں اور فرنٹ سیٹ پر دو لوگوں کو بٹھایا گیا ۔
ہم جیپ کی پچھلی نشستوں پر بیٹھے ۔ جیپ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئی اور ساڑھے 3 گھنٹے کی مسافت کے بعد جیپ رتی گلی بیس کیمپ پر پہنچی ۔ جیپ کا ساڑھے تین گھنٹے کا یہ سفر میری زندگی کا یہ مشکل ترین سفر تھا ۔ جیپ جن راستوں پر چل رہی تھی ۔ یہ نہ تو پختہ اور نہ ہی اسے سڑک کہا جا سکتا تھا ۔
بس یہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی ضرورت کیلئے سنگلاخ پہاڑوں کو توڑ کر
ایک راستہ بنا رکھا تھا جس پر ہم جیسے ٹوریسٹوں کو جیپوں میں بیٹھا کر رتی گل جھیل کے بیس کم تک لیجایا جاتا ۔ اس سفر کے دوران پہڑوں کے خوبصورت نظاروں کے ساتھ ساتھ کئی پانی کے چشمے ( واٹر فال ) بھی تھے ۔ جیپ میں ہم سب کو انسانوں کی طرح نہیں بلکہ بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا ہوا تھا ۔ جب ہم بیس کیمپ پہنچ کر جیپ سے باہر نکلے تو بہت ہی برا حال تھا ۔ بیس کیپ پر چائے پانی کے بعد رتی گلی جھیل جانے کیلئے پیدل یا گھوڑے پر سوار ہو نا تھا ۔ ہمارے ٹوریسٹ گارڈ نے کہا کہ کو ئی زیادہ دور نہیں اور نہ ہی پیدل چلنا کوئی مشکل ہے ۔ انجوائے کرنے کیلث پیدل ہی چلتے ہیں ۔ ہم اٹھے اور بیس کیمپ کی جانب جانے لگے تو مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں تو دو قدم سے زیادہ نہیں چل سکتا اور میں ہر دو سے تین قدم چلنے کے بعد رک جاتا اور کسی قریبی پتھر پر بیٹھ جاتا ۔ مجموعی طور پر کوئی 50 گز ہی چلا ہوں گا کہ ایک جیپ رتی جھیل کی جانب جاتی ہوئی گزری اس پر بہت سے لوگ سوار تھے اور سبھی سوار جیپ میں بیٹھے نہیں بلکہ کھڑے تھے ۔ ہمارے ٹورسٹ گارڈ نے جیپ کو روکا اور ہمیں اشارہ کیا کہ ادھر آ جاہیں ۔ ہم دونوں میا بیوی کو اس جیپ کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا گیا ۔ رتی جھیل سے واپس آنے والے گھوڑوں کے مالک جیپ کے ڈرائیور کو روک کر ناراضگی کا اظہار کرتے کہ یہ تم زیادتی کر رہے ہو ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں کے جیپ ڈرائیورز اور گھوڑوں کے مالکان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کوئی بھی جیپ بیس کیمپ سے ٹورسٹوں کو رتی گلی جھیل لیکر نہیں جا سکتی ۔
بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل کا یہ رستہ جھیل والے راستے سے بھی مشکل اور چوڑائی میں چھو ٹا اور خطرناک تھا ۔ ابھی شاید آدھا راستہ ہی طہ کیا ہو گا کہ جیپ ایک جگہ پر رکی اور ڈراہیور نے جیپ کو آگے جانے کیلئے ریس دی تو جیپ آگے جانے کے بجائے پیچھے سلپ ہوئی ۔ یہاں سلپری تھی اور پچھلے ٹاہر کیلئے مزید پیچھے جانے کیلئے صرف 4 انچ کی جگہ تھی ۔ ڈرائیور نے کہا سب یہیں اتر جاہیں جیپ آگے نہیں جائے گی ۔ ہم سبھی وہاں اتر گئے اور ایک ساہیڈ پر ہو کر بیٹھ گئے ۔ جھیل تک پیدل جانے والے بعض لوگ تھک ہار کر راستوں میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ لوگ جھیل تک جانے کیلئے ، جھیل سے واپس آنے والے گھوڑوں پر سوار ہو رہے تھے ۔ ہم بھی گھوڑوں پر سوار ہو گئے ۔ جیپ والے نے آدھ راستے کے چار چار سو روپے لئے اور جھیل تک پہنچانے کے گھوڑے والوں نے سات سات سو روپے لئے ۔ میں تو جھیل پر پہنچتے ہی خود کو نارمل کرنے کیلئے زمین پر لیٹ گیا ۔ اور کافی دیر تک لیٹا ہی رہا ۔ رتی گلی جھیل کے گردا گرد پہاڑوں پر جمی برف اور جھیل کی صاف اور شفاف نیلگوں پانی نے اس جھیل کو اور بھی خوبصورت بنا رکھا تھا ۔ یہاں پر موجود لوگ ان خوبصورت نظاروں کو اپنے موبائل کیمروں میں محفوظ کررہے تھے ۔ رتی جھیل پر
کوئی ڈھیڑ سے دو گھنٹے ٹھہرنے کے بعد ہم گھوڑوں پر سوار ہوکر واپس بیس کیمپ پہنچے ۔ واپسی پر گھوڑے والوں کو پانچ پانچ سو روپے دئیے گئے
وہاں چائے پانی کے بعد جیپ پر سوار ہو کر واپسی کا سفر شروع کر دیا واپسی سفر کیلے ہم پچھلی سیٹوں کے بجائے ڈراہیور کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ۔ جیپ کو چلے کوئی 10 منٹ ہی گزرے ہونگے کہ پیچھے سے اواز آئی کہ جو پہلے پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ کیسے بیٹھے تھے ۔ یہاں تو بیٹھا ہی نہیں جا رہا ۔ ہم نے ہنستے ہوئے کہا کہ اسی لئے تو آپ لوگوں کو پیچھے بٹھایا ہے کہ آپ کو پتہ تو چلے کہ ہم کس طرح پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ہم کوئی ساڑھے 7 بجے واپس کیران پہنچ گئے ۔
ایک بات آپ لوگوں کو بتانا ضروری ہے ۔ Keran کیران میں 24 گھنٹوں میں ژیادہ سے زیادہ 4 گھنٹوں کیلئے بجلی اتی ہے ۔ صبح کے اوقات میں واش روم کیلئے گرم پانی کا ضرور کہتے ہیں ۔مگر ملتا نہیں

