28/02/2025
غور طلب!!!
پنجابی زبان کے کس لہجے کو مرکزی زبان قرار دیں ؟
ماجھی لہجہ پنجابی زبان کا مرکزی اور معیاری لہجہ ہے ۔جوخصوصاًمشرقی پنجاب اور عموماً مغربی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں بولی جاتی ہے اور یہی زبان پنجابی زبان کے اصل معیار پر پورا اترتی ہے ۔باقی تمام لہجے اسی زبان کے ضمنی اور ذیلی لہجے ہیں۔
1۔ مالوی پنجابی لہجہ
2۔ دوآبی پنجابی لہجہ
3۔ ڈوگری پنجابی لہجہ
4۔ پہاڑی پنجابی لہجہ
5۔ پوٹھو ہاری پنجابی لہجہ
6۔ ہندکو پنجابی لہجہ
7۔ شاہپوری پنجابی لہجہ
اور جھنگوچی لہجہ
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ پنجابی زبان کے ضمنی لہجوں کے علاوہ مزید 31 ذیلی لہجے پوادھی ، بانوالی، بھٹیانی ,باگڑی ,لبانکی،کانگڑی ،چمبیالی ،پونچھی ،گوجری ،آوانکاری ،گھیبی ،چھاچھی ،سوائیں ،پشوری یاپشاوری ،جاندلی یاروہی ،دھنی ،چکوالی ،بھیروچی ،تھلوچی یاتھلی ،ڈیرہ والی ،بار دی بولی ،وزیرآبادی ،رچنوی ،جٹکی ،چناوری ،کاچی یاکاچھڑی ،ملتانی ، جافری یاکھیترانی ،ریاستی یا بہاولپوری اور راٹھی بھی رائج ہیں ۔
ماجھی لہجہ انڈیا کے امرتسر’ گرداسپور’ پٹھانکوٹ ’ ترن تارن صاحب اور پاکستانی پنجاب کے 16 اضلاع؛ لاہور، قصور، اوکاڑہ، پاکپتن ، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، چنیوٹ ،حافظ آباد ، منڈی بہاؤ الدین ، گجرات ، سیالکوٹ ، نارو وال ، گجرانوالہ ، شیخوپورہ ، ننکانہ صاحب ہے۔(پاکستانی پنجاب کے 16 اضلاع میں سے کچھ پر میرے تحفظات ہیں)
ہم پنجابی ہیں اور ہمیں اپنے پنجابی ہونے اوراپنی مادری زبان پر فخر ہے لیکن کچھ احباب زبان کے معاملے میں انتہائی تعصب کا شکار ہیں۔ خصوصاً چنیوٹ کے پنجابی زبان کےدعوے دار کچھ افراد (جو خود کو شاعر اور ادیب سمجھتے ہیں)سے میرا سوال ہے کہ آپ پنجابی زبان کے کس لہجے کو رائج کروانا چاہتے ہیں پہلے یہ تو طے کر لیں ۔ دوم یہ کہ جس زبان میں آپ شاعری کرتے (دوھڑے) لکھتے ہیں وہ تو ماجھی لہجے کی ضمنی زبانوں میں سے سب آخر پر ہے اور سب سے چھوٹے علاقے کو متاثر کرتی ہے ۔جھنگوچی لہجہ بھی اپنی مثال آپ ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر تین کلومیٹر پر بدل جاتا ہے ۔ جبکہ یہ بات قطعا ً غلط ہے ۔ جھنگوچی لہجے کی خوبی سمجھیں یا خامی یہ ہر تین کلومیٹر پر نہیں بدلتا بلکہ ہر دوسرے یا تیسرے گھر میں پہنچتے پہنچتےبدل جاتا ہے ۔
پنجابی زبان کو رائج کرنے کی تحریک کے پراثر نہ ہونے کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے صرف اپنے شہر چنیوٹ کی مثال پیش خدمت ہےاس سے آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ آپ کی آواز طاقت ور کیوں نہیں ہے۔
کسی بھی تحریک کے لیے اتحاد اور نظم وضبط کے ساتھ ساتھ ایک زبان کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ آپ ایک دوسرے کی بات کو باہم سمجھ اور سمجھا سکیں ۔سب سے پہلے آپ ماجھی زبان ( جو مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور سب لہجوں کی ماں ہے ) کو تسلیم کریں اور ماجھی زبان کو سیکھیں اور اس میں لکھیں ۔یاد رہے جھنگوچی لکھ کراگر اردو شاعر ہونے کا دعویٰ غلط ہے تو جھنگوچی زبان میں دوھڑے لکھ کرپنجابی شاعر ہونے کا دعویٰ اور پنجابی زبان کی نمائندگی کا دعویٰ بھی غلط ہے ۔
چنیوٹ کے پنجابی زبان میں لکھنے والے احباب میں سے اگر کسی کو اس پیمانے پر پرکھا جائے تو آپ کے ہم عصر شعرا میں صرف مزمل حسین ناطق کسی حد تک اس زبان کو برتتے نظر آتے ہیں ۔
