𝔸𝕝𝕨𝕒𝕙𝕒𝕓 𝕨𝕠𝕠𝕕 𝕨𝕠𝕣𝕜𝕤

𝔸𝕝𝕨𝕒𝕙𝕒𝕓 𝕨𝕠𝕠𝕕 𝕨𝕠𝕣𝕜𝕤 follow my page Furniture design and quality wonder full design good deal for All customer....
contact info...03057808553=03074979173

07/10/2024

Good deal for All customer 🥰✌️

16/01/2024
کراچی: پاکستانی اداکارہ نازش جہانگیر نے طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ عورت مارچ اور عورتوں کے حقوق کیلیے چلنے وال...
03/06/2023

کراچی: پاکستانی اداکارہ نازش جہانگیر نے طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ عورت مارچ اور عورتوں کے حقوق کیلیے چلنے والی تحریک کو قرار دے دیا۔

یوٹیوب چینل پر بات کرتے ہوئے نازش جہانگیر نے کہا کہ آج بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ ہر رونے والی عورت سچی نہیں ہوتی، ہمیں صنفی امتیاز پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے بے راہ روی کو کم کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ایک ہی ماں کا بیٹا اور بیٹی ہے، ہمیں صرف لڑکی کو نہیں بلکہ لڑکے کو بھی بچانا ہے، ایسا نہیں کہ میں عورت کے ساتھ نہیں مگر میرے بھائی یا کسی مرد کے ساتھ زیادتی ہوگی تو میں وہاں بھی کھڑی ہوں گی۔نازش جہانگیر نے کہا کہ میں دونوں فریقین کے مؤقف کو جاننے کے بعد صرف سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دیتی ہوں کیونکہ مجھے ناانصافی پر مبنی فیمینزم پر یقین نہیں ہے اور سمجھتی ہوں کہ سڑک پر عورت مارچ کرنا بھی فیمینزم نہیں ہے اور نہ اس سے خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ جن خواتین کے مسائل ہیں اُن تک تو یہ باتیں پہنچ بھی نہیں پاتیں، وہ آج بھی کسی گاؤں میں بیٹھی کھانا بنا رہی ہوں گی، جو عورت مارچ نکالتی ہیں انہیں اور مجھے اپنے حقوق کے بارے میں سب علم ہے۔

نازش جہانگیر نے کہا کہ اس (عورت مارچ) والے رویے یا رجحان کے بعد سے خلع اور طلاق کی شرح بہت زیادہ حد تک بڑھ گئی ہے، ممکن ہے کہ میں غلط کہہ رہی ہوں مگر یہ میرا مشاہد ہے۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف بظاہر سیاسی ’جوڑ توڑ‘ کا محور بن کر سامنے آ رہی ہے۔ نو مئی کے وا...
02/06/2023

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف بظاہر سیاسی ’جوڑ توڑ‘ کا محور بن کر سامنے آ رہی ہے۔ نو مئی کے واقعات کے تناظر تحریک انصاف کے بیشتر سینیئر رہنما اور ٹکٹ ہولڈر یا تو پارٹی کو خیرآباد کہہ چکے ہیں یا سیاست کو ہی۔

تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں ’الیکٹیبلز‘ کہا جاتا ہے اور جو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل پارٹی کا حصہ بنے تھے۔

سنہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات سے قبل یہ ’الیکٹیبلز‘ اور دیگر کئی سیاستدان سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف میں بڑی تعداد میں شامل ہوئے تھے۔

تاہم آج کے سیاسی منظرنامے میں جہاں کافی کچھ مختلف ہے وہیں بہت کچھ قدرے مشترک بھی ہے خاص طور پر مرکزی کردار۔ سابق پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین ان میں سے ایک ہیں۔

2013 اور 2018 کے انتخابات سے قبل الیکٹیبلز کو تحریک انصاف میں شامل کروانے میں جہانگیر ترین نے کافی نمایاں اور متحرک کردار ادا کیا تھا۔

ان کا وہ پرائیویٹ طیارہ بہت مقبول ہوا تھا جس میں جہانگیر ترین مبینہ طور پر جنوبی پنجاب سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو عمران خان سے ملاقات کروانے کے لیے لاتے تھے اور ان ملاقاتوں کا اختتام جیتے ہوئے امیدواروں کی جانب سے تحریک انصاف میں شمولیت کے اعلان پر ہوتا تھا۔

پانچ سال بعد آج جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں نہیں ہیں۔ وہ چند برس قبل عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں۔ ان کے اثرورسوخ کے زیر اثر جو لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ان میں سے ایک بڑی تعداد بھی واپس ان کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھی۔

نو مئی کے واقعات کے بعد لگ بھگ سو سے زائد پی ٹی آئی کے سابق ممبران اسمبلی یا رہنما عمران خان کی جماعت کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ ان میں وہ رہنما بھی شامل ہیں جو جماعت میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور مظاہروں کے بعد گرفتار کر لیے گئے تھے۔

ان میں سے کچھ نے دو یا چار دن جیل میں گزارنے کے بعد رہائی پر پریس کانفرنس کے ذریعے پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو کچھ نے بغیر گرفتاری اور پریس کانفرنس ہی کے پی ٹی آئی سے دوری اختیار کرنے کا اعلان کر دیا۔ کچھ اب بھی زیرِحراست ہیں۔

اب ملک کے سیاسی منظرنامے پر صورتحال انتہائی غیر واضح ہے مگر تصویر کچھ یوں ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے سابق ممبران ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جہاں وہ جا رہے ہیں، جو انھیں لینا چاہیں گی، جہاں وہ جانا چاہیں گے یا پھر چاہنے کے باوجود جا نہیں پا رہے۔ان جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق اور تصویر کے ایک کونے میں پاکستان مسلم لیگ ن کھڑی ہیں۔ ساتھ ہی جہانگیر خان ترین بھی کھڑے ہیں۔ ان کے حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ میں بازگشت ہے کہ وہ اپنی نئی جماعت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انھوں نے خود اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم گزشتہ چند روز میں وہ اسلام آباد اور لاہور میں کئی سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے سیاستدان کس جماعت یا گروہ کا رخ کریں گے؟