خوبصورت رتی گلی جھیل محمد شہباز۔  قسط 1رتی گلی جھیل کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے کے لیے اپنے بھائیوں جیسے دوست ڈاکٹر ضیادال...
16/10/2024

خوبصورت رتی گلی جھیل
محمد شہباز۔ قسط 1
رتی گلی جھیل کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے کے لیے اپنے بھائیوں جیسے دوست ڈاکٹر ضیادالحسن چیمہ عرف ہماہیوں چیمہ آف چیمہ ڈینٹل کلینک جمعرات کو رات 3 بجے کے قریب سرگودھا روڈ شاہین چوک سے ٹورکوچ میں سوار ہو کر راولپنڈی کی جانب روانہ ہو گئے ۔ لاہور سے آنے والی اس کوچ کو رات ایک بج کر 30 منٹ پر پہنچنا تھا مگر کوچ رات 3 بجے گجرات پہنچی ۔ کوچ چائے پانی کے لئے میاں جی ہوٹل ٹھہری اور صبح ساڑھے 6 ںجے کے قریب راوالپنڈی سٹاپ پر پہنچی ۔ یہاں پر فیصل آباد سے آنے والی ٹورسٹ کوچ اور لاہور سے راولپنڈی پہنچے والی کوچ جو مختلف مقام کی جانب روانہ ہونی تھیں ۔ کے ٹورسٹ کو ایکسچینج کیا گیا ۔
صبح 7 بجے ہماری کوچ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی ۔ کوچ اسلام آباد ، مری موٹر وے سے مظفر آباد آزاد کشمیر ہائی وے پر دوڑتی مظفرآباد آزاد کشمیر شہر سے گزرنے کے بعد صبح کے ناشتے کیلئے ایک ہوٹل پر رکی ۔
اس ہوٹل کے پراٹھے اور چنے بڑے مزیدار تھے ۔
کوئی سیک گھنٹے کے وقفے کے بعد کوچ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی ۔
کوئی دو گھنٹے کی مسافت کے بعد کوچ Dhani دھانی واٹر فال سپاٹ پر رک گئی اور کہا گیا کہ آدھ گھنٹے کیلئے اس وزٹ پوائنٹ کو انجوائے کریں ۔ یہ واٹر فال پوائنٹ کوئی خاص ویزٹ پوائنٹ نہیں تھا ۔ کوچ نیلم جہلم ڈیم سے گزرتے ہوئے ایل او سی پوائنٹ پر آ کر رکی ۔ اس پوائنٹ پر دریائے نیل کے سیک کنارے پر آزاد کشمیر جبکہ دریا کے دوسری جانب مقبوضہ کشمیر جسے انڈیا نے آہنی ترمیم
کے ساتھ اندیا کا حصہ قرا دے دیا تھا ۔
یہاں ایک ہوٹل کی چھت پر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ۔ اس چھت پر چڑھے تو دریا کے پار انڈیا کا جھنڈا اور اس علاقے میں رہنے والے ہندوں کمیونٹی کے لوگ جن میں خواتین اور مرد دریا کنارے بیٹھے نظر آ رہے تھے ۔ دریا کے پار پہاڑی علاقے میں عمومی رہائشی عمارات کے علاوہ مندر بھی نظر آ رہا تھا ۔ یہاں پر ایک گھنٹہ رکنے کے بعد کوچ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی ۔ کوچ تقریباً دو گھنٹے کی مسافت کے بعد Kutton کتون واٹر فال (kundal شاہی ) پر پہنچ گئی ۔ یہ اس ٹرپ کا سب تک کا خوبصورت پوائنٹ تھا ۔ یہان واٹر فال کے علاوہ ایک پارک بھی تھا ۔اس پارک میں بچوں کیلئے جھولے بھی لگے ہوئے تھے پارک میں اینٹری فیس 50 روپے تھی جبکہ بچوں کیلئے جھولے فری تھے ۔ اس پواینٹ پر اجھی خاصی رونق تھی ۔ یہاں ایک گھنٹہ سے زائد رکنے کے بعد کو چ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی ۔ کوچ سورج غروب ہونے سے قبل ہی Keran کیران پہنچ گئی ۔
یہسں سبھی ٹورسٹ کیلئے ڈنر اور رات ٹھہرنے کا انتظام تھا ۔ سبھی لوگ اپنا سامان لیکر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور ایک وقفہ کے بعد رات کے کھانے کیلئے ہوٹل کے لان میں لگے میز کرسیوں پر براجمان ہو گئے اور کھانا کھانے اور چائے پینے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے

محمد شہباز ۔۔۔                       منتھلی جی ٹی ایس چوک کے ساتھ پنجاب ہاٸی وے کے دفتر میں ایکسین سمیت دیگر سٹاف سے ملا...
07/10/2024

