
05/08/2025
"الحمدللہ میرا 4 اگست یوم شہداء پولیس کے حوالے سے کالم اور اس کی کوریج۔احباب کا بہت شکریہ
۔ُُ۔
وہ جو خاک میں مل کے وفا کا علم اٹھا گئے
تحریر :گلزار حسین چوہان
پولیس کے شعبے کو اگر ریاست کا بازوئے شمشیر زن کہا جائے تو یہ بات ہرگز مبالغہ نہیں ہو گی۔ ریاست کی رِٹ قائم رکھنے، قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے، امنِ عامہ برقرار رکھنے اور شہریوں کے جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی جو بھاری ذمہ داری ہے، وہ محکمہ پولیس کے سپرد ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو نہ دن دیکھتا ہے نہ رات، نہ سردی کا لحاظ کرتا ہے نہ گرمی کا گلہ۔ ہر لمحہ، ہر موسم میں فرض کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔ جو کام باقی ادارے دفتری اوقات کے اندر انجام دیتے ہیں، وہی کام پولیس ہر پل، ہر قدم پر، جان ہتھیلی پر رکھ کر ادا کرتی ہے۔
ہر سال 4 اگست کو پاکستان بھر میں یومِ شہداء پولیس منایا جاتا ہے تاکہ ان گمنام اور جری سپوتوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے جنہوں نے قانون و امن کے علم کو تھامے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ دن تقاریب اور تصویروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہمیں جھنجھوڑنے، یاد دلانے اور ذمہ داری کا احساس دِلانے کا دن ہے۔ یہ صرف ان شہیدوں کا ذکر نہیں بلکہ ان کے مشن کا اعادہ ہے۔ وہ مشن جس کے لیے انہوں نے ہنستے ہوئے کفن پہنا اور مٹی کی چادر اوڑھ لی۔
پولیس ادارے کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ جب معاشرے میں ظلم بڑھ جائے، قانون شکن دندناتے پھریں، جب عام شہری خوف کے سائے میں سانس لے، تب یہی پولیس ہوتی ہے جو پہلی دیوار بن کر مجرموں کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ عدالتوں کا دروازہ بعد میں کھلتا ہے، لیکن فریادی سب سے پہلے تھانے کا رخ کرتا ہے۔ اسی لیے پولیس کا ادارہ معاشرتی امن و عدل کا پہلا محافظ ہے۔
اگر ہم اس ادارے کی خوبیوں پر نظر ڈالیں تو بے شمار ایسے افسران و جوان دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے دہشت گردوں، ڈاکوؤں، اغوا کاروں اور ملک دشمن عناصر کے خلاف جانیں قربان کر کے وطن کی حفاظت کی۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہر ضلع میں ایسے سپوت موجود ہیں جنہوں نے گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پیچھے ہٹنا گوارا نہ کیا۔ اُن کے سینے چھلنی ہوئے مگر فرض کے قدم نہ لڑکھڑائے۔ وہ آج بھی ناصرف ہمارے دلوں میں زندہ ہیں بلکہ ملک کی غیرت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
محکمہ پولیس میں کئی اصلاحاتی پہلو بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹس، ڈیجیٹل رپورٹنگ، خواتین پولیس کی شمولیت، کمیونٹی پولیسنگ ،سی سی ڈی کی بنیاد اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے پولیس کے کردار کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔ بعض اہلکاروں کی جرات و بہادری ، فرض شناسی، نرم گفتاری، انصاف پسندی اور عوام دوستی نے محکمہ کی ساکھ بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو اصلاح کا تقاضا کرتا ہے۔ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت ایک خطرناک سرطان بن چکی ہے۔ میرٹ کی پامالی، سفارش، اقربا پروری، بدعنوانی اور بدنام زمانہ تھانہ کلچر عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے۔ کئی مقامات پر شہری تھانے جانے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ انصاف کے بجائے مزید ظلم کا شکار نہ ہو جائیں۔ یہ خلیج اب اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ اسے مٹانے کے لیے بلند دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات درکار ہیں۔
ایک اور قابلِ غور پہلو پولیس اہلکاروں کی فلاح و بہبود کا ہے۔ کم تنخواہ، طویل ڈیوٹی اوقات، نفسیاتی دباؤ، عدم تحفظ اور صحت کی سہولیات کا فقدان ان کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ شہداء کے خاندان کئی بار حکومتی توجہ سے محروم نظر آتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم، نوکری اور فلاح کے لیے کوئی مستقل پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ جو ادارہ جان کی بازی لگا کر ریاست کا دفاع کرتا ہے، کیا اس کے وارث یوں بے سہارا ہونے چاہئیں؟
یومِ شہداء پولیس محض سالانہ دن نہیں، یہ ایک عہد کی تجدید ہے کہ ہم ان قربانیوں کو یاد رکھیں گے، ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے، اور پولیس ادارے کو بہتر، منصف اور باوقار بنائیں گے۔ عوام اور پولیس کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کی جائے گی تاکہ یہ رشتہ خوف کا نہیں، خدمت کا ہو۔
یہ دن ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ وہ ماں جو اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر سے آنکھوں میں آنسو چھپا لیتی ہے، وہ بیوہ جو کفن کو تقدیر مان لیتی ہے، وہ یتیم جو باپ کے نقش قدم پر چلنے کا خواب دیکھتا ہے، وہ سب ہمارے ضمیر کے دربان ہیں۔ ان کا خیال، ان کا حق، ہماری ریاستی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔آخر میں دعا ہے کہ کریم
اللہ ہمارے شہداء کو جنت الفردوس میں اعلی و ارفعی مقام عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، ان کے پسماندگان کو صبر، ہمت اور ریاستی تحفظ عطا کرے۔ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اپنی پولیس کو ایسا ادارہ بنا سکیں جو واقعی "خدمت، تحفظ، انصاف" کا عملی مظہر ہو۔
آمین، ثم آمین۔