کیا وہ ان جماعتوں میں واپس جانا چاہیں گے جن کو وہ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے؟ کیا وہ جماعتیں انھیں واپس لینا چاہیں گی؟ اگر وہ نہیں لیتیں، تو ایسے لوگ کہاں جائیں گے؟ کیا جہانگیر ترین ان کو اپنی طرف لا سکیں گے؟ اس تمام صورتحال کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثر ہو گا؟

’یہ سب عمران خان کو نکالنے کے لیے ہو رہا ہے‘
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی میل ملاقاتوں اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی سے عمران خان کو نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک حالیہ ملاقات کی طرف اشارہ کیا۔

اس میں پی ٹی آئی کے سابقہ رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل، محمود مولوی اور عامر محمود کیانی نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔

تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’یوں تو شاہ محمود قریشی کے خاندان کے افراد کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی اور ایسے میں فواد چوہدری وغیرہ ان سے تفصیلی ملاقات کرتے ہیں۔ واضح ہے کہ یہ ملاقات کس نے کروائی ہو گی اور کیوں کروائی ہو گی۔‘

ان کے خیال میں یہ ان کوششوں کا حصہ ہے جنھیں ’مائنس عمران خان‘ کا نام دیا جا رہا ہے یعنی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو منظرنامے سے ہٹا دیا جائے اور پھر شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کو آگے لے کر چلیں۔

یاد رہے کہ حال ہی میں عمران خان خود یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کے نااہل قرار دیے جانے کی صورت میں شاہ محمود قریشی جماعت کو لیڈ کریں گے۔ سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ 'سنہ 2002 کی طرح ن لیگ میں سے ق لیگ نکالنے جیسی کوشش ہو رہی ہے۔تو کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والے واپس آنا چاہیں گے؟
صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کچھ رہنماوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا موزوں آپشن موجود نہیں۔ ’جیسا کہ فواد چوہدری ہیں۔ وہ پہلے بھی دو تین جماعتیں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔ ان کے لیے اب کسی دوسری جماعت میں جانا مشکل ہو گا۔‘

وہ سمجھتے ہیں فواد چوہدری یا ان کے دیگر چند ساتھیوں کے لیے مشکل یہ بھی ہے کہ وہ اگر کسی دوسری جماعت میں چلے بھی چاتے ہیں تو ان کے لیے انتخاب جیتنا مشکل ہو گا۔ ’پی ٹی آئی کے نام پر ملنے والا ووٹ اب بھی صرف عمران خان کا ہے۔‘

سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے یہ سابقہ رہنما چاہیں گے کہ وہ اسی ووٹ سے استفادہ کریں اگر عمران خان جماعت میں نہیں بھی ہوتے، تب بھی۔

’یہ تمام لوگ اپنا الگ گروپ بھی بنا سکتے ہیں‘
صحافی اور تجزیہ نگار محمل سرفراز سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے کچھ سابق ممبران کو پاکستان پیپلز پارٹی نے لے لیا ہے، کچھ ق لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم ن لیگ کے حوالے سے ابھی ابہام موجود ہے۔

’ن لیگ کے پاس یا تو اپنے لوگ موجود ہیں اس لیے وہ اس طرح کے لوگوں کو لینا نہیں چاہے گی جو ان کے خلاف ماضی میں حدیں کراس کر چکے ہیں اور کچھ لوگ خود بھی جانا نہیں چاہیں گے کیونکہ ن لیگ کی مقبولیت اس وقت خود بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔‘

محمل سرفراز سمجھتی ہیں کہ ایسی صورتحال میں وہ لوگ جو کسی دوسری جماعت میں نہیں جا سکتے ان کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ اپنا ایک گروہ بنا لیں۔

’یہ تمام لوگ مل کر اپنا ایک الگ آزاد گروپ بھی بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ عمران خان کی پی ٹی آئی کے ووٹ کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے
عمران خان کی گرفتاری اور حالیہ واقعات کا کس کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
11 مئ 2023
جہانگیر ترین: ’پریشر گروپ نہیں بلکہ انتقامی کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش ہے‘
19 مئ 2021'تو کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والے جہانگیر ترین کی طرف جا سکتے ہیں؟
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کا خاص طور پر جنوبی پنجاب میں اثرورسوخ ضرور ہے تاہم ان کا زیادہ بڑا ووٹ بینک نہیں۔

’جہانگیر ترین ایک اچھے لیڈر نہیں بلکہ وہ ایک اچھے مینیجر ہیں۔ ان کے پاس ذرائع بھی ہیں اور وہ ان کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں لیکن وہ نمبر ون نہیں ہو سکتے، نمبر ٹو ہو سکتے ہیں۔‘

سلمان غنی کے خیال میں بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنی ایک الگ جماعت بنانے جا رہے ہیں لیکن ’ان کے لیے زیادہ موزوں یہ ہو گا جتنے زیادہ ممکن ہو اتنے الیکٹیبلز کا الائینس بنائیں۔ اس طرح کل کو جو بھی صورتحال بنتی ہے وہ کسی جماعت میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘

محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ تاحال جہانگیر ترین یا ان کے کسی قریبی ساتھی کی طرف سے براہِ راست اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ وہ علیحدہ جماعت بنانے جا رہے ہیں۔ ’ذرائع سے لیکن نئی جماعت کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔‘

محمل سمجھتی ہیں کہ اگر آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا مقصد عمران خان اور ان کی جماعت کو شکست دینا ہے تو زیادہ سیاسی جماعتوں کے بننے سے ان کے اپنے ووٹ بینک کا نقصان ہو گا۔