محمد شہباز ۔۔۔
منتھلی
جی ٹی ایس چوک کے ساتھ پنجاب ہاٸی وے کے دفتر میں ایکسین سمیت دیگر سٹاف سے ملاقات رہتی تھی کبھی ایکسین صاحب کے ساتھ اور کبھی سب انجیر چوہدری منظور صاب سے ملاقات ہوتی اور چاۓ بھی پی جاتی ۔ایک روز چویدری منظور صاحب نے پوچھا اتوار کو سرکاری دفاتر تو بند ہوتے ہیں ۔ اس روز آپ کی مصروفیات کیا ہوتی ہیں ۔ میرا جواب تھا کہ ۔ اتوار کے روز تاجروں اور صنعتکار وں سے مل لیا ہوں اور کچھ وقت فیملی کے ساتھ گزارتا ہوں ۔ میرا جواب سن کرمنظور صاحب کہنے لگے ہمارے آفس کے ساتھ ہی ہائی وے کالونی میں میری رہاہش ہے ۔ اس اتوار کو میرے گھر آہیں اکٹھے چاۓ پئیں گے ۔ میں نے کہا چاۓ تو اب بھی پی رہا ہوں جب بھی آتا ہوں آپ چاۓ پلاۓ بغیر جانے ہی نہیں دیتٕے پھر گھر میں؟ بس دل چاہتا ہے اس توار کو آپ ضرور میرے گھر تشریف لاہیں۔ میں نے حامی بھر لی ۔ اتوار کو مقررہ وقت پر منظور صاحب کے گھر پہنچ گیا ۔ باہر لابی میں ٹیبل اور کرسیاں لگی ہوٸی تھیں ۔ چاۓ آٸی تو چاۓ کے ساتھ بیکری آیٹم بھی ۔ بات چیت کے دوران کہنے لگے ایکسین صاحب آپکی بڑی تعریف کرتے ہیں ۔ یہ انکی مہربانی ہے ۔ میں تو زیادہ تر کس خبر یا محکمانہ کارکردگی کے حوالے سے بات کرنے کے لٸے ہی ان سے ملاقات کرتا ہوں ۔کوٸی آدھ گھنٹہ وہاں ٹھہرا اور منظور صاحب سے شکریہ کے ساتھ اجازت چاہی۔ منظور صاحب بیرونی گیٹ تک مجھے چھوڑنے آۓ ۔ جب ان سے الوداعی ہاتھ ملانے کے بعد رخصت ہونے لگا تو وہ ایک ہزار کا نوٹ زبردستی میری جیب میں ڈالتے ہوۓ کہنے لگے ۔ ایکسین صاحب اکثر پوچھتے ہیں باقی اخبار نویسوں کو پیسے دیتے ہو شہباز کو بھی دیتے ہو یا نہیں اور میرا ہر بار جواب نفی میں ہوتا ہے ۔ میں نے کہا لگتا ہے اسی لٸے مجھے گھر بلایا تھا ۔ نہیں یار آپکے ساتھی تو کھلے عام مانگتے بھی ہیں اور سب کے سامنے دینے میں بھی ہمیں کوٸی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ۔ کیونکہ یہ معمول کی بات ہوتی ہے۔ لیکن میں اپ کو کسے کے سامنے نہیں دینا چاہتا تھا ۔ میں نے اس شرط کے ساتھ وہ ہزار روپے رکھ لٸے کہ منظور صاحب آہیندہ نہیں ۔۔

