26/06/2025
"دادا ابو نے ریڈیو خریدا تھا۔"
جب میرے دادا نے 1958 میں پہلا ریڈیو خریدا، تو سارا محلہ سننے آتا تھا۔
محلے کی عورتیں برتن دھوتے ہوئے کان لگا لیتی تھیں، مرد چارپائی پر بیٹھے قومی خبریں سنتے تھے۔ بچوں کو چپ کروایا جاتا تھا، اور ریڈیو کی آواز "ریاست" کی آواز سمجھی جاتی تھی۔
خبریں تھیں، مگر رائے صرف انہی کی تھی جو مائیک پر تھے۔
ریڈیو پر جو کچھ بولا گیا — وہی سچ تھا۔
پھر ایک دن…
دادا نے کہا:
"بیٹا، خبروں پر شک کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا… اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں تھا۔"
اخبار میں تصویر چھپ گئی، تو بات پکی ہو گئی۔
ریڈیو پر اعلان ہو گیا، تو قوم کا فیصلہ ہو گیا۔
اس دور میں بولنے کا حق صرف ان کے پاس تھا جو اخبار کے مالک تھے، یا ریڈیو پر بیٹھے تھے۔
آج؟ تمہارے ہاتھ میں وہی طاقت ہے
آج جب تم صبح اُٹھتے ہو، تو ایک اسمارٹ فون تمہارے ہاتھ میں ہوتا ہے —
اور وہ فون، تمہیں صرف سننے والا نہیں بناتا…
بلکہ میڈیا کا حصہ بناتا ہے۔
تمہیں کسی خبر کو پوسٹ کرنے کے لیے
نہ کسی ایڈیٹر کی اجازت چاہیے،
نہ کسی نشریاتی پالیسی کی منظوری۔
تم نے اگر چاہا، تو ایک ویڈیو پوری قوم میں پھیل سکتی ہے۔
چاہو، تو کسی کی عزت دو سیکنڈ میں خاک ہو سکتی ہے۔
چاہو، تو کسی کے خواب زندہ ہو سکتے ہیں۔
تو فرق کیا ہوا؟
فرق صرف ایک چیز میں آیا ہے:
ذمہ داری۔
کل میڈیا ان کے ہاتھ میں تھا، آج تمہارے ہاتھ میں ہے۔
لیکن افسوس!
کل وہ سوچ کر بولتے تھے — آج ہم سوچے بغیر بول رہے ہیں۔
کل کا پروپیگنڈا ریڈیو پر ہوتا تھا، آج وٹس ایپ پر
تم سمجھتے ہو تم "صرف فارورڈ" کر رہے ہو؟
نہیں۔
تم حصہ بن رہے ہو اُس پروپیگنڈے کا
جس کے لیے 1953 میں CIA نے ایران میں پورا نظام بدلا۔
اُس وقت اخبار، ریڈیو، علماء، سیاستدان — سب کو استعمال کیا گیا۔
آج صرف ایک "ریپوسٹ" بٹن ہے — اور تم ہو۔
اب فیصلہ تمہیں کرنا ہے
🔸 کیا تم اُس دادا ابو کی طرح ہو جو صرف سنتے تھے؟
🔸 یا تم اُن میں سے ہو جو اب بولنے کا ہنر بھی جانتے ہیں؟
کیونکہ سچ شیئر کرنا عبادت ہے — اور جھوٹ پھیلانا وبا۔
ضروری نوٹ: طاقت کا صحیح استعمال سیکھو
ہر دور کا اپنا ایک میڈیا ہوتا ہے۔
ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیا — یہ سب صرف ذرائع ہیں۔
اصل طاقت اس شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے
جو جانتا ہو کب بولنا ہے، اور کب خاموش رہنا ہے۔
تو آئیں…
ایک باشعور ڈیجیٹل انسان بنیں۔
صرف ڈیجیٹل ٹولز نہ سیکھیں —
بلکہ ڈیجیٹل اخلاقیات بھی اپنائیں۔
(حافظ آباد ٹی وی)