’وہ ایک دوسرے کے بھی ووٹ کاٹ رہے ہوں گے۔ اس لیے جہانگیر ترین یہ چاہیں گے کہ وہ اپنا الگ ایک گروپ بنائیں یا سیٹ ایڈجسمنٹ کریں جس کو لے کر وہ کل کو جیتنے والی جماعت کے ساتھ معاملات کر پائیں۔‘

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے خیال میں ایک صورتحال یہ نظر آ رہی ہے کہ ’مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی، ق لیگ اور ترین گروپ کو ملا کر حکومت بنانے کا راستہ نکالا جائے۔‘

تاہم سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو مکمل طور پر باہر کرنا بہت مشکل ہو گا۔ ’تاریخ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مائنس ون کرنے والا فارمولا کبھی بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ پی ٹی آئی میں آج بھی ووٹ صرف عمران خان کا ہے۔‘

تو کیا شاہ محمود قریشی کی قیادت میں پی ٹی آئی وہ ووٹ لے پائے گی؟
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سے ہونے والی ان کے جماعت کے سابق ممبران کی جیل میں حالیہ ملاقات سے بظاہر یہ پتا چلتا ہے کہ شاہ محمود قریشی تاحال مائنس ون کے کسی فارمولے پر ساتھ دینے کو تیار نہیں۔

’اور نہ ہی وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو چھوڑنے پر رضامند ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاہ محمود قریشی کا اپنا مفاد اسی میں ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو نہ چھوڑیں۔‘

سلمان غنی کہتے ہیں کہ شاہ محمود پرانے سیاستدان ہیں۔ ’انھیں اندازہ ہے کہ وہ اس وقت پی ٹی آئی کو چھوڑ کر اپنا سیاسی نقصان کریں گے۔ ان کے لیے پی ٹی آئی کے ووٹ کے بغیر جیتنا مشکل ہو گا۔‘

’حال ہی میں ان کی اپنی صاحبزادی ضمنی انتخاب ہار گئیں تھیں اس سے ان کو اپنی مقبولیت کا اندازہ بخوبی ہو گا۔ کسی دوسری جماعت میں جانا بھی ان کے لیے مشکل ہو گا۔‘

صحافی اور تجزیہ نگار محمل سرفراز بھی اس سے متفق ہیں کہ شاہ محمود قریشی کے لیے بہتر راستہ یہی ہو گا کہ وہ پی ٹی آئی ہی کے اندر رہیں اور اس کو نہ چھوڑیں۔

’عمران خان خود ان کو نامزد کر چکے ہیں اور اس کا ان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے اگر کل کو عمران خان نااہل بھی ہوتے ہیں۔‘

ان کے خیال میں اب دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا پاکستان میں عام انتخابات اپنے وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں۔ اتنخابات کے قریب تصویر زیادہ واضح ہو جائے گی۔

بہار: بھارتی ریاست بہار میں ایک ثقافتی شو کے دوران فائرنگ سے بھارتی گلوکارہ زخمی ہوگئیں جن کی حالت خطرے باہر بتائی جاتی ...
02/06/2023

بہار: بھارتی ریاست بہار میں ایک ثقافتی شو کے دوران فائرنگ سے بھارتی گلوکارہ زخمی ہوگئیں جن کی حالت خطرے باہر بتائی جاتی ہے۔

بھارتی میڈیا ذرائع کے مطابق شو میں موجود لوگوں کی طرف سے خوشی میں فائرنگ کی گئی جس سے بھوجپوری لوک گلوکار نیشا اپادھیے کو گولی لگ گئی۔

گلوکارہ کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کی ٹانگ میں گولی لگی اور حالت خطرے سے باہر ہے۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعے کی تحقیق جاری ہے اور جلد ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا۔

محققین کے ایک پینل کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے کئی دہائیوں کے دوران جمع کی جانے والی نامعلوم اڑنے والی اشیا کی تقریباً ...
01/06/2023

محققین کے ایک پینل کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے کئی دہائیوں کے دوران جمع کی جانے والی نامعلوم اڑنے والی اشیا کی تقریباً 800 پراسرار رپورٹس کا جائزہ لیا ہے۔

ناسا نے گذشتہ سال اس پینل کا قیام عمل میں لایا تھا جس کا مقصد نامعلوم غیر معمولی مظاہر (یو اے پی) کے حوالے سے اپنے کام کی وضاحت کرنا تھا۔

یو اے پی کی تعریف ایسے نظاروں کے طور پر کی جاتی ہے ’جنھیں سائنسی نقطہ نظر سے ہوائی جہاز یا معلوم قدرتی مظاہر کے طور پر شناخت نہیں کیا جا سکتا۔‘

پینل نے بدھ کے روز اپنا پہلا عوامی اجلاس منعقد کیا۔

اشتہار

بہت سے نظاروں کی وضاحت کی جا سکتی ہے لیکن کئی اب تک ایک معمہ
امریکی محکمہ دفاع کے آل ڈومین اینوملی ریزولوشن آفس (اے اے آر او) کے ڈائریکٹر شان کرک پیٹرک کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس ہر ماہ 50 سے 100 نئی رپورٹس آتی ہیں‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان مناظر کی تعداد جو ممکنہ طور پر غیر معمولی ہیں وہ کل ڈیٹا بیس کا 2 سے 5 فیصد ہیں۔

ایک موقع پر مغربی امریکہ کے اوپر سے بحریہ کے ایک طیارے کی جانب سے لی گئی ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں رات کے وقت آسمان پر نقطوں کا ایک سلسلہ گھومتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

فوجی طیارہ اس چیز کو روکنے میں ناکام رہا، جو ایک تجارتی طیارہ تھا اور بڑے ہوائی اڈے کی طرف جا رہا تھا۔

سنہ 2021 میں پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2004 سے اب تک فوجی پائلٹس نے 144 ایسے نظارے دیکھے، جن میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی سب کی وضاحت نہیں ہو سکی۔