قاضی نصیر صاحب گجرات میں مجسٹریٹ بھی رہے اور سب رجسٹرار بھی ۔ جب وہ سب رجسٹرار تھے تو ایک روز میں جی ٹی ایس چوک میں کھڑا تھا ۔ قاضی نصیر صاحب اپنی جیپ میں وہاں پہنچے تو ان سے ملاقات ہوٸی سلام دعا اور خیر خریت کے بعد کہنے لگے شہباز یار کل زرا آفس تو آنا ۔ میں نے پوچھا خیر اے ۔ سب خیر ہے ۔ بس تم آنا ۔ اگلے روز میں انکے دفتر پہنچاتو قاضی صاحب نے ماتحت اہلکار کو چاۓ کے لٸے بولا ۔ چاۓ آ گٸی ، میں چاۓ پیتا رہا اور وہ اپنی معمول کے کام نپٹاتے رہے چاۓ ختم ہوٸی تو قاضی صاحب نے اپنے کسی ماتحت اہلکار کا نام لیتے ہوۓ ناہب قاصد کو بلانے کے لٸے کہا ۔ چند لمحوں کے بعد وہ ماتحت اہلکار آگیا اور مجھے انکے ساتھ جانے کو کہا ۔ قاضی صاحب کے دفتر سے باہر نکل کر اس اہلکار نے کچھ رقم زبردستی میری جیب میں ڈال دی ۔ قاضی صاحب نے شاہد اسی لٸے مجھے بلایا تھا ۔ بس بات سوچنے اور سمجھنے والی ہے۔۔۔۔
ایک روز نانب ناظم میاں ہارون مسعود سے ملنے انکے ٹی ایم اے گجرات آفس گیا ۔ تو وہ انجینٸر برانچ کے ہیڈ اور دیگر سٹاف سے میٹنگ کر رہے تھے ۔ میاں صاحب کو سلام کرنے کے بعد ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ میٹنگ ختم ہوٸی تو میاں ہارون مسعود میری طرف متوجہ ہوٸے اور خیر خریت پوچھنے کے بعد ۔ انجینٸر برانچ کے سثاف جن میں ملک خرم اور ہیڈ کلرک منظور قادر بھی موجود تھے کو مخاطب کرتے ہوۓ ہوچھنے لگے ۔ یار شہباز کی بھی کبھی کوٸی خدمت کی ہی یا نہیں ۔ ملک خرم نے جواب دیا کہ نہیں میاں صاحب ۔ کمال إے جہیڑا بندہ تواڈیاں خبراں وی لاۓ تے توانوں تنگ وی نہ کرے اونہوں تسی پچھدے ای نہیں ۔ ملک خرم نے کہا ۔ میاں صاحب حکم کی تعمیل ہو گی ۔ آہیندہ شہباز صاحب کی بھی خدمت کی جاۓ گی ۔ دفتر سے باہر نکلا تو ملک خرم کہنے لگے ۔ شہباز صاحب اب ہر مہینے اپنا حصہ آ کر لے جایا کرنا ۔ ملک خرم صاحب کو اللہ تعالی لمبی عمر اور صحت عطا کرے ۔ وہ آج میونسپل کارپوریشن گجرات میں بطور سپرنٹینڈینٹ اپنے فراہض سر انجام دے رہے ہیں ۔ میں نے انہیں کہا کہ جناب مجھے علم ہے کہ جو بھی ادارے اخبارنویسوں کی ماہانہ کی بنیاد پر خدمت کرتے ہیں ان اداروں میں ایسے اخبارنویسوں کی باقاعدہ لسٹ بنی ہوتی ہے اور اخبار نویس کے نام کے ساتھ وہ رقم بھی لکھی ہوتی ہے جو انہیں ہر ماہ دی جاتی ہے ۔ اگر آپ مجھے بھی دیں گے تو اس لسٹ میں یقینأ میرا نام بھی لکھ دیا جاۓگا ۔ میری بات سننے کے بعد وہ خود تو خاموش رہے مگر انکے چہرے پر ہاں لکھا ہوا تھا ۔ میں پھر بولا کہ جناب آپ نے لسٹ میں نام لکھنا ہے تو 1990 سے لیکر اب تک جتنی رقم بنتی ہے وہ مجھے دیں تو ٹھیک ہے میرا نام لکھ لیں ۔ اب 10..12 سال کا حساب وہ کیسے دیتے۔ بولے چلو تے فیر رہن دیو چوہدری صاحب ۔