صرف سازش رچانے،چیخنے چلانے ، شور مچانے یا جعلی وفود بنانےسے کسی کا قد نہیں بڑھتابلکہ تسلیم کروانے کے لیے پہلے خود کو مٹانا پڑتا ہے ۔ زندگی تج دینا پڑتی ہے پھر بھی ضروری نہیں کہ آپ کو مطلوبہ نتائج مل جائیں ۔
دست بستہ عرض ہے کہ پہلے زبان سیکھیں ، پھر اس میں لکھیں اور لکھتے جائیں ۔ اگر آپ کی تخلیق میں جان ہو گی تو اپنے آپ کو منوانے کے لیے جلسے جلوس اور سازشوں کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر اپنے آپ کو منوانے کے لیے دھڑے بندی کرنا پڑے یا سازش رچانی پڑے تو یقین رکھیں آپ غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ایسے لوگ جن کے پاس نہ تو زبان ہے اور نہ ہی کلام۔ دو تین دوھڑے مستعار لے کر ہر جگہ اور ہر مشاعرے میں سنانے سے کیا ادیب اور شہر کے پڑھے لکھے اور اہلِ علم طبقہ کو یہ کہنے سے کہ ، ’’ اسیں شاعر ہوندے آں‘ آپ کو شاعر تسلیم کر لیا جائے گا؟شاعر ادیب کے لیے ادب آداب ، رکھ رکھائو ، گفتگو میں سلجھائو کے ساتھ ساتھ خوددار ہونا ضروری ہے۔جب آپ خود کو یا اپنی تخلیقات کو نہیں منوا سکتے تو آپ کیسے اپنی زبان کو رائج کرنے کے لیے چلائی گئی تحریک کو کامیاب کروا سکتے ہیں ۔
چنیوٹ میں کام کرنےوالی پنجابی تنظیمیں سارا سال ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتی ہیں ۔ تعصب کی انتہا ہے کہ یہ تنظیمیں جب بھی مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں تو اردو لکھنے والوں کو تو یکسر نظرانداز کرتی ہی ہیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کی بھی روادار نہیں ۔کیا اردو لکھنے والے پنجابی نہیں لکھتے ؟ جبکہ اردو مشاعروں کا اہتمام کرنے والی تمام تنظیمات پنجابی شعرا کو نہ صرف تقریبات میں بلاتی ہیں بلکہ(معذرت کے ساتھ) انہیں غیر ضروری پروٹوکول بھی دیتی ہیں۔
سوم یہ کہ پنجابی زبان کو رائج کرنے کی تحریک چلانے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ انہیں یکسوئی کے ساتھ اپنے ہدف پر کام کرنا چاہیے ۔ بدقسمتی سے وہ پنجابی زبان کے حق میں نعرے بازی کرنے کی بجائے اردو زبان اور اردو لکھنے والوں کے خلاف زہر اگلتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی آدھی طاقت تو یہیں گنوا بیٹھتے ہیں ۔
21 فروری کو ماں بولی دیہاڑا پر ایک احتجاجی پوسٹ نظر سے گزری جس میں چنیوٹ اور گردونواح کی تقریباً چودہ پندرہ تنظیموں کے نام لکھے تھے ۔ جبکہ ان کی ریلی میں محض نو افراد موجود تھے ۔جبکہ یہ لوگ مشاعروں میں حصہ 90 فیصد مانگتے ہیں۔ محض چنیوٹ میں کام کرنے والی پنجابی تنظیمیں ہی اگر اخلاص کے ساتھ اکٹھی ہوں تو ان کے ممبران اور عہدیداران کی تعداد لگ بھگ 300 کے قریب ہے ۔ احتجاجی بینر اٹھانے والوں کے لیے شرمندگی کا مقام ہے کہ کم ازکم ان تنظیمات کے ممبران نہیں تو عہدے داران کو تو اپنے ساتھ کھڑا کر لیتے۔
آخر میں عرض ہے کہ پنجابی زبان کے دو رسم الخط ہیں۔ شاہ مکھی پنجابی رسم الخط اور گور مکھی پنجابی رسم الخط ۔
शाहमुखी पंजाबी लिपि और गौर मुखी पंजाबी लिपि
بالفرض آپ کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو آپ دفتری زبان کے لیے کون سا رسم الخط پسند کریں گے۔
آپ سے دست بستہ عرض ہے کہ دھڑے بندی اور سازشوں کو خیرباد کہیں ،زبان سیکھیں یقین کیجیے آپ کو کسی کندھے کی ضرورت نہیں رہے گی۔محض لنگی کرتا پہن کر اور پگڑی باندھ کر حقہ پینے سے کوئی آپ کو شاعر یا ادیب تسلیم نہیں کرے گا۔