حکام نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ یہ اشیا غیر زمینی ہیں۔رازداری ناسا کی تحقیقات کو محدود کرتی ہے
کرک پیٹرک نے یہ بھی پایا کہ رازداری سے متعلق خدشات ایجنسی کی تحقیقات کو محدود کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم جب چاہیں پوری دنیا میں سب سے بڑے جمع کرنے والے آلات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ ‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس جو کچھ ہے اس میں سے بہت کچھ براعظم امریکہ کے ارد گرد ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ جب ہم آپ کے گھر کے پچھلے حصے میں آلات کے پورے مجموعے کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے
پائلٹس کو اڑن طشتریاں دکھائی دیں یا ٹوٹا تارا؟
13 نومبر 2018
وہ طیارہ جو کبھی بھی زمین پر اڑایا نہیں جائے گا!
11 فروری 2022
خلائی مخلوق سے رابطہ ہو بھی گیا تو ہم ان سے کہیں گے کیا؟
6 نومبر 2022
مائیکرو ویو اور بصری وہم
یو اے پی سے متعلق اعداد و شمار کی تشریح کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے اور آسانی سے غلط ہو سکتا ہے۔

ناسا کی یو اے پی ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ سپرگل نے آسٹریلیا میں محققین کو ملنے والی ریڈیو لہروں کا ذکر کیا۔

’وہ واقعی عجیب ساخت رکھتے تھے۔ لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے غور کیا کہ دوپہر کے کھانے کے وقت یہ ایک ساتھ جمع ہونا شروع کر دیتے ہیں۔‘

یہ معلوم ہوا کہ محققین جو حساس آلات استمعال کرتے ہیں وہ مائیکرو ویو سے سگنل اٹھا رہے تھے جو ان کے دوپہر کے کھانے کو گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے سابق خلاباز اور پائلٹ سکاٹ کیلی نے ایک بصری وہم کے بارے میں ایک کہانی سنائی۔ وہ اور ان کے ساتھی پائلٹ ورجینیا بیچ کے قریب پرواز کر رہے تھے اور ان کے ساتھی کو ’یقین تھا کہ ہم ایک یو ایف او کے قریب سے گزرے ہیں۔ میں نے نہیں دیکھا، ہم پیچھے مڑ گئے، ہم اسے دیکھنے گئے، پتا چلا کہ یہ بارٹ سمپسن تھا، ایک غبارہ۔‘بدنامی اور ہراسانی تحقیق میں رکاوٹ
سپرگل کا کہنا تھا کہ کمرشل پائلٹس پرواز کرنے والی طشتریوں کے حوالے سے شرمندگی کی وجہ سے اس کے دکھائی دینے کی اطلاع دینے سے بہت ہچکچاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارا ایک مقصد احساس شرمندگی کو دور کرنا ہے کیونکہ یو اے پیز کے بارے میں اہم سوالات کو حل کرنے کے لیے اعلی معیار کے اعداد و شمار کی ضرورت ہے اور کچھ سائنسدانوں کو اس علاقے میں اپنے کام کی وجہ سے آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

ناسا کی سائنس کی سربراہ نکولا فاکس کا کہنا ہے کہ ’ہراسانی صرف یو اے پی کے شعبے کو مزید بدنام کرنے کا باعث بنتی ہے، جس سے سائنسی عمل میں نمایاں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور دوسروں کے اس اہم موضوع کا مطالعہ کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔‘

شفافیت کا نیا دور
بدھ کو ہونے والی اس میٹنگ کی ایک وجہ ناسا کا نقطہ نظر تبدیل کرنا بھی ہے۔ خلائی ایجنسی نے کئی دہائیوں تک یو ایف او دیکھنے کی تردید کی۔

اس کے اختتام پر پینل نے عوام کے سوالات کا جواب دیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ ناسا کیا چھپا رہا ہے؟

ناسا کے ڈین ایونز نے جواب دیا کہ ادارہ شفافیت کے لیے پرعزم ہے اور ’یہی وجہ ہے کہ ہم آج یہاں ٹی وی پر لائیو ہیں۔‘

قریب 20 سال سے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان ...
01/06/2023

قریب 20 سال سے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سے ملاقات ہوئی ہے۔

ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ’تین گھنٹے طویل ملاقات‘ کے بعد سینیٹر مشتاق نے اس حوالے سے چند تفصیلات جاری کی ہیں۔

مارچ 2003 میں پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 2010 میں امریکہ میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ امریکی محکمۂ انصاف نے انھیں ’القاعدہ کی رکن اور سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔

تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی پاکستان واپسی کی تحریک چلائی جا رہی ہے جس کی سربراہی ان کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔

تاحال امریکی حکام یا پاکستانی دفتر خارجہ نے اس ملاقات سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔شیشے کی دیوار دیکھ کر مسکراہٹ اداسی میں بدل گئی‘
ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن کی کل دو ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں سے پہلی ملاقات وہ تنہا تھیں جبکہ دوسری ملاقات میں ان کے ساتھ وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود ہیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بتایا ہے کہ پہلی ملاقات کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے تھا جس دوران عافیہ نے اپنی بہن کو بتایا تھا کہ انھیں اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں تھا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ملاقات کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کو عافیہ سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ملاقات جس جگہ ہوئی وہاں دونوں بہنوں کے درمیان جیل کے ایک کمرے کے درمیان میں موٹا شیشہ موجود تھا۔

تین گھنٹوں پر محیط دوسری ملاقات، جس میں سینیٹر مشتاق بھی شامل تھے، کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’سفید سکارف اور خاکی جیل ڈریس میں ملبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ملاقات کے دوران کہا کہ اُن کو اپنی والدہ اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں۔‘

مشتاق احمد خان نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کے سامنے والے دانت جیل میں ہونے والے حملے کی وجہ سے گر چکے ہیں جبکہ ان کو سر پر ایک چوٹ کی وجہ سے سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔

وکیل کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا ہے کہ عافیہ نے انھیں بتایا کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ آیا ان کا نوزائیدہ بیٹا سلیمان ’اس وقت ہلاک ہوا تھا جب انھیں اغوا کیا گیا۔‘