سینٹری انسپکٹر سید خادم حسین شاہ مرحوم اللہ انکی مغفرت کرے میرے ان سے بہت ہی اچھے تعلقات تھے ۔ ایک روز ان سے ملاقات ہوٸی تو ہنستے ہوۓ بولے، چوہدری شہباز آج تیری دیہاڑی لگواتے ہیں زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑے گی ۔ وہ کیسے جی ۔ شاہ صاحب نے ایک ٹھیکدار کا نام لیتے ہوۓ بتایا کہ اس نے ایک سڑک کی ریپٸرنگ کے نام پر بل کا چیک وصول کیا ہے مگر موقعہ پر ایک ٹکے کا کام بھی نہیں ہوا ۔ میں نے انہیں کہا کہ دیہاڑی کو چھوڑیں خبر لگاتے ہیں ۔ شاہ صاحب کہنے لگے نہیں او یارا ج دیہاڑی ای لگانی اے ۔ میں تو تمھارا انتظار کر رہا تھا بس ٹھیکیدار کو ڈھونڈ کر خبر لگانے کی دھمکی دے دو ۔ خبر نہیں لگانی ۔ دیہاڑی لگ جاۓ گی۔ میں نے اسے کیا ڈھونڈنا تھا ۔ بات کو چند گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ وہ ٹھیکیدار مجھے ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ شاہ صاحب نے انہیں بتایا کہ شہباز کو کہیں سے پتہ چل گیا ہے کہ آپ نے فرضی کام کی پیمنٹ لی ہے۔ ثھیکیدار نے میرے موباہل پر بات کرتے ہوۓ خبر شاہع نہ کرنے کی درخواست کی اور اگلے روز ملاقات کے لٸے کہا ۔ اگلے روز ٹھیکیدار سے ملاقات ہو گٸی ۔ رونے لگا ساری 65 ہزار کی رقم ہے کمیشن کے علاوہ جس کی سکیم ہے ۔آدھی رقم تو اس نے لے لینے ہے۔ مجھے کیا بچنا ہے ۔ شاہ صاحب کی موجوگی میں ہی 2500 روپے میں بات طہ ہو گٸی ۔ ٹھیکدار چلا گیا تو ہم دونوں اس بات پر کھل کرہنسے اور لوٹ ہوٹ ہوتے رہے ۔ شاہ صاحب بولے چلو دو چار مہینے کا موٹر ساہیکل کا پیٹرول ہی سہی۔یہاں مجھے مشتاق ناصر صاحب کی ایک بات یاد آ گٸی ہے ایک روز ہلال احمر بلڈنگ روزنامہ جنگ کے دفتر میں مشتاق ناصر صاحب سے ملاقات ہوۓ تو انہوں نے ہنستے ہوۓ یہ انکشاف کیا کہ شہباز صاحب یار یہ منتھلی لینے والے صحافیوں نے کمال کر دیا ہے ۔ آج میرے علم میں یہ بات لاٸی گٸی ہے ۔ میرا ہی ایک دوست میرے نام کی بھی منتھلی وصول کرتا رہا ہے اور میں اس سے بے خبر رہا ۔ اب میں نے ان اداروں کو آگاہ کردیا ہے کہ میرا اس سے کوٸی واسطہ نہیں اور نہ ہی آہیندہ میرے نام پر ایسا کیا جاۓ۔۔۔

