09/08/2025
بلوچستان میں چلنا، پھرنا، بولنا، سوچنا۔۔۔ سب "سیکیورٹی خدشات"؟
چھ اگست سے گوادر سمیت بلوچستان کے وہ تمام علاقے، جہاں پہلے ہی کچھوے کی رفتار والی موبائل انٹرنیٹ سروس دستیاب تھی، اب مکمل طور پر بند ہیں۔ سرکاری بیانات کے مطابق، "سیکیورٹی خدشات" کے پیشِ نظر انٹرنیٹ سروس اکتیس اگست تک معطل رہے گی۔
بلوچستان میں ذرائع آمد و رفت پر پہلے ہی سخت پابندیاں عائد ہیں۔ شام سے لے کر صبح تک تمام شاہراہیں حکومتی احکامات کے تحت بند کر دی جاتی ہیں۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اکثر بلوچ مسلح تنظیمیں مختلف شاہراہوں کو بند کر کے کارروائیاں کرتی ہیں، سیکیورٹی فورسز سے اسلحہ چھین لیتی ہیں، معدنیات لے جانے والی گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیتی ہیں، اور پنجابی مزدوروں کو قتل کر دیتی ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت نے سفری پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
بلوچستان پہلے ہی ایک "انفارمیشن بلیک ہول" بن چکا ہے — جہاں معلومات تک رسائی، حقائق جاننے اور اظہارِ رائے کی آزادی محض ایک خواب ہے۔ ایسے میں انٹرنیٹ کی بندش یہ سوال جنم دیتی ہے کہ جن "خدشات" کے باعث موبائل سروسز بند کی جاتی ہیں، وہی مسلح تنظیمیں خود آ کر موبائل ٹاورز کو نذرِ آتش کرتی ہیں اور ان کارروائیوں کی ذمے داری بھی قبول کرتی ہیں۔
گوادر جیسے شہر میں، جہاں روزانہ بجلی اور پانی جیسے بنیادی انسانی حقوق کے لیے لوگ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، وہاں تو انٹرنیٹ کی بندش پر شکوہ بنتا ہی نہیں۔ بنیادی ضروریات ہی ناپید ہوں تو انٹرنیٹ کیا معنی رکھتا ہے؟ مگر سوال پھر بھی باقی ہے: حکومت کی رٹ صرف "بند کرنے" تک محدود کیوں ہے؟
کیا اکتیس اگست کے بعد سیکیورٹی خدشات ختم ہو جائیں گے؟ کیا مسلح تنظیمیں اپنی کارروائیاں روک دیں گی؟ کیا "مارو، پھینکو، غائب کرو" کے ساتھ ساتھ اب "بند کرو" کی پالیسی سے کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟
کتابیں "سیکیورٹی خدشہ"، سیاسی سرگرمیاں "سیکیورٹی خدشہ"، سفر کرنا "سیکیورٹی خدشہ"، بولنا، سوچنا، یہاں تک کہ جینا بھی اب سیکیورٹی رسک بن چکا ہے۔ بلوچستان میں اس سے قبل کتنے ہی تجربات کیے جا چکے ہیں۔ لیکن ان سب کی ناکامی کے باوجود ان پالیسی سازوں سے کبھی کوئی سوال کیا گیا؟
شاید اصل خطرہ اُس ذہنیت میں ہے جو "بند کرو" سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتی۔ جو پالیسیاں پہلے ناکام ہو چکی ہیں، ان کے بوجھ کو آج کے پالیسی ساز کیوں اٹھائے پھر رہے ہیں؟ کیوں ایک مردہ نظام کی لاش کو گھسیٹتے چلے جا رہے ہیں؟
یہ نظام، جس نے ماضی میں جنگی منافع خور پیدا کیے، آج بھی اُنہی گِدھوں کے ہاتھوں نوچا جا رہا ہے۔ مگر حالات نہیں بدلے۔ تو کیا آج کے جنگی منافع خور کل کو بدل پائیں گے؟ اہلِ پنجاب اور باقی پاکستان آج بھی بلوچستان سے متعلق لاعلم ہیں۔ کیا اس لاعلمی سے بلوچستان کا کوئی مثبت تاثر پیدا ہوا؟
اگر آج انٹرنیٹ کی بندش کے باعث بلوچستان کے عوام چند دن یا مہینے حالاتِ حاضرہ سے ناواقف رہیں تو کیا صورتحال بہتر ہو جائے گی؟ جب انٹرنیٹ نہیں تھا، کیا تب حالات درست تھے؟
پنجگور، آواران اور تمپ جیسے علاقوں میں پہلے ہی انٹرنیٹ نہیں ہے۔ تو کیا یہ علاقے اب سب سے پُرامن بن چکے ہیں؟ کیا وہاں سے سیکیورٹی خدشات ختم ہو چکے ہیں؟
بلوچستان کا مثبت تاثر بنانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے پوڈکاسٹ اور سوشل میڈیا مہمات چلائی گئیں، پوڈ کاسٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے گئے۔ کیا اب یہ سب صرف سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر انجوائے کیے جائیں گے؟ کیا اسی سے بلوچستان کا امیج بہتر ہو جائے گا؟
اگر گوادر کی ترقی اور سی پیک کے اشتہارات پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی گوادر میں انٹرنیٹ بند کر کے مشکے، آواران یا پنجگور جیسا "محفوظ" بنایا جا رہا ہے، تو سوال بنتا ہے کہ پھر مشکے میں گوادر جیسی ترقی کب آئے گی؟
آج گوادر، ایک بندرگاہی شہر، اور آواران ایک پسماندہ ضلع، دونوں میں یکساں انٹرنیٹ کی بندش ہے۔ شاید یہی وہ "برابری" ہے جس کا خواب دکھایا گیا تھا۔ اب چاہے اسے اجتماعی سزا کہا جائے یا یکساں سلوک، سچ یہی ہے کہ بلوچستان کی واحد پہچان سرکاری طور پر "سیکیورٹی خدشات" بن چکی ہے۔
سڑکیں سیکیورٹی خدشات، سیاسی سرگرمیاں سیکیورٹی خدشات، انٹرنیٹ سیکیورٹی خدشات، لکھنا، پڑھنا، بولنا، سوچنا اور جینا، سب سیکیورٹی خدشات؟۔۔۔۔
جاوید بلوچ