ان کے مطابق عافیہ اور فوزیہ نے اپنے بچپن کی نظم ’آئی ایم شرلی ٹیمپل دی گرل ود کرلی ہیئر‘ پڑھی۔

کلائیو سٹیفورڈ نے دعویٰ کیا کہ فوزیہ کو دیکھ کر ڈاکٹر عافیہ مسکرائیں مگر ’شیشے کی دیوار جو انھیں گلے ملنے سے روک رہی تھی اسے دیکھ کر یہ اداسی میں بدل گئی۔‘ملاقات اور گفتگو ریکارڈڈ تھی‘
سینیٹر مشتاق نے عافیہ صدیقی کے ساتھ ملاقات کے بعد دعویٰ کیا کہ جیل میں ہونے والی تین گھنٹے کی ملاقات اور گفتگو ’مکمل ریکارڈ ہو رہی تھی۔ عافیہ کی صحت کمزور، بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو، جیل اذیت سے دکھی اور خوفزدہ تھیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ عافیہ کے ’سامنے کے اوپر کے چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے، ان کے سر پر چوٹ کی وجہ سے سماعت میں مشکل پیش آرہی ہے۔ وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔‘

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جولائی 2022 میں جیل کے اندر ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ایک دوسرے قیدی نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انھیں چوٹیں آئی تھیں۔

اس حملے سے متعلق عدالتی دستاویزات کے مطابق عافیہ صدیقی کے وکلا نے کہا تھا کہ ایک قیدی نے ’گرم کافی کے ساتھ بھرا ہوئے مگ سے ان کے چہرے پر وار کیا تھا۔‘

اس کے مطابق اس حملے کے دوران ایک دوسری خاتون قیدی نے انھیں مکے اور لاتیں رسید کیں جس سے انھیں چوٹیں آئیں اور انھیں ویل چیئر پر جیل کے میڈیکل یونٹ لے جایا گیا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق حملہ سے ڈاکٹر عافیہ کی آنکھوں کے گرد نشان بن گئے اور ان کی بائیں آنکھ کے نیچے تین انچ کی چوٹ نشان بن گیا۔عافیہ صدیقی: امریکہ سے تعلیم یافتہ خاتون جن کا افغانستان پہنچنا آج تک معمہ ہے
امریکہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے قبل تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔

تاہم پاکستانی اور امریکی حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔

امریکہ نے جولائی 2007 میں ان کی افغانستان سے حراست کو ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔

ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے میں جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔

امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔

اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انھوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔

ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ اور اس کے بعد کشمکش میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ لائے جانے سے قبل انھیں افغانستان میں بگرام کی امریکی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

مشاہد حسین سید، جو 2008 میں ہونے والی اس ملاقات میں شامل تھے، نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ ان کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور ان کو بے ہوشی کے انجکشن لگائے گئے۔

مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مطابق جب ان کو ہوش آیا تو وہ بگرام جیل میں قید تھیں۔

عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا کیوں ہوئی؟ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملے کی ترتیب وار سزا 20 سال، امریکی عملداروں اور اہلکاروں پر حملے کی سزا 20 سال، امریکی حکومت اور فوج کے عملداروں اور اہلکاروں پر ہتھیار سے حملے کی سزا 20 سال، متشدد جرم کرنے کے دوران اسلحہ سے فائر کرنے کی سزا عمر قید، امریکی فوج اور حکومت کے ہر اہلکار اور عملدار پر حملے کی ہر ایک سزا آٹھ سال یعنی 24 سال بنتی ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کی جانب سے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کی شائع کردہ خفیہ دستاویزات (گوانتانامو فائلز) کے مطابق پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش اور القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔

یہ الزامات امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے اور القاعدہ کے کم از کم تین سینیئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے گئے، جن میں امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔

تاہم ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی اور اس بات کا امکان ہے کہ ملزمان سے یہ بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔

خالد شیخ محمد کو جنھیں انٹیلیجنس حلقوں میں ’کے ایس ایم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کو دوران حراست 183 مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد کے بھتیجے کی اہلیہ ہیں۔برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق گوانتانامو کی فائلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ دو ہزار دو اور تین کے دوران کراچی میں القاعدہ کے سیل میں شامل تھیں اور اس سیل کے ارکان نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی کامیابی کے بعد امریکہ، لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور پاکستان میں مزید حملوں کے منصوبے بنائے۔

دستاویزات کے مطابق اس سیل کے ارکان نے ٹیکسٹائل اشیا برآمد کرنے کی آڑ میں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خالد شیخ محمد کے بیان کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد سے امریکہ میں اہم معاشی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ آپریشن امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کے ذریعے انجام دیا جانا تھا جو ایک پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ چلاتے تھے۔

گوانتانامو کے حراستی مرکز میں سیف اللہ پراچہ کی فائل کے مطابق اس منصوبے میں ان کی ذمہ داری کرائے کے گھر حاصل کرنا اور انتظامی تعاون فراہم کرنا تھی۔

واضح رہے کہ سیف اللہ پراچہ کو حال ہی میں 20 سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ پر الزام تھا کہ اسی آپریشن کے سلسلے میں ماجد خان نامی شخص کی امریکی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے وہ 2003 میں امریکہ گئیں۔ ماجد خان کو امریکہ میں پیٹرول پمپز اور پانی صاف کرنے والی تنصیبات پر بموں سے حملے کرنے تھے۔

ماجد خان کو بھی رواں سال امریکہ نے رہا کر دیا ہے۔

تاہم خفیہ دستاویزات کے مطابق ماجد خان نے دوران حراست بیان دیا کہ انھوں نے اپنے امریکہ سفر کو ممکن بنانے کے لیے ڈاکٹر عافیہ کو رقم، تصاویر اور امریکہ میں پناہ کی درخواست کے لیے فارم بھر کر دیا۔