ایک دوست طارق سلیمی جو لاہور کے رہمے والے تھے ۔ مگر گجرات میں ٹھیکیداری کرتے تھے ۔ اور زیادہ تر پبلک ہیلتھ انجینرنگ ذیپارٹمنٹ کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ ریلوے روڈ پر ہی عارضی رہاہش رکھی ہوٸی تھی ایک روز مجھے کہنے لگے شہباز صاحب آپکے سارے صحافی دوست پبلک ہیلتھ انجینرنگ ڈیپارٹمنٹ آتے رہتے ہیں آپ کبھی نہیں آے ۔ یار میں کسی خبر یا محکمہ کی کارکردگی یا عوامی شکایت کی بنیاد پر مختلف محکموں میں آتا جاتا ہوں ۔ شہر کے اندر اس ڈیپارٹمنٹ کے ایسے کوٸی منصوبے جس سے شہریوں کا براۓ راست تعلق ہو ۔ اور شہریوں کو ان سے کوٸی شکایت ہو۔ کبھی سامنے نہیں آیا ۔ اس لٸے وہاں جانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوٸی ۔ طارق سلیمی صاحب کہنے لگے ۔ ایکسین صاحب بہت اچھے ہیں آپ آہیں۔ ان سے آپ کی ملاقات کراوں گا ۔ اگلے روز ہی ملاقات کا پروگرام بن گیا ۔ دفتر پہنچا تو طارق سلیمی نے چاۓ منگوا لی کہ صاحب ابھی میٹنگ میں ہیں م فارغ ہوتے ہیں تو ملاقات کرتے ہیں ۔ میٹنگ ختم ہو گٸی تو کہنے لگے چلو شہباز ۔ ایکسٸین صاحب فارغ ہو گٸے ہیں ۔ اکے آفس کے قریب پہنچے تو دو اخبار نویس ایکسٸین آفس سے باہر نکل رہے تھے ۔ ان صحافیوں کو آفس سے نکلتے ہوۓ دیکھ کر میرا ہاتھ پکڑتے ہوۓ واپس مڑے اور واپس اسی کمرے میں جہاں ہم نے پہلے بیٹھ کر چاۓ پی تھی بیٹھ گٸے ۔ کہنے لگے شہباز بھاٸی آپ نے دیکھاہے ۔دو صحافی ایکسٸین صاحب کے کمرے سے باہر نکل رہے تھے ۔ جی دیکھا ہے ۔ آج آپ کی ملاقات نہیں کراٶں گا ۔ آج ملاقات کراٸی تو وہ آپ کو بھی اسی کیٹیگری میں شمار کریں گے ۔ ملاقات پھر کبھی ۔ اور پھر وہ ”کبھی“ کبھی نہیں آٸی۔