ڈاکٹر عافیہ نے امریکہ جانے کے بعد وہاں ماجد خان کے نام سے ایک پوسٹ آفس بکس کھولا جس کے لیے انھوں نے اپنے ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس استعمال کیا۔

تاہم یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور ماجد خان کو پاکستان میں گرفتار کرنے کے بعد گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ اُتر پردیش سے کئی بار منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ م...
01/06/2023

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ اُتر پردیش سے کئی بار منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ مشرقی اتر پردیش کے ایک بااثر سیاستدان اور ریاست میں بی جے پی کے ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ وہ انڈیا کی ریسلنگ فیڈریشن کے صدر بھی ہیں۔

اولمپیئن ریسلر خواتین نے برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا اور کئی دن سے وہ سراپا احتجاج ہیں۔

بدھ کو برج بھوشن شرن سنگھ نے لکھنؤ کے نزدیک ایک عوامی جلسے میں الزام لگانے والی ریسلر خواتین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھ پر الزام لگانے والو۔۔۔ گنگا میں تمغے بہانے سے مجھے پھانسی نہیں ہو گی۔ اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو جا کر پولیس کو دو۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر میرے اوپر ایک بھی الزام ثابت ہوا تو میں خود ہی پھانسی پر چڑھ جاؤں گا۔ میں آج بھی اس عہد پر قائم ہوں۔‘

حکومت نواز سمجھی جانے والی ایک خبر رساں ایجنسی نے دلی پولیس کے ذرائع سے یہ خبر دی ہے کہ پولیس کو اپنی تفتیش میں برج بھوشن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور وہ اس کیس کو بند کر سکتی ہے‘ تاہم پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کر کے اس خبر کی پوری طرح تردید کی اور کہا کہ تفتیش ابھی بھی جاری ہے۔

دلی میں پارلیمنٹ سے کچھ دوری پر جنتر منتر پر پہلوان لڑکیاں برج بھوشن کو گرفتار نہ کیے جانے کے خلاف احتجاج میں ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے دھرنے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان میں ساکشی ملک، ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا جیسے بڑے کھلاڑی شامل تھیں۔

انھیں اس وقت وہاں سے پولیس نے زبردستی ہٹا دیا جب وہ 28 مئی کو نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کے روز پارلیمنٹ تک مارچ کرنے والی تھیں۔ پولیس نے حکم دیا ہے کہ وہ اب جنتر منتر پر دھرنے نہیں دے سکتیں۔

ان خواتین کھلاڑیوں نے احتجاج میں اپنے بین الاقوامی تمغے دریائے گنگا میں بہانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایک سرکردہ کسان رہنما نریش ٹکیت نے انھیں سمجھا بجھا کر ایسے کرنے سے آخری وقت میں روک دیا۔

انھوں نے احتجاجی کھلاڑیون کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح جنتر منتر میں ہماری بیٹیوں کے ساتھ برتاؤ کیا گیا، اسے پورا ملک برداشت نہیں کرے گا۔ جس طرح انھیں وہاں سے جبراً اٹھایا گیا، اس پر پورا ملک برہم ہے۔‘

واضح رہے کہ یہ خواتین کھلاڑی اس وقت دھرنے پر بیٹھنے کے لیے مجبور ہوئی تھیں جب پولیس کو جنسی ہراسانی کی شکایت درج کرانے کے باوجود برج بھوشن کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کی گئی تھی۔ پھر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پولیس نے کیس درج کیا اور اپنی تفتیش شروع کی۔

کھلاڑیوں کا مطالبہ ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے میں جس طرح دوسرے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اسی طرح برج بھوشن کو بھی گرفتار کیا جائے ۔اس معاملے نے صرف کھلاڑیوں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی تذلیل کی‘
کئی کھلاڑیوں نےاںڈین ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن پر جنسی ہراسانی کے جو الزامات لگائے ہیں وہ سنگین نوعیت کے ہیں۔ ان میں میبینہ طور پر ایک کھلاڑی نابالغ بتائی جاتی ہے لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ محض الزامات لگانے سے اور تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین پہلوانوں کے دھرنے کے بعد حکومت اور سرکاری سرپرستی کے خواتین کے کمیشن تک نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ دوسری جانب ممتا بینرجی، اروند کیجریوال، پریانکا گاندھی اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں نے نہ صرف ان لڑکیوں کی حمایت کی بلکہ ان میں سے کئی رہنماؤں نے جنتر منتر پر جا کر دھرنے کے دوران ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

حکمراں جماعت کے بعض رہنماؤں نے جنسی ہراسانی کے الزامات کو ’سیاسی‘ قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کھلاڑی لڑکیوں کے خلاف بیانات پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔ نابالغ کھلاڑی کے بعض رشتے دار بھی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر یہ بتا رہے ہیں کہ وہ بالغ ہے۔

دوسری جانب کئی لوگ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برج بھوشن شرن سنگھ میں ایسی کیا خاص بات ہے حکومت انھیں بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مارکسی کمیونسٹ پارٹی کی رہنما برندا کرات نے کہا کہ ’ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کی کوئی مدت طے نہیں ہے تو پھر یہ لڑکیاں کہاں جائیں گی۔ یہ لڑکیوں کے تحفظ کے ضمن میں بہت غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ یہ بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔‘

بہت سے کھلاڑیوں نے بھی اولمپک میڈل جیتنے والی پہلوان لڑکیوں کے ساتھ پولیس کے برتاؤ پر تکلیف کا اظہار کیا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق سٹار گیند باز انل کمبلے نے کہا ہے کہ ’28 مئی کو ہمارے پہلوانوں کے ساتھ پولیس کا جبر دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کسی بھی مسئلے کا حل بات چیت سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہم جلد سے جلد اس مسئلے کے حل کی امید کرتے ہیں۔‘لیکن یہ معاملہ طول پکڑ رہا ہے اور پہلوان لڑکیوں نے حکومت کو پانچ دن کی مہلت دی ہے۔

ملک کی معروف دانشور مرنال پانڈے نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اس معاملے نے صرف کھلاڑیوں کی نہیں بلکہ تمام خواتین کی تذلیل کی لیکن اب یہاں سے کوئی واپسی نہیں۔ یہ سلسلہ اب دیر تک چلنے والا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ غیر معمولی مضبوط اور باکمال پہلوان لڑکیاں جلد ہی ذلت کی راکھ سے اوپر اٹھیں گی اور آگے بڑھیں گی۔‘

اس دوران انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہفتے کے روز کھلاڑیوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا گیا، وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ کمیٹی کو امید ہے کہ جنسی ہراسانی کے معاملے کی غیر جانبدرانہ تفتیش کی جائے گی۔‘

اس معاملے پر عالمی ریسلنگ فیڈریشن نے بھی انڈین ریسلنگ فیڈریشن کی رکنیت معطل کرنے کی دھمکی دی ہے۔

’کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں واپس آئیں گی‘سیںیئر تجزیہ کار نیرو بھاٹیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے اس معاملے کو سنبھالنے میں غلطی کی ہے۔

’حکومت کو سمجھنا چاہيے کہ ان لڑکیوں نے ایسے ہی الزام نہیں لگا دیا۔ یہ اپنے لیے نہیں لڑ رہی ہیں، یہ اپنا درخشاں کریئر داؤ پر لگا کر دوسری کھلاڑی لڑکیوں کے لیے لڑ رہی ہیں۔ اس میں حکومت سے یقیناً غلطی ہوئی ہے۔‘

بعض ٹوئٹر صارفین نے اس صورتحال کا موازنہ منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں نربھیا ریپ کے واقعہ سے کیا، جس میں حکومت کی سست روی کے سبب اس کی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

نیرو بھاٹیہ کہتی ہیں کہ حکومت نے سوچا تھا کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے اور وہیں پر ختم ہو جائیگا یا یہ بھی کسانوں کی تحریک کی طرح دم توڑ دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

’لڑکیوں نے برج بھوشن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکوت کو پانچ دن کی مہلت دی ہے۔ حکومت شاید اس وقت میں کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے لیکن اگر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو یہ لڑکیاں پھر واپس آئیں گی۔‘

نیرو کہتی ہیں کہ ’اس واقعے سے حکومت کی ساکھ انڈیا کے لوگوں میں ہی نہیں پوری دنیا میں خراب ہو رہی ہے۔ کسی اور ملک میں اگر کوئی ایتھلیٹ جنسی ہراسانی کا الزام لگاتی ہے تو حکومت اسے سنجیدگی سے لیتی ہے اور بروقت کارروائی کرتی ہے لیکن یہاں تو کوئی ردعمل ہی نہیں ہوا۔‘

اپریل اور مئی کے مہینے میں اتنی گرمی نہیں پڑی جتنی ان مہینوں کے دوران عموماً پاکستان میں ہوتی ہے اور جو آم کی فصل کے لیے...
01/06/2023

اپریل اور مئی کے مہینے میں اتنی گرمی نہیں پڑی جتنی ان مہینوں کے دوران عموماً پاکستان میں ہوتی ہے اور جو آم کی فصل کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ گرمی نہ پڑنے کا مسئلہ تو الگ ہے، مئی کے آخری دنوں میں آنے والی بےموسمی بارش اور ژالہ باری نے صرف میری ہی نہیں بلکہ علاقے میں تقریباً سب ہی لوگوں فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔‘

پاکستان میں جاری بارشیں اور ژالہ باری شہری علاقوں میں رہنے والوں کو تو بھلے اچھی لگ رہی ہوں مگر ضلع مظفر گڑھ کے علاقے کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والے آم کے کاشتکار ملک اشتیاق اس صورتحال پر بہت پریشان ہیں۔

اشتیاق بتاتے ہیں کہ ’اس دفعہ چوتھے اور پانچویں مہینے (اپریل، مئی) میں جو ہوا وہ نہ تو میں نے کبھی پہلے دیکھا اور نہ ہی ایسا کچھ بزرگوں سے سُنا۔ بے وقت کی بارشوں، ژالہ باری اور آندھی نے صرف آم ہی نہیں بلکہ موسم گرما کے تمام پھلوں اور فصلوں کو نقصاں پہنچایا ہے۔‘

صرف اشتیاق ہی پریشان نہیں ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے کپاس کے کاشتکار اعظم نصیب کہتے ہیں کہ اپریل اور مئی میں گرمی کم رہی اور بارشیں زیادہ ہوئیں۔ ’کپاس کی فصل کے آغاز پر اگر گرمی کم ہوتو اس کے لیے اچھا ہوتا ہے مگر بارش ہونے کے بعد اگر پانی کھڑا ہوجائے تو تباہی ہوتی ہے۔ ‘

اشتہار

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اپریل اور مئی میں کم گرمی پڑی، جس کے نتیجے میں لگا کہ شاید فصل شاندار ہو گئی مگر اب بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ان کے مطابق کھیتوں میں پانی کھڑا ہے اور یہ کھڑا پانی فصل کو تباہ کر رہا ہے۔‘

پاکستان میں ژالہ باری کا عمومی مہینہ تو مارچ ہے تاہم گذشتہ ہفتے کے دوران سوشل میڈیا پر چند علاقوں سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کو ملیں جن میں اہلِ علاقہ کے مطابق آدھا کلو وزنی اولے پڑے جس نے گاڑیوں اور جانوروں کو نقصان پہنچا۔

یہ ژالہ باری صرف پہاڑی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ سندھ کے حیدر آباد، جامشورو اور کوٹری میں جیسے شہروں سے بھی شدید ژالہ باری ہوئی۔

بلوچستان کے ضلع خضدار میں پڑنے والے اولے بھی ٹینس بال جتنے بڑے تھے اور اطلاعات کے مطابق خیبربختونخوا کے ضلع صوابی میں تمباکو کی فصل ژالہ باری سے شدید متاثر ہوئی ہے۔