میرے گھر کے سامنے صادق بھٹی صاحب سابق سب انسپیکثر رہتے ہیں ان سے محلے دار ہونے کے ناطے اکثر ملاقات رہتی ۔ ایک روز انکے گھر ملنے گیا تو وہ گھر کے باہر ایک چارپاٸی بچھاۓ بیٹھے ہوۓ تھے ۔ ایک اجنبی انکے پاس کسی کام کی غرض سے آیا ہوا تھا ۔ سلام دعا کے بعد میں بھی انکے پاس بیٹھ گیا ۔ اجنبی شخص نے بھٹی صاحب سے میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ انکا تعارف ۔یہ چوہدری شہباز صاحب ہیں تعارف انکا یہ ہے ۔ کہ ہم ساری دنیا سے لیتے ہیں ۔ اور انکا تعلق ایسے شعبہ سے ہے۔
اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو ہم دیتے ہیں

04/10/2024

شہباز جزبہ والا
خودداری
یہ 80 کی دھاٸی کی بات ہے ۔میرے بھاہیوں نے ملکر پنکھوں کی فیکٹری بنانے کا پروگرام بنایا ۔ اس فیکٹری کی بلڈنگ بنانے کے لٸے زمین خریدی جا رہی تھی۔ میں اس وقت کراۓ کے مکان میں رہتا تھا ۔ اور مکان کا کرایہ 350 روپے ماہانہ تھا۔ اور ہر ماہ وقت پر کرایہ بھی مشکل سے دے پاتا تھا۔ میرے چھوٹے بھاٸی ڈاکٹر محمد رزاق ان دنوں امریکہ سے پاکستان آۓ ہوۓ تھے۔ میں اپنے آباٸی گھر ان سے ملنے گیا۔ ملاقات کے بعد جب میں واپس جانے لگا تو وہ بیرونی دروازے تک مجھے چھوڑنے آۓ دروازے پر الوداع کہنے سے پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ سارے بھاٸی ملکر پنکھے بنانے کا کارخانہ بنانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔کہو تو آپکا شٸیر بھی ڈال دوں ۔ میں نے انکے اس جزبہ کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ کہا نہیں بس گزر بسر ہو رہی ہے گزارا ہو رہا ہے۔

پھر نہ جانے میری زبان یہ الفاظ کیسے آ گٸے بولا بھاٸی میرے لٸے گھر کا کرایہ جو 350 روپے ماہانہ ہے ۔ وقت پر دینا زرا مشکل ہو جاتا ہے اگر مہر بانی فرما دیں تو اس سلسلہ میں میری مدد کر دیں ۔انہوں نے مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا بھاٸی اس کی فکر نہ کریں یہ کرایہ آپکو مل جایا کرے گا ۔ پھر میں خاموشی سے دروازے سےباہر نکل گیا ۔ تین چار ماہ تک جب بھی بھاٸی کی جانب سے دٸے گٸے پیسوں سے مالک مکان کو کرایہ دیتا تو خوداری کو لگی اس چوٹ کا زخم اور گہرا ہو جاتا ۔ دل کو سجھاتا کہ پیسے دینے والا سگا بھاٸی ہے وہ کوٸی غیر تھوڑا تھا جس سے میں نے مدد مانگی۔ مگر یہ دل پگلہ نہ سمجھا اور لگے زخم کی گہراٸی اور اس سے اٹھنے والی درد کو نہ سہہ سکا اور پھر کرایہ کیلٸے یہ پیسے لینا بند کر دیۓ ۔

میں بھی اپنے مزدور والد کی طرح مزدوری کرتا رہا اور اپنے والد ہی کی طرح نہ دھوپ نہ چھاوں۔۔ نہ گرمی نہ سردی دیکھی اور اپنی گھریلو زمہ داری اور خدا کی دی ہوٸی اولاد جیسی نعمت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلٸے کوشاں رہا ۔
پھر اللہ کی ذات جو بڑی مہر بان اور رحم کرنے والی ہے۔ اسے مجھ پر بھی رحم آ گیا ۔ خدا جب مہر بان ہو تو ۔ زندگی کے دن بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ میں مستقل رہاہشی ویزہ پر ((گرین کارڈ) امریکہ آ گیا ۔
کرایہ کے مکان میں رہنے والا اب اپنے گھر کا مالک ہے ۔ اس گھر کی تعمیر سے قبل میرے بھاٸی ڈاکٹر محمد رزاق نے مھجے گھر بنانے کیلٸے اس دور میں 50 ہزار روپے بھیجے ۔ اس رقم سے میں مے بھمبہر روڈ پر اہیر پورٹ سے تھوڑا آگے 10 مرلے کا پلاٹ خریدا تھا ۔ پھر اس پلاٹ کو بیچ کر اور کچھ مزید رقم کا بندو بست کر کے شادیوال روڈ پر اختر شاہ کالونی میں 13 مرلے کا پلاٹ خرید لیا ۔