’اپریل اور مئی غیر معمولی رہےمحکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر ظہیر بابر کے مطابق پاکستان میں اس سال بھی غیر معمولی موسمی صورتحال کا سلسلہ جاری ہے۔ اپریل اور مئی میں اس سال اوسط سے نہ صرف کم گرمی پڑی ہے بلکہ بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر ظہیر بابر کے مطابق رواں برس اپریل میں اوسط سے 12 فیصد بارشیں زائد ہوئی ہیں۔ مئی میں بھی یہی صورتحال رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مئی اور جون گرم مہینے ہوتے ہیں۔ مگر مئی میں اوسط گرمی کم رہی ہے، جس کی وجہ مغربی ہوائیں ہیں۔

ڈاکٹر ظہیر بابر کہتے ہیں کہ گذشتہ سال ہم نے دیکھا کہ مارچ کے ماہ میں درجہ حرارت اوسط سے زیادہ تھا مگر اس سال ابھی تک درجہ حرارت اس طرح نہیں بڑھا ہے جس طرح اپریل، مئی میں ہوتا ہے اور فی الحال درجہ حرارت اوسط سے کم ہے۔

سنہ 1987 کے بعد اوسط سے زیادہ بارشیںمحکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ مغربی ہوائیں عموماً موسم سرما میں آتی ہیں جن کی وجہ سے برف باری کے علاوہ گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہوتی ہیں۔ عمومی طور پر ان ہواؤں کا آغاز اکتوبر کے آخر میں شروع ہو جاتا ہے اور فروری میں یہ دباؤ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال مارچ ہی میں مغربی ہواؤں کا دباؤ کم ہو گیا تھا، جس وجہ سے گرمی کی شدید لہر پیدا ہوئی تھی مگر اس سال ہم دیکھ رہے ہیں کہ مئی کے آخر تک ان ہواؤں کا دباؤ جاری ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں مئی کے آخری دن بھی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مختلف علاقوں بالخصوس شمالی علاقہ جات میں یہ سلسلہ جون کے پہلے دو، تین دن تک جاری رہے گا۔‘

ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں مئی میں کم از کم بارشوں کے تین سلسلے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ’ہمارے اندازوں کے مطابق سنہ 1987 کے بعد مئی کے ماہ میں ریکارڈ کی جانی والی بارش اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔ یہ مغربی ہواؤں کے دباؤ ہی کا نتیجہ ہے۔ مغربی ہواؤں ہی کی وجہ سے ہم نے دیکھا کہ شمالی علاقہ جات میں اپریل اور مئی میں برفباری بھی ریکارڈ ہوئی ہے۔‘

’سرجنگ گلیشیئر‘: گلگت بلتستان کی وہ خوبصورتی جو اب یہاں کے رہائشیوں کو ’خوفزدہ‘ کر رہی ہے
6 مار چ 2023
سوات کی خوبصورتی کا سیلاب کی تباہی سے کیا تعلق ہے؟
7 مار چ 2023
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات سفارتکاری کا محور کیوں نہ بن سکے؟
12 ستمبر 2022
ان کا کہنا تھا کہ عموماً ژالہ باری زیادہ تر مارچ کے ماہ ہی میں دیکھنے میں آتی ہے۔ مگر اس سال غیر معمولی حالات کی وجہ سے مئی میں پاکستان کے چند علاقوں میں شدید ژالہ باری ہوئی ہے جو کہ اس سے قبل کم ہی دیکھی گئی ہے۔ اس کا سبب بھی غیر متوقع طور پر مغربی ہوائیں تھیں۔

ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ گذشتہ سالوں سے ہم ہر سال مختلف موسمی حالات دیکھ رہے ہیں۔ ’گزشتہ تین سالوں میں ہم نے دیکھا کہ مون سون کی بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئی ہیں۔ مگر اس سال ابھی تک جو عالمی موسمی حالات ہیں ان کے مطابق لگ رہا ہے کہ مون سون کی بارشیں پاکستان میں اوسط سے کم ہوں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم توقع کررہے ہیں جون کے پہلے چند دونوں کے علاوہ باقی موسمی حالات درجہ حرارت اوسط ہی رہے گا۔ اوسط سے زیادہ گرمی کی توقع کسی بھی مقام پر نہیں ہے۔ موسمی تبدیلی کے سبب سے بڑا نقصان زراعت کو ہو رہا ہے۔‘آم کی فصل تاخیر کا شکار ہے
ملتان میں زراعت سے منسلک شریف جوئیہ کہتے ہیں کہ ’اس موسم میں شمالی پنجاب میں درجہ حرارت 45 اور 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی رہتا ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جس میں آم کُھل کر پکتا ہے اور گرمی کی شدت کی وجہ سے اس میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔‘

شریف جوئیہ کہتے ہیں کہ ’پہلے کبھی کبھی ژالہ باری ہوتی تھی، جو کسی بھی فصل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے مگر اب تو ہر سال ہی ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ژالہ باری کھڑی اور تیار فصلوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ پھلوں کے دانوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ صورتحال کسان کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے۔‘

شریف جوئیہ نے کہا کہ ’اب کسانوں کی موسم سرما کے پھلوں اور فصلوں کے لیے تمام امیدیں ماہ جون پر ہیں۔ اگر ماہ جون میں معمول اور اوسط کا موسم رہا تو توقع ہے کہ آم سمیت سارے پھل اور فصلیں ابتدائی نقصان کے بعد کچھ بہتر ہوں گی اور اگر موسم کی اپریل اور مئی والی ہی صورتحال رہی تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔‘

Address

Hasilpur

Telephone

+923057808553

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 𝔸𝕝𝕨𝕒𝕙𝕒𝕓 𝕨𝕠𝕠𝕕 𝕨𝕠𝕣𝕜𝕤 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to 𝔸𝕝𝕨𝕒𝕙𝕒𝕓 𝕨𝕠𝕠𝕕 𝕨𝕠𝕣𝕜𝕤:

Share