جب میں زندگی کے ان گزرے مجبوری اور بے بسی کے لمحات اور اپنے والد کے مزدور کی حیثیت سے جدجہد زندگی کو یاد کرتا ہوں ۔ تو اکیلے میں رو بھی لیتا ہوں ۔ اور ساتھ ہی اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہوں جس نے اس کمزور سے بندے کو ہمت ۔تندرستی اور صحت کے ساتھ ساتھ ایک عام انسان کیلٸے بنیادی سہولتوں اور اولاد جیسی نعمت سے میرا دامن بھرا ہوا ہے ۔ میں اپنے والد اور والدہ کو بہت مس کرتا ہوں ۔ جو ہماری ضرورتوں کا خیال رکھنے کلۓ دن اور رات کا امتیاز کٸے بغیر محنت مزدوری میں لگے رہتے ۔ آج انکے سبھی بچے خوش حال زندگی گزار رہے ہیں ۔ کاش اس وقت وہ ہمارے ساتھ ہوتے اور ہمیں بھی انکی خدمت کرنے کا موقع ملتا ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین

یہاں میں ان
دوستوں کا بھی شکر گزار اور ممنون ہوں جو بوقت ضرورت میر ے کام آتے ۔ اور مجھ پر اعتماد کرتے ہوۓ وقتی ضرورت کے لٸے کحچھ رقم ادھار دے دیتے۔ میں انکا یہ قرض کبھی وقت پر اور کبھی دیر سے لوٹا دیتا ۔ امریکہ آنے کے بعد جب میرے حالات بدلے اور معاشی آسودگی آگٸی ۔ تو میرے بعض دوستوں نے اپنی ضرورت کے لٸے مجھ سے رقم مانگی تو میں نے بھی کبھی انکار نہ کیا ۔ اور دوستوں کو مایوس نہیں کیا ۔ میں تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں کسی دوست یا کسی عزیز کے مشکل وقت میں اسکے کام آیا ۔ میں نے ان دوستوں کو حسب وعدہ قرض حسنہ واپس نہ لوٹانے پر کبھی یاد دہانی کراٸی تو انکی جانب سے جواب میں جلد ادا کرنے کی یقین دھانی پر خاموشی کو ہی بہتر جانا ۔ ایسے موقع پر جب کوٸی دوست اپنی مجبوری کا اظہار کرتا تو مجھے خود سے شرم سی محسوس ہوتی ۔ مجھے امید ہے اور یہ دعا ہے کہ وہ مجھ سے لیا گیا قرضہ حسنہ ضرور واپس لوٹا دیں گے۔

مگر آج کے بعد اپنے دوستوں کو اس کیلٸے نہ تو یاد دہانی اور نہ ہی کبھی باور کراٶں گا ۔ اگر وہ یہ قرضہ حسنہ اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث واپس نہ لوٹا پاۓ تو میرا یہ اللہ سے وعدہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تیرا شکر ہے۔تو نے مجھ کو اتنی ہمت اور مہر بانی عطا کی۔۔۔۔۔۔

میری بیگم جو کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ مجھ جیسےایک عام سے مزدورکے ساتھ بغیر کسی گلہ شکوہ کےنہ صرف سکی روٹی کھا کر گزرا کیا ۔ بلکہ پارٹ ٹاہم بطور بیوٹیشن کام کرتے ہوۓ گھر کی زمہ داریوں میں بھی میرا ہاتھ بٹایا اس پر میں اپنی بیگم کا بھی بے حد ممنون ومشکور ہوں ۔

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ask News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ask News:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share